مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ بطلِ اسلام، مجاہد قائد، شہیدِ امت، صاحبِ سیف و قلم شیخ یحییٰ ابراہیم السنوار رحمۃ اللہ علیہ کےایمان اور جذبۂ جہاد و استشہاد کو جلا بخشتے، آنکھیں اشک بار کر دینے والے خوب صورت ناول اور خودنوشت و سرگزشت ’الشوک والقرنفل‘ کا اردو ترجمہ، قسط وار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ یہ ناول شیخ نے دورانِ اسیری اسرائیل کی بئر سبع جیل میں تالیف کیا۔ بقول شیخ شہید اس ناول میں تخیل صرف اتنا ہے کہ اسے ناول کی شکل دی گئی ہے جو مخصوص کرداروں کے گرد گھومتا ہے تاکہ ناول کے تقاضے اور شرائط پوری ہو سکیں، اس کے علاوہ ہر چیز حقیقی ہے۔ ’کانٹے اور پھول‘ کے نام سے یہ ترجمہ انٹرنیٹ پر شائع ہو چکا ہے، معمولی تبدیلیوں کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔ (ادارہ)
چوتھی فصل
پوری رات یا تو میں اسکول کے لیے تیار ہو رہا تھا یا اس کے بارے میں بات کر رہا تھا اور اپنے بھائیوں سے کچھ باتیں پوچھ رہا تھا، یا خواب دیکھ رہا تھا، کیونکہ کل میرا اسکول میں پہلا دن تھا، سونے سے پہلے میں نملیہ کی طرف گیا، جو کہ ہمارے کمرے میں ایک چھوٹی سی الماری تھیاور کپڑے نکال کر پہننے لگا اور اپنے نئے جوتے پہن لیے، جب میری ماں نے مجھے دیکھا تو چلائیں، کیا کر رہے ہو احمد؟ میں نے آہستہ سے جواب دیا، ’اسکول کے لیے تیار ہو رہا ہوں‘، وہ ہنسنے لگیں اور بولیں، ابھی صبح ہونے میں کافی وقت باقی ہے۔
صبح سویرے میں اپنے دادا کی دعاؤں اور نماز کی آواز پر جاگ گیا اور اس کے بعد سو نہ سکا، جیسے ہی میری ماں نیند سے جاگیں، میں فوراً اپنے بستر سے اٹھ کر اسکول کے لیے تیار ہونے لگا، کچھ دیر بعد ماں نے میرے بھائیوں کو جگایا اور میرے بھائی محمود کو بھیجا کہ وہ دوسرے کمرے میں میرے چچا زاد بھائیوں کو جگا دے، جو دادا کے ساتھ سوتے تھے، میری ماں نے مجھے بہترین طریقے سے تیار کیا، جیسے کہ میں اپنی شادی میں جا رہا ہوں، اور مجھے بہت سی نصیحتیں کیں، اور میری تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں ’سمارٹ‘ اور بڑا ہو گیا ہوں، پھر انہوں نے ہم میں سے ہر ایک کو شلنا دیا، جو اسرائیلی لیرہ1 کے پانچ اغورات2 کو کہا جاتا ہے، اور ہم سب کے خالی بیگ میں ایک روٹی کا ٹکڑا رکھ دیا۔
میری ماں نے میرے بھائی محمود کو میرا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی، کیونکہ محمد تیسرے گریڈ میں تھا اور وہ تیسری جماعت میں تھا اور میرے ساتھ ہی اسی اسکول میں، ذکور اللاجئين الابتدائية (ا) میں تھا، میری بہن مہا اس وقت پانچویں جماعت، إناث اللاجئين الابتدائية (ب) میں تھی، اور میرا بھائی حسن پہلی جماعت، ذکور اللاجئين الإعدادية (أ) میں تھا، میری بہن فاطمہ تیسری جماعت، إناث اللاجئين الإعدادية (ا) میں تھی، میرا بھائی محمود دوسری جماعت میں ’مدرسة الكرمل‘ میں تھا، میرا چچا زاد ابراہیم دوسری جماعت میں میرے ہی اسکول میں تھا، اور میرا چچا زاد حسن پہلی جماعت میں ’مدرسة الكرمل‘ میں تھا، ہم سب ایک ساتھ گھر سے نکلے، میرا بھائی محمد میرا ایک ہاتھ پکڑے ہوئے تھا اور میرا چچا زاد ابراہیم میرے دوسرے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھا۔ میں نے اپنے کپڑے کا بیگ اپنے گلے میں لٹکا لیا اور ہم اپنے اسکولوں کی طرف روانہ ہو گئے، کچھ فاصلے کے بعد ہم مختلف گروپوں میں الگ ہو گئے اور ہم تینوں ساتھ رہ گئے۔
گلیاں لڑکوں اور لڑکیوں سے بھری ہوئی تھیں، ہماری طرح ہر جماعت اپنے راستے سے اسکول کی طرف جا رہے تھی، لڑکے مختلف رنگوں اور شکلوں کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، جبکہ لڑکیاں ایک یکساں لباس پہنے ہوئے تھیں جسے ’مربول‘ کہتے ہیں، یہ سفید اور نیلے رنگ کی دھاریوں والا کپڑا تھا، ہر رنگ کی دھاری آدھے سینٹی میٹر کی تھی، اور انہوں نے اپنے بالوں کو سفید ربن سے باندھ رکھا تھا، ہم لڑکوں کی پہچان ہمارے بالوں سے ہوتی تھی جو بالکل چھوٹے یا تقریباً صفر نمبر کے کٹے ہوتے تھے، ہم اسکول پہنچے جہاں مردوں اور عورتوں کے کچھ خوانچہ فروش تھے، کچھ اپنی چیزیں چھوٹی گاڑیوں پر لے کر آئے تھے اور کچھ نے انہیں چھوٹے چھوٹے سٹالوں پر سجا رکھا تھا، ہم اسکول کے اندر داخل ہوئے تو ایک بہت بڑا میدان تھا، جس میں اونچے درخت تھے، اور میدان کے ارد گرد کئی کمرے تھے، داخلے پر ایک چھوٹا سا باغ تھا جس میں پھول اور پودے تھے اور ایک تالاب (پانی کا حوض) بھی تھا، میرے بھائی محمد نے مجھے اسکول کے بارے میں بتایا، یہ پہلی کلاس (اے) ہے، یہ پہلی کلاس (بی) ہے، اور یہ پہلی کلاس (سی) ہے، یہ دوسری کلاسیں ہیں، یہ تیسری کلاسیں ہیں، یہ اساتذہ کا کمرہ ہے، یہ ناظم (پرنسپل) کا کمرہ ہے، یہ کینٹین ہے، یہ بیت الخلاء ہیں، اور یہ پانی پینے کے نل ہیں۔
جب صبح کی گھنٹی بجی تو اساتذہ آئے اور پرانے طلباء کی صفوں کو ترتیب دینے لگے، پرانے طلباء جلدی سے ترتیب میں کھڑے ہو گئے، لیکن ہم نئے طلباء کو، جو پہلی کلاس میں تھے، اساتذہ نے اکٹھا کیا اور ہمارے نام پکارنے لگے، اور جن کا نام پکارا جاتا وہ ایک طرف کھڑے ہو جاتے، اس طرح ہمیں تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا، اور ہر گروپ کو ایک استاد لے گیا، ہمارے استاد ایک شیخ تھے جو جبہ پہنے ہوئے تھے اور ان کے سر پر ’طربوش‘ 3تھی، یعنی وہ ایک ازہری شیخ تھے۔
ہمیں پہلی ابتدائی کلاس (اے) میں لے جایا گیا، وہاں استاد نے ہمیں قد کے حساب سے ترتیب دیا، سب سے چھوٹے کو پہلے رکھا، ہر گروپ میں تین افراد تھے اور ہر تین افراد ایک لکڑی کے بنچ پر بیٹھتے تھے، ہم ایک لکڑی کے تختے پر بیٹھتے تھے، جس کی لمبائی ایک میٹر سے زیادہ اور چوڑائی تقریباً پچیس سینٹی میٹر تھی، اور ہمارے سامنے ایک اور تختہ ہوتا تھا، جس کی لمبائی وہی اور چوڑائی تقریباً چالیس سینٹی میٹر ہوتی تھی، جہاں ہم اپنی کتابیں اور کاپیاں رکھتے تھے، نیچے ایک اور تختہ ہوتا تھا جہاں ہم اپنے بستے رکھتے تھے، اور یہ سب کچھ لکڑی کے ستونوں سے جڑا ہوا تھا، اور اسے ’بینچ‘ کہا جاتا تھا۔ ہر کلاس میں تین صفیں ایسے بینچوں کی ہوتی تھیں، ہر صف میں تقریباً سات بینچ ہوتے تھے اور ہر بینچ پر تین طلباء بیٹھتے تھے، ہر صف کے درمیان تقریباً ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ ہوتا تھا، کمرے کے درمیان میں، ان بینچوں کے سامنے، استاد کی میز اور کرسی ہوتی تھی، اور دیوار پر ایک کالا تختہ ہوتا تھا جسے ہم ’سبورہ‘ (بورڈ) کہتے تھے۔
ہم میں سے ہر ایک اپنے مقررہ نشست پر بیٹھ گیا جو استاد نے ہمیں دی تھی، استاد نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ شیخ حسن ہیں، اور پھر ہم سے ایک ایک کر کے ہمارا تعارف لینے لگے، ہر ایک سے اس کا نام پوچھتے، اور پھر اس کے والد، چچا، اور دادا کے بارے میں پوچھتے، یہاں تک کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ ہمارے تمام اہل و عیال کو جانتے ہیں۔ جب میں نے اپنا تعارف کرایا کہ میرا نام احمد ابراہیم الصالح ہے، تو شیخ حسن نے بلند آواز میں دعا کی اور ہاتھ اٹھا کر کہا: اللہ آپ کے والد کو سلامت واپس لائے، تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ جانتے ہیں کہ میرے والد غائب ہیں اور ہمیں ان کا پتہ نہیں ہے۔
کچھ دیر بعد ہماری کلاس میں کتابیں، کاپیاں، پنسلیں، اور ربڑ لائے گئے، اور شیخ حسن نے ان چیزوں کو تقسیم کرنا شروع کیا، ہر ایک کو پڑھنے کے لیے ایک املاء کی کتاب ملی جو خوبصورت رنگین تصویروں سے بھری ہوئی تھی، اور نیچے ایسی تحریر تھی جسے ہم ابھی نہیں پڑھ سکتے تھے، ایک حساب کی کتاب، اور قرآن پاک کا تیسواں پارہ۔ ہر ایک کو پانچ کاپیاں، پانچ پنسلیں، اور ایک ربڑ دی گئی، کاپی کے غلاف کا رنگ سبز اور سرخ تھا، جس پر اقوام متحدہ کی تعلیمی شاخ یونیسکو کا نشان بنا ہوا تھا۔ پھر شیخ حسن نے ہمیں ان چیزوں کا تعارف کرایا جو ہمیں دی گئی تھیں۔ یہ املاء کی کتاب ہے، یہ حساب کی کتاب ہے، یہ کاپیاں ہیں، تین کاپیاں اپنی ماؤں کے پاس رکھواؤ، ایک کو پڑھائی کے لیے اور ایک کو حساب کے لیے مخصوص کر دو، ہر روز املاء کی کتاب، حساب کی کتاب، تیسواں پارہ، دو کاپیاں، ایک پنسل، اور ایک ربڑ لے کر آنا۔ پھر انہوں نے ہر ایک کی چیزوں پر خوبصورت اور شاندار سیاہ روشنائی سے اس کا نام لکھا۔
تعلیمی دن ختم ہوا، محمد اور میرے چچا زاد ابراہیم نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے، ہر ایک نے اپنا کپڑے کا بستہ اٹھا رکھا تھا جو کاپیوں سے بھرا ہوا تھا۔ دن گزرتے گئے اور میں پڑھائی، لکھائی، اور حساب سیکھنے لگا، اور باقی طلباء کی طرح میں بھی کچھ چھوٹی سورتیں حفظ کرنے لگا۔ ہم سب مل کر اسکول جاتے،وقفے میں نکلتے، جس میں ہم کھیلتے اور وہ سینڈوچز کھاتے جو ہماری ماں نے ہمارے لیے تیار کیے ہوتے، جن میں دُقَّة یا کٹی ہوئی مرچ بھری ہوتی، اور کبھی کبھار عربی پنیر بھی ہوتا تھا۔ کبھی کبھی ہم سکول کے دروازے پر بیٹھی ہوئی عورتوں سے آدھی روٹی کے بدلے کچھ لبنہ خرید لیتے تھے اور جب ہم اسے چباتے تو وہ نکل جاتی تھی اور اس کا کھٹا ذائقہ سب سے مزیدار ہوتا تھا، گھر واپس آتے، دوپہر کا کھانا کھاتے، اور پھر محمود اور حسن میرے ماموں صالح کی فیکٹری پر چلے جاتے۔ ہم وقت کھیل میں گزارتے، یا اسکول کی کتابیں پڑھتے اور شیخ حسن کے دیے ہوئے کام کرتے، کبھی رات میں ہم سب غسل کے طشت کے ارد گرد جمع ہوتے، اسے الٹ کر اس کے درمیان چراغ رکھتے، اور ہر ایک اپنی کتاب یا کاپی اس پر رکھتا اور زمین پر بیٹھ کر پڑھائی کرتا، میری ماں اور باقی جو پڑھائی نہیں کرتے تھے، ہمارے قریب بیٹھ کر باتیں کرتے۔
کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا کہ ہم لاؤڈ اسپیکر کی آواز نہ سنیں جو کرفیو کے نفاذ کا اعلان کرتا، جس سے ہم سمجھ جاتے کہ کسی فدائی نے قابض افواج کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے، جیسے کہ دستی بم پھینکنا یا کسی پیٹرولنگ پارٹی پر فائرنگ کرنا، جب بھی قابض افواج کیمپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتی تو فدائی ان کا مقابلہ کرتے اور وہ ناکام واپس لوٹتی، اس سال کا نیا واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ابو یوسف شہید ہو گئے، ابو یوسف دو اور نوجوانوں کے ساتھ اپنی ایک فدائی کارروائی کے لیے نکلے تھے جن کا مقصد روزانہ ایک ہی وقت میں گزرنے والی پیٹرولنگ پارٹی پر حملہ کرنا تھا، منصوبہ یہ تھا کہ ایک نوجوان پارٹی پر بم پھینکے اور پیچھے ہٹتے ہوئے انہیں دکھائے کہ وہ پیچھے ہٹ رہا ہے، اور اس کے پیچھے ہٹنے کے راستے میں ابو یوسف اور دوسرا فدائی کارلوستوف بندوقوں اور دستی بموں کے ساتھ گھات میں بیٹھے تھے، تاکہ اس کا پیچھا کرنے والی کمک کا انتظار کر سکیں، لیکن جب وہ نوجوان اپنی کارروائی کے لیے انتظار کر رہا تھا تو پیچھے سے فوجی اس پر حملہ آور ہو گئے اور ابو یوسف اور اس کے ساتھی ابراہیم پر اچانک حملہ کر دیا اور انہیں گولی مار کر شہید کر دیا۔
اس بار قابض افواج نے کیمپ میں کرفیو نافذ نہیں کیا، کیمپ کے تمام مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور زیادہ تر ابو یوسف کی شہادت پر رو رہے تھے، شہداء کا عظیم الشان جنازہ نکالا گیا، جس میں کیمپ کے تمام باشندوں نے شرکت کی اور نعرے لگائے: “بالروح بالدم نفديك يا شهيد … بالروح بالدم نفديك يا فلسطين“، اور جنازے کو کئی بار پورے کیمپ میں گھمایا گیا، پھر انہیں قریب کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا، اس دن عصر کے وقت میرے دادا مجھے اپنے ساتھ گھر کے کونے میں لے گئے جہاں محلے کے کچھ مرد اور بزرگ جمع ہوتے تھے، باتیں کرتے تھے اور موجودہ حالات اور تازہ ترین پیش رفت پر بحث کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ آج کی گفتگو ابو یوسف اور اس کے ساتھیوں کی شہادت کے بارے میں تھی اور سب حیران تھے کہ یہ کیسے ہوا، ایک آدمی نے کہا: گروپ کو اچانک پکڑ لیا گیا (دھوکے سے)، دوسرے نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا؟ تو اس کے ساتھی نے جواب دیا: گولیاں ان کی پشت سے چلائی گئیں، یعنی اس رخ سے جس طرف سے وہ دشمن کی توقع نہیں کر رہے تھے، ایک تیسرے نے پوچھا: کیا کہہ رہے ہو بھائی؟ تو اس نے جواب دیا: جیسا کہ میں نے سنا، میرے دادا نے پوچھا: کیا اس کا مطلب غداری اور دھوکہ ہے؟ تو آدمی نے کہا: میں کیسے جان سکتا ہوں؟ یہی ہوا ہے، ایک اور نے دہراتے ہوئے کہا: یہ تو عقل اڑا دینے والی بات ہے، اللہ ابو یوسف پر رحم کرے اور ہمیں آپ کا اچھا بدل دے۔
چند دن بعد جب سورج غروب کے قریب تھا اور حسب معمول کرفیو کے نفاذ کا وقت قریب آ رہا تھا، ہم گلی میں کھیل رہے تھے کہ اچانک کئی نقاب پوش مسلح فدائی افراد جمع ہو گئے اور ہر ایک نے گلی کے سرے پر اپنی پوزیشن سنبھال لی، پھر ’ابو حاتم‘ آیا اور کیمپ کے ایک آدمی کو اس کے کان سے گھسیٹتا ہوا لایا، اس آدمی کو ذلت و رسوائی سے لایا جا رہا تھا، ابو حاتم کے ہاتھ میں ایک بانس کی چھڑی تھی اور اس کے کندھے پر بندوق لٹک رہی تھی، ہم سب نے کھیلنا چھوڑ دیا اور کھڑے ہو گئے اور محلے کے لوگ بھی جمع ہونے لگے اور اپنے گھروں سے جھانکنے لگے، ہاتھ میں چھڑی پکڑ کر کھڑے ابو حاتم نے اس آدمی کو، جو اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپانے کی کوشش کر رہا تھا اور زیادہ سے زیادہ اپنے جسم کو جھکا رہا تھا، لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
ایک گہری خاموشی چھا گئی، جسے ابو حاتم کی گونج دار آواز نے توڑ دیا: اے لوگو، تم سب ابو یوسف کو جانتے ہو، جو کیمپ میں عوامی آزادی فوج کے قائد تھے اور تم نے ان کی بہادریوں اور کاروائیوں کے بارے میں سنا ہے جنہوں نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کیا اور قابضین کو سبق سکھایا اور تم سب اس ذلیل کے بارے میں بھی جانتے ہو جو کہ جاسوس نکلا اور یہ وہی ہے جس نے ابو یوسف کی جاسوسی کی اور یہودی فوج کو اطلاع دی، کیمپ کے تمام لوگ مبہم اور نہ سنائی دینے والے الفاظ میں بڑبڑانے لگے، ابو حاتم نے اپنی لاٹھی ہوا میں بلند کی اور چلّا کر اس آدمی سے پوچھا: او ذلیل، لوگوں کے سامنے بتا کہ کیا ہوا تھا، آدمی نے غیر واضح الفاظ میں کچھ کہا تو ابو حاتم کی لاٹھی اس پر پے در پے برسنے لگی، وہ آدمی بیٹھ گیا اور اپنے سر کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا، ابو حاتم اسے حکم دیتے ہوئے چیخا: اٹھ فوراً اور لوگوں کو بتا کہ کیا ہوا تھا، آدمی نے اعتراف کیا کہ اس نے تھوڑی سی رقم کے عوض ابو یوسف اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں مخبری کی تھی اور اسے معلوم نہیں تھا کہ انہیں قتل کیا جائے گا، ابو حاتم کی لاٹھی اس پر پھر سے برسنے لگی اور لوگوں کی آوازیں بلند ہو گئیں: اللہ تجھے رسوا کرے، او ذلیل، اللہ تجھے رسوا کرے، او غدار، او جاسوس۔
ابو حاتم نے اپنی لاٹھی بلند کی اور لوگوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا، سکوت چھا گیا تو ابو حاتم نے کہا: اے لوگو، یہ یہودی ہماری زمین پر قابض ہو گئے ہیں، ہمیں ہمارے ملک سے نکال دیا، ہمارے مردوں کو قتل کیا، اور ہماری عصمتوں کو پامال کیا، اور ہمارے اندر کچھ لوگ ہیں جو ان کے ساتھ مل کر ان فدائیوں کے خلاف کام کرنے کے لیے تیار ہیں جنہوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ لی ہیں، ایسے غدار کا کیا انجام ہونا چاہیے جو یہودیوں کے ساتھ کام کرتا ہے؟ لوگوں کی آوازیں بلند ہو گئیں: موت… موت… ابو حاتم نے اپنی بندوق اپنے کندھے سے اتاری اور اس غدار کے سر کا نشانہ لیا، میری ماں نے میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا، میں نے اسے ہٹانے کی کوشش کی تاکہ دیکھ سکوں کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن میں نے گولیوں کی آواز سنی اور لوگوں کی آوازیں بلند ہوگئیں: غداروں کو موت، جاسوسوں کو موت۔
اگلے دن فدائیوں نے ایک قابض فوج کی گشتی پارٹی پر گھات لگائی، انہوں نے شہداء کے خون کی قسم کھائی کہ ابو یوسف کا بدلہ لیں گے، جب جیپ پہنچی تو انہوں نے اس پر کئی دستی بم پھینکے اور اسے گولیوں سے بھون دیا، جس سے کئی فوجی ہلاک ہو گئے اور کچھ زخمی ہو گئے، فوجی فوری طور پر اپنی بندوقیں اٹھا کر فائرنگ نہ کر سکے، بڑی تعداد میں قابض فوج کی کمک آئی، علاقے کو گھیر لیا، اور قریبی گھروں سے لوگوں کو مار پیٹ، ٹھوکریں مار کر اور ذلت آمیز سلوک کے ساتھ نکالنے لگے اور ہوا میں فائرنگ کرنے لگے، انہوں نے مردوں کو دیوار کے ساتھ منہ دیوار کی طرف کر کے کھڑا کیا اور ان کے سروں پر بندوقیں تان دیں، اور مار پیٹ کا سلسلہ جاری تھا، علاقے کے انچارج انٹیلی جنس افسر آئے اور مردوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لینے لگے، پھر انہیں ایک ایک کر کے بلانے لگے جبکہ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے اور گاڑی کا دروازہ کھلا ہوا تھا، ہر ایک ان کے پاس آتا حالانکہ بندوقیں ان پر تانی ہوئی تھیں، پھر ان سے سوالات کیے جاتے، درجنوں بلکہ سینکڑوں سوالات کہ شاید انہیں فدائیوں کی تشخیص میں کوئی معمولی سی بھی معلومات مل سکے۔
چند دنوں بعد کرفیو اٹھا لیا گیا اور ہم معمول کے مطابق اسکول چلے گئے، پہلے تین پیریڈز کے بعد وقفے کے دوران میں بیت الخلاء کی طرف گیا، وہاں میں نے بچوں کو ایک دیوار پر چڑھتے دیکھا، جو زیادہ اونچی نہیں تھی، اور وہ اس دیوار کے اوپر سے جھانک کر دوسرے بچوں سے بات کر رہے تھے، میں بھی دیوار کی طرف بڑھا اور دوسرے بچوں کی طرح میں بھی اس پر چڑھ گیا اور جھانک کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہم اس دیوار سے اس ہائی اسکول کو دیکھ سکتے ہیں جہاں میرا بھائی حسن پڑھتا ہے، اس ہائی اسکول کے بچے بڑے لگتے تھے، عمر میں مجھ سے بڑے اور قد میں بھی مجھ سے بہت لمبے۔
اس دن جب ہم اسکول سے گھر واپس جا رہے تھے، میں، میرا بھائی محمود اور میرا چچا زاد ابراہیم، اور سیکڑوں طلباء و طالبات کے درمیان میں نے اپنے چچا زاد حسن کو کچھ فاصلے پر دیکھا، ہمارے درمیان بہت سے طلباء و طالبات تھے، میں نے دیکھا کہ حسن نے اپنا ہاتھ منہ کی طرف اٹھایا اور کچھ منہ میں ڈالا، کیا یہ سگریٹ ہے؟ پھر میں نے دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ نیچے کیا اور منہ سے دھواں نکالا، میں نے محمد اور ابراہیم کو جو حسبِ معمول میرے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، زور سے پکڑا اور اپنی آنکھوں سے حسن کی طرف اشارہ کیا، وہ مجھے نہ سمجھ سکے اور حیران ہو کر پوچھنے لگے: کیا ہوا؟ کیا بات ہے؟ میں نے کہا: حسن! وہ پوچھنے لگے: اسے کیا ہوا؟ حسن نے محسوس کر لیا کہ ہم اس کے پیچھے ہیں، اس نے جلدی سے سگریٹ کا ٹکڑا پھینک دیا، محمد اور ابراہیم کچھ نہ دیکھ سکے، اور ہم ان کے قریب پہنچ چکے تھے، میں خاموش رہا تاکہ کہیں حسن کی کسی لات کا نشانہ نہ بن جاؤں، جب ہم گھر پہنچے تو میں نے ماں کو اکیلا پایا، موقع ملتے ہی میں نے ان کے کان میں سرگوشی کی: اماں میں نے حسن کو سگریٹ پیتے دیکھا ہے، ماں نے مجھے تیز نظروں سے دیکھا اور کہا: ضرور تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ تمہارا وہم ہے، یہ بات کسی سے مت کہنا، ٹھیک ہے؟ میں نے سر ہلایا اور بھاگ گیا، لیکن اس دن میں نے دیکھا کہ ماں نے حسن کو الگ بلایا اور اس سے بات کرنے لگی، حسن سر جھکائے باتیں سن رہا تھا، میں ان کی گفتگو نہ سن سکا، چند دن بعد جب ہم اسکول سے واپس آئے تو میں نے سنا کہ میرا بھائی محمود ماں سے کہہ رہا تھا کہ آج حسن اسکول نہیں گیا، وہ اسکول سے بھاگ گیا ہے، میں نے ماں کے چہرے پر پریشانی دیکھی، وہ اس مسئلے کا حل کیسے نکال سکتی تھیں؟ میں نے دیکھا کہ وہ میرے دادا سے بات کر رہی تھیں اور انہوں نے حسن کو بلایا اور اس سے سختی سے بات کی۔ حسن نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اسے دھمکی دی گئی کہ اگر وہ دوبارہ اسکول سے بھاگا تو وہ محمود اور حسن کو کہیں گے کہ اسے پکڑ کر گھر کے صحن میں موجود ستون سے باندھ کر ماریں۔ کچھ دن بعد میری والدہ نے اس کے پتلون کی جیب میں چند سگریٹ اور ایک چوتھائی لیرہ پایا، ماں یہ چیزیں لے کر دادا کے پاس گئی اور کہا: دیکھیں، آپ کے پوتے کی جیب سے کیا نکلا ہے، دادا نے حیرت سے ان چیزوں کی طرف دیکھا اور پوچھا: اس لڑکے کو پیسے کہاں سے ملے؟ اسی وقت والدہ نے محمود اور حسن کو بلایا اور کہا کہ وہ فوراً میرے چچا زاد حسن کو لے آئیں، وہ دونوں تھوڑی دیر غائب رہے اور پھر حسن کو ساتھ لے کر آئے، دادا غمگین اور پریشان تھے، اس لیے وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے، یہاں والدہ نے حسن سے تفتیش شروع کی، تمہیں یہ پیسے کہاں سے ملے؟ حسن نے پوچھا: کون سے پیسے؟ والدہ نے جواب میں چوتھائی لیرہ اور سگریٹ دکھایا، حسن خاموش ہو گیا اور ایسا لگا جیسے اسے اپنی مصیبت کا احساس ہو گیا ہو، اس نے بہانے بنانے کی کوشش کی، تو والدہ نے محمود اور حسن کو حکم دیا کہ اسے پکڑیں اور فاطمہ کو کہا کہ رسی لے آؤ، سب نے جلدی سے اپنی ذمہ داری پوری کی، میں، میرا بھائی محمد اور میرا چچا زاد ابراہیم دادا کے پیچھے کھڑے ہو کر یہ سب دیکھ رہے تھے اور بہت خوفزدہ اور حیران تھے۔
محمود اور حسن نے میرے چچا زاد حسن کو پکڑا اور ستون کی طرف کھینچ لیا، فاطمہ رسی لے آئی اور والدہ نے اسے ستون سے باندھنے کی کوشش کی، جب حسن نے دیکھا کہ یہ سب سنجیدہ ہیں، تو وہ چلایا: میں نے دادا کی نصف لیرہ گرنے پر اٹھائی تھی، دادا حیران ہوئے کہ ان سے نصف لیرہ کیسے گر سکتی ہے، اور ان کے پاس کتنے نصف لیرہ ہیں؟ والدہ نے پوچھ گچھ جاری رکھی: کہاں گری تھی؟ حسن ہچکچایا اور اس کا جھوٹ واضح ہو گیا، والدہ نے محمود اور حسن کو حکم دیا کہ اسے ستون سے باندھیں اور رسی لہراتے ہوئے کہا: میں نے یہ دادا کے تھیلے سے لی جب وہ سو رہے تھے، والدہ چلائی: تم نے اسے لیا؟ اسے لینا کہتے ہو؟ کہو کہ تم نے دادا کے تھیلے سے چوری کی، پھر وہ دادا کی طرف مڑی اور پوچھا: ابو ابراہیم، آپ کا کیا خیال ہے؟ ہمیں اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ دادا نے اپنے پیسے کا تھیلا نکالا اور اس میں موجود رقم کو چیک کیا تو اس میں صرف نصف لیرہ تھی، مطلب حسن نے نصف گھر کا خرچ چوری کیا تھا، دادا نے کمزور آواز میں کہا: اسے ستون سے باندھ دو، باندھ دو۔ والدہ نے دادا کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہوں کہ کیا وہ واقعی سنجیدہ ہیں؟ دادا نے سر ہلا کر اشارہ کیا اور آنکھوں سے ہمیں دیکھ کر کہا کہ بچوں کو یہ دکھانا ضروری ہے کہ ایسے کاموں کی سزا ملتی ہے، ورنہ اس کا ان پر کیسے اثر ہو گا؟ میری ماں نے حسن کو ستون کے ساتھ باندھ دیا اور وہ رو رہی تھیں، اپنی قسمت اور حسن کی قسمت کو رو رہی تھیں، افسوس ہے تجھ پر، شہید کے بیٹے، تیرا باپ ایک شہید ہے حسن، تجھے معلوم ہے شہید کا مطلب؟ تیرا باپ ایک شہید ہے اور تو اپنے دادا کے تھیلے میں سے نصف لیرہ چوری کرتا ہے؟ خاندان کے آدھے خرچ کو، حسن! تجھے شرم نہیں آتی حسن؟ پھر وہ ہم سب پر چیخیں، سب کے سب کمرے میں چلو! تو ہم سب فوراً بغیر کسی ہچکچاہٹ کے چلے گئے۔
اس رات ہم پر نہ صرف گھر میں کرفیو لگا بلکہ کمرے میں بھی لگ گیا، جو کہ ہماری ماں کی طرف سے تھا، انہوں نے ہمیں رات بھر کمرے سے باہر نکلنے سے منع کر دیا، سوائے انتہائی ہنگامی صورتوں میں، اور ہمیں زبردستی جلد سونے پر مجبور کیا۔
پانچویں فصل
میری خالہ فتحیہ اور ان کے شوہر ہم سے ملنے کے لیے آئے، میری امی نے خالہ کا استقبال پیار کے ساتھ کیا اور خالہ نے ہمیں ایک ایک کر کے پیار کیا، میری امی مہمانوں کے لیے بستر تیار کرنے لگیں اور دادا کو آواز دی، ’چچا ابو ابراہیم، مہمان آئے ہیں‘، دادا اپنے کمرے سے باہر آئے اور خالہ کے شوہر سے مصافحہ کیا، خالہ اپنے ساتھ ایک ٹوکری لائی تھیں جس میں کئی کاغذی تھیلے تھے، انہوں نے وہ تھیلے میری امی کو دیے، فاطمہ نے چائے بنائی، سب نے چائے پی اور پھر خالہ کے شوہر نے رخصت لی تاکہ وہ ماموں کے گھر جا سکیں، خالہ نے بتایا کہ وہ آج ایک اور رات ہمارے ساتھ رہیں گی اور ان کے شوہر کل انہیں واپس لے جائیں گے، دادا نے انہیں روکا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ رات گزاریں، مگر انہوں نے معذرت کی کہ انہیں کچھ کام ختم کرنے ہیں، دادا، امی اور خالہ نے انہیں دروازے تک الوداع کہا، پھر دادا اپنے کمرے میں چلے گئے اور امی اور خالہ ہمارے کمرے میں واپس آئیں اور ہم ان کے گرد جمع ہو گئے۔
امی ٹوکری لائی اور اس میں سے چیزیں نکالنے لگی، ایک تھیلے میں بڑے بڑے سرخ سیب تھے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، اور یقیناً ایسے سیب نہیں چکھے تھے کیونکہ ہم نے اپنی عمر میں دو یا تین بار ہی سیب کھائے تھے اور وہ بھی اس قسم کے نہیں، دوسرے تھیلے میں ایک اور پھل تھا جس کا نام ہمیں اس وقت معلوم نہیں تھا، لیکن بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ وہ آڑو تھا، تیسرے تھیلے میں خشک دودھ کے ٹکڑے تھے، امی نے خالہ سے کہا: تم نے بڑا احسان کیا فتحیہ، خالہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بولی: کاش میں تمہاری صحیح معنوں میں مدد کر سکتی، میری پیاری بہن، پھر انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر کی مالی حالت الحمدللہ اچھی ہے، امی نے پھل اٹھائے اور انہیں دھو کر واپس آئی، اور محمود کو تقریباً آدھے سیب اور آڑو دیے کہ وہ انہیں دادا اور چچا کے بیٹوں کے کمرے میں لے جائے، امی اور خالہ دیر رات تک باتیں کرتی رہیں اور ہم ان کے گرد خوشی سے بیٹھے رہے کیونکہ ہماری پیاری خالہ آئی تھیں ۔
خالہ کے شوہر عبد الفتاح ماموں کے گھر گئے اور ان کے ساتھ رات گزاری اور انہیں الخلیل کے علاقے، شہر اور دیہات کی صورتحال کے بارے میں بتانے لگے۔عبد الفتاح نے چند سال پہلے اپنی ثانوی تعلیم مکمل کی تھی اور اپنے والد کے زراعت اور مویشی پالنے کے کاموں میں مدد کر رہے تھے، وہ اردن یا سعودی عرب کی کسی یونیورسٹی میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا سوچ رہے تھے، ماموں ان سے مزاحمت اور فدائیوں کی صورتحال، لوگوں کی زندگی کے معیار اور ان کی تیاریوں اور حوصلے کے بارے میں پوچھنے لگے، خاص کر گزشتہ تین سالوں میں جب سے اسرائیلی قبضہ ہوا تھا۔
الخلیل شہر پر قبضے کے بعد چند ہی دنوں میں سیاحوں کے بڑے بڑے گروہ حرم ابراہیمی کی زیارت کے لیے آنے لگے، یہودیوں کا ماننا ہے کہ اس مقام پر ان کا تاریخی حق ہے، اس سے شہر میں اقتصادی خوشحالی کا دروازہ کھلا، شہر کے بہت سے تاجروں نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا، اپنی دکانیں کھولیں اور سیاحوں کو اپنی مصنوعات بیچنے لگے، اور انہیں ہر چیز زیادہ قیمت پر فروخت کرنے لگے، یہاں تک کہ انہوں نے انہیں بلوط بھی فروخت کیا، غیر ملکی یہ سمجھتے تھے کہ بلوط ہمارے جد حضرت ابراہیم کے ملک کی وجہ سے مقدس ہے، یہاں تک کہ یہودی بھی الخلیل میں اپنی ضروریات کی چیزیں مختلف دکانوں، مارکیٹوں اور بازاروں سے خریدنے آتے تھے، جس سے شہر میں حقیقی اقتصادی خوشحالی آئی اور زندگی کے معیار میں بہتری آئی۔
یہ بھی دیکھا گیا کہ قابض فوجی زیادہ اختلاط سے گریز کرتے تھے، ایسا لگتا تھا کہ یہ شہر کے میئر شیخ الجعبری کی درخواست پر تھا، جنہوں نے شہر کے قبضے کے بعد اعلیٰ اسرائیلی قائدین سے ملاقات کی تھی اور ان سے درخواست کی تھی کہ ان کے فوجی لوگوں کے عزت و مال پر حملہ نہ کریں، ان قائدین میں موشے دیان بھی شامل تھا، جس نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور اس نصیحت پر عمل کرنے میں سختی برتی، اس وجہ سے فوجیوں کا لوگوں سے کم ہی میل جول تھا۔
لوگ ابھی نکسہ اور شکست کی صدمے سے باہر نہیں نکلے تھے، اور اکثریت پر قبضے اور یہودیوں کا خوف طاری تھا ۔ ایک یہودی اکیلا شہر میں گھومتا تھا اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا تھا، نہ ہی کوئی اس پر حملہ کرنے کا سوچتا تھا۔ اگر لوگوں کو پتہ چلتا کہ کوئی ایسا سوچ رہا ہے، تو وہ اسے خوف اور احتیاط کی بنا پر روک دیتے، لیکن کبھی کبھار کچھ مزاحمت بھی ہوتی تھی، اور وقفے وقفے سے کبھی کبھار فائرنگ، ہدفی کاروائی یا گولے مارنے کی کارروائیاں کی جاتی تھیں، یہ حملے شہر کے کناروں یا ارد گرد کے گاؤں اور قصبوں میں قابض فوج کی گشتی ٹیمیں کیا کرتی تھی، حالانکہ کئی گاؤں اور علاقے ایسے تھے جہاں قابض فوج کبھی داخل نہ ہوئی تھی۔ کچھ مجاہدین پہاڑوں میں غاروں میں رہتے تھے، جو پہاڑوں کے نیچے بہت دور تک پھیلی ہوتی تھیں، وہ کبھی کبھار نکلتے اور قابض فوج کی گشی پر حملہ کرتے، جس سے زخمی اور کبھی کبھار ہلاکتیں بھی ہوتی، پھر وہ دوبارہ پہاڑوں میں پناہ لیتے جہاں قابض فوج نہ تو داخل ہونے کی ہمت کرتی تھی اور نہ ہی ان علاقوں کو جانتی تھی، ان مزاحمت کاروں میں سب سے مشہور “ابو شرار” تھے، جو اس علاقے میں قابض فوجیوں کی نیند حرام کر دیتے تھے۔
تحریک فتح نے شہر اور اس کے آس پاس مزاحمت شروع کرنے کی کوشش کی، لیکن علاقے میں کامیابیاں انتہائی محدود تھیں، کیونکہ قابض فورسز ان گروپوں کو گرفتار کر رہی تھیں جو مزاحمت شروع کرنے کی کوشش کر رہے تھے، یا جو ابھی اپنی ابتدائی مراحل میں تھے اور ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکے تھے، شاید لوگوں کی اپنی زندگی کی مشکلات، اقتصاد اور کامیابی کے کم امکانات کی وجہ سے مزاحمت علاقے میں نمایاں اور عام نہیں ہو سکی، لیکن شہر میں احتجاجات کی ایک سیاسی تحریک شروع ہوئی جسے فتح کے حامی اراکین، خاص طور پر طلباء کے حلقوں میں منظم کر رہے تھے، اسی طرح الجبهة الشعبية بھی سرگرمیاں شروع کرنے کی کوشش کر رہی تھی، چونکہ مزاحمت کے میدان میں واضح کامیابی نہیں ملی، اس لیے سرگرمیاں سیاسی اور عوامی کاموں اور کچھ سماجی سرگرمیوں پر مرکوز ہو گئیں۔ میرے ماموں دلچسپی کے ساتھ میرے خالہ کے شوہر عبد الفتاح کی تفصیلی باتیں سن رہے تھے جو علاقے کی صورتحال بیان کر رہے تھے اور وقتاً فوقتاً کچھ وضاحتی سوالات پوچھ کر ہر چھوٹی بڑی بات جاننے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ غربِ اردن اور غزه کی پٹی کی صورتحال کے فرق کو سمجھ سکیں۔
غزہ کی پٹی میں 1967ء کی جنگ میں تحلیل ہونے والے فلسطینی آزادی فوج کے افسران اور جنگجوؤں کو جمع کرنے کے لیے ایک نئی فورس تشکیل دی گئی تھی، جسے قوات التحرير الشعبی کہا جاتا تھا، یہ غزہ میں سب سے بڑا مزاحمتی گروپ تھا، ساتھ ہی تحریک فتح اور جبهۃ الشعبيۃ کے گروپوں نے بھی مزاحمت شروع کی اور مجموعی طور پر غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی صورتحال اچھی تھی، باوجود اس کے کہ قابض فورسز بعض قیادتوں کو قتل کرنے اور علاقے میں مزید سرایت کرنے اور اس کے راز جاننے میں کامیاب ہو رہی تھی ۔
خالہ کے جانے کے کچھ دنوں بعد محلے میں خبر پھیل گئی کہ مغربی علاقے المشتے میں ایک ایجنٹ کی لاش پڑی ہوئی ہے، ہم سب وہاں لاش دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے، جیسا کہ ایسی خبروں پر عام طور پر ہوتا ہے، لاش وہاں پڑی ہوئی تھی، کسی کو بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس لڑکی کو کس نے قتل کیا، یہ افواہ تھی کہ وہ ایک ایجنٹ تھی اور وہ اسی وجہ سے قتل کی گئی ہے، کسی نے اس پر اعتراض کرنے یا تفصیلات پوچھنے کی جرأت نہیں کی، لیکن محلے میں سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ وہ ایجنٹ نہیں تھی اور کچھ لوگ جو خود کو فدائی ظاہر کر رہے تھے، انہوں نے اپنی حصانت کا فائدہ اٹھا کر اسے دھوکہ دیا، اس کی عزت لوٹی، اور پھر اپنے جرم کے راز افشا ہونے کے خوف سے اسے قتل کر دیا اور اسے ایجنٹ قرار دے دیا، قابض فورسز نے عوام میں سرایت بڑھانے کے لیے اپنے انٹیلی جنس کام کو مزید تیز کر دیا، عوام کی کمزوریوں، ضرورتوں اور غربت کا فائدہ اٹھا کر ایجنٹ بھرتی کرنے لگیں جو مزاحمت کاروں کی معلومات اور ان کی نقل و حرکت کی خبریں فراہم کرتے تھے۔
قابض فورسز بڑے پیمانے پر مردوں اور نوجوانوں کو گرفتار کر رہی تھی، جنہیں ’سرايا‘ عمارت منتقل کیا جاتا تھا، جہاں خفیہ ایجنسی کا دفتر واقع ہے، وہاں بڑی تعداد میں فوجی ان کا استقبال تھپڑ لاتوں اور گھونسوں سے کرتے، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی اور انہیں دیوار کی طرف منہ کر کے گھنٹوں کھڑا رکھا جاتا، ان کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوتے، ٹھنڈ اور بارش میں خوف اور سردی سے وہ کانپتے رہتے، فوجی ان کے پیچھے کھڑے ہوتے، باری باری ڈیوٹیاں کرتے، جو بھی دیوار پر سہارا لینے کی کوشش کرتا یا ادھر اُدھر حرکت کرتا، اسے لات ماری جاتی اور پیٹا جاتا۔
ایک قریبی روشن اور ایئر کنڈیشن کمرے میں شین بیٹ کے انٹیلی جنس افسران بیٹھے ہوتے، وہ مردوں کو ایک ایک کر کے بلاتے، انہیں کرسیوں پر بٹھاتے اور ان کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دیتے، پھر وہ ان سے ان کے کام، ان کے گاؤں، ان کے خاندان، ان کے بھائیوں، ان کے پڑوسیوں اور مزاحمت کرنے والے لوگوں کے بارے میں ہزاروں سوالات پوچھتے، بے شمار گالیاں دیتے اور لعن طن کرتے، کبھی مارتے، کبھی مذاق اڑاتے اور کبھی دھمکاتے، تاکہ ان سے کوئی معلومات حاصل کریں یا کسی کو ان کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کریں، کچھ مرد اس ذلت اور خواری کی وجہ سے غم و غصے سے بھر جاتے، لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے، اگر وہ کچھ کرتے بھی تو انہیں مزید ذلت اور خواری کا سامنا کرنا پڑتا، کچھ لوگ اس بحران سے بہتر طریقے سے نکلنے کی کوشش کرتے کہ وہ نہ ان کے ساتھ نہ ان کے خلاف، نہ مزاحمت کے ساتھ نہ اس کے خلاف، وہ صرف جینا چاہتے تھے، اور اپنے بچوں اور خاندان کی روزی روٹی کا انتظام کرنا چاہتے تھے، جبکہ کچھ لوگ اپنے جسم و روح کو قابضوں کے ہاتھوں سستے داموں بیچ دیتے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے پر راضی ہو جاتے۔
غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی صورتحال مغربی کنارے کی نسبت نمایاں طور پر مضبوط تھی، اس کی بنیادی وجہ شاید وہ فوجی بٹالین تھی، جسے ’جيش تحرير فلسطين‘کے نام سے جانا جاتا تھا، اسے فلسطین کی آزادی کی تحریک کی ایک فوجی قوت کے طور پر بنایا گیا تھا، جسے عرب حکومتوں نے اس لیے قائم کیا تھا تاکہ فلسطین کی ذمہ داری سے بچ سکیں، 1967ء کی جنگ کے بعد یہ فوج بکھر گئی، کچھ شہید ہو گئے، زیادہ تر مصر چلے گئے یا وہاں منتقل ہو گئے، اور کچھ غزہ میں ہی رہ گئے اور انہوں نے عوامی آزادی کی فوج بنائی، جس نے مزاحمت کا آغاز کیا، پھر فتح اور الجبھۃ الشعبیۃ کے کچھ گروپوں اور سیلوں نے غزہ میں کام شروع کیا اور خاص طور پر کیمپوں کے علاقوں میں ان کی موجودگی بڑھنے لگی۔
ایک دن جب ہم اسکول میں صبح کی تقریب میں تھے، تو ایک بڑا واقعہ پیش آیا، پھر ہم نے بلند نعرے سنے ’بالروح بالدم نفديك يا فلسطين، بالروح بالدم نفديك يا فلسطين، اسکول کے بچے دوسرے اسکولوں کے بچوں کے ساتھ مل کر ایک جلوس میں نعرے لگانے لگے اور ہر کوئی خوشی اور مسرت سے بھرپور تھا، یہ دن یوم الکرامہ تھا جب فلسطینی جنگجوؤں نے اردن میں اسرائیلی حملے کو ناکام بنا دیا تھا، جلوس کی صورت میں مظاہرین کیمپ کی گلیوں میں نعرے لگاتے، جھنڈے لہراتے رہے اور پھر ہم اپنے گھروں کو واپس آ گئے، سب کا جذبہ اور فخر عروج پر تھا، کیونکہ 1967ء کی شکست کے بعد، جو کہ سرکاری عربی نظام کے مطابق نکسہ کہلاتی تھی، یہ اسرائیلی فوج پر پہلی فتح تھی ۔
فدائیوں کے گروپ، جنہوں نے دریائے اردن کے مشرقی کنارے پر کیمپ لگائے ہوئے تھے، کچھ حد تک سرحد پار کارروائیاں شروع کرچکے تھے۔ میں اس دن عصر کے بعد حسبِ معمول اپنے دادا کے ساتھ گھر کے قریب میدان میں بیٹھا تھا، جہاں محلے کے مرد بات چیت کرتے تھے، سب خوشی سے بھرپور تھے اور ’فلسطینی انقلاب‘ کا لفظ اور ’تحریکِ آزادی (فتح)‘ کا نام بار بار سنائی دے رہا تھا، واضح ہو گیا تھا کہ ’فتح‘ نے فلسطینی قومی تحریک اور مزاحمت میں قیادت کی حیثیت اختیار کر لی ہے، اس دن میں نے کچھ مردوں کو یہ کہتے سنا: چچا، یہ بات ٹھیک ہے، زمین میں ہل کوئی اور نہیں چلا سکتا، ہم عرب فوجوں پر اعتماد کرتے تھے اور ہم ہار جاتے تھے جبکہ پہلی بار جب ہم خود لڑے تو ہم جیت گئے، چاہے ہمارے پاس کمزور ہتھیار ہی کیوں نہ ہوں، تمام مرد تائید میں سر ہلا رہے تھے۔
آنے والے دنوں میں مغربی کنارے اور غزہ میں فدائیوں کی کارروائیاں بڑھ گئیں، جیسا کہ میری ماں ہمیشہ کہا کرتی تھیں ’نفس الرجال بحيي رجال‘ معرکہ کرامہ کی فتح نے بہت سے لوگوں میں امید اور تیاری کی روح بھر دی۔ شاید قابضین کی خفیہ ایجنسیوں کو یہ معلومات ملیں کہ غزہ میں ہونے والی بہت سی کارروائیوں کی جڑ الشاطی کیمپ سے ہے، تو انہوں نے ہمارے کیمپ پر کرفیو نافذ کر دیا، اس بار کرفیو کافی عرصے تک جاری رہا، یہاں تک کہ ایک مہینے سے تجاوز کر گیا اور کیمپ میں ہمارے حالات مزید خراب اور سخت ہو گئے، کیمپ میں کرفیو نافذ تھا، لیکن شہر میں چند قدموں کے فاصلے پر زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی، غزہ کی مساجد سے ظہر کی اذان کی آواز بلند ہوئی، مسجد العباس میں جو شہر کی مرکزی سڑک، شارع عمر المختار پر واقع ہے، کچھ مرد اور نوجوان نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہونے لگے، نماز ختم کرنے کے بعد ایک جوان لڑکا جو بیس کی دہائی کے آغاز میں تھا، اعتماد کے ساتھ کھڑا ہوا اور اس نے اللہ کی حمد و ثنا کی، رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجا، پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر ان میں اپنے بھائیوں کی قوت اور بہادری کو اجاگر کیا جنہوں نے الشاطئ کیمپ میں ایک ماہ سے کرفیو کا سامنا کیا ہوا تھا، ایک شیخ نے سوال کیا: بیٹا! ہم کیا کر سکتے ہیں؟ لڑکے نے جواب دیا، کم از کم ہم یکجہتی کا ایک مظاہرہ تو کر سکتے ہیں، مسجد میں موجود لوگ باہر نکلے، نعرے لگاتے ہوئے اور تکبیرات بلند کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے اس جوان کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا، اور وہ نعرے لگا رہا تھا، ’بالروح بالدم نفديك يا فلسطين……كلنا فلسطين مواطنین و مھاجرین ۔
مہاجرین اور شہری لوگ بڑی تعداد میں مظاہرے میں شامل ہونے لگے اور شہر کی سڑکیں کیمپ کے قریب تھیں، اور قابض فوج کی گاڑیاں صورتحال کی نگرانی کر رہی تھیں، ہنگامی حالات کے پیش نظر بغیر مداخلت کے مظاہرہ ختم ہوگیا اور سب نے محسوس کیا کہ انہوں نے اپنی ضمیر کے مطابق کچھ کیا ہے۔ اگلی صبح لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کیا گیا کہ کیمپ سے کرفیو ختم کر دیا گیا ہے تاکہ زندگی دوبارہ معمول پر آ سکے۔ صبح کے وقت ہم اسکول کی قطار میں کھڑے ہوتے تھے، اور کچھ محدود ورزشوں کے بعد اور صبح کی تقریر جو ایک طالب علم اس قطار کے سامنے پتھر کی سیڑھیوں سے کرتا تھا، ہم قطار در قطار دودھ کے کاؤنٹر کی طرف بڑھتے تھے، یہ ایک ایسی جگہ تھی جو تین طرف سے پتھروں سے بند تھی اور اس کی چھت زِنک کی چادروں سے ڈھکی ہوئی تھی، اس کے اوپر ایک سیمنٹ کا پلیٹ فارم تھا جس پر بڑی میزیں تھیں اور ان کے پیچھے چار آدمی نیلے رنگ کے لباس اور سفید ٹوپیاں پہنے کھڑے ہوتے تھے، ہم قطار میں رہ کر کاؤنٹر میں داخل ہوتے تھے اور ہمارے اساتذہ اس کی نگرانی کرتے تھے، وہ آدمی ہمیں ایک ایک کر کے لوہے کے کپ دیتے تھے جنہیں وہ دودھ سے بھرتے تھے اور ہمیں ہر ایک کو مچھلی کے تیل کی ایک گولی دیتے تھے، اور ہمیں اسے نگلنے کے لیے کہتے تھے پھر ہم دودھ پیتے تھے اور ہم کپ کو ایک بڑے برتن میں ڈال دیتے تھے جس میں کھولتا ہوا پانی ہوتا تھا، اور اپنی قطار سے نکل کر اپنے کلاس رومز کی طرف چلے جاتے تھے۔ پورا اسکول یعنی تمام طلباء ہر روز اسکول میں مچھلی کے تیل کی گولی کھاتے اور دودھ پیتے تھے، ہم مچھلی کے تیل سے شدید نفرت کرتے تھے اور اس پر گرم دودھ پینے سے بھی نفرت کرتے تھے، اساتذہ ہماری نگرانی کرتے تھے تاکہ ہم وہ چھوٹی گولیاں پھینک نہ دیں، اور ہمیں مجبور کرتے تھے کہ ہم انہیں کھا لیں اور ہمیں جلدی جلدی دودھ پینے اور کلاس رومز میں جانے کی تاکید کرتے تھے۔
مچھلی کا تیل بہت فائدہ مند ہے، لیکن گرم دودھ کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کا پیالہ ہاتھوں میں پکڑنے سے جو گرمی ملتی ہے، خاص کر جب آپ کے چھوٹے ہاتھ ٹھنڈ سے تقریباً جم چکے ہوں، تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے ہاتھ دوبارہ آپ کے جسم کا حصہ بن گئے ہیں جیسے کہ وہ پہلے الگ ہو گئے ہوں۔ انہی دنوں ایک دن بہت ہی سرد اور طوفانی تھا اور ہم میں سے زیادہ تر بارش سے بھیگ چکے تھے، جب ہم نے دودھ پیا تو اپنے کلاس روم میں جا کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور سردی سے کانپنے لگے، ہمارے استاد شیخ کلاس میں داخل ہوئے اور ایسا لگا جیسے انہوں نے سمجھ لیا ہو کہ ہم اس حالت میں نہیں ہیں کہ پڑھائی کر سکیں یا کچھ سمجھ سکیں۔ انہوں نے ہمیں ہنسانے کا ارادہ کیا اور کہا: بچو! تصور کرو کہ آسمان سے اب چاول اور گوشت برس رہا ہے۔ کلاس میں شور مچ گیا اور جب ہم نے چاول اور گوشت کا ذکر سنا تو ہم سردی اور اپنے بھیگنے کو بھول گئے اور بے ہنگم بولنے لگے، میں تو صرف گوشت کھاؤں گا…… مجھے چاول پسند ہیں…… میں…… میں…… شیخ نے ہمیں تھوڑی دیر کے لیے خوابوں میں چاول اور گوشت کے ساتھ کھیلنے دیا، پھر ہم پر چیخ پڑے: چپ ہو جاؤ تم سب! اللہ کرے کہ تم پر ٹڈیاں برسیں جو تم سب کو کاٹیں۔ پھر کہا: املاکی کتاب نکالو اور سبق نمبر بیس کھولو۔ احمد! تم پڑھو۔ میں نے اپنی کتاب کھولی جو پانی سے بھیگی ہوئی تھی، اور سردی سے کانپتے ہوئے پڑھنے لگا۔ شیخ کے ہونٹ ہل رہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے: لاحول ولا قوة الا بالله، انا لله وانا الیہ راجعون، تمہیں پڑھنا چاہیے تاکہ تم انسان بن سکو۔
چھٹی فصل
میری خالہ فتحیہ صوريف گاؤں میں رہتی تھی، جو کہ ضلع الخليل کا ایک گاؤں ہے، یہ گاؤں فلسطین کے دیگر تمام دیہاتوں کی طرح 1967ء میں قبضے میں گیا، اور اسے مزاحمت میں اس کے کردار کی وجہ سے جلاوطنی اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا، یہ گاؤں سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے 1948ء سے پہلے کی جنگوں میں بھی شامل رہا، یہ گاؤں سبز لکیر کے قریب واقع ہے، جو 1948ء میں مقبوضہ ہونے والی زمینوں اور ان زمینوں کے درمیان حد بندی کرتی ہے جو 1967ء تک اردنی حکومت کے تحت تھیں ۔
قبضے کے کچھ ہی وقت کے بعد قابض فوج کی گشتی گاڑیاں گاؤں کے قریب آئیں اور اسے دیگر مغربی کنارے کے دیہاتوں کی طرح گھوم کر دیکھنے لگیں، لوگ یہاں چھوٹے، سادہ اور خوبصورت پتھریلے گھروں میں زیتون، انجیر، انگور اور بادام کے درختوں کے درمیان رہتے ہیں، وہ مویشی اور مرغیاں پالتے ہیں اور اپنی روزی کما کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جس کی نعمتیں بے شمار ہیں۔ گاؤں کے مرد بلند کردار اور مردانگی میں مشہور ہیں اور وہ فلسطینی دیہاتی لباس پہنتے ہیں۔
کوئی اپنی لاٹھی پکڑے ہوئے اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ کی چوٹی پر چراتا ہوا نظر آ رہا ہے، اور عورتیں اپنے لباس اور سر کی اوڑھنی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں، میری خالہ کو غزہ سے صوريف منتقل ہونے پر زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا، صرف دیہی اور زرعی ماحول میں فرق تھا، لوگوں کے طور طریقے اور ان کی خالص روحیں ایک جیسی تھیں، شاید مقامی لہجہ تھوڑا مختلف تھا لیکن یہ کوئی بڑا فرق نہیں تھا، اوروہ جلد ہی وہ وہاں کی زندگی میں گھل مل گئیں، ان کے شوہر عبد الفتاح نے اپنی ثانوی تعلیم الخلیل شہر کے طارق بن زیاد اسکول میں مکمل کی تھی، کیونکہ صوريف میں شہر کے دیگر مضافاتی دیہاتوں کی طرح کوئی ثانوی اسکول نہیں تھا، جو لوگ اپنی ثانوی تعلیم مکمل کرنا چاہتے تھے، انہیں الخلیل میں پڑھنا پڑتا تھا، خالہ کے شوہر کی الخلیل میں تعلیم نے اسے شہر اور وہاں کے حالات سے واقف کر دیا تھا، اور اس کے وہاں بہت سے دوست تھے جو ان کے ساتھ اس اسکول میں پڑھتے رہے تھے۔
خالہ کا ایک بیٹا ہوا جس کا نام عبد الرحیم رکھا، میری ماں مالی حالت کی وجہ سے الخليل سفر کر کے خالہ کو نئے بچے کی مبارک باد دینے نہیں جا سکتی تھیں، تو انہوں نے ماموں کے گھر جا کر انہیں مبارکبادی اور ان سے کہا کہ جب وہ فتحیہ کے پاس جائیں تو ان کی طرف سے بھی مبارکباد دے دیں اور ان کا عذر پیش کر دیں، کیونکہ وہ ہماری مالی حالت اور خاندان کی حالت کو جانتی ہے ۔
میری خالہ کے شوہر عبد الفتاح اردن یونیورسٹی میں شعبہ شریعت میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سفر کی تیاری کر رہے تھے، لیکن ان کے والد کی شدید بیماری نے انہیں اس منصوبے کو ملتوی کرنے پر مجبور کر دیا، پھر والد کی وفات کی وجہ سے انہیں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ مکمل طور پر ترک کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے والد کی تجارت سنبھالنے اور ان کی زمین کا خیال رکھنے کا فیصلہ کیا اور اپنی تعلیم جاری نہ رکھنے کا غم اس بات سے دور کیا کہ وہ اپنے بھائی عبد الرحمٰن کی تعلیم میں مدد کریں گے، جو الخلیل میں طارق بن زیاد اسکول میں دوسرے سال کا طالب علم تھا۔
عبد الفتاح اکثر اپنے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر اپنی بیوی کو مغربی علاقے میں ’خربہ علین‘ کی طرف اشارہ کر کے دکھاتے تھے، جہاں 1967ء کی جنگ سے پہلے ’الجہاد المقدس‘ کے مجاہدین نے کیمپ لگائے تھے اور وہاں کے رہائشی ان کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ ایک دن صوريف کے ایک رہائشی، محمد عبد الوہاب القاضی نے، جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا، ’صناحين‘ نامی علاقے میں ایک یہودی قافلہ دیکھا جو بیت شیمش سے عتصیون کی طرف جا رہا تھا، اس نے مجاہدین کو اطلاع دی، جنہوں نے جلدی سے ’ظهر الحجة‘ نامی علاقے میں گھات لگا کر اس قافلے پر حملہ کیا اور ان سب کو مار ڈالا۔ ان میں 35 افسران، فوجی اور ڈاکٹر شامل تھے۔ اس واقع نے یہودیوں کے دلوں میں صوريف کے خلاف نفرت پیدا کر دی، اور جب 1967ء کی جنگ ہوئی، تو انہوں نے انتقام کے طور پر صوريف پر توپ خانے سے حملہ کر کے کئی گھروں کو تباہ کر دیا۔
عبد الفتاح کے تجارتی کام اور الخلیل شہر کے تاجروں اور صنعت کاروں کے ساتھ تعلقات نے انہیں ایک بڑا نیٹ ورک فراہم کیا، اپنی مجلسوں اور ملاقاتوں میں، وہ لمبی گفتگو اور تفصیلی مباحثے کرتے تھے۔ ایک دکان میں بیٹھ کر، وہ انگیٹھی کے گرد جمع ہوتے جس میں انگارے سلگ رہے ہوتے، چائے پیتے اور مزاحمت اور قبضے کے بارے میں بات کرتے۔ ان مباحث میں ہمیشہ یہ بات ظاہر ہوتی تھی کہ اس علاقے کے لوگ مزاحمت کے فائدے پر یقین نہیں رکھتے تھے اور اسے نقصان دہ سمجھتے تھے، ان کا زیادہ تر دھیان اپنے معیارِ زندگی کی سطح بلند کرنے، اقتصادی ترقی اور دولت میں اضافہ کرنے پر ہوتا تھا۔ ان کا ہمیشہ یہ کہنا ہوتا تھا کہ جب عرب فوجیں اسرائیلی فوج کے مقابلے میں ناکام ہو چکی ہیں، تو چند فدائی اپنی معمولی اسلحے اور محدود وسائل کے ساتھ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔
عبد الفتاح ان کی آراء کی کھل کر مخالفت کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے، لیکن وہ ان کی باتیں سنتے اور منطقی اور معروضی طریقے سے بحث کرنے کی کوشش کرتے، آخر میں وہ لوگ چائے پیتے ہوئے ایک گھنٹہ یا کچھ وقت بیٹھنے کے بعد رخصت ہو جاتے، ان میں سے کوئی کہتا: ہمیں اس مسئلے سے کیا لینا دینا، اللہ مالک ہے، اللہ وہی کرے گا جو بہتر ہو گا۔ اس مخصوص لہجے میں جو الخلیل کے باشندوں کی خصوصیت ہے، جہاں وہ بولتے وقت حروف کو زیادہ کھینچتے ہیں۔
ان جلسوں، حلقوں اور مجالس میں میری خالہ کے شوہر کی ملاقات ابو علی سے ہوئی جو کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کچھ کرنے کی ضرورت پر زیادہ یقین رکھتا تھا اور اس پر کہ اگرچہ مزاحمت وطن کی آزادی اور قبضہ کو ختم کرنے میں مؤثر نہیں ہو سکتی، لیکن یہ کم از کم قومی فرض کی ادائیگی ضرور ہے۔
میری خالہ کے شوہر اور ابو علی اکثر الخلیل کی سڑکوں پر پیدل پھرتے تھے، جب میری خالہ کے شوہر الخلیل جاتے یا جب ابو علی صوریف آتے تو وہ اکٹھے باتیں کرتے، باتیں زیادہ تر قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت اور صرف مال کمانے، دولت بڑھانے اور مکان بنانے میں مشغول نہ ہونے کی ضرورت پر ہوتی تھیں۔ چونکہ ان کے خیالات ملتے جلتے تھے، اس لیے ان کی دوستی بہت مضبوط ہو گئی۔ ایک دن ابو علی نے میری خالہ کے شوہر سے کہا: میں یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا، مجھے کم از کم اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔ میری خالہ کے شوہر نے پوچھا: تم کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو؟ کیا تم کوئی ہتھیار ڈھونڈ کر قبضے کی کسی گشتی پارٹی پر حملہ کرنا چاہتے ہو، پھر بھاگ کر ان مطلوب افراد جیسے ’ابو شرار‘ اور دیگر مجاہدین کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہو؟ ابو علی نے جواب دیا: نہیں! یہ میرا مقصد نہیں ہے۔ میں مزاحمت کو منظم کرنا چاہتا ہوں تاکہ اسے ایک تحریک، ایک تنظیم بنایا جا سکے۔ میری خالہ کے شوہر نے پوچھا: کیسے؟ ابو علی نے جواب دیا: میں اردن جاؤں گا اور وہاں فتح کے سامنے اپنی بات رکھوں گا، تم جانتے ہو کہ کرامہ کے بعد فتح نے اپنی جگہ بنا لی ہے اور وہ یقیناً میری تجویز کو پسند کریں گے اور مجھے اس میں مکمل مدد فراہم کریں گے۔ میری خالہ کے شوہر نے اس خیال کی تعریف کی اور ابو علی کو ہر ممکن احتیاط برتنے کی تاکید کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسے ہر قدم پر اپنا شریک سمجھ سکتے ہیں اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ ابو علی اکیلے سفر کرے گا اور اپنے سفر کے لیے ایک تجارتی بہانہ بنائے گا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔
اس دوران اردن میں کرامہ کی فتح کے بعد پورا ملک مزاحمت کے تابع تھا اور مہاجر کیمپوں میں فتح کی کامیابی کا جشن منایا جا رہا تھا، ہر کوئی فدائیوں کے حق میں نعرے لگا رہا تھا اور قومی تحریک آزادی فلسطین کے لیے دعا گو تھی۔ ابو علی جیسے شخص کے لیے یہ مشکل نہ تھا کہ وہ وہاں فدائی قیادت تک پہنچے اور ان کے ساتھ مغربی کنارے کے ہر علاقے میں فتح کی عسکری سیلز منظم کرنے کا معاہدہ کرے۔ اسے اس مقصد کے لیے مالی اور عسکری امداد فراہم کی گئی، کچھ رشتہ داروں سے ملنے کے بعد ابو علی نے کچھ تجارتی معاملات نپٹائے تاکہ اپنی اصل مشن کو خفیہ رکھ سکے، پھر وہ مغربی کنارے واپس آیا اور مختلف شہروں میں اپنے جان پہچان والے نوجوانوں سے رابطہ کرنا شروع کیا۔
جو بھی فتح تحریک کے صفوں میں شامل ہوتا تو اس سے درخواست کرتے کہ وہ اپنے دو یا تین قابل اعتماد دوستوں کو بھی شامل کریں جو قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے تیار ہوں، یہ عمل شمالی مغربی کنارے سے لے کر الخلیل تک اور دیہاتوں اور قصبوں تک پھیلا۔ جب بھی کوئی قابل اعتماد شخص ملتا، اسے یہ تجویز دی جاتی اور اگر وہ تیار ہوتا، تو اسے ایک سیل تشکیل دینے کی ہدایت دی جاتی۔ عبد الفتاح کو جو کہ میری خالہ کے شوہر تھے، ہتھیار جمع کرنے کی ذمہ داری دی گئی کیونکہ ان کی تجارت ان کے لیے ایک بہترین پردہ تھی، اس طرح تھوڑے وقت میں، مختلف شہروں میں سیلز اور گروپس بننے لگے۔ یہ گروپس چھوٹی چھوٹی گوریلا کارروائیاں کرنے لگے جیسے کہ فوجی گاڑیوں پر دیسی بم پھینکنا، ان پر گولیاں چلانا یا دور سے نشانہ بازی کی کوششیں، جیسا کہ ہر مزاحمتی تحریک میں ہوتا ہے۔ ایک سیل میں کوئی عملی مسئلہ پیش آیا اور سیل کے افراد کو گرفتار کر لیا گیا، تفتیش کے دوران کچھ نے اعتراف کیا اور مزید لوگوں کی گرفتاری ہوئی، اس طرح معاملہ ابو علی تک پہنچ گیا اور اسے گرفتار کر کے الخلیل جیل کے تفتیشی کمروں میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ابو علی نے بڑی مردانگی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور اس نے کسی بھی چیز کا اعتراف کرنے سے انکار کر دیا جس کا ذکر کچھ نوجوانوں نے تفتیش کے دوران کیا تھا۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے ابو علی کے تعلقات اور دوستوں کے بارے میں تحقیق کی اور میرے خالہ کے شوہر کو گرفتار کر لیا، ان کے گھر کی تلاشی لیتے ہوئے، انہوں نے کافی توڑ پھوڑ کی، میری خالہ اور ان کے چھوٹے بیٹے عبد الرحیم کو بھی مارا پیٹا گیا۔ خالہ کے شوہر کو الخلیل کی جیل میں لے جایا گیا اور تفتیش اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان سے ابو علی کے بارے میں پوچھا گیا اور یہ کہ ابو علی نے ان کے خلاف اعترافی بیان دیا ہے۔ اس بات پر انہوں نے انکار کیا، اس کے نتیجے میں انہیں چھے ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی اور ابو علی کو نوجوانوں کے اعترافات کی بنیاد پر پانچ سال کی سزا دی گئی۔
یہاں سے میری خالہ کی جیل کے ایک نئے عالم میں داخل ہونے کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ وہ ہر ماہ اپنے شوہر سے ملنے جاتی تھیں۔ ملاقات کے دن وہ صبح سویرے اٹھتیں، اپنے بچے کو تیار کرتیں اور گاؤں کے مرکز کی طرف روانہ ہو جاتیں۔ یہاں سے وہ گاڑی پکڑتیں، جو گاؤں سے کم ہی گزرتی ہے اور شہر خلیل کی طرف جاتی ہے، پھر وہ ایک لمبا سفر طے کرتیں، تاکہ عمارت پہنچ سکیں، جو کہ اس الخلیل جیل اور شہر کی فوجی حکومت کا مرکز ہے، وہاں وہ سینکڑوں لوگوں کو دیکھتیں جو اپنے قیدیوں سے ملنے آئے ہوتے ہیں، وہ ہاتھ میں اپنا شناختی کارڈ تھامے عورتوں کی قطار میں کھڑی ہوتیں کہ شاید انہیں پہلے گروپ میں موقع مل جائے۔ لیکن اگر جیل کا سپاہی اعلان کر دے کہ گروپ مکمل ہو چکا ہے تو اسے دوسرے گروپ تک انتظار کرنا پڑتا۔
دیوار میں چھوٹے سے سوراخ تک پہنچ کر وہ اپنا شناختی کارڈ سپاہی کو دیتیں جو دیوار کے پیچھے چیکنگ، تصدیق اور رجسٹریشن کے لیے بیٹھا ہوتا۔ پھر وہ پاس والا دروازہ کھولتا اور وہ خواتین کے حصے میں داخل ہو جاتیں جہاں ایک عورت تفصیلی تلاشی لیتی۔ خالہ اپنا غصہ ضبط کرتیں کیونکہ وہ ملاقات ضائع نہیں کرنا چاہتیں تھیں، کیونکہ اس وقت ابو عبد الرحیم ان کا انتظار کر رہے ہوتے اور وہ بھی اور ان کا بیٹا عبد الرحیم بھی ابو عبد الرحیم سے ملنے کے مشتاق ہوتے، اس لیے اس حقیر سپاہی سے الجھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ تلاشی کے بعد زائرین کو ایک کمرے میں جمع کر دیا جاتا، پھر انہیں لمبی راہداریوں اور نیم اندھیرے دالانوں سے گزارتے ہوئے ملاقات کی جگہ پر لے جایا جاتا جہاں ایک دیوار میں کھڑکیاں ہوتیں جن پر لوہے کی جالیاں لگی ہوتیں۔ ہر کھڑکی کے پیچھے ایک قیدی کھڑا ہوتا اور ملاقاتی اپنے عزیز قیدیوں کو تلاش کرتے، جب وہ انہیں نظر آ جاتے تو ان کی کھڑکی کے پاس چلے جاتے، جب والد اپنے بچے کو کھڑکی کے پیچھے دیکھتے لیکن گلے نہ لگا پاتے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے، بیوی یا ماں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں جب وہ اپنے شوہر یا بیٹوں کو سلاخوں کے پیچھے دیکھتیں، انہیں کیا معلوم کہ ان کے ساتھ ان بے رحم دیواروں کے پیچھے کیا ہوتا ہے۔ لوگ سفر کی تھکن، انتظار اور تلاشی سے ابھی سکھ کا سانس بھی نہیں لے پاتے تھے، نہ ہی اپنے شوہروں، بیٹوں اور عزیزوں کی خیریت ہی صحیح سے معلوم کر پاتے کہ جیل کے سپاہی جو قیدیوں اور ملاقاتیوں کے پیچھے کھڑے ہوتے، تالیاں بجانا شروع کر دیتے اور چلّانے لگتے کہ ملاقات ختم ہو گئی، وہ قیدیوں کو اس لوہے کے دروازے کے پیچھے کھینچنے لگتے اور ملاقاتیوں کو باہر نکال دیتے۔ پہلے ماہ کی ملاقات میں خالہ کے شوہرنے اپنے آنسو ضبط کیے تاکہ سپاہی انہیں دیکھ کر مزید خوش نہ ہوں، اور انہوں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اپنی بیوی کو حوصلہ دیا کہ رہائی قریب ہے، صرف پانچ ماہ اور باقی ہیں، انہوں نے عبد الرحیم کا خیال رکھنے اور گھر کی دیکھ بھال کرنے کی تاکید کی اور سب کو سلام پہنچانے کا کہا، خالہ نے اپنے سر کے سفید اور کناروں سے کڑھے ہوئے دوپٹے کے کونے سے اپنے آنسو پونچھے اور کہنے لگیں: کوئی بات نہیں، بس تم حوصلہ رکھو اور فکر نہ کرو، خدا حافظ۔
گلی کوچوں، دیہاتوں اور کیمپوں میں نئے گروپس اور جماعتیں مغربی کنارے کے شہروں، دیہاتوں اور خرابوں میں منظم ہو رہی تھیں، نوجوان وادیوں کی گہرائیوں میں یا بلند پہاڑوں کے پیچھے جا کر حال ہی میں ملنے والے یا اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملے ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت لے رہے تھے، اور فوراً دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے، وہ بے صبری سے اس لمحے کا انتظار کر رہے تھے جب وہ ہتھیاروں سے لیس ہو کر دشمن کا سامنا کریں گے، چاہے وہ ہتھیار کتنے ہی کمزور اور سادہ کیوں نہ ہوں یا انہیں استعمال کرنے کا تجربہ کتنا ہی نا کافی کیوں نہ ہو، لیکن نوجوانوں کے دل جوش و جذبے سے بھرے ہوئے تھے۔
جس زمانے میں شدید سردی تھی، میری خالہ کے شوہر اور ابو علی چند تاجروں کے ساتھ ایک دکان میں ملتے تھے، چائے پیتے تھے اور لڑائی کی خبروں اور ان دونوں کی گرفتاری پر گفتگو کرتے تھے، کئی تاجر اس بات پر متفق تھے کہ ان کا عمل بے کار تھا اور ان کی گرفتاری ان کی رائے کی سچائی کا ثبوت ہے۔ ایک تاجر نے حساب لگایا کہ میری خالہ کے شوہر نے قید میں کتنے دن گزارے اور اس دوران وہ روزانہ تین اسرائیلی لیرے کما سکتے تھے، یعنی انہوں نے کم از کم پانچ سو لیرے گنوا دیے، اس کے علاوہ انہیں اور ان کے خاندان کو ذلت اور بے توقیری کا سامنا کرنا پڑا، معاشی بدحالی اور اس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کے مزاحمت یا تخریبی کام کرنے کی وجوہات کے پیش نظر، اسرائیلی قائدین نے سوچا کہ انہیں بتدریج کام کے مواقع فراہم کیے جائیں، اس کے ساتھ ساتھ سخت سکیورٹی جانچ پڑتال کے بعد انہیں اجازت دی جائے، اس اعلان کے بعد، پاسپورٹ اور پرمٹ دفاتر نے 1948ء میں مقبوضہ علاقوں میں کام کے لیے درخواست دینے والے مردوں کی درخواستیں قبول کرنا شروع کر دیں، اس اقدام نے فلسطینی عوام میں شدید بحث و مباحثے کو جنم دیا۔
ہمارے محلے کے چوراہے پر جہاں مرد حضرات بیٹھتے تھے، میرے دادا بیماری اور بڑھتی عمر کے باوجود، روزانہ کی اس مجلس میں شرکت کرتے تھے، اس معاملے پر بھی بات چیت کی گئی، لوگوں کی رائے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، کچھ نے شدید مخالفت کی، کیونکہ دشمن کی ریاست کی تعمیر اور مضبوطی میں حصہ لینا کیسے جائز ہو سکتا ہے، جبکہ دشمن کے فوجی ہمارے وطن اور ہمارے لوگوں کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہے ہیں، کچھ لوگوں نے اس کو غداری کی ایک شکل قرار دیا، جبکہ حقیقت پسند لوگ سمجھتے تھے کہ حقیقت نے خود کو مسلط کر دیا ہے اور اسرائیل کی ریاست قائم ہو چکی ہے، جسے چند سو یا ہزاروں مزدوروں کے نہ کام کرنے سے نہ توڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اور ساری بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو اس زاویے سے دیکھنا ضروری ہے کہ کچھ گھرانے ایسے ہیں جنہیں روٹی کا نوالہ اور بچوں کے لیے دودھ کی بوند کی ضرورت ہے اور ہمیں وہ بھی نہیں ملتی اور (اسرائیل) میں کام کرنا، اگرچہ مشکل اور کڑوا ہے، لیکن دوسرے زاویے سے ہمارے لوگوں کے کیمپوں اور دیہاتوں میں رہائش برقرار رکھنے کے لیے ایک قومی فرض بھی ہے تاکہ انہیں بحالت مجبوری ہجرت نہ کرنی پڑے، لیکن الخلیل کے اس بازار میں اسرائیل میں کام کرنے کو قبول کرنا زیادہ قابل قبول تھا کیونکہ وہاں کے لوگ حساب کتاب کو بہت بہتر طریقے سے سمجھتے تھے، یہاں اعداد و شمار کا کھیل تھا اور لوگوں کے لیے کام کے مواقع کھولنا ملک کی معیشت کو فروغ دیتا تھا، جس سے ملک کا معیار ہر شعبے میں بلند ہوتا تھا اور ہمارے لوگوں کی زمین سے وابستگی اور مضبوطی میں اضافہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ عملی طور پر تبدیلی کا حکم دے دے۔
خاص طور پر کیمپوں میں رہنے والے مزاحمت کے لوگوں نے بالخصوص الشاطی کیمپ نے اسے جرم سمجھا، انہوں نے ان لوگوں کے بارے میں معلومات جمع کرنا شروع کیں جنہوں نے اجازت نامے حاصل کیے اور ان اجازت ناموں کو مزدوروں سے جمع کر کے تباہ کرنا شروع کیا، اور اس کے خطرات اور قومی وابستگی کے خلاف ہونے کی وضاحت کی، کبھی کبھار، اجازت نامے کے حامل کو پیشانی پر کئی بار بانس کی چھڑی سے مارا جاتا یا اسے تھپڑ مارا جاتا یا سخت سرزنش کی جاتی اور بعض اوقات دیکھنے میں آتا کہ ان مزدوروں میں سے ایک قائل کرنے کی کوشش کر کرتا اور اپنا اجازت نامہ دینے سے انکار کردیتا، اپنے پیچھے موجود اپنے بھوکے آٹھ بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا کہ اقوام متحدہ جو امداد دیتی ہے وہ کچھ بھی نہیں اور وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں، اور وہ ان فدائیوں سے جو اس کا اجازت نامہ لینا چاہتے، درخواست کرتا کہ اس کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا اجازت نامہ چھوڑ دیں اور اسے کام کرنے کی اجازت دیں، لیکن وہ انکار کر دیتے اور اجازت نامہ لینے پر اصرار کرتے لیکن ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں آنسو بھی بھر آتے جب وہ دیکھتے کہ کس قدربڑا تضاد ہے۔ اس تلخ حقیقت اور اس کی ضروریات اور مطالبات کے درمیان اور قومی خواہشات کی بلند چوکھٹ کے درمیان، شاید انہوں نے اس پر بعد میں بات چیت بھی کی ہو گی جب وہ چلے گئے، اور انہوں نے اس آدمی کا اجازت نامہ پھاڑ دیا حالانکہ وہ اس پر شرمندگی بھی محسوس کر رہے تھے ۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 اسرائیلی لیرۃ، اسرائیل کی سابقہ کرنسی تھی جو 1980ء تک استعمال ہوتی رہی، 1980ء میں، اسرائیلی لیرۃ کی جگہ “اسرائیلی شیکل ” نے لے لی، اور بعد میں 1985ء میں “نیا شیکل” متعارف کرایا گیا۔ اسرائیلی لیرۃ کا استعمال اسرائیل کے قیام کے بعد شروع ہوا تھا اور یہ ملک کی ابتدائی معاشی تاریخ کا حصہ ہے، اس کرنسی کی تبدیلی اور نئے شیکل کی متعارف کرانے کا مقصد تھا کہ ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جائے اور افراط زر کو کنٹرول کیا جائے، آج اسرائیل کی موجودہ کرنسی ’ نیو اسرائیل شیکل‘ ہے جو کہ عالمی مالیاتی نظام میں بھی قبول کی جاتی ہے۔
2 اسرائیلی اغورات (agorot) اسرائیلی کرنسی کا ایک حصہ ہیں، اسرائیلی کرنسی شیکیل (shekel) ہے، اور ایک شیکیل کو 100 اغورات (agorot) میں تقسیم کیا جاتا ہے، یعنی اغورات شیکیل کے چھوٹے یونٹس ہیں، جیسے کہ امریکی ڈالر میں سینٹس ہوتے ہیں، اغورات کے مختلف سکے ہیں، جیسے 10 اغورات، 50 اغورات وغیرہ، یہ سکے اور نوٹ اسرائیل کے مرکزی بینک، بینک آف اسرائیل، کی طرف سے جاری کیے جاتے ہیں۔
3 طربوش (Tarbush) ایک روایتی ٹوپی ہے جو عام طور پر سرخ رنگ کی ہوتی ہے اور اس کے اوپر ایک لٹکن لگی ہوتی ہے۔ یہ ٹوپی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک میں بالخصوص خلافت عثمانیہ کے دور میں بہت مقبول تھی۔ مصر میں جامعہ ازہر کے شیوخ اور دیگر روایتی لباس پہننے والے اسے پہنتے ہیں۔ (ادارہ)