نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

میٹھے زہر اور بدلتا معاشرہ

اریب اطہر by اریب اطہر
14 مارچ 2025
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, جنوری و فروری 2025
0

گزشتہ عرصے میں پنجاب پولیس کی جانب سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر وائرل کی جارہی تھیں جن میں ایس ایچ او وردی میں کبھی جمعے کا خطبہ دے رہا ہے تو کبھی کوئی درس ۔ بعض ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں جن میں وہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو گالیوں سمیت دھمکیاں دے رہے ہیں کہ فلاں گروپ کی سوشل میڈیا پر کوئی حمایت نہ کرے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ میں پولیس افسران کی اکثریت انتہا درجے کی بدکار ، شرابی و زانی افراد کی ہے۔ اب ایسے افراد کو مسجد کا منبر ملنے کے کیا معنی ہیں یہ بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ بہرحال اب معاملہ لیڈیز پولیس تک آچکا ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عمار خان ناصر نے تصویر کیساتھ پوسٹ کیا :

’’خاتون ASP شہر بانو نقوی کی لاہور کی ایک مقامی مسجد میں کھلی کچہری کی وائرل تصویر پہ عوام کی شدید تنقید۔ کیا ایک خاتون کا اس طرح مسجد میں آ کر مجمع لگانا جائز ہے ؟ علماء سے فتوی طلب۔‘‘

یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ خاتون ایک طرف محسن نقوی کی رشتہ دار ہونے کے سبب میڈیا کوریج پاتی رہی، دوسری جانب اس نے ٹرانس جینڈرز (اپنی جنس بدلنے والے افراد) کے لیے بھی کافی ایکٹیویزم دکھائی۔ ایسے میں عمار خان ناصر کا طنزیہ سوال یا اعتراض بالکل حق بجانب تھا۔ لیکن عمار خان کے اس تبصرے پر جہاں ایک طرف نام نہاد روشن خیال سیکولر و لبرل صحافیوں اور دیگر افراد نے اپنی نفرت و بغض کا اظہار کیا اور بعض نے اسے اسلامی روایات کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی تو وہیں چند دیندار افراد بھی سیخ پا ہوئے اور ایسا جواب دیا جیسا عموما ملحد،سیکولر اور دین بیزار افراد کی جانب سے عموما آیا کرتا ہے۔ انہی میں ایک مذہبی شناخت رکھنے والے صحافی بھی شامل ہیں جو ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت کے حامی بھی ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں :

’’خاتون آفیسر مسجد میں مجمع نہیں لگا سکتی، مسجد میں مجمع لگانے کا اختیار صرف مولوی صاحب کے پاس ہے، کہنا آپ یہ چاہ رہے ہیں۔ حالانکہ دین اسلام کی تعلیمات اس کے برعکس ہیں جو ہمیں نہیں بتائیں گے۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں عیسائی تشریف لائے انہوں نے آپ سے اجازت مانگی کہ وہ اپنی عبادت کرنا چاہتے آپ نے انہیں مسجد کے اندر اپنی عبادت کرنے کی اجازت دی۔ایک وہ دین اسلام کی تعلیمات تھیں اور ایک یہ ہیں جو ایک مسلمان خاتون کے مسجد آنے پر سیخ پا ہیں اور دیگر مسلمانوں کو متشدد بنایا جا رہا ہے۔افسوس!‘‘

عمار خان کی پوسٹ پر جہاں چند معروف صحافیوں سمیت بہت سے افراد نے اسے لعن طعن کا نشانہ بنایا وہیں میرے لیے یہ شدید حیرانگی کی بات تھی کہ اب مذہبی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس نام نہاد روشن خیالی کی ڈگر پر چلنے لگے ہیں اور وہ انداز اختیار کرنے لگے ہیں جو سیکولرز اور ملحدین کا خاصہ تھا۔ اور یہ ہوش اڑا دینے والی تبدیلی آئی کیسے؟ جس نے عام دنیادار افراد کو ہی نہیں اچھے بھلے دیندار افراد کو اس طرح بدل ڈالا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اور انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ پھر عام افراد اور ان میں نوجوان نسل ان فتنوں سے کس طرح بچ پائے گی؟

حضرت حذیفہ بن یمان ﷜فرماتے ہیں لوگوں کے دلوں پر فتنے اس طرح پھیلا دئیے جائیں گے جس طرح چٹائی پھیلائی جاتی ہے، جو دل ان کا انکار کرے گا اس کے اندر ایک سفید داغ لگا دیا جائے گا اور جو ان میں شامل ہوگا اس کے دل میں ایک سیاہ داغ لگا دیا جائے گا اور لوگوں کے قلوب دو طرح کے ہو جائیں گے، اس کے بعد آپ ﷜ نے ایک سفید اور ایک کالا پتھر ہاتھ میں لیا اور کہا اس طرح دو طرح کے ہو جائیں گے ، ایک تو صاف شفاف پتھر کی طرح سفید ہوگا، جب تک آسمان و زمین رہیں گے کوئی بھی فتنہ اس کے لیے نقصان دہ نہ ہوگا اور دوسرا ٹیڑھے برتن کی طرح کالا ہوگا، اور اپنے ہاتھ سے پتھر کو ٹیڑھا کرکے دکھایا، یہ دل نہ تو کسی اچھی بات کو سمجھ سکے گا اور نہ کسی بری بات پر نکیر کرے گا ، سوائے اس کے جو اس کی نفسانی خواہشات کے مطابق ہو۔ لیکن ان سب سے پہلے ایک بند دروازہ ہے اور یہ دروازہ ایک ایسا شخص ہے جو قریب ہے کہ شہید ہو جائے یا اپنی موت مرے ۔1

بظاہر ایسے لگتا ہے کہ جو دیندار حضرات ایسا مؤقف اختیار کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے شاید انہیں صحافتی حلقوں میں زیادہ پذیرائی ملے گی۔ کچھ یہی تبدیلی ہمیں بعض اوقات مذہبی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ جو افعال آج سے ایک یا دودہائی پہلے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتے تھے کہ کوئی سرانجام دے گا آج اسے دیندار افراد سرانجام دیتے نہیں ہچکچا رہے۔ ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت کے بڑے اور مشہور و معروف رہنما فاحشہ ٹک ٹاکر کو شال پیش کرتے اوڑھاتے ویڈیو بنوارہے ہیں۔ بے پردہ خواتین کی تصاویر اور ویڈیوز اب مذہبی سیاسی جماعتوں کے آفیشل اکاؤنٹس سے بھی خوب شئیر ہوتی ہیں۔ شاید اس سے انہیں موجودہ جمہوری نظام میں اپنا سافٹ امیج بنانے میں مدد ملتی ہوگی ۔

حضرت علی ﷜سے مروی ہے کہ جب دل کی کیفیت ایسی ہو جائے گی کہ نہ معروف کو پہچان سکے اور نہ منکر پر ٹوک سکے تو اسے پلٹ دیا جائے گا۔2

ایک دفعہ ایک پاکستانی ائیرلائن ’ائیر بلیو‘ کی پرواز کے دوران ایک پاکستانی جوڑا سرعام بوس وکنار کرنے لگا۔ انکی سیٹ کے پیچھے ایک شخص اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھا تھا۔ انتظامیہ کو شکایت کی تو انہوں نے اس جوڑے کو باز رکھنے کی بجائے انہیں ایک کمبل دے دیا۔ سفر کے اختتام کے بعد جب ائیر لائن سے اس متعلق شکایت کی گئی اور یہ معاملہ نیوز اور سوشل میڈیا تک پہنچا تو شکایت کرنے والے شخص کے خلاف پاکستان کے لبرل طبقے نے اس طرح مہم چلائی اور مذاق اڑایا جیسے اصل قصوروار وہی ہو۔ ایک معروف خاتون صحافی عفت رضوی نے بھی اس لعن طعن میں حصہ ڈالتے ہوئے شکایت کرنے والے نوجوان کے متعلق کہا کہ انتظامیہ کو کمبل اس جوڑے کی بجائے اس نوجوان پر اوڑھانا چاہیے تھا ۔ اسکے علاوہ ایک بڑی تعداد تھی جو مختلف زاویوں سے شکایت کرنے والے نوجوان کو غلط ثابت کرنے پر تلی تھی۔ یہ وہ رویہ ہے جس کا سامنا آج مسلم ممالک میں ہر اس شخص کو کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی برائی پر تنقید کرے یا روکنے کی کوشش کرے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو ایک میٹھے زہر کی مانند بذریعہ تعلیم، میڈیا اور بذریعہ سیاسی نظام لوگوں کی زندگیوں میں مسلسل گھولی جارہی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان فتنوں اور اس میٹھے زہر کو شناخت کرسکتے ہیں اور خود بھی اس سے بچتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچانے کی فکر کرتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں مومن کا دل ایسے پگھلے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا ہے کسی نے پوچھا: یہ کس وجہ سے؟ آپ نے فرمایا: یہ اس وجہ سے کہ وہ کسی برائی کو دیکھے گا (مگر) اسے ہٹا نہ سکے گا۔ 3

حضرت حذیفہ ﷜نے فرمایا فتنہ کے اندر حق وباطل دونوں چیزیں غلط ملط ہو جائیں گی لہذا جو شخص حق کو پہچان لے گا فتنہ اس کو نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔4

ایک اور روایت میں ہے حضرت حذیفہ بن یمان ﷜نے فرمایا فتنہ لوگوں کے دلوں پر مسلط ہو جائے گا چنانچہ جو شخص اس کو رواج دے گا اس کے دل میں نقطہ کے مانند ایک کالا نشان لگا دیا جائے گا اسی طرح جو شخص اس کا انکار کرے گا اس کے دل پر ایک سفید نشان لگا دیا جائے گا۔ تو کون ہے جو جاننا چاہتا ہے کہ کون اس فتنہ میں مبتلا ہوگا اور کون محفوظ رہے گا ؟ اس کو چاہیے کہ غور کرلے چنانچہ جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے گا وہ اس فتنہ سے دوچار ہوگا ، انسان صبح تو اس حال میں کرے گا کہ وہ بینا ہوگا لیکن شام اس حال میں کرے گا کہ وہ اندھا ہوچکا ہوگا ۔5

ابو مسعود انصاری نے حضرت حذیفہ ﷜سے درخواست کی کہ ہمیں کوئی نصیحت فرمادیں جس پر ہم مضبوطی سے عمل کریں، انہوں نے فرمایا: حقیقی گمراہی یہ ہے کہ تم جس کو منکر (برائی) سمجھتے تھے اس کو معروف (بھلائی) سمجھنے لگو اور جس کو معروف سمجھتے تھے اس کو منکر کہنے لگو ، لہذا اس وقت جس پر تم ہو اس کو مضبوطی سے پکڑ لو کیونکہ اس کے بعد کوئی بھی فتنہ تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا ۔6

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ، تعلیمی نظام اور پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام و قوانین عالمی قوتوں کی پاکستان میں بے دینی کے فروغ کے لیے جس طرح اور جس قدر سہولت کاری کررہے ہیں وہ ایک طرف لیکن ان سب کے علاوہ اگر غیر ملکی این جی اوز کے مواد پر بھی نظر ڈالی جائے تو بخوبی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا مقصود لوگوں کی دنیاوی فلاح بھی ہرگز نہیں ہے بلکہ اصل مقصود وہ الحاد اور بے دینی ہے جو ان کی ڈوریں ہلانے والوں کا عالمی ایجنڈا ہے۔ ایک عزیز جو فلاحی اداروں کے کاموں میں کافی دلچسپی لیا کرتے تھے اس نیت سے کہ لوگوں کی مدد کرنے اور ان کی زندگیاں بہتر بنانے کا موقع ملے گا کچھ تگ و دو کے بعد ایک این جی او میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ این جی او ملک بھر کی جیلوں میں کورسز کروارہی تھی ۔ ان صاحب کی بھی ایک جیل میں تعیناتی ہوئی ۔ یہ صاحب بتاتے ہیں کہ مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ اس این جی او کا کمپیوٹر کورسز یا کسی اور طرح کی skill development کا کوئی پروگرام نہیں تھا بلکہ قیدیوں کی کونسلنگ اور انہیں بظاہر بھلائی اور اچھائی کی طرف راغب کرنے اور مفید شہری بنانے کا دعوتی مواد ترتیب دیا گیا تھا لیکن اس پورے مواد میں کسی اسلامی اصطلاح ، گناہ اور آخرت کی جواب دہی کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ اس پورے مواد میں اگر کوئی اچھی بات بتائی بھی گئی تھی تو وہ سیکولرزم و لبرلزم کی حدود میں رہتے ہوئے۔ شراب نوشی کے متعلق یہ نہیں کہا گیا کہ یہ حرام ہے بلکہ بتایا گیا کہ اس کی بے اعتدالی سے بچیں۔ میاں بیوی اور ازدواجی تعلقات کے بجائے پارٹنر کا لفظ استعمال کیا گیا اور پارٹنر سے وفاداری کی ترغیب دی گئی۔ غرض پورا مواد سیکولر و لبرل پیمانے کے مطابق ایک اچھے شہری کا تربیتی کورس ہے۔ ان کتابچوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے جیلوں کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر بانٹنے اور پھیلانے کی غرض سے تیار کیا گیا تھا۔ آج ہمیں پاکستانی معاشرے میں ایسے بہت سے افراد بکثرت نظر آتے ہیں جو انسانی حقوق کے نام پر کبھی قادیانیت کا مقدمہ لڑتے نظر آتے ہیں تو کبھی ٹرانس جینڈر اور عورت مارچ ٹائپ تحریکوں کا۔

ایک فتنہ بے حسی کا بھی ہے جس نے مسلمانوں کو پہلے مختلف لکیروں میں قید کرکے لفظ امت کے مفہوم سے ہی نا آشنا کر دیا تھا اور اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اپنے اطراف، اپنے ملک، اپنے شہر، اپنے پڑوس سے لاتعلق ہیں چہ جائیکہ وہ فلسطین ، شام ، عراق ، یمن، صومالیہ ، انڈیا و چین مین ظلم سہتے مسلمانوں کے متعلق خیرخواہی کی حسرت کریں۔

حضرت تمیم داری ﷜سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دین تو سرا سر خیرخواہی کا نام ہے، صحابہ ﷢ نے پوچھا یا رسول اللہ! ﷺ کس کے لئے؟ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کے لئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے۔7

حضرت جریر﷜ سے مروی ہے کہ قبول اسلام کے وقت میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کوئی شرط ہو تو وہ مجھے بتادیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز پڑھو، فرض زکوٰۃ ادا کرو، ہر مسلمان کی خیرخواہی کرو اور کافر سے بیزاری ظاہر کرو۔8

ایک اور روایت میں ہے کہ مومن مومن کا بھائی ہے جو اس کی خیرخواہی سے کبھی نہیں اکتاتا۔9

’’مومن آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور ایک دوسرے کو چاہنے والے ہیں خواہ ان کے وطن اور جسم جدا جدا ہوں اورفاسق لوگ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے والے ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہتے ہیں خواہ ان کی جائے سکونت اور جسم ایک جگہ ہوں۔‘‘10

آج فقط اپنا گھر ، کاروبار، نوکری، روزگار اور اپنے بچے، یہی کل دنیا ہے۔ کسی کو اس کے بوجھ نے ایسا مارا کہ اس کے پاس سر کھجانے اور کچھ سوچنے اور فکر کرنے کی ہی فرصت یا سکت ہی نہیں اور جنہیں آسودگی میسر آئی وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ میسر ہے اسے ہی محفوظ بنایا جائے۔ لہذا ایسے لوگوں سے دور رہنے میں ہی وہ عافیت سمجھتے ہیں جو لوگ امت کے مسائل کی بات کرتے ہیں۔ اگر کوئی انہیں اس طرف توجہ دلانے کی کوشش بھی کرے تو وہ ایسا ردعمل دیں گے جیسے یہ بات کرنے والا احمق اور مجنون ہے۔

حضرت ابن عمر ﷠سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد میری امت کو ایسے فتنے ڈھانپ لیں گے کہ آدمی کا دل اسی طرح مردہ ہو جائے گا جیسے اسکا جسم۔11

فلسفہ عدم تشدد ، اور پرامن جدو جہد جسے عالمی طاقتوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مسلم معاشروں میں اس طرح پھیلایا ہے کہ اب سیکولر و لبرل جماعتیں ہی نہیں مذہبی سیاسی جماعتیں، ان کی قیادتیں اور ان کے کارکنان اس فلسفے کے خلاف ایک لفظ سننا گوارا نہیں کرتے۔ اس فلسفے کی پیروی کرنے میں حقیقتاً سچائی ہوتی تو اس کی جھلک ان کی ذاتی زندگی میں بھی نظر آنی چاہیے تھی۔ وہ افراد جو نفاذ اسلام کی جدو جہد کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں کو لعن طعن کا نشانہ بناتے ہیں اگر ان کی ذاتی زندگی میں کسی جائداد کا کوئی مسئلہ ہو جائے، کسی سے لین دین کا مسئلہ ہو جائے، وہاں انہیں ہتھیار اٹھاتے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوگی۔ یعنی آپ کی ذات کا یا کسی دنیاوی فائدے کا کوئی مسئلہ ہو تو ہتھیار اٹھانا معیوب بات نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی ذات کی بجائے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے لیے اور دینی فریضے کی ادائیگی کے لیے ہتھیار اٹھائے تو وہ قابل ملامت ہوا؟ ایک ایسے ہی صاحب نے ایک معمولی پراپرٹی کے لیے اپنے سگے بھائی کو قتل کیا۔ اور ایسی لاتعداد مثالیں ہیں کہ سگے خونی رشتہ دار ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں۔

حضرت ابوامامہ﷜ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تمہاری عورتیں سرکش اور تمہارے نوجوان فاسق ہوجائیں گے اور تم جہاد چھوڑ بیٹھو گے؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا یہ (واقعی) ہونے والا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ہاں ہونے والا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس سے زیادہ سخت کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: تمہاری اس وقت کیا حالت ہوگی، جب تم نیکی کا حکم نہیں دو گے اور برائی سے نہیں روکو گے؟ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ ہونے والا ہے آپ نے فرمایا: ہاں، جس ذات کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس سے بھی سخت چیز پیش آنے والی ہے؟ لوگوں نے کہا: یارسول اللہ! کیا ایسا ہونے والا ہے آپ نے فرمایا: ہاں، اس سے بھی سخت چیز پیش آنے والی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مجھے اپنی ذات کی قسم! میں ان کے لیے ضرور فتنہ پیدا کروں گا، جس میں بردبار شخص بھی حیران ہوجائے گا۔ 12

ایک بڑا فتنہ جس کا زہر ہم خود اپنے ہاتھ سے ہی نئی نسل کو منتقل کررہے ہیں وہ موبائل کا فتنہ ہے۔ آج بچے ہوش سنبھالنے سے قبل موبائل اور انٹرنیٹ کی دنیا تک پہنچ رہے ہیں جہاں سب کچھ ان کی دسترس میں ہے۔ اگر اس فتنے سے انکو محفوظ رکھنے کے لیے ہم نے کوشش نہیں کی، اس کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش نہیں کی تو یہ بالکل ناممکن ہے کہ بچے انٹرنیٹ اور اس کی خرافات سے خود کو بچا سکیں۔ اسکے علاوہ کارٹونز اور ویڈیو گیمز بھی کم مصیبت نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2020/21 میں صرف لاہور شہر میں اٹھارہ ماہ کے دوران 12 ہلاکتوں کا تعلق پب جی گیم سے تھا۔ لاہور پولیس کے ریکارڈ کے مطابق 18 جنوری 2022 کو کاہنہ میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کو ان کے تین بچوں سمیت قتل کرنے پر چھان بین کی تو مقتولہ کے 14 سالہ بیٹے زین علی کو حراست میں لیا گیا جس نے مبینہ طور پر اس گیم سے متاثر ہو کر یہ واردات کی۔ اسکے علاوہ خودکشیوں کے کئی واقعات ہیں اور وجہ صرف یہی تھی کہ والدین نے پب جی گیم سے منع کیا۔ سیلفی اور ویڈیوز کے شوقین نوجوان خطرناک جگہوں اور کچھ منفرد کر دکھانے کے شوق میں بھی جان گنوارہے ہیں۔ منشیات بچوں کے سکولوں تک پہنچ چکی ہے۔ کبھی خبر دیکھنے کو ملتی ہے کہ سکول وین کے ڈرائیور نے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تو کبھی خبر ملتی ہے کہ گلی میں گھر کے سامنے کھیلتے بچے کو کسی شخص نے قریب ہی کسی جگہ لے جاکر زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اکثر و بیشتر جرم چھپانے کی غرض سے ایسے بچے بچیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کبھی لاش کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہوجاتی ہے تو کبھی لاش بھی نہیں ملتی اور کچھ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ بچہ یا بچی کہاں گئی۔ قصور میں ہزاروں بچوں کے جنسی استحصال اور پھر ان کی ویڈیوز کی ڈارک ویب پر فروخت کا سکینڈل تو عالمی توجہ کا مرکز بنا اور ہمارے نظام انصاف اور سکیورٹی اداروں کے منہ پر کالک ملتا رہا۔ چند ماہ قبل ‏کرم پولیس کی ایک بڑی کاروائی میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے۔ ملزم سید طاہر قبادشاخیل 73 بریگیڈ سمیت ایف سی، ایم آئی، وغیرہ کو معصوم بچے سپلائی کرتا تھا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں پاراچنار کے درجنوں بچوں کو جنسی زیادتی/بدفعلی کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ اس دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔ ان بچوں کی عمریں 14 سال سے کم ہیں۔ ملزم کے لیپ ٹاپ سے 600 سے زائد ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق سینکڑوں بچے متاثر ہوئے ہیں۔ ملزم اس سے قبل بھی گرفتار ہوا تھا لیکن پاکستان آرمی کے ایک کیپٹن اور میجر کے دباؤ پر ملزم کو رہائی ملی۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ بچوں سے زیادتی کی، ویڈیو کلپس بنائے اور والدین کو بلیک میل کر کے رقوم بھی حاصل کیں گئیں۔ اتنا بڑا کیس لیکن مکمل معلومات سوشل میڈیا پر ہی شئیر ہوسکیں جبکہ نیوز چینل پر چھوٹی سی خبر ۔ ایسا معاشرہ جہاں آپ کو یہ معلوم نہیں کہ آپ کا بچہ کسی درندے کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائے گا یا معاشرہ اسے ہی درندہ بنادے گا۔

غرض فتنوں کی ایسی بھرمار کہ انسان ان لوگوں پر رشک کرنے لگتا ہے جو پہلے گزر چکے ۔ اب تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر آنے والا دن کیا خبر کیسا فتنہ لائے جو خدا نخواستہ ہماری عقلوں کو اچک لے۔

ابوہریرہ ﷜ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ آدمی قبر کے پاس سے گزرے گا تو وہ اس پر لوٹ پوٹ ہو گا (لیٹے گا)، اور کہے گا: کاش کہ اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا، اور وہ یہ بات دین کی وجہ سے نہیں بلکہ فتنوں اور آزمائشوں کی وجہ سے کہے گا۔‘‘ 13

محمود بن لبید﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو چیزیں ایسی ہیں جن کو آدمی ناپسند ہی کرتا ہے (حالانکہ ان میں اس کے لیے بڑی بہتری ہوتی ہے) ایک تو وہ موت کو پسند نہیں کرتا، حالانکہ موت اس کے لیے فتنہ سے بہتر ہے، اور دوسرے وہ مال کی کمی اور ناداری کو نہیں پسند کرتا، حالانکہ مال کی کمی آخرت کے حساب کو بہت مختصر اور ہلکا کرنے والی ہے۔ 14

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان فتنوں اور ان برائیوں سے دور رہنے پر ہی اکتفا کیا جائے یا ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ کہ موجودہ نظام حکومت اور حکمران جو ان فتنوں اور برائیوں کی اصل وجہ ہیں، انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنی زندگیاں کھپائیں۔ ہجرت و جہاد کی راہ اختیار کریں۔ان فتنوں آزمائشوں سے بچنے کا اس سے بہتر بھی کیا کوئی راستہ ہوسکتا ہے ؟

ابو سعید خدری ﷜ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک زمانہ آئے گا جب مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس کی وہ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی وادیوں میں لے کر چلا جائے گا تاکہ اس طرح اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچا لے۔ 15

مقداد بن اسود ﷜کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: نیک بخت وہ ہے جو فتنوں سے دور رہا، نیک بخت وہ ہے جو فتنوں سے دور رہا، اور جو اس میں پھنس گیا پھر اس نے صبر کیا تو پھر اس کا کیا کہنا ۔ 16

٭٭٭٭٭


1 مستدرک حاکم 468/4، صحیح مسلم ، کتاب الایمان 231، مسند احمد

2 مصنف ابن ابی شیبہ 504/7, الفتن 136

3 ابن ابی الدنیا فی کتاب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر،کنزالعمال 8463

4 الفتن 130

5 مصنف ابن ابی شیبہ 474/7 سنن ابوعمرودانی 26/1, مستدرک حاکم 467/4, حلیتہ الاولیاء 272/2

6 مصنف ابن ابی شیبہ ، الفتن 132

7 مسند احمد 16334

8 مسند احمد 18368

9 ابن النجار، عن جابر۔ کنزالعمال688

10 عبدالرزاق الجیلی، فی الاربعین، بروایت انس، الفردوس للدیلمی (رح) بروایت علی۔کنزالعمال759

11 سنن ابی عمر والدوانی80/1، الفتن 111

12 ابن ابی الدنیا فی کتاب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر، کنزالعمال 8470

13 رواہ مسلم۔ مشکوٰۃ المصابیح : 5445

14 مسند احمد، معارف الحدیث: 192

15 صحیح بخاری 3300

16 سنن ابوداؤد 4263 ، تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١١٥٤٢) (صحیح)

Previous Post

مولانا حامد الحق حقانی ﷬کا سانحۂ شہادت

Next Post

میرے غازیو! تمہیں سلام

Related Posts

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

13 اگست 2025
کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

13 اگست 2025
فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

13 اگست 2025
سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

10 جولائی 2025
سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

7 جون 2025
عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

26 مئی 2025
Next Post
میرے غازیو! تمہیں سلام

میرے غازیو! تمہیں سلام

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version