سلام ان ماؤں کو جنہوں نے ایسے بیٹے جنے جو دشمنوں کو کھٹکتے ہیں، سلام ان بہنوں اور بیٹیوں کو جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو پیش کیا، اپنے شوہروں کو آگے کیا اور سلام ان بچوں کو، جن کی تکبیر کی گونج سے وادی بھر گئی اور جن کے پتھروں نے دشمنوں کے ٹینکوں کے پرخچے اڑا دیے، جو پیچھے نہ ہٹے، ڈٹے رہے، جن بچوں اور خواتین نے پتھر مارنے کی پاداش میں جیلیں کاٹیں ، سزائیں جھیلیں، راہ خدا میں تکالیف اور غم جھیلتی رہیں لیکن ثابت قدم رہیں، انکو سلام۔ میرے بہادر بیٹوں کو جوانوں کو اور بوڑھوں کو بلکہ پوری قوم کے ہر ہر فرد کو تمہاری ماں کا سلام، پوری امت کا سلام!
تم سب نے نسل در نسل قربانیاں دیں، رب تعالیٰ انہیں قبول فرمائے، قبر اور حشر کی دہشت اور وحشت سے بچوگے یہ ہمارے محمدﷺ فرما چکے جس کا مفہوم ہے کہ جنہوں نے دنیا میں تلواروں کی جھنکار دیکھی انکے لیے قبر اور حشر کی دہشت اور وحشت نہیں کیونکہ دوخوف اکھٹے نہیں ہو سکتے۔
تم سب ہماری آہوں اور سسکیوں میں ہو، تمہارے غم اور قربانیاں ہمیں زندگی میں جینا اور مرنا سکھا گئے، تم سب سوتے جاگتے ہمارے ساتھ ہو، بظاہر ہم دور ہیں پر تمہارے ساتھ ہیں، دعاؤں میں وفاؤں میں انشا اللہ۔ ہمارے دل تمہارے ساتھ دھڑکتے ہیں، تمہارے آنسو ہماری آنکھوں میں چمکتے ہیں۔ یہ ظاہری دوریاں بظاہر ہیں حقیقتاً نہیں۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارے ہیں۔
نصر من اللہ و فتح قریب
اس جماعت کی دانشمندی، حق پرستی، توکل علی اللہ اور اخلاص نے آج تمہیں عزت کا تاج پہنچایا، تم متحد ہو کر سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بن کر پوری قوم ایک جسم کی مانند بن گئے اور اللہ تعالیٰ اپنے اور تمہارے دشمن کو ذلیل و خوار کر گیا، الحمد اللہ!
حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ دین پر قائم اور اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا وہ اپنی مخالفت کرنے والوں یا بے یار و مددگار چھوڑ دینے والوں کی پرواہ نہیں کرے گا، الا یہ کہ انہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے اور وہ اسی حال پر ہوں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ وہ لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، ’’بیت المقدس میں اور اس کے آس پاس۔‘‘
سبحان اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم
دین اسلام کس قدر کامل ہے، تاقیامت کی ساری معلومات بلکہ بعد از قیامت ، جنت دوزخ تک کے سارے احوال بہت کھول کر ہمارے رب جلیل نے ہمیں دے دیے ہیں، الحمد اللہ۔
قرآن و سنت تو وہ روشنی ہے، نورہے جس پر چل کر زمانے کے سارے احوال اور نشانیاں واضح ہوتی چلی جاتی ہیں۔آج کل فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اور ہوا ، وہ تاریخ میں تو ثبت ہوگیا اور وہاں یہ حق و باطل کا معرکہ ۷۵ یا زیادہ سالوں سے جاری ہے، کئی نسلیں پل بڑھ کر اسی معرکوں کا حصہ بنتی چلی گئیں، جنہوں نے آنکھ کھولتے ہی یہی کچھ دیکھا، یہ سب کچھ ان کے خون میں شامل ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ (سورۃ الصف: ۴)
’’بیشک اللہ ان لوگوں کو پسند رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی دیوار ہیں۔‘‘
دن رات اللہ والے اس سے فریاد کرتے تھے اور کر رہے ہیں کہ اللہ ہمیں اپنے محبوب بندوں میں شامل فرمالے، کونسا وہ عمل ہے جس سے ہم یہ درجہ پاجائیں۔ اسکے جواب میں یہ آیت اتری :
تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لًّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (سورۃ الصف: ۱۱)
’’تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ، جہاد کرو اگر تم جانو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘
اسی آیت کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کا معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا۔
دنیا اور آخرت کی سپر پاور صرف اللہ کریم ہی کی ذات مبارک ہے اور سب کو فنا ہونا ہے سوائے اس کی ذات کے۔جہالت کی زبان میں آج امریکہ اور اسرائیل سپر پاور کہلاتے ہیں، تو یہ سپر پاور ’امریکہ‘ افغانستان سے ایسا بھاگا کے وہ تو صحیح معنوں میں کسی کومنہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔
اور اب اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطین اور اس کے لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھان بیٹھا، جیلیں تو اسرائیل برسوں سےانکے بچوں، بڑوں اور بوڑھوں سے بھر ہی رہا تھا مگر اس بار تو اس نے انہیں صفحۂ ہستی سے ہی مٹانے کے لیے ان کے گھروں سمیت تمام لوگوں کو شہید کرنے کا منصوبہ بنا کر پوری بستیوں کو ہی ملیامیٹ کر ڈالا۔ بستی کی بستیاں ملبہ کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
کیابچے، کیا بوڑھے ، کیا جوان خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں، یا تو شہید ہوئے، معذور ہوئے یا قیدی بنے اور جو بچ گئے وہ ڈٹ گئے۔
یہ ایک فولادی قوم ہے، جسے کوئی توڑ نہیں سکا کیونکہ وہ جان گئے کہ جہاد ہی راہ اصلاح ہے، سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ غزوۂ بدر میں ہی اللہ تعالیٰ نے ایمان کو کفر سے ممتاز کر دیا اور جہادہر مسلمان پر فرض ہو گیا ، پھر انہیں یہ خوش خبری دے دی کہ بچ گئے تو غازی ہو اور شہادت ملی تو جنت۔
۵۰ ہزار سے زائد لوگ حالیہ بمباری میں شہید ہوچکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی شہادتوں کو قبول فرمائیں اور اعلی درجے عطا فرمائیں ۔ آمین۔
سچے مومن ہی تو جہاد کو موجب قربت الٰہیہ مان کر اپنی جان اور املاک کوقربان کرنے پر تیار ہوتے ہیں اور آرزو مند بھی رہتے ہیں اور بعد میں بچ جانے پر مذموم بھی ہوتے ہیں، اللہ بھی ایسی متقی جماعتوں اور قوم کو بخوبی جانتا ہے، ایسے ہی لوگوں کو ثابت قدمی اور استقلال نصیب کیا جاتا ہے۔ ان کے صبر و شکر نے رب تعالیٰ کو راضی کیا اور جب اسرائیل سے قیدیوں کا تبادلہ شروع ہوا تو ان سب بچوں، بوڑھوں، خواتین اور تمام شہریوں کے لبوں پر، قیدیوں اور بچے بچے کی زبان پر الحمد للہ، وللہ الحمد، لا الہ الا اللہ کے ترانوں کی گونج سے وادی شاداب ہوگئی ، بھر گئی۔
انہیں نہ قید کی صعوبتوں کا غم ہوا، نہ بچھڑنے کی شدت کا ملال نظر آیا، بلکہ رب تعالیٰ کا شکر اور شہدا ءکے لیے دعائیں اور اپنے جوانوں کے ڈٹے رہنے پر شکر اور سجدہ شکر ہی میں سب نظر آئے۔ قابل تعریف اور قابل تقلید ہو تم ۔
ان میں سے کسی نے کہا کہ بچے نہ بچےتو بچے پھر مل جائیں گے، گھر نہ بچا تو گھر بھی بن جائے گا، لیکن تم دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دیتے تو عزت نہ بچتی اور الحمد للہ ابھی ہمارے تمہارے سر اونچے ہیں۔ عزت بچ گئی تو ہمارے سر بلند ہیں۔ تم اسلام کے بیٹے ہو۔
دنیا حیران ہے یہ کیسے لوگ ہیں ملبے اور مٹی پربیٹھے ہیں، نہ گھر رہا نہ در مگر وہ خوش ہیں بہت خوشی کہ یہ مٹی یہ زمین اور بیت المقدس ہمارا ہے، ہمیں کوئی غم نہیں۔ جو لوگ جگہ چھوڑنے پر مجبور کئے گئے وہ بھی میلوں کا پیدل سفر طے کر کے واپس پہنچے اور پہنچ رہے ہیں جن کی تعداد ۵ لاکھ سے زیادہ ہو چکی ۔
سورۂ آل عمران کی آیات یاد آئیں اور دل روشن اور آنکھیں چمک اٹھیں:
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۚ فَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِيْ سَبِيْلِيْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَيِّاٰتِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ۚ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ (سورۃ آل عمران: ۱۹۵)
’’چنانچہ ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کی (اور کہا) کہ : میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔ لہٰذا جن لوگوں نے ہجرت کی، اور انھیں ان کے گھروں سے نکالا گیا، اور میرے راستے میں تکلیفیں دی گئیں، اور جنہوں نے (دین کی خاطر) لڑائی لڑی اور قتل ہوئے، میں ان سب کی برائیوں کا ضرور کفارہ کردوں گا، اور انھیں ضرور بالضرور ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے انعام ہوگا، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بہترین انعام ہے۔‘‘
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْاۣ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۃ آل عمران: ۲۰۰)
’’اے ایمان والو ! صبر سے کام لو اور (باطل کے سامنے) ثابت قدم رہو اور جہاد کی تیاری رکھو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی پاؤ۔‘‘
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ (سورۃ الصف: ۴)
’’اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں قتال کریں۔‘‘
حدیث کا مفہوم ہے کہ روز قیامت میدان حشر میں سب لوگ منتطر ہوں گے کہ جنت کا دروازہ کب کھلے گا ، اتنے میں ایک بہت بڑا گروہ پھٹے پرانے جوتے اور کپڑوں میں آئے گا نہ سر میں تیل نہ کنگھی، حال سے بے حال ہوں گے ، وہ آئیں گے اور جنت کا دروازہ ان کے لیے کھلے گا اور بلا حساب وکتاب وہ سیدھے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ لوگ حیران ہو کر پوچھیں گے یہ کون لوگ ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے گی، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے دنیا میں اس حال میں رکھا مگر انہوں نے شکر ادا کیا اور صبر کیا۔ گویا صابرین اور شاکرین کا حساب کتاب ہی نہیں۔
کہیں وہ تم تو نہیں؟
وَّيَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَــصْرًا عَزِيْزًا (سورۃ الفتح: ۳)
’’اور اللہ تعالیٰ آپ کی زبردست مدد فرمائے۔‘‘
اسرائیلی وحشیوں اور درندوں کی قید سے نکل آئے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کوخصوصاً ڈھیروں مبارک ہو اور جو باقی قیدی بچ گئے ہیں اور ابھی ظالموں کی قید میں ہیں وہ صحابہ کرام کی یاد تازہ کروا رہے ہیں۔ بس وہ سیدنا بلال کو یاد کر لیں، جو سب ظلم سہتے رہے پر احد ، احد کہتے نہ تھکے۔
نبی ﷺ کی سنہری باتیں یاد کرو: ’’اے آل یاسر صبر کرو تمہارے لیے جنت ہے۔‘‘
کتنے قیدی رہا ہو رہے ہیں ، رب کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے ، لبوں پر الحمد للہ، الحمد للہ کا ورد جاری ہے جبکہ ایک قیدی بھائی کہتے ہیں کہ اسرائیلی ہم قیدیوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں، کھانے کو بہت ہی کم دیتے تھے، مریضوں کو دوا اور علاج کی سہولت برائے نام ہے بلکہ ایک قیدی بھائی نے بتایا کہ اس کا آپریشن کرنا پڑا، اسرائیلیوں نے تو بغیر سن کیے بغیر بیہوشی کی دوائی کے یونہی آپریشن کر دیا۔ کیسے پتھر اور سخت دل ہیں یہ یہودی، انہیں کون سی بددعا دوں، سب ہی چھوٹی ہیں۔ پر خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔کسی کی سماعت گئی، تو کسی کی بصارت گئی، کسی کی کمر ٹوٹی تو کسی کے ہاتھ پاؤں۔ یا الہٰی ہمارے دل ٹھنڈے کر، انہیں دونوں جہاں میں پکڑ اور اپنے عذاب الیم کا مزہ چکھا۔
ایک اور قیدی بھائی رہائی کے بعد بتا رہے تھے کہ میری شادی کو دو ماہ ہوئے تھے ان کے پاس شادی کی انگوٹھی تھی، جسے وہ چھپاتے رہے اور بہت مانگنے پر بھی نہیں دی تو ان کی قید ۲۵ سال سے بڑھا کر ۳۰ سال کر دی۔ اور بھی ایسے بے شمار ہمارے قیدی بھائی اور بیٹے رہائی کے بعد بھی کہتے رہے، ہمارے امیر کا خون ہمارا خون ہے، وہ ہماری زندگی ہیں، ہم اپنے مقصد سے نہ پیچھے ہٹیں گے، نہ رکیں گے، بلکہ ڈٹے رہیں گے، ہماری زندگی اللہ کی رضا پر رہے گی۔ امت کے شیرو! اللہ ثابت قدم رکھے۔ وہ لوگ آگے بتاتے ہیں: ’’اسرائیلی ہمیں وحشی جانور کہتے ہیں ، حالانکہ وہ خود وحشی ہیں۔ حضرت آدم کی پیدائش سے آخر تک کوئی ان سے زیادہ جابر و ظالم نہیں ہوسکتا۔ یہودیوں سے زیادہ ظالم کوئی نہیں ہو سکتا‘‘۔
بینجمن نیتن یاہو، جو اسرائیلیوں کا وزیر اعظم ہے ، کہتا ہے یہ صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔ وہ قیدی بھائی رہائی کے بعد مندرجہ بالا باتوں کے ساتھ یہ بھی بتا رہے تھے : ’’وہ ہمیں کبھی بھی نہیں توڑ سکتے ان شاءاللہ ، جبکہ وہ ہم پر ہر روز اپنے کتے چھوڑتے تھے ، ہم پر تھوکتے تھے، مٹی میں ہمیں پھنک کر گن سے مارتے تھے۔ قیدیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے ۔‘‘
۲۳ سال بعد ایک بھائی رہا ہوئے کہتے ہیں:’’فلسطین کی جنگ میں بدترین ظلم ہوا ہے شاید ایسا کسی جیل میں نہ ہوا ہو۔ہر وہ ظلم جو کوئی تصور کر سکتا ہو یا نہیں ، وہ وہاں اسرائیلی کرتے ہیں۔‘‘
پھر بھی ہمارے شیر مجاہدین یہی کہہ رہے ہیں:’’ہم تب تک ٹھیک ہیں جب تک ہمارے فلسطینی بھائی اور سارے لوگ ٹھیک ہیں، فلسطین، غزہ کے لوگ وفادار اور قابل فخر ہیں، خواہ وہ زندہ ہوں یا شہید۔‘‘
آخرمیں ، وہ قیدی بھائی، رہائی کے بعد کہتے ہیں کہ ہم تمام قیدیوں کا بھی ان کو سلام کہتے ہیں اور تعریف، تحسین پیش کرتے ہیں۔
امت کی گواہیاں بھی تمہارے ساتھ ہیں پیارو۔ تمہارے صبر کا بدلہ ان شاء اللہ جنت اور اللہ کی رضا ہے ۔
میرے غیرت مند بیٹو، جیالو اور قابل صد افتخار ماؤں اور بہنو اور بیٹو، خدا تعالیٰ تمہیں استقامت عطا کرے، تمہارے غموں کو خوشیوں میں بدل کر تم سے ہمیشہ کے لیے راضی ہو جائے۔ بیت المقدس ہمارا ہے، تم شہید ہوئے، ثابت قدم رہے، صابرین و شاکرین میں ملے اور ان شاء اللہ تم نے دین سے، محمدﷺ سے وفا کی ۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالَم سے خفا میرے لیے ہے
کی محمدﷺ سے وفا تونے ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوحِ قلم تیرے ہیں
اور کیا چاہیے؟ ہو مبارک تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا، جنت تو مشکلات سے گھیری گئی ہے۔
بس پوری امت کو رب تعالیٰ بیدار کر دے، متحد کر دے، کیونکہ بیت المقدس ہم سب کا ہے! دشمنوں کے لیے یہی دعا ہے ۔ اللھم زلز لھم اللھم زلزلھم
ظلم و سربیّت کی جتنی اقسام ہو سکتی ہیں جو سوچی جا سکتی ہیں یا نہیں سوچی جا سکتی ہیں ، ان میں سے ہر ہر طرح کے ظلم و ستم ان مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے ہیں خواہ وہ مرد ہوں ، عورتیں ہوں، بوڑھے ہوں یا بچے۔
ایک اسرائیلی عورت سرپکڑ کر بیٹھی رو رہی تھی کہ یہ زندہ واپس اپنے ملک جا رہے ہیں۔یقین نہیں آرہا کہ انسان اتنا سخت دل کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ظلم کی انتہا تک پہنچ گئے، اس سے زیادہ تم اور کر بھی کیا سکتے ہو؟ جہنم کی آگ میں تو تم نے ہمیشہ ہی جلنا ہے پر اے اللہ انہیں اتنی زیادہ ڈھیل نہ دیں۔ وہ سمجھتے ہیں جیسے زندگی اور موت ان کے ہی ہاتھوں میں ہیں۔
یا الٰہی تیرا کلمہ پڑھنے والے ان ذلیلوں اور درندوں کے ہاتھوں اتنے شدید ظلم و ستم کا شکار نہ بنیں۔میرے رب اس جنگ کی بساط انہیں پر الٹ دیں۔ آگ کے فرشتے بھیج جو چن چن کر ایک ایک کو آگ اسی دنیا میں لگا دیں، جو بجھائے نہ بجھے، جہنم میں جانے سے پہلے ان کے لیے دنیا جہنم بنا دے۔
میرے مولا، ربی یوں ظالموں کو ڈھیل نہ دے۔ کیا بے رحم اور سخت دل ایسے ہی ہوتے ہیں؟ انہیں دنیا میں بھی پکڑ اور تمام معصوم بچوں، عورتوں، میرے بیٹوں اور بزرگوں کا بدلہ لے۔ یا قہار، یا جبار، یا قہار!
یا الٰہی تو غیب سے ہمارے قیدیوں کی مدد فرما، معصوموں کی فریادیں سن۔ وہ سفاک ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کے حلق کے اندر لوہےکے پائپ یا راڈ ڈال کر ان کی سانسیں بند کرنا چاہتا ہے، ساتھ ہی اپنے بوٹوں سے اس کے سینے پر کود رہا تھا کہ وہ مرجائے۔ الٰہی موت اور زندگی تو صرف آپکے ہاتھوں میں ہے، یہی ہمارا عقیدہ ہے اور تقدیر پر ہمارا ایمان ہے ۔ مالک ہر خیر اور شر تیرے ہاتھ میں ہے، یہ یہود و نصاری ہوتے کون ہیں کسی کو نفع نقصان اور زندگی یا موت دینے والے ان کی حیثیت ہی کیا ہے؟ الہٰی انہیں ملیامیٹ کر دیں۔ چن چن کر ایک ایک کو دونوں جہاں میں عبرت کی تصویر بنا کر ان کا غرور خاک میں ملا دیں۔ یہ ایسے بلبلاتے پھریں کہ یہ موت مانگیں اور انہیں موت نہ ملے۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اور سسک سسک کر انہیں عبرت کا نشان بناکر زندہ رکھ۔
انہیں کیسی بد دعا دوں کہ دل ٹھنڈا ہو۔ الہٰی وہاں کے لاکھوں شہدا کا بدلہ لیں، ان سفاکوں اور درندوں سے جو خود کو خدا سمجھنے لگے ہیں، اے دکھی اور ٹوٹے دلوں میں رہنے والے!
میرے غزہ ، میرے فلسطین کے ایک ایک فرد کا تو ان کے دشمنوں سے، اِس جہاں میں بھی بدلہ لے اور اپنے غضب اور عذاب کا کوڑا اُس جہاں میں بھی برسا ۔ یا رب اتنی ڈھیل انہیں نہ دے، اسی دنیا میں تو ان کے بھی ہر فرد کو اپنے غصے اور عذاب میں پکڑ لے تاکہ ہمارے دل کچھ تو ٹھنڈے ہوں۔
وہ تیرے دشمن ہیں، تیرے رسول محمدﷺ کے، تیرے دین کے، اس پر چلنے والوں کے اور تیرا کلمہ پڑھنے والوں کے بدترین دشمن ہیں۔
آپ کا فرمان سچ کے سوا کچھ نہیں، تبھی آپ نے فرمایا:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ (سورۃ المائدۃ: ۸۲)
’’آپ لوگوں میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں کو پائیں گے۔‘‘
یا ارحم الراحمین!
امت مسلمہ کو جگا دے، ان کی غیرت دینی کہاں ہے؟ کیوں فانی اور دھوکے کی دنیا پر یہ مرتے ہیں؟ اپنی مسلمان بہنوں اور ماؤں کی چیخیں انہیں سنائی نہیں دے رہیں؟ معصوم اور مظلوم بچوں کے لئے کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟ انہیں غیرت دے میرے مولا! انہیں اپنے مجاہدین کے لیے کھڑا کر، کھری نیت کے ساتھ۔ کیوں وہ بے حس ہوگئے ہیں؟ حقیر دنیا پر مرے مٹے جاتے ہیں، ان کے غافل اور سوئے دلوں کو جگا دے میرے مولا! کوئی تو عمراور صلاح الدین ایوبی پیدا کر دے۔ انہیں دنیا میں آنے کا مقصد بتا، معیارِ زندگی بلند کرنا اور پیسے کے پیچھے جینا مرنا، عیش میں رہنا زندگی نہیں، دینی غیرت کی خاطر جینا مرنا سکھا۔
اے زمین و آسمان کے بادشاہ ، شہنشاہ، حاکم! تیرا نام لینے والے جاگ جائیں، اپنا تن، من، دھن لٹا دینے والا انہیں بنا دے، کامیاب تو وہ ہیں جو صحابہ کرام کی طرح اپنا سب کچھ حتیٰ کہ جان بھی قربان کر دینا اپنے لیے سعادتِ عظیم سمجھتے رہے ، اور رب تعالیٰ نے انہیں اعلیٰ ترین مقامِ شہدا ، صدیقین اور صالحین دینے کا وعدہ کیا ہے، ہاں شرط یہ ہے کہ نیت صرف اپنے رب کے دین کو نافذ کرنا اور اس کو سربلند کرنا ہو ورنہ بہادر کہلانے کی خاطر یا وطن کی خاطر لڑنا جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے، سب سے زیادہ عظمت والے دین اسلام پر کٹ مرنا، خون بہانا ہی رب تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے ۔
پیارے اللہ ایسی نسلیں ہوں ہماری جوآپ کے لیے کٹ مرنا سب سے بڑی سعادت سمجھیں۔
الٰہی مجھے، میری بیٹیوں اور خواتین کو خولہ بنت ازور بنا دے، ہمارے بچے بھی معاذ اور معوذ بن جائیں، جو اس وحشی دشمن کو جہنم واصل کریں۔ ہمیں بھی حضرت صفیہ بنا دیں کہ ہم ان ظالموں کا سرکاٹ کر ان کی ہی طرف پھینک دیں۔
یہی التجا ہے یارب!
٭٭٭٭٭