ڈھکوسلہ شریف میں خوش آمدید۔ آپ نے بہت سارے شریفوں کے نام سن رکھے ہوں گے جیسے:شرقپور شریف، اجمیر شریف، سیہون شریف اورچورہ شریف۔ان سب کا مہا شریف ڈھکوسلہ شریف ہے۔ اس کی وجہِ تاسیس ، اس کے ادارے، اس کی معیشت، اس کی معاشرت سب کی سب اسم بامسمّیٰ ہیں یعنی سبھی ڈھکوسلہ ہیں۔
مثال کے طور پریہاں کا نظامِ حکومت ہی دیکھ لیں۔ یہ جمہوری ہے۔ جمہور یعنی عوام اس کے روحِ رواں ہیں۔ یہ نظامِ جمہوری خود اپنی ذات میں ایک ڈھکوسلہ ہے۔ ووٹوں کے سیزن میں یہاں اوسط ٹرن آؤٹ کبھی پچاس فیصد بھی نہیں رہا۔ ابھی پچھلے انتخابات میں یہاں اوسط ٹرن آؤٹ تقریباً ۳۹ فیصد رہا ہے یعنی سو افراد میں سے صرف ۳۹ نے ووٹ ڈالے۔اس نظامِ جمہوری کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی ہے کہ اگر ٹرن آؤٹ سو فیصد ہو تو بھی بننے والی جمہوری حکومت ہر حال میں عوام کی خواہشات کا اظہار نہیں ہوسکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر ایک حلقے میں تیس ہزار ووٹر ہیں اور تین انتخابی جماعتیں ہیں۔ فرض کیا کہ سب کے سب لوگ ووٹ ڈالتے ہیں۔ ایک جماعت کو آٹھ ہزار ووٹ ملتے ہیں،ایک کو دس ہزار اور ایک کو بارہ ہزار۔ اب ظاہر ہے کہ جیتنے والی جماعت بارہ ہزار ووٹوں سے برسرِ اقتدار آجاتی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ عوامی مینڈیٹ اس جماعت کے حق میں ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اٹھارہ ہزار عوام اس جماعت کو برسرِ اقتدار دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس کو برسرِ اقتدار دیکھنا صرف بارہ ہزار افراد چاہتے ہیں۔ گویا ۶۰ فیصد آبادی اس برسرِ اقتدار جماعت کے خلاف ہے اور صرف ۴۰ فیصد آبادی اس کے حق میں ہے۔ اب ذرا تصور کریں کہ اگر ٹرن آؤٹ ہی ۳۹ فیصد ہو، تو کیا نسبت [Ratio] بنتی ہے؟ یہ کل آبادی کا ۱۵.۶ فیصد بنتا ہے۔ یعنی حکومت بنانے والی جماعت کو کل آبادی میں سے صرف اتنی سی آبادی کی حمایت حاصل ہے۔پھر اسےعوام کی خواہشات کی ترجمان حکومت ہونے کا اعزاز بھی کرّو فر سے حاصل ہو جاتا ہے۔ڈھکوسلہ شریف میں رائج نظامِ جمہوری کی برکات سے اس حکومت کو عوام کی نمائندہ حکومت ہونے کا سرٹیفیکیٹ حاصل ہے۔
ڈھکوسلہ شریف کی خصوصیات میں اس کے دوسرے اداروں کی طرح اس کی سرحدوں کی محافظ آرمی کا شعار(slogan) بھی شامل ہے۔ ’’ایمان، تقویٰ ، جہادِ فی سبیل اللہ ‘‘ کا یہ سلوگن (slogan) اس مصرعےکی طرح ہے:
؏ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!
اچھے اچھے نعروں سے آخر کیا بگڑتا ہے۔ رہنے دینا چاہیے ، لیکن حقیقت یہاں بھی کچھ اور ہی ہے۔ وہ اس طرح کہ ڈھکوسلہ شریف اقوامِ متحدہ کا ممبر ہے ۔اس نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کو مان کر اقوامِ متحدہ میں شمولیت حاصل کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اس چارٹر میں درج ہے کہ مذہب کے نام پر جنگ نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا جہادِ فی سبیل اللہ کا فوجی نعرہ بھی ڈھکوسلہ شریف کو خوب صورتی سے اسم بامسمّیٰ بناتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس نے جنگ خدا اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں لڑنی ہی نہیں ہے تو پھر خواہ مخواہ کا ایک تکّلف کیوں ہے؟اس تکلیف کا آخر جواز کیا ہے؟اس کا جواب ڈھکوسلہ شریف کے بننے کی داستان میں ہے۔ جس وقت ڈھکوسلہ شریف بنا تھا اس وقت اس کے اہلِ دین باشندوں کو ’دبئی چلو‘ کی طرح کے سہانے خواب دکھلائے گئے تھے۔ مگر جب یہ بس گیا تو اسے ایک اسلامی امارت کے بجائے ایک قومی ریاست کادرجہ دے دیا گیا۔ اسلام کی تجربہ گاہ اور قرآن ہمارا دستور جیسے رنگ برنگ سپنے سراب ثابت ہوئے۔اسلامی امارت کا مفاد اسلام کے احکام میں مضمر ہوتا ہے جبکہ ایک قومی ریاست میں مملکت کی بھلائی دین میں نہیں بلکہ اس کے رہنے والے لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہے۔ لوگوں کی خواہشات سچ، جھوٹ، عدل و انصاف، ظلم و عدوان کو طے کریں گی۔ جو چیز ان کی خواہشات کے مطابق ہو گی وہ درست ہوگی، سچ ہوگی اور justified (حق بجانب) ہوگی اور جو ان کی خواہشات کے خلاف ہوگی وہ باطل ہوگی، جھوٹ ہوگی اور unjustified (ناحق) ہوگی۔
یہاں کا آئین اسلامی ہے لیکن اس میں حقوقِ نسواں قانون بھی موجود ہے اور ٹرانس جینڈر ایکٹ بھی۔ یہ مضمون تو پرانا لکھا ہوا ہے، ابھی ۲۶ ویں آئینی ترمیم آئی اور وفاقی شریعت کورٹ کے اختیارات اور ۲۰۲۸ء میں سود کے خاتمے کی باتیں چلیں تو سوچا کہ اسی پرانے لکھے ڈھکوسلہ شریف کو ایک بار پھر نذرِ قارئین کر دیا جائے۔
بہر کیف صاحبو!یہاں کا ریاستی مذہب اسلام ہوجانا اور یہاں کے قومی اداروں کا اپنے نعروں میں خدا اور رسولؐ سے کوئی تعلق رکھ لینامحض ایک ڈھکوسلہ ہے۔ لہٰذا ایک بار پھر ،جی جان سے، ڈھکوسلہ شریف میں خوش آمدید!!!
؏چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر!!
٭٭٭٭٭