سفرِ وزیرستان[۲]
الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء.
اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!
یہ جولائی ۲۰۱۳ء کی بات ہے، ہم یعنی ’مولوی صاحب‘ اور راقم لاہور سے بنوں پہنچے اور بنوں سے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی کی طرف سفر شروع کیا۔ اس سفر میں ہمیں کم و بیش تین دن ایک جگہ رک کر انتظار کرنا پڑا ، تیسرے دن کراچی کے ایک ساتھی عباس، جو استاد فیض (عمر اقدس) شہید رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعے سے وابستہ تھے پہنچے اور غالباً چوتھے دن وہاں ایک سفید ریش بزرگ اور ان کے ہمراہ ایک اور عالمِ دین ساتھی پہنچے۔ یہ دونوں ننگے پیر تھے اور عالمِ دین ساتھی کے پاؤوں خون سے آلودہ تھے۔ ہمارے انصار کمان دار جو مقامی طالبان کے ایک مجموعے کے فرد تھے وہ بھی ان کے ہمراہ آئے اور پھر انہوں نے ہی ہمیں ان کا قصہ سنایا۔ یہ دونوں حضرات یعنی وہ سفید ریش بزرگ اور یہ عالمِ دین ساتھی ہماری طرح کسی اور انصار کے گھر میں میر علی کی طرف جانے کے لیے منتظر تھے جب پاکستان فوج کو ان دو مجاہدوں کی موجودگی کی خبر ہو گئی اور فوج نے اس گھر پر چھاپہ مارا۔ یہ دونوں حضرات مکان کی عقبی دیواریں ٹاپ کر گھر سے فرار ہوئے اور اس جلدی میں چپل بھی نہ پہن سکے۔ اس علاقے میں گندم کی فصل تازہ تازہ کٹی تھی اور جڑ کے ساتھ جو پودے کا خشک تنا نما حصہ ہوتا ہے وہ ابھی زمین پر باقی تھا۔ یوں اس کھیت میں لگاتار ننگے پیر بھاگنے کے سبب ان حضرات کے پاؤں زخمی ہو گئے۔ سفید ریش حاجی صاحب تو پرانے مجاہد معلوم ہوتے تھے، ان کے پیر بھی ذرا بچ گئے تھے۔ لیکن وہ عالمِ دین ساتھی پہلی بار میدانِ جہاد کا رخ کر رہے تھے یوں ان کے پیروں کی حالت بہت خراب ہو گئی، اتنی زیادہ کہ بعد میں پاؤوں پر چھالے پڑ گئے اور خون مسلسل رستا رہا اور ان کو اسی جگہ سے پاکستان کے شہری علاقوں کی طرف واپس جانا پڑا۔
اسی دن بعد از ظہر اس جگہ سے ہمارے کُو چ کی ترتیب بنی اور ہم آگے کو روانہ ہو گئے۔ ہم چار ساتھی تھے اور ہمارے ساتھ ایک راہبر تھا۔ بعد از مغرب ہمیں میر علی سے بنوں کی طرف جانے والا ایک قافلہ ملا اور ان لوگوں نے ہمارے راہبر کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ یہ راہبر ہمیں بھی پیسوں ہی کے عوض لے جا رہا تھا۔ دوسری پارٹی نے اس کو زیادہ پیسوں کی پیشکش کی تو اس نے ہمارے ساتھ جفا کی اور ان کے ساتھ چلنے کو آمادہ ہو گیا اور ہمیں بس یہ کہہ گیا کہ آئندہ آگے کا راستہ آسان ہے، بس جہاں دو راہی آئے تو آپ لوگ دائیں ہاتھ والا راستہ اختیار کرتے جائیے گا۔ مرتے کیا نہ کرتے، ہم نے اپنا سفر دوبارہ شروع کر دیا۔ یہ اندھیری رات تھی۔ ہلکا ہلکا اندازہ کر کے ہم آگے بڑھتے گئے۔ یہ سارے انتہائی تنگ دروں کا راستہ تھا۔ بعض جگہ اتنا تنگ کہ دو پہاڑیوں کے درمیان ایک وقت میں ایک ہی فرد چل سکتا تھا۔ انہی دروں میں راستے میں ایک دلدل آ گئی۔ میں نے دلدل پہلی بار دیکھی، دیکھی کیا، اس اندھیرے میں محسوس کی۔ جب ہم اس میں اترے تو اس میں پھنس گئے۔ یہ شاید کوئی دس میٹر لمبی دلدل تھی۔ جتنے پیر مارتے اور زور لگاتے اتنے دھنستے جاتے۔ یہاں تک کہ کیچڑ نما پانی میرے سینے تک آ گیا۔ اللہ کا بہت کرم تھا کہ درہ یہ بہت تنگ تھا تو ہم بازوؤں سے زور لگاتے درے کی دیواروں کو پکڑ کر گھسٹتے گھسٹتے آگے نکل گئے۔ ایک ایک جوتا دس دس کلو کا محسوس ہو رہا تھا۔کچھ آگے چل کر محسوس ہوا کہ ان جوتوں کے ساتھ چلنا تو نا ممکن ہے۔ لہٰذا ہم نے اپنے جوتے وہیں چھوڑ دیے اور آگے چلنے لگے۔ اندھیری رات اور پھر پہاڑی درہ، ظلمات فوق ظلمات۔ ہمارے ایک ساتھ نے جیب سے فون نکالا اور اس کی ٹارچ جلا لی۔ پہلے تو ٹارچ پر ہم نے ان کو کہا کہ روشنی دور تک نظر آئے گی کہیں کسی کو ہماری حرکت کی خبر نہ ہو جائے اور دوسرا یہ کہ یہ فون ہے، جسے دشمن کشف یعنی ٹریس (trace)کر سکتا ہے، لہٰذا اس کو بند کر دیجیے۔ ابھی ہم نے یہ گزارش کی ہی تھی کہ ہمیں گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ ہم سب نیچے بیٹھے گئے اور ساتھی نے جلدی سے فون بند کیا۔ ہم جس درے سے گزر رہے تھے تو اس کی داہنی دیوار شاید بیس میٹر اونچی اور بائیں دیوار شاید دس میٹر اونچی تھی۔ ذرا دیر میں گولیاں داہنی دیوار کے سر پر آکر لگنا شروع ہو گئیں۔ قریب ہی میں کہیں پاکستان فوج کی کوئی چوکی تھی اور وہ ہمارے روشنی جلانے کے سبب مطلع ہو گئے تھے۔ دشمن دور تک مار کرنے والی بندوق کا استعمال کر رہا تھا اور پھٹنے والی گولیاں یعنی خارقہ چلا رہا تھا جو درے کی دیوار کو چھوتے ہی پھٹ جاتی تھیں۔ چند منٹ یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر فائر بند ہو گیا۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ غلط ہے۔ سبھی ساتھی کہنے لگے کہ واپس چلتے ہیں۔ ہمارے مولوی صاحب نے کہا کہ سب سے پہلے تو ہمیں کسی ایک ساتھی کو امیر بنا لینا چاہیے اور فوراً ہی سفید ریش حاجی صاحب کو ہم سب نے اپنا امیر بنا لیا۔ انہوں نے بھی یہی حکم کیا کہ واپس چلتے ہیں۔ درے سے نکل کر کسی جگہ رات گزارتے ہیں اور صبح واپس بنوں کی طرف چلیں گے۔ دوبارہ اسی دلدل سے گزرے، اس تنگ درے سے نکلے اور ایک نسبتاً کھلے درے میں پہنچ کر ایک پہاڑی کے دامن میں پہنچ کر نڈھال ہو گئے۔ میرے پاس تھیلے میں ایک اور کپڑوں کا جوڑا رکھا تھا، ایک چٹان کی اوٹ میں جا کر کپڑتے تبدیل کیے کہ کپڑے دلدل میں گزرنے کے سبب گیلے ہو گئے تھے۔ اس کے بعد جس کو جہاں جگہ ملی وہ وہیں پڑا پڑا سو گیا۔ درمیان میں سبھی اٹھے اور عشاء کی نماز تیمم کر کے پڑھی۔ پھر اپنی ہی جگہوں پر بیٹھے بیٹھے ساتھیوں نے کچھ رکعتیں تہجد کی پڑھیں۔ صبح آنکھ فجر کی اذان سے کھلی، ابھی اندھیرا ہی تھا۔ ہم نے سوچا کہ اذان کی آواز آئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ قریب میں کہیں کوئی گاؤں ہو گا۔ بہر کیف اسی حالت میں بیٹھے رہے یہاں تک کہ کچھ روشنی نمودار ہونا شروع ہوئی، کیا دیکھتے ہیں کہ ہم پاکستان فوج کی ایک چوکی کے عین نیچے ساری رات پڑے ہوئے تھے۔
جیسے ہی چوکی نظر آئی سب نے وہاں سے دوڑ لگائی اور درے کی دوسری طرف کو نکلے اور ساتھ ہی اللہ کا شکر ادا کرنے لگے کہ ساری رات چوکی کے آگے پڑے رہے اور دشمن سے اللہ پاک نے کیسے حفاظت فرمائی، بے شک تمام تعریفیں اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہیں، وللہ الحمد و المنۃ!
کھلے درے میں کچھ آگے بڑھے تو راستے میں ایک چشمہ نما نظر آیا۔ اول تو وہ گدلا تھا اور دوسرا انتہائی کھاری۔ اسی سے وضو کیا اور پھر نمازِ فجر با جماعت پڑھی۔ سفید ریش بزرگ نے ہمیں اپنا نام حاجی عبد اللہ بتایا تھا۔ حاجی عبد اللہ صاحب نے کہا کہ کل جس طرف سے آئے تھے اسی طرف کو چلتے ہیں وہاں پتھریلی نہیں مٹی کی پہاڑیاں تھی۔ اس جگہ تک پہنچے تو دیکھا کہ سبھی پہاڑیاں مٹی کی ہیں۔ خیر کچھ آگے چلے تو ایک فوجی بوٹ کا نشان نظر آیا اور سب ساتھی اس پر ٹھٹکے۔ چند قدم آگے چلے تو فوجی بوٹ کے ساتھ کتے کے پنجوں کے نشان بھی تھے۔ بس ہمیں یقین ہو گیا کہ پاکستان فوج یہیں کہیں آس پاس ہے۔ حاجی عبد اللہ صاحب مجھے پیار سے چھوٹا خان کہنے لگے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ چھوٹے خان تم اور عباس سامنے والی پہاڑی پر چڑھ کر دیکھو کہ اس طرف کیا ہے۔ ہم نے جو چڑھ کر دیکھا تو دوسری طرف پاکستان فوج کا ایک کیمپ تھا۔ ہم نے چھپ کر کیمپ کی حدود اور ارد گرد چوکیوں کا اندازہ کیا اور پھر واپس آکر حاجی عبد اللہ صاحب کو کارگزاری بتائی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں بنوں واپسی کے بجائے میر علی کی طرف سفر جاری رکھنا چاہیے۔ سب نے حاجی صاحب کے امر پر لبیک کہا اور دوبارہ چل پڑے، اس بار ہم قدرے محتاط ہو کر چلے۔ میرے پاؤوں میں جوتے نہیں تھے، جوتے تو میں رات کو دلدل کے پاس چھوڑ آیا تھا۔ یوں پیروں میں کچھ کچھ چھوٹے چھوٹے زخم بھی لگنا شروع ہو گئے۔ ہم کچھ سفر کے بعد اسی دلدل کے پاس پہنچ گئے۔ دن کی روشنی میں دلدل سے گزرنا قدرے آسان تھا۔ آگے جا کر مجھے اپنے جوتے نظر آئے جو مٹی کے بڑے بڑے ٹکڑے لگتے تھے۔ میں نے جوتے اٹھائے، ان کو اچھی طرح جھاڑا اور جس قدر صاف کر سکتا تھا صاف کیا اور دوبارہ پہن لیا۔ مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ جوتے اللہ پاک کی کتنی عظیم نعمت ہیں۔ سچ ہے کہ ہم ان سب نعمتوں کو نعمت سمجھتے ہی نہیں۔ یا اللہ تیرا کتنا شکر ہے کہ تُو نے ہمیں کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہے، ہم ہر اس نعمت پر بھی شکر کرتے ہیں جس کا ہمیں احساس ہے اور جس کا احساس نہیں اس پر بھی تیرا بے شمار شکر ادا کرتے ہیں، تُو ہمیں اپنے شاکر بندوں میں اپنے فضل سے شامل فرما اور شکر ادا کرنے کی توفیق عطا کر!
ابھی ہم مشکل سے سو میٹر چلے ہوں گے کہ درے کی تنگنائی سے نکلے اور پہاڑی پر چڑھنے لگے، درہ یہاں بھی تھا لیکن ہم اب اس کی دیواروں سے اوپر ہو چکے تھے۔ دو چار قدم مزید اٹھائے کہ یکا یک پھر سے گولیاں چلنے لگیں اور ہم جلدی سے واپس نیچے کو اترنے لگے۔ ایک آدھ منٹ گزرا ہو گا کہ دشمن نے مارٹر گولے چلانا شروع کر دیے۔ ہم سب اسی حالت میں درے کے مختلف حصوں میں لیٹ گئے۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد دشمن کا فائر کم ہو گیا اور مارٹر گولوں کا تناسب بھی۔ اسی حالت میں ہم تھکے ہارے لوگ سو بھی گئے۔ اللہ پاک سے یہی امید ہے کہ یہ سکینت تھی جو اللہ نے اپنے انتہائی کمزور بندوں پر اتاری۔ گھنٹہ ڈیڑھ بعد پتھر پھینکنے کے اشارے سے حاجی عبد اللہ صاحب نے مجھے اٹھایا اور آواز دی ’چھوٹے خان!‘۔ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا۔ کہنے لگے کہ یہ قریب میں واحد جگہ ہے دس بیس میٹر کی جہاں سے ہم دشمن کو نظر آ سکتے ہیں۔ بس وہاں سے گزرنا ہے، دوسری طرف پھر ڈھلان ہے دشمن ہمیں دیکھ نہیں سکے گا۔ تھوڑی ہی دیر بعد مارٹر کا ایک اور گولہ چلا اور ہمارے قریب ہی کہیں پھٹا لیکن درے کے اندر کوئی گولہ نہیں پہنچا، وللہ الحمد۔ ہم سب مستعد ہو کے اس طرف چلنے لگے جہاں سے ہمیں دشمن نے دیکھا تھا۔ بھاگ بھاگ کر ہم نے وہ حصہ طےکیا اور دشمن نے دوبارہ ہمیں دیکھ لیا اور بھرپور فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی۔ اللہ پاک نے ہمیں رکھنا تھا سو ہمیں ذرا سی گزند بھی نہ پہنچی۔ الحمد للہ ہم آگے ڈھلان کی طرف بڑھے۔ یہاں ہمیں پینے کے پانی کی خالی بوتلیں نظرآئیں تو یقین ہوا کہ ان شاء اللہ ہم صحیح راستے پر چل رہے۔ یوں چلتے چلتے مزید ڈھلان آئی اور وہاں سے ہمیں ایک سڑک نظر آئی تو حاجی عبد اللہ صاحب کہنے لگے کہ یہ سڑک میر علی کو جاتی ہے۔
انتہائی خوشی کے عالم میں ہم اس سڑک کی طرف چلنے لگے اور پیچھے وقفے وقفے سے دشمن مارٹر گولے چلاتا رہا۔ اس سڑک پر ہم دو پہر کے قریب پہنچے یعنی ہمیں پیدل سفر شروع کیے ہوئے تقریباً ایک پورا دن ہونے والا تھا۔ اس سب میں ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا اور پینے کو راستے میں کہیں کیچڑ نما اور کہیں گدلا اور کھاری پانی تھا، یوں زبان و حلق شدید سوکھے ہوئے تھے۔ اسی سڑک پر شاید آدھ گھنٹہ مزید چل کر ہم ایک گاؤں تک پہنچے، وہاں ایک باغ میں درختوں کے نیچے پناہ لی اور وہاں کھیلتے بچوں کو پانی لانے کو کہا، جو انہوں نے چند منٹ میں دھاتی کُوزوں میں حاضر کر دیا۔ ہمارے امیر صاحب نے ہمیں اس حالت میں پانی پینے سے منع کیا۔ سب نے ان کو حکم مانا۔ امیر صاحب نے بچوں سے پوچھا کہ کیا یہاں کسی کے پاس مخابرہ (واکی ٹاکی وائر لیس سیٹ ) ہے؟ تو انہوں نے ایک دکان کی طرف اشارہ کیا جہاں مخابرے کا بڑا انٹینا نصب تھا۔ ہم پانچ منٹ چل کر اس دکان پر پہنچے لیکن وہاں پہنچ کر کسی سے صبر نہ ہوا اور دکان پر موجود یخ چال (ریفریجریٹر) سے ٹھنڈے جوس کے ڈبے نکالے اور جوس پیا۔ زبان پہلے ہی بلا مبالغہ سوکھ کر لکڑی بنی ہوئی تھی، اب ٹھنڈے جوس کے سبب اور بھی اکڑ گئی۔ حاجی عبد اللہ صاحب نے خود یا دکان دار کے ذریعے مخابرے پر آواز لگائی اور آدھ گھنٹے میں ایک بنجو (ٹویاٹا کرولا ہیچ بیک ۱۹۹۱ء ماڈل کی شکل) ہمیں لینے پہنچ گئی۔ اس میں ایک لمبے بالوں والے مقامی وزیر قبیلے سے تعلق رکھنے والے مجاہد تھے۔ وہ ہمیں لے کر میر علی کے ایک گاؤں جس کا نام غالباً ’خوشحال‘ تھا چلے گئے۔ وہاں ایک درخت کے نیچے قاری عمران صاحب کے ساتھی جعفر بابا بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ چھ سات دیگر مجاہد کمان دار بھی۔ جعفر بابا بڑے تپاک سے ہم سب سے ملے اور حاجی عبد اللہ صاحب سے تو بہت ہی زیادہ عزت و احترام سے پیش آئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ہمارے راہبر کی بے وفائی کا پتہ چلا تھا اور پاکستان فوج کی جانب سے ہم پر لگائی کمین کا بھی۔ جعفر بابا نے بتایا کہ وہ لوگ یہاں بیٹھے یہ مشورہ کر رہے تھے کہ ساتھی کل دوپہر میں چلے تھے اور رات کو اور آج صبح دو بار فوج کی طرف سے فائرنگ اور گولہ باری کی آواز آتی رہی تو یہاں مجاہدین ابھی اس بات پر مشورہ کر رہے تھے کہ مجاہدین کا ایک گروپ شہیدوں کی نعشیں اٹھانے کے لیے بھیجا جائے کہ آپ لوگوں نے مخابرے پر رابطہ کر لیا۔ اس بات پر سبھی خوب ہنسے۔
حاجی عبد اللہ صاحب نے کہا کہ ساتھی بہت تھکے ہوئے ہیں بس ہمیں آپ جلد میر علی پہنچا دیں۔ جعفر بابا نے فوراً ہمیں میر علی پہنچانے کا انتظام کر دیا اور آدھ پون گھنٹے بعد ہم میر علی بازار میں تھے۔ مولوی صاحب اور راقم نے حاجی عبد اللہ صاحب کو اپنے جہادی مجموعے کے مضافے یعنی مہمان خانے آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کی۔ وہاں پہنچ کر ہم نے کھانا کھایا جو تھوڑا بہت ہی بچا تھا سو ہم نے اسی ہانڈی کو اٹھا کر دسترخوان پر رکھ لیا جس میں کھانا پکایا گیا تھا۔ حاجی عبد اللہ صاحب کہنے لگے کہ اب تو ہم ہنڈی وال بھی ہو گئے ہیں1۔
کھانے کے بعد حاجی عبد اللہ ہم سے رخصت ہو گئے اور ہم بھی میران شاہ کی طرف چل پڑے۔ میران شاہ پہنچ کر ہم عبد الودود زاہد بھائی کے مرکز کی طرف بھیجے گئے، جہاں طیب بھائی بھی موجود تھے۔ عبد الودود بھائی کا ذکرِ خیر ’مع الأستاذ فاروق‘ کی پندرہویں نشست (مجلّہ نوائے افغان جہاد، جنوری ۲۰۲۰ء) میں آ چکا ہے۔ اسی طرح طیب بھائی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکرِ خیر ’ستارۂ سحر‘ نامی مضمون میں مارچ ۲۰۱۶ء میں مجلّہ نوائے افغان جہاد میں شائع ہو چکا ہے۔ راقم عبد الودود بھائی کے مرکز میں ہی تھا جب مجھے لینے کے لیے میرے بڑے ہی محبوب ساتھی، دوست، غم گسار اور بھائی، مجاہد قائد ریحان شہید رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً (عفان غنی)لینے کے لیے آ گئے۔ ریحان بھائی سے یہ ملاقات اور ریحان بھائی کا ذکرِ خیر کئی حوالے سے قرض ہے اور چونکہ یہ محفلِ استاذ ہے اور ریحان بھائی استاذ کے خاص ساتھی تھے، اس لیے ریحان بھائی پر قدرے تفصیل کے ساتھ اگلی ایک یا دو نشستوں میں لکھنے کی کوشش کروں گا۔
فی الحال محفلِ استاذ کو یہیں روکتا ہوں۔ البتہ چند سطور پیش تر جو جعفر بابا کا ذکر آیا تو جتنا میں ان کو جانتا ہوں تو چند سطور میں اس کا بیان کر دینا لازمی ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے، جعفر بابا کا تعلق القاعدہ برِّ صغیر کے مؤسسین میں سے ایک، القاعدہ برِّ صغیر کی مرکزی شوریٰ کے رکن اور لجنۂ افغانستان کے مسئول قاری عمران (مولانا قاری عبید اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ) کے مجموعے سے تھا۔ جعفر بابا، اپنے اعلیٰ اخلاق، خدمت، ملنساری اور مہمان نوازی کے لیے مشہور تھے۔ میری جعفر بابا سے دو انتہائی مختصر ملاقاتیں ہیں، ایک وہی جو ابھی عرض کی اور دوسری سقوطِ وزیرستان آپریشنِ ضربِ عضب ۲۰۱۴ء کے موقع پر جب حضرت الأستاذ استاد احمد فاروق نے راقم کو شمالی وزیرستان کے علاقے لواڑہ سے جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈا روانہ کیا تو یہ ترتیب جعفر بھائی کے حوالے کی جو اس وقت پاکستان افغانستان کے ایک سرحدی علاقے میں مقیم تھے۔ بعداً جعفر بابا سنہ ۲۰۱۵ء میں قندھار کے علاقے شاہ ولی کوٹ میں امریکی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
فی الحال کے لیے اتنا ہی۔
وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.
وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 انڈیوال یا ہنڈی وال: یہ پشتو زبان کا لفظ ہے جو یار دوست کے لیے بولا جاتا ہے۔