نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

لبنان میں پیجر دھماکے اور مسلم ممالک میں کفار کے زرخرید میڈیا کا کردار

نیک محمد by نیک محمد
15 نومبر 2024
in طوفان الأقصی, ستمبر تا نومبر 2024
0

کسی بھی قوم میں اہلِ قلم اور داعیان کا کردار روح کی حیثیت رکھتا ہے، اگر وہ اپنے مقام اور فریضے سے واقف ہوں تو وہ اپنی قوم میں غیرت و حمیت اور تعمیر و ترقی کی روح بیدار کر سکتے ہیں، اور اگر وہ محض دشمن کے گماشتے اور اس کے پروپیگنڈے کو تقویت دینے والے ہوں، تو اس قوم کو صدیوں غلامی میں رکھنے کا باعث بنتے ہیں۔ موجودہ دور میں مغربی کفار کے غلبے اور خصوصاً دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے، امتِ مسلمہ کے اہلِ قلم اور داعیان کی اکثریت محض امریکہ و اسرائیل کا رعب اور ان کی جھوٹی دھاک مسلمانوں کے دلوں میں بٹھانے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ لوگ محض اپنے شخصی و گروہی مفادات کے لیے امت میں بزدلی، بے ہمتی اور بے حمیتی پیدا کرتے ہیں اور اسے امریکہ و اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا درس دینے کے بجائے ان کی غلامی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جس کا مشاہدہ اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے۔

حال ہی میں لبنان میں ہونے والے پیجر (Pager) دھماکوں کے بعد ان ننگِ ملت، ننگِ وطن اور دین فروش اہل قلم و داعیان کو ایسا ہی ایک موقع ہاتھ آگیا۔ چنانچہ عرب میڈیا ہو یا پاکستانی میڈیا، ہر جگہ انہوں نے امتِ مسلمہ کو امریکہ اور خصوصاً اسرائیل کی طاقت اور ٹیکنالوجی سے خوب خوفزدہ کیا اور مسلمانوں کی کمزوری و زبوں حالی کا جی بھر کر مذاق اڑایا۔ پاکستان کے ایک مشہور کالم نگار اور نام نہاد صحافی نے ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا: ’’حرام خوری کی سزا‘‘۔ اس کالم میں وہ لکھتا ہے کہ اسرائیل کسی بھی وقت ساری دنیا کے موبائل اور لیپ ٹاپ دھماکوں سے اڑا سکتا ہے جبکہ ’’مسلمانوں نے پچھلے ہزار سالوں میں دنیا کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کیا‘‘ اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے ہیں جس کی انہیں یہ سزا ملی ہےاور اسی کالم میں اسرائیلی آرمی چیف کا ایک بیان نقل کرتا ہے کہ ہم نے تو صرف دو فیصد ٹیکنالوجی استعمال کی ہے جبکہ ہمارے پاس اٹھانوے فیصد ابھی محفوظ ہے۔ جہاں تک اسرائیلی آرمی چیف کے بیان کی بات ہے تو اس نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا بلکہ اسرائیلیوں نے تو باقاعدہ رسمی طور پر ان دھماکوں میں ملوث ہونے کا اعلان بھی نہیں کیا بلکہ ثانوی ذرائع سے اس کارروائی کو قبول کیا ہے جبکہ تمام دنیا کے موبائلوں اور لیپ ٹاپس کو دھماکوں سے اڑانا تکنیکی طور پر کیوں ممکن نہیں ہے، ان شاء اللہ اسی مضمون میں ہم آگے چل کر دیکھیں گے۔ اس کالم نگار نے یہ جھوٹ بھی لکھا کہ ’’حماس بھی ’پیجر‘ استعمال کرتی ہے اور حماس کو ’واکی ٹاکی‘ بھی موساد کی ایک کمپنی بیچتی رہی‘‘۔ آج سے تقریباً دس سال پہلے یہی کالم نگار پیرس میں حملوں کے بعد اپنے کالم ’’فار پیرس وِد لَو(For Paris with Love) میں لکھتا ہے: ’’میں 54مرتبہ پیرس گیا……‘‘ جبکہ ایک اور کالم میں اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ نوّے کی دہائی میں وہ ایک عام اخباری رپورٹر تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام رپورٹر اور نام نہاد صحافی کے پاس چند سالوں میں اتنی دولت کہاں سے آگئی کہ وہ 54مرتبہ پیرس کی سیر کرنے چلا گیا؟ ظاہر ہے کہ اگر پیرس میں چوّن مرتبہ گیا ہے تو سینکڑوں مرتبہ امریکہ و برطانیہ بھی گیا ہوگا۔ اسی طرح عرب دنیا کے غدار اہلِ قلم اسرائیلی ٹیکنالوجی کی برتری کو مسلمانوں کے دلوں میں پیوست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس خدمت میں سعودیہ کا سرکاری چینل العربیہ شاید سب سے آگے ہے۔ اس چینل کا ایک سابق جی ایم اور موجودہ کالم نگار اپنے ایک کالم بعنوان ’’اسرائیلی اقدام سے نظریات اور ٹیکنالوجی کا فرق واضح‘‘ میں لکھتا ہے:

’’یہ اسرائیلی کارروائیاں ’پیجر حملوں‘ اور ’واکی ٹاکی حملوں‘ کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔ اسرائیل کی اس جنگی کارروائی سے یہ خوب باور ہو جانا چاہیے کہ اب ہم تکنیکی جنگوں کے دور میں ہیں، بہادری کی جنگوں کے دور میں نہیں ہیں…… اس حالت میں مسلح قوت کے ساتھ تبدیلی کا تصور تقریباً ممکن نہیں رہا ہے، تاہم سادہ لوح نہ ہونا لازم ہے…… آج جو چیز اسرائیل کو اس کے گرد و پیش سے برتر ثابت کر سکتی ہے وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کی توجہ ہے جس نے اسے جنگ میں آج تک مسلسل فتوحات دی ہیں…… گرد و پیش کی ساری مملکتوں پر اس کی دھاک ہے، کوئی بھی مملکت اس کے سامنے چوں کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی…… القسام اور…… القاعدہ…… قربانی کے لیے بے خوفی و بہادری اور نظریاتی تیاری پر زور دیتی ہیں…… آپ آئیڈیالوجی کے ساتھ ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کر سکتے…… یہ جنگیں بغیر کسی فیصلہ کن نتیجے کے جاری رہیں گی، کیونکہ ایک فریق پوری تندہی سے اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہا ہے اور اپنے مخالفین کے ساتھ اپنی جنگ کو تجربات کے نئے میدان کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جبکہ دوسرا فریق اپنے عقائد میں جکڑا ہوا ہے اور انسانوں کے نقصان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔‘‘

اس کالم نگار نے اپنے ایک دوسرے کالم کا عنوان یہ رکھا ہے: ’’اسماعیل ہنیہ …… یحیی السنوار کا شکار بن گئے!‘‘

کہاجاتا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے دور میں سعودی سرکاری چینل العربیہ ہوتا تو منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کی ملکیت ہوتا۔ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے بھی العربیہ چینل کے متعلق اس قسم کی حقیقت کا اظہار کیا تھا۔

امریکہ جب افغانستان میں دو ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھانے کے بعد شکست کھا کر بھاگا تب بھی ان جیسے اینکروں نے ٹی وی پر آ کر امریکہ کے مالی نقصانات کا دفاع کیا چنانچہ ایک اینکر ٹی وی پر یہ کہتا سنا گیا کہ ’’امریکہ پر چاہے جتنے بھی قرضے چڑھ جائیں اسے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ جبکہ خود امریکی سیاست دان اور ماہرین امریکی میڈیا پر آ آ کر اس کے معاشی نقصانات کی دہائی دیتے رہے۔ ان غلام صحافیوں نے امریکہ کی عسکری شکست کو ڈیل کا نتیجہ قرار دیا جبکہ خود امریکی افواج کا سربراہ مارک ملی اپنے ایک انٹرویو میں واضح الفاظ میں اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’(It is a Defeat) یہ ایک شکست ہے‘‘۔

طوفان الاقصیٰ سے ایک سال قبل مجرم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنی آپ بیتی پر مبنی کتاب ’’Bibi: My Story (2022)‘‘ لکھی، جس کے نوویں باب میں ’’کمانڈر‘‘ کے عنوان کے تحت وہ لکھتا ہے:

’’میں ایک تباہ حال صلیبی قلعے کے پاس خلیج میں روزانہ غوطہ خوری کی مشق کرتا تھا کہ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا ہمیں بھی صلیبیوں جیسے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا؟ جنہوں نے دو صدیوں کے بعد مقدس سرزمین کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا تھا؟ اسرائیل کے عرب دشمنوں میں یہ ایک عام امید ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم بہتر کریں گے، صلیبیوں کے برعکس ہم تین ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے اپنی سرزمین سے جڑے ہوئے ہیں اور ہم نے اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ناقابل یقین مشکلات پر قابو پایا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل کی طاقت اور استحکام کو یقینی بنانے کا سوال میرے ذہن میں ہی رہا۔‘‘

جبکہ ایک سابق اسرائیلی وزیر اعظم کہتا ہے کہ ’’میں نے یہودیوں کی پوری تاریخ پڑھی ہے اور کوئی بھی یہودی ریاست ایسی نہیں تھی جو اَسّی سال سے زیادہ صفحۂ ہستی پر موجود رہی ہو‘‘۔ اسی چیز کو وہ لوگ ’اَسّی کی دہائی کی لعنت‘ کہتے ہیں۔ پس خود یہود کا تو یہ حال ہے کہ انہیں اپنے ریاستی وجود ہی کے ختم ہونے کا خوف ہے اور ان کے زرخرید غلام، مسلمانوں میں ان کی جھوٹی دھاک بٹھا کر کفار کی خدمت میں مصروف ہیں۔

پیجر دھماکوں کے تناظر میں ’اسرائیلی ٹیکنالوجی‘ اور ’انٹیلی جنس‘ کا جائزہ

اب ہم لبنان میں پیجر دھماکوں کے تناظر میں ’اسرائیلی ٹیکنالوجی‘ اور ’انٹیلی جنس‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ایرانی لبنانی جماعت حزب اللہ مخبروں سے اس قدر بھری ہوئی تھی کہ محض ایک ہفتے میں اس کی اوّل، دوم اور سوم درجے کی قیادت ختم ہو گئی۔ انٹیلی جنس ماہرین، مجاہدین حتیٰ کہ عام ریسرچرز بھی جانتے ہیں کہ گائیڈڈ میزائل، چاہے ڈرون طیارے کے ذریعے گرایا جائے یا جیٹ طیارے کے ذریعے، اس کے لیے زمین پر ریسیونگ ڈیوائس مثلاً چپ وغیرہ کی موجودگی ضروری ہے جس کے لیے زمین پر مخبروں کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی جماعت میں اس قدر مخبر پائے جائیں کہ اس کی اوّل، دوم اور سوم درجے کی تمام قیادت وارننگ کے باوجود محض ایک ہی ہفتے میں ختم ہو جائے تو یہ اس جماعت کی کمزوری ہے نہ کہ دشمن کی طاقت۔

پیجر (Pager) کمر پر باندھنے والا ایک پرانا آلہ ہے جس میں کسی شخص کو پیغام بھیجا جاتا ہے۔ ایرانی لبنانی جماعت حزب اللہ نے کئی ماہ قبل ٹریکنگ کو روکنے کے لیے اپنے رہنماؤں کے موبائل فونز کو پیجرز (Pagers) سے بدل دیا تھا (جس کے لیے لابنگ بھی مخبروں کے ذریعے کرائی گئی ہوگی) اور یہ پیجرز پورے لبنان میں اس کے اراکین میں تقسیم کیے گئے تھے۔ اسرائیل نے ایسے پیجرز کو نشانہ بنایا جو کام کر رہے تھے اور پیغامات وصول کر رہے تھے۔ یہ آلات تائیوان کی کمپنی گولڈ اپولو کو آرڈر کیے گئے تھے اور ان کے لبنان پہنچنے سے قبل ان میں دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا۔ ایرانی لبنانی جماعت حزب اللہ نے گولڈ اپولو سے 3000 سے زیادہ پیجرز کی درخواست کی تھی جبکہ تائیوان کی گولڈ اپولو کمپنی کہتی ہے کہ لبنان میں دھماکوں میں پھٹنے والے پیجر آلات ہنگری میں (PAC)کمپنی تیار اور فروخت کرتی ہے اور ہمارا صرف برانڈ نیم استعمال ہوتا ہے جبکہ ان کی تیاری اور تقسیم سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بعد ہنگری نے ان آلات کی تیاری اور تقسیم سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ پھر خبر آئی کہ آلات بلغاریہ میں تیار کیے گئے ہیں۔ اس پر بلغاریہ کی قومی سلامتی ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ ’’ان کے ملک نے حال ہی میں لبنان میں پھٹنے والے پیجر آلات کی فراہمی نہیں کی اور بلغاریہ میں ان آلات کے لیے کوئی کسٹم کلیئرنس نہیں کی گئی، نورٹا گلوبل، جس نے یہ آلات ایک ثالث، (PAC) کنسلٹنگ کے ذریعے خریدے اور جو تائیوان کی کمپنی کا آفیشل سپلائر سمجھا جاتا ہے، درحقیقت ایک غیر ملکی ایڈریس پر رجسٹرڈ ہے اور بلغاریہ میں کوئی کاروبار نہیں کرتا‘‘۔ رائٹرز کے مطابق موساد کے ذریعہ پیداوار کے دوران ان آلات میں ترمیم کی گئی تھی۔ لہذا یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ ڈیوائسز کہاں تیار کی گئیں، شاید تل ابیب میں، اور ڈیوائسز کی فروخت کا عمل درمیانی جعلی کمپنیوں کے ذریعے کیا گیا۔

تحقیقاتی رپورٹس پیجرز میں PETN (Pentaerythritol tetranitrate) کی موجودگی کی نشاندہی کرتی ہیں جسے پلاسٹیسائزر (Plasticizer)، میں مکس کر کے چپکایا گیا تھا، یہ گرنے یا جلنے سے نہیں پھٹتا بلکہ مسلسل ارتعاش /وائبریشن (Vibration) سے پھٹ سکتا ہے، PETN کا ایک کلوگرام TNT کے 1.25 کلوگرام کے برابر ہے۔ پیجرز پر پیغامات شدت سے اور مسلسل بھیجے گئے جس کی وجہ سے وہ کافی دیر تک ہلتے رہے اور اس طرح مادہ پھٹ گیا۔

اس کے برعکس بیٹری ہیٹنگ ٹیکنالوجی (Battery Heating Technology) کا مفروضہ قابل عمل نہیں ہے کیونکہ تکنیکی طور پر لیتھیم بیٹری کا دھماکہ کرنا مشکل ہے، اگر بالفرض چھوٹے آلات میں لیتھیم بیٹری کے پھٹنے کا عمل وقوع پذیر ہو بھی تو ایک معمولی سا سپارک (Spark) پیدا ہوتا ہے اور موبائلوں اور لیپ ٹاپس میں اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ اتنے چھوٹے آلات میں موجود لیتھیم بیٹری کے پھٹنے سے پیدا ہونے والا شعلہ یا سپاک بمشکل خود آلے کو نقصان پہنچا سکتا ہے چہ جائیکہ کسی انسان کی موت یا زخمی ہونے کا سبب بنے۔

پس یہ اس سارے کھیل کی حقیقت ہے جسے ہمارے اہلِ قلم اور میڈیا پرسنز ایسا بنا کر پیش کر رہے ہیں کہ جیسے (العیاذ باللہ) اسرائیلی اور یہودی کسی خدائی اختیار کے حامل ہو گئے ہیں اور وہ ایک بٹن دبا کر تمام دنیا کے لوگوں کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ خود موساد اور اسرائیلی حکام اپنے منصوبے کے فاش ہونے سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ صہیونی اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی حکام نے سازش کے بے نقاب ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر پیجرز دھماکے کیے ہیں چنانچہ قیادت کو آگاہ کیا گیا کہ: ’’اسے استعمال کریں یا اسے گم کر دیں‘‘۔

تمام دنیا کے وسائل اکٹھا کرنے کے باوجود اسرائیل کی کمزوری

دنیا میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے خالقِ کائنات کی طرف سے واحد حقیقی اور غیر تحریف شدہ دین صرف اور صرف اسلام ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ اس تکوینی نظام میں مسلمانوں کی بے عملی کے سبب ان پر مختلف آزمائشیں اور مصائب آتے رہتے ہیں لیکن مسلمان جونہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں، اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور اپنی جانوں کو اللہ کی راہ میں پیش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی فرماتا ہے اور اگر وہ ضروری دینی اور مادی اسباب اختیار کریں اور چاہے کتنے ہی کمزور ہوں باطل کے مقابلے پر ڈٹ جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اور انہیں فہم و فراست عطا فرماتا ہے۔

اسرائیلی مصنف اَری شاوِیت عبرانی اخبار ہاریٹز میں ’’اسرائیل آخری سانسیں لے رہا ہے‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتا ہے:

’’ایسا لگتا ہے کہ فلسطینی باقی انسانیت سے مختلف نوعیت کے ہیں…… ہم نے ان کی زمین پر قبضہ کیا اور ان کے نوجوانوں کو منشیات، عصمت فروشی اور دوسری برائیوں کے ذریعے خراب کیا، ہم نے سوچا کہ کچھ سال بعد وہ اپنی سرزمین اور وطن کو بھول جائیں گے لیکن پھر نوجوان نسل 1987ء کی انتفاضہ میں بپھر گئی۔

ہم نے انہیں قید کیا، ہم نے کہا ’ہم انہیں جیلوں میں بڑا کریں گے‘، سالوں بعد جب ہم نے سمجھا کہ انہوں نے سبق سیکھ لیا ہے تو وہ مسلح بغاوت کے ساتھ ہمارے سامنے آئے جس نے سبز اور خشک سب کچھ برباد کر دیا۔

ہم نے کہا کہ ان کے گھروں کو مسمار کر دیں گے، ہم نے انہیں کئی سالوں تک محصور کیا اور پھر، باوجود محاصرے اور تباہی کے، انہوں نے میزائل نکالے اور ہمارے اوپر حملہ کر دیا۔

ہم نے علیحدگی کی دیوار اور خاردار تاروں کی منصوبہ بندی کی، پھر بھی وہ زیر زمین سرنگوں کے ذریعے ہم تک پہنچ گئے اور ہمیں بھاری نقصان پہنچایا۔

آخری جنگ کے دوران ہم ان سے پوری طاقت سے لڑے، پھر بھی انہوں نے اسرائیلی سیٹلائٹ (اموس) کا کنٹرول سنبھالا؟ ان کے نوجوانوں نے اسرائیل کے چینل 2 کا کنٹرول حاصل کیا اور دھمکیاں اور وارننگز نشر کیں اور انہوں نے ہر اسرائیلی گھر میں دہشت پھیلائی۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارا سامنا تاریخ کے سب سے سخت مزاج لوگوں سے ہے اور ان کا واحد حل یہ ہے کہ ان کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور قبضے کو ختم کیا جائے۔‘‘

اللہ اکبر وللہ الحمد!

اسرائیلی عبرانی اخبار ہاریٹز کا بیان ہے:

’’شاید جو چیز ایرانیوں کو سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ انٹیلی جنس کی رسائی سے متعلق ہے جو ایرانی لبنانی جماعت حزب اللہ کی صفوں میں ظاہر ہوئی۔ اور پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار 7 اکتوبر کے حملے کے وقت ایران اور ایرانی لبنانی جماعت حزب اللہ کو شامل نہ کرنے کے اپنے فیصلے میں درست تھے، شاید اگر وہ شمالی محاذ پر اپنا راز فاش کر دیتے تو اسرائیلی انٹیلی جنس کا نظام غزہ کی پٹی میں اپنی گہری نیند سے بیدار ہو جاتا۔‘‘

کتائب القسام نے اس حملے کے لیے کئی سال تیاری کی اور اسرائیلی اندرونی انٹیلی جنس شاباک (Shin Bet) یا بیرونی انٹیلی جنس موساد، ان کی منصوبہ بندی کی آہٹ بھی نہ پا سکیں۔ سات اکتوبر کے حملے میں اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 1631 ہے جن میں سے 540 اسرائیلی فوجی/ریزروسٹ/پولیس، 354 باقاعدہ سپاہی اور افسران اور 737 دہری شہریت والے/غیر ملکی تھے جبکہ 17,141 زخمی ہے، جن میں 13,120 پولیس اور آباد کار، 4,021 ریگولر سپاہی اور افسران شامل ہیں۔ ہٹلر نے جب نازی افواج کے ساتھ یورپی ممالک پر حملہ کیا تو اسلحے کے ذخائر اور باقاعدہ افواج کے باوجود یہ ممالک ریت کی دیوار کی طرح گرتے گئے۔ پولینڈ کا سقوط 30 دن میں ہوا (1 ستمبر سے 30 ستمبر 1939ء)، ڈنمارک کا سقوط 6 گھنٹے کے اندر (9 اپریل 1940ء کو)، ناروے نے دو ماہ کے اندر ہتھیار ڈال دیے (9 اپریل سے 10 جون 1940ء تک)، بیلجیم کا سقوط 18 دن کے اندر ہوا (10 مئی سے 28 مئی 1940ء تک)، نیدرلینڈز کا سقوط 4 دن کے اندر ہوا (10 مئی سے 14 مئی 1940ء تک)، فرانس کا سقوط تقریباً 6 ہفتے میں ہوا(10 مئی سے 22 جون 1940ء تک)، یوگوسلاویہ نے صرف 11 دن مزاحمت کی (6 اپریل سے 17 اپریل 1941ء) اور یونان کا سقوط 6 ہفتوں میں ہوا (28 اپریل سے 30 مئی 1941ء تک)۔ اگر ہم غزہ کا ان ممالک سے موازنہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جنگ کے تمام پہلوؤں میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ملک کے مقابلے میں بھی غزہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور دوسری طرف اگر ہم نازی ازم کی وحشت کا صہیونی قبضے کی سربریت سے موازنہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ نازی جرائم صہیونی وجود کے جرائم کے دسواں حصہ بھی نہیں تھے اور غزہ پر حملہ کرنے والے ہتھیار ان تمام ممالک کی مشترکہ بمباری سے کہیں زیادہ تھے حتیٰ کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی بموں سے بھی زیادہ۔ پس غزہ میں اس صدی کی شدید ترین جنگ لڑی جا رہی ہے جس کا مشاہدہ جدید دنیا نے کبھی نہیں کیا، اس جنگ میں ہزاروں ٹن بارود گرایا گیا، نسل کشی کی گئی، لیکن جنگ کے ایک سال بعد بھی غزہ کے مجاہدین تل ابیب پر راکٹ داغ رہے ہیں! فللّٰہ الحمد۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

امارت اسلامیہ افغانستان کی طرف سے تعزیتی بیانات

Next Post

مَعرکے ہیں تیز تَر! | ستمبر تا نومبر 2024

Related Posts

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل
طوفان الأقصی

اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل

13 اگست 2025
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

12 اگست 2025
Next Post
مَعرکے ہیں تیز تَر! | ستمبر تا نومبر 2024

مَعرکے ہیں تیز تَر! | ستمبر تا نومبر 2024

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version