۱۶ اکتوبر ۲۰۲۴ء کا دن آیا اور گزر گیا۔ لیکن ایسی شخصیت کو ہم سے لے گیا جس کے فراق میں ہر اہل ایمان غمگین ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے چند ہی ہفتوں بعد، حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار بھی شہید ہو گئے۔ انا لله وانا اليه راجعون.
تعارف
یحییٰ سنوار ۱۹۶۲ء میں جنوبی غزہ میں خان یونس کے مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کا تعلق عسقلان سے تھا۔ ’النکبہ‘ کے نتیجے میں اسرائیل نے جہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کیا تھا، ان میں یحییٰ سنوار کا خاندان بھی تھا۔ یحییٰ سنوار نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان میں گریجوئیشن کی۔ وہ حماس کے ان ابتدائی اراکین میں سے تھے جن کی تربیت شیخ احمد یاسین نے کی تھی۔ وہ جوانی سے ہی مضبوط قوت ارادی کے حامل، بہادر اور زیرک نوجوان تھے۔ انہوں نے ۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۱ء تک بائیس سال اسرائیلی جیلوں میں گزارے اور ہر طرح کے تشدد اور تعذیب کو برداشت کیا جس نے ان کی شخصیت کو مزید پختہ کیا اور ان کے افکار و کردار کو آہنی طرز پر ڈھال دیا اور وہ تشدد، تکالیف اور مصائب کے آگےکبھی نہ جھکے۔
قید میں انہوں نے نا صرف عبرانی زبان پر مکمل عبور حاصل کیا بلکہ اسرائیلی انٹیلی جنس اور جاسوسی کے نیٹ ورک پر بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان کا عربی ترجمہ کیا، اس کے علاوہ یہودیوں کی تاریخ اور ان کی نفسیات کا بھی باریکی سے مطالعہ کیا۔ قید میں ہی انہوں نے اپنا مشہور ناول ’’الشوک والقرنفل ‘‘لکھا۔ خود اسرائیلیوں نے ان کے متعلق کیے گئے تجزیے میں کہا:
’’وہ ایک جابر، دبدبے والے اور بااثر راہنما ہیں۔ جن میں برداشت، چالاکی اور ساز باز کرنے اور تھوڑے وسائل پر گزارا کرنے کی غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔ وہ جیل میں بھی قیدیوں کے درمیان راز رکھتے تھے اور ان میں ہجوم کی سربراہی کرنے کی صلاحیت تھی۔‘‘
۲۰۱۱ء میں ایک یرغمالی اسرائیلی فوجی کے بدلے انہیں ایک ہزار فلسطینیوں سمیت قیدیوں کے تبادلے میں رہا کروایا گیا تو وہ ایک بار پھر حماس کے عسکری ونگ میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد غزہ سے اسرائیلی جاسوسوں کے نیٹ ورک کو ختم کیا۔ ۲۰۱۸ء میں یحییٰ سنوار نے اسرائیل کو حماس کی مسلح مزاحمت ختم کرنے کا اشارہ دیا۔ لیکن دراصل یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے دیگر عسکری قائدین کے ساتھ مل کر ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی بھرپور تیاری شروع کر دی۔
شہادت
کفار کے تمام تر پروپیگنڈے کے برعکس، ان کی شہادت مجاہد نوجوانوں کے ساتھ صفِ اوّل میں غاصب صہیونیوں سے لڑتے ہوئے ہوئی۔ رفح کے علاقے تل السلطان میں تین مجاہدین اسرائیلی فوج کے خلاف کارروائی کر رہے تھے، جنہیں مسلح جھڑپ کے بعد ٹینک سے نشانہ بنایا گیا، جس سے ان کے ساتھی شہید ہو گئے اور یحییٰ سنوار ، جنہوں نے کوفیہ سے اپنا چہرہ ڈھانپا ہوا تھا، زخمی ہو گئے اور ایک گھر میں پناہ لی۔ جب اسرائیلی فوجی ان کے پیچھے اس گھر کے اندر گئے تو انہوں نے بالائی منزل سے ان فوجیوں پردستی بم پھینکے ، جس سے ڈر کر فوجی واپس بھاگ گئے اور ایک چھوٹے ڈرون کیمرے کی مدد سے عمارت میں ان کی نشاندہی کی۔ ڈرون کی آنکھ نے جس زخموں سے چور مجاہد کو دیکھا، دشمن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ زخمی لیکن باہمت و نڈر مجاہد کون ہے۔ وہ ایک صوفے پر اس حالت میں بیٹھا تھا کہ اس کا دایاں ہاتھ شدید زخمی تھا، اس بازو کو ایک لوہے کی تار سے شاید خون روکنے کے لیے باندھ رکھا تھا، جبکہ ٹانگ بھی زخمی تھی۔ لیکن اس کی بے خوف آنکھیں ڈرون کو اپنے سامنے آتا دیکھ رہی تھیں۔ پھر اس نے ایک لکڑی کی چھڑی دشمن کے ڈرون پر پھینکی۔ یہ لمحہ اور یہ شدید زخمی حالت میں بھی ہمت جمع کرکے پھینکی گئی لکڑی کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کی اور عزیمت او بہادری کی یہ مثال امر ہوگئی۔
ڈرون چلا گیا لیکن اس کا اگلا منظر نامہ مزید حیران کن تھا، وہ زخمی شیر ایک بار پھر اٹھا اور باہر موجود دشمن کے فوجیوں کے خلاف کھڑکی کی آڑ میں ایک بار پھر ڈٹ گیا، اور یہ مقابلہ خود صہیونیوں کے مطابق ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ آخر کار اسرائیلی ٹینک نے گولا مارا اور زخمی شیر اپنے رب سے جا ملا۔
دشمن کے کیمروں نے اس شیر کے آخری لمحات نہ صرف ریکارڈ کر لیے بلکہ ان کے کیمرے کی آنکھ سے یہ منظر پوری دنیا نے دیکھا۔ صہیونیوں کو بعد میں علم ہوا کہ یہ یحییٰ سنوار تھے، حماس کے قائد، مجاہد اور ہیرو اور اسرائیل کو سب سے زیادہ مطلوب شخصیت۔ ان کی شہادت کے ایک دن بعد جب بزدل صہیونی ان کی لاش کے نزدیک گئے تو انہیں شک ہوا کہ یہ یحییٰ سنوار ہیں، جس کی تصدیق کے لیے صہیونی فوجیوں نے ان کی ایک انگلی کاٹ کر ڈی این اے کے لیے بھیج دی اور پھر تصدیق ہو جانے کے بعد ان کی لاش کو بھی ساتھ ہی لے گئے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق یحییٰ سنوار کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اللہ کے اس شیر نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا، ان کی زندگی کے آخری ۷۲ گھنٹے فاقہ میں گزرے تھے،اور وہ اسی حالت میں اپنی آخری سانس تک دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور یہ ثابت کر دیا کہ اس امت میں اب بھی ایسے ابطال پیدا ہوتے ہیں کہ جن کی بہادری ، شجاعت اور فولاد کی طرح مضبوط ایمان امت کا سر فخر سے بلند کر دیتا ہے۔
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ڮ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا (سورة الأحزاب: 23)
’’ مومنوں میں سے کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دکھایا تو ان میں سے کچھ نے اپنی نذر پوری کردی اور کچھ منتظر ہیں اور انھوں نے اپنی نیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘
وتعز من تشاء وتذل من تشاء
یحییٰ سنوار کے آخری لمحات میں، جس میں وہ زخموں سے چور ہونے کے باوجود اسرائیل ڈرون پر لکڑی سے وار کرتے ہیں، وہ پوری دنیا کے لیے مزاحمت، عزیمت اور دشمن کے خلاف آخری سانس تک ڈٹے رہنے کی ایک مثال بن گئے۔ ان کی اس ویڈیو نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا اور فلسطینیوں کی تحریکِ جہاد و مزاحمت کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک برطانوی یہودی نے ان کی شہادت پر جو تبصرہ کیا وہ کفار کیا خود یہودیوں پر اس ویڈیو کے اثرات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’سنوارکے میں بارے میں لوگ چاہے کچھ بھی سوچیں، اس نے ہالی وڈ فلموں میں ہیرو کے کردار کی طرح موت پائی۔ آخری فرد جو کھڑا رہا، اپنے مردہ ساتھیوں کے درمیان تنہا، گرد و غبار میں اٹا ہوا، بمشکل زندہ، شدید مشکلات سے نبرد آزما، وہ اپنے ایک باقی بچے بازو کو استعمال کرتے ہوئے، ایک قریب ترین ہتھیار جس تک وہ پہنچ سکتا تھا اسے اس ڈرون کی جانب پھینکتا ہے جسے مشین کے پیچھے چھپا ایک بزدل چلا رہا تھا……اور اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس ویڈیو کو عوامی طور پر نشر کر کے سنوار اور فلسطینی مزاحمت کی تذلیل کی ہے۔‘‘
یحییٰ سنوار کو بدنام کرنے کے لیے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان کو بزدل کہا، ان پر الزام لگایا کہ وہ زیر زمین سرنگوں میں اسرائیلی فوج سے چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں، کبھی کہا گیا کہ انہوں نے اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے اور وہ بارودی جیکٹ پہنے ان کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا پورا ایک یونٹ اور امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ انٹیلی جنس صرف اس کام کے لیے پورے ایک سال سے لگی ہوئی تھیں کہ وہ یحییٰ سنوار کی پناہ گاہ ڈھونڈ نکالیں، مگر اس دوران اللہ کا شیر صفِ اوّل میں دشمن سے لڑتا رہا اور انہیں کچھ خبر نہ ہوئی۔ اور جب شہید ہوا تو اسرائیل کے تمام الزامات کو غلط ثابت کرتے ہوئے سینہ تان کر لڑا اور سر اور سینے پر وار کھا کر شہید ہوا۔ اس طرح اللہ نے اسرائیل کو پوری دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کر دیا۔
وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ
پھر دشمن نے فلسطینیوں اور مجاہدین کی صفوں میں مایوسی پھیلانے کے لیے شہید کے آخری لمحات کی ویڈیو نشر کر دی، لیکن اللہ نے پھر اس کی چال کو ناکام بنا دیا۔ اس ویڈیو نے فلسطینیوں، مجاہدین اور رہتی دنیا کے مسلمانوں میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت کی ایک نئی روح پھونک دی، ایمان کو تازہ کیا اور ڈٹ جانے کے لیے لہو گرما دیا۔
آن لائن انگریزی جریدے ’’مڈل ایسٹ مانیٹر‘‘ پر ’’یوان ریڈلے‘‘ لکھتی ہیں:
’’غزہ کی سرنگوں میں چھپنے کی بجائے، سنوار نے، عوامی طور پر محبوب فلسطینی سیاستدان اور حماس کے سیاسی راہنما، اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد، عز الدین القسام بریگیڈز کے کم عمر ترین ارکان کے ساتھ صفِ اوّل پر لڑنے کا انتخاب کیا۔
سنوار نے اپنے ساتھیوں کو، جو انہیں زیادہ محتاط رہنے پر زور دیتے تھے، کہا، ’’میں چاہتا ہوں کہ مزاحمت میں شامل سب لوگ یہ سمجھ لیں کہ میری زندگی صفِ اوّل پر موجود کسی بھی فرد سے زیادہ قیمتی نہیں، اور حقیقی قائد صفِ اوّل پر لڑا کرتے ہیں، اور اگر میں چلا جاتا ہوں، تو ہم نے پہلے سے ہی جانشین منتخب کر رکھا ہے‘‘۔
سنوار کے قریبی حلقوں میں یہ بات اچھی طرح معروف ہے کہ وہ اپنی زندگی کو مارے جانے والے بچوں کی زندگیوں سے زیادہ قیمتی تصور نہیں کرتے تھے۔
اس وقت جبکہ نسل کشی جاری ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ سنوار کی میراث کیا ہو گی، لیکن میرا گمان ہے کہ ان کی زندگی میں ایک شیر کی طرح کیے گئے ان کے اعمال فلسطینی تاریخ کی کتابوں میں کہیں بعد تک، ایک طویل عرصے تک نمایاں رہیں گے۔
…… اس سے فرق نہیں پڑتا کہ تل ابیب، واشنگٹن، لندن یا کہیں اور سے کیا مکارانہ بیان جاری کیے جاتے ہیں، سنوار نے ثابت کر دیا کہ وہ بے خوف تھے اور آخری دم تک لڑتے رہے، جب ان میں بمشکل ہلنے کی سکت تھی، تو انہوں نے اپنے ظالم پر ایک ٹوٹی ہوئی لکڑی کا ٹکڑا ہی پھینک دیا۔
یحییٰ سنوار جانتے تھے کہ موت اٹل ہے، لیکن جب وہ آئی تو انہوں نے اسے اپنی شرائط پر گلے لگایا۔ وہ ایک اور فلسطینی ہیرو کے طور پر مرے، اور ایک اسرائیلی ڈرون آپریٹر کی مہربانی سے، ہمارے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں، جو محض اتفاقیہ طور پر ہی ان تک پہنچا۔‘‘
اہلیانِ غزہ جو ہر روز اسرائیل کے ظلم کو سہہ رہے ہیں، ہر روز درجنوں شہید اور سینکڑوں زخمی ہوتے ہیں، نہ پیٹ بھر کر کھانے کو کچھ میسر اور نہ ہی طبی سہولیات۔ ان کا سپہ سالار خود انہیں کے درمیان رہ کر دشمن سے نبرد آزما ہو رہا تھا اوروہ آخر وقت تک لڑتا ہوا جامِ شہادت نوش کر گیا۔ ان کے متعلق اہلیانِ غزہ کیا سوچتے ہیں؟ رائیٹرز کی ایک رپورٹ میں غزہ کے مختلف لوگوں کی رائے پیش کی گئی ہے:
’’غزہ میں دو بچوں کے باپ، ۶۰ سالہ عادل رجب نے کہا، ’وہ ایک عسکری جیکٹ پہنے، ایک بندوق اور دستی بموں سے لڑتے ہوئے مرے، اور جب وہ زخمی تھے اور لہو لان تھے، وہ ایک چھڑی سے لڑے۔ ابطال اسی طرح مرتے ہیں‘۔
غزہ میں ایک ۳۰ سالہ ٹیکسی ڈرائیور علی نے کہا، ’میں گزشتہ شب سے یہ ویڈیو تیس بار دیکھ چکا ہوں۔ مرنے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا‘۔
ایک دو بچوں کے باپ نے کہا، ’میں اپنے بچوں کے لیے اور مستقبل میں اپنے پوتوں کے لیے اس ویڈیو کو دیکھنا روزانہ کا معمول بنا دوں گا‘۔
ایک چار بچوں کی ماں بیالیس سالہ بے گھر خاتون رشہ نے کہا، ’کہا گیا کہ وہ سرنگوں میں چھپےبیٹھے ہیں۔ کہا گیا کہ انہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے اسرائیلی قیدیوں کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ لیکن کل ہم نے دیکھا کہ وہ تو رفح میں اسرائیلی فوجیوں کا شکار کر رہے تھے، جہاں غاصب قوت مئی سے موجود ہے۔ قائدین اسی طرح جایا کرتے ہیں، ہاتھوں میں بندوق تھامے۔ میں سنوار کی بطور قائد حمایت کرتی تھی، اور آج مجھے ان کی شہادت پر فخر ہے‘۔‘‘
یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کو ختم کرنے تک جنگ بندی نہیں ہو گی۔ ظلم پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔ اس وقت شمالی غزہ کو محاصرہ کیے ۱۷ دن ہو چکے ہیں۔ اس دوران چار لاکھ کی آبادی اسرائیل کے رحم و کرم پر ہے، جہاں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ان کا قتلِ عام جاری ہے۔ وہاں خوراک، طبی امداد اور انٹرنیٹ بھی بند ہے۔ اس صورت میں ایک نڈر اور ثابت قدم رہنما کا چلے جانا بلاشبہ ایک بڑا خلا پیدا کرتا ہے، لیکن مجاہدینِ حق کا قافلہ رہبروں کے چلے جانے سے کبھی رکا ہی نہیں، بلکہ ایک قائد کی شہادت کے بعد کتنے ہی لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے وقت مشکل ضرور ہے، قحط الرجال ہے، امت مسلمہ خاموش تماشائی ہے، لیکن فلسطینی مجاہدین ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسرائیل جو انہیں کچلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے دراصل خود ہی اپنی قبر کھود رہا ہے۔ کیونکہ انسان تو مر جاتا ہے لیکن نظریہ نہیں مرتا۔ مزاحمت جو ستر سال سے زائد عرصے سے جاری ہے وہ جاری رہے گی، یہاں تک کہ مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کروا لیں۔ اس راستے میں شہادت ہر مجاہد کی دلی تمنا ہے جسے وہ بڑھ کر گلے لگاتا ہے۔ یحییٰ سنوار بھی انہیں مجاہدین میں سے ایک مجاہد تھے اور اپنی تقاریر میں بارہا شہادت کی تمنا دہراتے رہے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں وہ کہتے ہیں:
’’ہمیں اس موت سے گھبراتے ہیں کہ اگر ہم بیمار پڑ جائیں اور ہمیں بستر پر موت آجائے، مویشیوں کی طرح۔ لیکن ہم اپنے دین، اپنے وطن اور اپنی مقدسات کے لیے مرنے سے نہیں گھبراتے۔ ہمارا خون اور ہماری ارواح ہمارے کم عمر ترین شہید سے زیادہ قیمتی نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے اور انہیں فردوسِ اعلیٰ میں مقام عطا فرمائے۔ آمین
٭٭٭٭٭