مجاہد قائد یحییٰ سنوار شہید کی یہ وصیت اور اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ان کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر بہت گردش کرتا رہا ہے۔ اگرچہ اس وصیت کی سند کی مجاہدین کے معتبر ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی لیکن اس کے متن اور اس میں موجود پیغام کی اہمیت کے سبب اسے شائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
میں یحییٰ ہوں، پناہ گزیں کا بیٹا، جس نے اجنبیت کو ایک عارضی وطن بنالیا اور خواب کو ایک ابدی معرکے میں بدل دیا۔
میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں اور اس وقت میری زندگی کا ہر لمحہ میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ گلیوں میں گزرنے والا بچپن، پھر جیل کے طویل سال، پھر خون کا ہر قطرہ جو اس زمین کی مٹی پر بہایا گیا۔
میں خان یونس کے کیمپ میں 1962ء میں پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میرا وطن محض ایک یاد تھی جو تار تار کردی گئی تھی، محض کچھ نقشے تھے جو سیاست دانوں کی میزوں پر فراموش حالت میں پڑے تھے۔
میں وہ شخص ہوں جس نے اپنی زندگی کو آگ اور راکھ کے بیچ گزارا اور بہت پہلے یہ جان لیا کہ غاصبوں کے سائے میں زندگی گزارنے کا مطلب ایک ہمیشہ کی جیل میں رہنا ہے۔
میں نے کم سنی کے دور میں ہی یہ جان لیا تھا کہ اس سرزمین پر زندگی گزارنا عام بات نہیں ہے۔ جو یہاں پیدا ہوگا اسے اپنے دل میں ایک ناقابل شکست ہتھیار اٹھانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی کا راستہ طویل ہے۔
آپ لوگوں کے نام میری وصیت یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ اس لڑکے سے جس نے غاصب پر پہلا پتھر پھینکا اور جس نے یہ سیکھا کہ پتھر ہی وہ پہلے الفاظ ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنی بات اس دنیا کو سناسکتے ہیں جو ہمارے زخموں کو دیکھ رہی ہے اور خاموش کھڑی ہے۔
میں نے اپنے وطن کی سڑکوں پر یہ سیکھا کہ انسان کو اس کی عمر کے ماہ و سال سے نہیں ناپا جاتا، بلکہ اس سے ناپا جاتا ہے کہ وہ اپنے وطن کے لیے کیا پیش کرتا ہے۔ میری زندگی اسی سے عبارت تھی، جیل اور جنگیں، تکلیف اور امید۔
میں نے سب سے پہلے 1988ء میں جیل میں قدم رکھا اور مجھے عمر قید کی سزا سنائی گئی، لیکن میں نے ڈر کو قریب پھٹکنے نہیں دیا۔
ان تاریک کوٹھریوں کے اندر میں ہر دیوار میں کھڑکی دیکھتا تھا جس سے دور کا افق دکھائی دیتا تھا، ہر سلاخ میں سے روشنی پھوٹتے دیکھتا تھا جو آزادی کا راستہ روشن کرتی تھی۔
جیل میں رہتے ہوئے میں نے سیکھا کہ صبر محض ایک اخلاقی خوبی نہیں ہے بلکہ وہ ایک ہتھیار ہے، ایک کڑوا ہتھیار، جیسے کوئی سمندر کو قطرہ قطرہ کرکے پی لے۔
میری وصیت ہے کہ جیلوں سے خوف نہ کھاؤ، جیل تو آزادی کی منزل تک لے جانی والی ہماری طویل راہ کا ایک حصہ ہے۔
جیل نے مجھے سکھایا کہ آزادی محض ایک حق نہیں جو چھین لیا گیا، وہ تو ایک سوچ ہے جو تکلیف کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور صبر سے اس کی دھار تیز کی جاتی ہے۔ جب 2011ء میں ’’وفاء الاحرار‘‘ نامی معاہدے کے تحت میں جیل سے نکلا تو میں پہلے جیسا نہیں رہا تھا، میری شخصیت مضبوط ہوچکی تھی اور اس بات پر میرا یقین بڑھ چکا تھا کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ محض ایک وقتی کشمکش نہیں بلکہ یہ ہماری قسمت ہے جس کی لاج ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک رکھتے رہیں گے۔
میری وصیت ہے کہ بندوق کو مضبوطی سے تھامے رہو، اس عظمت کے ساتھ جس پر کوئی سودا نہ ہو اور اس خواب کے ساتھ جو کبھی موت کا منہ نہ دیکھے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم مزاحمت سے دست بردار ہوجائیں اور اپنے قضیے کو کبھی ختم نہ ہونے والے مذاکرات کے حوالے کردیں۔
لیکن میں تم سے کہتا ہوں، جو تمہارا حق ہے اس پر مذاکرات نہ کرنا، وہ تمہارے ہتھیاروں سے زیادہ تمہاری استقامت سے خائف ہیں۔ مزاحمت محض ہتھیار نہیں جو ہم اٹھائے ہوئے ہیں۔ مزاحمت تو فلسطین کے لیے ہماری محبت ہے جو ہماری ہر سانس کے ساتھ تازہ ہوتی ہے۔ مزاحمت تو ہمارا یہ ارادہ ہے کہ حصار و ظلم کے باوجود ہمیں باقی رہنا ہے۔
میری وصیت ہے کہ تم سدا شہداء کے خون سے وفادار رہنا۔ وہ گزر گئے اور ہمارے لیے یہ کانٹوں بھری راہ چھوڑ گئے۔ انہوں نے اپنے لہو سے ہمارے لیے آزادی کا راستہ ہموار کردیا۔ سیاست دانوں کے مفادات کی خاطر اور ڈپلومیسی کے کھیلوں میں آکر ان قربانیوں کو رائیگاں مت جانے دو۔
ہمارا کام یہ ہے کہ پہلوں نے جو آغاز کیا اسے تکمیل تک پہنچائیں اور اس راہ سے ذرا نہ ہٹیں، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے۔ غزہ استقامت کا مرکز اور فلسطین کا سدا دھڑکتا دل پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی رہے گا، چاہے یہ وسیع و عریض سرزمین ہمارے لیے کتنی ہی تنگ ہوجائے۔
جب میں نے 2017ء میں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالی تو وہ محض قیادت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ مزاحمت کا تسلسل تھا جو پتھر سے شروع ہوئی اور بندوق سے جاری رہی۔ حصار میں گھری میری قوم کا درد مجھے روز بے چین کرتا تھا، میں جانتا تھا کہ آزادی کی طرف اٹھنے والا ہمارا ہر قدم قیمت چاہتا ہے۔ لیکن میں تم سے کہے دیتا ہوں، ہار مان لینے کی قیمت اس سے بہت بڑی ہوگی۔ اس لیے اس زمین سے چمٹے رہو جس طرح جڑیں مٹی سے جڑی رہتی ہیں۔ جو قوم زندہ رہنے کا فیصلہ کرلیتی ہے اسے کوئی آندھی اکھاڑ نہیں پاتی۔
معرکۂ طوفان الاقصیٰ کے دوران، میں کسی جماعت یا تحریک کا قائد نہیں تھا، میں تو ہر اس فلسطینی کی آواز تھا جو آزادی کا خواب اپنے دل میں سجائے ہوئے ہے۔ میرے ایمان نے مجھے یہ راہ دکھائی کہ مزاحمت محض ایک اختیاری راستہ نہیں بلکہ ایک فریضہ ہے۔ میں نے چاہا کہ یہ معرکہ فلسطینی کشمکش کی کتاب میں ایک نیا ورق بن جائے۔ تمام مزاحمتی گروہ یک جا ہوجائیں، سب ایک خندق کے رفیق بن جائیں اور اس دشمن کا سامنا کریں جس نے کبھی بچے اور بوڑھے کا یا پتھر اور پیڑ کا فرق روا نہیں رکھا۔
میں نے کوئی ذاتی ورثہ نہیں چھوڑا، بلکہ اجتماعی وراثت چھوڑ رہا ہوں۔ ہر اس فلسطینی کے لیے جس نے آزادی کاخواب دیکھا، ہر اس ماں کے لیے جس نے اپنے شہید بچے کو اپنے کندھوں پر اٹھایا، ہر اس باپ کے لیے جس نے اپنی بچی کو مکار دشمن کی گولی کھاکر تڑپتے دیکھا اور غم کی شدت سے رو پڑا۔
میری آخری وصیت ہے کہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ مزاحمت فضول کام نہیں، یہ محض ایک گولی نہیں جو چلادی جائے، بلکہ یہ تو ایک زندگی ہے جسے عزت و عظمت کے ساتھ ہم جی رہے ہیں۔ جیل اور حصار نے مجھے سکھایا ہے کہ یہ معرکہ طویل ہے، یہ راستہ دشوار ہے، لیکن میں نے یہ بھی سیکھا کہ جو قومیں ہار ماننے سے انکار کردیتی ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے معجزے تخلیق کیا کرتی ہیں۔
دنیا سے توقع مت رکھنا کہ وہ تمہارے ساتھ انصاف کرے گی۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دنیا کس طرح ہمارے الم کو خاموشی سے دیکھتی رہی۔ انصاف کا انتظار مت کرو، بلکہ خود انصاف بن جاؤ۔ اپنے دلوں میں فلسطین کا خواب سجا رکھو، ہر زخم کو ہتھیار بنادو اور ہر آنسو کو امید کے چشمے میں بدل ڈالو۔
یہ میری وصیت ہے، اپنے ہتھیار حوالے مت کرنا، سنگ باری سے پیچھے نہ ہٹنا، اپنے شہیدوں کو نہ بھول جانا اور اس خواب پر کوئی سودا نہ کرنا جو تمہارا حق ہے۔
ہم یہاں باقی رہیں گے، اپنی سرزمین میں، دلوں میں اور اپنے بچوں کے مستقبل میں۔
میں وصیت کرتا ہوں کہ فلسطین کا خیال رکھنا، اس سرزمین کا جس سے میں نے موت کی حد تک عشق کیا ہے، اس خواب کا جس کو میں اپنے کندھوں پر اٹھائے رہا، اس پہاڑ کی طرح جو جھکتا نہیں۔
اگر میں گرجاؤں تو تم لوگ میرے ساتھ مت گرجانا، بلکہ میرے ہاتھ سے پرچم اٹھا لینا جو کبھی زمین پر نہیں گرا، میرے خون سے ایک پل تعمیر کرنا جو اس طاقت ور نسل کی راہ گزر بنے جو ہماری راکھ سے پیدا ہوگی۔
جب طوفان دوبارہ برپا ہو اور میں تمہارے درمیان نہ رہوں تو سمجھ لینا کہ میں آزادی کی موجوں کا پہلا قطرہ تھا اور میں اس لیے زندہ رہا تاکہ تمہیں سفر مکمل کرتے دیکھوں۔
ان کے حلق کا کانٹا بنے رہو، ایسا طوفان بن جاؤ جو پلٹنا نہ جانتا ہو اور اس وقت تک پرسکون نہ ہونا جب تک دنیا یہ نہ جان لے کہ ہم اہلِ حق ہیں، ہم خبروں میں درج کی جانے والی گنتیاں نہیں۔
٭٭٭٭٭