نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | ستمبر تا نومبر 2024

خباب ابن سبیل by خباب ابن سبیل
15 نومبر 2024
in دیگر, ستمبر تا نومبر 2024
0

پاکستان اسرائیل تعلقات میں عمران خان کا اہم کردار ہوسکتا ہے (اسرائیلی اخبار)

پاکستان اسرائیل تعلقات سے متعلق آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی محقق عینور بشیرووا (Aynur Bashirova) نے اپنے کالم میں رائے کا اظہار کرتے ہوئے خاص طور پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ذکر کیا۔ یہ بلاگ اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے شائع کیا ہے۔ عینور بشیرووا نے اپنے بلاگ میں پاک اسرائیل تعلقات میں عمران خان کے کردار کے حوالے سے لکھا کہ کس طرح وہ دونوں ممالک کے درمیان بہتری کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ بلاگ میں عمران خان کے گولڈ سمتھ خاندان کے ذریعے اسرائیل سے رابطے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ عینور بشیرووا نے لکھا کہ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ اور اس کے خاندان کے ساتھ قریبی تعلقات پر غور کرنا ضروری ہے۔ گولڈ سمتھ برطانیہ کا ایک امیر اور بااثر خاندان ہے اور جمائما کا بھائی زیک گولڈ سمتھ برطانوی سیاست کا حصہ رہا ہے۔ یہ تعلق اسرائیل کے بارے میں عمران خان کے خیالات کو ممکنہ طور پر متاثر کر سکتا تھا، چاہے اس نے اسے عوامی سطح پر ظاہر نہ کیا ہو۔ مضمون میں لکھا گیا کہ زیک گولڈ سمتھ کے برطانیہ میں یہودیوں اور اسرائیل کے حامی گروپوں کے ساتھ تعلقات اور مغربی رہنماؤں میں اس کے خاندان کے اثر و رسوخ نے عمران خان کو اسرائیل کے بارے میں ایک نیا نکتۂ نظر دیا ہو گا۔ عمران خان نے لندن کے میئر کے انتخاب میں زیک کی حمایت کر کے گولڈ سمتھ خاندان سے اپنی وفاداری ظاہر کی، حالانکہ ایک اور نام نہاد مسلمان، صادق خان انتخاب میں حصہ لے رہا تھا۔ عمران خان کی یہ خیر خواہی بتاتی ہے کہ عمران خان گولڈسمتھ اور ان کے نیٹ ورک کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جنہوں نے ماضی میں بھی اس کی حمایت کی۔ عینور بشیرووا نے اپنے بلاگ میں یہ بھی لکھا کہ مختلف رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان گولڈ سمتھ خاندان کے ذریعے اسرائیلی حکام کو پیغامات بھی بھیج چکا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تیار ہے۔ چونکہ ان دنوں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے زیرعتاب ہے اس لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ اس خبر کو مقامی اخبارات نے بھی شائع کیا ہے۔ لیکن قطع نظر اس بات سے کہ مذکورہ رپورٹ میں کتنی سچائی ہے یہ نکتہ سمجھنے کے لیے اہم ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ ہو یا مقامی اسٹیبلشمنٹ عوام کی نفسیات سے کھیلنا انہیں بخوبی آتا ہے۔ عمران خان اقتدار حاصل کرنے سے قبل اسٹیبلشمنٹ اور فوج کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر تنقید کرنے کی پہچان بنا چکا تھا ۔ اور کتنے مزے کی بات ہے کہ فوج نے اسی پہچان کو کیش کرایا اور عوام کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیا۔ اب عمران خان کا قید کاٹنا جب اسے مقبولیت دلا رہا ہے تو ایسے میں تو عالمی طاقتوں کی نظر میں اسکی قیمت مزید بڑھے گی ۔ ایسا شخص جو لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑنے والا ہو اور لوگ اسکے سحر اور شخصیت پرستی میں بہت سی غلط باتیں بھی قبول کرلیں جو عام حالات میں نہ کرتے ہوں۔

پولیس اور فوج کے درمیان بڑھتی خلیج

لکی مروت میں پولیس اور عوام نے مل کر پشاور ڈی آئی خان روڈ بند کر دیا، پولیس اور عوام نے فوج کو لکی مروت سے نکل جانے کا کہا ہے اور یہ کہ نہ نکلنے تک روڈ بند رہے گا۔عوام اور پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ لکی مروت میں جرائم اور قتل و غارت کی وجہ فوج ہے۔ ویسے تو سوشل میڈیا پر ایسے لاتعداد واقعات کی فوٹیج وائرل ہوتی رہی ہیں جہاں فوجی اہلکار غلطی پر ہوتے ہوئے بھی پولیس اہلکاروں کو کسی قانونی کاروائی کے جواب میں تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ بہاولنگر میں فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کی پٹائی پہلا موقع تھا جب پولیس اہلکاروں نے کھل کر فوجی بالادستی کے خلاف کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ کچھ دن قبل عمر میڈیا کی جانب سے ریلیز کردہ ایک ویڈیو میں انکشاف کیا گیا کہ فوج اپنے جاسوسوں کو دشمن کا اعتماد حاصل کروانے کے لیے پولیس پر حملے کرواتی ہے یعنی پولیس کو بطور چارہ استعمال کر دیتی ہے۔

اسلام آباد سے 17 سالہ طالب علم کی جبری گمشدگی اور بازیابی

‏5 جولائی کو 17 سالہ بلوچ طالب علم فیضان عثمان کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے گرین ایونیو، اسلام آباد سے اغوا کیا۔ اطلاعات کے مطابق ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ابتدائی طور پر اس کے خاندان کے گھر پر چھاپہ مارا جبکہ فیضان وہاں موجود نہیں تھا۔چھاپے کے بعد، اس کے اہل خانہ کو شدید دباؤ اور دھمکیوں کے تحت اسے حکام کے سامنے پیش کرنے پر مجبور کیا گیا۔‏ فیضان کے اہل خانہ کو واضح طور پر تنبیہ کی گئی تھی کہ وہ احتجاج نہ کریں اور نہ ہی اس کی گمشدگی کی اطلاع دیں، اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ ملوث ایجنسیوں نے اہل خانہ کو یقین دلایا کہ فیضان کو رہا کر دیا جائے گا، لیکن ان یقین دہانیوں کے باوجود دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔‏ جس کے بعد خاندان نے ایک ایف آئی آر درج کروائی جس میں مزید جوابی کارروائی کے خطرے کے باوجود، فیضان کے اغوا کے لیے خفیہ ایجنسیوں کے ذمہ دار ہونے کا الزام لگایا گیا۔ فیضان کے والد ڈاکٹر عثمان جو ہیلتھ اور آئی ٹی انسٹیٹیوٹ چلاتے ہیں، ان کے بقول وہ فوج اور ائیر فورس کے جوانوں کو بھی تربیت دے چکے ہیں۔ فیضان کی جبری گمشدگی کا معاملہ سوشل میڈیا اور نیوز چینلز دونوں جگہ توجہ حاصل کیے رہا۔4 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ فیضان کی بازیابی کیس میں آئی جی اسلام آباد کو حساس ادارے سے رابطہ کرنے کا حکم دیا، دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ گھر میں ویگو ڈالے آ گئے، بندہ اٹھا لیا مگر ایس ایچ او سمیت کسی کو پتا ہی نہیں۔ دوران سماعت درخواست گزار نے بتایا کہ میرے گھر کے باہر گاڑیوں میں لوگ آئے تھے، گھر میں گھس کر تلاشی لی گئی۔ میرے ساتھ میرے گھر سے نکل کر میرے انسٹی ٹیوٹ میں گئے وہاں بیٹھ گئے، انسٹیٹیوٹ میں بیٹھ کر انہوں نے کیمرہ بند کرنے کا کہا۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کا بیٹا آپ کے عزیز سے رابطےمیں ہے جو مبینہ کالعدم تنظیم سے منسلک ہے۔ عدالت نے دریافت کیا کہ آپ کا وہ عزیز کون ہے جس کے ساتھ رابطے میں آپ کے بیٹے کو اٹھایا گیا درخواست گزار نے جواب دیا کہ میرا داماد ہے جو لاہور میں رہتا ہے، ان سے رابطے کے الزام میں میرے بیٹے کو لے کر گئے ہیں، پہلے دن آئے تو میرے بیٹے سے جہاد کے بارے میں پوچھا گیا۔ میرے بچے کو اٹھانے کے بعد مجھے کہا گیا کہ اگر آپ قانون کی طرف گئے یا میڈیا میں گئے تو آپ کے بچے کی خیر نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستارنے 11 ستمبر تک آئی جی اسلام آباد کو فیضان عثمان کی بازیابی کی مہلت دے دی تھی۔ اس دوران ایک مضحکہ خیز حرکت خفیہ اداروں نے یہ کی کہ فیضان سے ایک ویڈیو بیان زبردستی دلوایا گیا جس میں وہ اپنے والد کو پیغام دیتے ہوئے کہتا کہ ’’ابو یہ ڈرامے بازی بند کریں، آپ کو پتہ ہے میں کہاں ہوں‘‘ بالآخر سوشل میڈیا ، نیوز چینلز اور عدالتی دباؤ نے خفیہ اداروں کو مجبور کردیا اور فیضان کو 9 ستمبر کو رہا کردیا گیا۔

سرکاری خرچ پر پی ایچ ڈی، بیرون ملک جانے والے 99 سکالرز غائب

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے ذمہ دار ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) پاکستان کو بین الاقوامی سکالرشپ پروگراموں کے حوالے سے جہاں سنگین مالی مشکلات کا سامنا ہے وہیں سرکاری خرچ پر بیرون ملک جانے والے سکالرز کی وطن واپسی نہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر پشیمانی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ 10 برس میں بیرون ملک جانے والے تین ہزار پی ایچ ڈی سکالرز میں سے 99 وطن واپس آنے کی بجائے بیرون ملک ہی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے معاہدے کے تحت سکالرشپ کی رقم بھی واپس سرکاری خزانے میں جمع نہیں کروائی۔ایچ ای سی کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ خاص طور پر فارن ایکسچینج کی کمی ہے جو شراکت دار یونیورسٹیوں کو ٹیوشن فیس اور وظیفے کی ادائیگی کے لیے درکار ہے۔ اس کمی کے باعث ایچ ای سی نے نئے سکالرز کو بیرون ملک بھیجنا عارضی طور پر روک دیا ہے، جس سے پہلے سے پیچیدہ صورتحال میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ وزارت تعلیم نے بتایا ہے کہ بیرون ملک جانے سے پہلے ہر سکالر کو ایچ ای سی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنا ہوتے ہیں، جس میں وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ پاکستان واپس آئے گا اور کم از کم پانچ سال تک یہاں کام کرے گا۔تاہم ایسے سکالرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو معاہدے کی خلاف ورزی کر کے واپس نہیں آتے۔

وفاقی حکومت کا بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں ترمیم کی منظوری دے دی۔ کابینہ نے پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے منظوری سمری سرکولیشن کے ذریعے حاصل کی۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں ترمیم کی منظوری کے بعد دہشت گردی کے شبے میں کسی بھی مشکوک شخص کو حراست میں لیا جاسکے گا۔اس کے علاوہ ترمیم سے فورسز کو دہشت گردی کے خلاف مزید مؤثر آپریشن کے لیے قانونی تحفظ ملے گا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ فوج اور اس کے خفیہ اداروں نے پاکستانی قوانین کو کبھی رکاوٹ ہی نہیں سمجھا ہے تو اس ترمیم اور خصوصی اختیارات کو دینے کے تکلف کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟
وزارت خزانہ نے کابینہ کی منظوری کے بغیر عملے کو 24 کروڑ کا اعزازیہ دیا
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہےکہ وزارت خزانہ نے خلاف قانون افسران و عملے کو ایک سال میں 24کروڑ روپےکے 4 اعزازیےدیے۔ آڈٹ رپورٹ 23-2024ء کے مطابق وزارت خزانہ کےگریڈ ایک سے 20 تک کےعملےکو 22کروڑ 54 لاکھ روپے اعزازیہ ملا جب کہ گریڈ 21 اور 22 کے افسران کو ایک کروڑ 35 لاکھ روپے اعزازیہ دیا گیا ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قانون کے تحت وفاقی ملازمین کو خصوصی کام پر ایک اعزازیہ دیا جاسکتا ہے اور وزیراعظم نے 2020ء میں ہدایات دی تھیں کہ فنانس ڈویژن یا ای سی سی اعزازیےکی منظوری نہیں دے سکتی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سال میں ملازمین کو بنیادی تنخواہ کے برابر 4 اعزازیے جاری کرنا خلاف قانون ہے، وزارت خزانہ نےانکم ٹیکس بچانےکے لیے اعزازیہ کراس چیک کی بجائےڈیمانڈ ڈرافٹ پرجاری کیا۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق اعزازیے کو تنخواہ میں شامل نہ کرکے افسران کے انکم ٹیکس سلیب کو کم رکھا گیا جب کہ وزارت خزانہ نے ملازمین کو اعزازیہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر دیا۔

سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافے کا بل

سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 21 کرنے کا بل سینیٹ میں پیر کو پیش کر دیا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق بل پیش کرنے کا وقت اور نظر آنے والے ارادے سوالات پیدا کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ’’سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے بل کی ساری کارروائی کا مقصد اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اگر کیسز کے التوا کا معاملہ ہوتا تو لاہور ہائی کورٹ میں 24 سے 25 ججوں کی خالی نشستوں پر جج لگائے جاتے۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی ججوں کی خالی نشستوں کی تعداد 11 سے 12 ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ہائی کورٹس میں بھی ججوں کی خالی پوسٹوں پر تعیناتی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ خیال درست ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے بل پیش کرنے والے اراکین کو بس ڈرافٹ تیار کر کے دے دیا گیا ہو۔
پاکستان کا سیاسی نظام ویسے تو ہمیشہ سے ہی جرنیلوں کے ماتحت رہا ہے لیکن جس طرح سے گزشتہ چند الیکشنز میں فوج نے سیاسی نظام میں اپنا اثر رسوخ اور مداخلت بڑھائی ہے تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی ۔ شاید یہی وجہ ہے فوج اس پالیسی کو مستحکم کرنے کے لیے کسی بھی سطح تک جانے کو تیار ہے، نتائج چاہے کتنے ہی بھیانک ہوں۔

پاکستانی ادارے کا ایغور مسلمانوں کی بابت چینی حکومت کے جھوٹے بیانیے کا فروغ

انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں چائنہ پاکستان سٹڈی سینٹر نے ناز پروین کی تصنیف کردہ کتاب ”سنکیانگ کے خوشحال ایغور“ کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی سینیٹر مشاہد حسین سید تھے۔ مقررین میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی ایمبیسیڈر سہیل محمود، گلوبل سلک روٹ ریسرچ الائنس کے بانی چیئرپرسن پروفیسر ضمیر احمد اعوان، پروفیسر ڈاکٹر اظہر احمد اور نبیلہ جعفر شامل تھے۔ تقریب میں پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کی مدح سرائی کی گئی۔ تقریب میں دعویٰ کیا گیا کہ ناز پروین نے اپنی تحریروں کے ذریعے چین کی ثقافت اور روایات کو گہرائی سے سمجھنے میں سہولت فراہم کی ہے اور یہ کتاب خاص طور پر کاشغر اور ارومچی کے مشاہدات اور تجربات پر مبنی ان کے تفصیلی بیانات پر مشتمل ہے اور چین کے سنکیانگ علاقے میں ایغوروں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے مغرب سے نکلنے والی بہت سی داستانوں کو رد کرتی ہے۔ چین دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات ، سوشل میڈیا انفلوئنسرز حتیٰ کہ صحافیوں کو بھی باقاعدہ خرید کر انہیں مقبوضہ مشرقی ترکستان کی ایک بالکل مختلف تصویر پیش کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان افراد کو وہاں سڑکوں گلیوں میں گھومتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جہاں ہر طرف جوان بچے بوڑھے اور لڑکیاں ناچ رہی ہیں اور انکا ناچنا دکھا کر چین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے تبھی یہ سب خوش اور ناچتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک جگہ جہاں کچھ آزاد اور اصلی صحافیوں کو ایغور افراد سے انٹرویو کی اجازت دی گئی وہاں واضح نظر آتا ہے کہ سب ہی ایغور افراد سہمے ہوئے اور خوفزدہ تھے اور جواب دیتے وقت خوف سے پاس کھڑے چینی اہلکاروں کی طرف دیکھتے۔ بہت سے ایغور افراد نے کہا انہوں نے بہت سی چیزوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ملحد بننے کا فیصلہ کیا تھا اور اب وہ ملحد ہیں۔ مسلم ممالک میں چینی اثر رسوخ اس حد تک ہے کہ اقوام متحدہ میں اگر ایغور مسلمانوں پر ظلم کے حوالے سے چین کے خلاف کوئی قرارداد پیش ہو تو مسلم ممالک کی اکثریت چین کے حق میں ووٹ دیتی ہے۔

بھارت :مسلمان ملزم کا باپ بھی گرفتار اور گھر بلڈوز

بھارتی ریاست راجستھان کے سیاحتی شہر اُدے پور میں دو طلباء کی لڑائی ہوئی جس میں مسلمان لڑکے ذاکر کے ہاتھوں ہندو لڑکے کا قتل ہوگیا۔ باوجود اس کے کہ پولیس نے اس واقعے میں کسی مذہبی زاویے کے ہونے کو مسترد کیا ہے، تفتیشی افسر چھگن پروہت نے بی بی سی کو بتایا کہ طالب علموں میں نوٹ بُک پر جھگڑا ہوا جو بگڑتا چلا گیا۔ لیکن بعد میں جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں کہ مسلمان لڑکے ذاکر نے قتل کی منصوبہ بندی کی۔ یہ بات واٹس ایپ پر وائرل کی گئی اور اُدے پور میں ہندو انتہاپسند گروپوں نے مظاہرے شروع کر دیے، گاڑیوں کو نذر آتش کیا گيا اور املاک جلائی گئیں۔ حکومت کی جانب سے کرفیو لگایا گیا اور انٹرنیٹ بند کر دیا گيا۔ واقعے کے بعد صرف ذاکر کو ہی حراست میں نہیں لیا گیا بلکہ اس کے والد کو قتل کے لیے اُکسانے کے الزام میں بھی گرفتار کرلیا گیا اور انکے گھر کو بلڈوز کردیا گیا۔ اب والد اور بیٹا جیل میں جبکہ ماں اور بیٹیاں گھر بلڈوز ہونے کے بعد کھلے آسمان تلے آگئیں۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اور آسام جیسی بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بلڈوزر سے مبینہ ملزمان کے گھروں کو بلا تردد مسمار کیا جا رہا ہے۔ جبکہ افسران اسے اپنے امن و امان قائم کرنے کے اپنے سخت مؤقف کے شواہد کے طور پر فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔حزب اختلاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ مسماری غیر متناسب طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے، خاص طور پر اس وقت بھی جب مسلمان کسی معاملے میں احتجاج کرنے سڑکوں پر نکلیں۔

بھارت فقیر عورت کی سڑک پر عصمت دری لوگ ویڈیو بناتے رہے

اجین، مدھیا پردیش کی سڑکوں پر دن دیہاڑے ایک فقیر خاتون کی عصمت دری کی گئی، بے حسی کی انتہا دیکھیے کہ راہگیروں نے مدد کرنے کے بجائے اس منظر کو فلمایا۔ جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں روزانہ اوسطاً تقریباً نوّے خواتین کا ریپ ہوتا ہے۔ اس سال مارچ کے مہینے میں بھارت کے مشرقی صوبے جھارکھنڈ میں برازیلی ہسپانوی خاتون سیاح اور بلاگر کے ساتھ اجتماعی گینگ ریپ کے واقعے کی وجہ سے بھارت کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس واقعے کو بین الاقوامی میڈیا نے خوب کوریج دی۔ بھارت میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2022ء میں جنسی زیادتی کے 31500 سے زائد کیسز درج کرائے گئے۔ یعنی ہر روز ریپ کے تقریباً 86 کیسز پیش آئے۔ حالانکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بیشتر افراد سماجی بدنامی کی وجہ سے ایسے واقعات کی رپورٹ درج نہیں کراتے۔ رپورٹ کے مطابق 2022ء میں ہی غیر ملکی شہریوں کے ساتھ ریپ کے 22 کیسز درج ہوئے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ریپ اور گینگ ریپ کے واقعات اس لیے نہیں رک پارہے ہیں کیونکہ بااثر مجرموں کو نہ صرف رہا کردیا جاتا ہے بلکہ سیاسی جماعتیں ان کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور رہائی کے بعد ان کا سماجی خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے مجرموں کی گجرات کی ریاستی حکومت کی ایما پر رہائی ہوئی اور ان کا ’شاندار استقبال‘ بھی کیا گیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں تو اپنے ہر جلسے اور میٹنگز میں باقاعدہ ترغیب دیتے ہیں کہ مسلمان بچیوں اور خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے۔ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقلیتیں عیسائی اور بالخصوص نچلی ذات کے ہندو دلت افراد بھی ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ انڈیا میں دلت آبادی 23 کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ دلت خواتین کی تعداد 8 کروڑ ہے۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی رپورٹ کے مطابق دلت ذات کے افراد کے ساتھ ہونے والے جرائم کے تقریباً 71000 کیسز 2021ء کے اواخر تک زیر التوا تھے۔ آئے روز دلت افراد بشمول خواتین کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کر فخریہ اس کی ویڈیو وائرل کرنا معمول بن چکا ہے ۔ 2014ء میں اور پھر 2022ء میں دو ایک جیسے کیسز ہوئے جہاں دو کم سن دلت بہنوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرکے ان کی لاشیں درخت پر لٹکائی گئیں۔

ہندو پرنسپل نے 7 سالہ بچے کو نان ویجیٹیرین کھانا لانے پر سکول سے نکال دیا

بھارت اتر پردیش کے ضلع امروہہ میں مسلمانوں سے نفرت انگیز رویے کا ایک اور افسوس ناک واقعہ سامنے آیا ہے جہاں لنچ باکس میں گوشت کی بریانی لانے پر مسلم طالب علم کو مبینہ طور پر اسکول سے نکال دیا گیا۔ تیسری جماعت کے بچے کی والدہ سکول پہنچیں تو امروہہ کے ہلٹن پبلک اسکول کے پرنسپل نے الزام لگایا کہ وہ اپنے ہم جماعتوں کو اسلام قبول کرنے کے لیے نان ویج بریانی (گوشت والی بریانی) لا رہا ہے۔ اور کہا کہ اسکول ان بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتا جو ’’ہمارے مندروں کو توڑتے ہیں، ہندوؤں کو نقصان پہنچاتے ہیں، ہندوؤں کو تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں، یا رام مندر کو تباہ کرتے ہیں۔‘‘ بچے کی ماں نے بتایا کہ میرے بیٹے کو پرنسپل نے مارا پیٹا اور ایک خالی کمرے میں بند کر دیا۔ خاتون نے دعویٰ کیا کہ پرنسپل نےکہا کہ اسکول کے رجسٹر سے بیٹے کا نام نکال دیا ہے اور اسے اب اسکول بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔

برطانیہ ماجد فریمین کی گرفتاری

برطانیہ ، فلسطین کے حامی اور امدادی کارکن ماجد فری مین کو لیسٹر میں ہندوتوا فسادات سے منسلک سیاسی الزامات کے بعد 22 ہفتے قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ 2022ء میں، ہندوتوا سے متاثر ہجوم نے لیسٹر میں مسلم محلوں میں نیم فوجی طرز کے مارچ کی قیادت کی۔ ماجد اور دیگر افراد اپنی مسلم برادری کی حفاظت کے لیے متحرک ہوئے کیونکہ پولیس امن قائم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اب وہی پولیس فورس اس شخص کو سزا دے رہی ہے جس نے انہیں امن وامان برقرار رکھنے کےلیے بلایا تھا۔ برطانوی مسلم تنظیموں کے مطابق یہ معاملہ صرف ماجد کا نہیں ہے، یہ اس کی ایکٹویزم کو خاموش کرنے کے بارے میں ہے، چاہے یہ پولیس کی نااہلی کو بے نقاب کرنا ہو، برطانیہ کے سیاست دانوں کو چیلنج کرنا ہو، یا غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف بات کرنا ہو۔

مالدیپ میں غزہ کے لیے احتجاج کرنے والی خواتین گرفتار

غزہ میں اسرائیل کے جاری مظالم کے خلاف احتجاج کرنے پر دو خواتین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور یہ مالدیپ میں پہلی بار ہے کہ ایسے مظاہروں کے لیے گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ ممتاز اسکالر ڈاکٹر محمد ایاز کی اہلیہ عائشہ شادھیہ اور ڈاکٹر شازرا ابراہیم روزانہ برطانوی سفارت خانے، جرمن سفارت خانے، اقوام متحدہ کے دفاتر اور برطانوی اور سعودی سفیروں کی رہائش گاہوں کے سامنے احتجاج کر رہی تھیں۔انہیں 28 اگست کو مالے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں تین دن کے لیے پولیس کی تحویل میں دیا گیا اور اتوار کو بند سماعت کے دوران ریمانڈ میں توسیع کے لیے فوجداری عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے انہیں مزید 5 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دینے کا حکم دیا۔

ازبکستان میں پولیس مسلمانوں کو داڑھی منڈوانے کے احکامات دینے لگی

ایک ازبک مسلمان اپنی ویڈیو بناتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے صرف داڑھی کے سبب دہشت گرد کہا گیا تھا اور کہا گیا کہ وہ داڑھی منڈوائے اور یہ ثابت کرنے کے لیے اسٹیشن واپس آ جائے کہ اس نے داڑھی منڈوائی ہے۔ ازبک پولیس معمول کے مطابق مساجد اور گلیوں کا معائنہ کرتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مسلمان مرد داڑھی نہیں بڑھا رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسی بہت سی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ پولیس نے ازبکستان میں بنیاد پرستی اور اسلام پسندی کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں لمبی داڑھی والے مسلمان مردوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ازبک پولیس ان لوگوں کو نشانہ نہیں بناتی جو فیشن کے لیے داڑھی رکھتے ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق ازبکستان میں 70 مسلم خواتین کو قانون نافذ کرنے والے افسران نے رات کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا۔ چھاپے زیادہ تر رات کے وقت مارے گئے اور کچھ خواتین کو زبردستی ان کے رات کے کپڑوں میں لے جایا گیا۔ یہ چھاپے اسلامک ٹیلیگرام گروپس کی نگرانی کے ذریعے کیے گئے جو مذہبی موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔ ایک شخص کی گرفتاری کے بعد ٹیلی گرام گروپس کی باقی خواتین کو ایک ایک کر کے پکڑا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ گرفتار شدہ مسلم خواتین کی عمریں 18 سے 22 سال کے درمیان ہیں۔ وہ فی الحال 10 دن کے لیے حراست میں ہیں اور ان سے تفتیش جاری ہے۔

اسلاموفوبیا کی شکار روسی عورت کا مسلمان خواتین پر حملہ

ماسکو میں نووگیریو میٹرو اسٹیشن کے قریب حجاب پہننے پر ایک روسی عورت نے دو مسلم خواتین پر حملہ کیا، جن کا تعلق اصل میں داغستان سے تھا۔ اس نے خواتین میں سے ایک کا حجاب پھاڑ ڈالا۔ داغستانی خاتون نے ویڈیو ریکارڈ کرتے ہوئے بتایا ہم دونوں حجاب پہنے ہوئے تھیں۔ اسکول سے واپسی پر، جب ہم میٹرو سے نکلنے ہی والی تھیں کہ ایک عورت ہمارے پاس آئی اور پوچھا کہ کیا ہم افغانستان سے ہیں، کیا ہم تاجک ہیں؟ میرے انکار کرنے کے بعد خاتون نے مجھ پر اور میری بہن پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ اس نے مجھے کئی بار مارا اور میرا فون پھینک دیا، اور پھر میری بہن کو حجاب سے پکڑ لیا۔

ترکی جمعے کے خطبے میں کمال اتاترک کے لیے دعا کا مطالبہ

ترکی کے علاقے غازیانٹیپ میں جمعہ کے خطبہ کے دوران مصطفی کمال اتاترک کے ایک حمایتی نے متکبرانہ اور دھمکی آمیز لہجے میں خطبے میں خلل ڈالتے ہوئے امام سے مطالبہ کیا کہ وہ مصطفی کمال اتاترک کے لیے دعا کریں۔ وہیں ایک آدمی نے فوراً جواب دے ڈالاکہ کسی کافر کے لیے فاتحہ نہیں پڑھ سکتے۔ اس واقعے سے مشرف کے لیے سینٹ میں دعا کے مطالبے کا واقعہ یاد آگیا جسے سینیٹر مشتاق نے سختی سے رد کردیا تھا۔ مشرف کے بارے میں بھی کہا جاتا تھا کہ وہ مصطفی کمال اتاترک کو اپنا آئیڈیل گردانتا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور ترکی کی سیکولر بنیادوں پر اٹھان میں کلیدی کردار اداکیا، دستور سے سرکاری مذہب اسلام کی شق خارج کر دی، دینی مدارس اور خانقاہوں پر پابندگی لگا کر مذہبی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا، پردہ کو قانوناً جرم قرار دے دیا، یورپی لباس پہننا اور ننگے سر رہنا ضروری قرار دے دیا، ہجری تقویم ختم کر کے شمسی کیلنڈر رائج کر دیا، عربی زبان میں قرآن کریم کی اشاعت پر پابندی لگا دی، ترکی زبان کا عربی رسم الخط منسوخ کر کے رومن رسم الخط اختیار کر لیا اور نماز، دعا اور قرآن کریم کی تلاوت ترکی زبان میں لازمی قرار دے دی۔

اردنی شہری کے ہاتھوں تین اسرائیلی فوجی ہلاک

اردن اور مغربی کنارے کے درمیان کنگ حسین راہداری پر 3 اسرائیلی گارڈز کو ایک ٹرک ڈرائیور نے گولیاں مار کر ہلاک کیا ۔عرب میڈیا کے مطابق اردن کی وزارت داخلہ نے اسرائیلی اہلکاروں کو ہلاک کرنے والے اپنے شہری کی شناخت ماہر ذياب حسين الجازی کے نام سے کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ان کا ذاتی فعل تھا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس حملے میں ماہر کے ساتھ کسی دوسرے شخص یا تنظیم کے شامل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ نہ ہی کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ماہر ذیاب حسین الجازی مال بردار ٹرک چلایا کرتے تھے جو امدادی سامان اور دیگر اشیا اردن سے مغربی کنارے پہنچاتے تھے تاکہ پناہ گزینوں کو ضروریات زندگی میسر ہوں۔ گزشتہ روز بھی وہ ٹرک لے کر اردن کے چیک پوسٹ پر تلاشی کی جگہ سے ہو کر اسرائیلی چوکی پہنچے۔ وہاں سامان جن میں منرل واٹر کی بوتلیں تھیں اتارا۔ یہ بوتلیں کرم ابو سالم گزرگاہ کے راستے غزہ جا رہی تھیں۔ اردنی ڈرائیور کی فائرنگ سے تینوں اسرائیلی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے۔ وہاں سے کچھ میٹرز کی دوری پر اسرائیلی فوج کا ایک اسنائپر بھی تھا جس نے جوابی فائرنگ کی۔ اردنی ٹرک ڈرائیور نے اسنائپر کا مقابلہ کیا اور دو طرفہ فائرنگ جاری رہی۔ الجازی کا ایک میگزین خالی ہوا تو اس نے دوسرا میگزین لگایا۔ ایک اور اسرائیلی اہلکار نے موقع دیکھ کر الجازی کے پاؤں پر گولی مار دی۔ الجازی پاؤں پر گولی لگنے سے وہیں گر گئے اور پھر وہاں موجود 10 سے زائد اہلکاروں نے انھیں گھیر کر 20 سے زائد گولیاں برسائیں جس سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ الجازی کا یہ شاندار کارنامہ پوری امت مسلمہ کے لیے دعوت فکر اور واضح پیغام ہے کہ اگر آپ نیت اور تہیہ کرلیں کہ آپ نے غزہ کے مسلمانوں کی نصرت کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو راستہ ضرور دکھائے گا۔

Previous Post

ایک اور ۷ اکتوبر……

Next Post

مجاہد قائد یحییٰ سنوار شہید ﷫ کی وصیت

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025

14 جولائی 2025
اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025

9 جون 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اپریل، مئی 2025

27 مئی 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | مارچ 2025

31 مارچ 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جنوری و فروری 2025

14 مارچ 2025
Next Post

مجاہد قائد یحییٰ سنوار شہید ﷫ کی وصیت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version