بیان: 00_124_AQS
تاریخ:15 ربیع الثانی 1446 ھ بمطابق 18اکتوبر 2024ء
مجاہد قائد یحییٰ السنوار کی شہادت
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد
نہایت غم وحزن کے ساتھ ہمیں گزشتہ شب یہ اطلاع پہنچی ہے کہ مجاہدینِ اسلام کے ایک نڈر قائد، کلام اللہ کے حافظ، حرکت المقاومۃ الإسلامیۃ، حماس کے امیر(رئیسِ دفترِ سیاسی)، حافظ ابو ابراہیم یحییٰ ابراہیم حسن السنوار مجاہدینِ اسلام کی صفِ اول سے قیادت کرتے ہوئے، عین میدانِ جنگ کے اندر دادِ شجاعت دیتے ہوئے لیلائے شہادت سے ہم کنار ہو گئے ہیں، فإنا للہ وإنّا إلیہ راجعون! إِنَّ العَيْنَ تَدْمَعُ، والقَلْبَ يَحْزَنُ، ولا نَقولُ إلا ما يُرضِي رَبّنا، وإنَّا بِفِراقِك يا أبا إبرَاھِیم لَمحزُونون! بے شک ہماری آنکھوں میں آنسو ہیں، ہمارا دل غم زدہ ہے، لیکن ہم وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہوتا ہے۔ بے شک اے ابوابراہیم ہم آپ کی جدائی پر غمزدہ ہیں۔ نحسبه كذلك والله حسيبه (ہمارا ان کے بارے میں یہی گمان ہے اور اصل واقفِ حال تو اللہ ہی ہے)! اللہ ﷻ کا فرمانِ پاک ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا (سورۃ الاحزاب: ۲۳)
’’انہی ایمان والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنی نذر کو پورا کر چکے، اور کچھ وہ ہیں جو ابھی انتظار میں ہیں۔ اور انہوں نے (اپنے ارادوں میں) ذرا سی بھی تبدیلی نہیں کی۔‘‘
ہم تمام امتِ مسلمہ، پوری دنیا میں موجود مجاہدینِ اسلام، حماس و کتائب القسام کی قیادت، مجاہد ساتھیوں ، شہید یحییٰ السنوار کے اہلِ خاندان ، اہلِ فلسطین اور اپنے آپ سے مجاہد قائد یحییٰ السنوار رحمہ اللہ کی شہادت پر تعزیت کرتے ہیں، اللهم أجرنا في مصيبتنا واخلف لنا خيرا منها! اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائیں، اعلیٰ علیین کو ان کا مسکن بنائیں اور انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت عطا فرمائیں، آمین یا ربّ العالمین! اللہ ﷻ کا ارشادِ پاک ہے:
اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ (سورۃ آلِ عمران: ۱۴۰)
’’اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔ یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کے لیے چُن لے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
بطلِ اسلام، سپہ سالارِ مجاہدین یحییٰ السنوار رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت پر ہم چند باتیں عرض کرنا چاہیں گے۔
یہ امر لوحِ ازل میں محفوظ ہے کہ کاروانِ جہاد چلتا رہے گا، کفار و منافقین کو شکست ہو گی اور اللہ کے دین کو غالب ہونا ہے۔ پس یہ شہادتیں کاروانِ جہاد کا ایندھن ہیں۔ بے شک حق و باطل کی جنگ میں صفِ اول میں لڑتے ہوئے فی سبیل اللہ قتل ہونا اسلام کے سپہ سالاروں اور سپاہیوں کا اعزاز اور اس راہ کی حقانیت کی ایک دلیل ہے۔
بطل اسلام اور قائد المجاہدین یحییٰ السنوار نے اقصیٰ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا، انہوں نے میدان جنگ میں دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت حاصل کرکے دنیا کی محبت پر آخرت کو ترجیح ،قربانی ، شجاعت اورصبر و استقامت کی وہ اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے جو امت مسلمہ کے جوانوں اوراس کی قیادت کے لیے مشعل راہ ہے ۔ یحییٰ السنوار کا عمر بھر جہاد ، بائیس (۲۲) سال کی اسیری اور صورتِ شہادت خاتمہ امتِ مسلمہ کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ مقدسات کی بازیابی ، امت مسلمہ کی آزادی اور کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے یہ وہ ضروری صفات ہیں جو ہر اہل ایمان میں ہونا لازمی ہیں۔
فلسطین، خصوصاً ایمان و عزت اور جہاد و شہادت کی سرزمین غزہ میں آج محتاط اندازوں کے مطابق شہداء کی اصل تعداد قریباً ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے (جن شہیدوں کی نعشوں کی پہچان ہو سکی ہے ان کی رسمی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے)۔ فلسطین کے عام مسلمانوں سے لے کر فلسطین میں جاری جہاد کی اعلیٰ قیادت تک سبھی مسجدِ اقصیٰ کی آزادی اور امتِ مسلمہ کے دفاع کی جنگ صفِ اول سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور بلامبالغہ ان کے پاس جو کچھ متاع تھی وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خاطر لٹا چکے ہیں۔ پس آج شرعاً ، عقلاًا ور اخلاقاً روئے ارض پر جاری اس مقدس ترین جہاد کی نصرت اور اس میں شمولیت ہر اس شخص پر فرضِ عین ہے کہ جو بھی ایمان کا دعویٰ رکھتا ہے۔
بے شک حق ہے کہ ہماری آنکھیں ایسے ابطالِ اسلام کی شہادتوں پر روئیں لیکن غیرت مند اقوام اپنے شہیدوں کی شہادت پر آنسو بہا کر مطمئن نہیں ہوجایا کرتیں، اصل حق یہ ہے کہ صلیب و صہیون کے سینے کو چاک کر کے دنیا بھر میں صلیبی صہیونی دشمن کو خون کے آنسو رلایا جائے، ہمارے قدم ایسی شہادتوں پرلڑکھڑائیں نہیں، اللہ پاک کا ارشاد ہے:
وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُواْ لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُواْ وَمَا اسْتَكَانُواْ وَاللهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (سورۃ آل عمران:۱۴۶)
’’ اور کتنے سارے پیغمبر ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی ! نتیجتاً انہیں اللہ کے راستے میں جو تکلیفیں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ انہوں نے ہمت ہاری، نہ وہ کمزور پڑے اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو جھکایا، اللہ ایسے ثابت قدم لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
امریکہ و یورپ کے حکمران یحییٰ السنوار کی شہادت کو شیخ اسامہ بن لادن کی شہادت سے تشبیہ دیتے ہوئے یہودیوں اور ان کے سرغنہ نیتن یاہو کو مبارک بادیں دے رہے ہیں۔ ہم پر واجب ہے کہ اسامہ بن لادن سے لے کر یحییٰ السنوار تک ان ابطالِ اسلام کی شہادت کے نتیجے میں جو اسلحہ ان کے ہاتھوں سے چھوٹا ہے اسے بڑھ کر تھام لیں۔ قبلۂ اول پوری دنیا کے مسلمانوں کا عالمی و اجتماعی مسئلہ ہے، لہٰذا قدس کی آزادی کی خاطر اسرائیل،اور اسرائیل کے سب سے بڑے پشت پناہ، ایک ہی سکے کے دوسرے رخ امریکہ کو پوری دنیا میں اسی طرح نشانہ بنانا ہم پر لازم ہے، جیسے امریکہ و اسرائیل ہم اہلِ اسلام کے خلاف پوری دنیامیں جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَآفَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (سورۃ التوبۃ: ۳۶)
’’اور تم سب (اہلِ ایمان)مل کر مشرکوں سے اسی طرح لڑو جیسے وہ سب تم سے لڑتے ہیں، اور یقین رکھو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘
آخر میں ہم شہید یحییٰ السنوار رحمۃ اللہ علیہ کو شاعرِ اسلام علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی ایک شہرۂ آفاق و معرکۃ الاآراء نظم کے ذریعے خراجِ تحسین و خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور انہی اشعار میں امتِ مسلمہ کی خیر و فلاح کے راستے کی نشاندہی بھی موجود ہے:
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں
کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا الأمین!
_____________________________