(اے یہودیو! جنگِ خیبر کا انجام یاد کرو…… کہ جیشِ محمدؐ پھر سے تمہارے خلاف صف آرا ہے!)
ارضِ اسریٰ و معراج فلسطین میں مجاہدین ِ اسلام کی جانب سے شروع کردہ جہادی کارروائیوں ’طوفان الأقصیٰ‘ کی بابت
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد
نہایت خوشی، انبساط، فرحت اور شادمانی کے ساتھ ہمیں بھی باقی امتِ مسلمہ کی طرح، اہلِ ایمان کے دلوں کو ٹھنڈا کرتی یہ خبریں ملی ہیں کہ اللہ ﷻ کے فضل و احسان اور نصرتِ خاصہ کے ساتھ امتِ مسلمہ کے ایمان و عقیدے، ماضی، حال و مستقبل اور تاریخ و جغرافیہ میں قلب کی حیثیت رکھنے والی ارضِ قدس کے مجاہدینِ ’قسّام ‘ نے مسلمان عوام کی نصرت و اعانت کے ساتھ غاصب اسرائیل اور اس میں بسنے والے حربی کافر یہودیوں کے خلاف کارروائیوں کا شان دار سلسلہ ’طوفان الأقصیٰ‘ کے نام سے شروع کیا ہے۔ فضا میں پیراگلائڈنگ(paragliding)، بری اور بحری راستوں سے مجاہدینِ اسلام نے غاصب اسرائیل کے خلاف تعارضی حملے شروع کیے ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ڈھائی سو (۲۵۰)سے زیادہ یہودی جہنم واصل ہو چکے ہیں، جبکہ گیارہ سو (۱۱۰۰)سے زائد زخمی ہیں، درجنوں یہودی جن میں ایک اسرائیلی فوجی جرنیل ’نمرود علونی‘ بھی شامل ہے [ابتدائی معلومات کے مطابق چھپن (۵۶)اسرائیلی فوجی]گرفتار کر لیے گئے ہیں، سیکڑوں کی تعداد میں ہتھیار و گولہ و بارود، پچاسیوں بکتر بند [(بشمول امریکی ہمویاں(Humvees)] و غیر بکتر بند فوجی گاڑیاں، بیسیوں توپ بردار امریکی ساختہ فوجی ٹینک مجاہدین کے ہاتھوں غنیمت کے طور پر حاصل ہوئے ہیں۔ وللہ الحمد والمنۃ، وَللہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ!اللہ ﷻ کا ارشادِ پاک ہے:
قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ (سورة التوبۃ: 14)
’’ان سے جنگ کرو اللہ تمہارے ہاتھوں ان کو سزا دلوائے گا، انہیں رسوا کرے گا، ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا، اور مومنوں کے دل ٹھنڈے کردے گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرزمینِ اسریٰ و معراج، ارضِ قبلۂ اول، ہزاروں انبیاء کے وطن پر پچھلی کتنی ہی دہائیوں سے یہودی و صہیونی قابض ہیں۔ بے شک مجاہدینِ اسلام کی ان کارروائیوں نے اہلِ ایمان کے دلوں کو راحت و سکون بخشا، سینوں کو ٹھنڈا کیا اور اہلِ ایمان کی آنکھوں سے اللہ کی کبریائی و عظمت اور عنایت و نعمت کے سبب حمد و ثنا کے آنسو رواں ہو گئے۔ ’طوفان الأقصیٰ‘ نے ماضی میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگوں میں عرب ریاستوں کو ہونے والی شکست کے سبب ذلت و رسوائی کا داغ امت کے ماتھے سے مٹا دیا ہے۔ جامِ شہادت کے دیوانے، فدائینِ اسلام ، ہزاروں مجاہدین اور ارضِ قدس کے مسلمان عوام نے غاصب اسرائیل کی آہنی باڑوں کو اللہ پر ایمان و توکل اور اپنے عزم و ہمت سے کاٹ ڈالا۔ قوتِ ایمان و جہاد سے لیس مجاہدین نے اللہ، اس کے رسولؐ اور مسلمانوں کے ازلی دشمن یہودِ نا مسعود پر (خصوصاً ان کے مرکز تل ابیب میں )تین ہزار سے زائد راکٹ برسائے، اللہ کی نصرتِ محض کے سبب امریکی تعاون سے چلنے والا اسرائیلی ائیر ڈیفنس سسٹم ’آئرن ڈوم (Iron Dome)‘ (آہنی گنبد) بری طرح سے ناکام رہا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا دنیا کا جدید ترین سسٹم جو ہر قسم کے کمیونیکیشن کا پتہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دنیا کی شاطر ترین انٹیلی جنس ایجنسی ’موساد‘ مکمل طور پر اتنی بڑی کارروائی کا پتہ لگانے اور روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔ مجاہدین اور ان کے حامی و موئید مسلمان عوام نے غزہ کی پٹی کو پار کیا اور غزہ کے رقبے کا ڈیڑھ گنا سے زیادہ علاقہ جو غاصب اسرائیل کے زیرِ قبضہ تھا کو فتح کر لیا اور دمِ تحریر’نام نہاد‘ اسرائیلی حدود کے اندر اسرائیل کے بائیس مقامات پر جنگ جاری ہے۔
طوفان الأقصیٰ کی کارروائیوں نے یہود کی بزدلی کو دنیا بھر کے سامنے آشکار کیا، جب دنیا کے جدید ترین اسلحے سے لیس یہودی فوجی اپنی فوجی چھاؤنیوں سے فرار ہو گئے اور ویڈیوز میں ہزاروں اسرائیلی جو نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے اور ان کے گھروں پر بدمعاشی کے ساتھ قبضہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، سونے کے لباس اور ننگے پاؤں جان بچاتے بھاگتے نظر آئے۔ طوفان الأقصیٰ کی کارروائیاں ارضِ قدس کی بازیابی اور دنیا بھر میں اسرائیلی دماغ (Israeli lobbyists)سے نافذ امریکی ورلڈ آرڈر کے خلاف امتِ مسلمہ کے دیگر مجاہدین کی کارروائیوں میں سر پر رکھے تاج کی مانند ہیں ۔
امتِ مسلمہ عموماً اور امت کے سبھی طبقات سے تعلق رکھنے والے مجاہد بیٹے خصوصاً شریعتِ مطہرہ کی روشنی، اخلاقی اور عقلی لحاظ سے کسی دو ریاستی حل یا ۱۹۶۷ء سے قبل کے ’فلسطین و اسرائیلی حدود‘کو مسئلۂ فلسطین کا حل نہیں سمجھتے۔ بے شک فلپین تا سپین اور کاشغر تا وسطی افریقہ کا علاقہ خاص کر قبلۂ اول ’القدس الشریف‘اہلِ اسلام کا علاقہ ہے اور اس میں کسی کافر کو جینے کا کوئی حق نہیں سوائے اس کے کہ جس کی اجازت شرعی قوانین کے تحت اسلام ہی نے دی ہے۔
مجاہدینِ اسلام کی یہ جہادی کارروائیاں ، ’طوفان الأقصیٰ‘ دراصل ستر سال سے زائد جاری امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی جارحیت کا، یہودیوں کو منہ توڑ جواب ہیں اور اس بات کا ایک واضح اعلان ہیں کہ یہ جنگ دفاع اسلام ، اسلامی مقدسات اور عزت و شرف کے دفاع کی جنگ ہے اور اس جنگ کو شجاعت و بہادری سے لڑنے والی قوت کا نام بھی امتِ مسلمہ ہی ہے۔یہ کارروائیاں ایک پیغام ہیں کہ امتِ مسلمہ کے لیے عالمِ کفر اور عالمِ کفر کے ہر نظام سے بازیابی و آزادی کا طریقہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مسلمان تو اس بات کے مکلف ہیں کہ فضائے بدر پیدا کریں، پھر اللہ ﷻ اپنی نصرت سے قطار اندر قطار فرشتے اتاریں گے اور کم وسائل و محدود مادی قوت کے ساتھ اسرائیل جس کی پشت پر سارا عالمِ کفر امریکہ و یورپ کھڑا ہے، اس کو بھی ناکوں چنے چبوائے جا سکتے ہیں۔
اسرائیلی یہودیوں نے مجاہدینِ اسلام کے مقابلے میں میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کی اور دوسری طرف بزدلی و نامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ کے نہتے و معصوم مسلمان شہریوں پر اندھا دھند بے دریغ فضائی بمباریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جس میں دو سو (۲۰۰) مسلمان شہید اور اٹھارہ سو (۱۸۰۰) سے زائد زخمی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسی جنگ کے دوران مجاہدینِ اسلام کے عدل و اخلاق ملاحظہ ہو ں کہ انہوں نے ایک مفتوحہ علاقے میں ایک عام یہودی عورت اور اس کے بچوں کو پناہ دی، اس کو ستر ڈھانپنے کے لیے چادر دی اور کہا کہ ’انسانیت تو ہمارے ہی پاس ہے (کہ ہم مسلمان ہیں)‘، اور جنگ میں معصومین کو کچھ نقصان عمداً نہ پہنچایا گیا۔ اللہ اکبر! یہ ہے اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کا عدل و انصاف جو میدانِ جنگ میں بھی انہیں آداب و اخلاق سے محروم نہیں کرتا!
جہاں ایک طرف ان کارروائیوں پر ہمیں خوشی ہے تو دوسری طرف غزہ میں جاری بمباری پر ہمارے دل غم زدہ بھی ہیں۔ بے شک جنگ کے نتیجے میں اہلِ ایمان کا نقصان بھی ہوتا ہے لیکن ایسے ہی حالات پر اللہ ﷻ کا یہ فرمان موافق آتا ہے:
وَلَا تَهِنُوْا فِي ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ يَاْ لَمُوْنَ كَمَا تَاْ لَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا يَرْجُوْنَ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِــيْمًا(سورۃ النساء: ۱۰۴)
’’اور تم ان لوگوں (یعنی کافر دشمن) کا پیچھا کرنے میں کمزوری نہ دکھاؤ، اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو ان کو بھی اسی طرح تکلیف پہنچی ہے جیسے تمہیں پہنچی ہے۔ اور تم اللہ سے اس بات کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں۔ اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔ ‘‘
آخر میں ہم ان دماغوں کو مخاطب کرنا چاہیں گے جن سے ’سازشی نظریات (conspiracy theories)‘ پھوٹتے ہیں۔ کافروں اور ان کی ٹیکنالوجی اور ان کے منصوبوں سے مرعوب شکست خوردہ دماغوں کو اہلِ اسلام کا ہر ہر شجاعت و بہادری والا عمل سازش نظر آتا ہے، چاہے وہ مجاہدین کی نائن الیون کی جہادی کارروائیاں ہوں، افغانستان میں امریکہ کے مقابل عظیم الشان فتح ہو یا کتائب القسام کی طوفان الأقصیٰ کی جہادی ضربیں۔ ایسے شکست خوردہ دماغ یہ امر تسلیم ہی نہیں کر سکتے کہ اللہ پر توکل و بھروسہ کر کے جابر و مقتدر طواغیتِ زمانہ کو پچھاڑا جا سکتا ہے۔ ایسے دماغ ہر عزت و شرف پر مبنی جہادی کارروائیوں اور فتوحات کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے سبب ان پہلے کے افعال کو بھی سازش گردانتے ہیں ۔ بے شک ہر عمل کا ایک ردّ عمل ہوتا ہے، ہم کفار پر آگے بڑھ کر وار کریں گے تو جواب وہ بھی دیں گے اور مادی قوت کی کثرت کے سبب امکاناً زیادہ شدید جواب آ سکتا ہے [مگر نتیجہ ہمیشہ اہلِ ایمان و تقویٰ ہی کے حق میں ہوتا ہے(وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ)]، لیکن ایسے دماغ اس جواب و ردِّ عمل پر تو نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ان جہادی افعال سے پہلے امتِ مسلمہ کی حالت کیا تھی؟ کیا طوفان الأقصیٰ سے پہلے کبھی غزہ پر اسرائیل نے ’بلا اشتعال‘ بمباریاں کر کے ہزاروں مسلمانوں کو شہید نہیں کیا؟ کیا ایسی کارروائیوں سے پہلے مسجدِ اقصیٰ کی حرمت پامال نہیں کی جا رہی تھی؟ اگر ان باتوں کا جواب اثبات میں ہے تو ہم یہ سوچنے سے کیوں قاصر ہیں دشمنِ اسلام خاص کر امریکہ و یہودِ نا مسعود کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے، فقط مظلومیت کی حالت میں نہ مرا جائے بلکہ دشمنوں پر ضرب لگا کر، اس کو نقصان سے دو چار کر کے، کمزور کر کے مرا جائے، خاص کر جب یہ اعمالِ جہاد اللہ ﷻ کے احکام پر عمل کا نتیجہ ہوں۔
دنیا بھر میں جاری جہادی کارروائیاں، خاص کر حالاً ارضِ قدس میں جاری جنگ مسلمانوں کی سرزمینوں سے یہود و اہلِ صلیب و صہیون کو بے دخل کرنے کا آغاز ہیں اور اس جہاد فی سبیل اللہ کا نتیجہ اہلِ کفر کی قوت و شوکت کا خاتمہ اور شریعتِ محمدی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) کا خلافۃ علی منہاج النبوۃ کی صورت میں قیام ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف جاری یہ جنگ ایک جنگ ہے اور اس جنگ میں اسلام و اہلِ اسلام کا دفاع کرتے مجاہدین کے سبھی لشکر ایک ہیں، ان کا مقصد ایک ہے یعنی اعلائے کلمۃ اللہ اور مسلمانوں کے مقدسات اور زمینوں، مسلمانوں کی جانوں اور عزتوں کی حفاظت، بےشک وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ان سبھی مجاہدین کا پڑاؤ القدس کی سرزمین میں مسجدِ اقصیٰ ہو گا ۔
اللہ ﷻ سے دعا ہے کہ وہ دنیا بھر میں مجاہدینِ اسلام کے نشانے درست بٹھائے، ان کی نصرت کرے، ان کے شہداء کی شہادتیں قبول کرے، زخمیوں کو شفایاب فرمائے، قیدیوں کو رہائی دلوائے۔ دنیا بھر میں ’خزاں‘ کے موسم میں جو جہادی ’بہار‘ کی ہوا چلی ہے اس کو انجامِ خیر عطا کرے۔ یہود اور ان کے حامی پٹھوؤں کی کمر توڑ دے، ان کا حوصلہ توڑ دے، ان کے بچوں کو یتیم کرے، ان کی عورتوں کو بیوہ کرے اور دنیا و آخرت میں یہود اور ان کے ساتھیوں کو ذلیل و رسوا کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جنگ کے موقع پر فرمانِ مبارک ہے کہ:
« فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ»
’’ جب تمہارا دشمن سے (میدانِ جنگ میں) آمنا سامنا ہو تو صبر و ثابت قدمی سے ڈٹے رہو اور جان لو کہ جنت تو تلواروں کے سائے ہی میں ہے!‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
«اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ»
’’اے قرآن کونازل کرنے والے اللہ! اے بادلوں کو چلانے والے اللہ! دشمن کے لشکروں کو شکست دینے والے اللہ! ان دشمنوں کو شکست دے دے اور ہمیں ان پر فتح یاب فرما!‘‘ (متفق عليه)
یہود سے جنگِ خیبر سے قبل کے موقع پر رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، اللہ اکبر! خیبر تباہ ہو گیا! (متفق عليه)
پس ہم امتِ مسلمہ کو یہود کے خلاف جنگ میں خوش خبری دیتے ہیں کہ ’’اللہ اکبر! بے شک اللہ سب سے بڑا ہے اور آج یہود کا سب سے بڑا قلعہ خیبر ’اسرائیل‘ تباہ ہو گیا!‘‘
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا الأمین!
_____________________________