گزشتہ دس سال سے اسرائیل اپنی سرحدوں کی وسعت اور اپنی ریاست کے غلبے کے لیے اس قدر سرگرم کیوں ہوا ہے؟ اس کا جواب ہر اس شخص کو بآسانی مل سکتا ہے، جو اسرائیل اور امریکہ میں موجود طاقتور ترین صہیونی لابی کی ۲۰۱۴ء کے بعد آنے والے حالات کے بارے میں پیش گوئیوں کا مطالعہ کرتا رہا ہے۔
آج بھی اسرائیلی اور امریکی میڈیا آنے والے دنوں کے بارے میں یہودی ربّیوں اور اہل تصوف کی پیش گوئیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ان پیش گوئیوں کا آغاز وہ یہودیوں کی مقدس کتاب تلمود سے کرتے ہیں۔ تلمود کے مطابق:
’’جب چاند گرہن لگتا ہے تو یہ بنی اسرائیل کے لیے ایک بُرا شگون ہوتا ہے۔ اگر اس چاند کا چہرہ ایسے سرخ ہوجائے جیسے خون تو سمجھو دنیا پر تلوار چھانے والی ہے۔‘‘
دنیا بھر کے یہودی گزشتہ دو ہزار سال سے ان چاند گرہنوں کا مطالعہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہودیوں میں تصوف کی ایک بہت بڑی تحریک ’’قبالہ‘‘ تین ہزار سال سے سرگرم عمل ہے۔ مدتوں ان کے ہاں قبالہ کا علم زبانی طور پر منتقل کیا جاتا تھا، مگر چند سو سال پہلے ان کے ہاں اس کے لٹریچر نے جنم لیا اور اس سلسلے میں تین کتابیں ’’باہیر‘‘ سفر راذیل، حمالخ اور ’’ظہر‘‘ لکھی گئیں اور آج بھی یہ سلسلۂ تصوف قبالہ کی رہنما تصانیف مانی جاتی ہیں۔ یہودی علمِ نجوم سے بالکل دور رہتے ہیں، بلکہ اسے حرام قرار دیتے ہیں، مگر چاند اور سورج کے گرہنوں کے دوران زمین پر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ اپنی مقدس کتابوں کی روشنی میں ضرور کرتے ہیں۔
ان کے نزدیک تاریخ میں جب کبھی چار خونی چاند گرہن ایک ترتیب میں آئے، تو بنی اسرائیل پر ایک آفت ضرور ٹوٹی، مگر اس آفت کے بعد ان کی یقینی فتح ضرور ہوتی ہے۔ یہودیوں نے ایسے بڑے واقعات کی ایک تاریخ مرتب کر رکھی ہے۔ اس سارے عمل کو وہ ’’ایلی‘‘ یعنی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک واضح نشانی جانتے ہیں۔ ان چاند گرہنوں کی اہمیت اس وقت ہوتی ہے جب یہ چار خونی چاند کسی نہ کسی یہودی مذہبی دن کے آس پاس ظہور پذیر ہوں۔
یہودی گزشتہ پچاس سال سے ایسے چار خونی چاند گرہنوں کا انتظار کر رہے تھے اور اسرائیل کے معبدوں میں اس کے لیے مستقل دعائیں اور دیوار گریہ پر عبادت ہو رہی تھی۔ ان میں پہلا خونی چاند گرہن ۱۵ اپریل ۲۰۱۴ء کو لگا۔ اس دوران یہودیوں کا مشہور تہوار ’یدش‘ جسے انگریزی زبان میں (Passover) کہتے ہیں، وہ منایا جا رہا تھا۔ یہ تہوار سات دن تک چلتا ہے۔ اس دوران ایک مخصوص روٹی پکاتے ہیں اور معبد یعنی دیوار گریہ کے سامنے قربانی کرتے ہیں۔
دوسرا خونی چاند گرہن ۸ اکتوبر ۲۰۱۴ء کو لگا اور اس دوران یہودیوں کا مشہور مذہبی دن سکوت تھا، جسے انگریزی میں (Feast of Tabernacle) کہا جاتا ہے۔ اس تہوار کے آخر میں ان کا مقدس ترین دن یوم کپور آتا ہے۔ یہ دن یہودیوں کی مصر سے صحرائے سینا کی طرف روانگی کی علامت ہے۔ تیسرا خونی چاند ۴ اپریل ۲۰۱۵ء کو طلوع ہوا اور یہ بھی ’یدش‘ کے دنوں میں ہوا اور چوتھا خونی چاند ۲۸ ستمبر ۲۰۱۸ء کو سکوت کے دنوں میں لگا۔
ان چار چاند گرہنوں کے حوالے سے یہودی علماء نے یہ پیش گوئی کی کہ جلد اسرائیل کے لیے کسی ایسی جنگ کا آغاز ہو گا جس میں ابتدائی طور پر انہیں شکست ہو گی اور انہیں ظلم سے دوچار ہونا ہوگا مگر اس کے آخر میں یہودیوں کو مکمل فتح حاصل ہو جائے گی۔ ان کے اخبارات، رسائل اور میڈیا اس عمل کو (Tragedy and then Triumph) کا ٹائیٹل دیتے ہیں۔ یعنی ’’غم و اندوہ کے بعد کامیابی‘‘۔ اسی پس منظر میں دنیا بھر کا یہودی میڈیا اور ان کے زیر اثر مغربی میڈیا عرب ممالک میں آنے والی ۲۰۱۱ء کی عرب بہار کو مسلم اُمہ کی خوفناکی سے تعبیر کرتے رہے اور بتاتے تھے کہ عرب ممالک اب پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ بن چکے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ نظریہ بھی پیش کرتے تھے کہ اب امریکہ دنیا میں امن قائم کرنے کے بالکل قابل نہیں رہا، اور اس کی جگہ اسرائیل کو خود آگے بڑھ کر مسلمانوں کی اس عالمی دہشت گردی کو روکنا چاہیے۔ عرب بہار کی بے چینی سے فائدہ اٹھا کر ان ملکوں میں مکمل تباہی کا راستہ ہموار کیا گیا ۔ اپنے اردگرد مسلم ممالک کی بربادی کے بعد یہودیوں کی اکثریت اس بات پر یقین کرتی ہے کہ اب ان کی عالمی حکومت قائم ہونے کے دن آگئے۔
ایسے چاند گرہنوں سے متعلق یہودیوں کی مرتب کردہ تاریخ کے مطابق، گزشتہ پانچ سو سالوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ خونی چاند گرہن ۱۴۹۲– ۹۳ء میں لگے تو سپین میں رہنے والے لاکھوں یہودیوں پر آفت ٹوٹ پڑی۔ سپین کو ازابیلا اور فرڈینڈ نے فتح کیا تو وہ قتل کیے گئے، غلام بنا لیے گئے یا ان سے زبردستی عیسائی مذہب اس شرط پر قبول کروایا گیا کہ ان پر سؤر کھانا اور ہفتہ کے دن کاروبار کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔ لیکن ۱۴۹۲ء میں ہی سپین کے کولمبس نے ہی امریکہ دریافت کر لیا اور یہودی اس سرزمین کو اپنے لیے ’’ایلی‘‘ یعنی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ اور آئندہ غلبے کا ذریعہ قرار دینے لگے۔
یہودی وہاں جا کر آباد ہو گئے اور آج وہ اس کی سیاست، معیشت اور میڈیا پر مکمل طور پر قابض ہیں۔ دوسری دفعہ ایسے چار خونی چاند گرہن ۱۹۴۹–۵۰ میں ظہور پذیر ہوئے۔ اسرائیل وجود میں آ چکا تھا اور ڈیوڈ بن گوریان کی حکومت بن چکی تھی۔ اس حکومت کے خلاف سات عرب ممالک کی افواج متحد ہو کر حملہ آور ہوئیں۔ اسرائیل کے پاس صرف ایک ٹینک تھا، لیکن قوم پرست عربوں کے پاس دو سو ٹینک تھے۔ اسرائیلی آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ایلی‘‘ نے انہیں ان قوم پرست، روس نواز عربوں پر فتح عطا کی۔ تیسری دفعہ یہ چار خونی چاند ۱۹۶۷–۶۸ء میں طلوع ہوئے۔ اس دوران مشہور عرب اسرائیل معرکہ برپا ہواتھا۔
ایک جانب قوم پرست اور کمیونسٹ نواز عرب تھے جنہیں روس کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اسرائیل کی آبادی ۸ لاکھ تھی اور عرب ۵ کروڑ۔ چار ملک مصر، شام ، لبنان اور اردن نے حملہ کیا۔ روس نے دو ارب ڈالر کا اسلحہ بھی فراہم کیا۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں مصر کے سیکولر حکمران جمال عبد الناصر نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اے فرعون کے بیٹو! آج تمہارا موسیٰ کے بیٹوں سے مقابلہ ہے۔ اپنی تاریخی شکست کا بدلہ چکا لو‘‘۔ ان نام نہاد مسلمان اور قوم پرست سیکولرز نے دراصل اللہ کے دشمن کا نام لے کر اللہ کی غیرت کو للکارا تھا۔ دوسری جانب امریکہ اسرائیل کی مدد کو آیا اور دو ہزار سال بعد یروشلم کا مقدس شہر یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری گزشتہ دس سال سے وقفے وقفے سے جاری ہے اور حماس کا حملہ اس کا ردّعمل ہے، مگر اسرائیلی اس حملے کو اپنے عزائم کی تکمیل کا زینہ سمجھتے ہیں۔ جن ’’عظیم‘‘ دانشوروں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اسرائیل دنیا میں موجود قومی ریاستوں کی طرح کی ایک عام سی ریاست ہے، جس کی متعین حدود ہیں، اقتدار اعلیٰ ہے اور وہاں ایک جمہوری حکومت ہے تو انہیں اس خوش فہمی کو دل سے نکال دینا چاہیے۔ یہودی وہاں کیوں ہیں؟ ۱۸۹۶ء میں جب صہیونیت کی داغ بیل ڈالتے ہوئے مشہور زمانہ پروٹوکولز لکھے گئے تو وہ تاجِ برطانیہ جو یہودی سرمائے کا مقروض تھا، اس نے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو ایک قوم تصور کرتے ہوئے بالفور ڈکلیریشن ۱۹۱۶ء میں جاری کیا۔
جس کے تحت انہیں فلسطین میں آباد کرنا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہودیوں کو پوری دنیا میں کوئی جائے پناہ میسر نہ تھی؟ تمام اتحادی ممالک اور امریکہ کے دروازے ان کے لیے کھلے تھے۔ پھر وہ حیفہ اور تل ابیب جیسے بے آب و گیاہ علاقے میں آ کر کیوں آباد ہونا شروع ہوئے؟ جنگ عظیم دوم کے بعد تو یورپ میں بھی ان کا غلبہ ہو چکا تھا۔ ان کے خلاف گفتگو کرنا بھی قابل سزا جرم بن چکا تھا۔ پھر وہ یورپ کے ’’جنت نظیر‘‘ اور پر امن ممالک کو چھوڑ کر ایک ایسے ملک میں کیوں آباد ہو گئے جہاں انہیں چاروں جانب سے دشمنوں کا سامنا تھا؟
اس کا جواب صرف اور صرف ایک ہے کہ یہ یہودی وہاں آخری جنگ لڑنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی جنگ جس کے نتیجے میں ان کے مذہبی ربیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں فتح نصیب ہو گی اور یروشلم کے تخت پر حضرت داود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح کی، ایک عالمی یہودی حکومت قائم ہو جائے گی جسے وہ Ruling State of the World کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی یہ جنگ صرف اور صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی ہونا ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے یہودی مفکرین، مذہبی رہنما، یہاں تک کہ ان کے اہل تصوف بار بار یہ تحریر کر رہے ہیں کہ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۵ء اور ۲۰۱۸ء میں لگنے والے چار مکمل چاند گرہن اس وقت کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ دنیا کی طاقت کا مرکز اب امریکہ سے اسرائیل منتقل ہو جائے گا۔
یہودی فتح کی بشارتیں سناتے ہیں مگر اس جنگ کے بارے میں سید الانبیاء ﷺ نے مسلمانوں کو فتح کی بشارت دی ہے، آپ نے فرمایا:
’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں۔ اس لڑائی میں مسلمان یہودیوں کو قتل کردیں گے، یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے بھی چھپ جائیں گے تو پتھر اور درخت یوں کہیں گے۔ ’اے مسلمان اللہ کے بندے ادھر آ میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے اس کو مار ڈال‘۔ مگر غرقد کا درخت ایسا نہیں کہے گا کیوں کہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔‘‘ (مسلم)
دنیا بھر سے یہودی اسرائیل کی سرزمین پر پکنک منانے یا کسی معاشی فائدے، بہتر اور پُر آسائش زندگی کے لیے جمع نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ اس جنگ کے لیے گزشتہ ایک سو سال سے وہاں جمع ہو رہے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ایزاخیل کی اس پیش گوئی پر یقین رکھتے ہیں۔
’’اے صہیون کی بیٹی خوشی سے چلاؤ، اے یروشلم کی بیٹی مسرت سے چیخو، دیکھو تمہارا بادشاہ آ رہا ہے۔ وہ عادل ہے اور گدھے پر سوار ہے۔ خچر یا گدھی کے بچے پر۔ میں یوفرم سے گاڑی کو اور یروشلم سے گھوڑے کو علیحدہ کر دوں گا۔ جنگ کے پر توڑ دیے جائیں گے۔ اس کی حکمرانی سمندر اور دریا سے زمین تک ہو گی۔‘‘ (زکریا۱۰–۹: ۹)
اسی کتاب میں لکھا ہے کہ:
’’اس طرح اسرائیل کی ساری قوموں کو ساری دنیا سے جمع کروں گا، چاہے وہ جہاں کہیں بھی جا بسے ہوں اور انہیں ان کی اپنی سرزمین میں جمع کروں گا۔ میں انہیں اس سرزمین میں ایک ہی قوم کی شکل دے دوں گا، اسرائیل کی پہاڑی پر جہاں ایک ہی بادشاہ ان پر حکومت کرے گا۔‘‘ (ایزاخیل، ۲۱،۲۲:۳۷)
انہی بشارتوں کی تکمیل کے لیے اسرائیل میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا حال بھی مسلمانوں جیسا ہے۔ وہ اپنی مرضی کی آیات اٹھا کر اپنے لیے فتح کی نوید سناتے ہیں، لیکن ان کی اسی کتاب ایزا خیل میں اس آخری جنگ کا جو انجام درج ہے وہ بالکل سید الانبیاءﷺ کے ارشاد جیسا ہے۔ ایزا خیل کے بائیسویں باب میں لکھا ہے:
’’پھر ایلی کہتا ہے کہ کیونکہ تم لوگ میرے نزدیک کھوٹے سکے ثابت ہوئے ہو۔ اس لیے تمہیں یروشلم میں جمع کروں گا، جیسے سونا، چاندی، ٹن، لوہا اور کانسی کو آگ میں ڈالنے کے لیے جمع کرتے ہیں۔ اس طرح میں بھی تمہیں غصے اور غضب کے درمیان جمع کروں گا اور پھر تمہیں پگھلا دوں گا۔ میں تم پر اپنے غضب کی آگ بھڑکا دوں گا اور تم پگھل جاؤ گے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے رب نے تمہارے اوپر اپنا غضب نازل کیا ہے۔‘‘ (۱۹–۲۲:۲۲)
ان کی کتاب جرمیاہ (Jeramiah) میں تو اس آخری معرکے کے اختتام کا منظر بہت ہولناک لکھا ہے:
’’ان کی تباہی اور سزا کے اعلان کے بعد جس کے بعد ان کی لاشیں کھلے آسمان تلے ڈال دی جائیں گی، جہاں گدھ اور کیڑے مکوڑے ان کو کھا لیں گے حتیٰ کہ ان کے بادشاہوں اور سرداروں کی ہڈیاں بھی گل جائیں گی اور زمین میں کوڑے کرکٹ کی طرح پھیل جائیں گی۔‘‘
یہودیوں کے مقابلے میں مسلمان اقوام خصوصاً عرب کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’ایک ایسا فتنہ ظاہر ہو گا جو سب عرب کو لپیٹ میں لے لے گا۔ اس فتنے میں قتل ہونے والے جہنم میں جائیں گے۔ اس فتنے میں زبان کی کاٹ تلوار سے زیادہ ہوگی۔ ‘‘ (مسند احمد، ابی داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
یعنی اس وقت ہم اس فتنے کا شکار ہیں اور ہماری تباہی لازمی ہے مگر اس بڑی لڑائی سے جو بھی مسلمان بچ نکلے گا، وہ وہی ہو گا جس کے ہاتھ سے اللہ کی نصرت کا پرچم بلند ہو گا۔ اس بڑی جنگ کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جب لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے، ایک اہل ایمان کا خیمہ جس میں بالکل نفاق نہیں ہوگا، دوسرا منافقین کا خیمہ جس میں بالکل ایمان نہیں ہو گا۔ جب ایسا ہو تو دجال کا انتظار کرو کہ آج آئے یا کل۔‘‘ (ابو داؤد، مستدرک)
یہ ابتلا کا دور ہے، شامتِ اعمال ہے، صفائی کا موسم ہے۔ دنیا جلد دو خیموں میں بٹنے والی ہے۔ آج فیصلہ کر لیں کہ ہم کس طرف ہیں، کیونکہ کچھ عرصے بعد ہمیں زبردستی ایک جانب ہونا پڑے گا۔ کوئی ہمیں اس جنگ میں ’’نیوٹرل‘‘ نہیں رہنے دے گا۔
٭٭٭٭٭