کسی معاشرے کا روح رواں، اثاثہ اور مستقبل وہاں کا نوجوان طبقہ ہوتا ہے۔ یقیناً امتِ مسلمہ کے نوجوان بھی اس امت کی امید کی کرن ہیں۔ مسلم نوجوانوں میں اگر اسلامی حمیت، دین سے والہانہ محبت اور اس پر مر مٹنے کا جذبہ ہو تو امت کو فلاح و کامرانی کی اصل منزل (خلافت) کے قیام سے ہم کنار کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی اور اگر امت کا نوجوان دین بیزار، اخلاقی قدروں سے نا آشنا، اپنی تاریخ سے بے خبر اور غیروں سے مرعوبیت کا شکار ہو تو پھر وہی ہوگا جس ذلت و رسوائی سے آج امتِ مسلمہ گزر رہی ہے۔ جہاں پوری دنیا میں بے چارہ ایک مسلمان ہی ہے جو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے اور جس کا خون پانی کی طرح بہاہا جا رہا ہے ، مگر کوئی پرسانِ حال نہیں!
لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں ایسے امت کے نوجوان بھی رہے جنہوں نے جرأت و شجاعت کی اعلیٰ مثال قائم کی اور اپنے جسموں کو کٹوانا تو گوارا کیا مگر اسلام پر آنچ تک نہ آنے دی۔ عہدِ نبوی ﷺ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایسے پر نور ستارے نظر آتے ہیں جن کی روشنی کی بدولت اسلام آج بھی زندہ ہے۔
خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق جن کی ہیبت و جلال اور بہادری کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اسلام کے دورِ اوّل میں جب کفّار کا ظلم و ستم عروج پر پہنچ گیا تو مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت ملی، تمام مسلمان خفیہ طور پر ہجرت کرتے، مگر جب عمر فاروق ہجرت کرنے لگے تو اسلحہ سجائے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر سب کفارِ مکہ کو للکار کر کہا کہ جس نے اپنے بچے یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ کروانہ ہو تو مجھے روک لے، میں مدینہ جا رہا ہوں۔ مگر کفار میں سے کسی سردار کی ہمت نہ ہو سکی کہ ان کو کچھ کہہ سکے!
حضرت علی جن کی شجاعت و بہادری کی گواہی اپنے اور غیر سب ہی دیتے ہیں۔ آپ نے کم سنی میں اسلام قبول کیا اور اپنی جوانی اسلام کے لیے کھپادی اور کسی جابر و ظالم کے سامنے نہ جھکے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص کہ جن کو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اے سعد! تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں‘‘۔ وہ سعد جنہوں نے اپنی جوانی اسلام اور آپﷺ کی حفاطت کے لیے وقف کر دی۔
حضرت عمیر بن ابی وقاص جن کو کم عمری کی وجہ سے غزوۂ بدر میں شرکت سے روک دیا تو وہ رو رو کر آپﷺ سے اجازت لینے میں کامیاب ہو گئے۔
احد کے موقع پر حضرت رافع بن خدیج پنجوں کے بل تن کر کھڑے ہو گئے تاکہ قد جوانوں کے برابر معلوم ہو اور جب ان کو غزوہ میں شرکت کی اجازت مل گئی تو ان کے ہم عمر سمرہ بن جندب نے فوراً عرض کیا، حضورﷺ مجھے بھی منع نہ کیجیے کیونکہ میں رافع سے قوی ہوں، چنانچہ مقابلہ ہوا تو واقعی سمرہ نے رافع کو پچھاڑ دیا اور مجبوراً ان دونوں نوجوانوں کو غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی گئی۔
جنگِ احد ہی کے موقع پر حضرت ابو دجانہ جھک کر آپ ﷺ کی ڈھال بن گئے اور حضرت طلحہ نے اپنا پہلو کفار کے تیر و تلواروں کے سامنے کر دیا جب بعد میں دیکھا گیا تو جانباز طلحہ کے جسم پر ستّر زخم تھے۔
حضرت خالد بن ولید جنہیں آپﷺ نے سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا لقب دیا، آپ کی بہادری اور شجاعت سے کون آشنا نہ ہو گا کہ آپ جس معرکہ میں جاتے بھلے کفّار کی تعداد کئی گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہوتی فتح آپ ہی کے حصہ میں آتی۔
اسی طرح بعد کے ادوار میں ابطالِ امت کی کثیر تعداد ہے جو تاریخ کے سنہرے اوراق میں قلم بند ہے۔ صلاح الدین ایوبی، سلطان محمد فاتح، طارق بن زیاد، یوسف بن تاشفین، محمود غزنوی، ٹیپو سلطان، شہاب الدین غوری، محمد بن قاسم اور اس طرح کے امت کے ان گنت نوجوان گزرے جن کی اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت، بہادری اور جانبازی نے اسلام کو ہر دور میں زندہ رکھا۔
آج پھر مسلم نوجوانوں پر ایک امتحان آ پڑا ہے کہ امتِ مسلمہ ایک بار پھر ذلت و پستی کے دور سے گزر رہی ہے، جہاں نہ تو مسلمانوں کا دین محفوظ ہے نہ انبیاء کی سرزمین قبلہ اوّل بیت المقدس۔ جبکہ حرم شریف بھی دجالی لشکر کے نرغے میں ہے اور کفار حرم شریف سے ۴۵ کلومیٹر کی مسافت پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اب تو سرزمین حرمین میں کہ جہاں پر کبھی وحی اترا کرتی تھی، سینما اور فحاشی کے اڈے قائم ہو چکے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سب سعودی عیاش بادشاہوں کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ یہی نہیں آج ہم ایسے گئے گزرے دور میں جی رہے ہیں کہ جہاں کفّار ہمارے نبیﷺ کے گستاخانہ خاکے بنانے کا باقاعدہ عالمی مقابلہ منعقد کرتے ہیں۔ آج ہماری آسمانی کتاب قرآن مجید کو جلایا جاتا ہے، اس کے اوراق کو پھاڑا جاتا ہے اور گندے نالوں میں پھینکا جاتا ہے۔ یہ واقعات آئے روز پیش آتے ہیں مگر ہمارا مسلم نوجوان خوابِ غفلت میں پڑا اپنے اسٹیٹس کو بنانے کی فکر میں اور دجالی میڈیا میں غرق و غلطاں نظر آتا ہے۔ شبہات و شہوات کو پھیلانے والا یہ دجالی میڈیا امت کے اس نوجوان کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اور امت کے اصل محسنین اور ابطال کو زیرو جبکہ اخلاق سے عاری گھٹیا سوچ کے حامل لہو و لعب اور ہوس کے پجاریوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے، اور انہیں فحاشی و عریانی کی بیماری میں مبتلا کر رہا ہے۔ اس کا م میں وطن عزیز پر مسلط دین و ملت کا خائن اور منافق ٹولہ بھی شریک ہے، جنہوں نے اسلام کے نام پر لیے گئے اس ملک میں تعلیمی نصاب سے آیات قرآنی کا اخراج، شراب کے لائسنس اور ٹرانس جینڈر جیسے بلوں کو لاگو کیا۔
مگر اس کے باوجود جب جب مسلم نوجوان نے اپنا رشتہ قرآن سے جوڑا، اپنے آپ کو دین سے استوار کیا، دین پر غیرت کرتے ہوئے اس کے نفاذ کی جدوجہد کے سلسلے میں جب تلوار نیام سے نکالی تو باطل کی صفوں میں کہرام ہی مچا۔
حق و باطل کے اس معرکہ میں شجاعت و بہادری کی تاریخ رقم کرنے والے ابطالِ اسلام کی فہرست آج کے زمانے میں بھی طویل و عریض ہے جس کو تاریخ دان کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔
آج سے ۳۵ سال قبل صحرا و کوہستان کی سرزمین ’افغانستان‘ جہاں پر جنگ و جدل، لوٹ مار، عصمت دری اور قتل و غارت گری عروج پر تھی، ایک مدرسے کا نوجوان طالب علم اٹھا اور اس کے ساتھ مٹھی بھر اللہ کے دین کے پروانے محض اللہ پر توکل کیے اس جبر و ظلم کے نظام کے خلاف معرکہ آرا ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب ظالم و جابر طبقات کا صفایا کر دیا اور شریعت اسلامی کا نظام جاری کر دیا۔ یہ نوجوان طالب علم جو بارش کا پہلا قطرہ بنا، دنیا اس کو ملا عمر کے نام سے جانتی ہے۔
امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد نے اس وقت شریعت کا نظام اپنے ملک میں نافذ کر کے امن و امان قائم کیا جب پوری دنیا پر ظلم و جبر اور سرمایہ دارانہ جمہوری نظام مسلط تھا۔ مگر کفر کو ازل سے ہی عدل و انصاف پر مبنی رحمانی نظام برداشت نہیں، نتیجتاً دجالی لشکر امارت اسلامیہ کو ختم کرنے کے خواب لیے زمین و آسمان اور بحر و بر، ہر سمت سے آگ و خون کا طوفان لیے امڈ آئے۔ یہ ایسا وقت تھا جب دشمن تو دشمن اپنوں نے بھی دغا دی اور دجالی لشکر سے مرعوب ہو کر وطن عزیز کے بحر و بر اور فضائیں سب کچھ تسلیم کر دیا۔
مگر جن کا ایمان قوی اور اللہ پر توکل ہو بھلا وہ کب کفر کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت سے سرشار یہ امت کے ابطال جو اللہ سے ملاقات کی امید رکھتے تھے، حضرت براء بن مالک کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امت کے یہ نوجوان کفر کے قلعوں سے بارود سے بھری گاڑیاں ٹکراتے اور کفار کے چیتھڑے اڑا دیتے۔ دن رات، ہر وقت ہر جگہ شیروں کی طرح جھپٹتے، کبھی گھات میں بیٹھ کر ٹینکوں کو فضاؤں میں اڑاتے۔ الغرض کفر و تکبر کی علامت امریکہ اس طرح ۲۰ سال گزرنے کے بعد ذلت و رسوائی سمیٹتا ہوا امارت اسلامیہ افغانستان سے دفع ہوا۔ (وللہ الحمد!)
امت کے شہزادے اور اسلام کے علمبردار طالبان پھر سے شریعت کی بہاریں لیے نمودار ہوئے۔ امت کے ان ابطال نے، بھلے وہ عربی ہوں یا عجمی اسلام کی خدمت سر انجام دینے میں کسی قسم کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور قربانیوں کی عظیم داستانیں رقم کیں۔ امت کے ابطال کا ذکر عرب شہزادے شیخ اسامہ بن لادن اور ان کے رفقاء کے بغیر بالکل ادھورا سا لگتا ہے۔ شیخ اسامہ نے ہی پوری دنیا کے مسلمانوں میں ایک امت کا تصور دوبارہ زندہ کیا۔ انبیاء کی سرزمین بیت المقدس کو یہود سے آزاد کروانا اور جزیرۃ العرب سے کفار کو نکالنے جیسے فرض کی طرف توجہ دلائی۔
فلسطین پچھلی کئی دہائیوں سے یہودیوں کے زیر تسلط ہے، یہودیوں نے وہاں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے دنیا بھر کے نام نہاد ’مسلم‘ حکمران بھی چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں فلسطینی نوجوانوں نے جن قربانیوں اور گرم خون سے اس مسئلے کو تازہ رکھا ہوا ہے قابلِ ستائش ہے۔ حال ہی میں فلسطینی ابطال ’کتائب القسام‘ اور دیگر مجاہدین نے بہت منظم اور بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ یہودیوں پر مبارک حملے کیے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ فلسطین اور امتِ مسلمہ کے لیے ایک نئی بہار کی آمد آمد ہے۔ ’طوفان الاقصیٰ‘ نامی مہم امتِ مسلمہ کے لیے خوشی و مسرت کی نوید ہے کہ امت کے یہ بیٹے خواہ وہ شرق میں ہوں یا غرب میں اپنی امت کا دفاع کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ یہی مٹھی بھر ابطالِ امت اور نوجوانانِ اسلام اس امت کی لاج ہیں، امید کی کرن اور سرمایہ ٔ افتخار ہیں!
امت کے ان بیٹوں نے کفر کی چکی کے دو پاٹوں کو روکا جو مسلم امت کو پیسنے کے در پے تھی۔ اس دوران ان کے بازو جوڑوں سے اکھڑے بھی اور کچھ اس بے رحم چکی میں پیس دیے گئے، مگر آخرکار امت کے ان مٹھی بھر نوجوانوں نے اس ظلم و ستم کی چکی کو نہ صرف روکا بلکہ اس کا رخ بھی بدل ڈالا۔
اب صبح منور ہونے کو ہے، وہ دن دور نہیں جب انہی ابطالِ امت کی مسلسل قربانیوں اور ضربوں کے نتیجے میں یہ امت اپنی کھوئی ہوئی منزل’خلافت‘ ایک بار پھر پا لے گی۔ ان شاء اللہ!
٭٭٭٭٭