سن ۶ ہجری کی بات ہے جب آسمان اس منظر کو دیکھ رہاتھا۔ مدینہ کے اندر نبیﷺ کی سربراہی میں خندقیں کھودی جاچکی ہیں۔ انبیاء کے قاتل، وقت کے سب سے بڑے مجرمین یہودی اپنی گردنوں پہ غدر و خیانت کا بار اٹھائے ندامت سے سرجھکائے کھڑے ہیں۔ ان کو بھی معلوم ہے، یہی نوشتۂ دیوار ہے، جو اسی قوم کے لیے لکھا گیا، کیونکہ مجرمین کی سزا یہی ہے، سات آسمانوں کے اوپر آسمانوں سے اترا ہوا فیصلہ بھی یہی ہے۔ اتنے میں آواز لگانے والا آواز لگارہا ہے، لوگوں کو لے جایاجارہا ہے اور قتل کیا جارہا ہے۔ مجرموں میں سے ایک مجرم اپنے یہودی سردار کعب بن اسد سے دریافت کرتا ہے، آپ کا کیا اندازہ ہے ہمارے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے؟ تو وہ جھلا کر کہتا ہے، کیا تم لوگ کسی بھی جگہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے؟ دیکھتے نہیں پکارنے والا رک نہیں رہا، جانے والا پلٹ نہیں رہا۔ کیا تم لوگوں کی عقلیں کسی جگہ کام نہیں کرتیں؟ یہ قتلِ عام ہے!
مسلمانوں نے ہجرت کے بعد اس قوم کی ہمسائیگی میں کون سا ایسا دکھ یا تکلیف ہے جو نہ دیکھی ہو۔ چکی کے پاٹ گرانا، کھانے میں زہر ملانا، طرح طرح کی شرارتیں کرنا، ان کی ہمسائیگی کے کڑوے پھل تھے جو وقتا فوقتا مسلمان چکھتے رہے۔ اب کی بار تو عین اسی وقت مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا جب احزاب مسلمانوں پر چڑھ دوڑے تھے۔ ایک صحابیؓ کو آپﷺ نے جب بھیجا کہ جاکر دیکھو یہود کس حالت میں ہیں، تو اس صحابیؓ کے بقول، یہود اس وقت بدترین حالت میں تھے۔ جب مسلمانوں نے لشکروں کو آتے دیکھا تو جن کا ایمان اللہ پہ تھا وہ پکار اٹھے، یہی تو وہ ہے جس کا اللہ نے اور اس کے رسولﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھا، پس اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردکھا۔ ہانڈیاں الٹ گئیں، خیمے اکھڑ گئے، اللہ نے اپنے بندوں کو عزت بخشی اور اکیلے ہی سارے لشکروں کو شکست دی۔ خندقیں کھود کر خائن یہودیوں کا بھی فیصلہ سنا دیا گیا۔ حضرت سعد بن معاذ کی زبانی فیصلہ ہوا، تمام مردوں کو قتل کردیاجائے، خواتین کو لونڈیاں اور مال واسباب کو غنیمت بنالیاجائے۔ اب ان سنپولوں کا خاتمہ بھی ہوگیا جو ہر وقت ڈسنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ان کا جرم ہی یہی تھا، انہوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ خیانت کی تھی۔ مگرجس قوم کی سرشت میں دھوکہ دہی اور خیانت انڈیل دی گئی ہو، جو قوم انبیاء کے قاتل ہونے پر فخر کرتی ہو، جو قوم اللہ سے اعلانیہ جنگ سود پر آمادہ ہو، سودی معیشت جس کا کاروبار ہو وہ قوم بھلا کیسے فلاح پاسکتی ہے؟
یہ تاریخ ہے صہیونی مجرمین اور ان کے آباء کی…… جن کے دامن پر وقت کے انبیاء کے ساتھ خیانتوں کے داغ ہوں اور جن کے دامن پر انبیاء جو اسی قوم کی فوز وفلاح کے لیے تشریف لائے، کے خون کے دھبے ہوں ۔
اقوامِ عالم کا امن برباد کرکے، دوسروں کو مختلف حیلے بہانوں سے لڑواکر اور جنگ کی آگ کو سلگا کر خود چین سے رہنےمیں یہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انہی اعمال کی وجہ سے یہ بندروخنزیر بنادیے گئے۔ جب یہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے بھی ان کے بارے میں اعلان فرما دیا:
وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ (سورۃ البقرۃ: 61)
’’اور ان پر ذلّت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی، اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔ یہ اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے۔ اور یہ اس لیے ہوا کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔‘‘
میری امت کی یہ نوجواں لاج ہیں
پہلی جنگِ عظیم میں خلافتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد مختلف بہانوں سے خلافت کی بندر بانٹ کرکے، ایک عظیم الشان اسلامی تاریخ کی حامل امت کو مختلف وطنی پرچم تھما کر، اسی کی خاطر لہو گرمانے کا مشن سونپ دیا گیا اور ان تمام اقوام کی چوکیداری کرنے کے لیے لیگ آف نیشنز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جو مختلف بہانوں سے مسلم اقوام پر ہونے والے ظلم وستم کو نہایت عمدگی اور عیاری سے پوشیدہ رکھتی ہے۔ جبکہ عالمِ کفر کی سربراہی میں چلنے والے اس جدید عالمی شیطانی نظام کی پشتیبان اور برابر کی حصہ دار ہے۔ اسی دوران دنیا میں بکھرے یہودیوں کو فلسطین میں لاکر ایک صہیونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا اعلان ڈیوڈ بن گورین نے ۱۹۴۸ء میں کیا، اور اس کا نام ریاستِ اسرائیل رکھا گیا۔
یہ اعلان اسلامی شناخت رکھنے والے ملکوں کے منہ پہ ایک زور دار طمانچہ تھا۔ ایک ایسی امت جو اپنا ماضی بھول کر وطنیت کے بتوں میں اپنا مستقبل تلاش کررہی تھی۔ وطنیت کے دعوے داروں نے اپنا بھرم باقی رکھنے اور عرب ہونے کا زعم برقرار رکھنے کے لیے اور ’قوموں کی بقا وطنیت کے اندر پنہاں ہوتی ہے‘ کے نعرے کے زعم میں یہ عرب حکمران اسرائیل پر حملہ آور ہوئے۔ چند ہی دنوں کے اندر ان کی جواں مردی کا پول کھل گیا، یہاں تک کہ اسرائیل نے شرم الشیخ اور غزہ پر اپنا قبضہ کرلیا، بلکہ اس نے علاقۂ سینا کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا اور سوئز کی پوری مشرقی پٹی بھی اس کے قبضے میں آگئی، جس کی وجہ سے مصر بھی اس کی توپوں کی زد میں آگیا ۔
عر ب قوم پرستی پانی کا ایک بلبلہ ثابت ہوئی جو پھونک مارتے ہی ہوا کی نظر ہوگیا۔ اس کے بعد مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کی ایک نہایت طویل اور سیاہ رات چھاگئی۔ مظلوم فلسطینیوں کی بستیوں کو بلڈوز اور باغات کو خاکستر کرکے ان کو پناہ گزین کیمپوں میں دھکیل دیا گیا، جہاں خوف، غربت، افلاس اور سردی ان مظلومین کا استقبال کررہی تھی۔ اور دنیا بھر سے یہودیوں کو بلوا کر اس مقدس زمین پر ان کی آباد کاریاں کروائی گئیں۔ محبوب مسجدِ اقصیٰ کی بنیادیں کھود کر اس کو شہید کرکے اس پہ ہیکل سلیمانی بنانے کے صہیونی ارادے کی تکمیل ہونے لگی اور مسلمانوں کو دورانِ عبادت تنگ کرنا اور مختلف حیلے بہانوں سے عبادت سے روکناصہیونیوں کا روز کا معمول بن گیا۔
ایک فلسطینی عورت جو پوسٹر اٹھا کر کہہ رہی تھی، ’’اے اسامہ! تیرا وعدہ کہاں ہے؟‘‘…… اس پکار اور مظلوم فلسطینی عوام پر یہودی مظالم نے محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن کو بے چین کردیا۔ شیخ اسامہؒ جانتے تھے کہ اوسلو معاہدہ اور عرب امن معاہدے مسئلۂ فلسطین کی کبھی حقیقی ترجمانی نہیں کرسکتے۔ یہ معاہدات مقبوضہ فلسطین کی بندر بانٹ تو کر سکتے ہیں مگر حقیقی حل نہیں۔ یہ قابض اقوام کی طرف سے دیا ہوا وہ فارمولا ہے جو ہر کچھ عرصے بعد مظلوم کے حصے میں آیا ہوا بچا کچھا ٹکڑا بھی کھا جاتا ہے۔
انہی حالات کو دیکھ کر شیخ اسامہ نے وہ مشہورِ زمانہ قسم کھائی کہ:
’’اے میرے فلسطینی بھائیو! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یقیناً تمہارے بیٹوں کا خون ہمارے بیٹوں کا خون ہے اور تمہارا خون ہمارا خون ہے۔ پس خون کا بدلہ خون سے اور تباہی کا بدلہ تباہی سے لیا جائے گا۔ اور ہم اپنے ربِّ عظیم کو گواہ بناکر کہتے ہیں کہ ہم تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے، یہاں تک کہ فتح کا دن آجائے یا ہم بھی وہی کچھ نہ چکھ لیں جو حمزہ بن عبدالمطب نے چکھا تھا۔‘‘
جنگ جاری رہے صف شکن غازیو!
اہلِ ایمان کی بستی غزہ، ایک تنگ ساحلی پٹی جو بحیرۂ روم اور اسرائیل کے درمیان واقع ہے۔ صرف ۴۱ کلومیٹرلمبے اور ۱۰ کلومیٹر چوڑے علاقے والا غزہ، جہاں کچھ اہل ایمان رہتے ہیں، جن کے وجود سےاسرائیلی ریاست کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ اسرائیل کے بالکل وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے ظلم کی طویل داستانوں نے غزہ میں ایک عظیم انتفاضہ کی بنیاد رکھی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی نسل وجود میں آچکی ہے جنہوں نے وطنیت اور قومیت کے بتوں کو پاش پاش کرکے یہ نعرہ لگایا :
اللہ غایتنا والرسول قدوتنا والقرآن دستورنا والجھاد سبیلنا والموت فی سبیل اللہ
غزہ کے باسیوں نے جدید ترین اسلحے کے حامل اسرائیل کو یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے کہ غزہ شیروں کا ایک ایسا مسکن ہے جہاں گھسنا ان گیدڑوں کے بس کا کھیل نہیں۔
اسرائیل نے غزہ کی ساحلی پٹی کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے جس کے نتیجے میں خوراک، ادویات اور پینے کے پانی جیسی بنیادی ضروریات کا بھی مکمل فقدان ہے۔ مگر مجاہدین نے اللہ کی نصرت سے اس کی ذات پہ بھروسہ کرتے ہوئے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے خلاف تیاری جاری رکھی۔ اسرائیلیوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ مجاہدین اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا بن کر ان پہ یوں آ برسیں گے۔
ہفتہ، ۷ اکتوبر کی صبح مجاہدین کی جانب سے داغے گئے راکٹوں کی بوچھاڑ نے اسرائیلی ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم کی صلاحیتوں کو تہس نہس کرتے ہوئے اسرائیلی شہروں پر تباہی پھیلانا شروع کردی۔ اس سے پہلے کہ تل ابیب میں سائرن گونجتے، ہر طرف دھواں ہی دھواں پھیل چکا تھا۔ اسرائیلی فوج حملے کی پہلی یلغار سے ابھی سنبھلی ہی نہ تھی کہ مجاہدین غزہ کی پٹی کے گرد کیمروں، گراؤنڈ موشن سینسرز اور ان جیسے کئی دیگر حفاظتی حصاروں کو توڑتے ہوئے اسرائیل کی سرحدی چوکیوں پہ جا ٹوٹے۔ مجاہدین کے کچھ دستے فضا سے اور کچھ دستوں نے سمندر سے اسرائیل پر اپنی یلغار کا آغاز کیا۔ جنگ کے پہلے دن مارے جانے والے یہودیوں کی تعداد سینکڑوں میں جاپہنچی اور الحمدللہ کئی یہودیوں کو جنگی قیدی بنالیا گیا۔ مظلوم فلسطینی عوام پہ ہوتی بمباریاں دوربین سے دیکھ کر خوشیاں منانے والے صہیونیوں کو جنگ کی حقیقت اور تلخی اس دن سمجھ میں آئی۔ سالہا سال سے تلخیٔ ایام کا جو گھونٹ صرف مسلمان پی رہے تھے، اس کے قطرے جب یہودیوں کے حلق میں انڈیلے گئے تو یروشلم سے لے کر واشنگٹن تلک، سبھی کے حلق کڑوے ہوگئے ۔
معرکے ہیں تیز تر
اللہ کے شیر مجاہدین کے ہاتھوں اسرائیل کی اس رسوا کن اور ذلت آمیز شکست نے اس کی جھوٹی ٹیکنالوجی اور ناقابل شکست ہونے کا بھرم توڑ دیا۔ اسرائیل اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ جن چیزوں پہ ناز کرتا ہے وہ ہے اس کا عسکری نظام، اس کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اور اس کی ٹیکنالوجی جس کو وہ دنیا میں ایکسپورٹ بھی کرتا ہے۔ اس کی فوج نے اتنے وسائل ہونے کے باوجود جس ذلت آمیز طریقے سے مجاہدین کے سامنے میدان میں مات کھائی، اس نے دنیا کے سامنے اس کی سطوت وعظمت کا جھوٹا پول کھول دیا۔ جبکہ اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تو علم ہی اس وقت ہوا جب مجاہدین ان کے سروں پہ آپہنچے۔ جس آئرن ڈوم نامی جدید دفاعی سسٹم پہ اسرائیل کو ناز تھا، اللہ کے اذن سے یہ سسٹم بھی ناکام ہوگیا۔
مجاہدین نے حملہ کرنے کے فوراً بعد جو ابتدائی تصاویر نشر کیں، وہ کریم شالو کے میدان سے لی گئیں جو غزہ سے اسرائیل میں داخل ہونے کے لیے جنوبی علاقہ ہے۔ مجاہدین گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور صہیونی فوجی بے خبر پڑے تھے۔ مجاہدین کے دستے خاردار تاروں کو کاٹتے ہوئے تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے اسرائیل میں داخل ہورہے تھے۔
آج ایک مرتبہ پھر انبیاء کی سرزمین فلسطین لہو لہو ہے۔ غزہ کے ہسپتالوں، مساجد اور عوامی مقامات پر بے دریغ بم باری جاری ہے۔ غزہ میں ہر طرف آگ و خون کا کھیل جاری ہے، نہ ہسپتال محفوظ ہیں نہ عوامی مقامات۔ آسمان سے اسرائیلی طیارے آگ برسارہے ہیں اور نتیجے میں مظلوم فلسطینی شہید ہورہے ہیں۔ مگر ایک عزم ہے، ایمان کی طاقت ہے جس کے بل بوتے پر اپنے سے کئی گنا بڑے جدید اسلحے سے لیس دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ یہ مسئلہ فلسطین یا فلسطینی عوام کا نہیں، بلکہ یہ مسئلہ قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ کی آزادی کا ہے۔ یہ مسئلہ نسل پرستانہ حریت پسندی یا زمین کا نہیں ہے، بلکہ ایمان کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ کلمۂ طیبہ لاالہ الااللہ کا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا اور آخرت کا مسئلہ ہے، یہ حق سے وفاداری کا مسئلہ ہے، یہ دجال کے متبعین سے لڑتے ہوئے امام مہدی اور اور حضرت عیسیٰ کے ساتھ شامل ہونے کا مسئلہ ہے۔
القدس لن تھود
اے یہودیو! جان لو…… شیخ اسامہ اور ان کے ساتھیوں نے جس جدوجہد کی بنیاد رکھی ہے، یہ ہر کچھ عرصے بعد یمن سے لےکر مالی تک، صحرائے سینا سے لےکر تل ابیب تک، تمہارے اور تمہارے آلہ کاروں کے سکون میں خلل ڈالتی رہے گی۔ مبارکباد کے مستحق ہیں وہ غازی جنہوں نے ’سھام الحق‘ آپریشن اور صومالیہ میں جاری گرم معرکوں کے بعد طوفان الاقصیٰ کے نام سے یہود کو وہ سبق دیا جس کے وہ مستحق ہیں۔ مدینہ سے لے کر احزاب کی گھاٹیوں تک، صحرائے سینا سے لے کر تل ابیب تک، ان شاء اللہ ہماری تمہارے ساتھ جنگ جاری رہے گی، یہاں تک ہم اپنی محبوب مسجدِ اقصیٰ کو دوبارہ بازیاب نہ کروالیں اور غرقد کے درخت کے پیچھے چھپے ہر یہودی کو تلاش کرکے اس کو اس کے انجام تک نہ پہنچا دیں۔
واللہ غالب علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون
٭٭٭٭٭