[۷ اکتوبر کو جب معرکہ طوفان الاقصیٰ شروع ہوا تو اسی دن بہت سے علماء جمع ہوئے اور انھوں نے اس کی تائید میں اور مسلمانوں پر اس کی بابت عائد ہونے والے فرض کے حوالے سے فتویٰ مرتب کیا۔ پھر اس فتویٰ پر دیگر علماء اور تنظیموں کی تائیدات حاصل کی گئیں۔ یہ فتویٰ اس لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اس مغلوبیت کے دور میں، جب علمائے کرام بھی جبر و اکراہ کی وجہ سے خاموش ہونے پر مجبور ہوتے ہیں، یہ فتویٰ جرات وبہادری کی اعلیٰ مثال ہے اور اس میں صہیونیوں کے خلاف جہاد کا شرعی حکم اور تمام مسلمانوں پر اس کی فرضیت صاف صاف بیان کی گئی ہے۔ یہاں ذیل میں ہم اس فتویٰ کا اردو ترجمہ نشر کر رہے ہیں، تاکہ اردو دان مسلمان بھی اس فتویٰ کی روشنی میں خود پر عائد فرض جان سکیں۔ (ادارہ)]
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله ناصر المجاهدين، ومذل الصهاينة المعتدين، والصلاة والسلام الأتمان الأكملان على إمام المجاهدين وعلى صحابته الفاتحين وعلى من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين وبعد.
بیشک علمائے امت پر واجب ہے کہ جب عظیم نوازل، بڑے واقعات اور فیصلہ کن جنگیں پیش آئیں تو وہ حق بات کے بیان کے لیے حاضر ہوں، اور اللہ کی خاطر کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخْشَوْنَهٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ ۭوَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيْبًا (سورۃ الاحزاب: 39)
’’وہ لوگ اللہ کے پیغامات آگے پہنچاتے ہیں، اور وہ اللہ ہی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اور حساب لینے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔‘‘
آج ’فلسطین‘ کی مبارک زمین اور ’غزہ‘ کا باعزت خطہ ’طوفان الاقصیٰ‘ کے معرکے کی صورت میں بہادری اور قربانی کی سب سے بڑی جنگ اور رسول اللہ ﷺ کی جائے اسراء کا دفاع کر رہے ہیں۔ اس عظیم واقعے اور فیصلہ کن معرکے کے سنگ بہ سنگ امتِ مسلمہ کے علماء شریعتِ اسلامیہ کا حکم بتانے کے لیے واضح اور صریح فتویٰ جاری کر رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ:
اول: معرکۂ طوفان الاقصیٰ میں مجاہدین فی سبیل اللہ جو کام انجام دے رہے ہیں، وہ اس زمانے میں تمام دینی اعمال میں سے عظیم ترین عمل ہے۔ وہ ظلم کو دفع کرنے اور اپنے دین، اپنے مقدسات اور اپنی عزت کے دفاع میں مقبول جہاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ (سورۃ الانفال: 57)
’’پس اگر کبھی یہ لوگ جنگ میں تمہارے سامنے ہو جائیں تو ان کو ایسی سزا دو کہ ان کے پیچھے والے بھی دیکھ کر بھاگ جائیں، تاکہ وہ عبرت پکڑیں۔‘‘
دوم: یہ معرکہ شروع ہوتے ہی، جس کا اعلان ان ماہرین نے کیا ہے جو جنگ کے میدان کے لوگ ہیں، اور جنہوں نے پوری امت کو اس معرکے میں شریک ہونے اور اس مرحلے کے بعد اگلے مرحلے میں صہیونی دشمن کے خلاف براہِ راست جہاد کھڑا کرنے کی اشد ضرورت بیان کی ہے، ہم علماء یہ واضح کرتے ہیں کہ ہر عاقل بالغ مسلمان پر شرعاً واجب ہے کہ وہ اس نفیرِ عام کے جواب میں برائے جہاد نکل کھڑا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (سورۃ التوبۃ:41)
’’تم خواہ ہلکے ہو یا بوجھل (جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہو، اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ، فَانْفِرُوا.
’’اور جب تم سے جہاد کے لیے نفیر کی جائے تو جہاد کے لیے نکل کھڑے ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنی جان، مال، زبان اور اپنے موقف سے اس نفیر پر لبیک کہنے کے لیے دروازہ اور راستہ ڈھونڈے۔
اور اس شرعی واجب کی ادائیگی خطے، میدان اورافراد کے ہنر مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتی ہے۔ جو اس واجب کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو اس پر ڈر ہے کہ وہ میدانِ جنگ سے پیٹھ پھیرنے کے حکم میں داخل ٹھہرے، جو سات ’موبقات‘ (ہلاکت خیز اعمال) اور بڑےکبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ (سورۃ الانفال: 16)
’’اور جو کوئی اس (جنگ کے) دن پیٹھ پھیرے گا، الا یہ کہ وہ جنگی چال کے لیے ایسا کرے یا اپنے لشکر کی طرف لوٹتا ہو، تو وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ
’’سات ہلاکت میں ڈالنے والے گناہوں سے بچو۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ کیا ہیں؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ’جنگ کے دن جنگ سے پیٹھ پھیرنا‘ ذکر کیا۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔
اور علماء یہ بات واضح کرتے ہیں، اس انداز میں نہ کوئی اشتباہ رہے اور نہ لفظوں کی ہیر پھیر، کہ مسلم ملکوں میں جہاں کہیں بھی صہیونی سپاہی یا شہری رہتا ہے تو وہ حلال الدم ہے…… فلسطین میں بھی اور اس کے علاوہ دوسرے مسلم ملکوں میں بھی۔ اور صہیونی دشمن کے ساتھ کیے گئے امن معاہدوں کی بنیاد پر مسلم ملکوں میں ان کے داخلے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ شریعت کی نظر میں یہ امان باطل ہے اور مسلم ملکوں سے کیے گئے معاہدوں کے تحت مسلم ملکوں میں داخل ہونے والے کا (مسلمانوں سے) کوئی عہد نہیں۔ اگر بالفرض ہم اس معاہدے کو صحیح تصور کرلیں، جیسا کہ بعض درباری علماء کا فتویٰ ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ صہیونی دشمن نے مبارک مسجدِ اقصیٰ کے خلاف جو ظلم کیا ہے، اور مسلمانوں کے معصوموں کو قتل، ان کی عورتوں کی عزتوں کو پامال اور ان کی زمین پر جو قبضہ کیا ہے، اس سے یہ امان اور عہد ٹوٹ چکا ہے۔1
اور سب سے اہم ترین واجب ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس فلسطینی مزاحمت کی مدد اللہ کے راستے میں اپنا مال دے کر کرے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد بالمال کو جہاد بالنفس کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ (سورۃ الحجرات: 15)
’’اہل ایمان تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانا، پھر کسی شک میں نہیں پڑے، اور جنہوں نے اپنی مال ودولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔‘‘
واللہ أعلم!
وصلى الله وبارك على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه۔ وآخر دعوانا أن الحمد لله ربّ العالمين۔
اس فتویٰ پر دستخط کرنے والے علمائے کرام:
- الدکتور نواف تكروري، رئيس هيئة علماء فلسطين
- الدكتور عبدالله بن عبد المجيد الزنداني
- الأستاذ الدکتور صالح الرقب، رئيس جمعية أهل السنة والصحابة
- الإمام خليف إبراهيم سيك، السنغال
- الشيخ فاروق الظفيري، عضو الإتحاد العالمي لعلماء المسلمين، العراق
- الشيخ سامي الساعدي، أمين عام دار الافتاء الليبية
- محمد سعيد باه، السنغال
- الشيخ محمد أبو الخير شكري، امين عام رابطة علماء الشام
- سعيد بن ناصر الغامدي، الأمين العام لمنتدى العلماء
- الأستاذ الدکتور فؤاد محمد بلمودن، عضو الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين، المغرب.
- الدکتور سلمان السعودي، أمين ملتقى دعاة فلسطين
- الدكتور محمد خليل الرحمن ، الامين العام لجنة العلماء والمشايخ في بنغلاديش. ورئيس مجلس الفتوى بنغلاديش
- الدكتور الشيخ إبراهيم الهيلالي، الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين، المغرب.
- الدكتور محماد رفيع، رئيس المركز العلمي للنظر المقاصدي، المغرب.
- الشیخ اسماعیل محمد ، جامعة دارالعلوم بزاهدان ایران
- الدکتور حسين عبدالعال، الأمين العام لهيئة أمة واحدة
- سعيد اللافي، رابطة أئمة وخطباء ودعاة العراق
- أحمد العمري، رئيس لجنة القدس في الإتحاد العالمي لعلماء المسلمين
- الدکتورحسن سلمان، نائب رئيس مجلس الشورى لرابطة علماء إرتريا
- الأستاذ الدکتور أحمد يوسف أبو حلبية، رئيس لجنة القدس والأقصى بالمجلس التشريعي الفلسطيني
- الشيخ إسلام الغمري، الهيئة العالمية لأنصار النبي
- سعاد ياسين ، نائب رئيس اتحاد العلماء والمدارس الإسلامية في تركيا
- الدکتور محمود سعيد الشجراوي، نائب رئيس قسم القدس في هيئة علماء فلسطين
- الدکتور يحيى الطائي، عضو الامانة العامة و مساعد الامين العام لهيئة علماء المسلمين في العراق
اس فتویٰ پر دستخط کرنے والی اہلِ علم کی مختلف تنظیمیں:
- هيئة علماء فلسطين
- جمعية المعالي للعلوم والتربية بالجزائر
- هيئة علماء المسلمين في العراق
- ملتقى علماء فلسطين
- ملتقى دعاة فلسطين
- جمعية النهضه اليمنيه
- جمعية أهل السنة والصحابة– غزة
- منتدى العلماء
- المنتدى الإسلامي الموريتاني
- الهيئة العلمية لجماعة العدل والإحسان
- مركز دراسات الأقصى مدى في الجزائر.
- ولقف الاخاء والتنمية التركي.
- التجمع الإسلامي في السنغال.
- رابطة علماء فلسطين
- رابطة علماء و دعاة جنوب شرق آسيا
- تجمع نحن فلسطين الإندونيسي
- هيئة علماء المسلمين في لبنان
- مؤسسة منبر الأقصى الدولية
- هيئة أمة واحدة
- رابطة أئمة وخطباء ودعاة العراق
- هيئة علماء اليمن
- وقف بيت الدعوة والدعاة لبنان
- مؤسسة القدس الدولية في فلسطين
- مركز تكوين العلماء بموريتانيا
- جمعية الاتحاد الإسلامي في لبنان
- اتحاد العلماء والمدارس الإسلامية في تركيا
- جماعة عباد الرحمان السنغال
- جمعية علماء خرسان، ايران
٭٭٭٭٭
1 اصلِ فتویٰ میں یہ پورا پیراگراف درج ہے، جیسا کہ دکتور نواف التکروری نے خود پڑھ کر یہ فتویٰ سنایا ہے۔ آپ کی یہ ویڈیو یوٹیوب پر موجود تھی، مگر بعد میں اسے پرائیویٹ کردیا گیا۔ یہ فتویٰ اپنی اصلی حالت میں اب بھی انٹرنیٹ پر کئی جگہ موجود ہے۔ تاہم بعد میں شاید کسی دباؤ کی وجہ سے بعض تنظیموں کی طرف سے یہ عبارت تبدیل کردی گئی اور درج ذیل عبارت داخل کی گئی: ’’ہم تاکید کرتے ہیں کہ صہیونی دشمن کے ساتھ ہونے والے تطبیع (نارملائزیشن) کے عمل کی ہر شکل حرام ہے، اور غاصب دشمن کے ساتھ یہ تطبیع شرعاً باطل ہے اور اس پر کسی قسم کے بھی معاملات مرتب نہیں ہوتے‘‘۔ یہ تفصیل اس لیے درج کردی گئی کہ قارئین کے سامنے حقیقت واضح ہو۔ باقی دونوں عبارتوں کا ماحصل ایک ہی ہے، یعنی مسلم دنیا میں جہاں بھی صہیونی موجود ہوں تو ان کے لیے کوئی امان نہیں، وہ مباح الدم ہیں۔