بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین حمد الصابرین المجاھدین
تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے،صبر کرنے والے مجاہدین کی حمد وثناء
كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ (سورۃ المجادلۃ:21)
’’اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ضرور غالب ہوں گے، بےشک اللہ ہی قوی اور غالب ہے۔‘‘
والصلاۃ والسلام علی نبینا المجاھد الشھید الذي بشرنا بأجر المرابطین والمجاھدین والشھداء علی سواحل الشام، وبعد.
اور درود وسلام ہو ہمارے مجاہد شہید نبی پر جنہوں نے ہمیں شام کے ساحلوں پر رباط وجہاد کرنے والوں اور شہید ہونے والوں کے اجر کی بشارت دی۔
اے اسلامی اور عرب امت! اے ہر جگہ بسنے والے احرارِ عالم! معرکۂ طوفان الاقصیٰ کے قلب سے ہم آپ کو سلام کہتے ہیں، جو غزہ کی حدود سے شروع ہوا لیکن اب ہر اس چپۂ زمین تک پھیل رہا ہے جہاں کہیں بھی حریت پسند عرب اور غیر عرب مسلمان مجاہد آباد ہے۔ وہ جو دیکھ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے اسراء اشرارِ عالم کے ہاتھوں پامال ہورہی ہے، اور جو ہمارے مردوں کی جنگ بھی دیکھ رہا ہے جس میں وہ ان لوگوں کے سر کچل رہے ہیں جو ہماری عوام کو قتل کر رہے ہیں اور ہماری مبارک مسجدِ اقصیٰ کی حرمت پامال کر رہے ہیں۔ وہ مسجدِ اقصیٰ جو ہماری مقدس ترین جگہ ہے، جائے اسرائےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، ہمارے شہداء کی منزل اور ہماری امت کی مرکزی علامت ہے۔
پوری دنیا سرکش صہیونیوں کے جرائم دیکھ رہی ہے جو بچوں، عورتوں اور شہریوں کو قتل کر رہے ہیں اور پُرامن شہریوں کے گھروں پر بمباری کر رہے ہیں۔ ایسے وحشت ناک جرائم ہیں جو تاریخ نے اس سے قبل نہ دیکھے ہوں گے۔ اور یہ سب امریکہ کی چھتری تلے ہو رہا ہے۔ یہ لوگ انسانیت کے دشمن ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں، جو آزاد ذرائع ابلاغ کا زمانہ ہے، یہ لوگ زمینیں اور نسلیں تباہ کر رہے ہیں اور قتلِ عام کرنے میں اپنی نازی فطرت کو کام میں لا رہے ہیں۔ سب کچھ عروج وزوال سے عبارت ’دنیا‘ دیکھ رہی ہے، مگر اس کی حکومتیں خاموش کھڑی ہیں۔ الٹا بعض حکومتیں اس غاصب نظام کے ساتھ کھڑی ہیں، اس کے ساتھ تعاون، حمایت اور ہمدردی کر رہی ہیں۔
ہم اس ظلم کے مقابلے میں اور معرکہ ’طوفان الاقصیٰ‘ کو جاری رکھتے ہوئے درج ذیل بعض باتوں کی تاکید کرتے ہیں:
اول: ہم اس دشمن سے کہتے ہیں کہ تمہیں تمہارے کرتوتوں کا حساب نہایت بھیانک اور المناک ملےگا اور تم ضرور مسجدِ اقصیٰ اور ہماری عوام کے خلاف کیے گئے اپنے جرائم کی قیمت ادا کرو گے۔ ہر مرتبہ کی طرح ہماری مزاحمت ان جرائم کو کبھی نہ بھولے گی، اور نہ ہماری عوام بھولے گی اور نہ ہی ہماری امت کی مجاہد قوتیں اور نہ ان کی مزاحمت بھولے گی۔ امریکی حکومت کی طرف سے اس نظام کی ’گندی اور نیچ‘ مدد اس کے کچھ کام نہ آئے گی، اور اس کا انجام بالآخر ندامت اور خسارے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ بلکہ دنیا کی کوئی قوت بھی ہماری مزاحمت ختم نہ کرسکے گی اور نہ ہی ہمیں اپنے مقدسات کے دفاع سے روک سکے گی اور نہ ہی ہماری عوام سے صہیونی قبضے سے آزادی کی ان کی جدوجہد چھین سکے گی۔ بلکہ اسرائیلی نظام کے ساتھ یہ ’احمقانہ‘ مدد وتعاون ہماری امت میں غضب کی آگ کو مزید بھڑکادے گا، جو امریکی واسرائیلی یلغار کو ایک ساتھ بھسم کر دے گا۔
دوم: ہم دنیا بھر میں بسنے والے اپنی امت کے تمام لوگوں سے کہتے ہیں، خوا ہ وہ عراق میں ہوں، یا اردن میں، لبنان میں ہوں یا شام میں،یا مصر،یمن، خلیجِ عرب میں ہوں، یا تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش، موریتانیہ وسوڈان میں ہوں، یا ترکی، ایران، پاکستان یا افغانستان میں ہوں…… ہر خطے میں بسنے والے مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی عزت وکرامت اور اپنی مسجدِ اقصیٰ کا دفاع کریں اور مسلم وعرب امت کے ترجیحی مسئلے یعنی مسئلۂ فلسطین کا دفاع کریں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ فلسطین کی حدود کی طرف لپکیں اور وہاں جمع ہوں، اور متحد ہو کر اپنا سب کچھ صہیونی منصوبے کو ناکام بنانے میں صرف کردیں، جو اپنے تمام تر قتلِ عام اور ظالم وجابر طاقتوں کے تعاون کے باوجود مضمحل ہے۔ ہم ان (مسلمان بھائیوں) سے کہتے ہیں کہ آج دشمن اپنے پچھتر سالوں میں سے سب سے کمزور حالت میں ہے، لہٰذا امت کے پاس آج موقع ہے، جو کسی طور ضائع نہ ہونا چاہیے۔
سوم: ہم امت کے سب لوگوں اور دنیا بھر کے حریت پسندوں سے کہتے ہیں کہ وہ گھروں سے نکلیں اور صہیونی اور امریکی سفارتخانوں کا گھیراؤ کرلیں، ان کے سفیروں کو نکال باہر کریں اور ہر اسلامی اور عربی ملک میں ان کے سفارتخانوں کو بند کردیں۔ یہ وہ کم سے کم فرض ہے جو اپنے ’قدس‘ کی نصرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے اسراء کی بابت امت پر عائد ہوتا ہے، اور تاکہ ’استقامت کی زمین‘ غزہ میں ہوتے قتلِ عام کا آپ کی طرف سے تردید کا اعلان ہوجائے اور زندہ مسلم امت کے عوام کو ان کا مقام واپس حاصل ہوجائے۔
چہارم: ہم اپنی عوام اور مسلم امت کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ہماری مزاحمت بہترین حالت میں ہے اور میدان میں جاری معرکوں میں ابھی تک غالب ہے، اور جانتی ہے کہ کہاں اٹھنا ہے، کہاں گھیرا ڈالنا ہے اور کہاں ضرب لگانی ہے۔ اور ہم اللہ کی مدد ونصرت سے اس غاصب دشمن کے مقابلے میں ایک طویل معرکے کے لیے تیار ہیں،جس قدر کہ ہمارے ہدف کے تقدس اور عظمت کا تقاضا ہے۔ یہ ہدف قدس اور اقصیٰ کا دفاع اور پامالی سے اس کی حفاظت ہے۔ اور اقصیٰ، اپنے لوگوں اور ہر جگہ اپنی مسلم عوام کے حق میں اس غاصب دشمن کے جرائم کا بدلہ چکانا ہے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۃ آل عمران: 200)
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور استقامت سے کھڑے رہو، اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو،تاکہ تم کامیاب ٹھہرو۔‘‘
یہ جہاد ہے، جو یا فتح وکامرانی ہے، یا شہادت ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
٭٭٭٭٭