اگر میرا مرنا ہے ٹھہرا……تم کو مگر جینا ہو گا
میری کہانی سنانے کے لیے
میری چیزیں بِکوانے کے لیے
کپڑے کا ایک ٹکڑا ،خریدنے کے لیے
اور چند ڈوریاں……
سفید رنگ لینا……اور سِرا لمبا چھوڑنا
تاکہ غزہ کا کوئی بچہ……
آسمان کی طرف نظر اٹھائے تو……
اپنے بابا کو ڈھونڈتی نگاہیں
(……جو بھڑکتے شعلو ں میں بچھڑ گئے اس سے
الوداع تک نہ کہہ سکےکسی کو
نہ اپنے ہی خون کو…… نہ ہی خود کو……)
پتنگ کو دیکھیں ، میری پتنگ……
جو تم نے بنائی، آسمان پر اڑتی ہوئی……
تو اِک لحظے کو سمجھے کہ واں کوئی فرشتہ
لے کر آتا ہے محبت کا مژدہ……
اگر مجھے مرنا ہی ہے تو……
( میری موت کو) امید بننے دو
مجھے ایک قصّہ، اِک نوید بننے دو……
اشعار: شہید رفعت العریر، غزہ
(نومبر، ۲۰۲۳ء)
سوچتی ہوں ایک تحریر لکھوں……دلوں کو جھنجھوڑنے والی، آنکھوں کو رلانے والی، بے حسی میں لپٹے، اپنے معمول میں روبوٹس کی مانند چلتے پھرتے، اپنی زندگی بنانے کی سعی میں مصروف مسلمانوں کو ……چونکانے والی، بتانے والی، احساس دلانے والی……کہ غزّہ جل رہا ہے۔ وہاں کی گلیاں انسانی لاشوں سے اٹی ہوئی، وہاں کی سڑکیں معصوموں کے خون سے رنگین، وہاں کی فضا بارود کی بو اور دھوئیں سے آلودہ…… اور وہاں ہر عمارت فقط ملبے کا ایک ڈھیر ہے۔
جی چاہتا ہے ماؤں کی جگر کو چھلنی کرتی چیخیں، کہ جن کو سن کر آسمان کا سینہ بھی شق ہوا جاتا ہے، وہ تمہیں سنواؤں۔ اپنی کل متاع کو چند لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بنتے دیکھنے کا غم، کسی طرح دکھاؤں تم کو۔ اپنے بچوں کے فاسفورس سے جلے جسموں، بموں سے اڑے چیتھڑوں ، ٹکڑا ٹکڑا جسم اکٹھا کر کے ، پلاسٹک کے تھیلوں میں اپنے ننھے منّے بچے کو ہسپتال لے جانے والے باپ کا صدمہ……کسی طرح تمہارے دلوں تک بھی پہنچاؤں…… شاید کہ تمہیں خیال آئے……شاید کہ لمحہ بھر کو رک کرتم کبھی سوچو……یہ مرتے، کٹتے اور جلتے ہوئے جسم……تمہارے ہی بھائی بہنوں کے ہیں۔
عرصہ ہوا مسلمان بھائیوں کو جیلوں کی کال کوٹھڑیوں سے بہنیں آواز دیتی ہیں۔ ہند تا امریکہ، یہ بہنیں اپنے زخم دکھا کر، اپنے غم سنا کر، چیخ چیخ کر اپنے بھائیوں کو مدد کے لیے بلاتی ہیں۔ مگر غزہ …… غزہ وہ جگہ ہے کہ جہاں ۸؍ ۹ سال کی معصوم بچیاں… …بلکہ نابالغ بچے تک …… قومِ سدوم کے درندوں کی حیوانیت کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ایک ۱۱ سالہ بچی ہے۔ جس کو اسرائیلی فوج کے درندوں نے پہلے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پھر اسے یہ دھمکی دیتے ہوئے کہ اگر اس نے اپنے اوپر بیتنے والے مظالم کا ذکر کسی سے بھی کیا تو اس کی چھوٹی ۸ سالہ بہن کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا، اسے نیم مردہ حالت میں ایک عوامی مقام پر پھینک دیا، جہاں سے لوگوں نے اسے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا …… اس کی معصوم نگاہیں اور فرشتوں سے پاکیزہ چہرے کے گرد لپٹا دوپٹہ…… کیا اِن سے بھی تم نظریں چرا سکتے ہو؟
یہ وہ ماں ہے جو اسرائیل کے قید خانے میں ہر لمحہ روتی ہے، سسکتی ہے۔ کہ غزہ سے نکلتے ہوئے، اسرائیلی فوج کے ہتھے چڑھتے ہوئے، اور ان کے ہاتھوں قید ہونے تک، اس دوران اس سے اس کا ننھا شیر خوار بچہ بچھڑ گیا ہے۔ آرام آئے تو کیسے؟ چین آئے تو کیسے؟ کیا سڑک پر گر جانے والا وہ ننھا سا بچہ کسی کو ملا ہو گا؟ کیا اسرائیلی فوج کی بربریّت سے وہ بچا ہو گا؟ یا اگر بچ گیا تو…… کہیں کسی جانور کا شکار نہ بن گیا ہو؟ کیا کوئی ہو گا جو اس لا وارث بچے کو شفقت بھری بانہوں میں سمیٹ لے؟ جو اس قیامت سی قیامت میں، اپنے بچوں کے ساتھ اسے بھی اپنی پناہ میں لے لے؟ کیا کسی ماں کے لیے، اس سے بڑا بھی کوئی غم ہے کہ اس کا ننھا بے سہارا بچہ، اس سے یوں بچھڑ جائے؟ اور وہ دوبارہ کبھی اسے دیکھ بھی نہ پائے!؟
یہ چار چھوٹے چھوٹے نومولود بچے، جن کے والدین کا بھی کوئی اتہ پتہ معلوم نہیں تھا، غزہ کے ہسپتال الشفا میں اس وقت اکیلے چھوڑ دینے پڑے جب اسرائیل نے وہاں کے عملے کو فوری طور پر ہسپتال خالی کرنے کا حکم دیا۔ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے یہ بچے انکیوبیٹرز کے سہارے اس دنیا میں لکھا وقت گزار رہے تھے۔ مگر اسرائیلی فوج کے چھاپے کے سبب ان کی نگرانی پر مامور نرس (male-nurse)کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ ان میں سے صرف ایک بچہ، جس کا انکیوبیٹر کے بغیرکچھ وقت زندہ رہ پانے کا کچھ امکان تھا، کو ساتھ لے جا سکتا تھا۔ وہ اس بچے کو لے کر دیگر عملے کے ساتھ روانہ ہوا۔ اور اسرائیل سے بار بار گزارش و یاد دہانی کی گئی کہ بخدا ہسپتال میں موجود معصوم و بے گناہ بچوں کا خیال رکھا جائے۔ وہ بچے جنہوں نے اس دنیا میں آ کر ابھی صحیح سے آنکھیں بھی نہیں کھولیں، کوئی جرم نہیں کیا، جو آکسیجن ماسک کے ذریعے سانس لیتے ہیں، ان کی معصوم جانوں کی مراعات کی جائے۔
مگر لغت قاصر ہے کہ ایسوں کو کن الفاظ سے بیان کرے، کہ جن کے اندر انسانیت کی اتنی بھی رمق نہیں کہ وہ معصوم بچوں ہی کی زندگی کا خیال کریں۔ جو حیوانوں سے بد تر ہیں، جنہیں دیکھ کر درندے بھی شرما جاتے ہیں……
غزہ کے مسلمان الشفاء پر اسرائیلی چھاپے کے بعد جب واپس آئے تو ان بچوں کو اپنے انکیوبیٹرز میں اس حال میں مردہ پایا، کہ آکسیجن کی سپلائی ختم ہو جانے کے بعد ان کے انکیوبیٹرز کھلے پڑے تھے، ان کے مردہ جسم گل سڑ چکے تھے اور آوارہ کتّوں نے ان کے جسم بھنبھوڑ کھائے تھے۔
سوچتی ہوں…… یہ کوئی من گھڑت قصّہ نہیں، یہ کسی فلم یا کہانی کا سکرپٹ نہیں……یہ تو غزہ میں بیتنے والے حقیقی مناظر ہیں……کیا یہ واقعہ کافی ہو گا؟ کسی نوجواں مسلم کے دل کو جھنجھوڑنے کے لیے؟ کرکٹ سے نظریں ہٹا کر غزہ کے بارے میں سوچنے کے لیے؟ کیا کوئی ہاتھ ایسے ہوں گے، جو بے اختیار اپنے بھائیوں کی نصرت کے لیے شمشیر و کلاشن کوف لیے اٹھ جائیں؟ کیا کوئی آنکھ ایسی ہو گی جو ربّ کی بارگاہ میں فریاد کے آنسو لیے بہہ پڑے؟
سوچتی ہوں……میری امّت کے نوجواں صاحبِ فہم و تدبّر ہیں……علم کی طلب میں آگے، تعلیم و تحقیق کے میدانوں میں جھنڈے گاڑتے، کیرئیر بنانے کی جستجو میں ہمہ وقت مصروف……کیا کبھی ، اپنے پیارے صحت مند بچوں کو، سکول چھوڑ کر آتے ہوئے، ہر دم ان کی جسمانی و ذہنی نشو نما کی فکر میں ہلکان ہوتے ہوئے، ان کے لیے ایک محفوظ مستقبل تعمیر کرتے ہوئے ……کیا کبھی ……اچانک کسی لمحے……تم ٹھٹک کر رکتے ہو گے؟ کیا کبھی خیال آتا ہو گا…… غزہ کی اس چار پانچ سالہ معصوم بچی کا، جو ہاتھ میں خالی پلیٹ لیے، بھوکے لوگوں کی قطار میں کھڑی روتی ہے، بھوک سے ہلکان جسم اور بڑی بڑی سہمی ہوئی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو…… سوچتی ہوں…… کیا پھر بھی تمہارے نوالے حلق سے اتر جاتےہوں گے؟
یہ وہ بچے ہیں مسلمانو! جو رات کو بھوک کی شدّت سے اٹھ جاتے ہیں۔ کچھ کھانے کو نہیں ملتا تو اپنی بے بسی، اور اپنی قوم و امّت کی بے حسی پر حلق میں پھنستی چیخوں اور آنسوؤں کو چھپانے کے لیے جسم پر اوڑھی چادریں منہ میں ٹھونس لیتے ہیں، مبادا ان کی سسکیوں سے پاس لیٹے والدین کو یہ معلوم ہو کر دکھ نہ ہو……کہ وہ بھوکے ہیں۔ کہ سردی کی شدت سونے نہیں دیتی۔ کہ ان کے نیچے ان کا بستر بارش کے پانی سے نم ہو چکا ہے۔
یہ فلسطینی قیدی ہیں بھائیو!…… یہ اسرائیل کے قید خانے ہیں۔ یہاں کا کیا حال سناؤں کہ قوّتِ بیان ساتھ چھوڑ چھوڑ جاتی ہے۔ یہ وہ جیل ہے بھائیو! جہاں بند قیدیوں کا جرم کسی کو بھی معلوم نہیں…… نہ قیدی کو، نہ قید کرنے والوں کو اور نہ قید کا حکم سنانے والوں کو! مگر پھر بھی یہاں کے قیدی دنیا کے بد ترین مظالم سے گزرتے ہیں۔
کبھی انہیں دنوں کے حساب سے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے، کھانے کو دیا بھی جائے تو بس چند نوالے……جو کسی چوہے یا چڑیا کو بھی کفایت نہ کریں۔ کبھی انہیں بے تحاشا مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس قدر کہ آلاتِ تشدد بھی بالآخر چٹخ جاتے ہیں، ٹوٹ جاتے ہیں۔ قیدیوں کے ہاتھ اور انگلیاں توڑ دی جاتی ہیں، حتیٰ کہ کبھی مسلسل تشدد ہی بالآخر موت پر منتج ہوتا ہے۔ یہاں کے قیدیوں کو علاج کی سہولت میسر نہیں، گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں ، کوئی انسانی حق میسر نہیں۔ اسرائیل کے یہ قید خانے دنیا کے قید خانوں میں اس اعتبار سے یکتا و بے مثال ہیں، کہ یہاں قیدی بہر صورت اپنی مدّتِ قید پوری کرنے کا پابند ہوتا ہے، چاہے اس دوران وہ مر ہی کیوں نہ جائے۔ مرنے کے بعد بھی اس کے مردہ جسم کو سرد خانے میں اپنی سزا پوری کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، تاکہ اس کا انتظار کرتے بوڑھے والدین، یا اس کی راہ تکتے بیوی بچے……اس کربِ مسلسل میں رہیں کہ ان کے روح و جسم کا ایک ٹکڑا ، مرنے کے بعد بھی اسرائیل کی قید میں اپنی سزا کاٹ رہا ہے۔ اسے دو گز زمین کا ٹکڑا تبھی نصیب ہو گا، جب وہ اپنی سزائے بے گناہی پوری کرے گا۔
میرے لوگو! یہ اسرائیل ہے……وہی اسرائیل جس کے میکڈونلڈز اور سٹار بکس نے ہمیں اپنا اسیر کر رکھا ہے، جس کے لوشنز ، کریموں اور شیمپوؤں کے بغیر ہماری آرائش و زیبائش، بلکہ ہماری ’سیلف کئیر‘ ہی نامکمل و ادھوری ہے، یہ اسرائیل ہے جو فلسطین (غزہ و مغربی کنارہ دونوں) میں ہمارے مسلمان بہنوں اور بھائیوں کے مرے ہوئے، دفن شدہ لوگوں کو بھی نہیں بخشتا۔ محض ۷ اکتوبر سے جاری اس معرکے کے دوران اسرائیلوں نے اپنے غضب و بغض کو نکالنے کے لیے مسلمانوں کے کتنے ہی قبرستانوں میں بلڈوزروں سے قبریں اکھاڑی ہیں۔ مسلمانوں کے کفن میں لپٹے لاشے روندے ہیں اور انہیں یونہی کھلے آسمان تلے چھوڑ دیا ہے۔
مسلمانو! سوچو……کبھی تو ذرا دل سے سوچو! …… اگر غزہ کے مسلمان اپنے نہیں لگتے، بہت دور معلوم ہوتے ہیں…… ’فلسطینی‘ یا ’عرب ‘ لگتے ہیں، یہ مسئلہ ’عربوں ‘ کا مسئلہ لگتا ہے ……ان کا غم پرایا لگتا ہے…… تو ذرا چند لمحوں کو انسان بن کر ہی سوچو! اپنے کسی پیارے کا جو اس دنیا میں بچھڑ کر منوں مٹی تلے سو گیا ہو۔ ذرا سوچو! وہ جس کی بس یادیں ہی تمہارے پاس رہ گئی ہوں…… اسے یوں اس کی آخری آرام گاہ سے اکھاڑ پھینکا جائے، اس کا بے جان لاشہ جانوروں اور پرندوں کی خوراک ہو…… اسے مرنے کے بعد بھی آرام نہ نصیب ہو…… کیا بحیثیت انسان کوئی یہ تصور کر بھی سکتا ہے؟!
یہ ۱۳ سالہ بچی آمنہ غنم ہے۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح سرخ ہیں ۔ اس قدر سرخ کے معلوم ہوتا ہے اگر ان میں سے کوئی آنسو ٹپکا، تو وہ بھی خون کا آنسو ہو گا۔ آمنہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ٹین کی چھت والے ایک شیلٹر میں رہ رہی تھی۔ جنوری ۲۰۲۴ءکی کوئی سرد رات جب وہ سب گھر والے سو رہے تھے، اسرائیلی ٹینکوں کی آواز سے ان کی آنکھ کھلی، یہ ٹینک انہیں روندتے ہوئے ان کی چھت کے اوپر چڑھ گئے جس کے نتیجے میں وہ سب ان کے نیچے پھنس گئے اور بری طرح کچلے جانے لگے۔ تمام رات یہ ٹینک انہیں پیستے رہے اور بالآخر صبح کہیں جا کر رخصت ہوئے۔ اس دوران بری طرح کچلے جانے کے سبب آمنہ کی آنکھوں میں خون کی رگیں پھٹ گئیں، اور تمام سفیدی خون کی سرخی میں ڈوب گئی۔
اور ہاں…… صبح جب انہیں ہسپتال پہنچایا گیا، تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے والد اور چھوٹی بہن اسرائیلی ٹینکوں تلے، کچل کر شہید ہو چکے ہیں۔
مگر کیا آمنہ کی کہانی ……یا اس جیسی سینکڑوں آمنہ، فاطمہ، عائشہ اور خدیجہ کی کہانی…… کچھ بھی کافی ہو گا……تمہاری آنکھوں پر پڑے غفلت کے پردے کو سِرکانے کے لیے؟!
یہ محمد الشیبر کی ۱۰؍ ۱۱ سالہ بیٹی لیان الشیبر ہے۔ جو اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ جنوبی غزہ میں اکیلی ہے۔ جس وقت وہ اپنے والدین اور دو بھائیوں موسیٰ اور ماہر کے ساتھ وسطِ غزہ سے جنوب کی طرف سفر کر رہی تھیں، اسرائیلی فوج نے ان کے دیگر اہلِ خانہ کو وسط میں ہی روک لیا اور صرف ان دو چھوٹی بچیوں کو جانے کی اجازت ملی۔ انہوں نے ہفتوں سے اپنے گھر والوں کو نہیں دیکھا، ان کی آوازیں نہیں سنیں، اور وہ انہیں بے حد و بے تحاشا یاد کرتی ہیں۔ وہ دنیا سے کیا چاہتی ہیں؟ صرف یہ کہ …… اپنے دلوں میں ہمارے لیے کچھ احساس پیدا کرو!
اور یہ ننھی بچیاں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتی ہیں۔
یہ غزہ کے بچے ہیں۔ جو سردی کے موسم میں اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں، کھانے کو کچھ نہیں، پہننے کو کچھ نہیں، رہنے کے لیے کچھ نہیں۔ سردی کی شدت سے بچنے کے لیے یہ دنیا کی جانب سے خیرات میں آنے والے سفید ’کفن‘ پہن کر پھرتے ہیں۔ [ذیل کی تصویر میں ایک بچی ’باڈی بیگ‘ پہنے ہوئے ہے!]
یہ غزہ کے بچے ہیں۔ بمباریوں نے جن سے ان کے والدین، بہن بھائی، گھر اور زندگیاں چھین لی ہیں۔ یہ بھوک برداشت کرتے ہوئے، خالی برتن اور خالی ہاتھ اپنے گھر والوں کے پاس کسی پناہ گزین کیمپ میں جاتے ہوئے بھی صبر سے مسکراتے ہیں، اور ہنس کر کہتے ہیں :’حالات ذرا مشکل ہیں!‘۔
یہ غزہ کے بچے ہیں۔ ہسپتالوں میں جب انیستھیزیا کے بغیر ان کے کٹے پھٹے جسم سیے جاتے ہیں، تو یہ درد برداشت کرنے کے لیے اپنے ربّ کی اتاری کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اسی میں پناہ لیتے ہیں، اسی میں جائے قرار پاتے ہیں۔
یہ غزہ کے بچے ہیں، جو جلے ہوئے جسم لیے، جا بجا زخموں سے چور، خون تھوکتے ہوئے، پھر بھی کہتے ہیں: حسبنا اللہ و نعم الوکیل!!
یہ اہلِ غزہ ہیں، دنیا کی وہ واحد جگہ کہ جہاں کے اہلِ اسلام روزانہ گروہ در گروہ قافلۂ شہداء میں شامل ہوتے ہیں۔ ربّ کے چنیدہ و محبوب ترین بندوں میں جن کے نام لکھے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خوش قسمت ہیں……ربّ تعالیٰ کی قسم! یہ لوگ خوش قسمت ہیں……جو امتحانِ زندگی سے سرخرو ہو کر نکلتے ہیں اور سبز پرندوں کے روپ میں اڑ کر آسمان کی وسعتوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ سوچتی ہوں…… ایک تحریر لکھوں…… نوجوانانِ امّت کو جگانے والی!…… جھنجھوڑنے والی…… ان پر طاری دنیا کا نشہ توڑنے والی…… سوچتی ہوں ، کسی طرح ان کو بتاؤں……اے میری امّت کے بے حس، لاچار و بیمار جوانو! تم کو ضرورت ہے محاذوں کی!
٭٭٭٭٭