بے شک تعریف کی مستحق وہ ذات ہے جس نے موت و حیات کو ہماری آزمائش کے لیے پیدا کیا اور درود و سلام اور لاکھوں کروڑیں رحمتیں ہو اللہ ﷻ کے حبیبؐ پر، جن سے ہر ذی شعور کو محبت اتنی ہی عطا ہوئی جتنا اس کا ایمان ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ جو حضورؐ پر نور سے جس قدر محبت کرے گا وہ اسی قدر زیادہ صاحبِ ایمان ہو گا اور محبت کیا ہے؟ حضورؐ سے محبت یہ ہے کہ آپؐ جو دین لے کر آئے ہیں اس کی پیروی کی جائے، صلی اللہ علیہ وسلم!
مرد کبھی بات نہیں سنتے!
غزّہ کے ایک ہسپتال میں مریضوں کی نگہداشت کرتی نرس، ششدر رہی گئی!
آج اسے ہسپتال میں ایک انوکھا ملنے والا داخل ہوا……
اس کا شوہر آج ایک نعش کی صورت، سٹریچر پر پڑا ہسپتال میں داخل ہوا!
وہ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر آیا ……
ٹیکسی: آج کل کی متبادل جنازہ گاڑی اور ایمبولینس
غزّہ میں ایمبولنسیں بہت کم ہیں
اور موت بہت زیادہ
وہ اپنے شوہر کو یوں اچانک آنے پر دیکھ کر غصے سے لال پیلی ہو گئی اور بولی:
’’مرد کبھی بات نہیں سنتے‘‘
پھر اپنے شوہر سے مخاطب ہو کر بولی:
’’میں نے تمہیں کہا تھا ناں ……
میری شفٹ ختم ہونے تک انتظار کرنا……
مجھے پہلے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنی ہے……
میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ آج شب ہم بطورِ خاندان اکٹھے شہید ہوں گے……
آج شب ہمیں بطورِ خاندان اکٹھے مرنا تھا ……آج شب!‘‘
(محمد الکرد کی آزاد انگریزی نظم کی ترجمانی مع اضافہ جات)
عیدِ حریت!
کئی برس قبل لاہور اسلام آباد موٹر وے پر دورانِ سفر ، چودہ اگست کے دن کسی بھکاری سے ’عیدی‘ کی فرمائش پر ایک خیال تحریر کیا تھا۔ اس بار چودہ اگست غریب الوطنی میں آئی۔ لیکن پھر ایک ’باشعور‘ شخص کو چودہ اگست کی خوشیاں انہی الفاظ کے بیان کے ساتھ مناتے دیکھا کہ آج عید ہے۔ چودہ، پندرہ اگست جنوبی ایشیا کے ان تین ممالک پاکستان، افغانستان اور ہندوستان کا یومِ آزادی ہے۔
بے شک وطن سے محبت فطری چیز ہے!
وطن سے محبت اور رشتہ داروں یا اہلِ خاندان سے محبت، دونوں کے درجات مختلف ہیں۔ بہر کیف جیسے خاندان، قوم اور رشتہ داروں سے محبت ایک فطری بات ہے بالکل اسی طرح وطن سے محبت بھی فطری چیز ہے۔
اقبالؒ نے جس نظریہ یا عقیدۂ وطنیت کا رد کیا (جو دراصل تعلیماتِ اسلامی ہی میں سے ہے)، اسی انداز سے دیکھا جائے تو دین نے اس قسم کی رشتہ داری، خاندان یا قوم و قبیلے سے اندھی محبت کا رد بھی کیا ہے۔ قرآنِ حکیم میں کئی مقامات پر والدین، بھائی بہنوں، بیویوں، اہلِ خاندان و برادری، اہلِ قوم وغیرہ سے ایسی محبت جو احکامِ دین کی ادائیگی میں آڑے آ جائے (مثلاً حق کی گواہی دینے میں مانع ہو یا جہاد فی سبیل اللہ کی ادائیگی میں رکاوٹ بنے ) تو اس کا رد بلکہ اس پر وعید اور ایسی محبت کو چھوڑ کر اللہ کے دین پر عمل کرنے کا حکم موجود ہے۔
پس اسی مثال سے وطن کی محبت کو سمجھنا بھی لازمی ہے۔
حبِّ وطن فطری چیز ہے اور انسان تو کیا یہ محبت جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن اگر مجھے پاکستان، افغانستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، مصر، سعودی عرب سے محبت اس قدر زیادہ ہو کہ میں اہلِ فلسطین کا درد محسوس نہ کر سکوں یا آج جو سرزمینِ القدس میں ہو رہا ہے اس پر اللہ کے دین کی طرف رجوع کر کے یہ نہ دیکھوں کہ اللہ کے دین کا تقاضہ کیا ہے اور اپنی کوششیں اللہ کی جہانگیر شریعت کے بجائے اپنے وطن کی جغرافیائی، تاریخی اور آئینی حدود میں مقید کر لوں تو ایسی حب الوطنی لائقِ برأت ہے۔ پھر یہی حب الوطنی اگر ’حُبّ‘ کے بجائے ’پرستی‘ میں بدل جائے اور اسی کا تقاضہ اس کے یومِ آزادی کو عید کہلوا دینے تک کا ہو جائے تو بھی یہ مذموم ہے!
اسی کے متعلق اقبالؒ نے کہا تھا:
گفتارِ سياست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوتؐ میں وطن اور ہی کچھ ہے
یعنی دنیا کے موجودہ نظامِ سیاست حُبِّ وطن کا جو فلسفہ رکھتے ہیں اس کی بنیاد نیشن سٹیٹ کا جدید نظریہ ہے، یعنی اگر کوئی پاکستانی ہے تو اس کی حدود ریڈکلف صاب یا ڈیورنڈ صاب نے متعین کی ہیں اور کل جس وطن کے گیتوں میں ڈھاکہ و سلہٹ شامل تھا آج اسے ڈھاکہ و سلہٹ کی ویسی پروا نہیں ہے۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اپنے وطن مکہ سے محبت تھی وہ ویسی ہی تھی جیسی فطری محبت ہوتی ہے، اسی لیے بوقتِ ہجرت، مکہ سے جدائی آپ پر بڑی شاق تھی اور علماء نے لکھا ہے کہ ’’وطن سے جدائی انبیاء علیہم السلام پر بھی گراں ہوتی ہے‘‘، لیکن یہ محبت معاذ اللہ کہاں ممکن ہے کہ احکامِ دین پر غالب آ جائے!؟
اسی لیے اقبالؒ نے کہا:
ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِؐ الٰہی!
اور
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دينِ نبویؐ ہے
بازو ترا توحيد کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
نظّارۂ ديرينہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے!
پس دین نہ رشتے ختم کرتا ہے نہ محبتِ وطن کا مخالف ہے، لیکن جو ’عبد اللہ‘اور ’دین اللہ‘کے مابین آ جائے تو اس کی حیثیت کیا ہے، سوائے مثلِ لات و منات!
غزہ اور مظاہرے !
ہم مظاہروں کے مخالف نہیں ہیں، بار ہا ان کے متعلق موقف ہماری تحریرو تقریر میں موجود ہوتا ہے۔ لیکن مظاہروں کی حقیقت پر بات کرنا بھی لازمی ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ ہم بس مظاہروں کو کافی سمجھیں اور غزہ میں ہمارے لوگ، ہمارے بچے، ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں کٹتی رہیں اور ہم انہی مظاہروں سے اپنے آپ کو ’با ضمیر‘ سمجھتے رہیں!
میں شاید یہ سطور نہ لکھتا، لیکن میں نے نہرو کی پڑ نواسی، اندرا کی پوتی ، راجیو کی بیٹی اور راہُل کی بہن پریانکا گاندھی کا پر زور، مذمتی بیان و مظاہرہ سنا، دیکھا، پڑھا! بڑی بڑی حکومتوں کے بڑے بڑے اصحابِ اقتدار کے مظاہرے دیکھے۔ اپنے مسلمان عوام کے مظاہرے بھی دیکھے جن میں لاکھوں افراد شریک رہے۔ ابھی نیتن یاہو آخری بار جو امریکی کانگریس سے مخاطب ہوا تو وہاں کے سیاست دانوں کا مظاہرہ یعنی تقریر کا بائیکاٹ واک آؤٹ بھی دیکھا۔
آج غزہ میں جاری جارحیت کو گیارہ ماہ ہونے کو ہیں۔ اعداد و شمار کا کیا ذکر، ہم سبھی جانتے ہیں ۔ لیکن ان سطور کو لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ مظاہرے کیجیے ضرور لیکن وہ مظاہرہ جو ان گیارہ ماہ کے مظاہروں کی طرح صرف ہمارے دل کی جھوٹی تسلی، ضمیر کے لیے افیون نہ ہو۔
ایسا مظاہرہ جو اس عمل پر ہم اہلِ ایمان کو قائل کر دے کہ جس عمل سے غزہ میں جاری یہ جارحیت رک جائے۔
٭٭٭٭٭