وَعَمِلُوا الصّٰلِحَاتِ
امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں کہ اعمالِ صالحہ کرنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو اللہ کے لازم کردہ تمام فرائض ادا کرتے رہے، اور اللہ تعالیٰ کی تمام نافرمانیوں سے بچتے رہے۔1
ملا علی قاری اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اشتروا الآخرۃ بالدنیا واختاروا رضی المولیٰ علی مطالبۃ النفس والهویٰ۔2
یعنی اعمالِ صالحہ کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا وار کر آخرت کو خرید لیا جائے، نفس و خواہشات کے مقابلے اللہ کی رضا کو اختیار کرلیا جائے۔
قادیانی اثرات سے پہلے اگر چہ اس بات کو الگ سے ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ جہاد بھی اعمالِ صالحہ میں شامل ہے، بلکہ اسلام کا ایک اہم محکم فریضہ ہے، جو عام حالات یعنی دنیا بھر میں مسلمان کی جان و مال اور عزت وآبرو کے محفوظ ہونے کی صورت میں فرضِ کفایہ ہے اور دنیا میں کہیں بھی مسلمان کی جان و مال یا عزت و آبرو خطرے میں ہونے کی صورت میں بتدریج فرضِ عین ہوجاتاہے۔نیز کوئی بھی خطہ جہاں چند گھڑی بھی شریعت نافذ رہی اور پھر اس جگہ سے شریعت کو ختم کردیا گیا تو اس جگہ دوبارہ شریعت نافذ کرنے کے لیے جہاد کرنا فرضِ عین ہے۔
اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ کسی فرض کو چھوڑنا ’گناہِ کبیرہ‘ اور بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑنے والا ’فاسق‘ ہے۔
چنانچہ جہاد سمیت وہ تمام اعمال جنہیں اللہ کے آخر ی رسولﷺ نے کرنے کا حکم فرمایا اور جن سے رکنے کا حکم فرمایا، وہ سب اعمالِ صالحہ میں شامل ہیں۔
وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ
اور وہ لوگ جو ایک دوسرے کو قرآن اور ایمان و توحید کی تلقین کرتے رہے۔
امام رازی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فَالتَّوَاصِي بِالْحَقِّ يَدْخُلُ فِيهِ سَائِرُ الدِّينِ مِنْ عِلْمٍ وَعَمَلٍ۔3
’’تواصی بالحق(ایک دوسرے کو حق کی تلقین)میں تمام دین داخل ہے،یعنی علم و عمل‘‘۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ یہاں حضرت حسن بصری اور امام قتادہ نے فرمایا: الحق سے مراد قرآن ہے، جبکہ مقاتل نے فرمایا: حق سے مراد ایمان و توحید ہے۔
آگے فرماتے ہیں:
(مسئلة: ) الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر واجب، من ترك كان من الخاسرين۔4
’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے ،جس نے اس کو چھوڑا وہ خسارے والوں میں سے ہوگا‘‘۔
چنانچہ ﴿وتواصوا بالحق﴾ کہہ کر اس طرف اشارہ کردیا کہ قرآن کے تمام احکامات و قوانین پر مکمل عمل کرنے کی تلقین کیے بغیر مکمل خسارے سے نہیں بچاجاسکتا۔ کیونکہ کسی معاشرے میں اگر کوئی اچھائی انفرادی سطح پر کی جائے، دوسروں کو اس کی تلقین نہ کی جائے تو یہ اچھائی عام نہیں ہوپاتی بلکہ ایک وقت آتا ہے کہ یہ نیک عمل کرنے والا بھی اسے چھوڑ بیٹھتا ہے اور یہ بھی اسی ماحول کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ نیک عمل کرنا اور دوسروں کو اس کی دعوت دینا انسان کو اس عمل پر ثابت قدمی بھی عطاکرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس پر لانے کاسبب بنتا ہے۔ تواصوا بالحق کی اس محنت کی بدولت معاشرے کا اکثر حصہ اس نیک عمل کو کرنا شروع کردیتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی خود برائی سے بچتا ہے لیکن معاشرے کو اس میں ڈوبا دیکھ کر دوسروں کو اس سے بچنے کی تلقین نہیں کرتا ،ایک وقت آتا ہے کہ اس برائی کی نفرت اس کے دل سے جاتی رہتی ہے اور اس کا حال بھی دوسروں کی طرح ہوجاتاہے۔
چنانچہ معاشرے میں تواصوا بالحق اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بند ہوجانا قرآن کی نظر میں سخت ناپسندیدہ سمجھاگیا ہے۔
قرآن نے کئی جگہ اس رویے کی مذمت بیان فرمائی ہے۔
﴿كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾ (سورۃالمائدة: 79)
’’یہ لوگ ایک دوسرے کو ان کاموں سے نہیں روکتے تھے جو وہ کرتے تھے،بہت ہی برا تھا جو وہ کرتے تھے‘‘۔
یہ بنی اسرائیل کا حال تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبانی لعنت فرمائی اور بندر اور خنزیر بنادیا۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، كَانَ الرَّجُلُ يَلْقَى الرَّجُلَ، فَيَقُولُ: يَا هَذَا، اتَّقِ اللَّهَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ، فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَكَ، ثُمَّ يَلْقَاهُ مِنَ الْغَدِ، فَلَا يَمْنَعُهُ ذَلِكَ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَقَعِيدَهُ، فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ ضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ“، ثُمَّ قَالَ: {لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ} إِلَى قَوْلِهِ {فَاسِقُونَ} [المائدة: 81]، ثُمَّ قَالَ: «كَلَّا وَاللّٰهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ، وَلَتَأْطُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا، وَلَتَقْصُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ قَصْرًا۔5
وزَادَ في روایۃ: ’أَوْ لَيَضْرِبَنَّ اللَّهُ بِقُلُوبِ بَعْضِكُمْ عَلَى بَعْضٍ ثُمَّ لَيَلْعَنَنَّكُمْ كَمَا لَعَنَهُمْ‘۔
حضر ت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہےرسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل میں جو پہلی خرابی پیدا ہوئی، وہ یہ تھی کہ ایک آدمی دوسرے سے ملتا تو کہتا اے فلاں! اللہ سے ڈر اور جو گناہ تو کر رہا ہے اس کو چھوڑدے،یہ تیرے لیے جائز نہیں ہے، لیکن اگلے دن جب یہ اس سے ملتا تو اس کا گناہ اسے اس کے ساتھ کھانے پینے اور نشست وبرخاست سے نہ روکتا، سو جب انھوں نے ایسا کرنا شرو ع کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے ملا (کر سیاہ کر) دیا‘‘۔ پھر آپﷺ نے قرآن کی آیت تلاوت فرمائی: [بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر کیا، ان پر داؤد اور عیسیٰ کی زبانی لعنت کی گئی]۔ آپ ﷺ نے [فاسقون] تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: ’’ہر گز نہیں! اللہ کی قسم! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر حال میں کروگے،اور ظالم کا ہاتھ ضرور پکڑوگے،اور اس کو حق کی طرف مائل کروگے،اور تم اسے حق پر روکے رکھوگے جیسا کہ حق پر روکنے کا حق ہے‘‘۔
دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے: ’’اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے سے خلط ملط کر (کے ایک سا سیاہ کر) دے گا، پھر وہ ضرور تم پر بھی لعنت کرے گا جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل پر لعنت کی ‘‘۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَوْحَى الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنِ اقْلِبْ مَدِينَةَ كَذَا وَكَذَا بِأَهْلِهَا، قَالَ: فَقَالَ: يَا رَبِّ إِنَّ فِيهِمْ عَبْدَكَ فُلَانًا لَمْ يَعْصِكَ طَرْفَةَ عَيْنٍ، قَالَ: فَقَالَ: اقْلِبْهَا عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ يَتَمَعَّرْ فِيَّ سَاعَةً قَطُّ۔6
حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو اس کے باشندوں سمیت پلٹ دو۔ حضرت جبریل نے فرمایا: یا رب! اس بستی میں آپ کا فلاں بندہ رہتاہے جس نے پلک جھپکنے کی مقدار بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اس سمیت) ان سب پر بستی کو الٹ دو، کیونکہ اس کا چہرہ میری وجہ سے کبھی متغیر نہیں ہوا‘‘۔
یعنی اس بستی میں میری نافرمانی ہوتی رہی اور میری محبت میں اس کے چہرے پر بھی اس کی ناگواری کے اثرات نہیں پیدا ہوئے۔
عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: قَرَأَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ هَذِهِ الْآيَةَ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} [المائدة: 105] قَالَ: إِنَّ النَّاسَ يَضَعُونَ هَذِهِ الْآيَةَ عَلَى غَيْرِ مَوْضِعِهَا أَلَا وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوَا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْ قَالَ المنكر فلم يغيروه عمهم الله بعقابه“۔7
حضرت قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں، حضرت ابو بکر صدیق نے یہ آیت پڑھی: [اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔]
پھر فرمایا: ’’لوگ اس آیت کو غیر محل میں استعمال کرتے ہیں، خبردار! میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: لوگ جب ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ روکیں یا فرمایا منکر کو دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو اللہ انہیں عمومی عذاب میں مبتلا کردے گا‘‘۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِيبًا، فَكَانَ فِيمَا قَالَ: “أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ” قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِيدٍ، وَقَالَ: “قَدْ وَاللّٰهِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَهِبْنَا“۔8
حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے ایک دن رسو ل اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے،اور اس میں فرمایا: ’’خبردار!کسی کو لوگوں کی ہیبت حق کہنے سے نہ روک دے‘‘۔ یہ سن کر حضرت ابو سعید رو پڑے اور فرمایا: ’’واللہ! ہم نے غلط چیزیں دیکھیں اور ہم ہیبت سے رک گئے‘‘۔
ایک روایت میں ا ن الفاظ کا اضافہ ہے:
فَإِنَّهُ لَا يُقَرِّبُ مِنْ أَجَلٍ، وَلَا يُبَاعِدُ مِنْ رِزْقٍ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ أَوْ يُذَكِّرَ بِعَظِيمٍ۔9
’’کیونکہ حق گوئی اور کسی بڑے آدمی کو تذکیر کرنا موت کو قریب نہیں کردے گا اور رزق سے دور نہیں کردے گا‘‘۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ شِرَارَكُمْ، فَلَيَسُومُنَّكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ، ثُمَّ يَدْعُو خِيَارُكُمْ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ لَا يَرْحَمُ صَغِيرَكُمْ، وَلَا يُوَقِّرُ كَبِيرَكُمْ‘‘۔10
حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم ضرور نیکیوں کا حکم کرو اور برائیوں سے ضرور روکتے رہو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر تمہارے بدترین لوگوں کو مسلط کردے گا،سو وہ تمہیں دردناک عذاب دیں گے، پھر تمہارے بہترین لوگ دعائیں کریں گے لیکن ان کی دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ تم ضرور نیکیوں کا حکم کرو اور برائیوں سے ضرور روکتے رہو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ایسے لوگ بھیجے گا جو تمہارے چھوٹوں پر رحم نہیں کریں گے اور تمہارے بڑوں کی عزت نہیں کریں گے‘‘۔
وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: ’’مَنْ تَرَكَ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنْ مَخَافَةِ الْمَخْلُوقِينَ نُزِعَتْ مِنْهُ هَيْبَةُ الطَّاعَةِ، فَلَوْ أَمَرَ وَلَدَهُ أَوْ بَعْضَ مَوَالِيهِ لَاسْتَخَفَّ بِهِ‘‘۔11
حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا: ’’جس نے مخلوق کے خوف سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیا اللہ تعالیٰ اس کی ہیبت کو ختم فرمادے گا، سو اگر اپنے بیٹے یا کسی غلام کو بھی حکم دے گا تو وہ اس کو بے وقعت سمجھیں گے‘‘۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنْ لَمْ نَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَمْ نَنْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ، حَتَّى لَا نَدَعُ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ إِلَّا عَمِلْنَا بِهِ، وَلَا شَيْئًا مِنَ الْمُنْكَرِ إِلَّا تَرَكْنَاهُ، لَا نَأْمُرُ بِمَعْرُوفٍ وَلَا نَنْهَى عَنْ مُنْكَرٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَإِنْ لَمْ تَعْمَلُوا بِهِ كُلِّهِ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَإِنْ لَمْ تَنَاهَوْا عَنْهُ كُلِّهِ‘‘۔12
حضر ت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم اس وقت تک نیکیوں کا حکم (دوسروں کو) نہ کریں جب تک ہر نیکی پر خود عمل نہ کرنے لگیں اور اس وقت تک کسی کو برائی سے نہ روکیں جب تک کہ ہربرائی کو خود چھوڑ نہ دیں؟ (تو )ہم نیکی کا حکم نہ دیں اور برائی سے نہ روکیں۔
اس پر اللہ کے رسو لﷺ نے فرمایا: ’’نیکیوں کا حکم کرو خواہ تم تمام نیکیوں پر عمل نہ کرتے ہو۔اور برائیوں سے روکو اگر چہ خود تمام برائیوں سے نہ رکے ہو‘‘۔
اس عمل کی اہمیت ،اس کے فضائل اور اس کے چھوڑنے پر وعیدیں سنانے کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کو خیر پر جمائے رکھنے اور برائیوں سے دور رکھنے کے لیے ’وتواصوا بالحق‘ کا عمل جاری رکھنا ضروری ہے۔جس معاشرے میں یہ عمل جاری رہے گا وہ معاشرہ اعمالِ صالحہ پر قائم رہے گا،لیکن اگر صالح سے صالح معاشرہ بھی اس عمل کو چھوڑ بیٹھے گا تو دیکھتے ہی دیکھتے برائیاں اس معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور معاشرے کے اندر ان کا احساس تک ختم ہوجائے گا۔
اس عمل کی اہمیت کا اندازہ اس معاشرے اور ان نفوسِ قدسیہ کے عمل سے لگایا جاسکتا ہے جن کے درمیان یہ آیت نازل ہوئی۔ صحابہ جب ایک دوسرے سے ملتے تو رخصت ہونے سے پہلے سورۂ عصر کو ایک دوسرے کے سامنے تلاوت کرتے تھے۔
علمائے حق اور ’وتواصوا بالحق‘
یہ مذکورہ آیات و احادیث جو حق کہنے اور حق کو چھپانے کے بارے میں وارد ہوئیں، علمائے حق کی نیندیں اڑادینے کے لیے کافی ہیں، خصوصاً آج کے دور میں جبکہ ہر طرف صوتی و بصری بیانات کا سیلاب ہے، دین کے نام پر بھانت بھانت کی بولیاں بول کر حق کو باطل، باطل کو حق،کفر کو اسلام اور اسلام کو خارج از اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،مقتدر قوتیں اپنے پروردہ سرکاری مولویوں کے ذریعہ اپنی خواہشات کو اسلام ثابت کرنا چاہتی ہیں، ایسے وقت میں علمائے حق پر یہ فرض ہے کہ دین کو اس کی اصل حالت پر باقی رکھیں، شرعی اصطلاحات، اس کے صحیح معنیٰ ومفاہیم کی حفاظت کریں، کفر و اسلام کی سرحدوں کی حفاظت کریں، خواہ اس کے لیے انھیں اپنے اسلاف کے طرز کوہی اختیار کیوں نہ کرنا پڑے، یعنی ریاست کے مقتدر طبقے کی ناراضگی، قید وبند، جلا وطنی اور پھانسیاں،کہ یہی تو علمائے حق کی وراثت ہے، اور وارثین وہی کہلاتے ہیں جو وراثت حاصل کرلیا کرتے ہیں۔
آپ کفری نظام کو دیکھیے کہ وہ تواصوا بالکفر و المنکرات (کفریات و منکرات کی مسلسل تبلیغ) کتنی پابندی و تسلسل کے ساتھ کر رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دن رات ایک ہی محنت ہے۔ تاویلات و دجل کے ذریعہ، کفر و اسلام کو ایسا گڈ مڈ کردیا جائے، عامۃ المسلمین کیا خواص بھی حیران و سرگرداں رہ جائیں۔ معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسے منکرات میں مبتلا ہوتا چلاجارہا ہے جن کا چند سال پہلے تصور بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ دیندار طبقہ بھی کتنے ہی ایسے منکرات میں جاپڑا جن کا پہلے دیندار گھرانوں میں تصور بھی گناہ تھا، اور المیہ تو یہ ہے کہ ان منکرات کے منکر ہونے کا احساس بھی دلوں سے نکلتا جارہا ہے۔
اسی طرح کسی معروف سے روکنے کی جب مہم چلائی جائے تو اس کے اثرات بھی معاشرے پر پڑتے ہیں اور معاشرہ اس خیر کو خیر جاننے کے باوجود اس پر عمل سے رکنے لگتا ہے، پھر ایک وقت آتاہے جب اس پر عمل کرنے میں اسے معاشرے کے سامنے عار محسوس ہونے لگتی ہے۔
آج کے جدید معاشرے کا اگر مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ لوگ فطرتاً اتنے برے نہیں لیکن ماحول و معاشرہ کی وجہ سے وہ برا بننے پر مجبور ہیں یا برے تو نہیں لیکن خود کو معاشرے کا حصہ بنائے رکھنے کے لیے براظاہرکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ’تواصوا بالحق‘ کا عمل معاشرے کو بنانے و سنوارنے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا اگر داعیانِ دین اپنے بگڑتے معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انھیں ہر پیمانے پر اس ’ تواصوا بالحق‘ کے عمل کو تیز کرنا ہوگا بلکہ اسے اس کے اعلیٰ درجے (قتال) کے ساتھ مضبوط کرنے کی جانب بتدریج بڑھنا پڑے گا۔ جو جتنی قوت سے اس عمل کو کرسکتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ کر گزرے۔ اللہ کے اوامر کا حکم کرنے میں کسی سے نہ ڈرے اور اللہ کی منع کردہ چیزوں سے روکنے میں کسی کو خاطر میں نہ لائے۔ یہ عمل انفرادی سطح پر بھی کیا جائے، ایک خاندان، ایک محلے، ایک طبقے اور قبیلے وقوم کی سطح پر بھی کیا جائے، جو جتنا اس میں سبقت لے جائے گا خسارے سے اتنا ہی بچ جائے گا اور منافع کی اتنی ہی مقدار لوٹ لے جائے گا، کیونکہ ہر گذرتا لمحہ یا تو خسارے میں اضافہ کر رہاہے یا منافع میں زیادتی کر رہا ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 دیکھیے: تفسیرِ طبری، سورۂ عصر
2 تفسیر أنوار القرآن وأسرار الفرقان، سورۂ عصر
3 التفسير الكبير (32/ 281)
4 تفسير المظهري (10/ 337)
5 سنن أبي داود (4/ 121)
6 شعب الإيمان (10/ 74) باب أَحَادِيث فِي وُجُوبِ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ
7 صحيح ابن حبان (1/ 539)
8 جامع الترمذي؛ أبواب الفتن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما أخبر النبي أصحابہ بما ھو کائن إلی یوم القیامۃ
9 مسند الإمام أحمد ( 3 / 50 ، 87 )
10 الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لابن أبي الدنيا؛ ص: 49
11 أیضًا؛ ص: 57
12 أیضًا