نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | نواں درس

خواطر، نصائح اور تفسیر

احمد فاروق by احمد فاروق
3 ستمبر 2024
in حلقۂ مجاہد, اگست 2024
0

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد

فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم

﴿ اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ۰۰۲۲ وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ۰۰۲۳ ﴾ (سورۃ الانفال: ۲۲، ۲۳)

صدق اللہ مولانا العظیم،رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ

پیارے بھائیو!

پچھلی دو آیات مبارکہ میں اللہ رب العزت نے اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا اور اس کے بعد یہ فرمایا کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ اگلی آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ ، یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین جانور، بدترین چوپائے، الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ ، وہ گونگے بہرے لوگ ہیں جو عقل نہیں کرتے۔

سننا اور دیکھنا دو طرح کا ہے

پچھلی آیت میں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ اللہ رب العزت نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم نے سنا مگر حقیقت میں وہ نہیں سنتے۔ اللہ رب العزت کا اپنا ایک نظام ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندوں کو اپنی آیات سنواتے بھی ہیں، اپنی نشانیاں دکھاتے بھی ہیں لیکن یہ سنوانا دو طرح کا ہوسکتا ہے۔ ایک حجت قائم کرنے کے لیے، قیامت کے دن کسی کے خلاف گواہی قائم کرنے کے لیے سنوایا جائے کہ وہ سنے تو مگر وہ سننا اس کے لیے نفع کا باعث نہ ہو، وہ اس سے ہدایت نہ پکڑے بلکہ قیامت کے دن الٹا وہ اس کی پکڑ کا باعث بنے۔وہ کھلی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو دیکھے لیکن اس کا دیکھنا نہ دیکھنا برابر ہو، وہ اس سے کوئی عبرت نہ حاصل کرے، کوئی سبق نہ لے اور قیامت کے دن وہ اس کے خلاف حجت بنا کر دلیل بنا کر پیش کی جائیں۔ تو اس طرح کا سننا اور دیکھنا اپنے ہی خلاف حجت بنتا ہے اور حقیقت میں یہ سننا نہ سننا برابر ہوجاتا ہے بلکہ الٹا نقصان کا باعث بنتا ہے۔

اسی طرح دوسرا سننا وہ ہے جو انسان کے لیے نفع کا باعث ہو۔ انسان کے سامنے اللہ کی آیات آئیں تو وہ ان پہ غور کرے، ان سے اپنے لیے ہدایت کا سامان لے، جب نشانیاں اس کے سامنے آئیں تو وہ ان نشانیوں سے سبق حاصل کرتا ہو۔تو یہ دو طرح کا سننا اور دیکھنا ہے جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہاں فرق کیا۔

اللہ کی نشانیوں کی بات کریں تو وہ ایک ہی سیلاب ہوتا ہے جس سے بعض رجوع الی اللہ کرتے ہیں اور بعض وہ بھی ہوتے ہیں جو اس کے بعد مزید اپنی سرکشی میں بڑھ جاتے ہیں، اللہ کے سامنے اور گستاخی کرنے لگتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی ہیں کہ بعض بدنصیب براہ راست اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں اس طرح کے جملوں سے کہ ہم ہی ملے تھے اس مصیبت کے لیے؟ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو سیلاب کے بعد آنے والے رمضان میں روزے نہیں رکھتےکہ کیا ملے گا اس سب سے…… پوری پوری بستیوں کا یہ حال ہوجاتا ہے اور امدادی کام کرنے والوں کے ذریعے یہ حالات ہم تک پہنچتے ہیں۔ ایک ہی واقعہ کسی کے لیے نافع ہوجاتا ہے، اس کے لیے ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ہے اور کسی اور کے لیے وہ اس کے خلاف حجت بن جاتا ہے، وہ سننا و دیکھنا الٹا نقصان کا باعث بنتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک بدترین چوپائے، بدترین جانور وہ گونگے بہرے لوگ ہیں، وہ گونگے بہرے انسان ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ تو یہ گونگا بہرا پن کہ انسان دیکھ کر بھی نہ دیکھے اور سن کر بھی نہ سنے ، جس کے اندر یہ صفت پائی جائے، جو اپنی عقل نہ استعمال کرے ، جو چیزوں پہ، واقعات پہ، حوادث پہ غور نہ کرے، ان سے سبق نہ حاصل کرے تو اس کو اللہ بدترین جانور قرار دیتے ہیں۔

قرآن کی اپنی تعریفات ہیں، قرآن نے سننے دیکھنے کا بھی اپنا ایک تصور دیا، دیکھنے کے لیے یہی دو آنکھیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص ظاہر بینی کے لیے بہت تیز نگاہ رکھتا ہو، بہت دور تک کی چیز کو دیکھ لیتا ہو لیکن دل کے اعتبار سے خالی ہو اور عند اللہ وہ گونگا بہرا اندھا ٹھہرتا ہو۔ یا ایک بندہ ہو جو بہت ہلکی آواز بھی سن لیتا ہو، سماعت بہت تیز ہو اس کی ، لیکن وہ سماعت اس کے لیے کسی نفع کا باعث نہ ہو، وہ اس کو ہدایت تک لے کے جانے کا ذریعہ نہ ہو تو اللہ کے یہاں وہ گونگا بہرہ شمار ہوگا تو اللہ کےیہاں تعریف ہی بالکل الگ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:

﴿ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۰۰۴۶ ﴾ (سورۃ الحج: ۴۶)

’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں موجود دل اندھے ہوجاتے ہیں‘‘۔

تو یہ ہے اصلی اندھا پن۔ بظاہر ایک بالکل نابینا شخص بھی عند اللہ بینا قرار پا سکتا ہے اور ایک تیز نگاہ رکھنے والا شخص بھی عند اللہ اندھا قرار دیا جاسکتا ہے اور قیامت کے دن اندھا اٹھایا جاسکتا ہے …… نعوذ باللہ من ذالک۔

عند اللہ عقل مند کون ہے؟

یہاں اللہ رب العزت نے کافر کی، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین جانور ہے، اس کی یہ صفت بتائی کہ وہ عقل نہیں کرتا، وہ چیزوں پہ غور و فکر نہیں کرتا، گونگا بہرا ہوتا ہے۔ یہ غور طلب نکتہ ہے۔ یہاں بھی جس فضا میں ہم رہے، جب کفر کا غلبہ ہوا اور اس نے اپنے افکار کو ہم پر مسلط کیا، اور ہر ممکن ذریعے سے ہمارے معاشروں میں اپنے افکار پھیلائے تو ایک عام سا شعور یہ پھیل گیا کہ غالباً مغربی معاشرے بہت عقل مند اور بہت سمجھ دار معاشرے ہیں اور جتنا کوئی مسلمان دین سے قریب ہوتا ہے تو شاید اس کی عقل اتنی ہی تنگ ہوتی چلی جاتی ہے، جبکہ قرآن بالکل دوسری بات کہتا ہے۔ وہ تو مومن کو حکم دیتا ہے عقل استعمال کرنے کا، ابھارتا ہے تدبر کرنے پر، حکما کہتا ہے، افلا یتدبرون القرآن کہہ کر سوال پوچھتا ہے کہ کیا یہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے، افلا یعقلون افلا تعقلون بار بار دہراتا ہے سوال کی صورت میں کہ کیوں نہیں سوچتے کیوں نہیں عقل کرتے ۔ تو ایک سوال ہے جو مومن کو بار بار ابھار رہا ہے اس بات پہ کہ وہ واقعات پہ، حوادث پہ، اللہ کی نشانیوں پہ، آیات پہ غور کرے۔ اور سورۃ آل عمران کی جو آخری آیات ہیں ان میں اللہ تحریض دیتے ہیں کائنات میں بکھری ہوئی اپنی نشانیوں پر غور کرنے پہ۔ اللہ کہتے ہیں وفی انفسکم، تمہارے اپنے اندر نشانیاں ہیں ان کے اوپر غور کرو، سنریھم آیاتنا فی الآفاق، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ان کو نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں ، یعنی افق میں پھیلی ہوئی، کائنات میں بکھری نشانیوں پر اللہ تعالیٰ غور کرنے پر ابھارتے ہیں، تو مومن ایسا ہوتا ہے۔ اگر کسی کے سینے میں ایمان کی حقیقت راسخ ہوجائے تو وہ پھر سطحی آدمی نہیں رہتا ، وہ صرف ہوائے نفس کے پیچھے بھاگنے والا بے مقصد زندگی گزارنے والا نہیں رہتا ، بلکہ وہ خود سے سوالات پوچھتا ہے، وہ اس جستجو میں لگتا ہےکہ اللہ نے اسے کیوں پیدا کیا، کیا مقصد ہے کہ جس کی خاطر وہ بھیجا گیا، موت کے بعد اس کے ساتھ کیا واقعات پیش آنے ہیں، اللہ نے کیوں اس کو تخلیق کیا، مختلف واقعات جو ہو رہے ہیں ان میں اللہ کی کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں، اللہ کی دیگر مخلوقات میں اللہ کی کیا نشانیاں موجود ہیں، تو وہ ان میں سے ہر ہر چیز پہ غور کرتا ہے، ہر چیز سے عبرت حاصل کرتا ہے، سبق حاصل کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے، عقل کو استعمال کرتا ہے۔ کافر اس عقل کو معطل کردیتا ہے۔ کفر کے ساتھ ہی یہ عقل معطل ہوجاتی ہے۔

عقل کی تعریف

عقل کی ایک تعریف ہے ، عقل کا جو مادہ ہے ع، ق، ل اسی سے عِقال بھی نکلتا ہے، عِقال کہتے ہیں رسی کو، عربوں کے یہاں جو سر پر رومال پہنا جاتا ہے اس کے اوپر جو کالے رنگ کی رسی نما چیز ہوتی ہے اسے عِقال کہا جاتا ہے ۔ عِقال کا کام سر کے رومال کو اپنی جگہ ٹکائے رکھنا ہے اور اپنی جگہ سے سرکنے نہ دینا ہے۔اسی طرح صحرا میں جب اونٹوں پر سفر کیا جاتا ہے اور پڑاؤ ڈالتے ہوئے اونٹ کو باندھنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی کہ صحرا میں درخت ہوتے نہیں اور کھونٹے ریت میں گڑتے نہیں، تو اونٹ کے اگلے دونوں پیروں میں رسی باندھ کر اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پیروں میں بندھی اس رسی کی وجہ سے اونٹ زیادہ دور نہیں جاسکتا۔ یہ رسی بھی عِقال کہلاتی ہے اور یہ اونٹ کو گمراہ ہونے سے، راستے سے بھٹک جانے سے روکتی ہے۔ یہی عقل کا کام ہے کہ وہ حق اور باطل میں تمیز کرتی ہے، وہ حق و ناحق میں فرق کرتی ہے۔ عقل کا اصل کام یہی ہے، تو جس کے پاس یہ عقل نہیں ہے، جس کی عقل صحیح خطوط پر کام ہی نہیں کرتی اور وہ صرف ایسی کمپیوٹرائزڈمشین بن جائے جو معلومات سے نتائج اخذ کردے مگر حق و باطل میں تمیز نہ کرسکے تو یہ عقل اللہ کے یہاں عقل نہیں ہے۔ جس طرح وہ سننا سننا نہیں اور وہ دیکھنا دیکھنا نہیں ہے اسی طرح بہت سے مقالے اور کتابیں تحریر کرنے کے باوجود حق و باطل کی تمیز سے قاصر رہنا، یہ فعل اللہ کے یہاں عقل کا استعمال کرنا نہیں کہلاتا۔ لہٰذا عقل کی ایک بالکل مختلف تعریف ہے جو شریعت ہمیں دیتی ہے۔

کیا فائدہ ہے اس عقل کا کہ جس کے ذریعے آپ دنیا کے اندر بہت اونچا مقام پالیں، بہت سی ایجادات کرلیں، انسانیت کے بھلے کے لیے آپ پہیے سے لے کر بلب، ریڈیو اور مختلف طرح کی چیزیں ایجاد کرلیں، مختلف تھیوریاں آپ پیش کردیں اس کے بعد آخرت میں آپ جہنم میں پڑے ہوئے ہوں! تو یہ اللہ کے یہاں کوئی عقل نہیں ہے۔ پاگل آدمی ہے وہ جو سب کچھ سوچ سکتا ہے لیکن اپنی نجات سے متعلق جو حقیقی سوالات ہیں ان کو نہیں سوچ سکتا۔ اس چیز کو عقل کہا کیسے جاسکتا ہے جو دنیوی امور میں تو بہت اچھی چلتی ہو، جو انسان کو ایک کامیاب تاجر، صنعت کار، کسان یا پروفیسر تو بنا دے مگر وہ اسے اس کے رب کی معرفت نہ دے سکے، وہ اللہ کو نہ پہچان سکے، اس کائنات کے اندر رہنے اور اس میں اس قدر نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی وہ ایسا ہو کہ حوادث سے عبرت نہ پکڑتا ہو اور نشانیوں کو دیکھ کر سبق نہ حاصل کرتا ہو۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ نشانیاں ہر ایک کو دکھاتے ہیں۔

ادنیٰ سے ادنیٰ ذہنی صلاحیت کا حامل مومن بھی عند اللہ عاقل ہوتا ہے، عقل مند ہوتا ہے، عقل استعمال کرنے والا ہوتا ہے، تدبر اور غور و فکر کرنے والا ہوتا ہے اور ایک اعلیٰ سے اعلیٰ ذہنی صلاحیت کا مالک کافر بھی، چونکہ حق و باطل کی تمیز سے اس کا ذہن عاری ہوتا ہے اور وہ اپنی عقل کو ہدایت کے لیے نہیں استعمال کررہا ہوتا، اس لیے وہ عند اللہ ناسمجھ، جانور بلکہ جانوروں سے بھی بدتر، اللہ کہتے ہیں شر الدواب، تمام جانوروں سے بدتر ہوتا ہے۔

لہٰذا انسان جب بھی اسلام کو چھوڑ کر، ایمان کو چھوڑ کرکسی بھی اور رستے پر جائے گا تو وہ جانوروں کی سی زندگی گزارے گا۔ آپ تھوڑی دیر غور کریں کہ کیا آپشن ہے؟ یعنی وہ آگے پیچھے جائے گا تو کدھر جائے گا؟ اس دور میں کہ جب ٹیکنالوجی اپنی معراج کو پہنچ گئی، مادی ترقی کی انتہا ہوگئی، وہاں تک اس کے علم اور عقل کی رسائی ہوگئی جہاں تک پہلے کبھی نہ پہنچی تھی، درس گاہوں کی درس گاہیں کھلی ہیں، آکسفورڈ اور کیمبرج اور اس پائے کی یونیورسٹیوں کے ڈھیر لگ گئے مگر ان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والا اگر پھر بھی اس ساری ’روشن خیالی‘ سے گزرنے کے بعد ایک چرچ میں جاکر حضرت عیسی علیہ السلام، مریم علیہا السلام اور فرشتوں کے خود ساختہ بتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر، سجدے میں گر کردعاؤں میں مشغول ہوجاتا ہے تو کیا یہ اس کے عقل مند ہونے کی نشانی ہے ؟ یہ تو قابل ترس انسان ہے جس کو یہ ہی نہیں معلوم کہ وہ کس کو پکار رہا ہے اور جس کو پکار رہا ہے اسے پکارنا کوئی نفع و نقصان دیتا بھی ہے یا نہیں دیتا۔تو اس کی تمام عقل اس مقام پر آکر معطل ہوجاتی ہے اور وہ خالص جانور کی سطح پر گرجاتا ہے جس کے اندر حق و باطل کی کوئی تمیز نہیں، بلکہ جانوروں کی سطح سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔ اس سارے دنیوی علم اور روشن خیالی کے بعد بھی جو شخص یہود کے عقائد کی پیروی کرتے ہوئے انبیا علیہم السلام کے بارے میں ایسے غلیظ قصے منسوب کرے جو آپ اپنے معاشرے کے رذیل ترین فرد سے منسوب کرتے ہوئے بھی سو بار سوچیں، اور پھر فخریہ کہتے ہوں کہ ہم نے انبیا کو قتل کیا، تو کیا یہ عقل ہے کہ جس کی کوئی اتباع کرے اور جس کی طرف اسلام کو چھوڑ کر جانے کا کوئی تصور بھی کرے؟

اسی طرح اس دور میں جہاں کہنے کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت ہے، وہاں سب کچھ پڑھنے لکھنے کے بعد بھی اگر اس نے کسی چوہے، بندر اور گائے ہی کی پوجا کرنی ہے اور جو پوجا کی حد تک نہ جاتا ہو وہ بھی اس قدر وہمی ضرور ہوتا ہےکہ اپنے ان خودساختہ معبودوں کو کوئی نقصان پہنچانے سے پہلے سوچے گا ضرور کہ کہیں ان کی بددعا مجھے نہ لگ جائے۔ تو کیا اس قدر غلیظ اور نجس عقائد سے ملوث عقل کی طرف جانے کی ہم بات کرتے ہیں؟

اسی طرح بدھ مذہب کے پیروکار اپنی بدروحوں کو بلانے کے لیے طرح طرح کے لایعنی اور خرافاتی اعمال کرتے ہیں اور بتوں کے سامنے دعائیں کرتے ہیں اپنی نام نہاد مقدس روحوں کو راضی کرنے کے لیے تو کیا یہ وہ عقل ہے کہ جس کی پیروی کی جانی چاہیے؟

اس سب کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو ان بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے نکلنے والا کوئی فرد اگر رب ہی کا انکاری ہو، نفس دین ہی سے انکار کرتا ہو، اور انسان کو خود عقل کل سمجھتا ہو، وہ انسان کا خود اپنا ہی الہ ہونے کا، ہر اعتبار سے آزاد ہونے کا، اپنی قسمت کے مالک ہونے کا قائل ہو۔ کہنے کو تو آزاد ہو مگر وہ سب سے بڑھ کر غلام ہو، وہ اپنی خواہشات کا غلام ہو، وہ اپنےجیسے بلکہ اپنے سے زیادہ ذلیل اور حقیر انسانوں کے فلسفوں کا غلام ہو، وہ ان پر اس طرح ایمان رکھتا ہو جیسے مسلمان قرآن پر ایمان رکھتا ہے، جیسے کوئی اللہ کے اٹل فرامین پر ایمان رکھتا ہے، اسی طرح وہ آپ کو لالا کر مختلف فلسفیوں کے اقوال سناتا ہوگویا وہ حجت کامل ہوں حالانکہ وہ ناقص عقلیں ہیں، ناقص فہم ہے اور ان کی ذاتی زندگیاں غلیظ اور متعفن ہیں جن کے افکار کا وہ ذکر کررہا ہے۔ تو کیا یہ وہ زندگی ہے جس کی طرف یہ لےجانا چاہتے ہیں؟ یا وہ عام زندگی جو آج ہمارے درمیان اس سرمایہ دارانہ نظام نے پھیلا دی ہے جس میں گھٹنوں تک انسان حب دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اتنی غلیظ زندگی ہے کہ انسان بس پیسے کا بندہ بن کر رہ گیا ہےاور انسان اپنی خواہشات کا بندہ، اپنے پیٹ کا بندہ اور اپنی شرم گاہ کی شہوات کا بندہ بن کر رہ گیا ہے، وہ اپنی عقل نہیں استعمال کررہا ہوتا، اس پہ اس کی خواہشیں اتنی غالب ہوتی ہیں کہ عملاً کوئی ان میں سے مجسم پیٹ ہوتا ہے کہ پیٹ اس کو جدھر لے جائے وہ اس طرف چل پڑے، اس طرح انسان جانوروں سے بھی نچلی سطح پر گرچکا ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کے بارے میں اس قدر سخت بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ اس حدیث میں اللہ کے نبی نے رحمۃ اللعالمین ہوتے ہوئے بھی اس قدر نفرت و کراہت کا اظہار کیا:

تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ تَعِسَ وَانْتَکَسَ وَإِذَا شِيکَ فَلَا انْتَقَشَ (سنن ابن ماجہ)

’’ ہلاک ہوا دینار کا بندہ، درہم کا بندہ اور چادر کا بندہ، وہ ہلاک ہو اور (جہنم میں) اوندھے منہ گرے، اگر اس کو کوئی کانٹا چبھ جائے تو کبھی نہ نکلے۔ ‘‘

ہلاک ہو درہم کا بندہ، دینار کا بندہ، چادر کا بندہ اور اسے کانٹا چبھے تو وہ بھی باہر نہ نکلے…… وہ جو صرف ایک اچھا لباس پانے کی خاطر مرتا ہے، اچھے جوتوں پر، اچھے قیمتی موبائل سیٹ پر اس کی جان نکلتی ہے، ایک اچھی گاڑی پانے کے لیے وہ دن رات کماتا ہے اور یہی اس کی زندگی کے رذیل اور حقیر مقاصد ہیں ۔ اتنی سخت بددعا دی اور اس قدر کراہت کا اظہار کیا ایسے شخص کے لیے کہ جس کی کل متاعِ دنیا یہ ہےکہ روپے روپے کو جمع کرنا اور ڈالر ڈالر پر جان دینا یہ اس کی کل زندگی ہے۔ ایک ترقی پانے کے لیے، ایک اچھی پوسٹنگ کروانے کے لیے، ایک گریڈ اوپر جانے کے لیےوہ سارا یمان بیچنے کو تیار ہوتا ہے، وہ سب کچھ لگادینے کو تیار ہوتا ہے ، سارا اخلاق اور مروت اٹھا پھینکنے کو تیار ہوتا ہے صرف اس لیے کہ اس کی تھوڑی سی ترقی ہوجائے۔ تو پیارے بھائیو! یہ ہوتا ہے جب انسان ایمان چھوڑتا ہے، جتنا انسان ایمان سےدور جاتا ہے ، جتنا اپنے رب کی ہدایات سے دور جاتا ہے، کہنے کو وہ عقل مند ہوتا ہے، آج کی دنیا میں بھی ہوسکتا ہے ایسے کسی رذیل، پیسے کے پجاری کو بڑے بڑے القابات سے نوازا جارہا ہو، جس ملک کے اندر زرداری جیسا چور حاکم بن سکتا ہو، پرویز مشرف جیسا چور حاکم بن سکتا ہوتو ظاہر سی بات ہے کہ پھر ایسے ملک میں تو وہی لوگ معزز ہوں گے جو عبد الدینار ہوں گے، جو عبد الدرہم ہوں گے، جو عبد الخمیصۃ ہوں گے جن کی جان ایک ایک بیگ، ایک ایک جوتے اور ایک ایک گاڑی پر جاتی ہوگی۔لیکن عند اللہ یہ جانور ہیں بلکہ جانوروں میں سے بھی بدترین صنف ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک۔

تو پیارے بھائیو!

یہ وہ عقل کا، فہم کا، سننے اور دیکھنے کا تصور ہے جو اللہ کی کتاب ہمیں عطا کرتی ہے اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہےکہ اس نے ہمیں ایمان کی نعمت سے نوازا، اپنی معرفت دی، اپنے انبیاء کی معرفت دی، اپنی کتابوں کی معرفت دی اور ان جاہلیتوں میں مبتلا ہونے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں بچا لیا ورنہ ہر دور میں اُس دور کے مہذب لوگ یہی دعویٰ کرتے رہے کہ ہمیں جو کچھ ملا وہ اپنے علم کی بدولت ملا اور وہ اپنے علم پر ناز کیا کرتے تھے، وہ علم جو دراصل جاہلیت کا مرکب ہوا کرتا تھا۔ تو اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ یہ بدترین جانور ہیں اللہ کے نزدیک جو عقل استعمال نہیں کرتے۔یہ وہ زندگی ہے جس تک یہ جدیدمغربی تہذیب ہمیں محدود کردینا چاہتی ہے، ہمیں چلتی پھرتی لاشیں بنانا چاہتی ہے، حدیث نے ہمیں بتایا کہ مومن اور کافر کا فرق ہی یہ ہے کہ جو اللہ کا ذکر کرتا ہے وہ زندہ اور جو اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ مردہ ہے، چلتی پھرتی لاش ہے۔ اور قرآن میں اللہ فرماتے ہیں کہ :

﴿ وَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ ﴾ (سورۃ الانعام: ۱۲۲)

’’وہ جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کردیا ۔‘‘

یعنی اپنی آیتیں دے کر زندہ کیا، روشنی دی، نور دیا، ایمان دیااس کی وجہ سے اس کے اندر زندگی پڑگئی تو ان جہالتوں سے اللہ ایمان کے ذریعے نکالتے ہیں، اسلام کے ذریعے نکالتے ہیں، حقائق کا علم دیتے ہیں۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جن سے کوئی مفر نہیں ۔ اللہ ہی اس کائنات کے خالق ہیں، چلانے والے ہیں، اللہ ہی نے ہمیں دوبارہ زندہ کرنا ہے، ہم سے حساب لینا ہے اور اس حقیقت سے اگر کوئی بھاگے گا تو کوئی فائدہ نہیں۔ جو ان حقائق سے واقف نہیں ہے وہ خواہ دنیا کی نگاہ میں کچھ بھی مقام حاصل کرلے مگر وہ دراصل ہلاکت کی جانب جارہا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کا تعارف قرآن ہمیں دیتا ہے اور دنیا میں بھی زندگی گزارنے کا بہترین طرز ہمیں سکھاتا ہے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اور آخرت میں کامیابی کے نسخے بھی اللہ کی کتاب ہمیں عطا کرتی ہے۔ تو اس دین کی قدر، نعمتِ ایمان کی قدر اور اللہ نے جو عقل ہمیں دی اس کی قدر سینوں میں ہونی چاہیے اور اس عقل کو مزید استعمال کرنے والے، سطحیت سے نکل کر حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے ذہن اور عقلیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

﴿ وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ١ؕ ﴾(سورة الانفال: 23)

’’اگر اللہ ان لوگوں کے اندر کوئی بھلائی پاتے تو ان لوگوں کو سنوا دیتے۔‘‘

یعنی جب پہلی پہلی مرتبہ ان کے سامنے کوئی نشانیاں آئیں کچھ آیتیں آئیں تو کوئی تڑپ اللہ ان کے سینوں میں پاتے کہ یہ حق کی طرف جانا چاہ رہے ہیں، یہ سمجھنا چاہ رہے ہیں، یہ اپنی ہدایت کا سامان چاہتے ہیں، بدلنا چاہتے ہیں، ٹھیک بات کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو اللہ مزید دروازے کھولتے کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے، والذین اھتدوا زادھم ھدی، جو ہدایت کی طرف بڑھیں گے اللہ اور ان کے سامنے ہدایت کے دروازے کھول دے گا اور اللہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا اس رستے کی طرف بڑھنے میں۔لیکن جب انہوں نے اللہ کی نشانیاں اور آیات کے آتے ساتھ ہی ان کے لیے دل بند کرلیے اور حق کو نہ سمجھنے کی قسم کھا لی اور سب کچھ واضح ہوتے ہوئے بھی انہوں نے نہ ماننے کی ٹھان لی تو اللہ فرماتے ہیں کہ پھر ایسوں کو اللہ تعالیٰ بھی مزید سننے کی توفیق نہیں دیتے۔ اللہ دل پر مہر لگا دیتے ہیں اور اللہ ہمیشہ کے لیے ان کے دل بند کردیتے ہیں :

﴿ وَ لَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾(سورة الانفال: 23)

اور بالفرض اللہ ان کو سنوا بھی دیں، یعنی مزید کھول کھول کر مزید واضح کر کے اللہ ان کے سامنے اپنی نشانیاں لے بھی آئیں تو بھی ان کے دلوں میں حق سے انکار ایسا راسخ ہوچکا ہے کہ یہ پھر بھی منہ پھیریں گے اور اپنا رستہ لیتے بنیں گے ، اللہ کی آیتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کریں گے۔ تو یہ بہت خطرناک صفت ہے۔ خدانخواستہ اللہ کسی کے ساتھ یہ معاملہ کریں کہ اللہ اسے سننے کی صلاحیت سے محروم کردیں ، وہ ایک مرتبہ اللہ کی آیتوں سے منہ پھیرے اور اللہ ہمیشہ کے لیے اس کا منہ پھیر دیں، وہ ایک دفعہ اللہ کے احکامات کو ماننے سے انکار کرے اور اللہ ہمیشہ کے لیے دل پر مہر لگا دیں تو یہ بہت خطرناک معاملہ ہے اور اللہ کی توفیق نہ ہو تو انسان نہ سن سکتا ہے، نہ حق تک پہنچ سکتا ہے، نہ حق کو دیکھ سکتا ہے۔ تو ڈرتے ڈرتے اللہ کے احکامات کے ساتھ یہ تعامل ہونا چاہیے کہ کہیں ہم سے کوئی ایسی گستاخی اللہ کے احکامات کے معاملے میں نہ ہوجائے، کسی حکم کو کسی ایک موقع پر ہم ایسا حقیر نہ جان لیں کہ اللہ ہمیشہ کے لیے ہم سے وہ توفیق ہی سلب کرلیں حق کی طرف بڑھنے کی اور حق باتوں کو دیکھنے اور ماننے کی۔ اللہ سے دعا ہے کہ عقل سلیم، وہ عقل جو حق و باطل میں فرق کرتی ہے اور جو جہنم کے رستے سے بچا کر جنت کی طرف لے جاتی ہے، نصیب فرمائیں ، اللہ تعالیٰ زندہ دل نصیب فرمائیں اور اس قلب سلیم کے ساتھ اپنے دربار میں حاضر ہونے کی توفیق دیں کہ جو نجات کا باعث ہے۔

سبحانک اللھم و بحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی

٭٭٭٭٭

Previous Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: انتیس (۲۹)

Next Post

شہسوار!

Related Posts

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)

9 جون 2025
Next Post
شہسوار!

شہسوار!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version