نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

مغربی غلبےکا خاتمہ

(غزہ وما بعد کے ورلڈ آرڈر میں لاقانونیت اور مواقع)

ابو انور الہندی by ابو انور الہندی
31 جولائی 2024
in طوفان الأقصی, جون و جولائی 2024
0

تعارف

یوکرین اور غزہ ایک زوال پذیر مغرب کے ضعف کا پردہ چاک کررہے ہیں۔

یوکرین میں مغرب عسکری و معاشی دونوں اعتبار سے ہار رہا ہے۔ نیٹو کی مکمل حمایت و تعاون اور یوکرین کو بے شمار اضافی اسلحے کی فراہمی، یہاں تک کہ ان کے اپنے ذخائر گھٹ کر خالی ہونے کو آ گئے، اس سب کے باوجود اس تنازع میں روس کو عسکری غلبہ حاصل ہے۔ معاشی اعتبار سے روس پر سخت ترین پابندیاں عائد ہیں، حتی کہ سوئفٹ (SWIFT: عالمی بینکاری نظام میں بین الاقوامی بینکوں میں برقی ذرائع سے پیسوں کی منتقلی کا نظام) سے اخراج اور ڈالر کے ذخائر تک ضبط کر لیے گئے ہیں، اس کے باوجود یہ امر روس کی اقتصادی کارکردگی کے یورپ کی کارکردگی سے آگے بڑھنے میں مانع نہیں ہوا۔ مزید برآں، یہ صورتحال بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے اصول کی لاچاری، اور ایک بدلتے ہوئے ورلڈ آرڈر کو مزید واضح اور نمایاں کرتی ہے۔

بین الاقوامی قانون کا اضمحلال

ہم آج اپنے سامنے بین الاقوامی قانون اور مغربی جمہوری معیارات کے ٹوٹنے، بکھرنے اور کھوکھلے پن کے سبب ڈھیر ہو جانے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جنیوا اور ویانا کنونشن کی طرز کے معاہدوں کی بنیاد ہی اس تصور پر قائم ہوئی تھی کہ ریاستوں کو ہر حال میں مجموعی فلاح کے حصول کی خاطر ان اصول و قواعد کی پابندی کرنا ہو گی۔ ان معاہدات کے سبب ریاستوں کے مابین اعتماد کا بنیادی رشتہ استوار ہوتا تھا ۔

لیکن اگر ریاستیں ان اصولوں کو خیر باد کہہ کر ان بنیادی قواعد کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو اس سے دیگر ریاستوں کو بھی ایسا ہی تعامل کرنے کی جرأت ملتی ہے۔ اسرائیل نے شام میں موجود ایرانی سفارت خانے پر بمباری کی، جو کہ ویانا کنونشن کی صریح خلاف ورزی تھی، چند ہی دنوں بعد میکسیکو نے ایک سیاستدان کو گرفتار کرنے کی خاطر ایکواڈور کے سفارتخانے پر حملہ کر دیا، جو اپنی جگہ ایک ناقابلِ قبول خلاف ورزی تھی۔اگر اس قسم کی خلاف ورزیاں معمول کا حصّہ بن جاتی ہیں اور ریاستیں عالمی ملامت و مذمت کے باوجود بلا خوف و خطر قوانین کی خلاف ورزیاں جاری رکھتی ہیں تو جلد ہی بین الاقوامی برادری ان قوانین کی پروا کرنا چھوڑ دے گی۔

مصر و شام جیسے علاقوں میں ہم اسی امر کا مشاہدہ کر رہے ہیں جہاں بشار اور سیسی جیسے جبار آمروں نے کسی بھی قسم کے محاسبے و سزا سے بے فکر ہو کر بے شمار مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ ان میں سے ایک کو امریکی حمایت حاصل تھی تو دوسرے کو ایران و روس کی۔ لیکن اب یہ رجحان عالمی سطح پر عام ہو جائے گا اور مضبوط و طاقتور ریاستیں ان نام نہاد بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کیا کریں گی۔

اور ہم تو سالوں سے یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ قوانین تو روزِ اوّل سے ایک مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، مگر اب بالآخر پوری دنیا کے لیے یہ حقیقت ظاہر و باہر ہو چکی ہے۔

نسل کشی میں مغربی شراکت داری

عین اس دوپہر کہ جب بین الاقوامی عدالت برائے انصاف نے اسرائیل کے خلاف دائر نسل کشی کے مقدمے میں اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا، اسرائیل نے انروا ( UNRWA: اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے امداد و اعانتِ فلسطین) پر بنا کسی ٹھوس بنیاد یا شواہد پیش کیے، حماس کے ساتھ تعاون و شراکت کا الزام عائد کیا، جس کے سبب اکثر مغربی ممالک نے یکایک انروا کی فنڈنگ بند کر دی، اور نتیجتاً غزہ میں عملی طور پرقحط و فاقہ زدگی کی پالیسی کا نفاذ ہو گیا۔متعدد ممالک میں یوں یک دم اس فیصلے کا نفاذ واضح طور پر اس اقدام کے سوچے سمجھے اور ایک مربوط و منظم اقدام ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ انروا کی فنڈنگ قطع کرنے کا فیصلہ محض چند گھنٹوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی ملک میں ایسے فیصلے کے نفوذ کے لیے مختلف اداروں ، وزارتوں اور حکومتی نظاموں سے گزرتے ہوئے ایسے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کم از کم بھی ہفتے بھر کا وقت درکار ہے۔ مغربی ممالک غزہ میں اس نسل کشی کی تیاری اگر سالہا سال نہیں، تو مہینوں سے کر رہے تھے۔

غزہ نے مغرب کی نسلی عصبیت کو واضح کر دیا ہے۔ اگر اس قسم کے مظالم یورپی باشندوں پر ڈھائے جاتے تو ان کا جواب اور رد عمل بے حد مختلف ہوتا۔ مگر چونکہ اس سب ظلم و ستم کا نشانہ مسلمان اور بالخصوص غیر مغربی مسلمان ہیں، اس لیے مغرب کو ان کی کوئی پروا نہیں ۔ پرو اتو دور کی بات، بلکہ وہ درحقیقت اس نسل کشی کے لیے سہولت کاری کر کے خود بھی اس میں حصّہ دار ہیں۔

اسرائیلی جرائم میں ان کی یہ شراکت داری ، جس کے اسباب میں ایک معلوم حصّہ ان کی نسلی عصبیت کا بھی ہے، ہر قانونی تعریف پر پورا اترتی ہےاور انہیں تمام اسرائیلی جرائم میں برابر کا حصّہ دار اور شریکِ جرم ٹھہراتی ہے، ان جرائم کے ارتکاب سے پہلے، ان کے دوران اور ان کے بعد بھی۔

حقوقِ انسانی کا دھوکہ

حقوقِ انسانی درحقیقت مغربی غلبہ برقرار رکھنے کا ایک ذ ریعہ اور آلہ ہیں۔ غزہ نے مغرب کے اس دھوکے کا پردہ بھی چاک کر دیا اور حقوقِ انسانی اور بین الاقوامی قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے کھوکھلے مغربی دعووں کی حقیقت کو سب پر عیاں کر دیا۔تقریباً ایک صدی یا اس سے زائد تک مغرب پوری دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کو حقوقِ انسانی اور حقوقِ نِسواں پر درس دیتا رہا، مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی سیاسی طبقہ اسرائیل کی ہر حرکت اور ہر جرم کا دفاع کرتا ہے۔ اسرائیلی قوم و معاشرے کا رویّہ آج جانوروں سے بدتر ہے، مگر امریکہ ان کے اس رویّے کے دفاع میں توجیہات گھڑنے میں مصروف ہے۔

آج امریکی زبانیں کھلے عام اور بے باکانہ ننھے بچوں کو بھوک و پیاس سے دوچار کرنے، نسل کشی پر مبنی بیانات دینے، اقوامِ متحدہ کے لیے کام کرنے والے افراد پر تشدد کرنے اور رہائشی علاقوں پر بمباری کرنے کے حق میں جواز دیتی اور تائید کرتی سنی جا سکتی ہیں۔ یہ وہ نا قابلِ تصور مظالم ہیں جن کا مرتکب اسرائیل کے سوا کوئی دوسرا اور جن کا ہدف مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو وہ لازماً ان کی مذمت میں سب سے آگے ہوتے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں درحقیقت کسی کے حقوق کی پروا نہیں ہے۔ یہ محض ایک کھوکھلا اور خالی بیانیہ ہے۔ وہ محض ان اقدار کی حمایت و ترویج کرتے ہیں جو ان کے اپنے مفادات کے لیے مفید ہوں۔ اور جب کبھی یہی اقدار ان کے مفادات سے ٹکرانے لگیں تو وہ انہیں پسِ پشت پھینکنے سے قطعاً نہیں شرماتے۔ اگر اقدار(کا لحاظ اور ان کے مطابق عمل) بھی مشروط ہوں ، تو فی الواقع وہ وجود نہیں رکھتے، بلکہ بعض ایسے حقائق پر شاہد ہوتے ہیں جو عموماً بیان نہیں کیےجاتے۔ اور سب سےپہلا اور بنیادی اصول جس پر مغرب کھڑا ہے وہ اپنا غلبہ اور سامراجیت بہر حال و صورت برقرار رکھنے کی حاجت ہے، چاہے اس حاجت کو پورا کرنے کی خاطر انہیں کسی قوم کو مستقلاً و دائماً نسل کشی سے ہی دوچار کیوں نہ کرنا پڑے۔

مغرب کو زندہ و متحرک رکھنے والی بنیادی قوّت اس کی عالمی درجہ بندی کے اعتبار سےسب سے اونچے درجے پر اپنا مرتبہ برقرار رکھنے کی خواہش ہے۔

جمہوریت کا کھوکھلا بت

ایک بار پھر غزہ نے فریبِ جمہوریت بھی سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ نسل کشی کے خلاف کھلے عام اور بڑے پیمانے پر عوامی مخالفت کے مظاہروں کے باجود ، تقریباً تمام مغربی ممالک کی حکومتیں اور بڑی اپوزیشن پارٹیاں اس کی حمایت کرتی ہیں۔ سیاسی طبقہ لوگوں کی خواہش و نظر کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اس کی تائید و توثیق کرتا ہے۔ اور نام نہاد جمہوریت اگر عوام کو کوئی اختیار عطا کرتی ہے تو وہ محض اتنا سا ہے کہ وہ نسل کشی کے حامی اور نیو کنزروٹیو صہیونیوں 1 کی فہرست میں سے کس کو پسند کرتے ہیں جو الیکٹوریٹس کے بجائے ارب پتی سرمایہ داروں کو جوابدہ، ان کے نمک خوار اور وفادارہیں۔

عوام اور عوامی رائے سے ان کی بے اعتنائی صاف نظر آتی ہے، اور وہ محض ان ارب پتیوں کی غلامی کرتے نظر آتے ہیں جو میڈیا اور اس کے بیانیے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ عوام کے نسل کشی کے خلاف واضح موقف کے لیے سیاسی طبقے کی حقارت اور ان کا ہر قسم کے محاسبے اور جوابدہی کے احساس سے عاری ہونا، جمہوریت کے کھوکھلے پن کا کافی و بیّن ثبوت ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عہدیدار انتہائی بے شرمی سے انہی جمہوری اصول و اقدار سے صرفِ نظر کرتے ہیں جنہیں وہ قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے دعویدار ہیں۔

امریکہ میں اسرائیلی لابی بے پناہ اختیار و طاقت کی حامل ہے، اور اس کا مکمل طور پر اظہار بھی ہوتا رہا ہے۔ ان کی یہ طاقت بنیادی طور پر انتخابی مہمات میں نمائندوں کو دی جانے والی ہزاروں، لاکھوں ڈالر پر مشتمل خطیر رقومات کا حاصل ہے، یعنی کوئی بھی ایک مناسب ومعقول قیمت پر ایک امریکی کانگریس مین یا سینیٹر کو خرید سکتا ہے، کیونکہ انہیں ہر ۲ سے ۶ سال کے عرصے میں نئے انتخابات کے لیے مہم چلانی پڑتی ہے۔

شکستہ و فرسودہ نظام

مغربی ورلڈ آرڈر ناکام ہو چکا ہے۔ آج مغرب میں لاتعداد عام افراد غزہ میں جاری نسل کشی کے حوالے سے بپھرے ہوئے ہیں، مگر اپنے ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعاون و حمایت میں اسلحہ، معلومات، فضائی سرویلنس، اور کمک بھیجنے سے روکنے کی مد میں کچھ بھی کرنے اور کسی بھی طرح اثر انداز ہونے سے قاصر ہیں۔ ان کے گلے سڑے اور بدبو دار سیاسی نظام انہیں کسی بھی قسم کا اختیار دینے سے قاصر ہیں، اور عوام اور سیاسی طبقے کے مابین موجود رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔

ایک قوم کی حیثیت سے ان کے پاس اس نسل کشی کو روکنے کا کوئی ذریعہ یا وسیلہ نہیں۔ جو بذاتِ خود ان کے خود اپنی زندگیوں کے حوالے سے قطعاً بے اختیار ہونے کی بھی علامت و دلیل ہے۔ وہ امیر و غریب کے درمیان ہر لحظہ بڑھتے اور پھیلتے ہوئے فاصلے کو روکنے پر قادر نہیں، آج جبکہ دنیا اپنے اوّلین ٹریلینئیرز (first trillions) کی طرف بڑھ رہی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ سڑکوں پر سوتے ہیں ، بچے عسرت و تنگی میں پلتے ہیں اور تعلیمی نظام شکست و ریخت کا شکار ہیں۔

یہ عجز و ضعف ایک عمیق تر بے اختیاری کا مظہر ہے، ان قوتوں کے سامنے لاچاری کا مظہر ہے جو مغربی معاشروں اور مستقبل کی سازو ساخت میں مصروف ہیں۔ غزہ میں نسل کشی کی مہم جمہوریت کے ان عیوب اور معذوریوں کو ظاہر کرتی ہے جو ہمیں اپنے ہی معاشرے اور مستقبل کے لیے پالیسیاں بنانے اور ترجیحات طے کرنے کے عمل میں مانع ہیں، اور نتیجتاً ان کے بننے اور نافذ ہونے کے عمل کو متاثر کرتی ہیں۔

ایک بدلتی دنیا

غزہ میں جاری اسرائیل کی نسل کشی مہم میں مغرب کی شراکت داری اور تعاون کے حق میں، کوئی عذر یا جواز گھڑا نہیں جا سکتا نہ ہی اس کی کوئی تاویل کی جا سکتی ہے۔ کم از کم بھی دنیا کی دو تہائی اکثریت اس عریاں حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔

مغرب کی استعماری تاریخ اور اس کے نسلی تعصب سے بھرپور رویّوں سے جو غرور وتکبر اور گھمنڈ منسوب کیا جاتا ہے، اس کی ایک وجہ ان کا یہ یقین و اعتقاد بھی ہے کہ ان کے سوادیگر دنیا کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مگر آج کی’دیگر دنیا‘ ، چالیس پچاس سال قبل کی دنیا سے بے حد مختلف ہے۔ آج چین کی معیشت دنیا کی سب سےبڑی معیشت ہے، اور محض ’برکس(BRICS)‘ کے شرکاء ہی کل انسانیت کا ۶۰ـ۶۵ فیصد حصّہ ہیں۔ چین، روس، انڈیا، انڈونیشیا، برازیل اور جنوبی امریکہ کے اکثر علاقوں میں ایسی قابلِ قدر آبادیاں ڈھونڈنا مشکل ہے جو غزہ یا یوکرین پر ہی مغربی نکتۂ نظر کی حامل یا حامی ہوں۔

گزشتہ دو یا تین صدیوں سے اہالیانِ یورپ نے اپنے بیانیے اور دنیا کے بارے میں اپنے نکتۂ نظر کو از خودہی سب سے مناسب ، موزوں و معقول ترین توجیہ فرض کر رکھا تھا۔ ان کا یہ قیاس تھا کہ ہر اس شخص کو جو ان کے نکتۂ نظر سے اتفاق نہیں رکھتا، محض (حالات و واقعات سے اچھی طرح باخبر ہو کر) دنیا کے برابر آنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ مغرب کی (تصور شدہ) مہربانی کی قدر کر سکے۔ ہر نسل کی کوشش ہوتی کہ سراسر طاقت و قوّت کے بل بوتے پر اپنے تصوّرِ جہاں کو دوسروں کے حلق سے نیچے اتارے۔ جو کوئی اس کےخلاف مزاحمت کرتا، اسے عموماً ختم کر دیا جاتا، جیسا کہ یورپ کی پچھلی پنج صد سالہ تاریخ سے ظاہر کہ جس کے دوران انہوں نے تین مکمل براعظموں کی مقامی آبادی کو تہہ تیغ کر دیا۔فلسطینیوں پر جاری حالیہ ظلم و ستم اسی قسم کے نتائج کے حصول کی ایک اور کاوش ہے، لیکن یہ غالباً ایسی آخری کوشش ثابت ہو گی۔

کیونکہ یہ حکمتِ عملی اپنی تاثیر کھو چکی ہے۔ مغرب مزید اپنا نکتۂ نظر ایک عالمگیر حقیقت کی حیثیت سے پوری دنیا پر مسلط نہیں کر سکتا ۔ یہ گھمنڈ کہ ’باقی دنیا‘ کو مغربی ’حکمت‘ سمجھنی اور ماننی ہی ہو گی، ایک فرسودہ استعماری ذہنیت ہے جو آج کی دنیا، جسے ہم بچشمِ سر دیکھتے ہیں، سے میل نہیں کھاتی۔ غزہ میں جاری نسل کشی مہم نے انسانیت کی اکثریت کے لیے اس قدیم تکبر کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ نفوسِ انسانی پر مشتمل بڑی بڑی آبادیاں اب مغربی بیانیے سے اتفاق نہیں رکھتیں جس سے عالمگیر اقدار اور حقوقِ انسانی جیسے اصولوں کی آفاقیت کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔

نتیجہ

غزہ کے معاملے پر مغرب کا حالیہ کردار ایک تاریخی تبدیلی کا مظہر ہے۔ یہ ان اصولوں کے کھوکھلےپن کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے جن کو مغرب نے ایک طویل عرصہ آفاقی اور عالمگیر قرار دیے رکھا…… یعنی حقوقِ انسانی، بین الاقوامی قانون، اور محاسبہ و جوابدہی جیسی جمہوری اقدار۔دنیا کی اکثریت کے لیے غزہ نے اس امر کی تصدیق کردی ہے کہ مغربی بیانیہ کبھی بھی پوری دنیا پر ایک دائمی تسلط برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا جانے والے ایک بہانے سے بڑھ کر کچھ نہ تھا۔ اور جیسے جیسے دنیا کے سٹیج پر اختیار و اقتدار کی حامل نئی قوّتیں ابھر رہی ہیں، مغرب کے لیے اپنے بیانیوں کو آفاقی و قطعی سچائیوں کے طور پر دنیا پر مسلط کرنا ممکن نہیں رہا۔ غزہ میں نظر آتے حقائق، اکثر ممالک کے لیے مغربی اخلاقی بالادستی کے دعووں کی حقیقت ظاہر کرتے ہیں، اور ایک ایسے ورلڈ آرڈر کی شکل واضح نظر آنے لگتی ہے، جو جن اصول و اقدار کا داعی ومبلغ ہے، انہی کی اساسی خلاف ورزی کا مرتکب بھی ہے۔

بہرکیف ، یہ رو بہ انقلاب ورلڈ آرڈر جہاں بہت سی چیزوں کے درہم برہم ہونے کا سبب ہے، وہیں اس میں بہت سے مواقع بھی پنہاں ہے۔ انتشار ایک سیڑھی کا کام بھی دے سکتا ہے۔اب یہ مجموعی طور پر امّتِ مسلمہ اور بالخصوص مجاہدین کا کام ہے کہ وہ اس تاریخی اور انتہائی اہم و نازک موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم پچھلی غلطیوں سے بچیں، مؤثر تدابیر اپنائیں اور غلبہ و سلطہ پر مبنی نظریات کی ذہنی قید سے چھٹکارا حاصل کریں۔ تغیّر و انقلاب دنیا کے نقشے میں اسلامی زمینیں اور علاقے تراشنے کا موقع و امکان فراہم کرتا ہے، بشرطیکہ ہم اس موقع سے کما حقہ فائد ہ اٹھائیں اور اس کے مطابق تدبیر کریں۔ اگرچہ یہ وقت پرآشوب ہے، لیکن یہ ایک نئی دنیا کی پیدائش کا درد و الم ہے۔ میں اپنی بات کا اختتام قاری کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی کے ان وعدوں کی یاد دہانی کے ساتھ کرتا ہوں، جس ربّ العالمین نے فرمایا:

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ (سورة المجادلة: 21)

اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب آئیں گے۔ یقین رکھو کہ اللہ بڑا قوت والا، بڑے اقتدار والا ہے۔

فَلْيُقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يَشْرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَةِ ۭوَمَنْ يُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيُقْتَلْ اَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا (سورة النساء: 74)

لہٰذا اللہ کے راستے میں وہ لوگ لڑیں جو دنیوی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ دیں۔ اور جو اللہ کے راستے میں لڑے گا، پھر چاہے قتل ہوجائے یا غالب آجائے، (ہر صورت میں) ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے۔

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَئْاً وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ؀ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ

تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہونگے۔ اور نماز قائم کرو، اور زکوۃ ادا کرو، اور رسول کی فرماں برداری کرو، تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔

وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ

اور یہ وعدہ اللہ نے کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لیے کیا کہ وہ خوشخبری بنے اور تاکہ تمہارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو، ورنہ مدد کسی اور کے پاس سے نہیں، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے۔ یقینا اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔

٭٭٭٭٭


1 neocons: Neoconservatives طاقت کے زور پر اپنی رائے یعنی جمہوریت و دیگر اقدار کو نافذ کرنے کے حامی افراد جو مخاصمت و مداخلت پر مبنی خارجہ پالیسی کی حمایت کرتے ہیں اور سیاست میں قدامت پرست نظریات کی تائید کرتے ہیں ۔

Previous Post

کیا مغربی فکر و اداروں کی اسلامائزیشن ممکن ہے؟ | حصہ سوم

Next Post

جہادِ کشمیر کے متعلق القاعدہ برِّ صغیر کا پالیسی موقف

Related Posts

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل
طوفان الأقصی

اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل

13 اگست 2025
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

12 اگست 2025
Next Post

جہادِ کشمیر کے متعلق القاعدہ برِّ صغیر کا پالیسی موقف

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version