اہلِ اسلامائزیشن کی ایک دلیل یہ ہے کہ دین کو عصری سماج اور معاصر ذہن کے لیے قابل ِ قبول بنانے کے لیے مغربی اصطلاحات اور ان کے دیے گئے ’’نظامِ اسماء‘‘ کو قبول کرنا ضروری ہے۔حالاں کہ قرآن نے اہلِ کفر کے بارے میں واضح بتلایا ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصام وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيها وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ (سورۃ البقرۃ:۲۰۵)
’’لوگوں میں سے ایسا ہے جس کی بات دنیوی زندگی کے اعتبار آپ کو بہت متاثر کن لگتی ہے اوروہ اپنے مافی الضمیر پر اللہ کو گواہ بنا بھی بناتا ہے ۔ حالاں کہ وہ مخالفت میں نہایت شدید ہے۔اور یہ جب وہاں سے ہٹتا ہے تو اس کی سعی زمین فساد برپا کرنے اور کھیتیاں اور نسلیں اجاڑنے کی ہوتی ہے ۔‘‘
قرآن کی روشنی میں مغربی اصطلاحات يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا کے سوا کچھ نہیں۔
مغربی اصطلاحات قرآن کے مطابق ایک ’’نظام ِاسماء‘‘ ہے جو خواہشوں اور گمانوں کی گرم بازاری ہے ۔قرآن نے اہل ِ کفر کے باطل ناموں کے بارے میں فرمایا:
إِنْ هِيَ إِلاَّ أَسْماءٌ سَمَّيْتُمُوها أَنْتُمْ وَآباؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِها مِنْ سُلْطانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَما تَهْوَى الْأَنْفُسُ (سورۃ النجم:۲۳)
’’یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے بڑوں نے رکھ لیے ہیں۔اللہ نے ان کےحق میں کوئی دلیل نہیں اتاری۔ یہ گمانات اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں۔ ‘‘
اسی طرح اہل ِ کفر کے اصطلاحی اقوال کے ظاہر و اندرون کے بارے میں فرمایا:
يَقُولُونَ بِأَفْواهِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما يَكْتُمُونَ (سورۃ آلِ عمران: ۱۶۷)
’’وہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتا ۔اللہ اس کو بہترین جانتا ہے جو وہ (اپنے ان خو بصورت اقوال کے پیچھے )چھپاتے ہیں۔‘‘
قرآن نے کفار کی اصطلاحات کو’’ اسلامی تناظر‘‘ میں بیان کرنے سے اس درجہ احتیاط کا حکم دیا کہ قرآن نے صحابہ کو کہا:
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقُولُوا راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا وَاسْمَعُوا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ أَلِيمٌ(سورۃ البقرۃ:۱۰۴)
’’اے ایمان والو ’راعنا‘ نہ کہو اور ’انظرنا‘ کہو ۔ اس حکم کو غور سے سن لو ۔ کافروں کے لیے تو الم ناک عذاب ہے۔‘‘
یہود کی اصطلاح ’’راعنا‘‘ کو اختیار کرنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روک دیا گیا حالاں کہ ان سے کسی غلط مفہوم لینے کا کوئی امکان نہ تھا۔
عربی زبان میں ’’راعنا‘‘ لفظ میں غلط معنی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود د یہود کے غلط مفہوم کے پیش نظر اس درست لفظ کو استعمال سے روک دیا گیا۔
یہود کی اصطلاح سے ہٹ کر بالکل مختلف لفظ استعمال کرنے کا حکم دیا گیا۔
’’مغربی یا عصری ذہن کے لیے دین کو قابل قبول بنانے کے لیے انہی کی زبان کو استعمال کرنا ضروری ہے ‘‘کے دعویٰ کی معقولیت جاننے کے لیے درج ذیل سوالوں کا جواب تلاشنا ضروری ہے ۔
۱) کیا حق اور دین کے ابلاغ و افہام کے لیے اہلِ باطل کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ تمہارے اور ہمارے درمیان کوئی دوری اوربڑا فرق نہیں ؟
جدید مذہبی طبقے کا شعوری یا لاشعوری اصولِ دعوت یہ ہے کہ اہل کفر کو یقین دلایا جائے کہ ہمارے تمہارے درمیان کوئی ایسا جوہری فرق نہیں کہ ہم تم، ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں ۔ حالاں کہ اگر معمولی فرق ہوتا تو دعوت دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ عقیدہ ٔ توحید کا جوہری فرق ہے تو قرآن نے نصاریٰ کے ثالث ثلاثہ اور یہود کے عزیر ابن اللہ کے عقیدوں کو شرک کہا۔اب بھلا ان تینوں مذاہب میں توحید کیسے مشترک ہوگئی ؟ قرآن نے کہا تمہارا دعویٰ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اپنے دعوے پر عمل کرو اور آؤ ہم سب ایک اللہ کی عبادت کرتے اور ہم شرک نہیں کرتے ، اس میں یہود و نصاریٰ سے توحید میں اشتراک کیسے ثابت ہوا؟ جب ان کے پاس توحید موجود ہے توقرآن نے دعوت ِ توحید و ترک ِشرک کیوں دی ؟
کفر و اسلام اور حق و باطل میں’’ مشترکات ‘‘نہیں ہوتے کہ ثابت کیا جائے کہ کفر و اسلام میں جوہری فرق نہیں ۔
۲) مغربی یا معاصر جدید ذہن کی زبان میں بات کرنے کا مطلب دین کی تعبیرو تشکیل ِ نو ہے یا دین کو پیش کرنے کا اسلوبِ نو ؟
اگر جدید مغربی ذہن کے لیے دین کو قابل ِ قبول بنانے کے لیے دین کی تعبیرو تشکیلِ نو ضروری ہے تو اس کا معیار کیا ہوگا؟ یہی کہ مغربی ذہن کے مطابق دین کی ایسی تعبیرو تشکیل کی جائے جو جدید ذہن فوراًمان لے؟ گویا کوئی آئیڈیل یا اعتقاد اپنی ذات میں حق یا درست نہیں بل کہ دوسرے کے مان لینے سے اس کی حقانیت ثابت ہوگی؟ سرسید احمد خان کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے تعبیر و تشکیل ِ نو کی ؟ کیا ان کی اس کوشش سے ان کے علی گڑھ کالج میں موجود نصرانی اساتذہ یا اس وقت کے انگریز صاحبانِ اقتدار نے اسلام کو دینِ حق مان لیا؟ کتنے لوگ ان کی اس تعبیرِ نو سے آغوشِ اسلام میں داخل ہوگئے ؟ ہم تو روایتی دینی تعبیر کے مطابق مسلمان ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں دکھا سکتے ہیں!
مثلاً معجزات کی تعبیرِ نو سرسید کی یہ ہے کہ معجزات کو عمومی واقعات کی طرح ثابت کیا جائے۔لہٰذا مسیح ؑکی پیدائش بغیر والد کے نہیں۔ مسیحؑ کا بچپن میں کلام کرنا اس عمر میں تھا جس میں بچے بول سکتے وغیرہ ۔اگر اس کا نام تعبیرِ نو ہے تو انکار یا تحریف کسے کہتے ہیں؟ معجزات کی تعبیر نو کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معجزات اصل میں اسباب کے تحت ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ بس معجزات کے پیچھے جو اسباب ِ طبعی ہوتے ہیں وہ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ آگ نے ابراہیم ؑ کو نہیں جلایا تو دراصل ابراہیمؑ کو آگ سے بچانے کے خفیہ اسباب کیے گئے گو بہ ظاہر سب کو یہ لگا کہ آپ کو آگ نہیں جلایا۔
اس تعبیر سے معجزے کی حقیقت کیا ہوئی ؟ یہی کہ کوئی مادی و طبعی سبب سے کام ہوا بس پیغمبر نے پوشیدہ رکھا۔ اور اس کو اللہ سے منسوب کردیا۔
اسلوب ِ نو کا مطلب جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم اندازِ بیان اور طرزِ استدلال ہے ۔ جیسے شاہ ولی اللہؒ اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں شرعی احکام کی عقلی مصلحتیں بیان کرتے ہیں ۔مولانا اشرف علی تھانویؒ اپنی تصانیف میں حقائق شرعیہ کی توضیح میں حسیّ تمثیلات بیان کرتے ہیں ۔
۳)ماضی میں اس وقت کے ’’عقلی ذہن ‘‘کے مطابق دین کو پیش کرنے کی کوششوں میں سےالکندی ، فارابی ، ابن سینا کی مساعی کے نتیجے میں جوکچھ پیش کیا گیا ،کیاوہ ’’دین ‘‘ ہی تھا ؟
آج مغربی غلبہ ہے تو مغربی علمیات کے مطابق اسلام کو پیش کرنا ، دین کی خدمت اور دین کی حقیقی تصویر پیش کرنا ہے۔ کل’’ یونانی عقلیات ‘‘ کا غلبہ تھا تو دینی عقائد و اعمال کو یونانی عقلیات سے ہم آہنگ کرنا ، دین کی صحیح تصویر پیش کرنا تھا۔سوال یہ ہے کندی،فارابی و ابن سینا نے وحی کی جو تعبیر ’’عقل فعال‘‘ سے کی تو کیا اس سے وحی ثابت ہوگئی ؟ جو انہوں نے دینِ اسلام پیش کیا ،اسے واقعی دین کہا بھی جاسکتا؟
۴) کیا ’’اسلامی اجتماعیت‘‘ اور ’’جدید مغربی ادارتی اور نظامی اجتماعیت‘‘ (Institutionalization & Systemization) اپنے اصول و اساس میں ایک ہیں ؟ کیوں کہ اہل ِاسلامائزیشن مغربی طرز کی ادارتی اور نظامی اجتماعیت کو اسلام کی اعتقادی وحدت اور عبادات کی فطری اجتماعیت کے متوازی قرار دے کرمغرب کی جدید اجتماعیتوں کو دینی اعتبار سے قابل ِ قبول سمجھتے ہیں۔
اسلام فطری معاشروں کا قائل ہے ۔فطری معاشروں میں قائم ہونے والا نظمِ زندگی ہر فرد کو اس کی صلاحیت کے مطابق آنے کا موقع دیتا ہے ۔
دین ، کوئی ادارہ نہیں اور نہ جدید طرز کی bureaucratic اور hierarchical تنظیم سازی کرتا ہے ۔جدید طرز کی ادارتی صف بندی بالکل خالص مغربی علمی اساسیات پر قائم ہے ، اس کو مسجد میں نماز واذان اور باجماعت نماز کی ’’اجتماعیت ‘‘ کے متوازی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس لیے سیاسی ادارے ریاست،ایوان بالا، ایوان زیریں ہوں یا بینک ، فنانشل ادارے وغیرہ ، کی اسلامائزیشن تو بعد کا معاملہ ہے ،پہلے تو اسلامی علمیات کی روشنی میں اس جدید طرزِ اجتماعیت کا جواز ثابت کرنا ضروری ہے ۔یہ بہت طویل علمی بحث ہے یہاں سارے دلائل ممکن نہیں ۔ مغرب نےیہ سب بگڑی ہوئی عیسائیت سے ہی ادھار لیا ہے ۔ عیسائیت میں clergy ایک بیوروکریسی طرز کی تنظیم ہے ۔ ڈیکن ،پریسٹ ، بشپ، آرک بشپ ، کارڈنیل،پوپ کی مذہبی رینکنگ سے جدید مغرب نے Institutionalization سیکھی۔ دین ِ اسلام ’’فرد‘‘ کی ذمہ داری کے اصول پر کھڑا ہے ۔ جب کہ جدید مغرب ’’ادارے‘‘ کی اساس پر کھڑا ہے ۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
[محترم ڈاکٹر صاحب کی یہ تحریر انٹرنیٹ پر ایک صفحے سے مستعار لی گئی ہے۔ مستعار مضامین کو مجلّے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیا جاتا ہے (ادارہ)]
٭٭٭٭٭