رمضان کا آغاز ہوتے ہی حرمین شریفین میں نور کا ساماں ہوجاتا ہے۔دور دراز کے ملکوں سے آنے والے زائرین کی رونق سے اللہ کے گھر میں خوبصورت سماں ہوتا ہے ۔رحمتوں کے موسم میں اللہ کے گھر کے گرد طواف کرتے، لبیک اللھم لبیک کا ورد کرتے عشاق کے مناظر، ہر صاحب ایمان کا دل گرماتے ہیں۔ اللہ کا وہ گھر، جہاں سے کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹتا، جہاں جاکر شاہ و گدا ایک ہو جاتے ہیں، جہاں کی فضا ایسی مسحور کن اور سکینت بھری ہوتی ہے کہ ایک بار جو مسلمان وہاں چلا جائے اس کا وہاں سے واپس آنے کو جی ہی نہیں کرتا۔
حرم کے صحن میں کعبے کا طواف کرتا ہر چہرہ چمکتا محسوس ہوتا ہے۔اور وہ کیوں نہ چمکے، وہاں موجود کتنے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پوری زندگی ایک ایک پائی جمع کرکے اس در تک پہنچ پاتے ہیں، کتنے ہی ایسے جوان ہوں گے جو اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچنے کی خواہش کو تکمیل ہوتا آخر بڑھاپے کی سفید داڑھی اور جھریوں زدہ چہرہ لیے دیکھ پاتے ہیں۔اللہ کا وہ گھر جس کی بنیادیں ہم سب کے والد آدمؑ نے ڈالیں، جس کو دوبارہ اللہ کے خلیل اور ذبیح اللہ نے تعمیر کیا۔ یہ ایسی بابرکت زمین ہے جہاں پر عظیمتوں کی عظیم الشان داستانیں رقم ہوئیں، جہاں ہاجرہ اور اسماعیل اکیلے دشت و بیاباں میں اللہ کے سہارے پر رہ گئے، جہاں چاہ زمزم اسماعیل کے پاؤں مارنے کے سبب باذن اللہ پھوٹ پڑا تھا۔ اورسب سے بڑھ کر، وہ جو ہمارے رسولﷺ کی جائے پیدائش ہے۔جہاں پر محمد عربیﷺ کا بچپن گزرا ہے۔جہاں پر ان کا لڑکپن گزرا ہے۔جس کی گلیوں میں آپﷺ بچپن میں کھیلے ہیں۔ جہاں پر اللہ کا آخری پیغام پہلی بار روح القدس غار حرا میں نبی الامینﷺ کے پاس لے کر آئے۔ جہاں ہمارے رسول ﷺ اور ہمارے پیارے صحابہ ؓ پر حق پر چلنے کی پاداش میں مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ۔یہ وہ گلیاں ہیں جہاں بلال حبشی کی احد احد کی پکار کی گونج آج بھی سنائی دیتی محسوس ہوتی ہے۔
اللہ کے گھر جو جائے……یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ مسجد النبیﷺ کی زیارت کو نہ جائے۔محمد عربیﷺ کی مسجد کی طرف بھی رمضان کے مہینے میں عاشقین رحمت دو جہاں کثیر تعداد میں دیوانہ وار پہنچنے لگتے ہیں۔ مدینہ سے مسلمانوں کو ایسا عجیب لگاؤ ہے کہ اپنے اپنے ملکوں میں بیٹھے…… مدینہ سے میلوں دور …… مدینہ کے عقیدت مند جب لہک لہک کر اس کی شان کے قصیدے پڑھتے ہیں تو بے اختیار آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔اور مدینہ کی شان کیوں نرالی نہ ہو!……یہ تو ہمارے رسولﷺ کی جائے ہجرت ہے۔یہیں پہ بدر و احد کے معرکے سجے ہیں۔یہیں انصار و مہاجرین کی نشانیاں ثبت ہیں۔یہاں اس امت کی پہلی اسلامی حکومت قائم کی گئی ہے۔یہاں سے امت کے عروج کی بنیاد پڑی ہے……یہیں ہمارے نبی کے دن اور راتیں گزری ہیں……یہاں ہی نبی الملاحم نے ﷺ جہاد کے لشکروں کی سپہ سالاری کی۔یہیں سے جہاد کے لیے لشکر روانہ کیے گئے ہیں۔اسی مسجد کے منبر پر رسول الامینﷺ نے خطبے دیے ہیں۔یہیں بلال حبشی کی اذانیں گونجا کرتی تھیں، یہیں ہمارے رسول اکرم ﷺ کی وفات ہوئی، یہیں پہ ہمارے پاک پیغمبر ﷺمدفون ہیں! یہیں ابو بکر ؓ و عمر ؓ کی خلافتوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔ یہیں سے روم و فارس کو فتح کرنے والے قافلے نکلا کرتے تھے۔یہیں قیصر و کسریٰ کے محلوں کے قیمتی ہیرے جواہرات غنیمت کے سامان میں لاکر امیر المومنین کے قدموں میں ڈالے جاتے تھے۔
شائقین و طلبگاروں کی یہاں بھیڑ کیوں نہ ہو۔مکہ اور مدینہ کی زیارت دنیا میں پائے جانے والے ہر مسلمان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔حرم مکی و مدنی میں جب دور دور سے آئے مسلمان نظر آتے ہیں تو دل کی بڑی عجیب حالت ہوتی ہے۔دنیا کا کوئی ایسا کونہ نہ ہوگا جہاں کا مسلمان حرمین شریفین کے دیدار کو نہ آیا ہوا ہو۔روس کی برف پوش بستیاں ہوں یا افریقہ کے جنگلات کے درمیان گھری جھونپڑیاں، امریکہ کے گورے باشندے ہوں یا ہندوستان کے گندم گوں باشندے۔ یمن کے عرب ہوں یا ترکی کے عجم…… ہر طرح کے رنگ و نسل کے لوگ وہاں ایک ہی رب اور ایک ہی قبلے کی جانب رخ کیے عبادت میں مشغول نظر آتے ہیں۔اللہ کا ہر بندہ اپنے خالق کے سامنے جھکا، گریہ و زاری میں مصروف، کعبے کے غلافوں سے لپٹ لپٹ کر معافی کی درخواستیں کرتا اور عجز و انکساری سے اپنے مالک کے حضور التجائیں کرتا نظر آتا ہے!
آگے بڑھنے سے پہلے،ایک لمحہ یہیں ٹھہر کر سوچیں!
اللہ کے گھر کے شیدائیوں اور حب نبی ﷺ کے پروانوں نے مکہ اور مدینہ کی ایمان افروز فضا سے بامشرف ہوتے ہوئے کبھی یہ سوچا ہے کہ، اسی دنیا کے تیسرے سب سے مقدس مقام میں کتنے رمضان بالکل خاموشی اور خوف کی حالت میں آکر گزر جاتے ہیں اور ہم میں سے کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ اللہ کے نبیوں کی سرزمین، وہ بابرکت زمین جس کا ذکر اللہ نے سورۃ الاسراء میں کیا ہے، حرمِ ثالث میں ان گنت رمضان خوف و دہشت اور افراتفری میں گزر جاتے ہیں، حضرت موسی کی زبان سے جس مقدس جگہ کی بشارت بنی اسرائیل کو ملی تھی، سیدنا عیسی کی جائے پیدائش، ہمارے رسولﷺ کی مقام اسراء و معراج، حضرت عمر کی میراث، جو اس دنیا کا پاکیزہ ترین مقام ہے مگر چاروں جانب سے ناپاک یہودیوں، بندروں اور خنزیروں کی اولادوں کے نجس اجسام کے گھیرے میں ہے۔
وہاں کے نمازی یقیناً اس دنیا کے سب سے خوش قسمت نمازی ہوں گے۔ وہاں کے باشندے دنیا کے بہترین لوگ ہوں گے، تب ہی تو اللہ نے ان پر مسجد اقصی کے دروازے کھول دیے ہیں جبکہ پوری دنیا کے مسلمان باشندے اس کی زیارت کے شرف سے محروم ہو چکے ہیں۔
۱۴۴۴ھ کے رمضان کا سورج بھی اسی افراتفری، خوف و ہراس کے درمیان طلوع ہوا تھا۔ مگر سلام ہو القدس اور فلسطین کے باشندوں کو جنہوں نے مسجد الاقصیٰ کی حفاظت کا حق ادا کیا۔ نہتے اورصرف ڈنڈوں سے لیس، جوان، بوڑھوں اور عورتوں نے اس کی حفاظت کے لیے سب کچھ سہا۔ سلام ہے ان استقامت کے پہاڑوں پر جو آتش و آہن کی بارش کے درمیان وہاں نمازیں ادا کرتے رہے۔ یہودیوں کے گستاخانہ اور ناپاک عزائم کے سامنے ایک دیوار بنے رہے۔ مسجد الاقصیٰ کے تقدس کو بچانے کو وہاں اعتکاف کرتے رہے۔
اور وہ یہ کام صرف ایک بار، دو بار یا سہ بار نہیں کرچکے، بلکہ دہائیوں سے وہ مسجد الاقصیٰ، حرمِ ثالث کی خاطر قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ گولہ بارود کی برسات ہو، یا گرفتاریاں، حصار ہوں یا گھروں کی بے آبادیاں، یہودیوں کی بدمعاشیوں کو سہنا ہو یا اپنے تقدسات کی پامالی،وہ اس سب کو سہنے کے باوجود مسجد الاقصی کی حفاظت کے لیے پچھلے ۷۰ سال سے زیادہ عرصے سے ڈٹے ہوئے ہیں۔
اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارے الفاظ اور نعرے ان کی جد و جہد کے سامنے بالکل کھوکھلے لگتے ہیں جبکہ وہ پوری امت کی جانب سے یہ فرض ادا کررہے ہیں۔
حماس کی جانب سے طوفان الاقصیٰ اور پھر اس کے بعداسرائیل کی جانب سے غزہ کی اٹھارہ سال سے چلی ناکہ بندی کے اوپر ایک اور ناکہ بندی بھی مسجد اقصیٰ کے دفاع میں اٹھنے والی ایک لہر ہے۔جس نے دنیا کے باقی مسلمانوں کو تو جہاں خوش کیا ہی ہے وہیں فلسطینی مسلمانوں میں بھی ایک نئی روح پھونک دی ہے۔اور کیوں نہ ہو، ان کو مسجد الاقصیٰ سے جتنی شدید محبت ہے، شاید ہی دنیا میں کسی دوسرے مسلمان کو ہو۔فلسطین میں اگر کسی ان پڑھ اور دنیا سے بالکل بے خبر شخص سے بھی پوچھ لیا جائے، چاہے وہ چھوٹا بچہ ہو یا سن رسیدہ بزرگ، کہ حرم ثالث کون سا ہے…… تو اس کے چہرے پر ایک عجیب سی چمک اور ہونٹوں پر مجذوبانہ مسکراہٹ تیر جاتی ہے اور بلا تاخیر اس کا جواب ’مسجد الاقصیٰ الشریف‘ ہی ہوتا ہے!
اور وہ اس کی خاطر’اپنی ہر وہ چیز جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار‘ بھی قربان کرنے کو تیار ہیں۔ حتی کہ غزہ کی اس بے نظیر وحشیانہ اور سفاکانہ بمباری میں بھی اپنے گھر کے ملبے کے ڈھیر پر کھڑے بھی ’صامدین! صامدین! ‘ کا نعرہ لگاتے نظر آرہے ہیں۔بھوک اور پیاس سے نڈھال، آنکھوں میں آنسو سجائے ہوئے ہیں مگر ’’بالروح بالدم نفدیک یا اقصی‘‘ کے نعرے لگارہے ہیں! چھوٹے چھوٹے بچوں کے ادھڑے ہوئے لاشے اٹھائے بے بسی سے چلارہے ہیں ’’ثابتین! ثابتین! …لن نستسلم ولا نغادر!‘‘
کیا ہم مسلمانوں نےکبھی سوچا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی خاطر قربانی دینا کیا صرف فلسطین کے مسلمانوں کا ہی فرض ہے؟ کیا یہ صرف غزہ کی بیس لاکھ آبادی پر ہی فرض ہے کہ وہ اسرائیل کا ہر ظلم صبر سے سہتے رہیں؟ یا فلسطین کی مغربی پٹی میں بسنے والے مسلمان ہی اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ وہ اقصیٰ کو یہودیوں کی ناپاک سازشوں سے بچانے کی خاطر کٹتے رہیں؟ کیا باقی کے ۲ ارب مسلمان صرف مظاہرے کر کے یا سوشل میڈیا پر فلسطینی مجاہدین کی تعریف کرکے اور ان کا حوصلہ بڑھا کر اس فرض سے بری ہوجاتے ہیں؟ فلسطین کے بھوکے پیاسے ثابت قدم عوام کو ہم پیٹ بھرے لوگ صبر کی تلقین کرتے کیا اللہ کے سامنے سرخرو ہوسکتے ہیں؟
کیا ہمارا رب ایک نہیں؟ کیا ہم سب کے نبیﷺ ایک نہیں؟ کیا ہمارا قبلہ ایک نہیں؟کیا مسلمان ایک امت نہیں؟
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایک لمحے کو تصور کیجیے!
آپ کے ہنستے بستے گھر پر ایک بم آکر گرتا اور اس گھر کے ملبے میں دفن ہونے والے غزہ کے مسلمان نہیں بلکہ آپ کے اپنے گھر والے ہیں……
ملبے کے نیچے سے زخمی حالت میں نکلنے والی آپ کی اپنی بہن ہے…… ہسپتال میں پہنچنے والے شہداء آپ کے شہداء ہیں…… وحشت زدہ نظروں سے چاروں طرف اپنی ماں کو تلاش کرتا بچہ آپ کا بچہ ہے!……
بے شک فلسطین میں موجود ہر مسلمان ہمارا ہی ہے…… ہم مسلمان ایک جسد کی مانند ہیں…… اگر ہمارے جسم کا کوئی عضو تکلیف میں مبتلا ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جسم کا دوسرا حصہ سکون سے ہو…… مگر یہ کیوں ہے کہ مسجد اقصیٰ کی خاطر فلسطین میں مسلمان کٹتے رہیں مگر ہم صرف ٹی وی پر خبریں دیکھ کر آنسو ہی بہاتے رہیں؟ یا سوشل میڈیا پرتبصرے کرتے رہیں…… ہم تو چاہتے ہیں کہ ہمیں خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہانہ پڑے اور پھر بھی ہمارا نام فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ لکھ دیا جائے……ہمیں کوئی قربانی نہ دینی پڑے مگر پھر بھی مسجد اقصیٰ کسی طرح آزاد ہوجائے۔
کیا صرف ہمارے یہ آنسو وہاں آگ اور بارود کی بارش کو بجھاسکتے ہیں؟ نہیں! جب تک ہم صرف آنسو بہانے پر اکتفا کریں گے، کچھ فائدہ نہ ہوگا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ مسجد اقصیٰ ایک بار پھر فتح ہوجائے گی، اور مسلمان اس میں دوبارہ نمازیں قائم کریں گے، اور اس کو آزاد کروانے کے لیے اس امت کے بیٹے اپنا خون پیش کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ بے شک کچھ عرصے کے لیے آزمائشیں آئیں گی، عزیمتوں کی داستانیں رقم ہوں گی، قربانیوں کی تاریخ لکھی جائے گی، مگر آخر کار فتح اللہ کے بندوں کو ہی ملے گی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر شجر اور پتھر بھی پکار پکار کر کہے گا کہ’اے عبداللہ! اس یہودی کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کردو!‘
یہ معرکہ جتنا بھی طویل ہوجائے آخر جیت حق کی ہی ہوگی،اللہ کے دین کو ہماری حاجت نہیں ہے، اگر ہم نہ اٹھے تو ہماری جگہ اللہ دوسروں کو اٹھادیں گے جن سے اللہ محبت رکھتا ہوگا اور جن کو اللہ یہ عظیم الشان شرف عطا کرنا چاہتا ہوگا۔ اس لیے ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہمیں بھی اس قافلے میں اپنا نام لکھوانا ہے کہ نہیں!
طوفان الاقصیٰ کے بعد کفار کی جانب سے آنے والے بیانات، ان کا غصے سے بپھر جانا اور جنگی تیاریوں کے ساتھ متکبرانہ زعم کہ ’ہم جیتیں گے کیوں کہ ہم ظاقتور ہیں‘ کو دیکھ کر بیس سال پہلے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ کا طرز عمل یاد آگیا۔امریکہ بھی اسی زعم میں مبتلا اللہ کے بندوں کو تباہ کرنے افغانستان میں داخل ہوا تھا۔کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر پورے افغانستان پر قابض ہوجائے گا۔ دنیا اس وقت بھی افغانستان کی مدد کرنے سے خوفزدہ تھی۔امریکہ سے ٹکر لینے سے گھبراتی تھی۔چند سر پھروں کو، جو امریکہ کا مقابلہ کرنے نکلے تھے، بے وقوف اور خیالی دنیاؤں کا باسی سمجھتی تھی۔ مگرآج بیس سال گزر جانے کے بعد دنیا کے سامنے حالات ہیں۔اور سب یہ جان گئے ہیں کہ:
اللہ کا عدہ سچا تھا…… اور ہمیشہ سچا رہے گا!
٭٭٭٭٭