صبح کی روشنی ابھی پوری طرح دنیا پر منعکس نہیں ہوئی تھی کہ اس کے کانوں میں مرغے کی اذان کی آواز کی بجائے جاسوسی طیارے کی آواز گونجی۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔
آسمان پر جاسوسی طیارہ گھوم رہا تھا۔
’یا اللہ ! یہ صبح صبح کس کےپیچھے آگیا ہے؟‘اس نے دل میں سوچا اور بستر سے باہر نکل آیا۔
فجر کا وقت داخل ہوچکا تھا اور مسجد کے باہر کھڑے مولوی صاحب کے اذان دینے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ان کے گاؤں کی مسجد میں لاؤڈ سپیکر تھا تو مگر وہ صرف دن میں سورج کی روشنی میں ہی چل سکتا تھا کیونکہ اس کو سولر پینل سے چارج شدہ بیٹری سے چلایا جاتا تھا ۔شام ہوتے ہی مولوی صاحب کو ہی اونچی آواز سے اذان دینا پڑتی تھی۔
’’مورے!‘‘اٹھتے ہی اس کو اپنی ماں کا خیال آیا تھا۔
وہ ماں کو ڈھونڈنے اس کے کمرے میں آگیا۔ماں کا بستر خالی تھا۔یعنی ماں اٹھ چکی تھی۔اس کی دونوں چھوٹی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی اس کے دوسری جانب رضائیوں میں گھسے گہری نیند سو رہے تھے۔
’’مورے ! کہاں ہو؟‘‘وہ ماں کو ڈھونڈتا صحن میں آگیا۔
’’مور روٹی پکانے والے کمرے میں ہیں! وہیں سے گرم پانی لے لو!‘‘اس کی بڑی بہن وضو کر کے کمرے میں ہی آرہی تھی۔
آج کل ٹھنڈ اتنی تھی کہ کمرے سے نکلنے کے تصور سے ہی ہول اٹھتے تھے۔وہ کمرے سے نکلا تو یخ بستہ صحرائی ہوا نے اس کا استقبال کیا۔ہڈیوں کے گودے کو بھی جما دینے والی برفیلی ہواؤں نے اس کے جسم پر کپکپی طاری کردی اور اس کے دانت زور سے بجنے لگے۔وہ جلدی سے روٹی پکانے والے کمرے کی طرف لپکا۔
’’مورے! گرم پانی دے دو! نماز کو دیر ہورہی ہے!‘‘وہ روٹی والے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
اس کی ماں مٹی کے اس کچے کمرے میں اس کے لیے گرم پانی کا بندوبست ہی تو کرنے گئی تھی۔اس نے تندور کے اندر پڑے لوہے کے دو کنستر نکالے اور ان میں سے اس کے لیے پانی نکالنے لگی۔رات میں جب ماں نے روٹی پکائی تھی تو انگاروں پر یہ لوہے کے کنستر بھی رکھ دیے تھے۔اب وہاں گرم پانی پڑا تھا۔
وہ باہربرآمدے میں ہی کھڑا تھا۔ اس کو یہاں سے اپنے بڑے بھائی کا کمرہ بہت واضح نظر آرہا تھا۔ اس کے بھائی کا کمرہ کچھ دنوں سے بالکل ویران ہوچکا تھا۔وہ ٹکٹکی باندھے اس کمرے کو دیکھتا رہا۔ کچھ یاد آنے پر اس کی آنکھیں ناچاہتے ہوئے بھی نم ہوگئیں۔
’’یہ لو، یہ گرم پانی ہے۔‘‘ ماں نے گرم پانی کا لوٹا اس کو تھماتے ہوئے بڑے غور سے اس کو دیکھا۔
اس نے بے ساختہ اپنا چہرہ جھکا لیا۔وہ جانتا تھا کہ ماں اس کی آنکھوں میں کیا ڈھونڈنا چاہتی تھی۔مگر اس لمحے وہ ماں کو اپنی آنکھوں میں جھانکنے نہ دینا چاہتا تھا۔
اس کی ماں اس کی آنکھوں کے تاثرات اچھی طرح پڑ ھ لیتی تھی اس لیے اس کو ڈر تھا کہ ابھی بھی وہ اس کے اندرونی احساسات کو جان جائے گی۔
وضو کرکے اس نے ایک پرانی سی جیکٹ پہنی اور گرم چادر اپنے جسم کے گرد لپیٹتا گھر سے باہر نکل آیا۔ نماز پڑھنے اپنے محلے کی مسجد کے پاس پہنچا تو محلے کے دیگر بزرگ اور جوان بھی مسجد کی طرف ہی رواں تھے۔ وہ بجتے دانتوں کے ساتھ مٹی کی کچی مسجد میں داخل ہوگیا۔ امام صاحب نماز کے لیے اقامت کہہ رہے تھے۔ وہ بھی جماعت کی صف میں شامل ہوگیا۔
’’مولوی صاحب! میں غصے کی آگ میں کھول رہا ہوں! میری سمجھ میں بالکل نہیں آتی کہ میں اس کے قاتلوں کا کیا کروں؟ ‘‘وہ بے تابی سے اپنے سامنے بیٹھے مولوی صاحب سے کہہ رہا تھا۔
جبکہ سفید کرتہ شلوار اور سر پر سفید عمامہ باندھے مولوی صاحب بہت سنجیدگی سے اس کو دیکھ رہے تھے۔
’’نثاراحمد ! تم آخر کیا چاہتے ہو؟‘‘ آخر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد انہوں نے پوچھا۔
’’میں اپنے بھائی کا بدلہ لینا چاہتا ہوں!‘‘ وہ غم اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں بولا۔
’’صرف اپنے بھائی کا ؟‘‘ مولوی صاحب نے عجیب سوال کیا۔
اس نے چونک کران کو دیکھا۔ وہ کیا پوچھنا چاہ رہے تھے ۔وہ سمجھ نہ پایا۔
’’کیا مطلب مولوی صاحب؟‘‘ ا س نے اچنبھے سے پوچھا۔
’’نثار احمد! تمہارے اوپر صرف تمہارے بھائی کےخون کا قرض نہیں ہے بلکہ ہمارے پورے ملک افغانستان کے مسلمانوں کے خون کا بدلہ لینا تم پر واجب ہے، تم پر واجب ہے کہ اپنی اسلامی حکومت ان غاصب کافروں سےواپس چھینو! تم ہی اس ملک کے اصل وارث ہو! یہ مسلمانوں کا ملک ہے! یہاں کافر وں اور کافروں کے غلاموں کا کوئی حق نہیں ہے! تم پر فرض ہے کہ مسلمانوں کے اس ملک کا ایک ایک انچ ان غاصب امریکیوں سے واپس چھین لو جیسے تمہارے آباؤ اجداد نے روسیوں سے ان کو چھینا تھا!‘‘ مولوی صاحب اس کو سمجھانے لگے۔
نثار احمد غور سے ان کی بات سنتا رہا۔ افغان معاشرے کا مرکز مسجد اور معاشرے کا رہنما ملا ہوتا ہے۔ افغان معاشرے میں مولوی اور ملا کی بے حد عزت ہوتی ہے۔ نثار احمد بھی مولوی صاحب کا بے انتہا احترام کرتا تھا۔اس نے بچپن میں مولوی صاحب سے ہی قرآن اور دین کی ضروری تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ مولوی صاحب کی رائے کو اپنے والدین کی رائے سے بھی فوقیت دیتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ ایسی رائے دیتے تھے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق ہوتی تھی۔
نثار احمد کا تعلق افغانستان کے صوبہ لوگر کے ایک گاؤں’ چرخ‘ سے تھا۔ اس کا علاقہ بہت خوبصورت تھا۔اونچے خوبصورت پہاڑوں کے درمیان میں بہتا برساتی نالہ اور اس کے اردگرد مٹی کے خوبصورت گھر دلکش مصوری کا نمونہ لگتے تھے۔اس کا بچپن انہی پہاڑیوں پر بکریاں چراتے اور شرارتیں کرتے گزرا تھا۔کبھی وہ برساتی نالے کے پانی میں نہا کر آتے تو کبھی اپنی گم ہوجانے والی بکریوں کے پیچھے سارا دن خوار ہوتے رہتے۔
ان کی یکسانیت بھری زندگی میں بڑی تبدیلی تب آئی جب امریکہ اور اس کے حواریوں نے ان کے ملک پر حملہ کردیا۔وہ اس وقت دس سال کا تھا۔اور اس کو امریکی حملے کا ایک ایک لمحہ ابھی تک یاد تھا۔کیسے امریکیوں نے ان کے گاؤں پر بمباریاں کی تھیں۔کس طرح ان کو اپنا آبائی علاقہ چھوڑکر صوبہ غزنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جا کر رہنا پڑا تھا۔
چند سال پہلے ہی طالبان نے دوبارہ لوگر کے علاقے کو فتح کرلیا تو نثار احمد کا گاؤں بھی آزاد ہوگیا۔ وہ اپنے گھر والوں سمیت خوشی خوشی گاؤں واپس آگیا۔مگر ان کی خوشی دیرینہ ثابت نہ ہوئی کیونکہ لوگر کا یہ علاقہ امریکی فوج کے لیے اسٹریٹیجک لحاظ سے بہت اہم تھا ۔ویسے تو طالبان کے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد امن و امان قائم ہوگیا تھا مگر یہاں آئے دن فضائی اور زمینی چھاپے پڑتے رہتے تھے۔علاقے میں امریکی چھاپوں کی وجہ سے مستقل خوف و ہراس رہتا تھا۔ وہ اپنے گاؤں سے لوگر صوبے کےمرکزی شہر تک بھی بے خوف نہیں جاسکتے تھے۔کیونکہ سب امریکہ اور ا س کی غلام افغانی فوج کے ظلم سے ڈرتے تھے۔
ظلم کی تاریکی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ایسے میں کوئی بھی غیور مسلمان یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ نثار احمد ابھی پندرہ سال کا ہی تھا کہ ایک دن اس کا بڑا بھائی ظہیر احمد رات کے وقت بالکل چپکے سے اس کے پاس آیا۔
’’نثار احمد! میں جارہا ہوں، مور (ماں) اور گل آغا (باپ) کا خیال رکھنا!‘‘ ظہیر احمد بالکل سرگوشی میں بول رہا تھا۔
نثار احمد کا دل بہت زور سے دھڑکا۔ اس کا بڑا بھائی اچانک اتنی رات میں آخر کہاں جارہا تھا؟ جبکہ اس کو معلوم بھی تھا کہ رات کے وقت علاقے میں سفر کرنا کتنا خطرناک تھا۔
’’تم کہاں جارہے ہو؟‘‘ اس نے خوف زدہ ہوکر پوچھا۔
’’میں آج ملا حسیب سے ملا ہوں، انہوں نے بتایا ہے کہ طالبان کا جنگی دستہ کل تشکیل کےلیے نکل رہا ہے، وہ جنگ پر جارہے ہیں، میں ایک ماہ محاذ پر گزار کر واپس آجاؤں گا! تم بس میرے لیے دعا کرنا۔ ابھی مور اور گل آغا کو نہ بتا نا، جب طالبان کا جنگی دستہ نکل جائے تو پھر بتا دینا!‘‘ وہ دھیرے دھیرے بولا۔
’’مگر تم کیوں جارہے ہو؟ تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے چلے جانے سے مور اور گل آغا کتنا پریشان ہوجائیں گے؟‘‘
’’نثار احمد! میرے اوپر اس امت کا بہت بڑا قرض ہے، میں اپنی جان بچا کر نہیں بیٹھ سکتا! کل کو اگر اللہ نے پوچھاکہ مسلمانوں کے ملک پر کافر غاصب بیٹھے تھے اور تم مزے سے اپنی کھیتی باڑی میں مصروف رہے، تو میں کیا جواب دوں گا؟ بولو نثار احمد؟ نہیں میں اب مزید بے غیرتی اور بے بسی کی زندگی نہیں برداشت کرسکتا ! یا تو میں کفار کو مار کر آؤں گا یا پھر ان کے ہاتھوں مارا جاؤں گا!‘‘
نثار احمد خوفزدہ نگاہوں سے اس کو دیکھتا رہا۔ظہیر احمد نے اس کو اپنے گلے سے لگایا اور الوداع کہہ کر چلا گیا۔
وہ ایک ماہ ان کے پورے گھرانے نے گویا انگاروں پر کاٹے۔اس کی مور ہنسنا مسکرانا بھول گئیں۔ اس کے گل آغا کے لب ہر لمحہ خدا کے ذکر سے تر رہنے لگے۔ وہ سب ایک دوسرے سے کچھ نہیں کہتے تھے مگر وہ ظہیر احمد کے خیر سے واپس لوٹ آنے کے لیے لیے شدت سے دعا گو تھے۔
ایک ماہ بعد ظہیر احمد واپس آگیا تو وہ بالکل بدلا ہوا تھا۔ وہ پہلے ہی بہت نیک تھا مگر ایک ماہ محاذ پر گزار آنے کے بعد تو اس کا اللہ سے بہت ہی عجیب تعلق بن گیا تھا۔ وہ راتوں میں تہجد پڑھتا ، دن روزے سے گزارتا، ہر غیر شرعی کام سے خود بھی رکتا اور اپنے گھر والوں کو بھی روکتا۔
اتنے پیارے لوگوں کو اللہ زیادہ عرصہ اس حقیر دنیا میں نہیں رہنے دیتا بلکہ ان کو اپنے پاس ہی بلالیتا ہے۔ ظہیر احمد کو بھی جہاد پر نکلے ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک دن طالبان کے ایک مرکز پر رات میں فضائی چھاپے میں وہ لڑتے ہوئے شہید ہوگیا۔
افغانوں کی ایک روایت ہے، وہ کسی شہید کا اسلحہ بے کار گھر میں رکھنا بہت بڑا عیب سمجھتے ہیں۔ ظہیر احمد کی شہادت کے بعد طالبان نے اس کی کلاشن کوف اور اس کا دیگر اسلحہ اس کے گھر بھجوادیا۔
اس دن سے نثار احمد کے گھر میں موجود اس کے شہید بھائی کی کلاشن کوف اس کو غیرت کا سبق سکھاتی تھی۔ وہ جب بھی ظہیر احمد کے کمرے میں کلاشن کوف کو دیکھتا تو اس کو لگتا کہ وہ اس سے مخاطب ہے اور اس کو کہہ رہی ہو کہ ’اس کے بھائی نے جو فرض پورا کرنے کا ارادہ کیا تھا اب تمہاری باری ہے اس فرض کو پورا کرنے کی‘ اور وہ ہر بار غصے سے مٹھیاں بھینچ کر رہ جاتا۔
نثار احمد نماز پڑھ کر گھر واپس لوٹا تو گل آغا کھیتوں میں کام کرنے جارہے تھے۔
’’نثار احمد! آج گندم کے دائیں جانب والے کھیت کو پانی لگوانا ہے! اور دھیان رکھنا کوئی بچہ گیلے کھیت میں نہ گھس جائے!‘‘ گل آغا ہاتھ میں بیلچہ لیے گھر سے باہر نکل گئے۔
نثار احمد گھر کے اندر داخل ہوگیا۔اس کی ماں اس کے لیے دسترخوان بچھائے اس کا انتظار کررہی تھی۔دسترخوان پر رات کی سوکھی روٹی اور سبز چائے کی تھرماس پڑی تھی۔
’’مورے! یہ چائے کی تھرماس اور دو پیالیاں مجھے دے دیں، ایک کپڑے میں روٹیاں باندھ دیں، میں کھیتوں میں جاکر ناشتہ کر لوں گا۔ آج صبح صبح گندم کو پانی لگا نا ہے، مجھے ناشتہ کرتے دیر ہوجائے گی!‘‘ وہ بولا۔
ماں نے ویسا ہی کیا جیسا کہ نثار احمد نے اس کو کہا تھا۔ نثار احمد ابھی اپنے گھر سے نکلا ہی تھا کہ اچانک فضا میں جاسوسی طیارہ پھر گردش کرنے لگا۔ نثار احمد نے چونک کر سر اٹھایا۔ آسمان پر دو عدد طیارے ان کے علاقے کا طواف کررہے تھے۔ یہ یقیناً آج پھر کسی مجاہد کے پیچھے ہی آئے ہوں گے۔ نثار احمد نے سوچا۔
’آخر میں کب تک اپنی جان بچا تا رہوں گا؟‘ اس کے دل نے دوبارہ اس سے پوچھا۔
’مسلمان کٹتے رہیں گے اور میں اپنی جان بچاتا رہوں گا؟ ظہیر احمد کی کلاشن کوف میرے گھر میں بے کار پڑی رہے گی؟ اس کو اٹھا نے والا کوئی نہیں ہوگا؟ کیا میں یوں ہی بے غیرتی کی زندگی گزارتا رہوں گا؟‘
خود سے سوال کرتے ہوئے اس کو پتہ بھی نہ چلا کہ کب وہ اپنے کھیتوں میں پہنچ گیا۔ کھیت میں پہنچ کر اس کو گل آغا چند دیگر لوگوں کے ساتھ بیٹھے نظر آئے۔ نثار احمد نزدیک ہوا تو ان کے حلیوں سے پہچان گیا کہ وہ طالبان تھے۔
یہ چار طالبان مجاہدین ابھی ابھی کسی سفر سے لوٹے تھے۔ان کے بال، جسم، پگڑیاں اور جوتے سب کچھ صحرائی ریت سے اٹے ہوئے تھے۔ جوتے کثرت استعمال سے پھٹ گئے تھے۔کندھوں پر لٹکی کلاشن کوفیں بے حد پرانی تھیں۔جن کو انہوں نے جاسوسی طیارے کی نظر سے بچانے کے لیے اپنی چادروں میں چھپایا ہوا تھا۔
’’ السلام علیکم!‘‘ نثار احمد ان کی طرف لپکا۔
ان سب نے اس کا خیر مقدم کیا۔کچھ دیر وہ یوں ہی باتیں کرتے رہے۔ڈرون طیارہ بھی مسلسل ان کے اوپر پھرتا رہا۔
’’طالب جانا! آپ اس وقت کہاں جارہے ہیں؟‘‘ اچانک دل کے ہاتھوں مجبور ہوکروہ پوچھ بیٹھا۔
’’ہم کابل کے اطراف والے علاقوں میں تشکیل پر جارہے ہیں، تمہارے ابو نے ہمیں روک لیا کہ چائے پی لیں، ہم نے بھی ناشتہ نہیں کیا تھا اس لیے چائے پینے رک گئے۔‘‘
’’مجھے بھی آپ اپنے ساتھ ہی لے چلیں!‘‘ وہ بے اختیار ہوکر بولا۔
گل آغا نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔ وہ تو ابھی بہت چھوٹا سا تھا۔ صرف ۱۷ سال تو اس کی عمر تھی۔ پھر ظہیر احمد کے بعد گھر کا ذمہ دار وہی تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ ظہیر احمد کی کلاشن کوف اس کو چین سے بیٹھنے نہ دیتی تھی۔ اور اس کو پکار پکار کر فرض پورا کرنے کے لیے بلاتی تھی۔
طالبان مجاہدین نے بھی حیرت سے اس کی جانب دیکھا ،پھر اس کے باپ کی جانب۔
’’حاجی صاحب! آپ سن رہے ہیں؟ آپ کا بیٹا کیا کہہ رہا ہے؟ ابھی تو آپ اپنے ایک بیٹے کا جنازہ اٹھا کر فارغ ہوئے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ آپ اپنے دوسرے بیٹے کی طرف سے بھی کوئی ناپسندیدہ خبر سنیں!‘‘ طالب مجاہد نے جھجکتے ہوئے ساری بات کی۔
نثار احمدنے التجائیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا گویا کہہ رہا ہو کہ وہ یہ باتیں نہ کریں بلکہ اس کو ساتھ جہاد پر لے جائیں۔
’’حبیب نور!‘‘ گل آغا اس مجاہد کی بات سن کر دھیرے سے بولے ’’میرے صرف دو ہی بیٹے ہیں، مگر اگر میرے دس بیٹے بھی ہوتے تو میں ان کو اللہ کی راہ میں قربان کردیتا، ہمارے ملک سے کافر نکل جائیں اور دوبارہ سے یہاں اسلامی نظام قائم ہوجائے، یہ میرے لیے اپنے بیٹوں کی زندگیوں سےبڑھ کر ہے، اگر میرے دس بیٹے بھی اس مقصد کے لیے قربان ہوجائیں تو اس میں کاہے کا نقصان!‘‘
گل آغا کی بات سن کر نثار کی تو باچھیں کھل گئیں۔ اس کے والد بالکل ان پڑھ تھے۔ انہوں نے تو قرآن بھی ناظرہ سے نہیں پڑھا ہوا تھا مگر چونکہ افغان معاشرہ اسلام اور اسلام کے شعائر سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے اس لیے سینہ بہ سینہ ہی ان کو دین کی محبت منتقل ہوتی رہتی ہے۔
’’ظہیر احمد جب جہاد کے لیے نکلا تھا تو مجھ سے چھپ کر نکلا تھا، مجھے اس بات کا بہت دکھ ہوا تھا کہ میرے بچے نے یہ کیوں سمجھا کہ میں اس کو جہاد پر جانے سے روکوں گا! حبیب نور! آپ گواہ رہیں کہ میں اپنے کسی بچے کو کبھی بھی جہاد پر جانے سے نہیں روکوں گا! البتہ اس کی ماں چونکہ عورت ہے اور ماں ویسے بھی اپنی اولاد کے بارے میں حساس ہوتی ہے، اس لیے آپ دعا کیجیے گا کہ اس کی ماں حوصلے سے اپنے بچے کو جہاد پر روانہ کرے!‘‘
گل آغا نے تو تقریر ہی کردی تھی۔ طالبان مجاہدین بھی ان سے متاثر نظر آرہے تھے۔
’’اب اٹھو نثار احمد! گھر جاؤ اور ظہیر احمدکا اسلحہ اٹھا لاؤ! اب اس کا حق ادا کرنا تمہارے ذمے رہا! تمہارے نبیﷺ کی امت بہت غمگین ہے میرے بیٹے! اس کو خوشی کے دن واپس لوٹا دو!‘‘
گل آغا نے اس کا کندھا تھپتھپایا تو نثار احمد خوشی سے اپنے گھر کی طرف لپکا۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭