نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

آپریشن عدم استحکام

اریب اطہر by اریب اطہر
30 جولائی 2024
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, جون و جولائی 2024
0

22 جون نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف نے کی اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں ’’عسکریت پسندی کے بڑھتے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے‘‘ آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی گئی۔ عجلت میں کیے گئے اس اعلان کی فوری وجہ تو چینی حکومت کا سی پیک میں سرمایہ کاری سے سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر ہاتھ کھینچنا تھا۔ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت جو امیدیں لے کر چین کے دورے پر گئی تھی اس میں سرمایہ کاری جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ قرضوں کی ری شیڈولنگ کروانا بھی ایک اہم ہدف تھا۔ البتہ پاکستان کی امیدوں کے برعکس چین کی جانب سے مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا جسے سبھی میڈیا نے رپورٹ کیا ۔ یہ سفارتی سطح پر پاکستان کی ناکامی تھی کہ چین جیسا ملک بھی پاکستان کے کردار پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کوتیار نہیں ہے۔ سی پیک اجلاس میں شریک سینئر چینی وزیر لیوجیان چاؤ نے غیرمعمولی طور پر کھل کر بات کی تھی اور سیاسی اور امن عامہ کی صورتحال بہتر کرنے پر زور دیا تھا۔ اس دورے کے فوری بعد پاکستانی حکومت نے آپریشن کا اعلان کردیا۔ البتہ اگر اس ایشو کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس آپریشن سے فوج و خفیہ اداروں نے کئی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے فوج کافی عرصے سے کوشش میں لگی ہوئی تھی۔

اینٹی انڈیا ڈاکٹرائن کی تبدیلی

نائن الیون سے قبل فوج نے بھارت سے تعلقات اور کشیدگی کو ہمیشہ بھرپور انداز سے کیش کرانے کی کوشش کی ۔ کبھی بجٹ میں اضافوں کے لیے تو کبھی ملکی سیاست سے لوگوں کی توجہ دوسری جانب ہٹانے کے لیے۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کودنے کے بعد سے اب تک بتدریج پاک بھارت تعلقات کو امریکی فرمائش پر نارملائز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تاکہ پاکستان اپنی مغربی سرحد پر بھرپور توجہ دے سکے۔ جس طرح ہر قومی ریاست (Nation State)کو ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح پاکستانی فوج ایک عرصے تک بھارت کا خطرہ دکھا کر خود کو محافظ کے طور پر سامنے پیش کرتی رہی۔ اب چونکہ اس خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان بھارت کو کسی بھی طریقے سے نہ الجھائے، پاکستان بھارت کی جگہ مغربی سرحد پر اسلام پسندوں کو ہی اوّلین دشمن تصور کرے اور وہیں اپنے وسائل جھونکے۔

یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے دی جانے والی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ وسائل بھارت کے خلاف استعمال نہ ہوں پاکستانی رہنماؤں کو واضح طور پر پیغام دیا جائے کہ اگر کوئی گروہ پاکستان سے بھارت میں حملہ کرتا ہے چاہے اسے ریاست کی سرپرستی حاصل ہے، یا نہیں یہ پاکستان امریکہ دو طرفہ تعلقات کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا ۔ پچھلے کچھ عرصے میں جس بڑے پیمانے پر ملک بھر میں سابقہ کشمیری جہادی رہنماؤں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے اس پر پاکستان کی جانب سے پرسرار خاموشی معنی خیز ہے اس سے قبل بھارتی میڈیا کی جانب سے یہ انکشاف بھی سامنے آچکا ہے کہ پاکستان کی فوجی قیادت کی جانب سے دو مرتبہ سفارتی ذرائع کے ذریعے کشمیر میں ہونے والی مبینہ کارروائی کے متعلق ایڈوانس انٹیلی جنس معلومات فراہم کی گئیں ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان کی فوجی قیادت کے اس اقدام کا مقصد بھارت کے ساتھ تعلقات میں اعتماد کو فروغ دینا ہے۔

دفاعی بجٹ تنقید کی زد میں

آپریشن کے اعلان سے قبل فوج کو دفاعی بجٹ میں اضافے پر بھی مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا تھا ۔ وفاقی حکومت نے رواں سال 25-2024 کے بجٹ میں دفاع کے لیے اکیس کھرب بائیس ارب روپے مختص کیے۔ سال 24-2023 میں دفاعی بجٹ اٹھارہ کھرب چار ارب روپے اور سال 23-2022میں یہ پندرہ کھرب تیس ارب روپے پر مشتمل تھا۔ بعض مبصرین کے نزدیک فوج دفاعی بجٹ کے علاوہ بھی سویلین حکومت سے فنڈز حاصل کرتی ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال فوج کی پنشن ہے جسے دفاعی بجٹ میں شامل نہیں کیا جاتا بلکہ وہ سویلین بجٹ کا حصہ ہوتی ہے۔ دفاعی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں:

’’فوجی اہلکاروں کی پنشن کو سول حکومت پر نہیں ڈالنا چاہیے جو کہ پہلے ہی بہت سی بجٹ مشکلات سے دوچار ہے۔‘‘

دفاعی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا :

’’بھارت سے پاکستان کے دفاعی اخراجات کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کی معیشت ہم سے بہتر ہے۔ معیشت کی خراب صورتِ حال میں فوج کو اپنے غیر جنگی اخراجات کم کرنے چاہییں ۔‘‘

صحافی شاہد اسلم جنہیں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس کی بیوی کے ٹیکس ریکارڈز کی معلومات لیک کرنے کے الزام میں گزشتہ سال جنوری میں گرفتار کیا گیا تھا، رہائی کے بعد بھی مسلسل دباؤ کا شکار رہے اور پھر ملک چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے اپنے ایک وی لاگ میں فوجی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :

’’بجٹ میں فوجی افسران و اہلکاروں کی پنشن کے لیے رقم چھ کھرب ساٹھ ارب روپے رکھی گئی ہے ( یہ دفاعی بجٹ کے علاوہ ہے )، جبکہ ملک بھر کے تمام سویلین اداروں کے لاکھوں سول ملازمین کی پنشن دو کھرب بیس ارب روپے بنتی ہے ۔ اب آپ ہمیں یہ بتادیں کہ فوج ساٹھ ستر کے قریب جو کاروبار کررہی ہے پاکستان میں، اس کے متعلق تو آپ ہمیں یہی بتاتے رہے کہ ان تجارتی اداروں سے ہم ریٹائر ہونے والے فوجی افسران و اہلکاروں کے لیے پیسے رکھتے ہیں ۔ تو پھر یہ چھ کھرب ساٹھ ارب روپے کس چیز کا لیتے ہیں۔ آپ یہ کاروبار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر پر ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ آپ قوم کو بتائیں کہ اگر ان ساٹھ ستر کاروباروں سے حاصل ہونے والی رقم پنشن پر خرچ نہیں ہوتی تو وہ آمدن آپ کہاں لے جاتے ہیں؟ پھر آپ ان ریٹائر ہونے والے فوجی افسران کی مراعات دیکھیں جو انہیں ملتی ہیں جو زرعی رقبہ انہیں ملتا ہے پھر یہ دو دو تین تین نوکریاں بھی کرتے ہیں ۔ تو بھائی جان آپ پاکستان کو نوچنا کب بند کریں گے؟ مر گئی ہے یہ قوم …… بھوک سے، افلاس سے، غربت سے، مہنگائی سے، بےروزگاری سے…… مرگئی ہے یہ قوم آپ کو پال پال کر، ستر پچھتر سال سے ۔ اس کی جان چھوڑ دیں، اب تو یہ قوم آکسیجن پر لگی ہوئی ہے، یہ پچیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے، صرف چند حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی افسران کا ملک نہیں ۔ اب کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟ کتنا نوچنا ہے اس ملک کو ؟ کتنے وسائل باقی رہ گئے ہیں اس ملک کے جو آپ نے نوچنے ہیں ؟‘‘

اب جب فوج کےبھاری بجٹ کے خلاف اس نوعیت کی تنقید ہورہی ہو اور لوگوں میں نفرت جنم لے رہی ہو، ایسے میں فوج کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے بھاری بھرکم بجٹ کے لیے کوئی جواز تراشے۔

آپریشن کے حوالے سے صحافیوں اور تجزیہ کارروں کی رائے

مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ آپریشن عزم استحکام کا اعلان ہوتے ہی اس کی مخالفت کی وجہ ’’ماضی میں کیے گئے آپریشنز، ان سے پیدا ہونے والی لوگوں کی مشکلات اور تکالیف ہیں جو اب تک یہاں کے عوام کے ذہن میں ہیں‘‘۔بقول مشتاق یوسفزئی انہیں اس آپریشن کی کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے کیونکہ ’’اس کے اعلان کے ساتھ ہی اسے متنازع بنا دیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے (اسے) مسترد کر دیا ہے اور عوامی سطح پر بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔‘‘

انڈیپنڈنٹ اردو کے ہارون رشید لکھتے ہیں کہ ’’اس کارروائی میں حکومت نے عدلیہ سے بھی مدد مانگی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کے خلاف کارروائی کریں اور ان کو عدالت سے ریلیف ملنا شروع ہوجائے۔‘‘ بظاہر یہ مدد انسانی حقوق کی پامالیوں اور جنگی جرائم کو نظرانداز کرنے کے لیے مانگی گئی ہے کیونکہ بہت سی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ کسی بڑے آپریشن کے نتیجے میں معصوم اور بےگناہ افراد بھی لامحالہ نشانہ بنیں گے۔

فاٹا ریسرچ سینٹر کے سابق سربراہ اور سکیورٹی اُمور کے ماہر ڈاکٹر اشرف علی کہتے ہیں کہ تاحال آپریشن کی نوعیت کے بارے میں حکومت نے وضاحت جاری نہیں کی ہے۔ ان کے بقول بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے تھوڑی جلد بازی کا سہارا لیا ہے اور اس اعلان کے تحت حکومت ایک ماحول بنانے کا سوچ رہی ہو کہ لوگوں کا ممکنہ ردِعمل کیا ہو سکتا ہے۔ اگر ماضی کی بات کی جائے تو شدت پسند منظم طریقے سے علاقوں میں وجود رکھتے تھے جس کے خلاف آپریشن نسبتاً آسان ہوتا تھا۔ سن 2014ء میں آپریشن ’ضربِ عضب’‘کی مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر اشرف علی کا کہنا تھا کہ اس وقت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیمیں شمالی وزیرستان میں منظم تھیں اور وہاں عملاً حکومتی رٹ نہیں تھی۔ ڈاکٹر اشرف علی کے بقول اس وقت صورتِ حال مختلف ہے۔ شدت پسندوں کا کسی ایک علاقے میں وجود نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے میں آبادی کا انخلا ایک مشکل ٹاسک ہو گا۔”

تجزیہ کار اور صحافی عبدالسید کہتے ہیں کہ ’’آپریشن کا بظاہر مقصد گزشتہ تین برسوں کے دوران قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو ختم کرنا ہے‘‘۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’ٹی ٹی پی خیبر، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے بعض علاقوں میں حکمتِ عملی کے ساتھ حملے کر رہی ہے۔ تاکہ ان علاقوں میں دوبارہ کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی فوج عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے آپریشن کر چکی ہے۔ یہ آپریشن اس وقت کیے گئے تھے جب امریکی فوج افغانستان میں موجود تھی اور ایک طرح سے پاکستان کو امریکہ کی بھی حمایت حاصل تھی۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی مسائل کے دوران کیا پاکستان تنِ تنہا کسی بڑے فوجی آپریشن کا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ماضی میں آپریشنز کے باوجود عسکریت پسندوں کی مزید طاقت ور ہو کر واپسی سے عوام اور سیاسی حلقے بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔‘‘

صحافی لحاظ علی کے مطابق ’’صوبہ خیبر پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں میں فوج اور حکومت کو عوام کی تائید حاصل نہیں ہے جس کا عملی مظاہرہ نہ صرف صوبائی اور قومی نمائندگان نے اسمبلی کے فلور پر کیا بلکہ جلسوں اور ریلیوں کے دوران بھی کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول پہلے افغان سرحد سے متصل علاقوں کو قبائلی علاقہ جات تصور کیا جاتا تھا جو کہ وفاق کی نگرانی میں آتے تھے۔ اب وہ تمام علاقے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں اور اس لحاظ سے ان علاقوں کی انتظامی حیثیت بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگ ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشنز پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں وہ نہیں سمجھتے کہ موجودہ صورتِ حال میں فوجی آپریشن کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں‘‘۔

احسان ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ انہیں آپریشن کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا لیکن اگر انہیں اعتماد میں لیا بھی جاتا تب بھی ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ پہلے امن لشکر بنائے جاتے تھے اب وہاں کوئی امن لشکر بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ حالانکہ اس کے لیے کوشش بہت ہوئی ہے۔

صحافی طاہر خان ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ جس طرح ماضی میں 2008 پھر 2009 اور پھر 2014 میں آپریشن ہوئے اس طرح اب آپریشن نہیں ہوسکے گا کیونکہ اس وقت آپ کو آپ کا دشمن معلوم تھا ۔ جب اس طرح آپریشن نہیں ہوپائے گا اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہی ہونے ہیں تو وہ تو پہلے سے ہورہے ہیں۔ میرے خیال میں (اس اعلان کی ضرورت یوں محسوس کی گئی) پاکستان کی جانب سے جو بارہا کہا جاتا رہا کہ ہمارے پاس وہ اسلحہ نہیں ہے جو ٹی ٹی پی کے پاس ہے شاید اسلحے اور وسائل کی سوچ ہو ( کہ یہ کس طرح حاصل کیے جائیں اور اس کے لیے راہ ہموار کی جائے)۔اور بارڈر کے دونوں اطراف ڈرون کے زیادہ استعمال کا ارادہ ہو ۔

سیاسی جماعتوں کا ردعمل

آپریشن کے حوالے سے سوائے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے حمایت سامنے نہیں آئی ۔ جس طرح مختلف ایشوز پر یہ دونوں جماعتیں فوج و اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی حمایت کررہی ہیں یہ واضح ہے کہ اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے یہ کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہیں۔ن لیگ کے لیے تو فقط اقتدار ہی مجبوری ہے البتہ پی پی کو جہاں ان کے کرپٹ لیڈروں کو نیب سے بچے رہنے کی سہولت حاصل ہے اور اندرون سندھ کچے کے ڈاکوؤں کی لوٹ مار کو جس طرح فوج اور خفیہ اداروں نے نظر انداز کیا ہے یہ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی ہی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس سیاسی جماعتوں کی اکثریت آپریشن کی کھل کر مخالفت کررہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے قبائلی جرگے میں آپریشن کے خلاف قرارداد پیش کی گئی۔ جرگے میں افغانستان کے ساتھ تجارت اور صوبوں کے قدرتی وسائل میں مقامی آبادی کے حق کو تسلیم کرنے کے متعلق بھی قرارداد بھی پیش کی گئی ۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ’آپریشن عزم استحکام‘ دراصل آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا۔ ریاستی ادارے شقی القلب ہیں حکومت عوام کو اپنا دشمن سمجھ رہی ہے۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے بھی آپریشن عزم استحکام کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو امریکہ کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دھکیلا گیا، اس جنگ میں قومی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ انہوں نے افغانستان سے بامعنی مذاکرات کا بھی مطالبہ کیا۔

اپوزیشن الائنس کے صدر اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’’ہمیں کالونی نہ سمجھا جائے۔ فاٹا کے عوام غم و غصے میں ہیں اور امن کے متلاشی ہیں۔ ملک کو اُس نہج پر نہ لے کر جائیں کیونکہ اگر اب آپریشن ہوا تو پاکستان کے حالات مزید خراب ہوجائیں گے‘‘۔

اے این پی کے میاں افتخار حسین نے کہا کہ ’’آپریشن عزم استحکام کو ہم مسترد کرتے ہیں، آپریشن سے قبل عوام، سٹیک ہولڈرز اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس آپریشن کی مخالفت کی گئی‘‘۔

حیران کن طور پر وہ ایم کیو ایم جو ماضی میں فوج کی جانب سے کے پی کے میں آپریشنز کی سب سے بڑی حامی رہی انہوں نے بھی اس آپریشن کی کھل کر مخالفت کی ہے ۔ سوشل میڈیا پر ان کی ٹیمیں بھی اس آپریشن کےخلاف کیمپین چلاتی نظر آئیں۔ اس سے قبل لاپتہ افراد کے حوالے سے بھی ایک سوشل میڈیا کیمپین میں ایم کیو ایم اپنے لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھاتی نظر آئی۔ اس کیمپین میں پشتون بلوچ اور سندھ میں لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھانے والے شامل تھے۔ ایم کیو ایم کے موقف اور بیانیے میں اس حیران کن تبدیلی کی ایک وجہ ان کے خلاف ہونے والا آپریشن بھی ہے ۔ آپریشن تو ان کے خلاف پہلے بھی ہوئے البتہ حکومت ملنے پر ایم کیوایم ہمیشہ سے فوج و اسٹیبلشمنٹ کی حامی بنتی رہی ۔ اب دوبارہ بھی ایسا ہوگا یا نہیں یہ الگ ایشو ہے ۔

آپریشن کے اعلان کے بعد اس فیصلے کو جس انداز میں ملکی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا حکومت کو بالآخر وضاحت جاری کرنی پڑی کہ یہ کوئی ایسا آپریشن نہیں ہوگا جس کے سبب لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑے۔

آپریشن کے لیے امریکی حمایت

سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت کے واقعے کے بعد امریکہ کی جانب سے آپریشن کی حمایت میں بیان بھی سامنے آیا ۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ انسداد دہشت گردی میں پاکستان اور امریکہ کا مفاد مشترک ہے، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ سکیورٹی معاملات پر پاکستان اور امریکہ کی شراکت داری ہے۔ امریکی حکومت ہائی لیول کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ اور کپیسٹی بلڈنگ پروگرام کے تحت ملٹری ٹو ملٹری رابطوں کے حق میں ہے۔ سکیورٹی معاملات پر پاکستان اور امریکہ کی شراکت داری میں دہشت گردی کے خلاف بات چیت اور فنڈز کی فراہمی شامل ہے۔ عاصم منیر جو اس سے قبل امریکی دورے سے مایوس لوٹا تھا۔ دورے کے بعد پاکستان کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس دورے کا اصل مقصد تجارت اور دو طرفہ تعلقات پر بات چیت تھی لیکن امریکی میڈیا اور مختلف شخصیات کے بیانات سے یہ واضح ہواکہ پاکستان آپریشن کے حوالے سے مدد کا خواہاں تھا جس پر امریکی انتظامیہ کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا۔ زلمے خلیل زاد نے تو بغیر لگی لپٹی صاف صاف حکومت پاکستان کو سمجھایا کہ اپنے مسائل آپ نے خود نمٹنے ہیں۔ بہرحال غزہ کی صورتحال کے سبب پاکستان کو ایک دفعہ پھر امریکہ کے قریب آنے کا موقع ملا ۔ پاکستان امریکی کمپنیوں کو یوکرین جنگ کے نام پر مارٹر گولے سپلائی کررہا ہے جس کے متعلق بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ یہ گولے اسرائیل کو بھی فراہم کرسکتا ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان نیوی اس امریکی اتحاد میں بھی شامل ہے جسے غزہ جنگ کے سبب تشکیل دیا گیاہے۔ بہرحال امریکی ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کو پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے غنیمت سمجھا اور امریکہ سے آپریشن کے لیے چھوٹے ہتھیار اور مواصلاتی آلات مانگ لیے۔ امریکہ میں حال ہی میں سبکدوش ہونے والے پاکستانی سفیر مسعود خان نے واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں امریکی پالیسی سازوں، اسکالرز، دانشوروں، اور کارپوریٹ رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کی مخالفت اور ان کا قلع قمع کرنے کے لیے ’آپریشن عزمِ استحکام‘ کا آغاز کیا ہے اور اس کے لیے ہمیں جدید ترین چھوٹے ہتھیاروں اور مواصلاتی آلات کی ضرورت ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کا ردعمل

آپریشن کے اعلان پر جواب میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’’پاکستانی سکیورٹی اداروں کا مقصد صرف اور صرف ڈالر وصول کرنا ہے جس کے لیے وہ آئے روز نئے حربے آزماتا رہتا ہے ـ لیکن پاکستانی عوام اب الحمدللہ ان کی اصلیت جان چکے ہیں ان کے یہ نام نہاد آپریشنز ان کے اپنے گلے پڑجائیں گے، ان شاءاللہ اور تحریک طالبان پاکستان کے مجاہدین سکیورٹی اداروں کی طرف سے کیے گئے ہر قسم کے آپریشن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں الحمدللہ ‘‘۔”

بعض مبصرین کے خیال میں چونکہ مشرف سے لے کر اب تک ہر آرمی چیف نے ایک یا ایک سے زائد آپریشن لانچ کیے اس لیے شاید موجودہ آرمی چیف کے لیے بھی مغربی طاقتوں کے سامنے شاید یہ شرمندگی کا باعث تھا کہ دوسرے آرمی چیفس کی طرح ساس کے نامۂ اعمال میں کوئی آپریشن نہ ہو۔

سیاسی محاز پر اس آپریشن کو تو شروع میں ہی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان آپریشنز کے نام پر پاکستانی فوج چین اور امریکہ دونوں سے خاطر خواہ مالی مدد بھی حاصل کرپائے گی یا نہیں۔ اگر چین اور امریکہ دونوں زبانی جمع خرچ تک محدود رہتے ہیں تو اس ڈوبتی معیشت کے بل بوتے پر فوج یہ جنگ کتنے دن برداشت کرپائے گی اس کا اندازہ لگا مشکل نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کی مثال اس وقت اس ڈوبتے شخص کی مانند ہے جو بوکھلاہٹ میں ہر طرف ہی ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ۔ لیکن یہ ہاتھ پاؤں چلانا اس کی مصیبت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی کررہا ہے۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

اجنبی ___ کل اور آج | گیارہویں(آخری) قسط

Next Post

اسرائیل مغربی کنارہ کتر رہا ہے

Related Posts

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

13 اگست 2025
کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

13 اگست 2025
فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

13 اگست 2025
سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

10 جولائی 2025
سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

7 جون 2025
عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

26 مئی 2025
Next Post
اسرائیل مغربی کنارہ کتر رہا ہے

اسرائیل مغربی کنارہ کتر رہا ہے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version