پہلی فصل
ولادت سے جوانی تک
پیدائش
ملا محمد عمر مجاہدسال ۱۳۷۹ ھ بمطابق ۱۹۶۰ء میں افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھار کے ضلع خاکریز میں پیدا ہوئے۔
جائے پیدائش
صوبہ قندھار افغانستان کے جنوب میں واقع ہے جس کا مرکزی شہر ’قندھار‘ ہے اور یہ قندھار افغانستان کا دوسر بڑا قندھار اور سیاسی اعتبار سے ایک اہم اور انقلابی شہر سمجھا جاتا ہے۔ معاصر افغانستان کے مؤسس احمد شاہ ابدالی نے اپنی حکومت کی بنیاد بھی اسی صوبے میں رکھی اور ادھر ہی سے ہندوستان، ماوراءالنہر اور فارس کی طرف لشکر کشی کی۔ اس سے قبل میرویس خان ہوتک کی قیادت میں اٹھنے والے انقلاب کا مرکز بھی قندھار تھا جس کے نتیجے میں افغانستان سے صفوی قبضے کا خاتمہ ہوا اور افغانیوں کی ایک مستقل سلطنت قائم ہوئی۔ قابض صفویوں کے خاتمے اور ان سے آزادی حاصل کرنے کی وجہ سے افغان قوم میرویس خان ہوتک کو اپنا قومی راہنما سمجھتی ہے اور میرویس نکا (یعنی دادا میر ویس) کے نام سے احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔اسی طرح ہوتک سلطنت ،جس کی صفویوں کے زوال کے بعد چند سال افغانستان اور ایران پر حکومت رہی، اس سلطنت کوتاریخ اسلام میں فخر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
قندھار معاصر افغانستان کا پہلا دارالحکومت تھا بعد میں تیمور شاہ نے اپنے دور میں دار الحکومت کابل منتقل کر دیا۔
قندھار کے شمال میں پچاس کلومیٹرکے فاصلے پر ضلع خاکریز واقع ہے۔ ملا محمد عمر مجاہد اسی ضلع کے’چاہ ہمت‘ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپؒ اپنے والدین کی تیسری اولاد تھے، آپؒ سے عمر میں دو بڑی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی کم سنی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔
خاندان اور گھرانہ
ملامحمد عمر مجاہد پشتون قوم ’ہوتک ‘کی ’توموزئی ‘ شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ہوتک پشتونوں کے مشہور قبیلوں میں سے ہیں جن کا اصل رہائشی علاقہ افغانستان کا جنوبی صوبہ زابل ہے۔
جیساکہ پشتون مختلف اقتصادی و اجتماعی مسائل کی وجہ سے اپنے اصل رہائشی علاقوں سے دوسری جگہوں پر منتقل ہوئے، ملا محمد عمرؒ کا گھرانہ بھی برسوں قبل صوبہ زابل سے قندھار کے ضلع خاکریز منتقل ہوچکا تھا۔ملا محمد عمر مجاہد کے والد مولوی غلام نبی صاحب ضلع خاکریز کےگاؤں ’ناصرہ ‘میں پیدا ہوئے۔ملا محمد عمر مجاہد کے دادا مولوی محمد رسول صاحب ، پر دادا مولوی محمد ایاز صاحب اور ان کے بعد کے آباؤ اجداد سب دینی علوم کے عالم، امام ، مولوی اور مدرسین تھے۔جن کی زندگی کا بنیادی مقصد حصولِ علم، تعلیم و تدریس اور امامت تھا۔ ملا محمد عمر مجاہد کے والد مولوی غلام نبی صاحب اپنے والد کے بڑے فرزند تھے۔ مولوی محمد انور صاحب، ملا عبدالولی صاحب، ملا محمد حنفیاصاحب اور محمد جمعہ صاحب آپؒ کے والد کے بھائی تھے۔ ان کا گھرانہ افغانستان کے عام باسیوں کی طرح مفلسانہ طرز کی زندگی گزار رہا تھا۔ قندھار میں آپ کے پاس کوئی زمین، جائیداد یامال نہیں تھا۔ باقی علمائے کرام اور طلباء کی طرح آپ کے والد بھی سادہ زندگی پر قناعت کرتے اور دنیا، مال و جاہ جمع کرنے کےبجائے علم اور دینی خدمات کی طرف متوجہ رہتے تھے۔
ملا محمد عمر مجاہد اسی خاندان میں ۱۳۷۹ھ (بمطابق ۱۹۶۰ء) میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی والدہ کا ’ناصرہ‘ قوم سے تعلق تھا اور ضلع خاکریز کے گاؤں ناصرہ کی ایک متدین اور عبادت گزار خاتون تھی۔ملا محمد عمر مجاہد دو برس کے تھے جب آپ کے والد قندھار شہر کے قرب و جوار میں ضلع ڈنڈہ کے نودہ گاؤں کے امامِ مسجد بنےاور اپنا گھر خاکریز سے نودہ گاؤں منتقل کردیا۔ ملا محمد عمر مجاہد نے اپنی کم سنی کے تین سال اسی گاؤں میں اپنے والد کے زیر شفقت گزارے۔ابھی آپؒ کم سن ہی تھے کہ آپ کی زندگی مشاکل و مصائب سے دوچار ہوگئی۔
بہنوں ، چھوٹے بھائی اور والدکی وفات
ملا محمد عمر مجاہد کی والدہ ماجدہ (جوکہ الحمد للہ تا دمِ تحریر حیات ہیں)نے ذکر کیا کہ ہم خاکریز سے قندھار کے ضلع ڈنڈ کے گاؤں ’نودہ ‘ منتقل ہوگئے۔ وہاں ملا صاحب کے والد مسجد کے امام تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ سادگی کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ آپؒ کا گھرانہ ماں باپ، دو بیٹیوں اوردو بیٹوں پر مشتمل تھا۔ملا محمد عمرؒ کی دو بہنیں آپ سے عمر میں بڑی اور ایک بھائی شیر علی چھوٹا تھا۔
ملا محمد عمر کے ساتھ ان کی بہنیں بہت محبت کر تی تھیں اور آپؒ کا خیال رکھتی تھیں، لیکن ایک دفعہ پورے علاقے میں وبا پھیلی جس کی وجہ سے آپؒ کی دونوں بہنیں ایک کے بعد ایک فوت ہوگئیں۔یہ حادثہ چار سالہ محمد عمر کی زندگی میں پہلی اور سنگین ابتلاء تھی۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے ذکر کیا کہ ملا محمد عمر اپنی بہنوں کی جدائی پر کافی رنجیدہ تھے کیونکہ اپنے بچپن کی زندگی میں تنہا رہ گئے تھے۔لیکن اس حادثے کے ایک سال بعد آپؒ پر جو آزمائش آئی وہ زیادہ سخت اور سنگین تھی، ملا صاحب کی والدہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ملا محمد عمرؒ پانچ برس کے تھے جب آپؒ کے والد سخت بیمار ہوگئے۔ ملا صاحب کے چچا مولوی محمد انور صاحب اس وقت طالب علم تھے اور قندھار شہر میں علم حاصل کررہے تھے، مولوی محمد انور قندھار سے واپس گھر آئے اور ملا صاحب کے والد کو علاج کے لیے قندھار لے گئے۔ ملا صاحب کے دوسرے چچا ملا محمد حنفیا نے آپؒ کے گھر کی سرپرستی سنبھالی جوکہ آپ ؒ کی والدہ کے رشتے میں رضاعی بھائی بھی تھے۔
ان دنوں ملا صاحب کے چھوٹے بھائی شیرعلی بھی شدید بیمار ہوگئے اور آہستہ آہستہ ان کامرض بڑھتا چلا گیا، آپؒ کی والدہ اور چچا بچے کو لے کر علاج کے لیے قندھار کی طرف روانہ ہوئے، وہ پیدل چل رہے تھے کہ جب میر بازار کے علاقہ میں پہنچے تو بچے کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا اور بچے نے سر اپنی ماں کے کندھے پر رکھ دیا، انہوں نے جب بچے کی یہ حالت دیکھی تو گھر کی طرف واپسی کی راہ لی ، گھر پہنچ کر دیکھا کہ بچہ فوت ہوگیا ہے۔ ایسے میں پانچ سالہ محمد عمر بالکل تنہا رہ گئے۔
بچے کی تجہیزوتدفین کے بعد ملاصاحب1 کے چچااپنے بھائی کی خیریت معلوم کرنے کی خاطر قندھار چلے گئے۔ آپؒ کے چچا جب وہاں پہنچے تو آپؒ کے والد اسی طرح بستر مرگ پر تھے لیکن اپنے چھوٹے بیٹے کی خیریت معلوم کررہے تھے۔ آپؒ کے چچا نے آپؒ کے والد کو ان کے کم سن بیٹے کی وفات سے آگاہ کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ ان کو دلاسہ دیا کہ بچہ اب صحت یاب ہے، ملا صاحب کے والد، جوکہ اپنے طالب علم بھائی کے ساتھ حجرے میں رہ رہے تھے، کچھ دنوں بعدمرض کی شدت کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ مرحوم والد کے بھائیوں اور مدرسہ کے طالب علموں نے میت کی تجہیز وتکفین کرکے قندھار شہر میں طالبان کے نام سے معروف قبرستان میں سپردخاک کردیا۔
ملاصاحب کے چچا ملامحمد حنفیا نے اپنے مرحوم بھائی کے کپڑے اور بقیہ چیزیں چادر میں لپیٹ لیں، گھر پہنچ کریہ ہمت نہیں ہوئی کہ اس اندوہناک خبر سے ملا صاحب کی والدہ کو باخبر کردیں، اس لیے چادر میں لپٹا سامان ان کے گھر کے دروازے میں رکھ کر چلے گئے۔ملاصاحب کی والدہ کا خیال تھا کہ شایدمحمد عمر کے ابا تندرست ہوگئے ہوں اور کچھ دیر میں آجائیں گے لیکن جب چادر میں لپٹا سامان کھول کر دیکھا کہ ملا صاحب کے والد کے پہنے ہوئے آخری کپڑے، پگڑی اور جیکٹ ہے تو یہ سمجھ گئی کہ محمد عمر کے ابا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔
ایسے میں اس پورے گھرانے سے ایک ماں اور اس کا اکلوتا بیٹا محمد عمر یتیم اور بغیر سرپرست اندوہناک غموں اور مصائب کے ساتھ باقی رہ گئے۔ بعد میں مصلحت کے تحت ملا محمد عمر مجاہد کی والدہ ماجدہ کا نکاح ان کے چچا مولوی محمد انور کے ساتھ کر دیا گیا۔
چچا کے زیرسایہ تربیت
پہلے ذکر ہواکہ ملا محمد عمر مجاہد کا گھرانہ آغاز سے ہی علمی اور دیندار گھرانہ تھا۔ آپؒ کے چچا اور قریبی رشتہ دار اکثر علماء تھے اور امامت و تدریس میں مصروف رہتے تھے۔یہ ناصرف اپنے آبائی علاقے ’ضلع خاکریز‘ میں امامت و تدریس کی خدمت سرانجام دے رہے تھے بلکہ قندھار کے اردگرد باقی علاقوں میں بھی وقتاً فوقتاً یہ خدمات انجام دیتے رہتے۔
جیسا کہ ملا محمد عمر مجاہد کے والدصاحب امامت و تدریس کے لیے ضلع خاکریز سے ضلع ڈنڈ کی طرف چلےگئے تھے۔ اسی طرح آپ کے چچا مولوی محمد انور اور مولوی محمد جمعہ قندھار کے شمال میں واقع صوبہ ارزگان کے ضلع ’دہراوُود‘ میں امامت و تدریس کے سلسلے میں چلے گئے اور اپنے یتیم بھتیجے کو ان کی والدہ کے ہمراہ ضلع دہراوُود لے گئے۔ کم سن محمد عمر نے اسی علاقہ میں اپنے چچا کے زیر سایہ نئی زندگی کا آغاز کردیا۔ آپؒ کی کفالت اور تعلیم و تربیت آپؒ کے چچا کے ذمہ تھی، ملا محمد عمر مجاہد جوانی تک ارزگان کے ضع دہراوُود میں رہے۔
بچپن کی زندگی اور اردگرد کا موحول
ملا محمد عمر مجاہدپانچ سال کی عمر میں اپنے چچاؤں مولوی محمد انور اور مولوی محمد جمعہ کے ہمراہ ارزگان کے ضلع دہراوُودچلے گئے اور وہاں اپنے چچاؤں کے زیرسایہ زندگی گزارنا شروع کردی۔ آپؒ کے دونوں چچا علماء اور یہاں کی اصطلاح میں مولوی تھے۔ ملا یا مولوی دینی عالم کی مترادف اصطلاح ہے لیکن افغانستان میں باقی ممالک کی نسبت مولوی اور ملا میں مرتبے کے لحاظ سے فرق ہے۔
افغان معاشرے میں ملا یا مولوی محض امامت اور تدریس کے فرائض سرانجام نہیں دیتا، بلکہ دینی اور اجتماعی امور میں ایک معتبر اور مرجع کی حیثیت رکھتا ہے ، معاشرے کی رہنمائی، اصلاح، عوام کو گمراہی اور بے راہ روی سے بچانا، دینی شعائر کی بقا اور یہاں تک کہ حکومت اور سیاسی مرجعیت اور اصلاح کا فریضہ بھی علما ءپر عائد ہوتا ہے۔
افغان معاشرے میں مولوی یا ملا کا بنیادی کام مسجد کی امامت ہے۔ کئی مساجد میں ایک یاایک سے زائد اضافی کمرے بھی ہوتے ہیں جس کو حجرہ یا دائرہ کہا جاتا ہے اس میں دینی علوم کے طالب علم رہتے ہیں۔شاید مسجد کے ساتھ یہ اضافی کمروں کی روایت ابتدائے اسلام کی مسجدِ نبوی سے لی گئی ہے جس کے ساتھ صفہ کے نام سےرہائش کی جگہ بھی ہوتی تھی جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رہتے تھےجوکہ دور پار کے علاقوں سے دینی علم اور احکام شرعی کے سیکھنے کے لیے مدینہ منورہ تشریف لاتے تھے۔
کچھ دہائیاں قبل جب افغانستان میں دینی مدارس کم ہوا کرتے تھے اور حکومتوں کی طرف سے بھی دینی تعلیم کی طرف کچھ خاص توجہ نہیں کی جاتی تھی تو ملک بھر میں طلبائے علمِ دین انہی گاؤں کے مدارس (حجروں) میں حاصل کرتے تھے۔ ملا و طالب یا استاد و شاگرد جو کہ معاشرے کے قلب میں رہتے تھے، پانچ اوقات عام لوگوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے اور عام عوام کے ہر غم اور خوشی میں شریک ہوتے، ایسے میں وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اپنے معاشرے کے ساتھ نہ ٹوٹنے والاتعلق بن گیا تھا اور وہ تعلق آج تک قائم ہے۔
ملا محمد عمر مجاہد نےعلماء و عوام کے اس اخلاص بھرے تعلق کے ساتھ گاؤں کے ماحول میں پرورش پائی، رہنمائی کرنے والے اساتذہ اور طلباء سے زندگی کے بنیادی آداب سیکھے۔ قوی ایمان، صاف عقیدہ، دیانت اور مومنانہ صفات ان کے دل میں موجزن ہوئے۔ عوام کے درمیان رہتے ہوئے آپ پُرخلوص عادات، زبان، غیرت، مہمان نوازی، ہمدردی، شرافت اور افغانوں کے بقیہ صفات سے آشنا ہوئے۔یتیمی اور مفلسانہ زندگی کی سختیوں نے آپ کی روح اور جسم کو مضبوط اور چست بنادیا اور زندگی میں آنے والی کٹھن آزمائشوں کو سہنے کے لیے آپ کو تیار کردیا۔
دہراوُود کا وہ علاقہ جہاں ملا محمدمجاہد نے پانچ سال کی عمر سے اکیس سال تک اپنی زندگی کے اہم اور شخصیت ساز سال گزارے ایک دیہاتی علاقہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؒ ایک مومن افغان کی حیثیت سے بڑے ہوئے اور نہ ٹوٹنے والی دینی قوت آپ کی فطرت کا خاصہ رہی اور زندگی کے اواخر تک اسی راسخ عقیدہ، سادہ زندگی، اخلاص بھرا انداز ، سادہ لباس اور خالص عادات کے پیکر رہے۔
آپؒ کے قرابت داروں کے بقول ملا محمد عمر بچپن ہی سے خاموش طبیعت کے مالک تھے لیکن اسی طبیعت کے ساتھ متحرک اور اپنے کاموں کی انجام دہی میں مستعد بھی تھے۔ بچپن ہی سے آپ کی یہ منفرد صفت تھی کہ باتیں کم لیکن کام زیادہ کرتے تھے۔ صداقت اور اخلاص آپ کی نمایاں صفات تھیں اور یہ صفات آپؒ میں بچپن سے ہی پائی جاتی تھیں۔ دینی امور خصوصاً نماز کی بچپن سے پابندی کرتے ، کسی بھی کام میں مصروف ہوتے لیکن جب نماز یا جماعت کا وقت ہوجاتا تو اس کام کو چھوڑ دیتے اور مسجد کی طرف چلتے۔آپؒ دینی علوم کے حصول کے لیے کم سنی سے کمربستہ ہوئے اور مسجد کے ’دائرے‘ میں رہنا شروع کردیا۔ حالانکہ آپ اپنے گھرانے کے بچوں میں بڑے تھے اس لیے گھر کے کاموں میں بھی حصہ لیتے لیکن زیادہ تر درس اور تعلیم کے حصول میں مصروف رہتے تھے۔
وہ ماحولیاتی عوامل جس نے بچپن اور جوانی کے وقت میں ملا محمد عمر مجاہد کی زندگی پر اثر ڈالا ان سب عوامل نے آپؒ میں مثبت اورنیک عادات کو پروان چڑھایا۔ آپؒ ایک نیک والد اور دیندار ماں کے بیٹے تھے ایک اچھے خاندان سے آپ کا تعلق تھا، گھر کا ماحول علم، دینداری اور عبادات سے منور تھا۔ غریبانہ زندگی پر قناعت کرتے اور ہمیشہ ایسا رزق کھاتے جو کہ حلال اور شبہات سے پاک ہو۔ گھرسے باہر بچپن و جوانی مسجد و مدرسہ کے ماحول میں گزاری۔ ملا محمد عمر مجاہد نے علم، ذکر، عبادت، کتاب اور تدریس کے ماحول میں پرورش پائی، اسی ماحول میں پیٹ کے بل چلے ، الف ب سیکھی اور اسی ماحول میں جوان ہوئے۔
دینی تعلیم
افغانستان میں مروجہ دینی تعلیم کا نصاب اس تعلیمی نظم پر مبنی جو دوسری صدی ہجری سے سابقہ خراسان (حالیہ افغانستان) کے تعلیمی مراکز سے چلا آ رہا ہے۔اس تعلیمی نظام میں وقتاً فوقتاً اہم تبدیلیاں ہوئیں ۔ ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے مدارس میں یہی نصاب اب بھی پڑھایا جاتا ہے کیونکہ یہ نصاب عالم اسلام کی سطح پر دینی تعلیم کا ایک اہم اور معیاری نصاب سمجھا جاتا ہے۔
اس تعلیمی نظام میں دینی علوم کا طالب بچپن میں عربی حروفِ تہجی اور مفردات سے آغاز کرتا ہے ، اس کے بعد قرآن کریم کا ناظرہ سیکھاجاتا ہے اور پھر نماز اور باقی اہم عبادات کے ساتھ ساتھ فقہی احکام اور بنیادی عقائد سیکھتا ہے۔ اس کے بعد حنفی فقہ، عقائد، عربی صرف ونحو، فارسی و عربی ادب اور باقی اہم علوم سیکھتا ہے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اصول فقہ، معانی، بدیع، بیان، عروض، منطق، ہئیت، علم التفسیر اور باقی علوم کا اضافہ کیا جاتا ہے اور احادیث صحاح ستہ سے گزرنے کے بعد یہ تعلیمی نصاب تکمیل پاتا ہے۔
ملا محمد عمر مجاہد نے دینی علم پانچ سال کی عمر میں اپنے عالمِ دین چچا سے شروع کیا، بنیادی اہم کتابیں اپنے گھر اور مسجد میں پڑھیں، دہراود میں آپؒ کا رہائشی گاؤں’ شہرِکہنہ ‘تھا۔شہر کہنہ ضلع دہراوُد کا سابقہ صدر مقام تھا۔ ظاہر شاہ کے دور حکومت میں دہراوُود میں نیا شہر بن گیا اور شہر کہنہ سے ضلعی دفتر اور حکومتی انتطام وہاںنتقل ہوگیا جوکہ تاحال ضلعی مرکز ہے۔
اسی ضلع کے سابقہ مرکزی گاؤں شہر کہنہ میں ایک مدرسہ تھا جوکہ طلباء کی کثرت کی وجہ سے دہراوُود میں ’لویہ دائرہ‘2 کے نام سے مشہور تھا۔ ملا محمد عمر مجاہد آٹھ سال کی عمر میں اس مدرسہ میں داخل ہوئے اور کمیونسٹ اور روسی حملے کے خلاف جہاد کے وقت تک اسی مدرسہ سے حصول علم جاری رکھا۔
روسی حملہ آوروں کے خلاف جہا د میں درپیش اضطراری حالات کی وجہ سے ملا صاحب دینی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ لیکن اس وقت تک کافی دینی تعلیم حاصل کرچکے تھے۔عربی زبان میں مطالعے اور استفادے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اکثر اوقات تفاسیر اورباقی دینی و معلوماتی کتب کا مطالعہ کرتے تھے۔ آپؒ نے کمیونیزم کے خلاف جہادی فتح کے بعد قندھار کے علاقے سنگ حصار میں مدرسہ بنایا اور اس مدرسہ میں تعلیم اور تعلم کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن ملک میں پیدا ہونے والے فساد کے خلاف جہاد نے آپ کی دینی تعلیم کا یہ دوسرا سلسلہ بھی منقطع کردیا۔ملا صاحب حصول علم کے پیاسے تھے۔ آپؒ مدارس، علمائے کرام اور طالب علموں کا احترام کرتےاور ہمیشہ دینی مدارس کے پھیلاؤ اور علمی خدمات کی کوششوں میں رہتے تھے۔
٭٭٭٭٭
1 اس کتاب میں اکثر جگہ ملا محمد عمر مجاہد کو صرف ’ملا صاحب‘ کے نام سےیاد کیا گیا ہے۔ ملا صاحب افغانی معاشرے میں ایک احترام کا نام ہے۔ جو کہ اس دینی عالم کو کہا جاتا ہے جس کا تعلیمی سلسلہ تکمیل تک نہ پہنچا ہو۔ امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد اپنے ساتھیوں کے درمیان اسی لقب سے مشہور تھے۔
2 بڑا دائرہ