الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد
فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ ﴾ (سورۃ الانفال: ۲۰، ۲۱)
صدق اللہ مولانا العظیم،رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ
پیارے بھائیو!
پچھلی آیات میں اختتام اس بات پر ہوا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کافروں کی چالوں کو کمزور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معیت، اللہ کی نصرت اہل ایمان کے ساتھ ہے۔ تو اس کے بعد ساتھ ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو۔ تو یہ اطاعت کا حکم ساتھ ہی اس لیے آیا کہ کہیں یہ سن کر کہ اللہ کی معیت ہمارے ساتھ ہے ہم غافل نہ ہوجائیں ۔تو ساتھ ہی کہا گیا کہ یہ اترانے کا مقام نہیں بلکہ شکر گزاری کا تقاضا ہےکہ مزید اللہ کے سامنے جھک جایا جائے اور مزید اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں آگے بڑھا جائے۔
پیارے بھائیو !
یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت ہمارے دین کا مغز یا اس کا جوہر یا اس کا محور ہے۔ اس کے گرد دین اسلام گھومتا ہے۔ اسلام نام ہے اللہ کے احکامات کی پابندی کرنے کا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اللہ کے احکامات ہم تک پہنچائے ،جو آپ کی پسندو ناپسند یعنی اللہ کی پسندو نا پسند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچائی، تو اس کی اتباع کرنا اور ان چیزوں کی پابندی ا ختیار کرنا، یہ بنیادی طور پہ وہ شریعت ہے جو ہمیں دی گئی۔ تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہماری زندگی کا ضابطہ حیات ہے۔ دین اسلام ہماری زندگی گزارنے کاوہ طریقہ ہے کہ جو آخرت میں ہماری نجات کا باعث بنے گا، جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قرب کا باعث بنے گا، ہر مسلمان سے اس کی اطاعت مطلوب ہے اور کوئی جہاد کررہا ہو ،نام بھی شریعت کا لے رہا ہو، کہتا ہو کہ میں نفاذ شریعت کے لیے لڑتا ہوں تو اس کی زندگی میں نفاذ شریعت کا رنگ رچا بسا ہونا یہ عام مسلمان سے بھی بڑھ کے زیادہ مطلوب ہے ۔جو شخص جو دعوی کررہا ہے اس کو سب سے پہلے اپنی زندگی میں اس دعوے کو ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنی بات میں سچا ہے، واقعتاً وہ اپنے نفس کے لیے نہیں لڑرہا، اپنے مفاد کے لیے نہیں لڑرہا، وہ اپنی ذاتی حکومت وبادشاہت قائم کرنے کے لیے نہیں لڑ رہا ……،اس کا قتال واقعتاً شریعت کے غلبے کے لیے ہے اور اللہ کے دین کے غلبے کے لیے ہے۔ تو میں اور آپ اپنی اپنی زندگیوں میں جھانک کر دیکھیں کہ جتنا مقدس جھنڈا ہم نے اٹھایا ہے، جتنا بڑا دعوی ہم نے کیا ہے، اس کی مناسبت سے کیا ہماری زندگیوں میں بھی شریعت کی اتباع اور اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت موجود ہے؟ تو قرآن نے انبیا علیہم السلام کا اسوہ یہی بتایا ہے کہ وہ جس چیز کی طرف دعوت دیتے تھے سب سے پہلے اس کے رنگ میں رنگے جاتے تھے ۔ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ تو جیسےحضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میں نہیں چاہتا کہ جس چیز کی طرف تمہیں حکم دوں اس کی خود مخالفت کروں‘‘،تو اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اس سرزمین کے اوپر شریعت نافذ ہو، پاکستان میں شریعت نافذ ہو ، پورے برصغیر میں، پورے اسلامی ہند میں شریعت نافذ ہو، اسلام کا غلبہ ہو ،پھر آگے بڑھتے بڑھتے پورے عالم میں خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو ،تو سب سے پہلے پھر جس دین کے غلبے کی ہم بات کررہے ہیں وہ مجاہدین کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بھی وہ دین نظر آنا چاہیے اور اسی طرح اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ ذکر کیا وہاں بھی آپ نے ،جب آپ نے دوسروں کو توحید کی دعوت دی تو ساتھ ہی کہا وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ،سب سے پہلے اسلام لانے والا میں خود ہوں، سب سے پہلے میں پہل کرتا ہوں، اپنے آپ کو اس کا پابند بناتا ہوں ۔تو یہ ہم سے بھی مطلوب ہے کہ جو دعوی ہم کررہے ہیں اس میں اپنے آپ کو سچا، اللہ کے سامنے ،سب سے پہلے ثابت کریں اور پھر وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ،اللہ اور اہل ایمان سب ہی دیکھ رہے ہیں ہماری بات کو، ہمارے عمل کو کہ آپس میں کتنا مطابقت رکھتے ہیں۔
داعی کی اپنی زندگی شریعت کی اطاعت کا مظہر ہونی چاہیے
جب ہم شریعت کی اتباع کی بات کرتے ہیں تو شریعت کے احکامات دو بڑے اجزاء میں تقسیم ہوتے ہیں ۔عبادات میں اور معاملات میں۔ تو عبادات میں بھی ہماری زندگیاں شریعت کی پابند ہونی چاہیے ہیں۔ وہ نماز روزہ ہو، قرآن کی تلاوت و اذکار کا اہتمام ہو ،نوافل اور سنتوں کا اہتمام ہو، تو ان سب امور میں، زکوٰۃ کی ادائیگی میں، جو استطاعت رکھتا ہو اس کے لیے تو ان سب امور کے اندر، ہمیں عبادات کے اندر اپنے آپ کو شریعت کا پابند بنانا ہے۔ جو اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حقوق ہیں ہمارے اوپر ان کو ادا کرنا ہے۔اسی طرح معاملات کا معاملہ ہے اور معاملات میں، یعنی دوسرے انسانوں سے جو اس کا تعامل ہے بالعموم انسان اس میں کوتاہی زیادہ کرتا ہے ، وہ تجارت میں کسی کے ساتھ مشترکہ طور پہ اترتا ہے یاخود بھی ایک تجارت شروع کرتا ہے تو وہاں انسانوں سے روز مرہ کا اس کا معاملہ ہے، وہ نام جہاد کا لے اور شریعت کا لے لیکن خود اپنی روز مرہ دکانداری کے اندر وہ ڈنڈی مارتا ہو، وہ دعوت دیتا ہو جہاد کی یا وہ بالفعل قتال کر رہا ہو، یا وہ شریعت کی دعوت دیتا ہو یا بالفعل اس کے نفاذ کے لیے وہ اسلحہ بھی اٹھائے کھڑا ہو، اس کو سوچنا چاہیے کہ جس بات کاوہ دعوی کررہا ہے پھر اس کے کاروبار میں بھی نظر آنا چاہیےوہی دعوی، اسی طرح جو گھروں کے اندر وراثت کی تقسیم کے مسائل آتے ہیں،تو مجاہدین کے گھروں کے اندر باقیوں سے بڑھ کے اس کا اہتمام ہونا چاہیےکہ ہمارے ہاں جو مکروہ طریقہ ہے خواتین کو حصہ نہ دینے کا، ہماری زندگیوں،ہمارے گھروں میں کم از کم وہ چیز نہ موجود ہو۔ پردہ ہے…… وہ شریعت کے مطابق گھروں کے اندر نافذ ہو اور گھروں کے اندر پردے کے احکامات کی مخالفت نہ کی جاتی ہو ۔ منکرات ہیں ……ٹی وی گھر کے اندر چل رہا ہے ،فلمیں گھر میں چل رہی ہیں، گانوں کی آوازیں گونج رہیں ہیں اگر دین کا اور جہاد کا نام لینے والوں کے گھر ایسے ہوں گےتو کیسے وہ اپنے دعوے کے اندر سچے ہو سکیں گے؟ اللہ کے ہاں بھی وہ کیسے سچے ہوسکیں گےاور اہل ایمان کے ہاں بھی!
تو اپنی زندگیوں سے ان منکرات کو بھی نکالا جائے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر جو فضول خرچیاں اورجو ہندوانہ رسومات ہمارے معاشروں میں رائج ہیں، ہماری زندگیاں ان سے بھی پاک ہوں اور اس سے لے کرآخر تک، روز مرہ کے تعامل میں، صلہ رحمی کرنے میں ،رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے میں ،والدین کے حقوق ادا کرنے میں، اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے میں …… واجبات کی اور فرائض کی ایک طویل فہرست ہے جو ہمارے ذمہ بنتی ہے، تو وہ ہم سے معاف نہیں ہوئے، وہ سارے کے سارے ہم نے بقدراستطاعت پورے کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ تو عبادات اور معاملات دونوں میں اپنی اپنی زندگیوں کو ہم شریعت کے مطابق ڈھالیں۔ ایک شریعت کی بات کرنے والے کی بات کا سارا وزن گر کے زمین پہ آجاتا ہےاور وہ اللہ کے ہاں مؤاخذہ کا باعث بھی بن سکتا ہے کہ جب اس کے اپنے گھر کے اندر اس کا اپنے چچا سے ،اپنے کزنز سے ،اپنے رشتہ داروں سے ،اپنے بڑوں سے ،بزرگوں سے، اس کا رویہ اچھا نہ ہوتا ہو، ان سے بدتمیزی سے پیش آتا ہو، ان کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرتا ہو۔ تو جہاد یقینا فرض عین اور اہم ترین فرض عین ہے اور اسی کو ترجیح اوّل رکھا جائے گا موجودہ حالات میں لیکن اس کے ساتھ اگر کوئی چیز کسی درجے میں نبھائی جاسکتی ہے، بالخصوص ان ساتھیوں کے لیے جن کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ان کے لیے زیادہ آسانی ہے، مثلاً کوئی پاکستان کے اندر کسی دعوتی کام میں مصروف ہے،وہاں کسی جہادی کام کے اندر لگا ہوا ہے اور گھر والوں سے اس کا تعامل بھی ہورہا ہے تو وہاں اس کے لیے ممکن بھی ہے کہ وہ محاذ پہ بیٹھے ساتھی کی نسبت زیادہ بہتر طور پہ حقوق ادا کرے۔اس کے لیے کیسے گنجائش ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اندر شریعت کے ان احکام کو پامال کرتا ہو ۔
اصلاح اعمال کے ساتھ اصلاح عقائد کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے
تو پیارے بھائیو !
یہ ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کہ اپنی پوری زندگی کو، خواہ اللہ کے حقوق ہوں یا بندوں کے، ان اعمال کو شریعت کے مطابق ڈھالا جائے ۔ اسی طرح سے عقائد سے متعلق چیزیں ہیں۔ مجاہدین کو اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیےکہ ان کے عقائد کے اندر کسی قسم کی ملاوٹ، کسی قسم کی بدعت ،کسی قسم کی شرکیات کی بو تک جو ہے برداشت نہ کی جاتی ہو اور اس مسئلے کے اندر بالکل صاف شفاف عقائد کے اوپر کھڑے ہوئے ہوں، نا صرف یہ کہ اپنی زندگی کے اندر بلکہ اپنے ارد گرد اپنے رشتہ داروں، اپنے گھر والوں ، اپنے محلوں کے اندر بھی عقائد کو شریعت کی روشنی میں درست کروانے کا اہتمام کریں۔ ہمارے ہاں تو یہ وبائیں پھیلی ہوئی ہیں معاشرے کے اندر، عام ہے یہ چیز کہ لوگ قبروں پر جاتے ہیں، وہاں نذرانے چڑھاتے ہیں، وہاں سجدے کرتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں……تو جن کے گھروں اور خاندانوں میں یہ امراض پھیلے ہوئے ہیں، وہ وہاں پہ حکمت کے ساتھ، سلیقے کے ساتھ ،اس کو روکنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ تو شریعت کی ایک چلتی پھرتی دعوت ہماری زندگیوں میں نظر آنی چاہیے ، ان کی زندگیوں میں بھی کہ جنہوں نے شریعت کا نام لیا اور یہی ایک عام مسلمان سے بھی مطلوب ہے کہ اپنی زندگی میں سے خلاف شرع چیزوں کو دور کرے۔
فکری انتشار کی اصلاح
یہاں میرے پیارے بھائیو! اس چیز کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں بہت بڑی تعداد ہماری، بالخصوص نوجوان نسل کی وہ ہے کہ جس نے اپنے علم فہم اور اپنی ذہن سازی کے لیے میڈیا کے اوپر انحصار کیا ہے۔ جو کچھ میڈیا سے اس کے اندر پمپ کیا گیا ہے ،اسی کو اپنے اندر اپنے دل ودماغ کے اندر جگہ دی ہے اور دوسری چیز ہمارا فاسد عصری نظام تعلیم ہے کہ اس نے جو بھی چیزیں اندر فیڈ کی ہیں وہ اس کے اندر اسٹور (محفوظ) ہوچکی ہیں۔ تو اس سب کے زیر اثر جو مفاسد نکلے ان میں سے ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ اطاعت کرنے کو، اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرنے کو، شریعت کی پابندی کرنے کو ،دل پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اور جب اس کا کوئی ذکر کرے تو اس طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا ہےکہ چہرے کے اوپر ایک تنگی نظر آنے لگتی ہے، محسوس ہوتا ہےجیسے گراں گزر رہی ہے یہ بات ۔ دین کو وہ جکڑ بندی سمجھتا ہے۔ دین کو قید سمجھتا ہے ۔تو اللہ کے اس دین کو کہ جس سے زیادہ سہل ،جس سے زیادہ قریب از فطرت دین نہ ہے نہ ہوسکتا ہے اور جس کے اندر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اتنے خوبصورت احکامات کا مجموعہ ہمارے لیے اتارا، جو چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی تروتازہ ہیں اور جنہوں نے تاقیامت رہنا ہے۔ یہ نبوت ہے قیامت تک کے لیے تو اس نے ہر بدلتے حالات، ٹیکنالوجی کے اعتبار سے انسانی معاشرے کتنا ہی آگے کیوں نہ نکل جائیں، یہ شریعت اللہ کا علم ہر چیز پہ محیط تھا تبھی اللہ نے سارے آنے والے امور کے مطابق یہ احکامات اتارے جنہوں نے سب ادوار میں، سب بدلتے ہوئے حالات میں رہنمائی فراہم کرنی ہے۔ تو یہ دین سہل دین ہے۔ یہ دین ایسا ہے کہ کوئی اس کو واقعتاً قریب سے دیکھے، کھلی آنکھوں سے اس پہ غور کرے تو اس کی محبت میں مبتلا ہوجائے اور جن چیزوں کو وہ جکڑ بندیاں سمجھ رہا ہے اس کو لپک کر وہ اختیار کرنے ولا بن جائے ۔ لیکن جس طرح میں نے کہا کہ جو تصویر پیش کردی گئی وہ یہ کہ مولویوں نے لوگوں کو جکڑ دیا چیزوں کے اندر اور پابندیاں لگاتے ہیں سارا وقت، منع کرتے رہتے ہیں چیزوں سے،یہ نہ کرو ،یہ نہ کرو…… تو انسان تھوڑی دیر بیٹھ کے تو دیکھے کہ مطلقا ً آزاد کوئی بھی نہیں ہوتا۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں ہے جو کہے میں مطلقا ًآزاد ہوں، میرے اوپر کوئی قیدو بند نہیں ہے۔ وہ جس ملک میں رہتا ہے اس کو اس ملک کے قانون کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ وہ جتنا بڑا بھی freedom اور human rights کا دعوی دار ہو، وہ اپنے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرےتو اس کو مار پڑے گی اس پہ۔ وہ خود بھی نہیں کہے گا کہ اس خلاف ورزی پہ مجھے سزا نہیں ملنی چاہیے۔ اسی طرح وہ اگر کسی معاشرے کے اندر رہتا ہے، اس معاشرے کے اپنے بھی کچھ پریشر ہوتے ہیں۔ اس کے گھر والوں کے، اس کے علاقے کے رسم و رواج ہوتے ہیں جن کا اس کو خیال رکھنا پڑتا ہے ۔پہلی بات تو یہ واضح ہونی چاہیے کہ مطلق آزادی کچھ بھی نہیں ہے۔یہ خیالی بات کتابوں میں انگریزوں نے لکھ دی ہے کہ آزادی ہونی چاہیے، آزادی ہونی چاہیے…، ایسی مطلق آزادی کوئی نہیں ہے۔ کسی نہ کسی چیز کا آپ نے پابند ہونا ہے ۔سوال صرف یہ ہے کہ کس چیز کا پابند ہونا ہے؟ کارل مارکس کے بنائے ہوئے فلسفوں کا پابند ہونا ہے ؟جون سٹیورٹ مل کی خرافات کا پابند ہونا ہے؟آپ نے فرائیڈ کی باتوں کا پابند ہونا ہے؟ آپ نے امریکہ کے احکامات کا پابند ہونا ہے؟…… کس کے احکامات کا پابند ہونا چاہتے ہیں؟ تو پابندی تو ہر ایک نے اختیار کرنی ہے ۔ایسا آزاد کوئی بھی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے کہ جو کسی بھی چیز کا پابند نہ ہو ۔وہ تو پھر پاگل ہوتا ہے کہ جو کسی بھی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا یا وہ جانور ہوتا ہے…، ویسے ان کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں…… لیکن چلیں جانوروں کے اندر یہ چیز پائی جاتی ہے کہ وہ کسی کے بھی کھیت میں گھس کے چر لیتے ہیں بغیر سوال کیے ہوئے کہ یہ کس کا کھیت ہے، لیکن انسان ہو، عقل وشعور رکھتا ہو، اور وہ کہے کہ میں مطلقا ً آزادی چاہتا ہوں اور نعوذ باللہ دین اس آزادی میں رکاوٹ ہے اس کے خیال میں، تو اس کو سوچنا چاہیے اپنے ساتھ بیٹھ کے ،یعنی شیطان کی باتوں میں نہ آئے، اپنے رب کو ناراض نہ کرے اس طرح کی باتوں کے ذریعے، تھوڑی دیر بیٹھ کے سوچے تو سہی۔ تو مطلق آزادی تو ہے ہی نہیں۔ اب بنیادی بات یہ ہے کہ پابندی کس چیز کی اختیار کروں؟
دین بے جا پابندیوں سے آزاد کرتا ہے
تو پیارے بھائیو!
یہ دین پابندیوں، جکڑ بندیوں کا دین نہیں ہے ،جیسے لوگ اسے پیش کرنا چاہتے ہیں ۔قرآن یہ کہتا ہے کہ نبی بھیجا اللہ تعالیٰ نے، النبی الامی بھیجا، الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ جس کا ذکر یہ تورات و انجیل میں اپنے ہاں لکھا ہوا پاتے ہیں اور صفت کیا بتائی اس نبی کی؟ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ جو بوجھ ان کے اوپر تھے اور جو قیدیں، جو زنجیریں جن میں یہ جکڑے ہوئے تھے ان کو ہٹانے کے لیے آیا۔ اس نے دور کردیں وہ قیدیں اور جکڑ بندیاں جو انسانوں نے خود اپنے اوپر طاری کر لی تھیں ۔ٹھیک ہے یہود نے اپنے اوپر بہت سی چیزیں خود طاری کی تھیں، اللہ نے ان پر نہیں لازم کی تھیں۔ نصارٰی نے اپنے اوپر وہ کچھ لازم کیا جو اللہ نے ان پر لازم نہیں کیا تھا۔ مشرکین ِمکہ نے اپنے اوپر لازم کیا جو اللہ نے لازم نہیں کیا ۔ان کو کس نے کہا تھا کہ وہ برہنہ ہوکے اللہ کے گھر کا طواف کریں ؟ان کو کس نے کہا تھا کہ وہ ۳۶۵ بت اللہ کے گھر میں سجائیں اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوں اور ان سب کے اوپر چڑھاوے چڑھاتے ہوں ؟ کس نے ان کو کہا تھا؟ کس نے ان کے او پر یہ مصیبت ڈالی تھی ؟انہوں نے خود اپنے اوپر ڈالی تھی۔ اللہ کا دین آیا اور اس نے ان کو ان قیود سے ،ان بتوں کی قید سے نکالا۔ نصارٰی نے اپنے اوپر رہبانیت طاری کی تھی۔ اللہ کا دین آیا اس نے اس رہبانیت سے ان کو نکالا اور جس نے بھی ہدایت قبول کرلی وہ اس گندگی سے نکل آیا ۔جو پھنساہے وہ آج تک پھنسا ہوا ہے ان میں سےکہ شادی نہیں کرنی انہوں نے! کس نے ان کے اوپر لازم کیا ؟کس نے کہا ہے کہ یہ نیکی کا کام ہے شادی نہ کرو؟ کس نے یہ پابندی لگائی ؟اسلام دین فطرت ہے ۔ہم نے کہا وہ ان ناجائز پابندیوں کو جو خود انسانوں کی یا شیاطین کی امپورٹ کردہ تھیں ان کو دور کرتا ہےوہ یہ دین۔ تو نصارٰی نے اپنے اوپر یہ پابندی لگائی، اللہ کا دین آیا اس نے اس پابندی کو ہٹایا اور وہ پابندی جس کا ذکر قرآن کہتا ہے وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا وہ رہبانیت جو انہوں نے خود جس کو ایجاد کیا اللہ نے نہیں مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اللہ نے نہیں ان پر واجب کی تھی ۔انہوں نے خود اپنے اوپر لازم کی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا اس کے بعد اس کا حق بھی نہیں ادا کیا۔ پورا کرنے کا۔
تو پیارے بھائیو!
یہ دین ان پابندیوں کو ہٹانے آیا تھا۔ یہ دین اس لیے آیا ہے۔ آج بھی، ہم صرف ماضی کی بات نہیں کرتے، یہ دین اس لیے آیا ہے۔آج بھی انسانیت غلام بنی ہوئی ہے۔ ہم اگر واقعتاً تھوڑی دیر کے لئے رک کے سوچیں تو اسلام پر جو کما حقہ عمل کر رہا ہے، بالخصوص وہ جو اس وقت جہاد پہ چل رہا ہے، جتنا وہ آزاد ہے، دنیا میں اتنا کوئی آزاد نہیں ہوسکتا۔ جتنی راحت میں وہ ہے، جتنی قیود سے آزاد وہ ہے ،اتنا کوئی اور آزاد نہیں ہوسکتا۔ ایک عام بندہ ہے بے چارہ ،اپنی معاش کے اندر اس کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے ایسی غلامی میں پھنسایا ہے کہ وہ قرضوں کے چکر میں پھنسا ہے وہ مختلف لوگوں کا غلام ہے ،وہ بینکوں کا غلام ہے ،بینک والے آتے ہیں بدمعاشوں کے ذریعے سے اس کی پوری جائیداد ضبط کرلیتے ہیں، اس کو گھر سے کھڑے پیر نکال دیتے ہیں کہ قرضہ ان کو واپس نہیں کیا۔ تو معاشی طور پہ ان کو جکڑا ہوا ہے ۔ان کو بینکوں کا اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا غلام بنایا ہوا ہے ۔ان کو مختلف معاشرتی جاہلی رسومات کا، جن کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے، ان کا غلام بنایا ہوا ہے۔ کس نے کہا ہے کہ شادیاں لاکھوں کروڑوں خرچ کرکے ہی ہوتی ہیں؟ دین نے تو بہت سہل رکھا شادی کو۔ لوگوں نے ہندوؤں کی دیکھا دیکھی اپنے اوپر رسومات نافذ کیں اور اس کی خاطر دن رات ایک کرکے کماتے اس لیے ہیں کہ بچی کا جہیز پورا کرنا ہے ۔کماتے اس لیے ہیں کہ لڑکے کی جب شادی ہوگی تو مہر بڑا دینا ہے۔ کس نے آپ کے اوپر لازم کیا؟ دین نے اس کو سہل رکھا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا، راستے میں ہی، خیبر کے دوران حضرت صفیہؓ سے نکاح ہوجاتاہے۔ دستر خوان بچھایاجاتا ہے ،جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ لے آتا ہے، کوئی ستو لاتا ہے، کوئی کھجوریں اور مل بیٹھ کر کھا کر نکاح کی جو رسم ہے وہ پوری کردی جاتی ہے۔ تو دین نے سہل رکھا ،انسانوں نے اس قید کو اپنے اوپر لازم کیا ،اپنے اوپر مشکل بنایا۔
اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہنے کو بڑے بڑے نام نظر آتے ہیں ،کہنے کو بڑی بڑی شخصیات نظر آتی ہیں، لیکن ایک امریکی عہدہ دار آجائے ،ایک گورا آجائے ،تو اس کے سامنے محض ان کے کھڑے ہونے کا انداز دیکھیں کہ وہ غلامی ان کے انگ انگ سے ٹپک رہی ہوتی ہے۔ وہ ہیلری کلنٹن سے ہاتھ ملا کے جتنا خوش ہوتے ہیں، اس سے پتا چلتا ہے کہ اس کا ذہن، اس کا قلب ،اس کے جسم کا رواں رواں غلام ہے انگریز کا۔ تو اس غلامی سے اللہ تعالیٰ نے نجات دی ہے،اگر انسان دین کو سمجھ جائے۔ ملک کے ملک ہیں ،چھ لاکھ فوج ہے ہماری پاکستان کیــ ہماری نہیں کہنا چاہیےــپاکستان کی فوج جو اس وقت پاکستان کی نہیں امریکہ کی فوج ہے وہ چھ لاکھ ہے ۔ایٹم بم اس کے پاس موجود ہے ۔لیکن وہ ایک ٹیلی فون کال پہ ہتھیار ڈالنے والی فوج ہے……ایسا کیوں ہے؟ دین کی وجہ سے نہیں ہے نعوذ باللہ، اس کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ یہ دین سے باغی ہونے کا نتیجہ ہے ۔دین پہ عمل کرنے والے ہوتے، تو ملا عمر کی طرح ہوتے ۔آج بھی آزاد ہوتے۔ ریاست دینا قبول تھا، سلطنت دینا قبول تھا ،لیکن امریکہ کی غلامی نہیں قبول تھی۔
تو پیارے بھائیو!
تھوڑی دیر سوچنے کی بات ہے ۔اسی طرح یعنی مختلف قسم کے کافروں کے فلسفی گزرے ۔جن کی ذاتی زندگیوں میں جھانک کردیکھیں ،تو اتنی غلیظ زندگیاں کہ سچی سی بات ہے زبان پہ انسان تذکرہ نہیں لاسکتا ان کے ذاتی کردار کے بارے میں، تو وہ ایک ایک بندہ جس کے فلسفوں کے پیچھے پورے روس نے اپنا ،کارل مارکس اور لینن کی خرافات کے اوپر ایک نظام کھڑا کیا، ہزاروں لوگوں کو، ہزاروں کیا کروڑوں کو اس نظام کا غلام بنایا اور اس خاص رخ کے اندر دھکیلا، لوگوں کی زندگیاں اس میں لگیں،لوگوں نے جنگیں کیں…… کمیونزم کو پھیلائیں گے، اس کی خاطر روس کے فوجی آآکے مرتے رہے افغانستان میں اور صرف ایک محاذ پہ نہیں دنیا میں اس وقت روس کا ہی، کمیونزم کا ہی بول بولا تھا، ایک جاہلی فلسفے کی خاطر لوگوں نے جانیں بھی دیں، اپنا سب کچھ کھپایا اور ایک غلامی قبول کی ۔بالآخر پتا چلا، پاگل آدمی کی خرافات تھیں۔ دیوانے کی بڑ تھی اور کچھ بھی نہیں تھا۔ چند دہائیوں کے اندر اندر وہ گر کے تمام ہوگیا۔ اب وہ گیا تو کیپٹل ازم آگیا۔ ڈیموکریسی آگئی۔ ان چیزوں کے پیچھے لوگ پاگلوں کی طرح بھاگنا شروع ہوگئے۔کیا ہے یہ؟ پیچھے لوٹ کر دیکھیں ،چند سر پھرے، بد کردار کافر، اللہ کے منکر،ملحد فلسفیوں کے افکار ہیں جو ان کی کتابوں میں لکھے ہیں ،جو ہمارے اندر درآمد کیے گئے جو ہمیں صبح شام پمپ کرکے ہمارے ذہنوں میں ٹھونسے گئے گویا جمہوریت کے بغیر دنیا چل نہیں سکتی،گویا کیپٹل ازم کے بغیر دنیا چل نہیں سکتی ۔ تو یہ اس طرح راسخ کردیا کہ اہل علم گھبرانے لگے اس کے خلاف بات کرتے ہوئے، اہل دین گھبرانے لگے اس کےخلاف بات کرتے ہوئے۔ کرتےکرتے غلام بن گئے کہ نہیں بن گئے؟ بن گئے ان کے افکار کے غلام۔ کسی کافر کی کتاب میں، شیطان نے جو وحی کی تھی، اس کے غلام بن گئے۔ چلتے رہے چلتے رہے۔ ابھی امریکہ کیا کہتا ہے؟ عراق پر کیوں حملہ ہے؟ جمہوریت کا تحفہ دینا ہے۔ جمہوریت نافذ کرنی ہے۔ بھئی تم سے کس نے مانگی ہے جمہوریت؟ افغانستان پر کیوں حملہ کیا ہے؟ جمہوریت نافذ کرنی ہے۔ طالبان نے ان کو جمہوریت سے محروم کررکھا ہے ۔تو یہ خرافات ہیں جن کی غلامی میں شیطان ہمیں مبتلا کرنا چاہتا ہے اور شیطان کے چیلے ہمیں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ۔واللہ اللہ کا دین ان سب خرافات سے آزاد کرتا ہے اور وہ ایک شعر
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
تو یہ مسئلہ ہے، سجدہ تو کرنا ہے، کسی نہ کسی کو تو سجدہ کرنا ہوگا ۔فرق اتنا ہے کہ ایک خدا کو کرنا چاہتے ہو یا ہزاروں خدا بنانا چاہتے ہو۔ پہلے۳۶۵ بت ہوتے تھے ۔آج بتوں کی شکل بدل گئی ہے۔ اب ملٹی نیشنل کمپنی کے غلام ہیں لوگ ۔وہ ادھر اشتہار دیتا ہے، اشتہار دے کہ آپ کے بچے کو ابھارتا ہے کہ والد صاحب جب گھر واپس پہنچیں آفس سے تو ان کے ساتھ لٹک جائے، چپک جائے، اور ان سے کہے کہ نکالیں پیسے میں نے فلاں برانڈ کے جوتے خریدنے ہیں۔ تو وہ جاتے ہیں اباجی، وہاں جاکے چڑھاوا چڑھاتے ہیں ملٹی نیشنل کمپنی کے قدموں میں۔ جو پسند ایک اشتہار کے ذریعے زبردستی ابھار کے سینے میں ڈالی گئی ہے جاکے اسے پورا کرکے دیتے ہیں۔ ایک پورا سسٹم ہے۔ آپ کو پہلے ابھارتا ہے،آپ کی خواہشات کو اور آپ کو ضروریات سے آگے بڑھ کر تحسینیات اور luxuries کے اندر آپ کو مبتلا کرتا ہے، اس کے پیچھے آپ دوڑتے ہیں اور اپنی دولت آپ بینکوں سے لیتے ہیں اور ان کے قدموں میں لے جاکر ڈالتے ہیں۔ یعنی آپ اس کے اندر tools ہیں۔ غلام سے بھی کچھ نیچےکی چیز ہیں۔ یہ کیا نظام ہے جو ہمارے اوپر اتنے عرصے سے مسلط ہے؟ اگر دین ہوتا تو حسنی مبارک ۴۰ سال یہ کرسکتا ؟۳۰ سال مسلط رہتا ؟اگر دین ہوتا معاشرے کے اندر اور زندہ اسلامی معاشرہ ہوتا تو قذافی جیسے سر پھرے آدمی ، جس کو کوئی اپنا چپڑاسی بھی رکھنا قبول نہ کرے،اس کو ملک کا حاکم قبول کیا جاتا؟
تو پیارے بھائیو!
یہ دین سے دوری کے نتائج ہیں۔ یہ ہمیں غلام رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ جو میڈیاصبح وشام، یہ جو نظام تعلیم لارڈ میکالے کا، ہمارے ذہنوں میں، ہمارے کانوں میں خرافات ڈالتا ہے یہ چاہتے ہیں ہم غلام رہیں اور اسلام آیا اس لیے ہے اور جہاد بالخصوص اس لیے آیا ہے کہ جو حضرت ربعی بن عامرؓ نے فرمایا رستم کے دربار میں جاکے کہ ہم کیوں آئے ہیں ؟اس نے پوچھا کیا چیز ہے جو تمہیں لے کے آئی ہے؟ کیوں آگئے ہو میدان میں لڑنے کے لیے؟ آپؓ نے فرمایا کہ اللہ ابتعاثنا اللہ نے ہمیں نکالا ہے واللہ جاء بنا اور اللہ ہی ہمیں لے کے آیا ہے تاکہ ہم لوگوں کو، انسانیت کو، انسانوں کی غلامی سے نکال کے ایک اللہ کی غلامی میں یا بندوں کے رب کی غلامی میں داخل کریں۔ تو یہ وہ ہے اور اس لیے آئے ہیں ہم تاکہ اللہ ہمارے ذریعے سے انسانیت کو دنیا کی تنگیوں سے نکالیں اور دنیا اور آخرت کی وسعتوں میں داخل کریں ۔تو یہ سوچنے کی بات ہے۔ ہم تنگی میں نہیں رہتے الحمد للہ۔ جو دین کو سمجھ لیتا ہے اس کی نظر تو اتنی وسیع ہوجاتی ہے ،اس کا دل اتنا وسیع ہوجاتا ہے، کافر اس کا تصور نہیں کرسکتا ہے۔ وہ جو روپے روپے کی خاطر ایک دوسرے کی جانیں لیتے ہیں اور وہ جو بھوکے کتوں کی طرح یورپ کے ملک صدیوں تک ایک دوسرے سے لڑتے رہے ہیں، ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے ہیں، وہ ہمیں آکر سکھائیں گے کہ دنیا کی وسعت کیا ہوتی ہے! وہ ہمیں بتائیں گے کہ ہم تنگ نظر ہیں!
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سراپا رحمت ہے
تو پیارے بھائیو!
یہ سمجھنے کی بات ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت رحمت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت نعمت ہے اس کے لیے جس کا سینہ اللہ تعالیٰ کھول دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتے ہیں۔ اللہ تمہارے اوپر تنگی نہیں چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب کیوں دینا چاہیں گے، مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کریں گے اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لانے والے ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں عذاب دینا نہیں چاہتے۔ اللہ کی رحمت موقع ڈھونڈتی ہے ہمیں بخشنے کے لیے، ہم پر کرم کرنے کے لیے۔ جو احکامات اترے، ہر حکم میں انسان کی مصلحت ہے۔ اللہ غنی ہے ہم سے۔ اللہ فرماتے ہیں وَاللّٰهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اللہ غنی ہے تم فقیر ہو۔ اسی طرح اللہ فرماتے ہیں مَآ اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کھلائیں پلائیں ۔ اس دین کو اتارنے میں یا احکامات بھیجنے میں، اللہ کا کوئی ادنیٰ، ادنیٰ، ادنیٰ مفاد بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک اور منزہ اور بری ہیں ۔ تو جو کچھ بھی ہے وہ ہماری ضرورت ہے ۔وہ ہماری مصلحت ہے ۔وہ ہم پہ رحمت ہے ۔وہ ہمیں ہماری بہتری کا راستہ دکھانا ہے جس پہ چل کے دنیا میں بھی ایک راحت کی،اطمینان کی اور سکینت کی زندگی، پاکیزہ زندگی، گزار سکتے ہیں، فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً اللہ کا وعدہ ہے کہ جو اللہ کے راستے پہ چلے گا اللہ اس کو پاک زندگی گزروائیں گے۔ اور آخرت کے اندر بھی اللہ ان کو بہترین اجر اور بہترین ثواب عطا کریں گے۔
تو پیارے بھائیو!
اللہ کو ہم سے کوئی غرض نہیں۔ کوئی بھی حکم اٹھا کے دیکھیں۔ حتیٰ کہ وہ احکامات جو رحمت پہ مبنی ہیں، وہ تو اتنے سارے ہیں، اتنے سارے ہیں ، ……پانی ہے تو وضو کرو…… وضو کرنے میں اللہ کا کوئی بھلا کرتے ہیں ہم؟ اپنے آپ کو ہی پاک صاف کرتے ہیں نا ۔ ہفتے میں ایک دفعہ نہانے کا اگر کہا تو کس کا بھلا کرتے ہیں اس کے ذریعے؟پانی نہیں ہے تو مٹی ہے تیمم کر لو۔ کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتے، بیٹھ کے پڑھ لو۔ بیٹھ کے نہیں پڑھ سکتے لیٹ کے پڑھ لو، اشاروں سے پڑھ لو، ہر ہر حکم میں آپ کے ساتھ تخفیف ،پھر تخفیف، پھر تخفیف…… اتنا آسان کیا ہے، اتنا سہل کیا ہے۔ پچاس نمازیں تھیں۔ پانچ پہ آگئیں۔ پچاس نمازیں ہوتیں تو ہم کیا کرتے ؟ ہم جیسے جن سے پانچ پوری نہیں ہوتیں، ان کا نہیں حق ادا ہوتا۔ ہر چیز میں دیکھیں…… روزہ ہے ،تو اتنی محدود اور آسان مدت کا رکھا، سال کے بارہ مہینے بھی حکم ہوسکتا تھا، چھ مہینے بھی حکم ہوسکتا تھا، ایک مہینے کے لیے حکم ہوا، وہ بھی پورے مہینے یعنی دن رات کا نہیں حکم ہوا ۔سحری کو سنت قرار دیا۔ افطاری کو سنت قرار دیا تاکہ کھا کے رکھو کھا کے اس کو کھولو۔ مشکل نہیں بنایا اس کو۔ ہر چیز کو سہل بنایا ہے۔ تو صرف سمجھنے کی بات ہے کہ اللہ کے احکامات جتنے بھی ہیں ان سب میں انسان کی مصلحت پوشیدہ ہے۔
اسی طرح ان احکامات میں کہ جن میں بظاہر سختی بھی نظر آتی ہے ایک سرسری نگاہ میں، یا کم از کم جن کو کافروں نے یوں پیش کیا ہے ہمارے سامنے کہ ہماری نسلِ نو ان چیزوں کے نام سے بھی گھبراتی ہے، تو حدود کو دیکھ لیں، جو سزائیں اللہ تعالیٰ نے نافذ کی ہیں یا جو اتاری ہیں ان کو دیکھ لیں۔ وہ ساری سزائیں بھی اسی طرح کی ہیں۔ اس میں ہماری مصلحت پوشیدہ ہے۔ چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے، کوڑے لگانے کا حکم ہے تو یہ سب کس لیے ؟ چور کا ہاتھ کٹتا ہے تو کس کی خاطر کٹتا ہے؟ اس میں کس کی مصلحت ہے؟ اسی معاشرے کی مصلحت ہےکہ اس سے انسانوں کے اموال محفوظ ہوں اور وہ بھی ایک دم سے کاٹنے کا نہیں حکم آگیا کہ کسی نے ایک سیب اٹھایا تو اس کا ہاتھ کاٹ دو ، نہیں! اس کا بھی ایک نصاب ہے کہ جب اتنے مقدار کی چوری ہوگی تو پھر ہاتھ کٹے گا۔تو یہ چیز بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، اسی طرح شراب پینے کے اوپر کوڑے مارنے کا حکم ہے تو اس حکم کے اندر کس کی مصلحت ہے ؟اسی معاشرے کی مصلحت ہے۔ انسانوں کی مصلحت ہے۔ ورنہ شراب ام الخبائث ہے ۔بیماریوں کی، تمام گندگیوں کی، جرائم کی جڑ ہے…… جو پیتا ہے وہ پھر پی کے قتل بھی کردیتا ہے، بدکاریاں بھی کرتا ہے، وہ اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے، انسانوں کے حق بھی مارتا ہے ۔ قصاص کا حکم دیا وہ بھی انسان کی مصلحت ہے اس کے اندر۔ گنتی کی چند قصاص کی سزائیں نافذ ہوئی ہیں پورے افغانستان میں ،پورے پانچ سال کے دور (اول) میں جو انگلیوں پہ گنی جاسکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں اللہ نے پورے افغانستان میں ایسا امن وسکون دیا کہ پورے اس دورمیں، ساتھی کہتے ہیں کہ افغانستان کے ریگستانوں میں تنہا، اپنے گھر والوں کو گاڑی پہ لے کے نکلتے تھے اور گھنٹوں چلتے چلے جائیں مگر کوئی نہیں ہوتا تھا جس کا خوف ہو، ورنہ افغانستان جیسے مسلح معاشرے میں، جہاں قدم قدم پہ کسی وقت ڈاکوؤں کا راج ہوا کرتا تھا، تو وہاں چند قصاص کی سزاؤں کے نفاذ کی برکت سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امن میسر کیا۔ یہ بہتر ہے یا امریکہ کہ جہاں خود ان کے اپنے بقول ،جیل ان کے لیے مصیبت بن چکے ہیں۔ اس لیے کہ قتل کی سزا وہ دیتے نہیں اور دھڑا دھڑ جیل بھرے جاتے ہیں اور وہ اتنی بڑی تعداد بن گئی ہے مجرموں کی جو لاکھوں میں چلی گئی ہے اور جن کو سنبھالنا، پالنا ، خود ایک پورا کام ہے۔ تو انسان جب خود اپنی عقل پہ انحصار کرے گا اللہ کے احکامات کو چھوڑ کے، پھر آخر میں ایسے ہی crisis میں جا کر پھنسے گا جہاں dead end ہوگا اور جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہوگا ۔
تو پیارے بھائیو!
اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت میں میری اور آپ ہی کی مصلحت ہے۔ انسان جتنا زیادہ دین کو پڑھتا ہے جتنا زیادہ اس پہ غور کرتا ہے، اللہ کے سامنے سر شرم سے بھی اور شکر سے بھی جھکتا چلا جاتا ہے کہ اللہ نے کتنا لطف کتنا کرم اور کتنی عنایت ہم لوگوں کے اوپر فرمائی اور کتنی آسانی در آسانی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اس کے اندر رکھی ۔تو يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ اللہ چاہتے ہیں کہ تمہارے اوپر تخفیف کریں، تمہارے لیے معاملے آسان کریں وَيُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا لیکن جو شہوتوں کے پیروکار ہیں وہ چاہتے ہیں تم ہٹ کر کہیں دور جا پڑو۔ وہ شہوتوں کے پیروکار ہیں جو ہمیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں اور ہمیں اس دین سے متنفر کرنا چاہتے ہیں اور دلوں اور ذہنوں میں شکوک ڈالنا چاہتے ہیں۔ پوری نسلیں جس طرح میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں ابھی کسی بھی یونیورسٹی کے اندر ،ہر یونیورسٹی کے اندر آپ کو ایسے لڑکوں کا تھوک کے حساب سے ایک انبار ملے گا کہ جو طرح طرح کے شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں۔ عقیدے کو ان کے اس طرح کاٹ دیا گیا ہے، نیچے سے کھوکھلا کردیا ہے شہوات اور شبہات نے، اس طرح دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے کہ انسان کو روناآتا ہے ان کی باتیں سن کر کہ یہ مسلمان ہیں! دنیا کہ معاملات پہ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے ان کے پاس کوئی ہدایت ہی نہیں آئی ہے، کوئی وحی نہیں آئی ،کوئی اس کے پاس رہنمائی نہیں ہے۔ تو بالکل سطحی، بے وزن اور بودی باتیں ان کی ہوتی ہیں، سنی سنائی باتوں کا چربہ و نقالی کرتے جاتے ہیں۔ جو میڈیا میں سنا اسی کو نقل کرتے جاتے ہیں۔ جو ٹاک شوز میں سنتے ہیں وہی منہ سے نکالتے ہیں۔ اوباما کے بارے میں رائے دے رہے ہیں…… اللہ کے بندو! تم مسلمان ہو، تمہیں اللہ نے قرآن میں ایک واضح ہدایت نامہ دیا ہے، اوباما کافر ہے ،اور وہ بھی کافروں کا سردار ہے،اس وقت دنیا کے کتنے خطوں میں مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے مگر اس کے بارے میں جب ٹی وی کے ایک پروگرام میں سڑکوں پہ لوگوں سے رائے لی جارہی تھی تو آپ رائے سنیں ان کی کہ ، اوباما ماشاءاللہ بہت اچھا ہے اور چونکہ اس کا اصلی رنگ کالا ہے اوراس کا علاقہ بھی فلاں ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اگلی دفعہ بھی وہی جیتے۔دوسرا ہے وہ اپنی عقل سے، تیسرا ہے وہ اپنی عقل سے، چوتھا ہے وہ بھی اپنی عقل سے……گویا اس کے پاس کوئی ہدایت نہیں ہے، کوئی رہنمائی نہیں ہے، خالی ڈبوں والی باتیں کیے جارہے ہیں۔ تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے،دکھ ہوتا ہے۔اس فہم کو انسان جتنا پھیلا سکے ، یعنی مجاہدین کے چیلنجز میں سے ایک چیلنج یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کو اور شریعت کی پابندی کو ایک محبوب چیز ، ایک دل پسند چیز ، ایک رحمت کے طور پہ پیش کریں اور خود اپنی زندگیوں میں اس شریعت کو لے کےآئیں اور خود اسی کی دعوت بھی اسی انداز میں پیش کریں کہ نعوذ باللہ، یہ کوئی وبال نہیں ہے، کوئی بوجھ نہیں ہے، بلکہ جس طرح ہم نے پہلے کہا کہ نبی تو آئے ہی اس لیے ہیں وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ بوجھوں کو اور قید و بند کو ہٹانے کے لیے آئے۔
تو اللہ فرماتے ہیں:
﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ﴾
’’ اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی، اس کے رسول ﷺ کی اور نہ منہ پھیرو اس کے بعد کہ تم سن رہے ہو‘‘۔
یعنی احکامات تم تک پہنچ چکے ہیں۔ تم تو ایمان لاچکے ہو ۔دعوٰی کرتے ہو مومن ہونے کا، پھر تو منہ نہ پھیرو ، پھر تو ان احکامات پہ عمل کرنے والے بنو۔
﴿وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ﴾
’’ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کہا: ہم نے سنا اور پھر انہوں نے (حقیقت میں) نہیں سنا ، (سنی ان سنی کردی)‘‘ ۔
تو بنی اسرائیل کا ذکر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیگر جگہوں پہ فرمایا کہ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وہ کہتے ہیں ہم نے سن لیا اور نافرمانی کی۔ تو سن کے بھی نافرمانی کرتے تھے۔ سن کے بھی احکامات کو پامال کیا کرتے تھے۔ تو اس رویے سے منع کیا کہ صرف سننا کافی نہیں ہے بلکہ سنو اور سننے کے بعد اس کی اطاعت کرنے والے بنو۔ اللہ کے دربار میں پیارے بھائیو ! جیسا علامہ سعدی ؒ فرماتے ہیں مجرد دعوٰی جو ہے وہ کام نہیں آئے گا۔ خالی دعوے اللہ کے دربار میں کام نہیں آئیں گے۔ اس دعوے کی تائید میں ہمیں ثبوت پیش کرنا ہوگا کہ ہم واقعی رب پہ ایمان رکھتے تھے ۔واقعی اس کے نبیﷺ پہ ایمان رکھتے تھے۔ واقعی ان سے محبت کیا کرتے تھے ۔واقعی ان کو ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ واقعی ہر ذات سے زیادہ عزیز رکھتے تھے تو یہ اللہ اور اس کے نبی ﷺسے ہماری محبت کا تقاضا ہے اور اس کو پورا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہماری زندگیوں میں اللہ اور اس کے نبی ﷺ کی اطاعت ہو اور حال ایساہوجائے کہ جیسا حدیث میں آتا ہے کہ تین نشانیاں یا تین صفات جس میں پائی جائیں اس نے ایمان کی حلاوت پالی۔ ان میں سے آخری نشانی یہ ہے کہ وہ اس بات کو کہ وہ دین سے لوٹ جائے اس کو اتنا ہی ناپسند کرتا ہو جیسے اس کو یہ ناپسند ہو کہ کوئی اس کو آگ میں ڈال دے ۔تو اتنا یہ دین محبوب ہو اوراس کے کسی حکم سے بھی دوری اتنی شاق گزرتی ہو ،گویا آگ میں پھینکا جارہا ہے انسان کو۔ اللہ تعالیٰ اس دین سے ایسی محبت، اس کا فہم اس کے لیے شرح صدر، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرما دیں۔
سبحانک اللھم و بحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی
٭٭٭٭٭