زیر نظر تحریر شیخ منصور شامی (محمد آل زیدان) شہید کے آٹھ عربی مقالات کا اردو ترجمہ ہے۔ آپ محرم ۱۴۳۱ھ میں وزیرستان میں شہید ہوئے۔ یہ مقالات مجلہ ’طلائع خراسان‘ میں قسط وار چھپے اور بعد ازاں مجلے کی جانب سے محرم ۱۴۳۲ھ میں کتابی شکل میں نشر ہوئے۔ ترجمے میں استفادہ اور ترجمانی کا ملا جلا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مترجم کی طرف سے اضافہ کردہ باتوں کو چوکور قوسین [] میں بند کیا گیا ہے۔ (مترجم)
غزوۂ بدر کبریٰ: دروس و فوائد
[ وجہ تسمیہ:جمادی الثانی ۲ ہجری کو کُرز بن جابر فہری (رضی اللہ عنہ، جو رؤسائے قریش میں سے تھے، اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، بعداً مسلمان ہوئے اور فتحِ مکہ کے موقع پر شہید ہوئے) مدینہ کی چراگاہ پر شب خون مار کر لوگوں کے اونٹ بکریاں لے بھاگا، رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی تو آپﷺ بنفسِ نفیس اس کے تعاقب میں نکلے، مقامِ سفوان (جو بدر کے قریب ایک جگہ ہے) تک پیچھا کیا، لیکن وہ ہاتھ سے نکل گیا، اس غزوہ کو غزوۂ سفوان بھی کہتے ہیں اور غزوۂ بدر صغریٰ بھی کہتے ہیں، اسلام اور کفر کی پہلی فیصلہ کن جنگ بھی چونکہ بدر کے مقام پر لڑی گئی اس لیے بطورِ فرق وامتیاز اسے غزوۂ بدر کبریٰ کہتے ہیں]
یہ غزوہ ہجرت کے دوسرے سال سترہ رمضان المبارک بروزِ جمعہ پیش آیا۔ اس غزوے کے واقعات اور نتائج زبانِ زدِ عام ہیں۔ یہ حق وباطل کے مابین فیصلہ کن معرکہ تھا، اسی لیے قرآنِ کریم میں اسے یوم الفرقان [حق وباطل کے درمیان فرق کر نے والا دن] کہا گیا ہے، آئندہ سطور میں ہم ان شاء اللہ اس غزوے کے مختلف واقعات و مناظر پر ٹھہر کر فوائدوعِبَر اخذ کرنے کی کوشش کریں گے۔
غزوے کا سبب
مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کے زیرِ قیادت وقت کی اسلام دشمن قوتوں کے سرخیل ’قریش‘ کے تجارتی قافلے کو نشانہ بنانا چاہا، یہ قافلہ اندازاً پچاس ہزار سونے کے سکّوں کی مالیت کے سامانِ تجارت سے لدا پھندا تھا، جبکہ حفاظت کے لیے محض چالیس کے لگ بھگ مسلح محافظین تھے۔
[کافر دشمن کی معیشت: ایک اہم ہدف]
اس قافلے کو نشانہ بنانے کا مطلب معاشی طور پر قریش کی کمر توڑدینا تھا اور اسلام اور کفر کے مابین جاری جنگ پر اس کا براہِ راست اثر پڑتا۔ ماضی اور حال کی جنگوں کے قواعد میں سے اہم ترین بنیادی قاعدہ جسے حکمتِ عملی کے ماہرین (پالیسی ساز) اور مؤرخین ہمیشہ ذکر کرتے آئے ہیں، یہ ہے کہ ’دشمن کو عسکری اور معاشی طور پر نچوڑدیا جائے‘، یہ بات بدیہی ہے کہ معاشی طور پر نچوڑنے کے لیے دوسرے حربوں کے ساتھ ساتھ عسکری کارروائیاں بنیادی سبب ہیں۔ جہادی جماعتیں اگر دشمن کی معیشت کو نشانہ بنانے پر توجہ مرکوز رکھیں تو ان شاء اللہ سارے ہی دشمن جلد ڈھیر ہوجائیں گے۔ [اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا کہ] امریکی وزیرِ دفاع رمز فیلڈ صحافیوں کے سامنے اپنی ناکامیوں کا جواز بیان کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ:
’’آپ ہم سے اِس سے زیادہ کس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں؟ آپ یہ نہ بھولیں کہ ہم لاکھوں خرچ کرنے والے دشمن کے مقابلے کے لیے اربوں خرچ کررہے ہیں۔‘‘
[لیکن اربوں خرچ کرکے بھی شکست ہی اس کا مقدر بنی۔
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ (محمد: 11)
’’یہ (کافروں کی بربادی)اس لیے (ہے)کہ اللہ ان لوگوں کا رکھوالا ہے جو ایمان لائیں اور کافروں کا کوئی رکھوالا نہیں ہے۔‘‘
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭفَسَيُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُوْنَ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ يُحْشَرُوْنَ (الانفال:36)
’’جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ اپنے مال اس کام کے لیے خرچ کر رہے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ خرچ تو کریں گے، مگر پھر یہ سب کچھ ان کے لیے حسرت کا سبب بن جائے گا، اور آخر کار یہ مغلوب ہوجائیں گے۔ اور ( آخرت میں) ان کافر لوگوں کو جہنم کی طرف اکٹھا کر کے لایا جائے گا۔‘‘
اللہ کا شکر ہے کہ غزوۂ بدر کا یہ منظر نامہ اللہ رب العزت نے ہمیں بچشمِ سر افغانستان میں دِکھایا۔ فالحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات]
رمز فیلڈ جتنا بڑا جھوٹا ہے اس کی یہ بات اتنی ہی سچی ہے۔ ایک مغربی محقق لکھتا ہے:
’’سوویت یونین کے سقوط کا سبب وہ چھوٹی چھوٹی جنگیں تھیں بالخصوص افغان جنگ اور اس سے تشکیل پانے والا منظر نامہ، جس نے اس کی ساری عسکری و معاشی قوت نچوڑ کر رکھ دی۔ امریکہ کا بھی اپنی حالیہ جنگوں (افغانستان وعراق) میں بعینہٖ یہی حال ہوگا۔‘‘
اپنی تحقیق کے اختتام پر محقق مزاحیہ انداز میں لکھتا ہے:
’’امریکہ کے جلد زوال کے لیے نچوڑنے کی حکمتِ عملی کو رواج دینے کی امریکہ کے دشمنوں کو کوئی خاص ضرورت نہیں، کیونکہ خود بش یہ کام بڑے اچھے طریقے سے کررہا ہے۔‘‘1
[مقاطعہ(بائیکاٹ):معاشی جنگ کا اہم محاذ]
نیز معاشی جنگ میں دشمن کی مصنوعات کا مقاطعہ (بائیکاٹ) بھی شامل ہے، کیونکہ دشمن کی معیشت کو کمزور کرنے میں اس کی تاثیر بھی کچھ کم نہیں، معاشی جنگ کےاس پہلو (بائیکاٹ) کا شعور و آگہی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دشمن کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس مبارک جہاد میں اپنا حصہ ڈالے۔ [طوفان الاقصیٰ کا مبارک معرکہ برپا ہونے کے بعد اس جنگ کا شعور غیر معمولی طور پر عام ہوا، اللہ جل شانہٗ سے دعا ہے کہ اس شعور میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو اور یہ ابنائے صہیون کا بائیکاٹ اور ان سے بیزاری تادمِ ظہورِ مہدی علیہ الرضوان برقرار رہے۔ طوفان الاقصیٰ کا صرف یہ ایک نقد فائدہ بھی کچھ کم نہیں کہ دوست اور دشمن کی پہچان آسان سے آسان تر ہوگئی ہے اور ’فرنگ کی رگِ جاں‘ کا ’پنجہ یہود‘ میں ہونا اب سازشی نظریہ نہیں رہا، بلکہ آشکار و مسلم حقیقت بن چکا ہے ۔]
یہ غزوہ غنیمت کی اہمیت اور اس کے حلال ہونے پر بھی دلالت کرتا ہے، اس امت کے لیے غنیمت کی حِلت کو بیان کرنے والی آیات و احادیث بے شمار ہیں، ان حضرات کی [شکست خوردہ] عقلوں پر تعجب ہے جو یہ بحث کھولے بیٹھے ہیں کہ آج کے دور میں غنیمت لینا جائز ہے یا نہیں؟!!
[غنیمت کی اہمیت اور اس کا دروازہ بند کرنے کے نقصانات]
مال جہاد کے لیے عضلات اور پٹھوں کی مانند ہے، جہاد کی بقا اور اس کو سہارا دینے کے لیے مال از حد ضروری ہے، [جہاد کی ضروریات کی تکمیل کے لیے] حصولِ مال کے متعدد ذرائع ہیں۔ یہ انتہائی سنگین غلطی ہے کہ مجاہدین کسی ایک ہی ایسے سرچشمے پر اکتفا کریں جو کسی دن خشک ہوجائے یا اپنا رخ بدل دے [یعنی عوامی چندہ، تبرعات]، ہمارادشمن پوری کوشش کرتا ہے کہ جہادکو تقویت دینے والے معاشی سرچشموں کو خشک کردے، تاکہ جہاد کو کمزور و بے جان کردے۔ [کفار کی ان چالوں کا توڑ رسول اللہ ﷺ ہمیں پہلے ہی سکھا گئے ہیں،
وجعل رزقی تحت ظل رمحی۔
مسند امام احمد، مسند حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما،حدیث نمبر ۵۱۱۴
’’اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے میں رکھ دیا گیا ہے۔‘‘ (یعنی جہاد سے حاصل ہونے والا مالِ غنیمت میرا رزق ہے۔)
ولا یزال طائفۃ من امتی امۃ یقاتلون علی الحق ویزیغ اللہ لھم قلوب اقوام ویرزقھم منھم حتیٰ تقوم الساعۃ۔
سنن نسائی، کتاب الخیل، حدیث نمبر:۳۵۶۱
’’اور میری امت میں سے ایک امت (مجاہد گروہ کو امت کہنے کی حکمت شاید یہ ہوکہ امتِ دعوت کا فریضہ وہی ادا کررہے ہوں گے، واللہ اعلم۔ از مترجم) ہمیشہ حق کی خاطر لڑتی رہے گی، اور اللہ کچھ قوموں کے دل ان مجاہدین کے لیے ٹیڑھے کردے گا (یعنی ان میں مجاہدین سے عداوت ودشمنی ڈال دے گا) اور ان مجاہدین کو ان دشمنوں سے (بصورتِ غنیمت) روزی دے گا (یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا) یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے ۔]
مزید برآں حصولِ مال کے ایک ہی ذریعے پر اکتفا مجاہدین کو چندہ دینے والوں کے تابع کردیتا ہے، کفار کی ایک چال یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ خود کو مخیر ظاہر کرنے والے اشخاص و اداروں کے ذریعے ایک عرصے تک مجاہدین کو خوب مال دیتے ہیں، اس مال کے ذریعے جہادی جماعتیں اپنا ڈھانچہ کھڑا کرتی ہیں اور خوب پھلتی پھولتی ہیں، پھر جب کفار یہ اطمینان کرلیتے ہیں کہ مجاہدین کا گزارہ اب ان چندوں کے بغیر نہیں ہوسکتاتو تب وہ اپنے خبیث مقاصد سمیت سامنے آتے ہیں اور مجاہدین کے لیے ناگزیر بن جانے والے ان اموال کے بدلے ان سے ذلت آمیز شرائط منواتے ہیں، اب دو ہی راستے بچتے ہیں، یا تو ان رسواکن شرائط کو مان لیں یا پھر انکار کرکے اپنا سارا جہادی ڈھانچہ قربان کردیں۔
لہٰذا اس خبیث سازش کا شکار بننے سے بچنے کے لیے بھی جہادی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مصادرِ تمویل متعدد اور متنوع ہوں۔
ان میں سب سے اعلیٰ ذریعہ جسے دشمن روک بھی نہیں سکتا، غنیمت ہے، جس میں دشمن کو معاشی نقصان پہنچانے کے ساتھ عزتِ نفس کی بقا اور کسی کا احسان لینے سے اجتناب بھی ہے۔ احکامِ شرع کی حدود ، قیود اور شروط کی رعایت کے ساتھ غنیمت کے دروازے کھولنے کی شدید ضرورت ہے، کیونکہ فتح کے سفر کو آگے بڑھانے اور دشمن کو مہلک ضربیں لگانے میں اس کی عجیب تاثیر ہے۔
مسلمانوں کی تعداد اور سازوسامان
اصحابِ بدر کی تعداد مہاجرین وانصار سب کو ملا کر کل تین سو سے کچھ اوپر تھی [مشہور قول ۳۱۳ کا ہے اور چونکہ جنگ کا ارادہ نہیں تھا، بلکہ تجارتی قافلہ ہدف تھا، جس کے ساتھ صرف چالیس کے لگ بھگ مسلح لوگ تھے، اس لیے] مسلمانو ں نے کوئی خاص اہتمام اور تیاری بھی نہیں کی تھی، صرف ایک یا دو گھوڑے تھے، ستر اونٹ تھے جن میں سے ہر ایک پر دو یا تین افراد باری باری سوار ہوتے تھے۔
دوسری طرف لشکر کفار میں ہزار کے قریب جنگجو تھے، سو گھوڑے اور چھ سو زِرہیں تھیں، اونٹ بے شمار تھے، راشن وغیرہ کا بھی عمدہ انتظام تھا، ایک دن نو(۹) اور ایک دن دس (۱۰) اونٹ ذبح کرتے تھے۔
دونوں لشکروں کے درمیان خالص مادی پیمانوں کے تحت موازنے کا تقاضا یہی تھا کہ کفار کا پلہ بھاری ہے تو وہ غالب آئیں گے، لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا کہ اللہ کے فضل سے مسلمانوں کو واضح فتح حاصل ہوئی۔ اس فتح میں اپنے سے تعداد میں کئی گنا زیادہ اور بہترین اسلحے اور وسائل سے لیس کفر کے سرکش لشکروں سے نبرد آزما مجاہد ’اقلیت‘ کے لیے بیش بہا درسِ عبرت ہے۔ [اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے سبق سیکھنے والا بنائے، آمین!]
دشمن کی تعداد اور سازوسامان کی بدرجہا برتری کے باوجود اس مجاہد ’اقلیت‘کو جو چیز فتح سے ہمکنار کرتی ہے وہ اس کا مخلوق کو چھوڑ کر صرف اور صرف خالق پر توکل اور بھروسہ ہے، جہاد اور صبر کرنے والا گروہ اللہ جل شانہٗ کے اس ارشاد کا مطلب بخوبی جانتا ہے:
وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ (آل عمران: 126)
’’فتح تو کسی اور کی طرف سے نہیں، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جو مکمل اقتدار کا بھی مالک ہے، تمام تر حکمت کا بھی مالک۔‘‘
لشکرِ طالوت کی یہ مجاہد ’اقلیت ‘جب جالوت کے ٹڈی دَل لشکر کے مقابل میں آئی تو بھی اس کی زبان سے یہی ’آسمانی حقیقت‘ ظاہر ہوئی۔
قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوااللّٰهِ ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ (البقرۃ: 249)
’’جن لوگوں کا ایمان تھا کہ وہ اللہ سے جا ملنے والے ہیں انہوں نے کہا کہ : نہ جانے کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں، اور اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں۔‘‘
گو شیطان بہت سے مسلمانو ں کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ڈرانے میں کامیاب بھی ہوا، یہاں تک کہ علم اور دعوتِ دین سے منسوب بہت سے لوگوں کا اس ابلیسی پروپیگنڈے سے پِتّہ پانی ہوگیا، اور انہوں نے اپنے خوف کو حکمت و مصلحت کا لبادہ اوڑھا دیا، لیکن شیطان جہادی طائفے کو ڈرانے میں ناکام رہا، کیونکہ وہ اس ارشادِ باری پر کامل ایمان رکھتا ہے:
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَهٗ ۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (آل عمران: 175)
’’درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔‘‘
پھر جب امریکہ کہتا ہے کہ (ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے ؟) تو مخلوق کی طرف دیکھنے والے اس سے خوف کھاجاتے ہیں اور خالق کی عزت نہیں کرتے، جبکہ اہلِ ایمان و صبر مخلوق کی قوت سے استدلال کرتے ہیں کہ یقیناً خالق کی قوت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۭ (فصلت: 15)
’’بھلا کیا ان کو یہ نہیں سوجھا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے وہ طاقت میں ان سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
عسیٰ ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم
[عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو]
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ (الانفال: 7)
’’اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ تم سے یہ وعدہ کر رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک تمہارا ہوگا، اور تمہاری خواہش تھی کہ جس گروہ میں (خطرے کا) کوئی کانٹا نہیں تھا، وہ تمہیں ملے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے احکام سے حق کو حق کر دکھائے، اور کافروں کی جڑ کاٹ ڈالے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے ساتھ پہلے سے وعدہ کررکھا تھا کہ تجارتی قافلے یا جنگی لشکر میں سے کسی ایک پر انہیں فتح دے گا، مسلمان تجارتی قافلے کے خواہاں تھے کہ وہ بآسانی ہاتھ آنے والی غنیمت تھا اور جنگی لشکر سے گریزاں تھے کہ اِس فتح کی قیمت خون بہنے اور اعضا کٹنے کی صورت میں ادا کرنی تھی۔
یہ عین انسانی فطرت ہے کہ وہ ہلاکت تو درکنار تنگی اور مشقت سے بھاگتا ہے، آسانی، راحت اور سلامتی چاہتا ہے، لیکن یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس دنیا میں بلندیاں پانے کے لیے جان کو مشقت اور خطرے میں ڈالنا بلکہ بسا اوقات قربان کردینا ضروری ہوجاتا ہے۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
عقلِ سلیم کاموں کے انجام اور مقاصد کو مدِ نظر رکھتی ہے، ابتدا اور مشقتوں کی پرواہ نہیں کرتی، مریض صحت یاب ہونے کے لیے کڑوی دوا بھی پی لیتا ہے اور باقی جسم کی تندرستی اور زندگی کی بقا کے لیے کینسر زدہ حصے کو کٹوانے پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے۔
جہاد میں گو خوف، بھوک، جانوں ، مالوں اور پھلوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، لیکن انجامِ کار اس کا فائدہ اسلام اور مسلمانوں میں حق میں عظیم تر ہے۔ بعد کے زمانوں میں چونکہ یہ مفہوم مسلمانوں کے دلوں سے نکل گیا اور اس کی جگہ دنیا کی محبت نے لے لی، موت سے ڈرنے لگے تو ان پر ایسی مصیبت، ذلت اور قتلِ عام مسلط ہوا کہ اگر وہ جہاد کرتے تو اس سے سوگنا کم جانی و مالی نقصان کے ساتھ عزت وسربلندی پالیتے۔ [افغانستان و فلسطین کی لڑ کر مردانہ وار شہادتوں کے اعداد وشمار کا ہند کے مسلمانوں کی مظلومانہ شہادتوں کی تعداد کے ساتھ تقابل کرلیں، ساری بات سمجھ آجائے گی اور لما یحیکم(الانفال:۲۴) میں جو جہاد کو حیات آفریں کہا گیا ہے اس کی عملی تفسیر بھی سامنے آجائے گی۔]
لاکھوں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا، روس میں دو کروڑ سے زیادہ مسلمان قتل کیے گئے، چین میں ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب مسلمان قتل کیے گئے، ہند میں لاکھوں مسلمانوں کو ذبح کردیا گیا، باقی دنیا [بنگلہ دیش، برما، فلپائن، تھائی لینڈ میں فتانی کا علاقہ، جمہوریہ وسطی افریقہ، جنوبی سوڈان، اریٹریا] میں یہ تعداد کچھ کم نہیں اور قتلِ عام کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
[خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد]
ہمیں ان لوگوں پر کوئی حیرت نہیں جو دنیا کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے موت کے خوف سے جہاد چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے گناہ کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ تعجب تو ان پر ہے جو اپنے اس خوفِ مرگ اور گناہ کو جائز قرار دیتے ہیں، اس کے لیے باقاعدہ شرعی دلائل گھڑتے ہیں، اور ستم بالائے ستم یہ کہ اپنے ترکِ جہاد کو جہاد قرار دیتے ہیں اور ان کا ستم یہاں پر بھی بس نہیں کرتا ، بلکہ دوسروں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں اور اپنی تیز زبانوں سے مجاہدین کو نشانۂ مشق بناتے ہیں۔
[غلبۂ دین کے خانہ زاد مناہج]
اور اس سے بھی زیادہ تعجب خیز وہ طرزِ عمل جسے علم و دعوتِ دین سے منسوب بعض گروہ اختیار کرتے ہیں! بڑی دینی جماعتوں میں شمار ہونے والی ایک جماعت یہ رائے رکھتی ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام اور ظلم وجبر کو ختم کرنے کا طریقہ صرف اور صرف سیاست میں حصہ لینا [اور کامیاب ہونا] ہے اور علی الاعلان فخریہ یہ کہتی ہے کہ ’وہ ہمیشہ آئین وقانون کی پابند رہی ہے اور اس بات کی کوشش کرتی رہی ہے کہ روایتی ہتھیاروں کو چھوڑ کر صرف آزادانہ سچی بات ہی ان کا اسلحہ ہو جس سے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور کسی کی ملامت کو خاطر میں نہ لائے‘۔
ایک دینی گروہ ’تصفیہ و تربیہ ‘ [یعنی محض عقائد کی اصلاح اور شرعی علوم کی ترویج] کو اصلاحِ نظام کا طریقہ باور کرتا ہے۔
ایک صاحبِ علم وفضل لوگوں کو یہ یقین دلانے میں لگے ہیں کہ قتل وقتال سے بچ کر محض ووٹ کی پرچی سے بھی آپ اسلامی حکومت قائم کرسکتے ہیں۔
ایک شیخ یہ تجویز دیتے ہیں کہ لوگ بادشاہ کے محل کے سامنے جمع ہوکر زار وقطار روئیں، تاکہ اس کی رحم دلی جوش میں آئے اور وہ شریعت نافذ کردے۔ سچ کہتے ہیں کہ دیوانگی کی اقسام بے شمار ہیں۔
یہ سب دراصل موت اور مشقت وآزمائش کا خوف ہے، جسے یہ حضرات حکمت ومصلحت کا لبادہ اُڑھا رہے ہیں اور حق کو باطل کے ساتھ خلط کرنے جیسے جرمِ عظیم کا ارتکاب کررہے ہیں۔
لیکن مومنینِ صادقین نے اِن سب لغویات اور فرض کی ادائیگی سے جان چھڑانے کے بہانوں سے اپنی جانوں کو راحت میں رکھا، انہوں نے جان لیا کہ غیب جاننے والے اللہ کا حکم سراپا خیر ہے، پس وہ اس پر عمل پیر اہوگئے اور جہاد کیا،
فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ ۭ وَاللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ (البقرۃ: 213)
’’پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انہیں اپنے حکم سے حق کی ان باتوں میں راہ راست تک پہنچایا جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا، اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
1 ادارۃ التوحش، صفحہ ۳۱