پاکستان کے شہر بہاول نگر میں عید کے روز ایک واقعہ پیش آیا جس کے ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئے۔ اِن ویڈیوز میں کہیں پنجاب پولیس اہلکار ایک گھر میں محبوس بیٹھے نظر آتے ہیں تو کہیں فوجی وردی میں ملبوس اہلکار پولیس والوں پر تشدد کررہے ہیں۔ تشدد سہنے والے ایک پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ رینجرز اور فوجی اہلکاروں نے پولیس سٹیشن کے اطراف میں لگے ہوئے کیمرے توڑ دیے اور ڈی وی آرز بھی اپنے قبضے میں لے لیں۔ بہاولنگر کے اس تھانے میں موجود دو اہلکاروں نے دعویٰ کیا کہ پولیس سٹیشن ڈویژن اے میں فوجی اہلکاروں نے نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ وہاں پہلے سے حوالات میں بند معطل شدہ پولیس اہلکاروں ایس ایچ او رضوان عباس، اے ایس آئی محمد نعیم، کانسٹیبلز محمد اقبال اور علی رضا پر ’بدترین تشدد‘ بھی کیا۔ پولیس اہلکاروں کے بیانات کے مطابق اس پورے واقعہ کی ابتدا آٹھ اپریل کو ہوئی۔ ایف آئی آرز کے مطابق 8 اپریل کو پولیس کی جانب سے ’چک سرکاری روڈ‘ پر دو مشکوک افراد کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ نہ رُکے۔ اسی اثنا میں پولیس ان میں سے ایک شخص محمد عرفان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی جس سے ایک 30 بور کا پستول برآمد ہوا۔ ایف آئی آر میں درج پولیس اہلکار کے بیان کے مطابق گرفتار ملزم نے اپنے ساتھی کی شناخت رفاقت کے نام سے کی اور اس کا پتہ بھی بتا دیا۔پولیس جب پتے پر پہنچی تو وہاں موجود ملزم نے اپنے بھائیوں اور اہلخانہ کو بُلا لیا جس کی جانب سے پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں گھر میں محبوس بھی کر لیا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکاروں بشمول سٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو آزاد کروانے کے لیے پولیس کی اضافی نفری طلب کی گئی اور اسی دوران تین مزید افراد محمد ادریس، خلیل اور ان کے والد انور کو گرفتار کیا گیا۔ ان سب پر کارِ سرکار میں مداخلت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بہاولنگر پولیس اہلکاروں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ گرفتار کیا گیا ایک شخص پاکستانی فوج کا حاضر سروس اہلکار تھا۔ دوسری جانب ملزمان کے اہلخانہ کی جانب سے مقامی صحافیوں کو بھیجی گئی ایک ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں نے نہ صرف خاندان کی خواتین پر تشدد کیا بلکہ ایک لاکھ روپے رشوت بھی طلب کی۔ واقعہ کے بعد پاکستان کی فوج اور پنجاب پولیس کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ بہاولنگر کے پولیس سٹیشن میں پیش آنے والے واقعہ کی شفاف اور مشترکہ تحقیقات کی جائیں گی تاکہ اصل حقائق کو منظرِ عام پر لایا جا سکے اور قانون کی خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کرنے والے ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔
ان ویڈیوز کے سبب سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج اور پنجاب پولیس پر کڑی تنقید بھی دیکھنے میں آئی۔ واقعہ کے بعد بعض پولیس اہلکاروں نے احتجاجاً مزید ویڈیوز اپلوڈ کیں۔ ایک ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار فوج کو سامراج کہہ کر پکارتا ہے اور اپنی پولیس قیادت کے معذرت خواہانہ بیانات سے دلبرداشتہ ہو کر استعفیٰ دینے کا اعلان کرتا ہے اور اپنی وردی بھی جلادیتا ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ تشدد سہنے والے پولیس اہلکاروں نے گولیاں کیوں نہیں چلائیں۔ وہ ترغیب دیتا ہے کہ آئندہ ایسی صورتحال میں فوجیوں کو گولی مار دینی چاہیے۔ ایک پولیس اہلکار کہتا ہے ’ہمیں تھانے میں برہنہ کر کے تشدد کیا گیا، ہماری تذلیل کی گئی جبکہ اس کے جواب میں آئی جی صاحب نے اپنے ویڈیو پیغام میں پولیس پر کیے گئے احسانات گنوائے، کتنا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس واقعہ کے بعد اپنی پولیس فورس کے ساتھ کھڑے ہوتے،مجھ سمیت کوئی بھی یہاں ڈیوٹی نہیں کرنا چاہتا، اتنی مار کھاتے دیکھ کر اور ذلت کے بعد تو عوام میں بھی پولیس کا خوف نہیں رہا ہو گا، ہماری قیادت نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے‘۔ کئی پولیس اہلکاروں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بہاولنگر پولیس احتجاجاً ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں تھی۔ ایک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’بہاولنگر واقعہ نے پولیس کو کمزور کیا ہے، اور اس سے بھی زیادہ نقصان پولیس کو آئی جی صاحب کے ویڈیو میسج سے ہوا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فوج کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا اچھا لگتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ ملک کے دیگر اداروں کا احترام نہ کریں۔ قانون تو سب کے لیے ہی برابر ہے‘۔ اس نے مزيد کہا کہ ’میں جس عہدے پر موجود ہوں مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ میں کیسے اپنے جونیئرز کو جوش و جذبے سے کام کرنے کا کہوں‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس واقعہ کے بعد پولیس میں بے چینی، غصہ اور بے یقینی کی کیفیت پائی جا رہی ہے جسے اعلیٰ سطح پر نظر انداز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایک اور افسر نے کہا کہ ’سب اچھا ہے، ہم بھائی بھائی ہیں‘ کا راگ سنانے سے سب ٹھیک نہیں ہو جائے گا۔ نعرے تو لگوا دیے تھے لیکن آئی جی صاحب کو چاہیے تھا کہ اپنی فورس کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوتے، اگر وہ ایسا فیصلہ کرتے تو ساری پولیس فورس ان کے پیچھے کھڑی ہوتی‘۔ ایک ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ہماری کیا حیثیت ہے۔ پچھلے ایک سال سے یہی فوج اور پولیس نو مئی کے بعد مل کر کام کر رہے تھے۔ جب پولیس کی ضرورت کم ہو گئی تو فوج نے کہا کہ ہمیں یاد دہانی کروا دیں کہ اس ملک میں ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ جو جے آئی ٹی بنائی گئی ہے اس کے آخر میں قصوروار پولیس ہی نکلے گی۔ کس کی جرأت ہے کہ کوئی فوج کو قصوروار کہے، چاہے پھر وہ ہمارے آئی جی ہی کیوں نہ ہوں‘۔
پولیس اہلکاروں کی ویڈیوز کے جواب میں فوجی اہلکاروں کی ویڈیوز بھی وائرل ہوتی رہیں جن میں وہ پنجاب پولیس اہلکاروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس واقعہ کی بنیاد پر فوج و پولیس کے کردار پر اتنی تنقید ہوئی کہ فوج کو ایک سال قبل کا عاصم منیر کا وہ بیان ریلیز کرنا پڑا جس میں وہ کے پی کے پولیس کے جوانوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں اور انہیں بتارہے ہیں کہ وہ اللہ کے سپاہی ہیں۔ پرانے بیان سے شاید اس لیے کام چلانا پڑا کیونکہ نئے بیان کے لیے سپاہیوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبرا رہے ہوں گے کہ کیا معلوم کوئی سر پھرا موصوف کو دن میں تارے دکھادے۔ موصوف کے اس بیان سے وہ امریکی جنرل یاد آگیا جس نے ایک بیان میں افغانوں کو مخاطب کرکے سمجھانے کی کوشش کی کہ اصل میں وہ یعنی امریکی ’مجاہدین‘ ہیں نہ کہ طالبان۔
بہاولنگر واقعہ پر جہاں پنجاب پولیس کا کردار معذرت خواہانہ رہا وہیں حکومت بالخصوص ن لیگ بھی خاموش رہی یا فوج کا دفاع کرتی نظر آئی۔ البتہ اپوزیشن اور صحافتی حلقوں میں اس ایشو پر کھل کر تنقید کی گئی ۔
فوجی اہلکاروں کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر تشدد کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ وقتاً فوقتاً ایسی خبریں اور ویڈیوز اخبار اور سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ چند دن لعن طعن ہوتی ہے اور پھر لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ ٹریفک پولیس اہلکاروں پر فوجیوں کے تشدد اور ان سے بدتمیزی کے لاتعداد واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار فوجیوں کو ٹریفک قوانین یاد دلانے اور ان پر عملدرآمد کروانے کی جرأت کرتا ہے اور نتیجہ ہمیشہ ٹریفک پولیس کی پٹائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایک کیس ایسا بھی ہوا جہاں پولیس اہلکار کو ایک فوجی افسر کی جانب سے اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ افسر کرکٹ میچ کے دوران سکیورٹی پروٹوکول کو بائی پاس کرتے ہوئے لوگوں کو اندر داخل کروانے کے لیے پولیس اہلکار پر زور ڈالتا رہا ۔
جس طرح بہاولنگر پولیس نے چھاپے اور گرفتاری کے دوران رویہ اپنایا یہ طریقہ کار کوئی نیا نہیں ہے ۔قیام پاکستان سے قبل جب سے پولیس محکمہ انگریزوں نے قائم کیا تھا تب سے اسی طریقہ کار پر چلا آ رہا ہے بس ان کی خباثتوں میں آئے روز اضافہ ہوتا ہے لیکن فوج آگ بگولہ اس لیے ہوگئی کہ انہوں نے اپنا جو Untouchable والا امیج بناکر لوگوں کے ذہنوں میں پیوست کیا ہوا ہے یہ اس پر کاری ضرب تھی۔ ورنہ اسی پولیس نے کیسے کیسے مظالم نہیں ڈھائے ہیں۔ بہت سے مظالم میں تو فوج باقاعدہ سرپرست رہی ہے۔
جعلی مقابلے ہوں یا جعلی مقدمے پولیس براہ راست فوج اور خفیہ اداروں کے زیر نگرانی اور ان کے اشاروں پر ہی کام کرتی ہے۔ راؤ انوار اور چوہدری اسلم جیسے درجنوں انکاؤنٹر اسپیشلسٹ جو سینکڑوں ہزاروں جعلی مقابلے کرتے ہیں مگر قانون کی گرفت میں نہیں آتے اسی لیے کیونکہ ایسا وہ فوج و خفیہ اداروں کے مکمل تعاون اور ان کے احکامات کے مطابق ہی کرتے ہیں۔ صحافی مبشر فاروق ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں جن دنوں راؤ انوار ایک معمولی سب انسپکٹر تھا اور ایک قتل کے سبب ہونے والے احتجاج اور عوامی دباؤ کی وجہ سے ڈی آئی جی اس سے تھانے کا چارج لے لیتا ہے، دوسرا افسر جب راؤ انوار سے چارج لینے تھانے پہنچتا ہے تو راؤ اسے تھانے میں ہی الٹا لٹکا کر تشدد کرتا ہے اور پھر پوچھتا ہے کہ تو کون ہوتا ہے مجھ سے چارج لینے والا۔ میں اپنی تعیناتی تو خود کرواتا ہوں۔ اس حرکت پر ڈی آئی جی پولیس مشتعل ہوکر اسے معطل کردیتا ہے۔ اب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف ڈی آئی جی کو فون کرتے ہیں کہ راؤ انوار کی معطلی کے آرڈر واپس لیں۔ ڈی آئی جی کہتا ہے میں ڈی آئی جی ہوں اور آپ ایک معمولی سب انسپکٹر کے لیے مجھے آرڈر واپس لینے کا کہہ رہے ہیں یعنی اس کے سامنے میری کوئی وقعت نہیں۔ نواز شریف اسے کہتے ہیں کہ پھر استعفیٰ دے دیں۔ یعنی راؤ انوار کی طاقت کا اندازہ لگائیے کہ ڈی آئی جی کو استعفیٰ دینا پڑا مگر راؤ انوار کو ہٹا نہیں سکا۔ صرف اس لیے کہ راؤ کی پشت پر فوج اور ایجنسیوں کا ہاتھ تھا اور وہ ان کے لیے کام کرتا تھا۔
کچھ یہی معاملہ پولیس سمیت تمام بیوروکریسی کا ہے۔ اگر آپ فوج و ایجنسیوں کے منظور نظر ہیں تو پھر آپ 14 گریڈ کے ملازم ہوکر بھی 18 گریڈ کے ملازم پر بھاری ہیں۔ کراچی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب انکاؤنٹرز کے لیے مختلف تھانوں کے افسران کے مابین جوا کھیلا جاتا تھا ۔ یہی حال ملک بھر کی پولیس کا ہے جو یا تو فوج و ایجنسیوں کے احکامات پر عملدرآمد کرتی ہے یا سیاسی حکومتوں کا آلہ کار بن کر مخالفین کو نشانہ بناتی ہے۔
بعض ماہرین کی نظر میں پولیس محکمے کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا اصلاحات سے اس محکمے کی درستگی ممکن ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تاریخ اور ابتدا پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی پارلیمنٹ نے پولیس ایکٹ 1861ء منظور کیا جس کا بنیادی مقصد ہندوستان کے عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنا، ان کا استحصال کرنا اور برطانوی مفادات کو تحفظ دینا تھا۔ اس ایکٹ کی منظوری کے وقت بھی ہندوستان میں اسے کالا قانون قرار دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی اس پولیس ایکٹ کے ذریعے عوام کو جبر اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تھانہ کلچر پیدا ہوا جو عوام دشمن اور اشرافیہ نواز تھا اور آج تک ہے۔ اصولی طور پر قیام پاکستان کے بعد اس پولیس ایکٹ کو فوری طور پر تبدیل کر دینا چاہیے تھا اور محکمے کی از سر نو تنظیم سازی ہونی چاہیے تھی مگر چونکہ برطانیہ نے پاکستان کو صرف جغرافیائی آزادی دی تھی انگریزی نظام ویسے ہی برقرار رہا، جبھی ہم دیکھتے ہیں کہ فوج اور پولیس جیسے اہم محکمے جن کا انگریز کے تسلط کو برقرار رکھنے میں اہم کردار تھا وہ اپنی اصل شکل میں برقرار رکھے گئے۔
آج پولیس حکمران اشرافیہ کا ایک ہتھیار بن چکی ہے۔ اشرافیہ پولیس کے ذریعے عوام پر حکمرانی کرتی ہے۔جیسے ہی حکومت تبدیل ہوتی ہے عوام کے نام نہاد منتخب نمائندے اپنے انتخابی حلقوں میں اپنے پسندیدہ تھانے دار تعینات کراتے ہیں۔ اگر کبھی کسی واقعے کے سبب غیر معمولی صورتحال بن بھی جائے اور عوامی دباؤ ہو تو وقتی طور پر پولیس افسران کو گھر بٹھا کر تنخواہ دی جاتی ہے، لوگ بھول جاتے ہیں اور پھر وہی افسر کہیں اور تعینات ہوجاتا ہے۔ اس کی واضح مثال ساہیوال کیس ہے جس میں ملوث افسران کو بعد ازاں مقدمات میں بری کردیا گیا اور بعض کو قومی ایوارڈ سے نوازا گیا اور ترقیاں بھی ملیں۔
بہاولنگر واقعے سے یقیناً ایک دراڑ پیدا ہوئی ہے جو مشکل ہے کہ بھر سکے۔ آج پولیس اہلکار یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ جن کی خوشنودی کے لیے وہ عوام پر ظلم کرتے ہیں اس ظلم کی سزا آخرت میں تو ہے ہی لیکن اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہیں کہ دنیا میں بھی انہیں اس ظلم کا مزا چکھائیں۔ یہی صورتحال باذن اللہ فوج میں بھی جلد بنے گی جب عام سپاہی ان جرنیلوں کے خلاف بغاوت کریں گے۔
٭٭٭٭٭