وہ ایک ذہین و فطین قابل خاندان کی غیر معمولی تعلیمی قابلیت رکھنے والی بیٹی تھی۔ اللہ رب العزت نے اسے سوچنے سمجھنے والا زرخیز ذہن عطا کیا تھا۔ دنیاوی تعلیمی ڈگریوں کے حصول میں بھی وہ وہاں تک پہنچی جہاں تک پہنچنے والے اکثر نہیں ہوتے اور جن اداروں میں اس نے پڑھا وہ بھی دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ٹین ایج میں ہی تعلیم کے سلسلے میں امریکہ چلی گئی اورپھر کئی سال وہیں رہی اور وہیں اس نے اپنے رب کے حق کو پہچانا۔
اللہ رب العزت نے انسان کو سوچنے سمجھنے غور کرنے والا دل و ذہن عطا فرمایا ہے۔ جس انسان نے بھی اپنے دل و ذہن پر تعصب، مغربیت اور کِبر کی پٹی نہ باندھ رکھی ہو وہ خواہ مسلمان ہو یا عیسائی، یہودی ہو یا ہندو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والا یا لادین…… اگر وہ اللہ کا باغی نہ ہو اور اپنے رب سے بغاوت و سرکشی کی خو نہ رکھتا ہو، فطرت کے مشاہدات پر غور و فکر کرتا ہو تو ہو نہیں سکتا کہ وہ جلد یا بدیر اپنے رب کو نہ پائے۔ یہی سب عافیہ کے ساتھ بھی ہوا۔ ایک عافیہ وہ تھی جو اپنی تعلیمی کامیابیوں کی خوشی سے سرشار، یونیورسٹی کا گاؤن پہنے، بے فکری سے مسکراتی، چہرے سے خوشی چھلکاتی تصاویر میں نظر آتی ہے اور پھر ایک وہ عافیہ ہے جسے اس کے رفقاء ’دین دار‘ کہتے ہیں اور جو امریکہ ہی میں انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ اینڈ ٹیچنگ کی سربراہ ہے اور جو قیدیوں کے لیے دینی تربیت کا انتظام کرنے والے ایک ادارے سے بھی منسلک ہے…… اور پھر ایک وہ عافیہ ہے جو اُسی امریکہ کی قید میں ہے جس امریکہ میں اس نے اپنی زندگی کے بہترین سال گزارے ہیں اور جس امریکہ کے اداروں میں پڑھ کر وہ وہ بن گئی جس کی بنا پر اسی امریکہ نے اسے چھیاسی سال کی قید کی سزا سنائی۔ واضح رہے کہ عافیہ نے کسی دینی مدرسے سے تعلیم و تربیت حاصل نہیں کی بلکہ وہ امریکہ کے معروف ادارے ایم آئی ٹی کی گریجویٹ تھیں۔
عافیہ کا جرم کیا ہے کہ جس کی بنا پر انہیں اپنے معصوم بچوں سمیت تیس مارچ ۲۰۰۳ء کو پاکستان کے شہر کراچی سے اس وقت اٹھایا گیا جب وہ اپنے گھر سے ایئر پورٹ جانے کے لیے نکلی تھیں اور پھر پورے پانچ سال تک ان کا کوئی اتا پتا کہیں نہ ملا؟ پاکستانی ایجنسیاں کہتی رہیں کہ ہمارے پاس نہیں ہے اور امریکی کہتے کہ ہم تو خود اس کی تلاش میں ہیں، ہم سے کیا پوچھتے ہو؟ دینے والوں نے گواہیاں بھی دے دیں کہ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۸ء کے مابین ہم نے انہیں یہاں اور وہاں دیکھا۔ مگر حقیقت کیا ہے؟ یہ عافیہ کا رب ہی جانتا ہے۔ گمشدگی کے اس پورے عرصہ کے دوران اور اس کے بعد عافیہ کس کس کے ہاتھوں کب کب اورکس کس ظلم اور کس کس تکلیف سے گزری اور تاحال گزر رہی ہے، یہ وہی جانتی ہے یا پھر وہ السمیع ، البصیر، الخبیر رب ۔ جب ’اپنے‘ ہی بے غیرت ہوجائیں، جب وہی بیٹیاں بیچ کر ڈالر کمانے کو فخریہ بیان کرنے لگیں تو پھر غیروں سے کسی بھی ظلم کا کیا شکوہ!
جملۂ معترضہ کے طور پرملاحظہ ہو کہ ’قوم‘ اور ’امت‘ کی بیٹی (یہ اپنی بیٹی کے ساتھ ہوا ہوتا تو ہم دیکھتے! قوم اور امت کو تو ویسے ہی کون اپنا تسلیم کرتا ہے! )کو ڈالروں کے عوض بیچنے والوں نے تو اپنی کتاب میں بھی ببانگِ دہل اس کارنامے کا اقرار کیا۔ مگر مغربی دجل دیکھیے، کہ دائرۃ المعارف وکی پیڈیا، جسے عموماً معلومات کے حصول کا قابلِ اعتماد ذریعہ ہم سمجھتے ہیں، تک عافیہ کی گرفتاری کی وہی داستان سناتا ہے جو مغربی میڈیا نے نشر کی۔ اللہ رب العزت تو فرماتے ہیں کہ ’’اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ‘‘، مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ مومنین مجاہدین پکار پکار کر ایک بات کہیں مگر جب تک اس بات کو مغربی آقاؤں کی سرپرستی میں چلنے والے جھوٹے، مکار اور دجالی میڈیا سے بیان نہ کیا جائے، ہمیں اس پہ یقین ہی نہیں آتا!
عافیہ کا واحد جرم، جو انہیں نشانِ عبرت بناڈالنے کے لیے کافی ہوگیا، وہ ان کا مسلمان ہونا اور اپنی مسلمانیت چھوڑنے پر راضی نہ ہونا تھا۔ فقط اللہ جانتا ہے کہ ان ظالموں نے ان کے ساتھ تو جو ظلم روا رکھا سو رکھا، ان کے بچوں کے ساتھ کیا کچھ کیا۔ ایک بچی کئی سال بعد گھر کے دروازے پر چھوڑی گئی، مگر چھوٹے بیٹے کا تاحال کچھ پتا نہیں۔ یہ کون سا جنیوا کنونشن ہے جس کے تحت قیدی، اور وہ بھی جسمانی طور پر انتہائی نحیف ایک عورت [گرفتاری (کے اعلان) کے وقت ان کا وزن محض اکتالیس کلو گرام تھا ]کے اوپر گولی چلانا اور ملزم کے ساتھ ساتھ اس کی اولاد کو بھی سزا دینا جائز ہوجاتا ہے؟ یہ کون سے انسانی حقوق ہیں جن کے تحت کسی انسان کو جبری طور پر لاپتہ کردیا جاتا ہے تآنکہ جیلوں سے رہا ہونے والی قیدی جیل میں اس کی موجودگی کی خبر دیں اور منظر عام پر جب یہ بات کئی ذرائع سے آجائے تو پھر اس فرد پر، جو ذہنی طور پر پورے ہوش و حواس میں بھی نہ ہو اور جو جسمانی طور پر بھی (شدید زخمی ہونے کے باعث) مقدمہ کا سامنا نہ کرسکتا ہو، پر اپنے ہی طور پر فرد جرم لگا کر، بلا ثبوت و شواہد ایسی سزا دی جائے کہ جس کو سن کر اہل کفر خود بھی اپنے نظام کی ناانصافی اور ظلم کی گواہی دے اٹھیں؟
آج ہم عافیہ کو یکسر بھلا بیٹھے ہیں۔ ہماری اپنی زندگیاں ہیں، ان زندگیوں کے اپنے مسائل، اپنی خوشیاں اپنے غم ہیں، کس کو فرصت ہے کہ ’پرائے‘ غم میں غلطاں رہے۔ ہم میں سے جو کوئی کبھی خیال آجانے پر عافیہ کے لیے دو حرف دعا کے بھیج دیتا ہے وہ اپنے تئیں ان کا حق کئی گنا ادا کردیتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عافیہ اور دنیا بھر کی نجانے کن کن جیلوں اور کن کن سیلوں میں قید امت کی ان گنت عافیاؤں کا ہم پر بہت بڑا حق ہے۔ کئی سال قبل پاکستانی ایجنسیوں کی قید سے ایک بزرگ رہا ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ جس خفیہ قید خانے میں انہیں رکھا گیا تھا وہاں سوات سے اٹھائی گئی کئی خواتین اپنے بچوں کے ساتھ موجود تھیں اور دن رات ان کی دل دہلا دینے والی چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ ایک مسلمان عورت اگر کفار کی قید میں چلی جائے تو جہاد فرض عین ہوجاتا ہے جبکہ آج تو ہم میں سے کتنوں کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں، کوئی ’اپنوں‘ کی تو کوئی ’غیروں‘ کی قید میں ہیں، کیا ہم پر اب تک جہاد فرض عین نہیں ہوا ہے؟
عافیہ گویا زبانِ حال سے کہہ رہی ہیں کہ
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گمشدہ آواز
عافیہ اور اس جیسی کئی دیگر عافیاؤں کے یہ نالے سنے جائیں گے، اس دربار میں کہ جہاں سب کی شنوائی ہوتی ہے۔ پھر وہاں عافیہ بھی پیش ہوں گی، ان کی قیمت لگانے والے بھی اور ان کے خریدار بھی…… اور وہاں وہ پوری امت بھی پیش ہوگی جو اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنی رہی، اور اس دن بادشاہت صرف اور صرف اللہ الواحد القھار کی ہوگی، پھر جس نے ذرہ برابر ظلم کیا ہوگا وہ بھی اپنا بدلہ پالے گا اور جس نے اطاعت و بندگی کی ہوگی وہ بھی اپنا حصہ پالے گا۔ پس اس دن کے آنے سے پہلے اپنی دائمی خوشیوں کا سامان کرنا ہی عقل مندی ہے۔ عقل مند وہ ہے، بمطابق حدیث، جو آخرت کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرلے۔ اللہ ہمیں اس امت کے مظلومین کا حق ادا کرنے والا بنا دے، آمین۔
٭٭٭٭٭