فلسطین کے لوگ جو حقیقت میں ہیرے لوگ ہیں، ایسے لوگ کہ جن کی صفات پہ اہلِ قلم لکھنے بیٹھیں تو پوری پوری کتابیں لکھ ڈالیں گے۔ ان بہادر پُرعزم ہیرے اور نگینے لوگوں کی عید الفطر:
آج عید الفطر کا مبارک دن ہے، ہر طرف خوشیوں کا سماں ہے۔ بچے، جوان، بوڑھے، عورتیں، ہر کوئی شاداں و فرحاں ہے۔ اللہ کا عظیم ترین مہینہ بخیر و عافیت گزر گیا اور انعامِ الٰہی کے طور پر ہمارے حصے میں عید کا مبارک دن اللہ کی جانب سے تحفے میں ملا، ہم خوش ہیں ہمارے لوگ خوش ہیں، عالمِ اسلام خوشیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
لیکن ہم سے دور ایک ایسی سرزمین بھی ہے جہاں خوشیوں کو آئے ہوئے سالوں سال گزر گئے۔ جہاں بچوں کو کھلونوں کے بجائے ہر طرف لاشو ں کے انبار لگے نظر آتے ہیں، جہاں نوجوانوں کو عبادت کے لیے خوبصورت مساجد کے بجائے پتھروں کے ڈھیر یا ریت کے ذرات نظر آتے ہیں، جہاں بازاروں کو مسمار کر دیا گیا، مکینوں کے مکانوں کو ملیا میٹ کر دیا گیا ہے، بچے یتیمی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ماؤں کی گودوں سے ان کے پیاروں کو چھین لیا گیا ہے، باپ کو اپنی اولاد، بہنوں کو اپنے بھائیوں، بیوی کو اپنے شوہر سے دور کر دیا گیا ہے۔ ظالم کا ظلم بڑھتا رہا لیکن انصاف کے علمبرداروں کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔ چھپن اسلامی ممالک سمیت پوری دنیا تماشائی بن کر دیکھتی رہی۔ خوبصورت غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا، لیکن پھر بھی عرب اپنی عیش و عشرت میں ڈوبے رہے۔ ماؤں بہنوں بچوں کی چیخ و پکار نے زمین ہو آسمان کو ہلا کر رکھ دیا۔ جی ہاں! زمین ہو یا آسمان…… ہلا کر رکھ دیے گئے، لیکن پتھر دل انسان پھر بھی خاموش رہے۔
ایک بار پھر اہلِ غزہ کے کھنڈرات زدہ گھروں، عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں میں عیدالفطر کا سورج طلوع ہوا، ہمیشہ مسکراتے چہرے ایک بار پھر کھل کھلا اٹھے۔ دشمن نے ان کے چہروں سے مسکراہٹ چھیننے کے لیے پوری طاقت استعمال کر ڈالی، لیکن اہلِ غزہ اتنے ہی ہنستے مسکراتے عید سعید کی تیاریوں میں مگن ہو گئے۔ وہ اہل غزہ جن میں کوئی باپ کی شفقت سے تو کوئی ماں کی ممتا سے محروم، کوئی بہنوں کے پیار کو ترس رہا تھا تو کوئی بھائیوں کی محبت کو کھو دینے میں تڑپ رہا تھا، لیکن پھر بھی سلام ہے ان ہیرے اور نگینے لوگوں کو، جو خوبصورت مسجدیں اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی تھیں، انہیں کھنڈرات میں اپنے رب کے حضور سر تسلیم خم کرنے پہنچ گئے۔ ایمان پر ثبات ہی حقیقی کامیابی ہے، دنیاوی محرومیوں کے باوجود عید کی خوشیاں کیسے منائی جاتی ہیں یہ اہل غزہ نے ثابت کر دکھایا۔ دنیا حیران تھی، ہر دیکھنے والی آنکھ اشکبار تھی، ہر صاحب درد کا دل تڑپ رہا تھا لیکن وہ عزیمت کے راہی اپنے رب کی رضا پر راضی زخموں سے چور بدن کے ساتھ اپنے رب کے سامنے جھک گئے۔
تمہاری گم ہوئی خوشیاں خفا جو تم سے مسکانیں
ہمیں واللہ ستائیں گی دلوں کو چیر ڈالیں گی
بھلا کر تم کو ہم اپنے وہ گھر کیسے سجائیں گے
بتاؤ ہم تمہارے بن یہ عید کیسے منائیں گے؟
اگر سچ کہوں تو غزہ والوں نے جینا سکھلا دیا۔ ۷ اکتوبر کے بعد اگر مجھ پر کوئی بھی پریشانی آئی تو خود کو مخاطب کیا: ’کیا تیرا غم و درد اہلِ غزہ سے زیادہ بڑا ہے؟‘ فوراً قلب و نظر و دماغ نے کہا: ’نہیں!‘…… بس پھر یوں نہ لگا کہ پریشانی تو کبھی آئی ہی نہ تھی۔
حقیقی عید تو ہے ہی ان عزیمت کے راہیوں کی جنہوں نے ۳۲ ہزار شہداء دے کر اپنی جانوں کو امت مسلمہ کے لیے ڈھال بنا کر دجالی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دنیا کو آزادی کا درس دیا۔ جی ہاں! اسی عید سعید کے دن ہی حماس کے قطر دفتر کے اپنے خاندان کے ساتھ شہداء کا نظرانہ پیش کرنے والے جہادی رہنما اسماعیل ہنیہ کو جب اپنے تین جوان بیٹوں اور پوتوں کی شہادت کی خبر موصول ہوئی تو دنیا نے دیکھا کہ وہ عظیم مجاہد پرسکون رہے اور کہا کہ یہ اعزاز ہے، دشمن اگر یہ سمجھتا ہے کہ میرے بیٹوں کی شہادت سے وہ ہمیں اپنے مقدس مشن سے روک لے گا تو یہ اس کا وہم ہے اور ایسا کبھی نہیں ہو گا، جہاد جاری رہے گا اور ہماری عظیم قربانیاں اسی تسلسل سے چلتی رہیں گی، ان شاء اللہ۔
یہی خبر جب جہادی رہنما اسماعیل ہنیہ نے اپنی اہلیہ جو اس سے قبل اپنے شہید بیٹوں اور دو پوتوں کے علاوہ اپنے ایک بھائی، اس کی اہلیہ، اس کے پوتے اور ایک اور بھتیجے کو بھی اسرائیلی جارحیت کے دوران کھو چکی ہیں، جو اس وقت بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل تھی۔ اسماعیل ہنیہ نے جاکر انہیں تین بیٹوں کی شہادت سے آگاہ کیا تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھی۔ واللہ یہ ایمانی قوت ہے جو اللہ کے خاص بندوں کو عطا ہوتی ہے۔ جب مسلمان کی نظر صرف اللہ پاک ہی کی ذات پر ہو، جنت کا شوق اور شہادت کی طلب اور جہاد مقصدِ حیات ہو، شکر رگ رگ میں رچا بسا ہو، صحابہ کرام و اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنا آئیدیل بنا لے تو اس سے ایسی ہی قوم بنتی ہے جو آج اہل غزہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
اہل غزہ تو یقیناً کامیاب ہوگئے۔ وہ تو سرخرو ہوگئے، وہ غزہ کے عظیم مجاہدین، وہ ہمت و بہادری اور جرأت کی عظیم داستانیں رقم کرنے والے تو اپنی آخرت سنوار گئے، لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے نوجوان جذبۂ جہاد اور شوق ِشہادت سے خالی ہیں ان کے دلوں میں دنیا و دولت، نام و نمود، فیشن، کرکٹ، سیاست، مادی ترقی، ان کو اصل زندگی کی لذت کا احساس ہی نہیں، شہادت کی چاشنی، جہاد کی عظمت، امت کے تعلق سے ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے یہ اس سے غافل ہیں اور اگر کوئی جہاد کی طرف لپکتا ہے تو نام نہاد سیاسی لوگ ان کو جمہوریت اور اقوام متحدہ کے دجالی نظام کی طرف موڑ دیتے ہیں جہاں گمراہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ دنیا سے شدید محبت اور موت سے خوف نے امت کے نوجوانوں کو اتنا بے وزن و بے وقعت بنا دیا ہے کہ اب وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر امریکہ و یورپ کے مادی فلسفۂ حیات میں پھنس چکے ہیں۔ اس دلدل سے نکلنے کا واحد طریقہ صرف اور صرف دین فطرت کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھال لینا ہے۔
اے اہل فلسطین! ہم مہاجرین و مجاہدین ان مبارک اور سعادت کی گھڑیوں میں تمہارے ساتھ ہیں۔ ہماری یہ عید اداس ضرور ہے لیکن ہم تمہاری عید سعید میں خوش ہیں۔ ہم مایوس نہیں ہیں، ہمیں پورا یقین ہے کہ جیسے امارت اسلامیہ افغانستان میں لوگ پرسکون و مسرور عید سعید گزارتے ہیں ایسے ہی بہت جلد ہماری بھی تمہارے ساتھ پرسکون و مسرور عید سعید گزرے گی۔ پھر ہم آپ کے ساتھ یوں مسکرائیں گے جیسے کھلتی ہوئی کلیاں سورج کی روشنی سے تاثر لے کر پھول بن جاتی ہیں۔
اے اہل فلسطین و پوری دنیا میں بسنے والے اہل ایمان! ہماری عید ہماری خوشی سب تمہارے ساتھ ہے، رحمتیں برکتیں سب تمہارے ساتھ ہیں۔
تقبل اللہ منا و منکم صالح الاعمال و غفر اللہ لنا ولکم وکل عام انتم بخیر یا غزہ العزہ و یا فلسطین و یا کل مسلمین
٭٭٭٭٭