تخلیقِ آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت قائم ہونے تک انسان کا دشمن ایک ہی ہے…… ابلیس لعین! دور جدید میں بھی اس قدیم دشمن کی چالیں وہی ہیں…… دقیانوسی! اسی نے فرعون کو سکھایا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرو تاکہ کوئی موسیٰ پرورش نہ پاسکے۔ فرعون کے سپاہی گلی محلوں میں ننھے بچوں کو لیے لیے پھرتے اور انہیں دانستہ رلاتے تاکہ فطری رد عمل کے تحت ایک بچے کے رونے کی آواز سن کر بنی اسرائیل کے گھروں میں چھپائے گئے بچے بھی رونے لگیں اور سپاہی ان کی ٹوہ پاکر انہیں قتل کر ڈالیں۔
آج اس اکیسویں صدی میں…… جب ٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی کرلی ہے…… اس جدید دور میں بھی قدیم دشمن کے داؤ پیچ قدیم ہی ہیں بس ان پر ٹیکنالوجی کا غازہ مل دیا گیا ہے۔ اہل غزہ پر اسرائیل نے قتل و خونریزی کی انتہا کردی۔ ان کے معصوم بچوں کو نا صرف دیدہ و دانستہ قتل کیا بلکہ ان کے قتل پر باضابطہ خوشیاں بھی منائیں۔ اسرائیلی خبثاء اس حد تک اخلاق سے عاری ہیں کہ غزہ میں موجود ایک fertility clinic کو بھی تباہ کردیا جس کے اندر موجود قریباً چار ہزار جنین (embryos) اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن کر دم توڑ گئے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اسرائیل اس قدر فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ ہے کہ اب ڈرون سے نوزائیدہ بچے کے رونے کی آواز نشر کی جاتی ہے،انسانی ہمدردی اور مدد و نصرت کے جذبے سے مغلوب مسلمان اپنی پناہ گاہوں سے نکل کر بچے کی آواز کا منبع تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے میں اسرائیلی ڈرون انہیں تاک تاک کر نشانہ بناتا ہے۔ جہاں اس حربے کا مقصد فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ہے وہیں ان کے دلوں میں خوف اور اندیشوں کے ناگ کو اس قدر تقویت دینا ہے کہ جس سے مغلوب ہوکر وہ انسانیت اور انسانی ہمدردی نامی اخلاق سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اسرائیل غزہ میں جو کررہا ہے اسے کسی بھی زبان اور کسی بھی اصطلاح میں جنگ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ صریح جارحیت ہے ، علانیہ ظلم ہے جس کا نشانہ عام مسلمان جان بوجھ کر بنائے جارہے ہیں۔ ایک ویڈیو کلپ میں واضح طور پر ایک فلسطینی مسلمان تنہا امدادی تھیلا اٹھائے جاتا دکھائی دیتا ہے…… ضمناً یہ کہ ایسے ویڈیو کلپ خود اسرائیلی ہی ریکارڈ کرتے ہیں اور خود ہی نشر کرتے ہیں کیونکہ وہ اس قدر بے حیا ہیں کہ انہیں اپنے مظالم پر پردہ ڈالنا بھی گوارا نہیں ہے…… وہ مسکین مسلمان جسے نجانے کتنی مشقت کے بعد امداد کا ایک تھیلا ملا ہوگا، وہ اسے اٹھائے اس امید پر ایک ایک قدم اٹھا رہا ہے کہ جب وہ یہ تھیلا لے کر اپنے لٹے پٹے، ملبے کا ڈھیر بنے گھر کے قریب پہنچے گا تو اس کے بچے خشک اور پپڑی زدہ ہونٹ لیے اس کے منتظر ہوں گے، اس کی بوڑھی ماں کی نگاہیں اسے دیکھ کر امید کی کرن سے جگمگا اٹھیں گی اور اس کی قحط زدہ بیوی اپنے بچوں کے لیے زندگی کی رمق امداد کے اس تھیلے میں تلاش کرے گی۔ مگر اسرائیلی وحشیوں کو یہ کب گوارا ہے کہ کسی فلسطینی کے پیٹ میں ایک لقمہ روٹی اور ایک گھونٹ پانی بھی چلا جائے جس سے اس کے زندہ رہنے کی امید بندھ جائے۔ وہ تو اس قوم کو جڑ سے ختم کردینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اپنے اسی ایجنڈے کے تحت وہ مساعدہ لے جانے والے اس مسلمان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ وہ چاہتے تو ان کے ماہر نشانہ باز اپنی پہلی ہی گولی سے اس کی جان لے لیتے…… مگر نہیں…… ان کے لیے تو یہ ویڈیو گیم ہے…… انسانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرکے محظوظ ہونا اور پھر ان کے قتل سے لطف اندوز ہونا۔ پس وہ اس کے دائیں بائیں گولیوں کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ مساعدہ لے جانے والا مسلمان لڑکھڑاتا ہے اور تھیلا اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے…… وہ مسکین اس قدر مجبور ہے کہ پھر بھی اپنی جان بچانے کے لیے فرا ر کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اپنے بچوں کی جان بچانے کے لیے پھر لپک کر مساعدے کا تھیلا اٹھاتا ہے…… اب کی بار اسرائیلی گولی اسے زخمی کردیتی ہے، وہ گرتا ہے مگر پھر اٹھتا ہے اور تھیلا اٹھا کر چلنے کی کوشش کرتا ہے…… ڈگمگاتے قدم ابھی ذرا سا ہی آگے کو بڑھتے ہیں کہ اسرائیلی گولیاں اس کی چیتھڑے اڑا دیتی ہیں…… وہ زمین پر گر جاتا ہے اور مساعدے کا تھیلا اس سے کچھ دور پڑا رہ جاتا ہے…… اس کے بچوں کی آنکھوں میں امید کی جوت بجھ جاتی ہے…… اس کی بیوی بیوہ ہوجاتی ہے اور اس کی مفلوک الحال ماں کی آنکھیں بیٹے کی خون و خون لاش دیکھ کر پتھرا جاتی ہیں…… ویڈیو گیم ختم ہوجاتی ہے اور اس نا ختم ہونے والی خونی گیم کا اگلا درجہ شروع ہوجاتا ہے………
اہل غزہ پر بھوک اور افلاس مسلط کرنے اور مصنوعی قحط پیدا کرنے کا نتیجہ اطفال غزہ کے قتل کی صورت سامنے آیا۔ یزن نامی ایک بچے کی حالت دیکھ کر انسانیت خون کے آنسو روتی ہے۔ اس کی تصویر دیکھ کر یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ تا دم تصویر یہ زندہ ہے۔
ایک تصویر سوا سالہ سند العربی کی تھی۔ اس معصوم نے ابھی اپنی مختصر سی زندگی میں دیکھا ہی کیا تھا کہ اسرائیلی بھیڑیوں نے اسے چیر پھاڑ کررکھ دیا۔ اسرائیلی بمباری میں زخمی ہونے والے اس بچے کے چہرے کے اندر اور باہر کی طرف دو سو…… جی ہاں دو سو سے زیادہ ٹانکے لگائے گئے، ان زخموں سے ان کی زبان کا کچھ حصہ بھی کٹ گیا ، اس کی جان بچانے کے لیے اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا اور اس کے دائیں بازو میں راڈ ڈالی گئی…… یہ معصوم حماس کا لیڈر تھا…… یہ کتائب قسام کا بڑا کمانڈر تھا !!!
اس تصویر میں دکھائی دینے والے اس معصوم کا سب سے بڑا جرم اس کا مسلمان گھرانے میں پیدا ہونا تھا اور اسی جرم کی پاداش میں اسے جلا کر بھسم کر دیا گیا۔
اور یہ باسٹھ سالہ فلسطینی بزرگ ولید ہیں جو اپنی زندگی کے اڑتیس برس جی ہاں اڑتیس برس اسرائیلی قید خانے میں گزارنے کے بعد زندگی کی قید سے آزاد ہوگئے۔ ان کی وفات پر اسرائیلی وزیر بن غفیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا : افسوس ہے اس کے مرنے پر…… آخر اسرائیلی عدالت نے اسے پھانسی کیوں نہ دی!
اللہ رب العزت نے زندگی کی قید سے رہا ہونے والے اس مظلوم کو بہترین اور اعلیٰ ترین مقامات سے سرفراز کیا ہوگا ان شاءاللہ۔
اور سب سے آخر میں ہم اس باپ کا ذکر کرنا چاہیں گے کہ جن کے حوصلوں ہمت اور ایمان کے سامنے کفر کے یہ سارے حربے بے کار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ عظیم باپ جس کے چہرے سے ظاہر ہے کہ وہ بمباری کے بعد ملبے سے نکل کر آیا ہے، اس کے سامنے اس کا شہید بچہ ہے مگر وہ عزم و ہمت کی تصویر بنا اپنے مقصد سے وفا کا عزم نبھاتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے ابطال اور ایسے رجال کی موجودگی میں کفر کبھی بھی اہل ایمان کو شکست نہیں دے سکتا۔ انہی کے دم سے ایمان کی شمع نسل در نسل دمکتی رہے گی اور اللہ کی مدد و نصرت کے بعد انہی کے عزم و ہمت سے ان شاء اللہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔
٭٭٭٭٭