یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
ستائیسویں وجہ: اوروں پر تنقید میں منہمک رہنا
ایسے فرد کو تم دیکھو گے کہ وہ ہمیشہ تلملا رہا ہوتا ہے، کہ فلاں ڈرائیونگ صحیح نہیں کرتا، فلاں کو جماعت نہیں چلانی آتی، فلاں میں فلاں کام کے لیے امیر بننے کی قابلیت نہیں، فلاں کھانا صحیح نہیں پکا سکتا، فلاں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ فلاں جگہ پر ہو…… وغیرہ وغیرہ۔
حضرت حسن بصری نے اس قسم کے لوگوں کو بیان کرتے ہوئے کہا، جب ان میں سے ایک گروہ مسجد میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا:
”یہ لوگ عبادت سے اکتا گئے ہیں اور انہیں نظر آیا کہ باتیں کرنا آسان ہے۔ یہ پرہیز گار بھی نہ تھے اس لیے بیٹھے باتیں کرنے۔“
ولید بن مزید فرماتے ہیں کہ میں نے امام اوزاعی کو فرماتے ہوئے سنا:
”مومن بولتا کم ہے، کام زیادہ کرتا ہے۔ جبکہ منافق بولتا بہت ہے اور کام کم کرتا ہے۔“
حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں:
”کوئی ایسا شریف انسان، عالم اور فاضل نہیں ہے جس میں کوئی عیب نہ ہو۔ لیکن ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا عیب نہیں ذکر کرنا چاہیے۔ جس کی فضیلت اس کی کمی سے زیادہ ہو تو ایسے شخص کی کمی کو اس کی فضیلت میں گم کر دیا جاتا ہے۔“
امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں:
”تم اپنے بھائی پر ظلم کرو گے اگر تم اس کے بارے میں وہ بات کرو جو تم اس میں سب سے بری جانتے ہو جبکہ اس کی نیکیوں پر خاموش رہو۔“
نسابہ بکری نے رؤبہ بن عجاج سے کہا: مروت کے دشمن کون ہیں؟ کہا: ’’برائی کے چچا زاد، اگر اچھا دیکھیں تو چھپا لیں، اور جب برا دیکھیں تو پھیلادیں۔“
ابن زنجی بغدادی نے [شعر] کہا:
’’لوگوں میں پھرتے ہیں اور ایسے شخص میں عیب ڈھونڈتے ہیں جس میں عیب نہیں تاکہ بدنما ظاہر ہو۔
اگر نیکی معلوم ہوئی تو اسے چھپا لیتے ہیں اور اگر برائی معلوم ہوئی تو پھیلا دیتے ہیں اور اگر کچھ نہ جانیں تو جھوٹ باندھتے ہیں۔‘‘
اس مرض کی علامات میں سے ایک مبالغہ آرائی اور بات کو بڑھا چڑ ھا کر بیان کرنا ہے۔ دوسروں کی چھوٹی غلطیوں کو ڈھونڈنے کے لیے خورد بین استعمال کرتے ہیں۔
متقی خاموش طبع بندہ اپنے آپ کو چھوڑ کر لوگوں کے گناہوں کے پیچھے نہیں پڑا رہتا۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
يبصر أحدكم القذاة في عين أخيه وينسى الجذع أو الجدل في عينه معترضا (صحیح الالبانی)
”تم میں سے ایسے افراد بھی ہیں جسے اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا تو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کے سامنے آڑے پڑا تنا یا رسی بھول جاتا ہے۔“
[اسی مطلب میں شعر ہے]:
اگر تم سے غلطی ہوجائے تو عذر تلاش کر لیتے ہو۔ جبکہ دوسرے کا اگر عذر ہو بھی تو اسے عذر نہیں دیتے۔ اس کی آنکھ میں تنکا تو تمہیں نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔
جیسا کہ ابن القیم اپنے اس قول میں ان کا بیان کر رہے ہیں:
” ایک عجیب یہ ہے کہ انسان کے لیے حرام کھانے، ظلم، زنا، چوری، شراب خوری ، حرام نظر وغیرہ سے بچنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اپنی زبان کو حرکت دینے سے باز رہنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں تک ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص اپنے دین، زہد اور عبادت سے مشہور ہوتا ہے اس سے بھی ایسے الفاظ نکلتے ہیں جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے لیکن اسے احساس تک نہیں ہوتا۔ جس کے ایک لفظ کے بعد وہ مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ سے زیادہ دور گر جاتا ہے۔
کتنے ایسے مرد ہوتے ہیں جو فحش اور ظلم سے پرہیز کرتے ہیں لیکن وہ زندوں اور مردوں کی عزت کو اپنی زبان سے پامال کرتے ہیں اور انہیں پروا بھی نہیں ہوتی۔“
منافقوں نے ویسے ہی کہا جیسا کہ قرآن میں ذکر ہوا:
لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا (آل عمران: 168)
’’اگر ہمارا کہا مانتے تو قتل نہ ہوتے۔‘‘
لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا (آل عمران: 154)
’’ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم یہاں قتل ہی نہ کیے جاتے۔‘‘
ظاہر ہے جو کام ہی نہ کرے اس سے کام میں غلطی بھی نہ ہو گی۔ اور اگر کر لے تو کہہ سکتا ہے کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو ایسا نہ ہوتا۔ لیکن جو کام کرتا ہے ممکن ہے کہ کبھی کبھار اپنی سوچ لڑائے اور غلطی ہو جائے۔ لیکن کام کرنے والے کی غلطی اس سے بہتر ہے جو بیٹھا کچھ نہیں کر رہا۔ جو انسان ہمت کر کے کوئی کام کرے جس میں کچھ غلطی کا امکان ہو وہ اس سے بہتر ہے جو سرے سے کوئی کام ہی نہیں کرتا۔ نہ اچھا نہ برا۔
امام مالک فرماتے ہیں:
”میں نے مدینے میں ایسے لوگ دیکھے تھے جن میں عیب نہ تھے۔ تو انہوں نے دیگر لوگوں کے عیب ڈھونڈنا شروع کیے تو لوگوں نے ان کے عیب ذکر کرنا شروع کیے۔ اور ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن میں عیب تھے لیکن وہ دوسروں کے عیب کے بارے میں چپ رہے تو لوگ بھی ان کے عیب کے بارے میں چپ رہے۔“
ابن القیم نے مفتاح دار السعادہ میں لکھا ہے:
” شریعت کا اور حکمت کا بھی قاعدہ ہے کہ جس کی نیکیاں زیادہ اور بڑی ہوں، اور اس کا دین میں واضح وزن بھی ہو اس کے بارے میں وہ برداشت کیا جاتا ہے جو اوروں کے بارے میں نہیں برداشت کیا جاتا۔ کیونکہ گناہ ناپاکی کی طرح ہے جب زیادہ پانی میں ناپاکی گر جائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ بر عکس تھوڑے پانی کے کہ جس میں معمولی سی ناپاکی گر جائے تو وہ ناپاک ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے نبی اکرم ﷺ کا فرمان حضرت عمر کو تھا:
’تمہیں کیا علم، ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو اپنی خصوصی نظر و کرم و مغفرت سے نواز رکھا ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: تم جو چاہو کرو، میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے‘۔
یہی وجہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے آپ پر اور مسلمانوں پر جاسوسی کرنے والے اور اتنا عظیم جرم کا ارتکاب کرنے والے کو قتل نہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اہل بدر میں سے ہیں۔ سمجھ یہ آئی کہ سزا کا سبب موجود ہے لیکن اس لیے واقع نہ ہوئی کہ اتنا عظیم واقعہ کے سبب جو ان کی منزلت ٹھہری۔ اس لیے یہ عظیم غلطی ان کی نیکیوں کے سامنے معاف کر دی گئی۔
جب نبی اکرم ﷺ نے صدقہ پر ابھارا تو حضرت عثمان نے عظیم صدقہ عطا کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عثمان کو اس کے بعد کوئی عمل نقصان نہ پہنچائے گا۔ اسی طرح جب حضرت طلحہ نے اپنی کمر نیچے کی تاکہ آپﷺ اس کے سہارے پر پتھر تک چڑھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: طلحہ کے لیے جنت واجب ہوئی۔
یہ حضرت موسیٰ ہیں جو رب رحمان سے ہم کلام ہوئے۔ انہوں نے ان تختیوں کو زمین پر پھینکا جس پر اللہ نے اپنا کلام لکھا تھا کہ وہ ٹوٹ گئیں۔ موت کے فرشتے کی آنکھ کو مارا کہ اسے پھوڑ دیا۔ اسراء کی رات کو نبی اکرمﷺ کے بارے میں اپنے رب سے گلہ کیا کہ میرے بعد ایک جوان کو بھیجا اور اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے میری امت میں سے داخل ہونے والوں سے زیادہ ہوں گے۔ حضرت ہارون کی داڑھی کو پکڑ کر کھینچا حالانکہ وہ اللہ کے نبی تھے۔ اور اس سب کے باوجود ان کے رب کے یہاں ان کی منزلت کچھ کم نہ ہوئی۔ اور رب تعالیٰ انہیں عزت بخشتے ہیں اور انہیں پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ موسیٰ نے جو کام کیا، وہ دشمن جس کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہوئے، وہ صبر جو انہوں نے کیا، وہ اذیت جو انہیں اللہ کے راہ میں ملی، اس کے سامنے یہ باتیں بے اثر تھیں۔ ان سے ان کی قدر و منزلت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ یہ بات لوگ جانتے بھی ہیں اور ان کی فطرتوں میں پیوست ہے، کہ جس کی ہزاروں نیکیاں ہوں اسے ایک دو برائیوں پر معاف کیا جاتا ہے۔ برائی پر سزا دینے کا داعیہ اور اس کے احسان پر شکریہ ادا کرنے کا داعیہ آپس میں گھٹتے بڑھتے ہیں اور آخر کار شکر ادا کرنے کا داعیہ سزا کے داعیہ پر غالب آ جاتا ہے۔‘‘
ایسے افراد کی تنقید اللہ کی خاطر نہیں ہوتی بلکہ ان کے نفس کے خواہشات کے سبب ہوتی ہے۔ ابن الاثیر نے اپنی کتاب ’الکامل‘ میں خلیفۂ راشد حضرت عثمان بن عفان کی شہادت کے واقعات ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
”عمر بن الحمق حضرت عثمان کے سینے پر چڑھا جب کہ حضرت عثمان میں ابھی روح باقی تھی اور انہیں نو دفعہ خنجر گھونپا۔ اور کہا: ان میں سے تین میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر گھونپے، جبکہ چھ میرے دل میں ان کے لیے بغض کے سبب تھے۔ اس نے چاہا کہ حضرت عثمان کا سر قلم کر دے تو حضرت نائلہ اور ام البنین ان کے جسد پر گر پڑیں اور صدائیں دیں ۔ تب جا کر ابن عدیس نے کہا: انہیں چھوڑ دو! تب بھی عمیر بن ضابئ آیا اور حضرت عثمان پر چھلانگ ماری جس سے ان کی ایک پسلی ٹوٹ گئی۔“
شیخ محمد احمد الراشد ﷾ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اسلام کے دشمن ہمیشہ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جماعت کا سر کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تنظیموں کی پسلیاں توڑنا چاہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں (اللہ تعالیٰ کی خاطر) جیسے کہ ابن الحمق نے کہا۔ اس (اللہ تعالیٰ کی خاطر کے) نعرہ کے سبب ابھی قریب ہی میں ہزاروں نوجوان ضائع ہو گئے، اور بے شمار لوگوں کی ہمتیں ٹوٹ گئیں۔ راز افشا ہوئے اور جیلیں بھر گئیں۔ جبکہ اگر وہ سچ کہیں تو ابن الحمق کی طرح بعد میں کہیں گے: چھ سینے میں بغض کے سبب۔“
[اے اللہ! راقم و مترجم ومرتِّب اور قاری سبھی کو ایسے گھناؤنے عیوب سے پاک فرما دے اور ان کی مغفرت کر دے اور جہاد و استشہاد کی راہ پر تا دمِ آخریں اپنے فضل سے قائم فرما! (مدیر)]
٭٭٭٭٭