اہلِ اسلامائزیشن کے تین مغالطے ایسے ہیں جن کے باعث وہ پورے اخلاص سے اسلامائزیشن کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہیں :
۱. ہر حرام اور تعیش کا ایک شرعی’’ متبادل‘‘ دینا مسلم اہلِ علم پر لازم ہے ۔
اہلِ اسلامائزیشن کا یقین ہے کہ ہم ہر حرام کے متبادل میں ایک حلا ل دینے کے ذمہ دار ہیں۔ (یہ بات خود قابل ِ توجہ ہے کیا حرام و حلال باہم متبادل ہوتے ہیں یا حق و باطل باہم ایک دوسرے کا متبادل ہوتے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں حلال ، حرام کو مٹانے والا ہوتا ہے نہ کہ اس کا متبادل ہوتا ہے )یعنی اگر مغرب نے بینک کا ادارہ قائم کیا ہے تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کا متبادل دیں۔ اسی طرح اہلِ اسلامائزیشن بسا اوقات شدتِ جذبات میں تعیشات کے متبادلات دینے کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ بیٹھتے ہیں۔ کوکا کولا اور پیپسی کولا تک متبادل دینے کے لیے شینڈی کولا، مسلم کولا اور مکہ کولا مارکیٹ میں آئے ۔(لفظ ’’کولا‘‘ کی شان ایسی ہے کہ تعیش کے اسلامی متبادل کو اپنی بقا و استحکام کے لیے اس لفظ کی سرپرستی درکار ہے )۔
کیا واقعی شریعت ہمارے اوپر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ ہر دور میں ظاہر ہونے والے کسی بھی کفری ادارے یا نظریے کا ایک اسلامی متبادل دینا ضروری ہے ؟اس تصور ِ متبادل کے قرآن و سنت میں کیا دلائل ہیں ؟
کیا اسلام نے ’’شراب‘‘ جیسی نشہ آور چیز جو عرب معاشرے میں رچی بسی تھی کا کوئی ’’اسلامی متبادل ‘‘ دیا تھا ؟
کیا ’’سود‘‘ کا متبادل ’’ بیع‘‘ ہے ؟ یہ دعویٰ تو مشرکین کا تھا ’’ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبا‘‘۔ بیع کب شریعت محمدیہ کی طرف سے پہلی بار حلال کی گئی ؟ بیع تو صدیوں سے انسانی معاشروں کی تجارت کا ذریعہ تھی۔لہٰذا اسے اسلامی متبادل قراردینا ایک مضحکہ خیز بات ہے ۔قرآن نے تو ’’ربا‘‘ کے مقابل’’صدقہ‘‘ کو رکھا ہے جو سرے سے کاروبار اورتجارتی منفعت کا کام ہے ہی نہیں۔
يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ
’’اللہ سود کو برباد کرتا ہے اور صدقوں کو نشوونما دیتا ہے۔‘‘
متبادل مہیا کرنے کی ذہنیت کو بنی اسرائیل کے ایک واقعے کے بیان سے قرآن نے رد کیا ہے:
وَجاوَزْنا بِبَنِي إِسْرائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ قالُوا يَا مُوسَى اجْعَلْ لَنا إِلهاً كَما لَهُمْ آلِهَةٌ قالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ(الاعراف:۱۳۸)
’’جب بنو اسرائیل سمندر سے پار اتر گئے تو وہ ایسی قوم کے پاس پہنچے جو اپنے بتوں کے پاس اعتکاف کرتی تھی ، بنو اسرائیل ، موسیٰ ؑ سے کہنے لگے: ہمارے لیے بھی ایسا ایک معبود بناد ے جیسا ان کے پاس معبودان ہیں،موسیٰ نے کہا تم جاہل قوم ہو۔‘‘
یہاں بنو اسرائیل نے بھی ’’ایک معبود ‘‘ کا متبادل مانگا اور ان کی طرح بہت سارے بتوں کی پوجا طلب نہیں کی ۔
۲. موجودہ دورمیں اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا مطلب مغربی معاشی نظا م کے اداروں اور نظم و نسق کے ساتھ compatible ہوجانا ہے۔یعنی اسلام کو اسی نظام میں workable ہونا ضروری ہے تبھی ہم کہہ سکتے کہ یہ قابلِ عمل ہے ۔
اہل ِ اسلامائزیشن سمجھتے ہیں کہ اگر اس عہد میں اسلام کو قابلِ عمل ثابت کرنا ہے تو یہ تبھی ثابت ہوگا جب یہ مغربی معاشی وسیاسی نظاموں پر پورا اترے۔اگر مغربی اداروں کے ساتھ compatibility نہیں قائم ہوتی ہے تو اسلام کی عملیت ثابت نہیں ہوتی ۔
اسلام کا دیا ہوا تصورَ حیات ، تصورِ آخرت ، تصورِ حلال و حرام اور تصور ولاء و براء کسی بھی نظریے اور نظام کو اس کے اصولوں اور اس کی بچھائی ہوئی بساط پر قبول نہیں کرتا ہے۔ دین اپنی بساط بچھاتا ہے اور اس پر اپنی خاص معاشرت، معیشت و سیاست استوار کرتا ہے۔
اسلام ایک کل ہے اور بحیثیت کل ہی نافذ ہو تو اپنے ثمرات لاتا ہے ۔اسلام کی مالی عبادت زکاۃ کو سارے دین سے علیحدہ کرکے ایک نظام کے طور پر نافذ کرنا ’’ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّة ‘‘کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ اگر اسلامی مالیات و معیشت ، مغرب کے گلوبل سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ سایہ بھی بھرپور منفعت حاصل کررہی ہےاور مغرب کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں تو سادہ عقل کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کا یہ روپ ، حقیقی روپ نہیں ۔
بہرحال اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا مطلب مغربی معاشی نظا م کے اداروں اور نظم و نسق کے ساتھ compatible ہونا خود ایک مغالطہ ہے۔
مغربی علوم ِ معیشت اساسیات فطرتِ انسانی کا تقاضا ہیں ۔ یعنی Natural ہیں ۔
ایک معروف اہلِ علم نے ایڈم سمتھ کے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے بارے میں لکھا ہے ’’اسلام نے بازار کی قوتوں یعنی رسد و طلب کے قوانین کو تسلیم کیا ہے ‘‘۔
اسی طرح وہ تحریر فرماتے ہیں ’’یہ چار بنیادی مسائل جنہیں حل کرنا ہر معاشی نظام کے لیے ضروری ہے یعنی ترجیحات کا تعین ،وسائل کی تخصیص، آمدنی کی تقسیم اور ترقی ۔پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مسائل اگرچہ فطری مسائل ہیں ……‘‘
مغربی معیشت یا نظام سیاست کی بنیادوں کو فطری ماننا ایک مغالطہ ہے ۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
[محترم ڈاکٹر صاحب کی یہ تحریر انٹرنیٹ پر ایک صفحے سے مستعار لی گئی ہے۔ مستعار مضامین کو مجلّے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیا جاتا ہے (ادارہ)]
٭٭٭٭٭