اسلام کے خلاف جاری عالمی صہیونی جنگ کے تناظر میں اسلامی مقاطعہ کو سمجھنا، نافذ کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا
محمد ابراہیم لَڈوِک (زید مجدہ) ایک نو مسلم عالمِ دین ہیں جنہوں نے عالَمِ عرب کی کئی جامعات میں علم دین حاصل کیا۔ موصوف نے کفر کے نظام اور اس کی چالوں کو خود اسی کفری معاشرے اور نظام میں رہتے ہوئے دیکھا اور اسے باطل جانا، ثم ایمان سے مشرف ہوئے اور علمِ دین حاصل کیا اور حق کو علی وجہ البصیرۃ جانا، سمجھا اور قبول کیا، پھر اسی حق کے داعی بن گئے اور عالَمِ کفر سے نبرد آزما مجاہدین کے حامی اور بھرپور دفاع کرنے والے بھی بن گئے (نحسبہ کذلك واللہ حسیبہ ولا نزکي علی اللہ أحدا)۔ انہی کے الفاظ میں: ’میرا نام محمد ابراہیم لَڈوِک ہے ( پیدائشی طور پر الیگزانڈر نیکولئی لڈوک)۔ میں امریکہ میں پیدا ہوا اور میں نے علومِ تاریخ، تنقیدی ادب، علمِ تہذیب، تقابلِ ادیان، فلسفۂ سیاست، فلسفۂ بعد از نو آبادیاتی نظام، اقتصادیات، اور سیاسی اقتصادیات امریکہ اور جرمنی میں پڑھے۔ یہ علوم پڑھنے کے دوران میں نے ان اقتصادی اور معاشرتی مسائل پر تحقیق کی جو دنیا کو متاثر کیے ہوئے ہیں اور اسی دوران اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ایک سیاسی اور اقتصادی نظام ہے جو حقیقتاً اور بہترین انداز سے ان مسائل کا حل لیے ہوئے ہے اور یوں میں رمضان ۱۴۳۳ ھ میں مسلمان ہو گیا‘، اللہ پاک ہمیں اور ہمارے بھائی محمد ابراہیم لڈوک کو استقامت علی الحق عطا فرمائے، آمین۔جدید سرمایہ دارانہ نظام، سیکولر ازم، جمہوریت، اقامتِ دین و خلافت کی اہمیت و فرضیت اور دیگر موضوعات پر آپ کی تحریرات لائقِ استفادہ ہیں۔ مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ شیخ محمد ابراہیم لَڈوِک (حفظہ اللہ) کی انگریزی تالیف ’Islamic Boycotts in the Context of Modern War ‘ کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہے۔ (ادارہ)
بائیکاٹ کا شرعی حکم
دفاعی جہاد کا حکم اور بائیکاٹ سے اس کا تعلق
شیخ عبداللہ عزام رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’مسلم سرزمینوں کا دفاع، ایمان کے بعد اہم ترین فرض عین‘‘،میں یہ واضح کرتے ہیں کہ دفاعی جہاد انفرادی ذمہ داری یا (ہر فرد پر عائد) فرضِ عین ہے۔ شیخ رحمہ اللہ مذاہبِ اربعہ کےمواقف کا حوالہ دیتے ہیں، اور علمائے احناف کے موقف پر زوردیتے ہیں، جیسے ابن عابدین رحمہ اللہ کا موقف جو لکھتے ہیں:
’’وفرض عين إن هجم العدو على ثغر من ثغور الإسلام فيصير فرض عين على من قرب منه، فأما من وراءهم ببعد من العدو فهو فرضكفاية إذا لم يحتج إليهم، فإن احتيج إليهم بأن عجز من كان بقرب العدو عن المقاومة مع العدو أو لم يعجزوا عنها و لكنهم تكاسلوا ولم يجاهدوا فإنه يفترض على من يليهم فرض عين كالصلاة والصوم لا يسعهم تركه، وثم وثم إلى أن يفترضعلى جميع أهل الإسلام شرقا وغربا على هذا التدريج.‘‘1
’’جب دشمن مسلمانوں کی کسی سرحد پر حملہ آور ہوتا ہے تو جہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ دشمن جس علاقے پر حملہ آور ہوتا ہے اس کے قریب ترین بسنے والے مسلمانوں پر جہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ وہ مسلمان جو اس علاقے سے دور رہتے ہیں، اگر دشمن سے نبٹنے کے لیے ان کی مدد درکار نہ ہو تو ان کے لیے جہاد فرضِ کفایہ ہو گا۔ مگر اگر ان کی مدد کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ چاہے اس وجہ سے کہ قریب بسنے والے مسلمان دشمن کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوں ، یا سستی و غفلت کے سبب دشمن سے جہاد کرنے میں کوتاہی کریں، تو جہاد ان سے قریب ترین مسلمانوں پر فرضِ عین ہو جاتا ہے، اسی طرح جیسے نماز اور روزہ فرضِ عین ہیں۔ ان کے لیے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن اگر وہ بھی اس دشمن کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوں تو جہاد ان سے قریب ترین مسلمانوں پر فرضِ عین ہو جاتا ہے اور اسی طرح اس کا دائرہ پھیلتا جاتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے مغرب تک یہ پوری امّتِ مسلمہ پر فرضِ عین ہو جاتا ہے۔‘‘
اسی سے ملتا جلتا قول ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ہاں بھی ملتا ہے:
’’إذا دخل العدو بلاد الإسلام فلا ريب أنه يجب دفعه على الأقرب فالأقرب، إذ بلادالإسلام كلها بمترلة البلدة الواحدة.‘‘2
’’اگر دشمن بلادِ اسلام میں داخل ہو جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے خلاف مدافعت کرنا قریب ترین (مسلمانوں ) اور پھر ان کے بعد قریب ترین (مسلمانوں) پر فرض ہو جاتا ہے، کیونکہ مسلمانوں کی زمینیں ایک ہی زمین کی مانند ہیں۔‘‘
صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں ثقافتی استعمار کی فوجیں اور دیگر قوتیں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے شیطانی نظریات کی ترویج بھی کر رہی ہیں۔ بحیثیت مسلمان یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود سے بر سرِ پیکار ان کفّار کا مقابلہ کریں۔ یہ ذمہ داری اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب یہ حملہ آور دشمن اپنے کفر کی ترویج کے لیے مسلمان علاقوں ہی کے قانونی اور تعلیمی اداروں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ ذمہ داری ہم میں سے ہر ایک پر لاگو ہوتی ہے۔ اللہ ہمیں اس معاملے میں کوتاہی برتنے پر معاف فرمائیں اور اس کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ توبہ کی قبولیت کی شرائط میں یہ بھی ہے کہ اخلاص کے ساتھ اس گناہ کو چھوڑنے کی نیت کی جائے جس سے توبہ کی جا رہی ہو۔
اللہ عزوجل ہمیں حکم دیتے ہیں:
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (سورۃ التوبۃ: ۴۱)
’’(جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ‘‘
مفسرین کے ہاں اس آیت کے مفہوم میں اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن علماء کے یہ مختلف اقوال بھی آپس میں مطابقت رکھتے ہیں یعنی ایک قول دوسرے کو رد نہیں کرتا۔ بعض نے کہا کہ ’ہلکے‘سے مراد جوانی، صحت، اور مال ہے، جبکہ دوسروں نے کہا کہ اس سے مراد پاپیادہ جنگ کرنا ہے۔ بعض نے کہا کہ ’ بوجھل‘ سے مراد بڑھاپا، غربت یا بیماری ہے( اور ایک روایت میں آتا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب ایک فربہ شخص نے جہاد سے رخصت حاصل کرنا چاہی) ، جبکہ دیگرنے کہا کہ اس سے مراد سواری (جیسے اونٹ یا گھوڑے )پر بیٹھ کر جنگ کرنا ہے۔
وہ اقوال جو اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر ضعف کے اعتبار سے کرتے ہیں ، ان کا بھی عمومی مفہوم یہ ہے کہ کوئی مشکل یا کمزوری ہمیں جہاد کے فرض سے رخصت نہیں دلا سکتی۔ یہاں تک کہ اگر ہمارے ملکوں کی ظالم حکومتیں بھی ہمیں فریضۂ جہاد کی ادائیگی سے روکتی ہیں، جیسا کہ اکثر مسلمانوں کا معاملہ ہے، تب بھی فرضیتِ جہاد ہم سے ساقط نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لا طَاعَةَ فَيِ مَعْصِيَةٍ، إِنَمّاَ الطَّاعةَ فُيِ المْعَرُوۡفِ.‘‘ (البخاری: ۷۵۲۷)
’’اللہ کی معصیت میں کسی اور کی اطاعت نہیں، اطاعت تو معروف کاموں میں ہے۔‘‘
ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لا طَاعَةَ لِمَخۡلُوۡقٍ فيِ مَعْصِيَةِ الْخاَلِقِ.‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: ۳۶۹۶)
’’خالق کی معصیت میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ۔‘‘
یہ امر واضح ہو جانے کے باوجود، کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے بہتر ہے کہ اہلِ علم سے رجوع کیاجائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس عمل کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ نہ ہوں۔ وہ مسلمان جو اس قسم کی پابندیوں، کمزوریٔ ایمان یا کسی بھی دوسرے عذر کے سبب براہِ راست جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے، ان کے لیے جہاد میں شرکت اور اس کی حمایت کے دیگر طریقے موجود ہیں، ان طریقوں میں درجِ ذیل طریقے شامل ہیں:
مجاہدین کے لیے دعا کرنا
اعلام و ابلاغ کے میدان میں مجاہدین کی مدد کرنا
مسلمانوں کو مجاہدین کے حالات سے باخبر رکھنا اور ان کو جہاد میں شرکت اور اس کی حمایت کرنےکی دعوت دینا
مجاہدین کی مالی امداد کرنا
مجاہدین کو کفار کے بارے میں معلومات فراہم کرنا
مجاہدین کو رسدفراہم کرنے میں تعاون کرنا
مجاہدین کو تکنیکی معلومات اور مشورہ دینا
جہاد کے صحیح طریق و منہج کوجاننا، سمجھنا اور اس بارے میں آگہی کو پھیلانا
دشمنانِ دین اور منافقین کی طرف سے اٹھاۓ گئے شبہات کا رد کرنا
دشمن کی رسد و کمک کی ترسیل کومتاثر کر کے اقتصادی جنگ کے ذریعے مجاہدین کی مدد کرنا
بائیکاٹ اس آخری طریقے کا ایک معاون جزو ہے۔ایک دعا کے علاوہ، بائیکاٹ ہی ان قلیل طریقوں میں سے ایک ہے جس کو اپنانا تقریباً ہر کسی کے بس میں بآسانی ہے، جبکہ اس کے ساتھ کوئی حقیقی خطرات بھی ملحق نہیں۔ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ ایمان و کفر کے مابین برپا اس جنگ میں حق کا ساتھ دینے کے لیے ہر وہ کام کریں جو ہمارے بس میں ہو۔ اس لیے ہمیں بائیکاٹ کو اس بڑے فریضے کے جزو کے طور پر دیکھنا چاہیےاور اس پر حتی المقدور عمل پیرا ہونا چاہیے۔
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (سورۃ التغابن: 16)
’’لہٰذا جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو ،‘‘
اسباب کا حکم وہی ہے جو انجام کا حکم ہے
دفاعی جہاد ایک انفرادی و معین فرض ہے جو اس وقت پوری امت پر عائد ہوتا ہے۔ اس حکم کا بائیکاٹ سے تعلق سمجھنے کے لیے دو اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
’’الوسائل لها أحكام المقاصد‘‘3
’’کسی کام (یا مقصد کو حاصل) کرنے کے لیے اختیار کیے گئے وسیلے کا حکم وہی ہے جو اس کام (یا مقصد)کا حکم ہے۔‘‘
’’أن ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب‘‘4
’’کسی واجب کی ادائیگی کے لیے جو چیز (یا کام) ناگزیر ہو وہ خود بھی واجب ہو جاتا ہے۔‘‘
اگر دفاعی جہاد کے مقاصد کے حصول کے لیےبائیکاٹ کرنا ناگزیر ہو تو یہ بھی حکمِ جہاد کی طرح فرضِ عین کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ بائیکاٹ جدید طریقۂ جنگ کا ایک ناگزیر حصّہ ہیں لہٰذا اس کا حکم بھی دفاعی جہاد کے حکم کی مانند ہے ۔ جس طرح مسلمان جنگوں میں نئی ٹیکنالوجی استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر متفق ہو گئے ہیں، جیسے طیاروں اور ٹینک وغیرہ سے ، بالکل اسی طرح ضروری ہے کہ اقتصادی جنگ کے مختلف طور طریقوں اور تکنیکوں کو بھی سمجھا اور اپنایا جائے۔
معاشی جنگ جدید جنگ کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، اس حد تک کہ آج کوئی بھی ملک اس کے بغیر جنگ میں کودنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دشمن ممالک، تنظیموں اور افراد پر تجارتی باپندیاں عائد کرنا، انہیں خدمات کے حصول اور اشیاء کی خرید و فروخت میں بندشوں کا سامنا کرنے پر مجبور کرنا، جدید اقتصادی جنگ کے اہم ترین اجزاء میں شامل ہے ۔
دو وجوہات کی بنیاد پر دور ِ جدید میں یہ طریقے مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں:
جدید ترین ٹیکنالوجی کی تیاری کے لیے درکار سپلائی لائنوں کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیاں
لبرل ازم کے عقیدے میں معاشی ترقی اور خوشحالی کا ایک ایسا عنصر یا عامل ہوناجو (کسی بھی چیز کو)جواز بخشنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس بنا پر معاشی ترقی و خوشحالی کی مذہبی، اخلاقی اور سیاسی اہمیت۔
اگر ہم عصر حاضر میں معاشی جنگ کے یوں زیادہ نمایاں ہو جانے کی وجوہات پر غور کریں، تو اس کو اختیار کرنے کی ضرورت مزید واضح ہو جائے گی۔
ماضی کی نسبت آج معاشی جنگ زیادہ اہم کیوں؟
جس قدر عالمی معیشت باہم مربوط ہوتی چلی جاتی ہے،اسی قدر معاشی جنگ کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ۔ تاریخ کے میسر ریکارڈز کے مطابق عالمی معیشت آج سے قبل کبھی بھی آپس میں اس قدر مربوط نہ تھی۔جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اقتصادی جنگ و جدل بھی آج اتنااہم ہے جتنا اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔
پیداوار اور کھپت کی تنظیم تشکیل(Organization of Production and Consumption)
آج کی نسبت ماضی میں عسکری سازو سامان کی پیداوار کا عالمی تجارت پر انحصار بہت کم تھا۔ سامان کی رسد سواری کے جانوروں کے ذریعے کی جاتی تھی، جو کہیں بھی چَر کر اپنی خوراک کی ضرورت پوری کر سکتے تھے۔ جبکہ اسلحہ اور زرہ بکتر وغیرہ کی تیاری میں بھی آج کی نسبت لوگ زیادہ خود کفیل تھے۔
یورپی ٹیکنالوجی کی تعمیر و ترقی عالمی یورپی استعماری سلطنتوں کے عروج کے متوازی رہی۔ نوّیں صدی ہجری میں پرتگالی سلطنت سے شروع ہو کر اور اس کے بعد ہسپانوی، ڈچ، فرانسیسی، برطانوی اورآج کی امریکی سلطنت تک، ان سب سلطنتوں نے پچھلی سلطنت سے بڑھ کر عالمی منڈیوں کے اندر تک رسائی حاصل کی اور اس رسائی سے حاصل ہونے والی دولت کے ذریعے اپنی صنعت اور ٹیکنالوجی کو فروغ دیا۔
اس اقتصادی نظم سے متعلق تین عوامل اس سارے عمل میں شریک رہے:
پیمانوں کے متناسب اقتصاد
تقابلی منفعت
خام مال تک رسائی
پیمانوں کے متناسب اقتصاد
جدید صنعت اعلیٰ استعداد5 کی متقاضی ہے، بڑے پیمانے پر کی جانے والی پیداوار نتائج کے اعتبار سے کم لاگت کے ساتھ زیادہ ثمرات حاصل کرتی ہے، گویا کہ بڑے پیمانے کی پیداوار میں پیداواری استعداد بہتر ہوتی ہے6 ۔ یہ اصول چھوٹے کاروباروں میں بھی واضح ہے۔ مثلاًاگر ایک ریستوران کا مالک دس کلو گوشت خریدنے بازار جاتا ہے، تو اس کا بازار جانے اور واپس آنے کا خرچ تقریباً اتنا ہی ہوگا جتنا کہ سو کلو گوشت کی خریداری کی صورت میں ہوگا۔ اگر اس کے ریستوران میں گاہک زیادہ آتے ہوں، تو وہ انہیں نسبتاً کم قیمت پر کھانا فراہم کر کے فی خوراک کمائے جانے والے منافع کو بڑھا سکتا ہے۔
جوں جوں یورپی ممالک نے اپنی نوآبادیوں کی منڈیوں پر اپنا قبضہ و تسلط بڑھایا، ان کی صنعتی پیداوار کی استعداد بہتر ہوتی چلی گئی۔ جنگِ عظیم دوم سے قبل، ان ممالک نے نوآبادیاتی علاقوں کی تجارتی پالیسیوں کو براہِ راست کنٹرول کرتے ہوئے ان کو اپنی مصنوعات استعمال کرنے پر مجبور کیا۔ جنگ کے بعد، یہی کام آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں نے اپنے ذمے لے لیا جو پالیسی اصلاحات کے عوض اور ان پر منحصر قرضے دینے کا کام کرتے ہیں۔ ان دونوں ادوارمیں قصداً یہ کوششیں کی گئیں کہ نوآبادیاتی علاقوں کی عوام میں احساسِ کمتری پیدا کر کے انہیں مزید درآمد شدہ اشیاء کی خریداری پر مجبور کیا جائے۔
پیداوار کے اس طرزمیں غیرعسکری سامان کی خریداری بھی عسکری ساز وسامان کی پیداوار کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ عسکری صنعت کا غیر فوجی (سویلین)صنعت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ مثلاً، لوہے اور ایلومینم کی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی طلب، دھاتیں تیار کرنے والی فیکٹریوں اور بھٹیوں کی پیداوارکے پیمانے میں اضافے اور پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے۔ اگر سِوِل صنعتوں کی طرف سے لوہے اور ایلومینم مصنوعات کی مانگ بڑھتی ہے تو اس سے عسکری صنعتوں کو درکار مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔
تقابلی منفعت
جدید صنعت کی ترقی کا بڑا انحصار علاقائی طور پر مسابقت کرنے اور فضیلت حاصل کرنے پر ہے، جس کو بعض اوقات ’تقابلی منفعت‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد مختلف علاقوں کی بعض مصنوعات کی پیداوار میں مہارت حاصل کر کے انہیں دیگر علاقوں کی نسبت کم قیمت پر تیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ علاقائی موسم، توانائی کی قیمتیں، قدرتی وسائل کی دستیابی، علاقے میں موجود انفراسٹرکچر، خاص صلاحیتوں یا مہارتوں کے حامل افراد (کاریگروں)کی تعداد، اوران مصنوعات سے متعلقہ قوانین کی ساخت اور عملی ڈھانچہ، یہ تمام عوامل پیداوار کی لاگت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
تجارتی تعلقات کے حجم اور دائرہ کار کو بڑھانے سے اشیاء کی سستے داموں پیداوارممکن ہو سکی، کیونکہ مزید علاقوں کوپیداوار اور تقسیم کے ایک ہی نیٹ ورک سے جوڑا گیا۔ مختلف علاقوں نے آلات اورتعلیم و تربیت میں سرمایہ کاری کی جس سے ان کی مخصوص خدمات کی فراہمی اور مصنوعات کی پیداوار میں آنے والی لاگت میں کمی واقع ہوئی۔یہی عمل اور اس کی یہ تاثیر ابتدائی اسلامی سلطنت کی خوشحالی و ترقی کا بھی ایک سبب تھا، اسلامی مملکت کے مختلف علاقوں کے مابین تجارتی آزادی کے سبب تجارت کو وسعت ملی، جس کے نتیجے میں بہتر علاقائی تخصص حاصل ہوا۔ جیسے جیسے مسلمان تقسیم ہوتے گئے، تجارت میں رکاوٹیں پیدا ہوتی گئیں جس کا نتیجہ مسلمانوں کے معاشی نقصان اور جمود کی شکل میں نکلا۔
جتنے زیادہ لوگ اور ممالک جدید عالمی معاشی نظام میں شریک ہوں گے، اتنی ہی پیداواری لاگت میں کمی واقع ہوگی اور زیادہ جدید ٹیکنالوجی کی تیاری ممکن ہو سکے گی۔ مغربی صنعت اور ٹیکنالوجی کی موجودہ صورتحال یہود و نصاریٰ کے زیر قبضہ عالمی تجارتی نیٹ ورکس کے حجم کا ایک مظہر ہے۔
خام مال تک رسائی
کوئی ٹیکنالوجی جس قدر پیچیدہ ہوگی، اتنا ہی زیادہ اس کا انحصار مختلف ممالک میں تیار ہونے والے اجزاء اور خام مال پر ہوگا۔ مثلاً آئی فون میں استعمال ہونے والے پرزے 43 مختلف ممالک میں بنتے ہیں، پھر یہ پرزے جن اجزاء اور مواد سے بنتے ہیں وہ مزید کئی ممالک سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ جتنی زیادہ کوئی ٹیکنالوجی پیچیدہ ہو گی، اس کا عالمی’نقشِ قدم‘ (footprint) اتنا ہی بڑا ہو گا7۔
خام مواد میں سے کسی ایک چیز کی فراہمی میں رکاوٹ بھی پیداوار پربڑا اثرمرتب کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ، دنیا میںneon (جو کہ مائیکرو چِپ کی پیداوار میں استعمال ہونے والے لیزر کے لیےدرکار ہوتا ہے) کی تقریباً آدھی پیداوار یوکرین میں ہوتی تھی۔ جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تونیون کی پیداوار رک گئی، جس کے سبب قیمتیں بے حد بڑھ گئیں اور عالمی سطح پرپہلے سے موجود سیمی کنڈکٹرز (semiconductors) کی قلتِ سپلائی ، شدید قلت میں بدل گئی۔ دراصل ترکیبی اجزاء کی فراہمی میں خلل بھی پیداوار کی مجموعی لاگت پر اثرانداز ہوتا ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
1 حاشیات ابن عابدین، ۳؍ ۲۳۸
2 الفتاوی الکبری، ۴؍۶۰۸
3 شرح منظومۃ القواعد الفقہیۃ ل السعدی
4 ایضاً
5 یہاں استعداد سے مراد کم سے کم وقت، محنت اور وسائل خرچ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نتائج و ثمرات حاصل کرنے کی استعداد ہے۔
6 مغربی اقتصادیات کی توجہ کا محور تقریباً کلیتاً پیداوار کو آخری حد تک بڑھانا ہے ، اس حقیقت سے قطع نظر کہ پیداوارکے یہ خطوط اکثر کھپت کی ضرورت اور طلب کو یکسر نظر انداز کیے ہوئے اور ان سے لا تعلق ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشی نظام جنون کی حد تک اس کوشش میں مبتلا ہے کہ کسی بھی طرح صارفین کی طلب بڑھائی جائے خواہ اس کی قیمت انفرادی و اجتماعی ماحولیاتی صحت ہی کیوں نہ ہو۔
7 یعنی اس ٹیکنالوجی کی تیاری میں دنیا کے مختلف علاقوں سے جو کوئی پرزہ یا مواد استعمال ہو گا، وہ اس علاقے کا نقش لیے ہوئے ہو گا۔ گویا کہ اس ٹیکنالوجی کا نقش دنیا کے کئی ممالک پر محیط ہو گا۔