الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شهادۃ في سبیلك واجعل موتنا في بلد رسولك صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)
ڈھونڈو گے تو مل جائے گا کشتی کو کنارا
شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے۔لیکن اس کے باوجود کبھی ہمارے ذہنوں میں یہ خیال بھی آ جاتا ہے کہ شایدہمارا ایمان اتنا پختہ نہیں کہ جہاد کرسکیں ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خود جہاد میں اترنے سے ایمان بنتا ہے اور بڑھتا ہے۔ غزوہ ٔخندق میں شریک صحابہؓ مجاہدین کے بارے میں قرآن مجید کی یہ گواہی موجود ہے کہ:
وَلَمَّارَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَمَا زَادَھُمْ اِلَّا اِیْمَانًاوَّ تَسْلِیْمًا (الاحزاب:۲۲)
’’اور جب مومنوں نے (کفار کے) لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے یہ وہی (کچھ) ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھاا ور اس سے ان کا ایمان اور اطاعت اور زیادہ ہو گئی۔‘‘
اسی طرح غزوۂ اُحد میں استقا مت دکھانے والے مجاہدین کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا:
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ (آل عمران: ۱۷۳)
’’وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لیے ہیں،تم ان سے ڈرو تو اس بات نے انھیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے،اور وہ بہت اچھا کارساز ہے‘‘۔
پتہ چلا کہ جہاد میں ایمان بنتا ہے اور اس کے برعکس ترکِ جہاد سے ایمان گھٹ جاتا ہے اور نفاق بڑھتا ہے اور سُوئے خاتمہ کا شدید خطرہ رہتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
’’مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ، مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنْ نِّفَاقٍ‘‘ (رواہ مسلم،کتاب الامارۃ)
’’جو شخص اس حالت میں مرا کہ اُس نے نہ جنگ کی اورنہ جنگ کاارادہ دل میں رکھا، وہ نفاق کی ایک حالت میں مرا۔‘‘
اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم دراصل اپنے عہد کے مکی دور سے گزر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مکہ میں تو سود اور شراب بھی حرام نہیں تھے، روزے بھی ابھی فرض نہیں ہوئے تھے تو پھر ان تمام احکامات کا کیا بنے گا؟بلکہ پھر تو بقرہ وآلِ عمران اور دیگر تمام مدنی سورتوں کے احکامات پر عمل کا سوال بھی اٹھایا جا سکے گا؟جب کہ قیامت تک کے لیے کامل دین کی اطاعت ہم پر واجب ہے : یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (البقرۃ: ۲۰۸)’’اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ‘‘۔ اسی طرح اَ لْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدۃ:۳)’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پرتمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پرمیں رضا مند ہو گیا‘‘۔لہٰذا اللہ تعالیٰ کو راضی تبھی کیا جا سکتا ہے کہ پورے دین پر عمل کیا جائے۔
بعض کہتے ہیں کہ جہاد کے لیے خلافت کا وجود ضروری ہے توسوال یہ ہے کہ اگر کفار نے جنگ و جدل ہی کے ذریعے مسلمانوں سے خلافت چھینی ہو تو پھر ان کی جارحیت کا تدارک کیسے ہو گا ؟ ترتیب کیا ہو گی؟ کیا امام شاملؒ، صلاح الدین ایّوبی ؒ،عزّبن عبد السلامؒ ،حافظ ا بنِ تیمیہ ؒ،حاجی امداد اللہ مہاجر مکّیؒ،اورشیخ الہندمولانامحمود حسنؒ وغیرہم کے’’ بغیر خلافت کے جہاد‘‘ کو کالعدم قرار دیا جائے گا؟
کچھ کہتے ہیں کہ حاکمِ وقت کی اجازت شرط ہے تو اگر امت کے حکام یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست بنائے بیٹھے ہوں تو پھر اجازت کس سے لی جائے گی؟
کچھ کہتے ہیں کہ آج جہاد فرضِ کفایہ ہے،پھر ہر ایک سے شرکت کا مطالبہ کیوں؟اصل تو یہی ہے کہ جہاد فرضِ کفایہ ہے،لیکن کیا موجودہ حالات میں یہ کفایت پوری ہو رہی ہے؟کیا ایک صدی سے مقبو ضہ فلسطین میں مسلمانوں کے وسائل اور مجاہدین کی تعداد یہود کو نکال باہر کرنے کے لیے کافی ثابت ہوئی ہے؟عراق،افغانستان اور شیشان میں صلیبیوں کے خلاف،کشمیر میں ہند کے خلاف مجاہدین کی تعداد اور استعداد کفایت کرتی تو آج ان مظلوم خطوں کے علماء،پورے عالم کے مسلمانوں کو جہاد کی نصرت اور اس کے فرضِ عین ہونے سے متعلق فتویٰ نہ دیتے! اور اگر کسی کے خیال میں آج یہ فرضِ کفایہ ہے تو بھی ہے تو یہ ایک عظیم عبادت۔اور عبادت کو تو ادا کرنے کے ’’بہانے‘‘ ڈھونڈنے چاہییں،نہ کہ اس سے دور رہنے اور دورکرنے کے۔ ہم اس عظیم اجروثواب سے کیسے بے نیاز ہو سکتے ہیں جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اس اجرو ثواب سے کبھی بے نیازی نہیں برتتے تھے:
’’وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ! لَوْ لَا اَنْ یَّشُقَّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ مَا قَعَدْتُّ خِلَافَ سَرِیَّۃٍ تَغْزُوفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَبَدًا‘‘ (مسلم،کتاب الامارۃ)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، اگرمجھے مسلمانوں کے مشقّت میں پڑ جانے کا ڈر نہ ہوتا، تو میں اللہ کی راہ میں لڑنے والے کسی لشکر سے کبھی پیچھے نہ رہتا۔‘‘
کچھ کہتے ہیں کہ کفار سے مقابلہ بغیر کسی بڑی ___بلکہ ان کے برابر کی تیاری کے، عبث ہے۔ حالانکہ تیاری صرف بساط کی حد تک واجب ہے: وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّااسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍوَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ (الانفال: ۶۰)’ ’اور تم ان کافروں کے لیے اپنی استطاعت بھر طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے مہیا کیے رکھو‘‘۔
در حقیقت آج دنیا بھر میں جو جہاد ہو رہا ہے اس کی نوعیت اصلاً دفاعی ہے،صلیبی ،صہیونی ومشرک قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی ہیں۔اورجہاد الدفع( دفاعی جہاد) میں ایسی بیشترشرائط ساقط ہو جاتی ہیں جوجہادالطلب(اقدامی جہاد) میں شریعت ہم پر عائد کرتی ہے ۔
ان سارے اعتراضات کا مفصل اور مُسکِت جواب علمائے ربانییّن اور فقہائے امّت نے بخوبی دیا ہے۔مثلاً امام ا بنِ عابدین رحمۃ اللہ علیہ اپنے حاشیے کی تیسری جلد (ص:۲۳۸) میں لکھتے ہیں:
’’اگر دشمن کسی بھی اسلامی ملک کی سرحد پہ حملہ آور ہو جائے تو جہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ اس کے قرب و جوار میں بسنے والوں پر بھی جہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ البتہ جو لوگ ان سے پیچھے، دشمن سے فاصلے پر بستے ہوں، توجب تک ان کی ضرورت نہ پڑے ان پر جہاد فرضِ کفایہ ہی رہتا ہے۔ لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ان کی ضرورت پڑ جائے، مثلاً : جس علاقے پر حملہ ہوا ہے اس کے قرب و جوار میں رہنے والے لوگ دشمن کے خلاف مزاحمت کرنے میں بے بس ہو جائیں، یابے بس تو نہ ہوں لیکن اپنی سستی کی و جہ سے جہاد نہ کریں، تو ایسی حالت میں ا ن کے اردگرد بسنے والوں پر بھی جہاد ، نماز اور روزے کی طرح فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ اسے ترک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ پھر فرضیت کا یہ دائرہ اس کے بعد اور پھر اس کے بعد والوں تک حسبِ ضرورت پھیلتا جاتا ہے یہاں تک کہ بتدریج مشرق و مغرب میں بسنے والے ہر مسلمان پر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔‘‘
عبداللہ عزام شہیدؒ دیگر فقہائے اسلام کے فتاویٰ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اگر دشمن مسلمانوں کی گز بھر زمین پربھی چڑھائی کر دیں تو اس علاقے میں بسنے والوں اور ان کے قریب رہنے والوں پرجہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے۔پھر اگر یہ لوگ دشمن کے مقابلے کے لیے کافی نہ ہوں یا کوتاہی کریں یا سستی دکھائیں، تو جہاد کی فرضیت ِعین کا دائرہ ان کے پڑوس میں بسنے والوں تک بھی پھیل جاتا ہے۔ پھر فرضیت کا یہ دائرہ بتدریج پھیلتا جاتا ہے، یہاں تک کہ (ضرورت پڑنے پر) شرقاً غرباً پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اورایسی صور ت میں(یعنی جب جہاد فرضِ عین ہو جائے) بیوی شوہر کی، اولاد والدین کی اور مقروض قرض خواہ کی اجازت کا پابند نہیں رہتا۔چنانچہ:
جب تک کوئی بھی ایساٹکڑائے زمین جوکبھی اسلامی رہا ہو، کفار کے قبضے میں رہے، تو (دشمن سے اسے واپس لینے تک) سب مسلمانوں کی گردنوں میں اس کا گناہ باقی رہتاہے۔
جو شخص جتنی زیادہ استطاعت، امکانیات اور طاقت کا حامل ہو گا، اس کے کندھوں پر اس گناہ کا بوجھ بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا، لہٰذامعاشرے میں نمایاں حیثیت کے حامل علماء، قائدین اور داعیوں پرگناہ کا یہ بوجھ عام لوگوں سے کہیں زیادہ ہو گا۔‘‘
(دفاع عن اراضي المسلمین،ص۱۰)
یہ فتویٰ شیخ عزامؒ کا ہے جنھوں نے افغانستان کے مورچوں میں بیٹھ کراسے تحریر کیا۔ حقیقت کی جستجو کرنے والوں کے لیے ___ہماری امت کے بزرگوں نے صدیوں پہلے جو اپنی دو ٹوک رائے دی__ وہ بہت کافی ہے:
قَالَ الْاِمَامَانِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ وَاَحْمَدُ بْنِ حَنْبَلٍ وَغَیْرُھُمَا: ’’اِذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ شَیْئٍ فَانْظُرُوْا مَاذَا عَلَیْہِ اَھْلُ الثَّغْرِفَاِنَّ الْحَقَّ مَعَھُمْ؛ لِاَنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ: وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:۶۹) (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ ؒ: ۲۸ / ۴۴۲)
’’امام احمدبن حنبلؒ ا ور عبداللہ بن مبارکؒ اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ جب لوگوں کے درمیان کسی بات میں اختلافِ رائے پیدا ہو جائے تودیکھو کہ محاذوں والے کس طرف ہیں کیونکہ بے شک حق ان کے ساتھ ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’ا ور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم ضرور بالضرور ان کو اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے‘۔‘‘
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭