نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ناول و افسانے

سُلطانئ جمہور | قسط نمبر: ۱۶

علی بن منصور by علی بن منصور
21 دسمبر 2021
in نومبر و دسمبر 2021, ناول و افسانے
0

مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی، جب بھی آتی ہے بہت سی اکٹھی نازل ہوجاتی ہیں۔ اور ہمارے گھر میں تو شاید غول در غول آتی ہیں……وہ گہری سوچ میں گم ابّا جی کے بستر کے پاس کرسی بچھائے بیٹھے تھے۔ ان کی نظر کھڑکی کے شیشے کے اس پار گھر کی بیرونی دیوار پر چڑھی گلدار بیلوں پر تھی ، جن پر کوئی پھول تو کیا، کلی بھی ڈھونڈے سے نہ ملتی تھی۔لاہور میں بہار اپنے جوبن پر تھی مگر ان کے گھر سے تو کیا سبزے کی تازگی اور کیا پھولوں کے دھنک رنگ، سب ہی اڑ گئے تھے……ان کی جگہ ایک سرمئی سی اجاڑ ویرانی نے لے لی تھی۔ ایک دبیز کہرہ سا پوری زندگی پر جما ہوا محسوس ہوتا تھا۔انہوں نے اپنی عینک کے شیشے قمیص کے دامن سے رگڑ کر صاف کیے، اور دوبارہ ناک پر جما لی، گویا اس کہرے کے اس پار دیکھنے کی اپنی سی کوشش تھی، مگر اب راہ میں کھڑکی کا شیشہ حائل ہو گیا۔ نجانے کتنے ہاتھوں کے لمس اس شیشے پر اپنی یادگار چھوڑ گئے تھے، باہر چھایا کہرہ شاید مزید گہرا ہو گیا تھا۔ شیشہ باہر سے آتی سرمئی روشنی میں میلا اور داغدار نظر آ رہا تھا، اور اس شیشے میں دِکھتا ان کے اپنے چہرے کا عکس بھی۔

مگر آخر کہاں تھی غلطی؟! کیا کوتاہی کی انہوں نے……؟ کہاں کمی رہ گئی ان کی جہد و سعی میں، ان کے خلوص میں ، ان کے عزم و ارادے میں…… آخر وہ کون سا مقام تھا…… وہ کون سا قدم تھا……جہاں وہ سیدھا چلتے چلتے اس راستے سے اتر گئے جو منزل تک جاتا تھا۔ یہ……یہ ان کی منزل تو نہ تھی، ……یہ تو انہوں نے کبھی نہ چاہا تھا……کبھی سوچا تک نہ تھا، مسائل سے اٹا، مشکلات میں گھرا، اخلاقی ، معاشی و معاشرتی تنزل کی طرف قدم بہ قدم گامزن، ایک تباہ حال گھرانہ……!

’’……کرپشن ہو گی، لوٹ مار، لالچ حرص سب ہو گا،……بڑے چھوٹے کی تمیز اٹھ جائے گی…… بدتمیزی، بدزبانی، بے ادبی……ایسا اخلاقی انحطاط ہو گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے…… ‘‘، فوراً ہی جیسے ان کی سوچ کے جواب میں یہ یاد بنا اجازت و بے دھڑک…… در آئی تھی۔ اور پچھلے کچھ عرصے سے جس قدر انہوں نے پروفیسر حسن عبداللہ کے یہ الفاظ یاد کیے تھے، شاید ہی کبھی کسی کی باتیں اس طرح یاد رکھی تھیں۔ کتنا یقین تھا ان کے لہجے میں……جیسے وہ اپنی آنکھوں سے یہ سب ہوتا دیکھ رہے ہوں۔

’’ایک ایسی مساوات ہو گی جو مخلوق کے فطری تنوع سے یکسر اندھی ہو گی……جس کی نظر میں شیر، ہاتھی، بکری، چڑیا اور مچھلی سب برابر ہوں گے…… جس میں بے عقل خوش رہیں گے لیکن عقل والےپناہ مانگیں گے……مگر پِسیں گے سب……‘‘

’’……آزادی ہو گی……ایسی مادر پدر آزادی کہ جس کا آپ نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو گا…… عورتوں کی شرم و حیا ……بچوں کی فرمانبرداری ……اچھی اقدار……سب ختم ہو جائیں گی…… ناچ گانا، فحاشی، اور حرام کام ہوں گے……شروع میں چھپ چھپا کر اور بعد میں کھلے بندوں……بغیر کسی خوف اور جھجک کے……‘‘، پروفیسر صاحب اپنی انگلیوں پر شمار کر کر کے انہیں بتا رہے تھے۔

’’ اسے محض تنبیہ نہ سمجھیں……بلکہ یہ میری پیشین گوئی ہے……یہ سب ہو گا……جانتا ہوں کہ آپ کو میری بات پر یقین نہیں آ رہا، مگر لکھ رکھیے کہ یہ سب ہو گا…… کیونکہ جمہوریت ایک پورا پیکج ہے……اور اس میں یہ سب شامل ہے…… جتنا زیادہ عرصہ آپ اسے آزمائیں گے، اتنا ہی زیادہ یہ بگاڑ پیدا کرے گی……اتنے ہی اس کے جوہر کھلتے جائیں گے…… اور بہت جلد یہ نتائج آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے……!‘‘

وہ اپنے گھریلو حالات سے پریشان حال، جمعہ کی نماز کے بعد جامعہ پنجاب کی جامع مسجد کے ایک کونے میں بیٹھے تھے…… جب پروفیسر مفتی حسن عبداللہ صاحب ان کے پاس آ بیٹھے۔ تھوڑی سی گفتگو کے بعد ہی پروفیسر صاحب نے نہایت سنجیدگی سے ان سے کہا ۔

’’ہاشمی صاحب!……مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ اپنے گھرانے کے لیے خوشیاں اور کامیابیاں جمہوریت میں ہی تلاش کرتے رہے، تو آپ بہت جلد بہت مشکل میں پڑ جائیں گے……‘‘۔

اس وقت تو انہیں یہ باتیں سن کر یقین تو کیا آنا تھا……الٹا غصہ آنے لگا۔تنگ نظر مولوی……ڈبہ بند دماغ ……ہر چیز کا منفی پہلو دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔جب پہلے سے ہی ذہن میں یہ بٹھا رکھا ہو کہ ہم ناکام ہوں گے،نامراد ہوں گے……تو ظاہر ہے پھر یہی نتیجہ نکلے گا……اگر کچھ کرنے کا جگرا ہوتا تو خالی خولی باتیں کرنے……نتائج سے ڈرانے کے بجائے عملی میدان میں کچھ کر کے دکھاتے……! کتنا یقین تھا انہیں…… کہ ان کا گھر میں جمہوریت نافذ کرنے کا منصوبہ بہت اچھے نتائج لائے گا…… اور کیوں نہ ہوتا یقین…… جمہوریت ……خالی جمہوریت……یا مغربی طرز کی جمہوریت پر تو کبھی بھی ان کا اعتقاد نہ رہا تھا……انہوں نے تو ہمیشہ اسلامی جمہوریت كے نفاذکی بات کی تھی۔

اسلامی جمہوريت……کیا تھی اسلامی جمہوریت؟ ……وه مثالی نظام کہ جس میں اسلام کے سنہری ، پائیدار اور ابدی اصول، آج کی جدید تہذیب سے مل کر ایک ایسا نظام تشکیل دیتے جواکیسویں صدی کی دنیا اور اس میں بسنے والے انسان کے تمام دینی، معاشی و معاشرتی تقاضے پورے کرتا، جو آج کے انسان کے مسائل و طبائع سے مکمل واقفیت رکھتا اور ہر لحاظ سے حیاتِ انسانی سے مطابقت رکھتا۔ یعنی روح اسلام ہی کی ہوتی……طرزِ حکومت جدید ہوتا……آج کی دنیا کے مطابق……آج کے انسان سے compatible ……ان دو کے ملاپ سے وہ مثالی نظام وجود میں آتا جو مسلمانوں کو ایک بار پھر اوجِ ثریا پر فائز کردیتا …… مگر ……!!

مگر ……حسرت ان غنچوں پر ……! ایک گہرا سانس لیتے ہوئے انہوں نے اپنا سر پیچھے کی جانب ڈھیلا چھوڑ دیا، اب ان کی نظریں چھت کے بیچوں بیچ لٹکتے پنکھے پر جمی ہوئی تھیں۔

’’آخر ان کم عقل بچوں کو ووٹ کا حق کیوں حاصل ہے……؟ اس طرح تو یہ الیکشن ایک تماشہ ہی بنے رہیں گے……؟‘‘، صولت بیگم کے مدتوں پرانے سوال کی بازگشت ان کے ذہن میں گونجی۔

’’تو آپ کی نظر میں کس کو ووٹ کا حق ہونا چاہیے؟‘‘،انہوں نے سوال کا جواب ایک دوسرے سوال سے دیا۔

’’ سچ پوچھیں تو میرے خیال میں ابا جی، آپ، عثمان اورجاوید کو ووٹ کا حق ہونا چاہیے……‘‘، صولت بیگم صاف گوئی سے بولیں،’’……لیکن اس پر اگر سب راضی نہ ہوں تو پھر زیادہ سے زیادہ اس فہرست میں مجھے، فائزہ اور بینش کو شامل کر لیں……یعنی گھر کے بڑے اور باشعور افراد……‘‘۔

’’ اور عمیر……اس کو بھی ووٹ کا حق نہ دیں؟‘‘

’’ پہلے وہ اپنے آپ کو اس کا اہل تو ثابت کرے……‘‘، صولت بیگم کی بڑبڑاہٹ خوش قسمتی سے اتنی ہلکی تھی کہ وہ آسانی سےنہ سننے کاتاثر دے کر نظر انداز کرسکتے تھے۔

’’لیکن پھر بیگم صاحبہ ……یہ جمہوریت تو نہ ہوئی ناں……یہ تو ایک مخصوص گروہ کی حکمرانی ہی ہو گی……بالخصوص جبکہ گھر میں دیگر عاقل و بالغ افراد بھی موجود ہیں……نہیں!……ضرورت اس چیز کی ہے کہ جو بچے نا سمجھ ہیں، انہیں سمجھایا جائے……ان تک علم و آگہی پہنچائی جائے……انہیں حق کی دعوت دی جائے اور اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے…… پھر ہی ہم حقیقی اسلامی جمہوریت کی بہار اپنے گھر میں دیکھیں گے اور اس کے ثمرات سے مستفید ہو پائیں گے‘‘، وہ سب کے اعتراضات اور خدشات کو یونہی عزم و یقین سے، امید اورولولے سے ردّ کرتے، سب کی ہمت بڑھاتے تھے۔

مگر ہوا کیا……؟!کتنی کوشش انہوں نے کر دیکھی……بچوں کے ساتھ بیٹھنے کی……افہام و تفہیم کی خاطر کتنی نشستیں رکھیں……عثمان اور جاوید نے بھی بیویوں اور بچوں کے ساتھ اپنی جان لڑا دی……انہیں اسلامی جمہوریت سمجھانے کی……انہیں اچھا اور قابل حکمران چننے کی تحریض دلانے کی……مگر پھر بھی ہر الیکشن کے موقع پر نجانے کیا ہوتا……کیسے سب کے دماغ الٹ جاتے کہ بالکل ہی توقع کے برخلاف نتیجہ سامنے آتا……

اور الیکشن بھی چھوڑو……اس کے علاوہ جو کچھ گھر میں چل رہا تھا……وہ کس کھاتے میں آتا تھا؟وہ کس کی غلطی تھی؟……نبیلہ کی خود سری……اس کی اور دیگر لڑکیوں کا تمامتر دینی تربیت بھلا کر گھرانے کی ہر اچھی روایت پسِ پشت ڈال کر بڑوں کی مخالفت کرنا……بچوں کی بد تمیزی اورنافرمانی……جو سارا سارا دن اپنے گھر اور سکول سے متعلقہ فرائض بھلائے ٹی وی اور انٹر نیٹ سے جڑ کر بیٹھے رہتے……گھر میں بڑھتا اور چھاتا ہوا مغربی رنگ…… حتیٰ کہ ان کے گھر کےتو ملازم بھی اس قدر مزاج دار تھے کہ مالکوں کوبات کرنےسےپہلے سو بار سوچناپڑتا…… اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے تھے…… ان کے ذہن میں بینسن کی وہ ڈبیاگھوم گئی، جو چند دن پہلے نسرین کو زین کی الماری کی صفائی کے دوران ملی تھی۔ پروفیسر حسن صاحب نے جو پیشین گوئیاں کی تھیں……غیر شعوری طور پہ ان کا ذہن اس وقت یہ اندازہ لگانےمیں مصروف تھا کہ ان میں سے کتنی پوری ہو گئیں اور کتنی ابھی باقی تھیں……

وہ انہی فکروں میں غلطاں تھے جب موبائل کی بجتی بیل نے انہیں متوجہ کیا۔ ابّا جی ذرا ہی دور اپنے بیڈ پر سو رہے تھے……موبائل کی آواز پر انہوں نےاپنی نیند بھری آنکھیں ذرا سی کھول کر ان کی جانب دیکھا……مگر پھر دواؤں کے زیر اثر، دوبارہ سو گئے۔ ابوبکر صاحب نے جلدی سے کال ریسیو کی، دوسری جانب جاوید صاحب تھے۔

’’ بھائی جان مِنی مارکیٹ والی برانچ میں کوئی نہیں ہے کیا؟‘‘، انہوں نے سلام کے فوراً بعد عجلت میں پوچھا۔

’’ کیوں نہیں……عمیر ہو گا ناں!! ……اسی کو چھوڑ کر آیا تھا میں وہاں……‘‘

’’ وہ نہیں ہے وہاں……اوپر سے فون بھی اس نے بند کر رکھا ہے، اور زوار کا نمبر بھی بند مل رہا ہے…… میں ادھر جوہر ٹاؤن والی دکان میں ہوں اور اُدھر مِنی مارکیٹ میں گاہک بیٹھے انتظار کر رہے ہیں اور انہیں اٹینڈ کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں…… گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہے عمیر……!‘‘، جاوید صاحب غصے سے بولے۔

’’میں چلا جاتا ہوں پھر……تم فکرنہ کرو……‘‘ انہوں نے فوراً اٹھتے ہوئے کہا۔

’’میں جانتا ہوں بھائی جان آپ آج سارا دن بھی وہیں گزار کر آئے ہیں، مگر میں اگر ابھی یہاں دکان فرحان کے حوالے کر کے مِنی مارکیٹ جاؤں تو بھی گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے سے پہلے نہیں پہنچ سکتا……اس وقت تو رش بھی اتنا زیادہ ہوتا ہے نہر پر……، جاوید صاحب افسوس اور فکرمندی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بولے، ’’ ولید کی اتنی یاد کبھی نہیں آئی جتنی آج کل آتی ہے نہ اتنی ضرورت ہی کبھی محسوس ہوئی……‘‘، وہ کہنا نہ چاہتے تھے مگر پھر بھی کہہ گئے۔

’’ ہاں……! صحیح کہتے ہو……!‘‘، ابوبکر صاحب نے ایک گہرا سانس لے کر فون بند کیا، جیب میں رکھا اورمیز سے اپنا بٹوہ اور گاڑی کی چابیاں اٹھاتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئے۔

٭٭٭٭٭

نسرین کا خلع کے لیے دائر کیا گیا مقدمہ نہایت اہم رخ اختیار کر گیا تھا۔ ارشد جس نے اب تک اس مقدمے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی تھی اور اس کی جگہ اس کے والدین مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ مگر اب جو مسئلہ درپیش تھا اس پر ارشد بھی سنجیدگی سے معاملے پر سوچ بچار کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ وہ بطورِ خاص اپنے کاموں سے رخصت لے کر پاکستان آیا تھا، اور اگلے ہی دن نسرین سے ملاقات کے لیے سیدھا ہاشمی ہاؤس پہنچ گیا ۔ گیٹ پر چوکیدار نے اس کا تعارف حاصل کر کے پہلے انٹرکام پر نبیلہ کو اطلاع کی تھی، اور نبیلہ نے وہیں سے سختی سے’’جو بھی بات ہو گی کورٹ میں ہو گی……‘‘ کے پیغا م کے ساتھ اسے واپس بھیج دینے کی ہدایت جاری کر دی۔

اس کے بعد بھی ارشد دو تین دفعہ نسرین سے ملاقات کرنے کی کوشش کر چکا تھا۔ چونکہ نسرین اس کی کال اٹینڈ نہیں کرتی تھی لہذا وہ ابوبکر صاحب اور صولت بیگم کے ذریعے بھی نسرین تک پہنچنے کی کوشش کر چکا تھا، مگر ہر طرف سے اسے ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نبیلہ یہ تمام خبریں نسرین کے وکیل بشیر صاحب سے آج کی ملاقات کے شروع میں ہی ان کے گوش گزار کر چکی تھی اور اب بہت دیر سے ان کے ساتھ بیٹھی ان پچھلی تین عدالتی پیشیوں کی مفصّل روداد سن رہی تھی جن میں وہ بوجوہ شرکت نہیں کر پائی تھی۔ بشیر صاحب بھی رپورٹیں بنانے کے شوقین محسوس ہوتےہیں، ان کی انتہائی دقیق اور مفصّل رپورٹوں پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔ کارروائی کی عمومی رودادسے لے کر جج کے کمنٹس اور عدالت میں موجود دیگر افراد کے تاثرات تک، کچھ بھی انہوں نے نہیں چھوڑا تھا۔ رپورٹیں اس کے سامنے رکھ کر وہ اب اسےمقدمہ کے اوّل روز سے آج تک کی ساری کار گزاری مع اپنے تبصروں اور تجزیوں کے سنا رہے تھے، اور وہ غائب دماغی سے مگر تحمل سے سن رہی تھی، کیونکہ اب تک کی ملاقاتوں کے بعد اتنا تو وہ جان چکی تھی کہ یہ بشیر صاحب کی عادت تھی کہ وہ ہر ملاقات میں بات ہمیشہ الف ہی سے شروع کرتے جہاں سے معاملے کا آغاز ہوا تھا، اور ہر نکتے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اب تک کی تمام صورت حال کا ایک خاکہ اس کے سامنے پیش کر دیتے۔

بظاہر وہ اپنے سامنے فائل کھولے اور ہاتھ میں قلم تھامے بشیر صاحب کی گفتگو سن رہی تھی، مگر اس کا ذہن کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔ اور متعدد بار دماغ کو حاضر کرنے کی کوشش کے باجود ہر چند منٹ بعد وہ وہیں لوٹ جاتا۔عثمان صاحب کے حادثے کے بعد اس نے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ پھر پہلے ریگولرپولیس کے کارندے اور بعد میں سی آئی ڈی کے تربیت یافتہ پروفیشنلز جائے وقوع کا باریک بینی سے جائزہ لے چکے تھے۔ فورینزک رپورٹ کے لیے بھی شواہد اکٹھے کر لیے گئے تھے اور آج ہی سی آئی ڈی کا ایک انسپکٹر اپنی حتمی رپورٹ لے کر اس کے پاس آیا تھا۔

یہاں تک کی کہانی تو واضح تھی کہ جمعرات کی شب تقریباً تین بجے ان کے گھر پر پڑنے والے ڈاکے میں ڈاکو نہ صرف تقریباً دس لاکھ روپے مالیت کا سامان لے گئے تھے بلکہ جاتے جاتےعثمان صاحب کی ٹانگ میں گولی مار کر انہیں زخمی بھی کر گئے تھے۔گھر کا ملازم نذیر بھی ان ڈاکوؤں سے مڈ بھیڑ میں معمولی سا زخمی ہوا تھا۔ اس کے سر پر کوئی بھاری چیز ماری گئی تھی جس سےاس کا ماتھا پھٹ گیا تھا اور وہ وقتی طور پر بیہوش ہو گیا تھا۔ مگر چونکہ ڈاکو مکمل طور پہ دستانوں اور ماسک وغیرہ میں مستور تھے تو اپنے پیچھے کوئی نشان چھوڑ کر نہ گئے تھے اور نہ ہی عینی شاہدین کے لیے انہیں شناخت کرنا ممکن تھا۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ محلّے کے چوکیدار اور ارد گرد رہائش پذیر افراد میں سے کسی نے بھی اس رات کوئی غیر معمولی نقل و حرکت محسوس نہ کی تھی۔ افسوسناک امر یہ تھا کہ وہ جس سرویلنس سافٹ وئیر کے تحت گھر میں جگہ جگہ لگے سی سی ٹی وی کیمرے استعمال کرتے تھے، وہ عدم ادائیگی کی وجہ سے ہفتہ بھر سے بند تھا۔ ورنہ اگر گھر سے ہی کیمرے کی فوٹیج مل جاتی تو شاید مزید تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ پھر بھی یہ غنیمت ہوا کہ پولیس سامنے والے پڑوسیوں کے گھر میں لگے کیمرے کی فوٹیج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور رپورٹ کا یہی حصّہ تھا جس میں صبح سے نبیلہ کا دل و دماغ اٹکا ہواتھا۔

رات ایک بجے کی ریکارڈ شدہ فوٹیج میں واضح طور پہ بیرونی گیٹ کے راستےایک شخص کو گھر کے اندر داخل ہوتے دیکھا جا سکتا تھا۔ ان کا گھر جس گلی میں واقع تھا وہ مغربی جانب سے بند تھی، اور پڑوسیوں کے کیمرے کا زاویہ ایسا تھا کہ وہ سڑک اور گلی میں داخلے کے راستے کو کَوَر کرتا تھا۔ یوں ان کے گھر کا گیٹ کیمرے کے زاویۂ نظر میں شامل نہیں تھا، البتہ گیٹ کے باہر بنی ماربل کی سیڑھیوں اور ڈھلان(ریمپ) تک کیمرے کی نگاہ کی رسائی تھی۔ ویڈیو میں سادہ شلوار قمیص میں ملبوس ایک درمیانے قد کے شخص کو ان کے گیٹ تک جاتے دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ شخص معمول کے انداز میں ان تین سیڑھیوں پر چڑھتا نظر آتا تھا جو گیٹ تک لے جاتی تھیں۔ اس کے بعد وہ کیمرے کی حدِ نگاہ سے باہر نکل جاتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ دوبارہ کیمرے کے حلقۂ نظر میں نہیں آتا تو دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ وہ گیٹ یا دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہو جاتا ہے یا دوسری یہ کہ اس شخص کے لیے دروازہ اندر سے کھولا جاتا ہے، اور چونکہ اس شخص کی حرکات و سکنات سے مکمل اطمینان کا اظہار ہوتا ہے اور وہ کسی عادی معمول کی طرح سیدھا ان کے گھر کے گیٹ کی جانب آتا ہے، لہٰذا تفتیش کاروں کے ذہن میں دوسری صورت ہی زیادہ قرینِ قیاس تھی۔ اسی طرح رات تین بجے کے لگ بھگ ان کے گھر سے کالی شرٹ اور پاجامے میں ملبوس ایک فرد کو نکلتے دیکھا جا سکتا تھا، جو قدرے تیزی سے ان کے گیٹ سے نکل کر سڑک پر دور جاتا نظر آتا ہے، لباس کے فرق کے علاوہ یہ شخص اپنے قد کاٹھ سے وہی شخص ظاہر ہوتا ہے جو چند گھنٹے قبل گھر میں داخل ہوتا نظر آیا تھا۔ مگر یہاں بھی یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں تھا کہ یہ شخص خالی ہاتھ تھا۔ اس رپورٹ کے ساتھ ہی ڈاکوؤں کی واردات والی پوری کہانی پربہت بڑے بڑے سوالیہ نشان لگ گئے تھے۔

’’……اس موقع پر نہایت سوچ سمجھ کر کوئی سنجیدہ جواب دینا ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ کیونکہ معمولی سی غلطی بھی نسرین بی بی کے حق میں ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے‘‘، بشیر صاحب اپنی لمبی گفتگو ختم کرتے ہوئے اب اپنے سامنے پھیلے کاغذات سمیٹ رہے تھے ۔ نبیلہ چونک کر اپنی سوچوں کے گرداب سے نکلی اور قدرے سٹپٹا کر بشیر صاحب کی جانب دیکھا۔ شکر تھا کہ وہ اس کی جانب متوجہ نہیں تھے، اسے اپنے حواس مجتمع کرنے کے لیے چند لمحے مل گئے۔اس نے خواہ مخواہ سر پر بندھے سکارف کو دونوں ہاتھوں کی مدد سے ہلکا سا سیٹ کیا، اور ایک ٹانگ دوسری پر رکھتے ہوئےاپنی کرسی پر مزید آگے کو ہو کر بیٹھ گئی۔ پھر ہاتھ میں پکڑے قلم کو دانتوں میں دباتے ہوئے پر سوچ انداز میں بولی:

’’ اور آپ کی رائے میں وہ جواب کیا ہونا چاہیے؟‘‘

’’……اس بارے میں میری رائے کیا حیثیت رکھتی ہے؟ یہ تو نسرین بی بی اور آپ سب کے سوچنے کا معاملہ ہے‘‘، بشیر صاحب نےایک ابرو اچکاتے ہوئے قدرے تعجب سے اس کی طرف دیکھا۔

’’کیوں نہیں……آپ ہمارے وکیل ہیں، آپ کی رائے کیوں اہمیت نہیں رکھتی……؟‘‘، وہ ذہن پر زور ڈال کر بشیر صاحب کے اختتامی جملے یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر ابھی فی الحال کس سوال کا جواب درکار تھا، نہ اس کے کانوں نے سنا تھا، نہ دماغ ہی یہ بتانے پر قادر تھا ۔

’’…… کیونکہ یہ ایک سراسر ذاتی فیصلہ ہے کہ نسرین بی بی عبداللہ کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں یا ارشد کے حوالے کریں گی، میرا کام تو آپ لوگوں کے کیے ہوئے فیصلے پر خوش اسلوبی سے مخالف پارٹی سے عمل کروانا ہے، مگر فیصلہ کرنے کے لیے آپ کو ہی اپنا دماغ حاضر کرنا ہو گا‘‘،بشیر صاحب خشک انداز میں بولے ۔

غالباً انہیں بھی اس کی عدم توجہی کا احساس ہو گیا تھا۔ مگر اس کے سبب وہ ان کو اپنے اوپر حاوی ہونے دے……ناممکن! کھسیاہٹ دور کرنے کو وہ تیزی سے بولی:

’’……آف کورس! ……یہ تو ہم خود ہی طے کریں گے ……میرا مطلب یہ تھا کہ آپ کی کیا رائے ہے، کیا اس ایشو کو ابھی فوراً ہی ایڈریس کرنا چاہیے یا ہمیں اپنی اس بات پر زور دینا چاہیےکہ ارشد اور اس کی فیملی نے اتنا عرصہ ہمارے ساتھ جو فراڈ کیا ہے اس کے لیے عدالت ہمارے ساتھ انصاف کرے……؟‘‘

’’……دیکھیں بی بی! یہ بات پہلے ہو چکی ہے‘‘، بشیر صاحب اب واضح ناراضگی سے بولے،’’……ہم پہلے ہی اس نقطے کو بار بار ہائی لائٹ کر چکے ہیں، اب اس موقع پر دوبارہ یہ مظلوم کارڈ کھیلنا ہمارے حق میں مفید نہیں، عدالت بھی تنگ آ جائے گی کہ ہم ایک ہی بات دہرا دہرا کر اس کا وقت ضائع کرتے ہیں……‘‘

مظلوم کارڈ والی بات سیدھی جا کر نبیلہ کے دل پہ لگی، اس کا چہرہ تمتما اٹھا،’’دیکھیے بشیر صاحب! آپ جانتے ہیں آپ کو ہم نے کس کام کے لیے رکھا ہے؟ آخر کسی کام کی اتنی بھاری بھرکم فیس لیتے ہیں ناں آپ……کوئی فی سبیل اللہ تو یہ خدمت نہیں کر رہے آپ……‘‘، وہ تند و تلخ لہجے میں ان سے مخاطب ہوئی،’’……آپ کو ہم نے اس لیے رکھا ہے کہ آپ نوالہ بنا کر ہمارے منہ میں ڈال دیں۔ اور اگر چبانے کے لیے جبڑا بھی ہلا دیں تو اور بھی اچھا ہے……ظاہر ہے وکیل آپ ہیں، میں نہیں……اور ججوں کے مزاج کو بھی آپ ہی بہتر سمجھتے ہیں……آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی رائے اور ریکمنڈیشن (مشورہ) اس رپورٹ پر ساتھ ہی لکھ دیا کریں، پھر ہمارا آپس میں مشورے کے بعد کیا فیصلہ ہوتا ہے، اس سے میں آپ کو آگاہ کر دوں گی۔‘‘

٭٭٭٭٭

بشیر صاحب کے چیمبر سے نکلنے کے بعد اس کا رخ ہسپتال کی جانب تھا۔ عثمان صاحب کو پرائیویٹ کمرے میں منتقل ہوئے دو ہفتے ہو چلے تھے، مگر ڈاکٹر تا حال انہیں ڈسچارج کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے۔گولی گھٹنے کے قریب ران کے گوشت کو پھاڑتی ہوئی نکل گئی تھی اور گو کہ ہڈّی سالم تھی، مگر ٹانگ کو خون فراہم کرنے والی بنیادی رگ ہی صدمے سے متاثر ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے اب بھی رگ سے رِستا خون جلد کے نیچے اکٹھا ہو جاتا، بعض ا وقات زیادہ خون رِس جانے سے عثمان صاحب کا بَلڈ پریشر خطرناک حد تک گر جاتا، چہرہ نچڑ جاتا اور جسم ٹھنڈا ہو جاتا، جس پر انہیں فوری طور پر ڈرپ لگانا پڑتی۔ ڈاکٹروں کی رائے یہی تھی کہ جب تک رگ اپنے فطری طریقۂ کار کے مطابق ٹھیک نہیں ہو جاتی، عثمان صاحب کو ہسپتال میں ہی رہنا چاہیے۔

مگر عثمان صاحب کی ہسپتال میں اتنی طویل اقامت کے سبب ہسپتال کے ہفتہ وار واجبات کی ادائیگی کرتے ہوئے جو نبیلہ کی حالت ہوتی تھی، اسے لگتا تھا کہ اسے بھی ایک ڈرپ لگوا کر ہی باہر قدم رکھنا چاہیے۔ اب بھی کیشئیر کو ساٹھ ہزار روپے کے چیک پر اپنی سربراہی مہر لگا کر دیتے ہوئے اس کے دل سے عثمان صاحب کی جلد از جلد گھر واپسی کی دعائیں نکل رہی تھیں۔ اس کا ارادہ تو تھا کہ وہ عثمان صاحب کے کمرے میں جا کرکھڑے کھڑے ایک نظر انہیں بھی دیکھ لیتی، مگر پھر تھکاوٹ محسوس کرتے ہوئے اس نے نور کو (جو عثمان صاحب کے ساتھ ہسپتال میں ٹھہری ہوئی تھی)میسج کر کے لابی میں ہی بلا لیا اور گھر سے لائے ہوئے کھانے کے تھیلے اس کے حوالے کر کے واپس گاڑی میں آ بیٹھی۔

اپنے طور پر وقت کی بھرپور بچت کرتے ہوئے بھی گھر پہنچتے پہنچتے مغرب ہو رہی تھی۔آج اس کی صبح نو بجے انسپکٹر رضوان کی آمد کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان سے ملاقات کے بعد وہ بارہ بجے ناشتہ کیے بغیر گھر سے نکلی تھی اور بشیر صاحب سے ملاقات سے پہلے ان کے اسسٹنٹ نے اس کے سامنے جو جوس کا ایک گلاس رکھا تھا، سارا دن وہ اس ایک گلاس کے سہارے ہی چلتی رہی تھی۔ گھر پہنچ کر انہیں گیٹ پر بالکل انتظار نہ کرنا پڑا، باوردی چوکیدار نے ان کی گاڑی آتے دیکھ کر پہلے ہی گیٹ کھول دیا تھا۔ وہ گاڑی سے اتر کر سیدھا اپنی جانب والے پورشن کے کچن میں پہنچی، رات کا کھانا ابھی تیاری کے مراحل میں تھا۔ مگر اس کے کہنے پر آپائی نے دوپہر کا بچا کھچا ہی اس کے لیے گرم کر دیا، اور اس کے منع کرنے کے باوجود ساتھ دو انڈوں کا آملیٹ بھی بنا دیا۔

پیٹ میں لگی آگ ٹھنڈی ہوئی تو اصولاً تو اسے نیند آنی چاہیے تھی۔ گرم گرم ماں کی گود جیسی نرم ملائم نیند، ایک طویل اور مشکل دن کے خاتمہ پر کس کو اچھی نہیں لگتی، اور وہ تو ہمیشہ سے ہی نیند کی بے حد شوقین رہی تھی، مگر اب مشکل یہ تھی کہ نیند آنا بھی چاہتی تو بھی ذہن جن مسائل اور پریشانیوں میں اٹکا ہوا تھا، وہ کسی صورت اس کی آنکھیں بند نہ ہونے دیتیں۔ سو کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ ٹشو سے منہ پونچھتے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لیے اس نے موبائل اٹھا کر میسج روانہ کر دیا۔

بالائی منزل پر لاؤنج میں اندھیرا تھا۔ آفس، نسرین اور زین کے کمرے، سبھی اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ رات کے کھانے سے پہلے کا یہ وقت عموماً سب کا نیچے ہی گزرتا تھا۔ ایک عمیر کا کمرہ تھا جو آباد نظر آ رہا تھا۔ اس کے ادھ کھلے دروازے سے روشنی باہر لاؤنج میں آ رہی تھی۔ نبیلہ ایک محتاط نظر چاروں طرف ڈالتے ہوئے عمیر کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے ہی زوار ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا،اس کی طرف پشت کیے کسی سے موبائل پر محوِ گفتگو تھا۔ وہ ایک ہاتھ میں ہئیر برش پکڑے اپنے بالوں میں پھیر رہا تھا اور دوسرے ہاتھ کے ذریعے موبائل کان سے لگا رکھا تھا۔ ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ بہت خوشگوار موڈ میں ہے۔مگر آئینے میں جھلکتے نبیلہ کے عکس پر نظر پڑتے ہی اس کی خوش گواریت پل بھر میں تحلیل ہو گئی ۔ ماتھے پر شکنوں کا جال بچھ گیا اور اس نے چند تیز جملوں میں اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے ، فون بند کر دیا۔

’’……کیا مسئلہ ہے؟!……کیوں آئی ہو یہاں؟‘‘، وہ اس کی طرف مڑ کر کھا جانے والے انداز بولا۔

’’……تم سے ملنے نہیں آئی……چاچو سے کام تھا، اس لیے آئی ہوں……‘‘، اس نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔

’’……قسم سے نبیلہ! تمہارے اندر مینرز اور ایٹی کیٹس نام کو نہیں ہیں…… کسی کے کمرے میں یوں آتے ہیں منہ اٹھا کے……؟؟؟ ‘‘، وہ غصّے سے دانت پیستے ہوئےبد تمیزی سے بولا۔

’’……تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں چاچو کو میسج کر کے……یعنی اطلاع دے کر یہاں آئی ہوں……‘‘، اس کی بد تمیزی کو بمشکل ہضم کرتے ہوئے نبیلہ نےبھی تیز لہجے میں جواب دیا۔

’’……اور چاچو نے کہا کہ آ جاؤ……؟؟‘‘، اب کے زوار نے حیرت سے بھنویں اچکاتے ہوئے سوال کیا۔

’’……نہیں، انہوں نے ابھی تک میرے میسج کا جواب نہیں دیا……کہاں ہیں وہ؟؟ مجھے ان سے بہت ضروری کام ہے……‘‘، نبیلہ نے اہم انداز میں کہا۔

’’……ضروری کام کی بچی!……تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ یہاں اس طرح مت آیا کرو……خود تو مرو گی ساتھ ہمیں بھی مرواؤ گی!! کیا تاثر دینا چاہتی ہو تم سب کو؟؟ کہ تمہاری حکومت کی ڈوریں اس کمرےسے ہلتی ہیں……! چاچو واش روم میں ہیں، اور وہ بھی تم سے کوئی بات کرنا نہیں چاہیں گے ……ناؤ گیٹ لاسٹ!‘‘۔(اب دفع ہو جاؤ!)

نبیلہ چند لمحے تیز نظروں سے زوار کو گھورتی رہی۔ گو کہ وہ ہمیشہ سےہی قدرے بد تمیز اور منہ پھٹ تھا اور بہنوں کا کم ہی لحاظ کرتا تھا، مگر ابھی نبیلہ بہن کی حیثیت سے نہیں بلکہ سربراہِ خانہ کی حیثیت سے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اور اس خاص حیثیت میں یہ پہلی دفعہ تھا کہ زوار نے اس سے اس لہجے اور انداز میں بات کی تھی۔ یہ تو طے تھا کہ وہ عمیر سے بات کیے بغیرکہیں جانے والی نہیں تھی، لہٰذا زوار کے ساتھ گھوریوں کے تبادلے کا مقابلہ ترک کرتے ہوئے وہ آرام سے جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔

’’……جب تک چاچو آتے ہیں میں یہیں بیٹھ کر انتظار کروں گی……‘‘، وہ اطمینان سے بولی۔

’’……بہت ہی ڈھیٹ مٹی سے بنی ہو تم……!‘‘، زوار نے دانت کچکچائے، مگر اسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر مجبوراً پہلے کمرے کا دروازہ بند کیا اور پھر بیت الخلاء کا دروازہ کھٹکھٹا کر عمیر کو جلدی کرنے کو کہا۔ پانچ منٹ بعد عمیر تولیے سے منہ پونچھتا باہر آیا۔ نبیلہ کو پورے کرّوفر سے بیڈ پر بیٹھے دیکھ کر اس کے چہرے پر ان تاثرات کا نشرِ مکرر دیکھا جا سکتا تھا جو چند منٹ پہلے زوار کے چہرے پر اپنی بہار دکھا رہے تھے۔

’’ ……میں آپ کو یہ رپورٹ دکھانے کے لیے آئی ہوں……‘‘ ، اس سے پہلے کہ عمیر کچھ کہتا، نبیلہ نے ہاتھ میں پکڑی فائل کھول کر اس کے سامنے کر دی۔’’……یہ آبزرویشنز غور سے پڑھیں……یہ سی آئی ڈی کی رپورٹ ہے……اور یہ دیکھیں کہ انہوں نے نتیجہ کیا نکالا ہے…… ‘‘ْ۔

’’……ہٹاؤاسے……‘‘، عمیر نے ناگواری سے فائل اپنے چہرے کے سامنے سے ہٹائی۔’’……مجھے کیوں دکھا رہی ہو یہ رپورٹ ؟……اس کا مجھ سے کیا تعلق ہے؟‘‘۔

’’……بہت گہرا تعلق ہے چاچو……آپ یہ بتائیں کہ بینک کا جو قرضہ ادا کرنے کے لیے آپ کے پاس پائی بھی نہیں تھی، اس کے لیے یکایک پانچ لاکھ روپے کہاں سے آئے آپ کے پاس……؟‘‘

عمیر نے چونک کر گہری اور تیز نظروں سے اس کی جانب دیکھا،’’…… تم آم کھانے سے مطلب رکھو……پیڑ گننے کی ضرورت نہیں……‘‘،

’’……کیوں ضرورت نہیں……؟ مجھے پارلیمنٹ میں سب کے سوالوں کے جواب دینا ہوتے ہیں!!……ابّو، جاوید چاچو، ابّا جی……وہ سب جب پولیس تفتیش کی رپورٹ مانگیں گے توکیا یہ رپورٹ دکھاؤں گی میں انہیں……؟ یہ رپورٹ جو کہتی ہے کہ یہ ڈاکہ اصل ڈاکہ تھا ہی نہیں، بلکہ محض ایک ڈرامہ تھا……یہ رپورٹ جو کہتی ہے کہ گھر کے اپنے افراد اس واردات میں ملوّث ہیں……!!غضب خدا کا چاچو! دس لاکھ سے زیادہ مالیت کی چوری کا معاملہ نہ بھی ہوتا تو بھی عثمان چاچو پر گولی چلانا……یہ کوئی چھوٹا معاملہ ہے؟ ……کون جواب دے گا ان سوالوں کا…… ‘‘، نبیلہ بمشکل اپنی آواز دھیمی رکھتے ہوئے اضطراری انداز میں بولی۔ صبح جب سے انسپکٹر رضوان سے اس کی ملاقات ہوئی تھی، یہ سوال اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہے تھے۔ اگراس وقت عمیر گھر میں ہوتا اور دوسری مصروفیات انتہائی اہمیت کی حامل نہ ہوتیں تو وہ عمیر سے بات کیے بغیر کبھی گھر سے باہر نہ جاتی۔

’’……تو میں کیا کروں……؟؟‘‘، عمیر نے جھنجھلاہٹ آمیز بیزاری سے کہا، ’’……تمہارے سارے مسائل حل کرنے کا میں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے کیا……؟ سربراہِ خانہ تم ہو، خود حل کرو اپنے مسائل!……‘‘۔

عمیر کے منہ سے یہ ٹکا سا جواب سن کر چند لمحوں کے لیے نبیلہ دنگ رہ گئی۔ بے اختیار ہی اسے چند ہفتوں قبل کا عمیر کا ہمدردانہ انداز یاد آیا جب وہ اس کا پورے گھر میں سب سے بڑا خیرخواہ ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا، اور اب یہ رویّہ……! عمیر کے پل پل بدلتے انداز و اطوار اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔اسے خود ہی اپنی حیرت پر حیرت ہونے لگی، یہ کوئی پہلی دفعہ تو نہ تھا کہ عمیر نے اس سے یوں طوطا چشمی برتی تھی۔

’’……میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ پولیس کے یہ اندازے کہاں تک درست ہیں……؟‘‘، نبیلہ نے حتی المقدور اپنا لہجہ ہموار رکھتے ہوئے سوال کیا۔

٭٭٭٭٭

’’نہیں……نہیں……اور نہیں!!!!……یہ نہیں ہو سکتا……!!‘‘، اویس گردن دائیں سے بائیں نفی میں ہلاتے ہوئے غصے سے بولا، ’’ میں اس گھرانے کے تمام لڑکوں کی جانب سے یہ بات کہہ رہا ہوں……یہ نہیں ہو سکتا اوربالکل نہیں ہو گا!!!!……۔ہم یہ بِل قطعی نامنظور کرتے ہیں……۔پہلے ہی سب کےجیب خرچ میں سے دس فیصد کٹوتی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہم سب مشکلات کا شکار ہیں…… اب اس کو بڑھا کر تیس فیصد تک کر دیں……!!!؟ …… ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے!! قطعی نامنظور!!‘‘۔

’’……یہ وقتی اقدام ہے اویس……اس پر اتنا بے صبرا ہونے کی ضرورت نہیں……ہمارا گھرانہ ایک بحران سے گزر رہا ہے……یہ وقت تھوڑا سا مشکل ضرور ہے، مگر یہ بھی گزر جائے گا اور دوبارا گھر کے حالات اچھے ہو جائیں گے……اچھے برے حالات سب پر آتے ہیں……۔‘‘، نبیلہ کی مجبوری تھی، سب سے نرمی اور تحمل سے بات کرنا……سو گو کہ جی اس کا یہی چاہ رہا تھا کہ اویس کو ایک جھانپڑ رسید کرے مگر اب تک وہ اتنی تجربہ کار ہو چکی تھی کہ اس کے لہجے سے اس کے اصل جذبات کا قطعی اظہار نہ ہو رہا تھا۔

’’……ارے بھیا!!! ہم کھائیں گے کہاں سے……؟؟؟! ہمارے اخراجات کا کیا ہو گا……؟ وہ کیسے پورے کریں گے……؟ ٹھیک ہیں یہ باتیں……آٹھ دس ہزار سال میں آ جائے گی ہمارے گھر میں بھی خوشحالی……لیکن تب تک ہم زندہ بچیں گے تو پھر ہے ناں!!!‘‘، اویس مبالغہ آمیز پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔

’’……تم جیب خرچ میں سے کٹوتی کے بجائے اضافی اخراجات ختم کرنے کی طرف توجہ دو نبیلہ۔میرے خیال میں اسی سے معاشی اعتبار سے جو مشکل تمہیں محسوس ہو رہی ہے، وہ حل ہو جائے گی‘‘، ابوبکر صاحب نے سنجیدگی سے اسےمشورہ دیا۔

’’اضافی اخراجات……؟مثلا کون سے؟‘‘،نبیلہ نے اچھنبے سے پوچھا۔

’’مثلا یہ جو سکیورٹی گارڈز ہیں……میرے خیال میں ان کی کوئی ضرورت نہیں……‘‘

’’ارے نہیں بھائی جان! ……ابھی تو گھر میں ڈاکہ پڑا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ سکیورٹی کی ضرورت نہیں!‘‘، عمیر نے بات کاٹتے ہوئے زوروشور سے مخالفت کی،’’سکیورٹی نہ ہوئی اور دوبارہ کوئی چور ڈاکو آ گئے تو ہماری یہ پیٹی کوٹ حکومت1 کیا کر لے گی……سب کا جان و مال داؤ پر لگانے سے بہتر ہے چند ہزار ماہانہ گھر کی سکیورٹی پر خرچ کر لیے جائیں……‘‘۔

نبیلہ نے تیز نظروں سے عمیر کی طرف دیکھا۔ ایک سخت سا جواب فوراً ہی ہونٹوں پر مچلا مگر آخری لمحے میں اسے یاد آ گیا کہ یہ جواب اسے خود بھی مہنگا پڑ سکتا ہے، سو وہ یہ کڑوا گھونٹ بھی حلق سے اتار گئی۔

’’……تو پھر گھر کے ملازمین میں ہی کمی لانی چاہیے۔تم سب گاڑی چلانا جانتے ہو تو پھر گھر میں ڈرائیور کی کیا ضرورت ہے……؟‘‘۔

’’مگر ابو سلطان صرف ڈرائیوری تو نہیں کرتا……اوپر کے تمام کام کرتا ہے……پھر اس کا باپ پرویز مالی کے فرائض ادا کرتا ہے اور اس کی بیٹی لبنیٰ گھر کے کاموں میں مدد کراتی ہے……اور اب تو سب خواتین اتنی عادی بھی ہو گئی ہیں لبنیٰ کی……اس کے بغیر تو بہت مشکل ہو جائے گی……‘‘، نبیلہ جانتی تھی لبنیٰ یا سلمیٰ کو ہٹانے کی بات ہی خواتین کی جانب سے کتنا سخت ردّعمل لے کر آتی……ابھی تک تو گھر کی خواتین کرن اور اس کی بہنوں کو فارغ کرنے کا غم نہیں بھلا پائی تھیں۔

’’ہاں……اور پھر یہ پورا خاندان علیحدہ علیحدہ تنخواہ پاتا ہے……گھر اور بجلی، پانی ، گیس کی سہولت کے علاوہ……‘‘، ابوبکر صاحب نے جتایا۔

’’جی مگر یہ سب کام بھی تو ضروری ہیں……اگر یہ لوگ نہیں کریں گے تو کون کرے گا……؟‘‘۔

’’میرے تو خیال میں……مسئلہ وسائل یا پیسے کی کمی کا نہیں……بلکہ ان کے درست انداز میں مینجمنٹ کا ہے!!‘‘، عمیر کے بیان میں اگر الزام نہیں تھا، تو اس کی نظروں اور لہجے میں ضرور تھا۔

’’کیا مطلب ہے اس بات کا؟؟! کیا میں پیسے کھاتی ہوں……؟!کوئی غبن کر رہی ہوں، فراڈ کر رہی ہوں……گھر پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی جیب میں پیسے ڈال رہی ہوں……؟!‘‘، نبیلہ کا ضبط جواب دے گیا، وہ یکدم جیسے پھٹ پڑی تھی۔عمیر کے چہرے پر ایک مطمئن سی مسکراہٹ ابھری۔نبیلہ جانتی تھی وہ اسے مشتعل کرنا چاہتا ہے مگر ہزار کوشش کے باوجود وہ اپنا غصّہ ضبط نہ کر پائی، اویس نے بھی چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا……جیسے اس نئی امکانی صورتحال پر غور کر رہا ہو……عمیر اپنی کوشش میں پوری طرح کامیاب رہا تھا۔

’’……یہ تو میں نہیں جانتا لیکن مثل مشہور ہے……چور کی داڑھی میں تنکا……!‘‘، عمیر ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

’’سارے حالات سب کے سامنے ہیں……میرا ریکارڈ الحمدللہ آئینے کی طرح شفاف ہے، ہر چیز ڈاکومنٹڈ ہے……آمدن اور خرچ کا تمام حساب……کتنا آیا، کہاں گیا……کب خرچ ہوا……کیسے خرچ ہوا……جزئیات کی تفصیل کے ساتھ ہر چیز میرے پاس ریکارڈ میں موجود ہے! ‘‘، نبیلہ نے تڑاخ سے جواب دیا۔’’……یہ میری غلطی نہیں ہے کہ اس گھر پر میرے دورِ سربراہی میں ڈاکہ ڈلا ہے……نہ ہی یہ میری غلطی ہے کہ عثمان چاچودو ہفتوں سے ہسپتال میں پڑے ہیں……یہ سارے حقائق آپ سب کے سامنے ہیں۔پھر بھی اگر کسی کو سمجھ نہیں آتا کہ معاشی اعتبار سےہم کہاں نچڑ رہے ہیں تو ایسے عقل کے اندھے کو سمجھانا میرے بس کی بات نہیں……! ‘‘، غصّے اور رنج سے اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا، وہ تیز لہجے میں عمیر کی جانب دیکھے بغیر بولی۔

’’……تمہارے بس کی بات تو یہ حکومت چلانا بھی نہیں……جس دن سے تم نے یہ دفتر سنبھالا ہے، ہم سب کے سامنے ہی ہے کہ کیسے اس گھر کے معاملات گھسٹ گھسٹ کر چل رہے ہیں……!‘‘، عمیر نے جوابی فائر کیا۔

’’……عمیر!……‘‘، اجلاس کو زبانی کلامی فائرنگ کا اکھاڑ ابنتے دیکھ کر ابوبکر صاحب نے تنبیہی لہجے میں کہا، مگر عمیر کب کسی کو خاطر میں لانے والا تھا۔

’’……امّی جان مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ مرد کے ہاتھ میں برکت ہوتی ہے……تمہیں دیکھ لیتیں تو یہ بھی کہنے پر مجبور ہو جاتیں کہ عورت کے ہاتھ میں سوراخ ہوتے ہیں……!‘‘۔

’’……میں……آپ یہ……یعنی ……حد ہو گئی!!……‘‘، نبیلہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ عمیر کوئی پہلی دفعہ اس سے اس انداز میں پیش آ رہا تھا۔ بلکہ عمیر کے ہاتھوں اس رویے کی وہ عادی تھی، لیکن سب کے سامنے نہیں……بند دروازوں کے پیچھے، یوں پارلیمانی اجلاس میں سب کے بیچوں بیچ نہیں……سب کے سامنے اس کی یہ مخالفت کیا معنی رکھتی تھی؟ وہی تو تھا اسے سپورٹ کرنے والا……اس مقام تک لانے والا……اور یہ مسائل بھی سارے اسی کے پیدا کردہ تھے……کیا وہ جانتا نہیں تھا……تو پھر اب یہ باتیں وہ کیوں کر رہا تھا؟ کیا یہ کوئی نئی ترکیب تھی؟ کوئی نئی پالیسی……

’’……اس گھر کی تاریخ کی کمزور ترین سربراہ……‘‘،اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا،’’……اب بھی ہمیں سوچ لینا چاہیے……غور کر لینا چاہیے کہ خاتون پارٹی اس منصب کی اہل ہے یا نہیں……اب تک کی ان کی ٹرم کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے میرا تو سیدھا سادہ مشورہ یہ ہے کہ نبیلہ ہاشمی کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے تاکہ مشکل کے اس دور میں اس گھر کوکوئی ایسا قابل اور با صلاحیت سربراہ نصیب ہو جو کامیابی سے ان حالات کا سامنا کرتے ہوئے گھرانے کو اس بحران سے نکال سکے……‘‘۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 پیٹی کوٹ حکومت: دوپٹے و ساڑھی کی حکومت؍زنانہ حکومت

Previous Post

سوشل میڈیا کی دنیا سے…… | نومبر و دسمبر 2021

Next Post

سحر ہونے کو ہے | قسط نمبر: ۱۱

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | آٹھویں قسط

26 ستمبر 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | ساتویں قسط

12 اگست 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط

14 جولائی 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط

9 جون 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
Next Post

سحر ہونے کو ہے | قسط نمبر: ۱۱

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version