نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ناول و افسانے

سحر ہونے کو ہے | قسط نمبر: ۱۱

بنتِ طبیب by بنتِ طبیب
21 دسمبر 2021
in نومبر و دسمبر 2021, ناول و افسانے
0

صحن میں ایک ڈبل کیبن مزدا کھڑی تھی۔ عبادہ سامان گاڑی کی پیچھے والی باڈی پر لوڈ کرنے لگا اور نور خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔ وہ ایک صندوق کو گاڑی پر چڑھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ نور اس کی دھینگا مشتی دیکھ کر بے ساختہ مسکرا دی۔

’’میڈم! اگر آپ میرا تماشہ دیکھنے سے فارغ ہو گئی ہیں تو میری ذرا سی مدد کریں!‘‘ عبادہ نے ہلکا سا چہرہ موڑا اور جتنا صندوق اندر گیا تھا وہ بھی باہر آگیا۔

’’میں؟‘‘ نور نے مصنوعی اچھنبے سے اس کی طرف دیکھا۔

’’تو اور کیا؟۔۔۔ اور کس لیے باہر آئی تھی؟‘‘ عبادہ صندوق کو چھوڑ کر واپس مڑا اور قریب پڑے بستر اندر رکھنے لگا۔

’’میں تو تماشہ دیکھنے آئی تھی!۔۔۔ کبھی شفٹنگ ہوتے نہیں دیکھی میں نے!‘‘ وہ شرارت سے مسکرا دی تو عبادہ صرف ایک ناراض سی نگاہ ہی اس پر ڈال کر آگے بڑھ گیا۔

نور دھیرے سے آگے بڑھی اور صندوق کا جائزہ لینے لگی۔عبادہ اب کچن کا سامان لوڈ کر رہا تھا۔

’’اس میں کیا ہے؟‘‘ نور نے صندوق کا ڈھکن اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ بند تھا۔

’’کتابیں ہیں!‘‘ عبادہ نے نور کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا گویا کہہ رہا ہو اس وقت ایسے بونگے سوال کی کیا تُک۔

’’تو پھر کتابیں نکال لیتے ہیں۔۔۔ آپ صندوق خالی کر کے چڑھا لیں! پھر کتابیں رکھ لیں گے!‘‘ وہ سوچتے ہوئے بولی۔

عبادہ کا کام کرتا ہاتھ یک دم رک گیا اور وہ نور کو دیکھنے لگا۔

’’احمق!‘‘

’’کون؟‘‘ نور نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

’’میں اور کون! اتنی دیر سے کوشش کر رہا ہوں، خیال ہی نہ آیا!‘‘

وہ یہ کہہ کر گاڑی سے نیچے اترا اور صندوق کا تالا کھول کر کتابیں باہر نکالنے لگا۔

’’یہ چھوڑیں! آپ باقی چیزیں لوڈ کریں، میں اتنی دیر میں یہ خالی کرتی ہوں۔‘‘

ایک منٹ کے اندر اندر صندوق خالی ہوگیا اور عبادہ نے صندوق اوپر چڑھا دیا۔ نور ایک ایک کر کے اس کو کتابیں پکڑانے لگی۔

’’نور! تم جویریہ کی باتوں کا برا نہ منایا کرو۔۔۔ وہ ایسے ہی بولتی رہتی ہے!‘‘ کتابیں صندوق میں ڈالتے ہوئے وہ سرسری سے انداز میں بولا۔

’’عبادہ! مجھے تو اس کی کوئی بات بری نہیں لگی! ۔۔۔ وہ بیچاری اتنی مشکل زندگی گزار رہی ہے۔ اگر چھوٹی موٹی بات پر روٹھ جاتی ہے تو ہمیں برداشت سے کام لینا چاہیے!‘‘ وہ بھی اسی طرح بولی۔ عبادہ نے سر ہلا دیا اور کچھ سوچنے لگا۔

’’نور!۔۔۔ کیا تمہیں پتہ ہے۔۔۔ ہمارا جو یہ راستہ ہے۔۔۔ کانٹوں سے پُر ہے، اس راہ میں گہری کھائیاں بھی ہیں اور پُر خطر پیچ کھاتے موڑ بھی!۔۔۔ مگر کامیاب ڈرائیور وہ ہے جو ان سب رکاوٹوں کو عبور کرتا اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے!‘‘ وہ دھیرے سے بولا تو نور نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔ عبادہ کی نظریں کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں۔

’’ہماری اس دعوت کی اس وقت پوری کی پوری دنیا دشمن ہے!۔۔۔ حتیٰ کہ سیدھے سادھے مسلمان بھی جو حقیقت میں جہاد اور مجاہدین سے بے حد محبت کرتے ہیں، میڈیا کی چرب زبانی کی وجہ سے ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں!۔۔۔ جھوٹ بول بول کر مجاہدین کو محسنان ِ امت کے رتبے سے گرا کر ہمیں وحشی درندہ ہی بنا دیا ہے۔۔۔ حالانکہ اگر حق وہ ہوتا جو میڈیا پیش کرتا ہے تو پھر اس کو جھوٹ کا سہارا لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی!۔۔۔ ان کو معلوم ہے کہ اگر عوام کو صحیح بات معلوم ہوگئی تو وہ مجاہدین سے محبت کرنے لگے گی‘‘ عبادہ نے چہرہ اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔ نور اسی کو دیکھ رہی تھی۔

’’ہم تو انہی کی عزتیں محفوظ کرنے نکلے تھے۔۔۔ ہم تو انہی کی جان، مال، دین و ایمان کی حفاظت کے لیے نکلے تھے۔۔۔ مگر میڈیا۔۔۔‘‘ وہ ایک منٹ کو سانس لینے کو رکا، ’’میڈیا تو مکمل طور پر کفار کے ہاتھ میں ہے اور بد قسمتی یہ کہ مسلمان اس پر اس طرح ایمان لاتے ہیں گویا وہ کوئی وحی الٰہیہ ہو!۔۔۔‘‘

وہ اب گاڑی پر رسی باندھنے لگا تھا۔

’’یہاں سے رسی کو پکڑو!‘‘

نور نے آگے بڑھ کر رسی کا سرا پکڑ لیا۔ عبادہ رسی کو بل دینے لگا۔

’’اپنے اور پرائے سب ہمارے دشمن بن چکے ہیں۔۔۔ ہماری ہر اچھی چیز ہر اچھی کارروائی کو چھپایا جاتا ہے اور جو بھی نا سمجھی کی وجہ سے کوئی غلط حرکت ہوجاتی ہے اس کو ایسے اچھالا جاتا ہے جیسے جہاد صرف قاتل ، ڈاکو اور کفار کے ایجنٹ کر رہے ہیں۔ جیسے خلافت کا نعرہ تو ظلم و ستم برپا کرنے کا نعرہ ہو۔۔۔ ہمارا کوئی بیان ٹی وی پر نہیں چلایا جاتا۔ حتیٰ کہ جس چیز کی ہم مذمت بھی کردیں اس کو عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا!۔۔۔ کیوں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں۔۔۔ تم بھی تو ہمیں ایسا ہی سمجھتی تھی ناں۔۔۔ وحشی درندہ؟‘‘

وہ اتنا اچانک نور کی جانب مڑا کہ وہ گڑبڑا ہی گئی۔

’’جی!۔۔۔ دہشت گرد!‘‘ وہ ہلکا سا بولی۔

’’کفر نے نام بھی کتنا خوبصورت رکھا ہے جو کہ عین قرآن کے مطابق ہے!‘‘ عبادہ مسکریا اور گاڑی سے نیچے کود گیا۔’’اللہ تعالیٰ بھی تو ہمیں یہی کہتے ہیں!‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’کسی اور دن ان شاء اللہ!۔۔۔ تم ماما سے کہو کہ آجائیں!‘‘ وہ کہتا ہوا گاڑی کا فرنٹ دروازہ کھول کر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ نور کچھ دیر حیرت سے اس کو دیکھتی رہی پھر گھر کے اندر چلی گئی۔

٭٭٭٭٭

رات کی تاریکی میں گاڑی خطرناک سپیڈ سے آگے بڑھ رہی تھی۔ عبادہ اور ابو بکر فرنٹ سیٹ پر ہاتھوں میں کلاشن کوفیں تھامے بالکل الرٹ بیٹھے تھے۔

پیچھے کی سیٹ پر نور، جویریہ اور امینہ خالہ بیٹھی تھیں۔ خوف کے باوجود امینہ خالہ اونگھ رہی تھیں۔ ذرا زور کا جھٹکا پڑنے پر وہ ہڑبڑا کر اٹھتیں مگر پھر دوبارہ نیند میں چلی جاتیں۔ نور کا خوف کے مارے خون خشک ہو رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کو ذرا بھی نیند نہ آ رہی تھی۔ روڈ کافی خراب اور ٹوٹی پھوٹی سی تھی۔ ہلکے ہلکے جھٹکوں کے سبب کبھی اس کا سر کھڑکی سے ٹکراتا تو کبھی امینہ خالہ سے۔

اچانک عبادہ نے گاڑی روک دی اور لائیٹیں بھی بند کر دیں۔ وہ سب جھٹکے کی شدت سے ہڑبڑا گئے۔

’’ابو بکر! اتر کر دیکھو آگے فوج تو نہیں۔۔۔ ٹارچ آن نہ کرنا!‘‘

ابو بکر کلاشن کوف ہاتھ میں تھامے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ دروازہ کھلنے کے سبب ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اندر آیا۔ نور کو جھرجھری سی آگئی۔

ابو بکر لائٹ بند کرکے کہیں اندھیرے میں گم ہوگیا۔ نور کی نظریں اندھیرے کے باوجود آخر تک اس کا تعقب کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔

کافی دیر گزر گئی مگر ابو بکر واپس نہ آیا۔ عبادہ بھی بے چین ہونے لگا۔

’’ابو بکر ابھی تک نہیں آیا۔۔۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

آخر کافی دیر انتظار کے بعد اندھیرے میں ایک سایہ گاڑی کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا۔ عبادہ کی گرفت بے اختیار اپنی کلاشن پر مزید مضبوط ہوگئی۔ سائے نے دروازے کے قریب آکر گاڑی کا دروازہ کھولا۔

’’السلام علیکم!‘‘ وہ ابو بکر ہی تھا۔

’’وعلیکم السلام!‘‘

’’فوج تو ہے۔۔۔ اگر تم بائیں والے راستے کی طرف سے لو تو فوج ہمیں دیکھ نہیں سکے گی البتہ۔۔۔ دو منٹ کا راستہ ہوگا جس میں تمہیں بہت تیزی سے گزرنا پڑے گا۔۔۔ فوج کا کیمپ نظر آئے گا!‘‘

’’اچھا ٹھیک ہے!‘‘ عبادہ دھیرے سے بولا اور گاڑی لائٹ آن کیے بغیر احتیاط سے چلانے لگا۔

سب کے لب تیز تیز ہلنے لگے!

نور بے ساختہ آگے ہو کر بیٹھ گئی۔ اچانک فوج کا کیمپ نظر آیا اور عبادہ نے سپیڈ بڑھا دی۔ وہ سب بری طرح ہچکولے کھانے لگے۔ نور کا دل بری طرح دھڑ دھڑ کر رہا تھا۔ وہ رات کی تاریکی میں خوفزدہ نظروں سے باہر دیکھنے لگی۔

پانچ منٹ کی خطرناک ڈرائیونگ کے بعد عبادہ نے گاڑی آہستہ کر لی مگر لائیٹیں ابھی بھی نہ جلائیں تھیں۔

’’اب ان شاء اللہ آگے خطرہ نہیں ہے!‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔

’’ان شاء اللہ!‘‘ ان سب کے منہ سے بے اختیار نکلا۔

٭٭٭٭٭

نیا گھر پہلے سے بہتر تھا۔ اس میں درمیانے سائز کے چار کمرے تھے۔ اوپر کی منزل پر تین کمرے تھے جن میں سے ایک تو ابو بکر اور دوسرا نور اور عبادہ کے لیے مختص تھا۔ تیسرا کمرہ خالی پڑا تھا۔ نیچے کچن اور بیٹھک کے علاوہ صرف ایک کمرہ تھا۔ کچن قریب ہونے کی وجہ سے امینہ خالہ نے اپنے اور جویریہ کے لیے نیچے والا کمرہ مناسب سمجھا۔

گھر پہنچتے ہی امینہ خالہ اور نور نے گھر سیٹ کرنا شروع کردیا۔ عبادہ اور ابو بکر سامان گاڑی سے اتارنے لگے۔ امینہ خالہ نے یا شاید عبادہ نے گھر بہت سادہ سا رکھوایا تھا۔ گھر میں بس گنتی کا ہی سامان تھا۔ قیامت والے دن دنیا میں جتنا کم سامان ہوگا اتنا ہی آسان حساب ہوگا۔ بس چند بستر، اپنی اپنی ضرورت کی چند چیزیں اور کچن کے کچھ برتن وغیرہ تھے۔ فرج فریزر تو ایسے ہی بے کار پڑے تھے کیونکہ لائٹ تو عرصے سے نہ تھی۔ جو علاقے کیمپوں کے قریب ہوتے وہاں تو بجلی پھر بھی آجاتی۔ لوگ کنڈے ڈال کر بجلی چوری کر لیتے تھے۔ مگر عبادہ کی قسمت میں شاید کسی قسم کی آسائش نہ لکھی تھی۔ اور اب نور کی قسمت بھی یہی تھی! جس پر اب وہ بہت مطمئن تھی۔

اس نے اپنے کمرے میں بس دو گدے بچھا کر اس پر چادر بچھا دی۔ ایک سائڈ پر عبادہ اپنے لیپ ٹاپ کے لیے میز اور کرسی سیٹ کر رہا تھا۔ سفری بیگوں سے سارا سامان خالی کیا اور الماری میں سیٹ کردیا۔ امینہ خالہ تو شاید کچن میں کچھ پکا رہی تھیں۔ پورے گھر میں ہی بھینی بھینی سی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔

’’ماما کیا بنا رہی ہیں؟‘‘ عبادہ نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

’‘شاید پلاؤ بنا رہی ہیں۔۔۔ خالہ کا پلاؤ بڑے مزے کا ہوتا ہے ناں!‘‘ وہ کمرہ سیٹ کرنے کے بعد پیچھے ہو کر کمرے کا جائزہ لینے لگی۔ ’’اوہ میں جاتی ہوں خالہ کی مدد کرنے!‘‘

اس کو اچانک خیال آیا اور کمرے سے نکل گئی۔ عبادہ اپنا اسلحہ سنبھالنے لگا۔

٭٭٭٭٭

تاریکی! اندھیرا! خوف! بے بسی! نیند! اس کے علاوہ اس کو کچھ محسوس نہ ہو رہا تھا۔ درد سے جسم کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ گھٹنوں پر پڑتی مسلسل ضرب کے باعث وہ کھڑا بھی نہ ہو پا رہا تھا مگر پھر بھی پچھلے دس گھنٹوں سے کھڑا رہنے پر مجبور تھا۔ نیند اس کی آنکھوں کو بوجھل کیے ہوئے تھی مگر سونے کی بھی اجازت نہ تھی۔ وہ پچھلے تین دن سے ایک منٹ کے لیے بھی نہ سویا تھا۔ نیند سے آنکھیں بند ہونے لگتیں تو ایک تیز چابک اس کا مزاج پوچھنے کو تیار کھڑا ہوتا۔

’’یا اللہ!‘‘ مصعب کے منہ سے بے ساختہ ایک سسکی نکلی۔

’’تم یوں ہی اپنی زندگی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہو!۔۔۔ جبکہ تمہارا ساتھی عقلمند ثابت ہوا ہے۔ اس نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ابراہیم کہاں ہوتا ہے!‘‘

ایک افسر جو کافی دیر سے اس کے چہرے کو بغور دیکھ رہا تھا، بولا تو مصعب بے ساختہ مسکرا دیا۔

’’اگر بتا دیا ہے تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘

’’صرف کنفرم کرنا چاہ رہا ہوں کہ آیا اس نے جھوٹ بولا ہے یا سچ!‘‘

’’مگر میں کہہ تو رہا ہوں ہمیں کیسے پتہ ہو سکتا ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے۔۔۔‘‘ مصعب بے بسی سے پہلو بدل کر بولا۔ ’’ہم تو نئے کارکن تھے۔۔۔ ہمیں کیا پتہ؟‘‘

’’دیکھو بکواس مت کرو! بالکل سچ اگلو!۔۔۔‘‘ وہ افسر سانپ کی طرح پھنکارا۔ ’’مجھے پتہ ہے کہ وہ تمہارا کزن ہے، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہیں نہ پتہ ہو؟‘‘

مصعب کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ افسر سے بھی اس کی حالت چھپی نہ رہ سکی۔

’’مگر پچھلے دو تین سال سے ان کی ہم سے ناراضگی چل رہی تھی۔۔۔‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔

’’بکواس مت کرو!۔۔۔ تم لوگ اس کے ساتھ ساتھ ہوتے تھے! بتاؤ کہاں رہتا ہے وہ!‘‘

ایک اور چابک اس کے ٹخنوں پر پڑا، وہ بلبلا اٹھا۔

’’اس کے گھر کا تو کسی کو بھی نہیں پتہ ہوتا۔۔۔ وہ تو ویسے ہی گھر بدلتا رہتا ہے!‘‘ وہ درد سے دہرا ہوتے ہوئے بولا۔

’’اس کا مرکز کہاں ہے؟‘‘

’’تمہیں بتا تو چکا ہوں!‘‘

’’ذلیل! وہ تو خالی پڑا ہے!۔۔۔ تمہیں پتہ تھا کہ وہ وہاں سے شفٹ کر چکا ہے اس لیے ہمیں وہ جگہ بتائی تھی۔۔۔‘‘ افسر غصے سے باؤلا ہو رہا تھا۔

’’مجھے کیا پتہ؟ میری گرفتاری سے پہلے تو وہ وہیں ہوتا تھا!‘‘ مصعب جانتا تھا کہ اس کی گرفتاری کے ساتھ ہی عبادہ وہاں سے شفٹ ہوگیا ہوگا مگر وہ ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔

افسر نے آگے بڑھ کر قریب پڑا ایک پلگ اٹھایا اور اس کے کان پر لگا دیا۔ پھر دوسرا پلگ اٹھا کر اس کی انگلی پر لگا دیا۔ مصعب کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ وہ اس پلگ کو بخوبی پہچانتا تھا۔

’’اس سے پہلے کہ تمہیں میں کرنٹ لگاؤں ۔۔۔ تمہیں آخری موقع دوں گا!‘‘

مصعب خاموش رہا۔ اور اسی لمحے اس کو اپنی زندگی کی بدترین اذیت سہنی پڑی۔ جھٹکے کی شدت سے اس کا جسم بری طرح پھڑکنے لگا۔ وہ اتنا نڈھال تھا کہ چاہنے کے باوجود چیخ بھی نہ سکا۔ آخر تکلیف کی شدت سے وہ زمین پر گر کر بے ہوش ہو گیا۔ جب اس کو ہوش آیا تو وہ کسی دوسرے کمرے میں کرسی سے لپٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھ کھلی تو اس کو وہی افسر نظر آیا۔

’’اللہ کے بندے۔۔۔ تم بھی پاکستانی ہو!۔۔۔ میں بھی پاکستانی ہوں!۔۔۔ تم بھی مسلمان ہو۔۔۔ میں بھی مسلمان ہوں!۔۔۔ تم اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں سے کیوں دغا کر رہے ہو؟‘‘ مصعب نحیف سی آواز میں بولا۔

’’بکواس ہے یہ سب کچھ! تم لوگوں نے ہمارے وطن کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے!۔۔۔ آئے بڑے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے والے!۔۔۔ امریکہ تو ہماری مدد کو آیا ہے!‘‘ وہ منہ بنا کر بولا۔ ’’یہ ڈھکوسلے کسی اور پر آزمانا!۔۔۔ ہم وطن! ہم مذہب!۔۔۔ فوج کا کوئی مذہب نہیں ہوتا!‘‘

وہ تمسخر سے بولا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

’’اس کی آنکھیں بند نہ ہونے دینا!۔۔۔ اور اس کو الٹا لٹکا دو! میں دو منٹ میں آتا ہوں۔۔۔ جنرل کو رپورٹ دینی ہے!‘‘ وہ دھیرے سے اپنے ساتھی سے کہہ کر کمرے سےباہر نکل گیا۔

٭٭٭٭٭

سانس لینے کی کوشش میں اس نے ہاتھ پاؤں مارنا چاہے مگر وہ رسیوں میں بری طرح جکڑا ہوا تھا۔ سانس نہ لے سکنے کی وجہ سے اس کے جسم نے اپنے ریفلیکس کے تحت سانس اندر کھینچا تو سارا پانی اس کی ناک اور حلق میں چلا گیا جو پہلے سے بھی زیادہ اذیت ناک تھا۔ تکلیف سے اس کی آنکھیں جلنے لگیں۔ ۱۰ سیکنڈ ۔۔۔ ۲۰ سیکنڈ۔۔۔ ۳۰ سیکنڈ اور پھر اس کا منہ پانی سے نکال لیا گیا۔ اس دوران نجانے کتنی بار پانی اس کی ناک اور حلق میں جا چکا تھا۔ وہ نڈھال سا ہو کر کرسی پر ڈھلک گیا۔

’’اب بولو!۔۔۔ ورنہ ابھی دوبارہ ڈبکی دیتا ہوں!‘‘

مصعب نڈھال سا اس افسر کو دیکھے گیا۔

’’دوبارہ ڈبکی دو۔‘‘ وہ اپنے ماتحتوں کو کہہ کر سائڈ پر ہٹ گیا۔ اس کو کندھے سے پکڑ کر پھر پانی میں ڈبو دیا گیا۔ مصعب کے اندر مزاہمت کی بھی ہمت نہ رہی۔

’’یا اللہ! اس دفعہ میں مر ہی جاؤں تو اچھا ہے!‘‘

٭٭٭٭٭

مصعب اپنی کوٹھری میں نڈھال سا پڑا تھا۔ اس کے جسم کا انگ انگ پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ بھوک لگ لگ کر اب ختم ہو چکی تھی۔ زندگی کی تمام تر حسیات ختم ہو چکی تھیں۔ اچانک اس کی کوٹھری کی درز سے علی اپنے بے جان جسم کے ساتھ گھسٹتا ہوا نظر آیا۔ اب شاید اس کی تفتیش کی باری تھی۔

ان دونوں کو یہ عذاب سہتے آٹھ ماہ ہو چکے تھے۔ اس دوران علی اس کو یوں ہی دو ایک بار بمشکل ہی کوٹھری کے چھوٹے سے سوراخ سے تفتیش کے لیے لے جاتے ہوئے نظر آیا تھا۔

اچانک اس کی کوٹھری کا دروازہ کھلا اور ایک شخص اندر آوارد ہوا۔

نو وارد کو دیکھ کر وہ دھک سے رہ گیا اور اچانک اس کی تمام حسیات نجانے کہاں سے بیدار ہوگئیں اور وہ اچھل کر بیٹھ گیا۔

’’ارمغان تم؟‘‘

ارمغان بھی شاید اس کو دیکھ کر شاک میں چلا گیا تھا۔

’’مصعب! تم؟‘‘

پھر وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا اور انتہائی سرد لہجے میں بولا۔

’’مصعب! دیکھو میں تمہارا ہمدرد ہوں!۔۔۔ مجھے جنرل کالن پارکر نے بھیجا ہے جو اس وقت امریکہ کے چیف آف آپریشنز ہیں۔۔۔ تمہیں اس سے اندازہ ہوگا کہ تمہارے کیس کی کتنی اہمیت ہے!۔۔۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ قیدی نمبر ۲۲۲ تم ہو!۔۔۔‘‘ وہ بالکل بدلا ہوا ارمغان لگ رہا تھا۔ اپنے پیشے سے مخلص ارمغان۔’’دیکھو اگر تم ان لوگوں کے ساتھ کاپریٹ (تعاون) نہیں کرو گے تو یوں ہی سڑ سڑ کر مر جاؤ گے!‘‘

وہ اپنے آپ کو اس کا ہمدرد کہہ رہا تھا مگر اس کی گفتگو سے کہیں سے بھی یہ ظاہر نہ ہو رہا تھا کہ وہ اس سے ہمدردی رکھتا ہے۔ مصعب بے یقینی سے اسے دیکھے گیا۔ نجانے کیوں اس کو دیکھ کر ایک منٹ کو سمجھا تھا کہ وہ اس کو چھڑوانے آیا تھا۔

’’ارمغان!‘‘ اتنے عرصے بعد اس کے اندر کا جذباتی انسان جاگا تھا۔ ’’نور کہاں ہے؟ ابوبکر ٹھیک ہے؟‘‘

ارمغان کچھ دیر خاموش رہا۔ آخر کچھ دیر کے بعد بولا۔

’’میں اس وقت کسی قسم کی ذاتی گفتگو نہیں کرنے آیا!۔۔۔ تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے!‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں بولا، پھر کچھ سوچنے لگا۔ ’’ابوبکر مر چکا ہے۔۔۔ اور نور نجانے کہاں غائب ہے۔۔۔ موحد انکل وغیرہ کو بھی نہیں پتہ!‘‘

وہ اس انداز میں بولا گویا یہ بتا کر مصعب پر احسان ِ عظیم کیا ہو۔

’’دفع ہو جاؤ ارمغان ! مجھے کم از کم تم سے یہ امید نہ تھی!‘‘ اس نے پوری قوت سے چلانا چاہا تھا مگر نقاہت کے باعث اس کے منہ سے صرف نفرت میں ڈوبی کمزور سی لرزتی ہوئی آواز نکل سکی۔

’’سوچ لو! میں کل پھر آؤں گا!۔۔۔ اگر تم کاپریٹ کرتے ہو تو ہم تمہاری سزا میں تخفیف کر سکتے ہیں۔۔۔ اور تمہاری معلومات پر ڈپینڈ کرتا ہے۔۔۔ شاید یوں تمہیں رہائی بھی مل جائے!‘‘ وہ یہ کہہ کر کچھ دیر مصعب کے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر جواب نہ پا کر واپس مڑ گیا اور کوٹھری سے باہر نکل گیا۔

مصعب بے بسی سے پھر لیٹ گیا۔

٭٭٭٭٭

حیرت انگیز طور پر جب سے ارمغان اس سے مل کر گیا تھا، اس کے ساتھ رویہ میں یکسر تبدیلی آگئی۔ اس کے ساتھ نرمی برتی جانے لگی۔ کھانے میں بھی اچھی اچھی چیزیں ملنے لگیں۔ بستر بھی دے دیا گیااور مصلیٰ اور قرآن بھی مل گیا۔ وضو کے لیے پانی بھی دیا جانے لگا اور روزانہ نہانے کی اجازت مل گئی حالانکہ اس سے پچھلے چھ ماہ میں صرف تین دفعہ نہانے کی اجازت دی گئی تھی۔

ارمغان اپنے وعدے کے مطابق اگلے دن تو نہ آیا۔ البتہ دو ہفتے تک اس کے ساتھ عنایتیں کی جاتی رہیں۔ دو ہفتے بعد ارمغان پھر آگیا۔

’’ارمغان!۔۔۔ بند کرو اپنی نیچ حرکتیں!۔۔۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو ان آسانیوں کے بدلے میں تم پر اعتماد کرنے لگوں گا!۔۔۔ میں تمہاری طرح پیسوں کے عوض بکنے والا نہیں!‘‘ ارمغان کی توقع کے برخلاف اس کے اندر قدم رکھتے ہی مصعب پھٹ پڑا۔ ’’میں تم لوگوں کی ایک ایک چال کو جانتا ہوں!‘‘

’’احسان فراموش! تمہیں نرمی راس نہیں آئی!‘‘

ارمغان نے اپنے حواس قابو میں رکھنے کی مکمل کوشش کی مگر اس کے لہجے کی لرزش سے مصعب جان گیا تھا کہ اس کے یوں پھٹنے سے وہ متاثر ہوا تھا۔

’’میں نے بہت کوشش کر کے تمہارے لیے نرمی کروائی تھی۔۔۔ مگر تم بھی ناں!۔۔۔ بہت ڈھیٹ ہو!‘‘ وہ منہ بنا کر بولا۔ مصعب نے نفرت سے منہ پھیر لیا۔

ارمغان پیر پٹختا باہر نکل گیا۔

٭٭٭٭٭

دن یوں ہی اذیت میں گزرنے لگے۔ اس دن کے بعد سے پھر اس پر سختی شروع ہو گئی۔ کھانے میں وہی باسی اکڑی ہوئی روٹی اور ساتھ میں پیاز ٹماٹر کی یخنی جس میں نمک تک نہ ہوتا اور نجانے کیا گند مند تیر رہا ہوتا۔ نہانے دھونے کی سہولت بھی چھین لی گئی۔ وضو کا پانی اور مصلیٰ بھی واپس لے لیا گیا البتہ قرآن اس کے پاس ہی رہ گیا۔

جنرل کالن پارکر نے چیف آف آپریشنز کے عہدے پر آتے ہی بذات ِ خود اس جیل پر نظر کرم ڈالنی شروع کردی۔ شاید یہ جیل ان کے لیے کافی اہمیت رکھتی تھی۔ جنرل پارکر کے عہدہ سنبھالتے ہی قیدیوں پر نئی آفت ٹوٹ پڑی اور نئے سرے سے مظالم اور اذیتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تفتیش کا شعبہ بھی اس نے اپنے ذمہ لے لیا۔ اور جیل کے حالات اور نئے قیدیوں کی آمد سے یہ پتہ چلتا تھا کہ گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ بھی اس کی تقرری کے ساتھ ہی بڑھ گیا تھا۔

سب اذیتیں، تکالیف جھیلنا ان کے لیے پھر بھی ممکن تھا مگر جیل کی فضاؤں میں گونجتی نسوانی چیخوں نے ان کی راتوں کی نیندیں تک اڑا دی تھیں۔ جب جیل میں نسوانی چیخیں سنائی دی جاتیں تو سب قیدی اپنی اپنی تکلیفیں بھلا کر کوٹھری کے دروازے زور زور سے بجانے لگتے اور چیختے چلاتے کہ ہم پر جتنا ظلم کرنا ہے کرلو! مگر ہماری بہنوں کو کچھ نہ کہو! اور اسی کی خاطر انہوں نے کئی بار بھوک ہڑتال بھی کی۔

پچھلے پندرہ دن سے مصعب کے برابر والی کوٹھری میں بھی ایک خاتون اپنی دو سالہ اور تین سالہ بیٹیوں کے ساتھ قید تھیں، جو غالباً خود کسی مجاہد کی بیوی تھیں۔ ماں کو تفتیش کے لیے لے جایا جاتا اور بارہ بارہ گھنٹے اس کی دونوں بچیاں رو رو کر ہلکان ہو جاتیں۔ جیل کے عملے میں سے کوئی آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھتا۔ وہ رو رو کر نڈھال ہوجاتیں تو ان کی ماں کو ان کے پاس لا کر پٹخ دیا جاتا۔

جتنی دیر وہ دونوں بچیاں روتی رہتیں، تمام قیدی بے چینی سے جیل کے چوکیداروں کو پکارتے رہتے مگر کوئی داد رسی نہ ہوتی۔ مصعب تو ان کی ہر سسکی کے ساتھ خود بھی سسک جاتا۔ اس کا دل کٹا جاتا تھا اور وہ ان کے ساتھ ساتھ آنسو بہاتا رہتا۔

ان کی بے بسی پر! ان کی ماں کی بے بسی پر! اپنی بے بسی پر!

٭٭٭٭٭

وہ اس دیوار کی لکیریں گن گن کر تھک چکا تھا۔ وہ چھت پر اکھڑے ہوئے پلستر کے بل بھی بارہا گن چکا تھا۔ کمرہ نیم تاریک تھا۔ اس کی قید تنہائی ابھی تک ختم نہیں کی گئی تھی۔ البتہ اس کے ساتھ والی کوٹھری سے وہ ماں بیٹیاں جا چکی تھیں۔

کوٹھری کے دروازے میں ایک چھوٹا سا درز نما سوراخ تھا۔ جس سے کھانا اندر پھینکا جاتا تھا۔ وہ اسی کے ذریعے اپنے قیدی ساتھیوں سے بات چیت کر لیتا تھا۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ باہر کی راہداری میں ایک پیلا سا بلب جل رہا تھا۔ جس کی ہلکی ہلکی روشنی اس کی کوٹھری میں بھی آرہی تھی۔ جیل میں ہُو کا عالم تھا۔ عید کے دن تھے اس لیے پہرے میں بھی کافی سستی نظر آرہی تھی۔ رات کے خوفناک سناٹے میں کبھی کبھی کوئی خوبصورت سی تلاوت کی آواز آجاتی۔ شاید کوئی ساتھی نالۂ نیم شب میں مصروف تھا۔

اچانک کمرے میں بالکل تاریکی چھا گئی۔ مصعب نے حیرت سے روشنی کے واحد ذریعہ دروازے کے سوراخ کی طرف دیکھا۔ وہاں کسی انسان کا سایہ نظر آرہا تھا۔ کوئی اس کے پاس آرہا تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ اس وقت کون آرہا تھا۔ تفتیش کا سلسلہ تو اب کچھ عرصے سے بند ہو گیا تھا۔ اب اس وقت کون آیا تھا؟

کوٹھری کا دروازہ کھلا اور وہ سایہ اندر داخل ہوا۔ کمرے میں پھر ہلکی سی روشنی آگئی۔

’’مصعب! جلدی سے میری بات سنو!‘‘ آنے والا دھیمی سی آواز میں بولا تھا۔ اس کی آواز سنتے ہی مصعب کا چہرہ سخت ہوگیا۔

’’کیا ہے ارمغان؟‘‘ وہ سرد لہجے میں بولا۔

’’مصعب! مصعب! میری بات سنو! پلیز میری بات کا یقین کرو!‘‘ وہ نجانے کیوں اچانک مچل گیا۔ ’’تم میرا یقین نہیں کرو گے مگر۔۔۔ ان لوگوں کو نور کی عبادہ سے شادی کا پتہ چل گیا ہے!۔۔۔ اور اب وہ نور کو گرفتار کر کے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ عبادہ کو بھی پھنسانا ہے اور تم سے اور علی سے بھی نمٹنا ہے!‘‘

مصعب کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ وہ اچھل کر ارمغان پر جھپٹا اور اس کو گریبان سے پکڑ لیا۔

’’تمہیں کیسے پتہ ہے؟ نور کہاں ہے؟‘‘

ارمغان نے اس کو اپنے سے پیچھے کیا اور اس کے مزید قریب ہوگیا۔

’’دیکھو مصعب! میں تمہیں یہاں سے بھگانا چاہتا ہوں۔۔۔ آج میں اکیلا ہی ڈیوٹی پر ہوں۔۔۔ باقی افسر تو نشے میں دھت پڑے ہیں۔۔۔ میں پہلے ہی یہاں کے حالات کی وجہ سے بہت ڈسٹرب ہوں!‘‘ وہ سرگوشی کے عالم میں بولا۔ ’’مصعب! میرا یقین کرو، یہ لوگ عبادہ اور نور کو پکڑنے کی اَن تھک کوششیں کر رہے ہیں!۔۔۔ تم مجھے کسی بھی مجاہد کا پتہ بتاؤ۔۔۔ میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں!‘‘

اس کی بات سن کر مصعب کو خون کھول گیا۔ یکایک اس کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوگئے۔

’’خبیث انسان!۔۔۔ یہ بھی تمہاری چال تھی!۔۔۔ مجھے جذباتی کر کے اپنا فائدہ نکلوانا چاہتے ہو!‘‘

’’نہیں مصعب نہیں!۔۔۔ اگر ایسی بات ہوتی تو میں دن میں تمہارے پاس آتا۔۔۔ یوں آدھی رات میں چوری چھپے نہ آتا۔۔۔ میرا یقین کرو۔۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔ میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں!۔۔۔‘‘

’’ارمغان بکواس بند کرو! اور دفع ہو جاؤ!‘‘ مصعب غصے سے بولا۔ ’’میں تمہاری بات کا کیسے یقین کر لوں؟۔۔۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟‘‘

’’مصعب تمہیں مجھ پر تب یقین آئے گا جب نور کو تمہارے سامنے لایا جائے گا!‘‘ وہ بے چارگی سے بولا۔ ’’تم میرا یقین کرو پلیز!۔۔۔ اور یہاں سے بھاگ جاؤ!۔۔۔ میرا ضمیر مجھے پہلے ہی بہت کچوکے لگاتا رہتا ہے!‘‘

’’دفع ہوجاؤ ارمغان پلیز یہاں سے ! میرا دماغ پھٹ رہا ہے! میری جان چھوڑ دو!‘‘

ارمغان کچھ دیر بے بسی سے مصعب کو دیکھے گیا پھر جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور کوٹھری سے باہر نکل گیا اور دروازہ بند کرنا بھول گیا۔

٭٭٭٭٭

شام کا وقت تھا۔ ہر طرف ہلکا ہلکا اندھیرا چھا گیا تھا۔ چاند کی چودھویں تاریخ تھی اس لیے پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ نیچے کی منزل کے لاؤنج میں شمسی (سولر پینل) سے چارج ہوئی بیٹری کی مدد سے ایک ننھا سا بلب روشن تھا۔ عبادہ دیوار سے ٹیک لگائے لیپ ٹاپ پر کچھ کر رہا تھا۔ نور اور جویریہ کسی کتاب پر جھکی ہوئی تھیں۔ نور اس کو کچھ پڑھ کر سنا رہی تھی۔ امینہ خالہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں۔ جبکہ ابوبکر اپنے کمرے میں ہی تھا۔

’’عبادہ!‘‘ کتاب مکمل ہوتے ہی نور کو اچانک یاد آگیا۔ ’’آپ نے اس دن بات مکمل ہی نہیں کی دہشت گردی والی!‘‘

’’کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ عبادہ نے لیپ ٹاپ پر سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔

’’آپ کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو دہشت گرد کہتے ہیں!‘‘

’’اوہ ہاں!۔۔۔‘‘ عبادہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ’’دیکھو دہشت گرد کو عربی میں ’ارھابی‘ اور انگریزی میں ’ٹیرورسٹ‘ کہتے ہیں۔۔۔ بنیادی طور پر دہشت گردی کی اصطلاح بھی مغرب ہی نے متعارف کروائی ہے اور پھر خود ہی اسے موم کا ایسا پتلا بنا دیا ہے کہ جدھر کو چاہیں، اس کو موڑ دیں۔۔۔ اسلام میں نہ صرف یہ کہ ظلم و ستم کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے بلکہ مسلمانوں کو اس بات کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ نظام یعنی شریعت کو نافذ کرنے کے لیے حالات کی مناسبت سے جہاد و قتال بھی اختیار کریں۔۔۔ سینکڑوں آیات میں اس طرح کے احکام کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔۔۔ اسی طرح کی آیات کو لے کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’جی دیکھیے! اسلام تو دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے!‘۔۔۔ معاذ اللہ!‘‘ عبادہ سانس لینے کے لیے رکا۔ نور اور جویریہ خاموشی سے اس کی گفتگو سن رہی تھیں۔ ’’اور مسلم دنیا کے حکمرانوں سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ایسی آیات جن سے دہشت گردی پھیلنے کا خطرہ ہے، کو اپنے درسی نظام سے نکال دیا جائے اور جن مدارس اور یونیورسٹیوں میں یہ پڑھائی جاتی ہیں، ان پر پابندی لگا دیں۔۔۔ حتیٰ کہ کچھ عرب ممالک میں تو تراویح میں بھی جہادی آیات پڑھنے پر پابندی ہے کیونکہ عوام عربی سمجھتی ہے۔۔۔ حکمرانوں نے سب کچھ کیا۔۔۔ سب مان لیا مگر معاملہ آخری مطالبے پر آ کر رک گیا کیونکہ قرآن مجید میں سے ایسی آیات نکالنے کی جرأت کون بدبخت کرے۔۔۔ گویا معاملہ جوں کا توں اسی درجے پر آگیا کہ اسلام میں غلبہ اور حکومت کے لیے جہاد و قتال کا حکم بدستور موجود ہے۔۔۔ دراصل مغرب کو خطرہ ہے کہ اگر مسلمان نوجوانوں میں جہاد کا جذبہ جاگ گیا تو ان کی خیر نہیں اور ان کی بے تاج بادشاہی کو خطرہ ہو جائے گا۔‘‘

’’مگر اسلام تو امن و سلامتی کا مذہب ہے؟‘‘ نور اچھنبے سے بولی تو عبادہ مسکرا دیا۔

’’یہ بھی میڈیا اور بے دین مفکروں کی ہی کارستانی ہے جن کو خود تو دین کا الف بے بھی نہیں پتہ اور۔۔۔ پوری عوام کو اس کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ۔۔۔ اسلام تو امن و سلامتی کا دین ہے اور اس میں جنگ و جدال کی کوئی گنجائش ہی نہیں! اسلام کا مطلب ہی سلامتی ہے۔۔۔ تو سب سے پہلی بات اسلام کا لغوی معنی جان لو، اسلام کا معنی ہے ’اپنے آپ کو کسی کے سامنے تسلیم کرنا‘ یعنی سرینڈر کرنا۔۔۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی۔۔۔ اس کا مصدر اَسلَم ہے یعنی فرمانبرداری۔۔۔ اور رہی دوسری بات کہ اسلام سلامتی کا دین ہے۔۔۔ بے شک اسلام سلامتی کا دین ہے مگر۔۔۔ صرف اس کے لیے جو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے یا معاہدہ کر کے رہے یا ذمی بنا رہے۔۔۔ ایسے شخص کے لیے ہرگز امن نہیں جو اس کے خلاف ہر وقت محاذ کھڑا رکھے یا جس سے اسلام کی سالمیت کو خطرہ ہو۔۔۔ ہرگز نہیں، ایسے شخص کے لیے اسلام سخت ہے!۔۔۔‘‘ عبادہ جوش سے بولا۔

’’اچھا!۔۔۔ یہ پوائنٹ۔۔۔ نہیں! یہ نقطہ اچھا ہے!‘‘ نور نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔

’’نور! تم اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھ لو کہ۔۔۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ دنیا کے ہر ملک کے پاس ایک فوج ہوتی ہے جو اس ملک کی حفاظت پر مامور ہوتی ہے اور ہر ملک کی مضبوطی اور کمزوری کا انحصار اس کی فوج کی طاقت یا کمزوری پر ہوتا ہے۔۔۔ اگر اس وقت دنیا میں کوئی ملک فوج نہ رکھے تو کیا ہوگا؟‘‘ اس نے نور کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

’’ظاہر ہے اس کے دشمن اس کو کچا چبا جائیں گے۔۔۔‘‘ وہ مسکرائی۔ ’’اور میرے خیال میں تو سب سے پہلے اس کی عوام ہی اس کو زیر ہونے پر مجبور کر دے گی!‘‘

’’یہی میں بھی کہنا چاہ رہا ہوں۔۔۔ تم مجاہدین اور جہاد کو اسلام کا حفاظتی دستہ سمجھ لو جو کہ اسلام اور مسلمانوں کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت پر مامور ہے۔۔۔ جہاں کہیں اسلامی نظام یا امت مسلمہ کو کوئی خطرہ ہوا۔۔۔ یہ دستہ اس کی مدد کو پہنچ جاتا ہے۔۔۔ مجاہدین اللہ تعالیٰ کے سپاہی ہیں، اسلام کے سپاہی ہیں، رسول اللہ ﷺ کے سپاہی ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے خود اس عہدے پر فائز کیا ہے۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ عام فوجیوں کے برعکس اس فوج میں ہر طرح کا مسلمان شامل ہو سکتا ہے جو بھی اس عظیم مقصد کے حصول کی کوشش میں اپنا ہاتھ بٹانا چاہے بٹا سکتا ہے۔۔۔‘‘

’’مگر اعتراض تو یہ کیا جاتا ہے کہ ہر مسلم ملک کے پاس فوجیں موجودہیں تو پھر مجاہدین کو کس نے کہا ہے کہ وہ یہ ٹھیکا لے لیں کہ جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوگا، یہ ان کو بچائیں گے۔۔۔‘‘ نور نے عرصے پہلے جو اعتراضات سنے تھے، وہ ان کے جوابات چاہتی تھی۔ ’’یہ میرا اپنا اعتراض نہیں بلکہ سنی سنائی بات بتا رہی ہوں!‘‘

’’سب سے پہلی بات تو یہ کہ ملکوں اور بارڈروں کی اس تقسیم کو ہم نہیں مانتے۔۔۔ یہ تو پچھلی صدی میں دنیا کو کیک کی طرح کاٹا گیا اور انڈیپینڈینٹ سٹیٹس (Independent States) کا تصور پیدا ہوا۔۔۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو ایک امت قرار دیا ہے۔۔۔ اس لیے ایک مسلمان جو دنیا کے جس مرضی کونے میں رہتا ہو، پر اگر ظلم ہوتا ہے تو ہر مسلمان اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ اس کی مدد کرے۔۔۔ ایک امت ہونے کی وجہ سے۔۔۔ اور رہی بات مسلم ملکوں کی فوجوں کی ؟۔۔۔ تو یہ بات تو روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ فوجیں اسلام کی فوجیں نہیں بلکہ اپنے اپنے ملکوں کی فوجیں ہیں۔۔۔ پوری دنیا میں کوئی ایسی فوج بتا دو جو صحیح معنوں میں اسلام کی حفاظت کرتی ہو۔۔۔ بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے اسلام کا مطالبہ کیا ہے، انہیں افواج نے ان کو کچلا ہے۔۔۔ یہ افواج تو دراصل کفار کی تربیت یافتہ اور کلازوٹ جیسے کافر کے نظریات کے مطابق تشکیل ہوئی ہیں۔۔۔ پھر ہم ان سے اسلام کے نفاذ اور مسلم امت کی مدد کی کیسے امید رکھ سکتے ہیں؟‘‘

عبادہ خاموش ہوا تو نور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس کی بات نور کے دل کو لگی تھی۔

’’بھیا! تھوڑا آہستہ بولو۔ ماما سو رہی ہیں!‘‘ جویریہ آہستہ آواز میں بولی۔

’’دیکھو امریکی جارحیت ابھی رکتی نظر نہیں آتی۔۔۔ امریکہ اس دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا ہوا ہے۔ پوری دنیا کے فیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں۔۔۔ اسلام کو ہر جگہ دبایا جارہا ہے۔۔۔ ہر جگہ اس کے تشخص کو بگاڑا جا رہا ہے۔۔۔ حتیٰ کہ مسلم امت میں جہاں کہیں بھی ظلم و ستم ٹوٹا ہے، امریکہ اور یو این او نے اس کی خاموش حمایت کی ہے۔۔۔ اسرائیل ہو یا فرانس۔۔۔ برما ہو یا مشرقی تیمور۔۔۔ شام ہو یا بوسنیا۔۔۔ کشمیر ہو یا چیچنیا۔۔۔ یو این او کی انسانی تنظیم کیا سو رہی ہے؟۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔ بلکہ خاموشی سے مسلمانوں کے استحصال کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔۔۔ مغرب اسلام کا غلبہ نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ اس کے مفکرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں اگر کسی کے پاس ان کی تہذیب سے ٹکر لینے کی صلاحیت ہے تو وہ اسلام ہے!‘‘ عبادہ اپنی آواز آہستہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر جوش کی وجہ سے اس کی آواز پورے لاؤنج میں گونج رہی تھی۔

’’آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟ سوا ارب مسلمان کب تک حسرت بھری نگاہوں سے ایسے خوفناک مناظر دیکھتے رہیں گے۔۔۔ کب تک بے غیرتی سے اپنے مسلمان بھائیوں، بہنوں اور بچوں کو کفار کے ہاتھوں اذیتیں سہتے دیکھتے رہیں گے؟۔۔۔ ساٹھ کے قریب مسلم ممالک اپنی آزادانہ خودمختار حیثیت، گولہ بارود، بھاری بھرکم افواج اور آلات ِ حرب کے باوجود آخر کب تک خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے؟ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام اپنی سیاست و معیشت، سائنس و ٹیکنالوجی، حقوق کے تحفظ اور اپنے دفاع کے لیے غیروں پر انحصار کرنا چھوڑ دے اور اپنا ایک اسلامی عالمی نظام تشکیل دے۔۔۔ یعنی تمام عالم اسلام خلافت کے ایک جھنڈے تلے پھر سے متحد ہو اور کفر کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دے، اور اس کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔۔۔ اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا واحد ذریعہ جہاد ہے!‘‘

’’مگر کیوں۔۔۔ میرا مطلب ہے کیا جہاد کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں خلافت کے قیام کے لیے؟۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کب جہاد کے ذریعے اسلام آیا تھا؟‘‘

’’اسلام مسلح جدوجہد کے ذریعہ ہی دنیا میں اپنا مقام بنا سکتا ہے۔۔۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’حکمرانوں سے بغاوت مت کرو جب تک ان میں واضح کفر نہ دیکھو جس کا ثبوت تمہارے پاس اللہ کے دین سے صریح ہو‘۔۔۔ سب علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر حکمران شریعت کے علاوہ کسی اور طریقہ پر حکومت کرے تو اس کے خلاف جہاد کیا جائے گا یہاں تک کہ یا تو وہ توبہ کر کے واپس شرعی نظام کی طرف آجائے یا اس کو معزول کر دیا جائے۔۔۔ اس وقت بلا مبالغہ پوری دنیامیں کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں جس نے اپنے ملک میں شریعت نافذ کی ہوئی ہو۔۔۔ کچھ ممالک عوام کو خوش کرنے کے لیے بعض جزوی چیزوں میں اسلامی اصول اپنا لیتے ہیں جن سے سادہ لوح عوام بے چاری خوش ہو جاتی ہے۔۔۔ اس وقت تمام کے تمام ممالک یو این او کے زیر نگرانی اس عالمی نظام کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔۔۔ جسے مغرب نے اپنے مفادات کے لیے وضع کیا ہے اور اس کی ہاں میں ہاں ملائے جا رہے ہیں۔۔۔ لیکن مغرب مسلمانوں کی اتنی فرمانبرداری سے راضی نہیں۔۔۔ بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ مسلمان اپنے اس قیمتی اثاثے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔۔۔ مغربی اقتصادی ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ بری طرح مسلمانوں کا معاشی استحصال کر رہے ہیں۔۔۔ لیکن اس کے باوجود چور مچائے شور کے مصداق امریکہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کو پوری دنیا کی نظروں میں مجرم بنا دے۔۔۔ امریکہ خود تو بزور ِ طاقت ہر جگہ اپنا نظام، جمہوریت اور سیکولرازم قائم کرے۔ اس کے لیے خون بھی بہائے، ایٹم بم بھی گرائے۔۔۔ معاشی پابندیاں بھی لگائے!۔۔۔ اس کے لیے سب جائز ہے اور اگر مسلمان اس کی جارحیت کا جواب دیں یا اپنے ہی ملک میں شرعی نظام خلافت قائم کرنا چاہیں تو اسے برداشت نہیں!۔۔۔ آخر یہ اتنا دورُخا پن کیوں ہے؟۔۔۔ اب بس آخری بات۔۔۔ اس مخفی کوڈ کی اصطلاح کی اصلیت کیا ہے؟۔۔۔ یہ دہشت کس چیز کی؟۔۔۔ دہشت زدہ کون ہو رہا ہے۔۔۔ دنیا کس چیز سے خوفزدہ ہے؟۔۔۔ ارھابِیون، دلوں میں خوف بٹھانے والے۔۔۔ یہ کون ہیں؟ اس اصطلاح کو قرآن میں دیکھو۔۔۔ سورۃ الانفال میں اللہ حکم دیتا ہے: تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ‘‘

عبادہ کی اس بات پر نور اچھل کر بیٹھ گئی۔

’’ارھابی کا مطلب دہشت گرد! یعنی ترھبون کا مطلب ان کو دہشت زدہ کرو!۔۔۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ کفار کو دہشت زدہ رکھو! واؤ!‘‘ نور خوشی سے بچوں کی طرح تالیاں بجانے لگی۔ ’’عبادہ! یو آر دی بیسٹ!‘‘

اب وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اس کو بچوں کی طرح خوش ہوتا دیکھ کر عبادہ بھی بے ساختہ ہنس دیا۔

’’اب یہ اللہ کے دشمن ہم سے خوفزدہ ہونے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں تو کچھ عجب نہیں! مسلمان تو شیر کی طرح ہیں۔۔۔ شیر اگر سدھا بھی لیا جائے، سرکس میں مداری ڈنڈا لیے اس پر سوار ہو۔۔۔ پھر بھی اس کے سٹیج پر آتے ہی مائیں سہم کر اپنے بچوں کو سمیٹ لیتی ہیں!‘‘ عبادہ مسکرا کر بولا تو نور کھلکھلا کر ہنس دی۔ جویریہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔

’’توبہ توبہ! تمہاری تقریر ختم ہونے کا گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں۔۔۔ اچھا سامع ملا تو پوری جہاد کی کتاب ہی پڑھا دی!۔۔۔ آجاؤں؟ پردہ ہے؟‘‘ سیڑھیوں پر کھڑا ابوبکر شرارت سے مسکرا رہا تھا۔ نور جویریہ کو سہارا دے کر کمرے میں لے گئی۔ ابوبکر نیچے لاؤنج میں آگیا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Previous Post

سُلطانئ جمہور | قسط نمبر: ۱۶

Next Post

عمل کا پیکر عبد الاحد شہیدؒ

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | آٹھویں قسط

26 ستمبر 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | ساتویں قسط

12 اگست 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط

14 جولائی 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط

9 جون 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
Next Post

عمل کا پیکر عبد الاحد شہیدؒ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version