ربّ اشرح لي صدریي. ویسّر لي أمري. واحلل عقدۃ من لساني. یفقھوا قولي.
۱۶ دسمبر پاکستان کی تاریخ میں ایک اندوہناک دن ہے۔آج سے پچاس برس قبل ۱۹۷۱ء میں، لا الٰہ الا اللہ کی خاطر بننے والا ملکِ پاکستان، ایک طرف امریکی مفادات کے چاکر حکمرانوں اور جرنیلوں کے دین و ملت مخالف غلط فیصلوں اور دوسری طرف بھارت نواز و بھارت غلام سیاست دانوں کی سازشوں کے ذریعے دو لخت کیا گیا۔
اس دن کی تلخی پہلے ہی بہت تھی کہ سنہ ۲۰۱۴ء میں اسی تاریخ کو پاکستان میں ایک اور سانحہ پیش آیا۔ یہ سانحہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچوں کے قتلِ ناحق کا فعل تھا۔ آرمی پبلک سکول میں رونما ہونے والا یہ سانحہ ہمارے خِطّے میں جہاد کی تاریخ میں منفی معنوں میں ایک سنگِ میل تھا۔ تمام اہلِ ایمان ایسے ناحق فعل کی مذمت کرتے رہے اور کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ سانحہ کسی قیامتِ صغریٰ سے کم نہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے دریدہ لاشے، معصوم بچوں کے کٹے پھٹے جسم کے مناظر دیکھنا کچھ آسان نہ تھا اور ہمیں تو پہلے پہل یہ خبر صوتی ذرائع (ریڈیو) سے پہنچی اور مناظر دیکھے بنا ہی ہمارا حال بہت خراب تھا۔ 1
سانحۂ آرمی پبلک سکول ایک المیہ تھا، لیکن پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے کوشاں لوگوں (جن میں مجاہدین اولین صفوں میں شامل ہیں) کے لیے اس المیے سے بڑا المیہ یہ تھا کہ یہ ناحق فعل دین کے نام لیواؤں اور اہلِ جہاد کے ہاتھوں سے سرزد ہوا تھا۔
یہی دو المیے کم نہ تھے کہ اسی نوعیت کے بعض اور ناحق افعال ہمیں تاریخِ جہادِ پاکستان میں دیکھنے کو ملے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک خطا (جو کہ نہایت سنگین تھی)کے بعد جو جو اس میں شریک تھا وہ ٹھہرتا، ٹھہر کر اپنے اس فعل پر نظر کرتا، جائزہ لیتا، اہلِ دین و دانش جن سے خصوصاً جا کر پوچھنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ وہ پہلے ہی اس پر بات کر رہے تھے 2کی بات سنی جاتی، اپنے فعل پر نادم ہوا جاتا، اس سے رجوع کرتے، اللہ کے سامنے توبہ کرتے اور جن عبادُاللہ کا حق پامال کیا تھا ان سے معافی مانگتے، شرعی دیت ادا کرتے یا مال میسر آنے پر اس کو ادا کرنے کا عہد کرتےاور آئندہ کبھی ایسے فعل کو عمداً کرنے سے ہمیشہ کے لیے رک جاتے۔ لیکن ایک اور المیہ ہماری قسمت میں لکھا تھا۔ حسبِ قولِ شاعر:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں، حادثہ دیکھ کر
اس واقعے کے ٹھیک ایک سال بعد (دسمبر ۲۰۱۵ء میں)مردان میں شناختی کارڈ بنوانے کے مرکز میں یہی فعل دہرایا گیا ، پھر اس واقعے کے تقریباً مزید ایک سال بعد(جنوری ۲۰۱۶ء میں) باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں پھر اسی فعل کی تکرار ہوئی۔ یہ ناحق فعل اب محض خطاءً ہونے والا کوئی عمل نہ رہا تھا بلکہ یہ جرم تھا ۔ اس المیوں کی داستان میں ایک اور المیہ یہ رونما ہوا کہ باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والے قتلِ ناحق کے جرم کے بعد اس ساری کارروائی کی ترتیب و اجازت دینے والوں کی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’یہ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے وہ مراکز ہیں جس سے پاکستانی طاغوتی نظام کے لیے افراد مہیا کیے جاتے ہیں، یہی طالبِ علم مزید بڑے ہو کر بیوروکریٹ، وکیل و جج اور سیاست دان بنتے ہیں‘اور ان سب واقعات پر نہایت افسوس کے ساتھ بعض لوگوں نے ’خضرِ دوراں‘ ہونے کا دعویٰ کیا اور حضرتِ خضرؑ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سفر میں جس بچے کو ’اللہ کی جانب سے علم‘ کے سبب قتل کیا تھا ،کو دلیل بنایا ۔
اس واقعے پر مذمت و تنقید سے کوئی یہ تاثر نہ لے کہ ہم یہاں گروہِ مخالف کی تائید کر رہے ہیں۔بلکہ آج بھی جس وقت ہم ان واقعات کی مذمت کر رہے ہیں اور شریعت کی روشنی میں علمائے حق سے پوچھ کر جب ان افعال کو ناحق کہہ رہے ہیں تو اس وقت بھی مجاہدین کا جو گروہ اس فعل میں شامل تھا، ان مجاہدین کے مقاصد ’’جہاد برائے اعلائے کلمۃ اللہ، محنت و کوشش برائے نفاذِ شریعتِ محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور مظلوم امت کو کفر اور کفری نظاموں کی غلامی سے نکالنا وغیرہ‘‘ میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ایک مومن مجاہد کے دعوت و جہاد کے یہی اہداف و مقاصدِ عالیہ ہوا کرتے ہیں۔ کوئی کیسے ان لوگوں کی تائید کر سکتا ہے یا کیسے کسی کے دل میں ان لوگوں کے لیے نرمی پیدا ہو سکتی ہے جنہوں نے دشمن کے مفادات کی خاطر اپنے ذاتی مفادات کو پروان چڑھایا، وہ جرنیل اورانٹیلی جنس اداروں کے امریکی نمک خوار افسر جنہوں نے امریکی وار آن ٹیرر کا حصہ بن کر قبائل کو خون میں نہلایا، اہلِ سوات کے گھر اجاڑے اور انہیں یتیمی و بیوگی کے داغ دیے، جنہوں نے نامعلوم کتنے ہزار افراد کو لاپتہ افراد میں بدل دیا اور ان میں کتنوں کو جعلی مقابلوں میں ’مار‘ کر ڈیموں کے گیٹوں اور بیراجوں کی گراریوں میں ڈال دیااور جنہوں نے جامعہ حفصہ کی عفیفات کی ناموس تار تار کی اور لال مسجد کو لہو سے لال کیا!!
میں شاید اس موضوع پر کچھ نہ لکھتا لیکن حال میں گزارنے والی ۱۶ دسمبر (۲۰۲۱ء) کی شام سوشل میڈیا پر جہاد و مجاہدین کی تائید کرنے کے حوالےسے معروف بعض احباب کے تبصروں نے مجھے یہ چند سطریں لکھنے پر مجبور کر دیا۔ ہمارے یہاں کم از کم دو قسم کے رویے ایسے قتلِ ناحق کے واقعات پر پروان چڑھے ہیں، مبنی بر عدل رویے کے علاوہ۔ اور علمائے کرام کے بیان کردہ مبنی بر عدل و شریعت رویے پر ہم اپنی اسی مختصر تحریر کے آخر میں بات کرتے ہیں۔
ایک رویہ تو وہی ہے جس کی ہم نے پہلے بات کی اور وہ ہے اپنے ناحق افعال پر اصرار، ایسے ہی واقعات کو دہراتے رہنا ، اپنی صفوں کا تصفیہ کیے بغیر اپنے عمل ِ’جہاد‘ کو جاری رکھنا اور ان افعال کا بے جا دفاع کہ یہ برحق تھے۔ یہ ایسی بھول بھلیاں ہیں جن میں ساری زندگی بھٹکنے کے باوجود منزل کی بھنک بھی نہیں پڑ سکتی۔ یہ ناحق قتل پر اصرار اور ایسے ناحق افعال کے مرتکب افراد کو اپنی صفوں میں بغیر تادیب و اصلاح کے شامل رکھنے کا راستہ خدانخواستہ اس ذاتِ باری تعالیٰ کی ناراضی کا راستہ ہو سکتا ہے۔
دوسرا رویہ ہے اپنے اعلانیہ گناہوں کو بنا معافی مانگے چھپانے کا رویہ۔ اپنے یا اپنے دوستوں، ساتھیوں یا اپنے جہاد سے وابستہ لوگوں کے ہاتھوں سرزد ہونے والے ناحق افعال کے لیے ناحق عذر تراشنے کا رویہ۔ یہ رویہ اور یہ کہنا کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں کو مجاہدین نے قتل نہیں کیا بلکہ فوج نے ان کو مارا تا کہ مجاہدین کو بدنام کیا جا سکے، وغیرہ وغیرہ۔ ابھی ’مونچھوں والے اور غیر مونچھوں والے‘ بچوں کی عبث بحث میں نہیں پڑتے(اور اس دلیل کے غلط ہونے پر علمائے حق بہت کچھ بیان کر چکے ہیں)، صرف ان نابالغوں اور ان معصوموں ہی کی بات کرتے ہیں جن کے بارے میں ’ہم‘ کہہ رہے ہیں کہ انہیں فوج نے قتل کیا۔ اگر فوج نے قتل کیا بھی تو اس قتل کا موقع فوج کو کس نے فراہم کیا؟ پھر ہمارے یہ احباب کیوں اس فعلِ ناحق کے لیے ایسے عذر تراش رہے ہیں جس کے بارے میں حملہ آور گروہ نے خود ذمہ داری قبول کی اور آج تک اپنے رویے کی بنا پر اس کارروائی کو ’برحق‘ گردانتے ہیں اور اس کارروائی کے ذمہ دار کو ’بطلِ امت‘ قرار دیتے ہیں؟!
اسی رویے کے ساتھ ملحق اور سانحۂ اے پی ایس کے ذکر کے ساتھ جس چیز نے ہمیں سخت دکھ پہنچایا وہ یہ تھی کہ سوات میں پاکستان فوج نے جن بچوں کو قطار میں کھڑا کر کے کلمۂ طیبہ ان کی زبانوں سے سن کر گولیوں سے بھونا تھا اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر بعض احباب نے شیئر کیا اور اس کے ساتھ پوری پاکستانی قوم کو ایسے واقعاتِ ظلم میں فوج کا ساتھی محض اس بنا پر قرار دیا کہ ان کا خون فوج کے بنائے گئے گانوں کو سن کر جوش مارتا ہے (بڑا دشمن بنا پھرتا ہے اور مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے، وغیرہ)۔
……اور پھر اسی قسم کے مزید تبصرے، عوام کو امریکی اتحادیوں کی صف میں کھڑا کرنے کی باتیں، عوام کے باطل افکار پر قائم ہونے کی باتیں اور پھر اپنے افعال کو ثابت کرنے کے لیے عبث دلیلیں اور سازشی نظریات (conspiracy theories)……
انّا للہ وانّا الیہ راجعون! کیا محض فوج کے بنائے گانوں اور ترانوں پر جس عوام کا خون جوش مارے وہ اس فوج کے ظلم میں شریک ہوگئی جس نے ان بچوں کو قتل کیا؟ اور جب یہ عوام اس ظلم میں شریک ہوئے تو گویا مجرم و ظالم ہوئے اور پھر اسی عوام کے بچوں کو گویا اے پی ایس اور باچا خان یونیورسٹی میں قتل کرنا جائز ٹھہرا؟ عوام مجرم ہیں سو عوامی مقامات گلشنِ اقبال پارک لاہور سے نادرا آفس مردان تک سبھی قتلِ عام جائز و روا ہے؟
یہ فہم درست نہیں ہے، قتال اور وہ بھی قتال فی سبیل اللہ اور پھر اس جہاد و قتال کی دعوت ایسا معاملہ نہیں جسے ہم محض ریاضی کے کسی فارمولے اور کہیں محض عقلی نما دلیل یا جذبات سے سمجھیں اور اس کے بعد اس کا بیان اپنی زبان و قلم اور تلوار و کلاشن کوف سے کریں! کفارِ اصلی پر بھی ’عام تباہی ‘مسلط کرنے کے آداب شریعتِ مطہرہ نے بیان کیے ہیں اور ہمارا میدان تو مسلمانوں کا ایک ملک و معاشرہ ہےجس کے عوام لاالٰہ الا اللہ کے متوالے ہیں اور ناموسِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کے مظاہرے صبح و شام جہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
مبنی بر عدل و شریعت رویہ جس کو علمائے حق خصوصاً علمائے جہاد نے بیان کیا ہے اور جو سیرت ِ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یہی ہے کہ اعلانیہ خطاؤں سے اعلانیہ توبہ و برأت کا اظہار کیا جائے اور ان کو دہرایا نہ جائے اور ان کے لیے عذرِ لنگ نہ تلاشے و تراشے جائیں۔ اور یہ رویہ محض جہاد کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تو دینِ مبین کا آفاقی اصول ہے اور جہاں جہاد و قتال میں ایسی کوئی خطا سرزد ہوجائے تو علمائے ربّانیین نے شارع علیہ الصلاۃ و التسلیم کا وہ فرمان بطورِ نمونۂ عمل بیان کیا جو صحیح بخاری میں منقول ہے کہ جب جلیل القدر صحابی، فاتحِ تختِ قیصر وکسریٰ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، جنہیں خود رسولِ مبارک صلی اللہ علیہ وسلم نے ’سیف من سیوف اللہ‘، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کا خطابِ عالی عطا فرمایا، جب ان سے لوگوں کا خطاءً قتل ہو جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو مرتبہ فرماتے ہیں:
’’اللھم إني أبرأ إليك مما صنع خالد!‘‘
’’اے اللہ! خالد نے جو کیا میں اس سے تیرے سامنے برأت کا اعلان کرتا ہوں!‘‘
پس اپنی خطاؤں سے رجوع و توبہ، اپنے اعمال و صفوف کا تصفیہ اور علمائے حق کی رہنمائی میں اپنی دعوت و جہاد کی جدو جہد کو جاری رکھنا دنیا و آخرت میں سلامتی کی راہ ہے۔
بلاشبہ ہمارے دل اے پی ایس اور اس طرح کے تمام سانحات پر زخمی و چھلنی ہیں۔ اے پی ایس ہو یا جامعہ حفصہ یا آج سے ڈیڑھ دہائی قبل باجوڑ کے ایک مدرسے کے حفاظِ قرآن پر بمباری کے نتیجے میں اسّی سے زائد طلبائے علمِ دین کی شہادت کا واقعہ، ان کے مقتولین کا صحیح بدلہ اللہ کی شریعت کا اتباع کرتے ہوئے، جہاد فی سبیل اللہ کرنا اور نفاذِ شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش کرنا ہے، وہ شریعت جو چڑیوں اور اونٹوں کے حقوق کی بھی حقیقی ضامن ہے۔
آج کے اس دورِ پر فتن میں اور خصوصاً آج کے حالات میں پاکستان سمیت پورے برِّ صغیر میں دعوت و جہاد سے وابستہ ہر ہر داعی ومجاہد اہلِ عزیمت کے راستے پر گامزن ہے اور اس کا اس دعوت پر ڈٹنا اور جمنا زمانے کی نزاکت کے لحاظ سے نہایت قابلِ قدر ہے۔ لہٰذا، آخر میں راقم دعوت و جہاد سے وابستہ تمام محبین سے گزارش کرتا ہے کہ وہ چند درج ذیل تحریرات و کتب کا ضرور مطالعہ کریں، تا کہ دعوت و جہاد کا ہر تیر شریعت کے مطابق اپنے ہدف پر لگے، طاغوتی نظام کی ظلمتوں والی خزاں رخصت ہو اور لا الٰہ الا اللہ کی بہار کی صبحِ پر نور، جلد طلوع ہو:
خونِ مسلم کی عظمت از شیخ عطیۃ اللہ اللیبی
دعوتِ خلافت اور منہجِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم از مولانا عاصم عمر
دعوت کا اُسلوب اورمنہجِ جہاد کی حفاظت و فروغ (بالخصوص انٹرنیٹ اور بالعموم سب داعیانِ جہاد کو مخاطب تحریر) از استاد اسامہ محمود
ہمارے کرنے کے کام (بغدادی کا قتل اور فتنۂ داعش کے تناظر میں) از استاد اسامہ محمود
جن مجاہدین سے یہ فعل سرزد ہوا اللہ پاک ان کی اس فعل پر مغفرت فرمائیں اور ہم بعد میں آنے والوں کے بھی گناہ بخش دیں اور ہماری رشد و ہدایت کے راستے کی طرف رہنمائی فرمائیں، آمین!
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ. ربَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ.
وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین وصلی اللہ وسلم علی النبي الکریم.
٭٭٭٭٭
1 ممکن ہے کہ بعض حضرات یہاں ہماری بات کے مقابل امریکی اتحادیوں کے جرائم گنوائیں۔ ہمیں بھی یہ بات قبول ہے بلکہ ہم تو اپنی صبح و شام کی دعوت میں ان ظالموں کے خلاف زبان و قلم اور بجا محل پر گولی بھی استعمال کرنے کے قائل ہیں اور جانتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے وردی و بے وردی اتحادیوں کے جرائم اے پی ایس واقعے سے کہیں بڑے ہیں، لیکن یہ ظالم ابھی ہمارا موضوع نہیں ہیں، ہمارا موضوع و مخاطَب تو اہلِ جہاد سے منسوب افعال اور لوگ ہیں۔ ظلم کے جواب میں بھی ہمارے لیے روا نہیں کہ ہم ظلم کریں یا حد سے بڑھیں۔ انگریزی زبان کی مثل مشہور ہے کہ ’Two wrongs don’t make a right!‘۔
2 مثلاً امارتِ اسلامیہ کے علما قائدین جنہوں نے اس فعل کی مذمت کی اور اسی طرح ہمارے خِطّے کی دیگر جہادی و غیر جہادی صالح دینی جماعتوں ، تنظیموں اور علمائے کرام نے اس بابت لکھا اور بولا۔