ایک معجزہ گزشتہ صدی کے وسط میں ہوا۔ خلافت عثمانیہ کےپارہ پارہ ہو جانے کے بعد بد ترین اسلام دشمن قوتوں کے پنجوں سے نکل کر یکایک حالات تخلیقِ پاکستان پر منتج ہوئے۔ ہندو بھارت اور مسلمانوں پر ظلم کی تاریخ اور صلیبی اسلام دشمنی کاورثہ رکھنے والا انگریز دیکھتا رہ گیا۔ پاکستان ۲۷ رمضان المبارک کو تائید ایزدی کی روشن علامت بن کر دنیا کے نقشے پر ہلالی پرچم لیے ابھر آیا۔
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
اسی پیرائے میں اس صدی میں افغانستان کی غیر متوقع آزادی اور لہلہاتے کلمۂ طیبہ والے پاکیزہ پرچم نے پوری دنیا کو دم بخود کر دیا۔ دونوں ممالک کی آزادی سیاسی نہیں، ایمان کے بل بوتے پر ہوئی۔ پاکستان کا ایمانی چہرہ مسخ کرنے والے سیکولر، ملحد طبقات کے نا اہل پلاسٹک سرجن، تاریخ کا لکھا مٹانے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ کی پکار اس پر ثبت ہے۔ لاکھوں جان کی قربانی ، شوبز کی دھماچوکڑی، سیاست بازی کے اکھاڑوں، الگ کرکٹ ٹیم، رئیل اسٹیٹ کے قبضہ مافیاز کے لیے نہیں دی گئی تھی۔ ہمارے والدین خالی ہاتھ خونچکاں ٹرینوں میں جان کی بازی لگا کر آئے۔وہ اس زمین پر اس دن کے لیے سجدہ ریز نہ ہوئے تھے، جو آج گھمبیر ترین مسائل کی دلدل بنی پڑی ہے۔ کفر کی چیرہ دستی سے نکل کر آج پھر ہر طرح کے کفر کے آگے سجدہ ریز ہونے، دنیا بھر میں کشکول لیے پھرنے اور کلچرل کچرے اکٹھے کرنے کے لیے خون کی ندیاں عبور نہ کی تھیں۔ آج افغانستان ہمارے سامنے ایک ایسے ہی، بلکہ اس سے بھی بڑے معجزے کی صورت میں موجود ہے۔ وہ اپنی شناخت برقرار رکھنے اور آزادی کے مقصد کو دانتوں سے پکڑے رکھنے کا عزم لیے ہوئے ہے۔ سراج الدین حقّانی (افغان وزیر داخلہ) نے اپنے ایک ساتھی کا خواب سنایا۔
’’انہوں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی۔ یہ دیکھا کہ آپ کا دامنِ مبارک، خون سے بھرا ہوا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ خون کس کا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ افغانستان کے شہداء کا خون ہے۔ یہ بہت ہی معزز اور مبارک خون ہے۔ یہ خون زمین پر نہ بہنے پائے۔‘‘
جو خون پاکستان بننے کی راہ میں بہا، وہ ہم نے بڑی محنت سے رائیگاں کیا۔ مشرقی پاکستان اپنے ہاتھوں توڑ کر۔ اللہ نے پھر بھی درگزر فرما کر آدھے ادھورے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کھڑا کیا۔ پرویز مشرف کو یہ قوت و شوکت ایک آنکھ نہ بھائی۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان سے معافی منگوائی، ملک بھر سے چوکوں پر لگے میزائل ہٹا کر کہیں گائے چوک بنا اور کہیں کوئی اور بت ایستادہ ہوئے۔ پاک خون کی سرخی ویلنٹائن ڈے کے ناپاک گلابوں اور غباروں میں بھر کر اخلاقی گراوٹوں سے حیا کا دامن تار تار کیا۔ یہ خون گل سڑ کر سیاہ بدبودار ہو کر ہیلووین کی کالی بلائیں بن کر نور مقدم جیسے حقیقی المناک خوفناک مناظر میں ڈھلا۔ اس خون کا رنگ ہندوؤں کے مقدس پیلے رنگ کی صورت میں قومی سطح پر ’ریاستِ مدینہ‘ کے دعوے داروں نے دیوالی منا کر پھیلایا۔ قبول اسلام کو ناممکن بنانے کے بِل (bill)اور پاک ملک کو LGBT کی غلاظت سے لتھیڑنے چل پڑے۔
یہ بے نور آنکھیں، یہ روحوں کی پستی
یہ گھر گھر میں تھیٹر، یہ عصیاں کی بستی
افغانستان اپنے اثاثوں سے محروم رہتے ہوئے بھی حکمرانی کے شاندار نمونے پیش کر رہا ہے۔ حکمران اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر عوام کو سہولت دینے، انصاف فراہم کرنے میں بے مثل ایثار سے کام لے رہے ہیں۔ عوام بہ چشمِ سر لوٹ مار کرتے بد عنوان پچھلے کٹھ پتلی حکمرانوں سے یہ تقابل دیکھ رہے ہیں۔ لاقانونیت جو پاکستان کے بڑے شہروں کا قرار اور امن لوٹ رہی ہے اس کا وہاں گزر نہیں۔ قانون بلا استثناء سب پر لاگو ہے۔ (افغان حکومت کی عمر تین ماہ ہے۔ اس کا موازنہ سو سال پرانی حکومتوں، نظاموں سے کیا جا رہا ہے!) قندھار میں پرانی ٹریفک پولیس بحال کر دی گئی۔ ایک صحافی نے سپاہی کا انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا طالبان ٹریفک قوانین کی پابندی کرتے ہیں؟ پولیس والے نے بتایا کہ کل طالبان کی چند گاڑیاں غلط سڑک پر آگئیں، میں نے انہیں واپس ہونے کا اشارہ کیا۔ وہ سب واپس ہو لیے۔ لمبا چکر کاٹ کر صحیح سڑک پر آئے۔ فتح کے نشے میں یہ سپاہ چور نہ ہوئی کیونکہ سورۃ النصر پڑھتے، سجدہ ہائے شکر آنسوؤں سے بھیگی سجدہ گاہوں نے انہیں عجز کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ عمران خانی دھرنے میں قبل اس فتح ہی پولیس کی جو شامت آئی تھی وہ ریکارڈ پر ہے۔ ابھی حالیہ تحریک لبیک دھرنے میں پولیس بندوقوں کی نوک پر رکھی گئی مگر شاہ کے ان نئے مصاحبوں (ایم کیو ایم نما) کو اف کہنے کی مجال کسے ہے! ادھر افغانستان میں ذمہ داران کا عالم یہ ہو کہ خوشی میں طالب نے فائرنگ کر دی تو امیر رو دیے۔
’’کس بات پر فائرنگ کر رہے ہو؟ کس کو قوت دکھا رہے ہو؟ اللہ کا خوف کرو۔ اس کے سامنے سجدہ کرو۔ آہ و زاری کرو۔ اس نے ہم پر اتنا بڑا رحم کیا۔ اس قوم پر رحم کیا۔ خوشی تب ہو گی جب ہم اپنے اوپر اور عوام پر شریعت الٰہی اور اسلامی عدل نافذ کریں گے۔ یہ وقت خالق و مخلوق کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا ہے۔‘‘
چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر سرکاری اہلکاروں پر ذمہ داران گرفت کرتے ہیں۔ ملّا سراج الدین حقّانی نے تنبیہ کی کہ ہم بازار میں رکے ہوئے تھے تو ہم نے دیکھا کہ طالبان کی گاڑیاں تیزی کے ساتھ بازار کے درمیان سے گزر رہی تھیں۔ بازار میں موجود لوگوں کو تکلیف دی گئی۔ انہوں نے تاکید کی کہ طالبان بلاضرورت گاڑیوں میں نہ گھومیں۔ تواضع سے رہیں۔ عوام یہ محسوس نہ کریں کہ طالب نے ہم پر جابرانہ حاکمانہ حکومت مسلط کی ہے۔ غریب اور لاچار لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا، انہیں تکلیف دینا مجاہدین کے شایان شان نہیں۔ ہمارے ہاں شان کا نشانہ ہی غریب اور عوام الناس بنتے ہیں۔ اسلام آباد میں سی ڈی اے کے ہاتھوں روزگار طلب غریب سبزی پھل والوں کی ریڑھیاں الٹنے کے مناظر عام ہیں تجاوزات کے نام پر۔ اور حکومتی سرکاری تجاوزات؟ کسی دن تیونس کے ریڑھی بان کی ریڑھی الٹنے والا انقلاب آپ کو بھی نہ لے ڈوبے۔ امراء، رؤساء کے تجاوزات جو اعلیٰ ترین سطح سے سب سپانسر ہوتے ہیں ملاحظہ ہوں۔ لینڈ مافیہ، ۵۵ کھرب کی سرکاری اراضی پر قابض ہے۔ تین بڑے شہروں میں ۱۸۶۹ ارب کے جنگلات پر ان کا قبضہ ہے۔ سیاسی اشرافیہ ( یا بدمعاشیہ) بھی مدد گار رہی۔
جب طالبان آئے تو ہمارے سادہ لوح غلامی پر پلے بڑھے (دین سے فارغ) لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے سی ایس ایس نہیں کیا حکومت کیسے چلائیں گے؟ حکومت ڈگریوں، کورس در کورس کے بل پر چلا کرتی تو اشرف غنی کے سرخاب کے پروں میں کیا کمی تھی۔ امریکہ کی ترقی یافتہ ترین لیاقت بھری فوج، رپورٹروں کے صفحے کالے کرنے والے امریکی افسران کو کابل ائیر پورٹ کی بد نظمی، افراتفری میں دنیا نے دیکھ لیا! سچائی، امانت و دیانت، نظم و ٖضبط، اخلاص، خیرخواہی اور اللہ کے حضور جواب دہی کی تربیت آج طالبان کی قوت کا راز ہے۔ بدترین دشمن مغرب آج حیران ہو کر طالبان تلے پرسکون افغانستان کو دیکھ رہا ہے۔ باوجودیکہ ان کی بے مثال کامیابی کو تہہ و بالا کرنے والی قوتیں ( اسلام کا نام لے کر بھی) کفر کے مقاصد پورے کرنے میں جتی ہوئی ہیں۔
امریکی سینیٹر مٹ رومنی، جو امریکی فوجی انخلاء کے طریقے پر شدید ناقد ہیں، مسلسل سینہ کوبی کر رہے ہیں کہ جو کچھ ہوا اس نے امریکہ پر گھڑوں پانی شرمساری کا الٹا دیا۔ زندگی میں اس سے بڑے گڑ بڑ گھٹالے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سینیٹر نے بتایا کہ وہ جب افغانستان پہلے پہل گئے تو بیوی نے (فون پر) پوچھا کہ ساڑھے دس گھنٹے کے فرق کے عادی ہونے میں وقت لگے گا۔ سینیٹر نے جواب دیا ، ساڑھے دس گھنٹے نہیں، ہزار سال کا فرق اہم تر ہے جو ہمارے اور اس آبادی کےد رمیان ہے۔ رومنی کا (افغانستان کی پسماندگی پر) تبصرہ، سورۃ الجمعہ اور الاعراف کی آیات یاد دلاتا ہے۔
’’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ (الجمعہ:۲)
اس وقت یہودی اپنی علمیت کے زعم اور قومی فخر و غرور میں عربوں کو تحقیر سے ناشائستہ، کمتر، ان پڑھ کہتے (گوئم) اور سمجھتے تھے۔ اللہ نے بتا دیا لطیف طنز کے پیرائے میں کہ اللہ، بادشاۂ کائنات نے رسالت انہی میں رکھ دی۔ تزکیہ (مکمل طرز زندگی کا اجلا پن)، علمِ حقیقی اور تہذیب و تربیت کے لیے دنیا اب انہی امیوں سے رہنمائی لے گی۔ اور پھر ہوا بھی یہی! ہجرت نبوی کے ۱۰۰ سال کے اندر شرق تا غرب مسلمان چھا گئے۔ اسی خراسان پر ۷۰۶ھ میں قتیبہ بن مسلم، چین ترکستان تک فتوحات پہنچا کر امیر مقرر ہوئے۔ وہ عالم گیر سلطنت قائم ہوئی کہ مفتوح قومیں ( طالبان جیسے حلم، عفو کے پیکر) مسلمانوں سے محبت رکھتی تھیں۔ انسانوں پر انسانوں کی حرص و ہوس بھری ظالمانہ جبری حکمرانی سے نکال کر اللہ کی کریم حکمرانی تلے انہیں لے آئے۔ علاج اس کا وہی اب نشاط انگیز ہے ساقی! دنیا ایک مرتبہ پھر العطش العطش پکار رہی ہے!
ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیرِ حرم
خود کو بیگانۂ اندازِ کلیسائی کر
[یہ مضمون پہلے ایک معاصر اردو روزنامے میں شائع ہو چکاہے۔ (ادارہ)]
٭٭٭٭٭