نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ناول و افسانے

سلطانئ جمہور | قسط نمبر: ۱۹

علی بن منصور by علی بن منصور
31 جولائی 2022
in ناول و افسانے, مئی تا جولائی 2022
0

یوں تو اپریل بھی کچھ کم گرم نہ تھا، لیکن مئی اور جون تو آگ برساتے ، جھلستے ، جھلساتے ہوئے گزرے۔ ماڈل ٹاؤن ، اے بلاک میں واقع مکان نمبر ۴۳۴، ہاشمی ہاؤس پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو وہ اپنی جگہ گرمی کی شدت سے مرجھایا ہوا کھڑا نظر آتا۔ بیرونی دیوار پر جھولتی سدا بہار بیل گرد و غبار سے اٹی ہوئی ، جھاڑ جھنکار کی سی شکل اختیار کر گئی تھی۔ گملوں اور کیاریوں میں لگے پھول اور لان کی ہری بھری، سر سبز گھاس، سب ہی دھوپ کی شدت سے جل گئے تھے۔ دیواروں کا رنگ اڑا اڑا سا نظر آتا اور گیٹ کے باہر دیوار کے اس حصّے کا تو اب پلستر بھی اکھڑنا شروع ہو گیا تھا جسے دھوپ سے بیزار، پسینے میں نہائے ہوئے گھر آنے والے موٹر سائیکل سوار وں نے گیٹ کھلنے کے انتظار میں ٹکریں مار مار کے زخمی کر دیا تھا۔

اندر کی جانب چلیں تو صحن کا فرش دھول مٹی، گریس اور پٹرول کے داغ دھبوں سے اٹ کر اپنی اصل شکل کھو چکا تھا۔ برآمدے کی سیڑھیوں کا ٹوٹا، اکھڑا ہوا پتھر اب کئی جگہوں سے اکھڑ چکا تھا، اور اندر سے جھانکتا سیمنٹ گویا اپنی برہنگی پر شرما رہا تھا۔ مزید آگے بڑھیں تو ہاشمی ہاؤس کا یہ برآمدہ جو گھر کے دونوں حصّوں کو جوڑتا تھا، اور کبھی اہلِ خانہ کے لیے مل بیٹھنے کے لیے ایک آرامدہ اور پر لطف جگہ فراہم کرتا تھا، آج کسی سیاسی گیلری سے کم نہیں تھا۔ یہ برآمدہ اب تک متعدد احتجاجی مظاہروں کا سٹیج بن چکا تھا، اور ہر مظاہرہ در و دیوار پر ، فرش تا بام اپنے یادگار نقش و نگار چھوڑتا گیا تھا۔

دیواریں احتجاجی نعروں اور جملوں سے بھری ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ پمفلٹ اور پوسٹرز چسپاں تھے۔موجودہ حکومت کے خلاف سڑانڈ زدہ ، گویاابلتے گٹر سے نکلے ہوئے مذمتی جملے جگہ جگہ نمایاں نظر آ رہے تھے۔ مگر ساتھ ساتھ پسند کے لیڈر کے حق میں لکھے نعروں کی بھی کمی نہ تھی، مطالبات، گھر کے مختلف افراد کے مزاحیہ خاکے اور کارٹون…… غرض زبان و بیان کی شعلہ افشانیوں سے لے کر قلم و تصور کی ندرت و مہارت کے بہترین نمونے اس دیوار پر جلوہ گر تھے۔ دیوار کے ایک بلند کونے میں البتہ نجانے کس ستم ظریف نے جلی حروف میں لکھ دیا تھا:’حسنِ جمہوریت: آزادیٔ اظہارِ رائے!‘‘ بلاشبہ برآمدے کی دیواریں اور ستون جمہور کے اظہارِ رائے کی بہترین عکاس تھیں، مگر اس میں حسن و جمال تلاشنے کے لیے غیر معمولی بصارت و بصیرت درکار تھی۔

٭٭٭٭٭

آج پھر ان کے سر میں درد تھا۔ کچن سے پیناڈول کی دو گولیاں پانی کے ساتھ پھانکتے ہوئے صولت بیگم سوچ رہی تھیں کہ جلدی سے جا کر لیٹ جائیں، اس سے پہلے کہ درد شدت اختیار کرے۔ یہ سر درد بھی……جگر کے درد کی طرح ان کا مستقل ساتھی بنتا جا رہا تھا۔

کمرے میں آ کر انہوں نے دوپٹہ بیڈ پر ڈال دیا اور خود بیت الخلاء کا رخ کیا۔ سر درد کے باوجود انہیں اپنے معمولات پورے کیے بغیر نیند کہاں آنی تھی۔بستر پر لیٹ کر کروٹیں بدلنے سے بہتر تھا چند رکعت نفل پڑھ کر اپنے لیے اور گھر والوں کے لیے دعا ہی کر لیں۔ آخر مجبور عوام کا دعا کے علاوہ بس چلتا ہی کس چیز پر ہے……نل کھولنے کے لیے ٹونٹی گھمائی تو پانی ندارد……وہ یکدم گھبرا گئیں……یا اللہ ! آج پھر پانی ختم نہ ہو گیا ہو۔ مزید کھولنے کے لیے گھمائی…… ٹونٹی گھماتے گھماتے، جتنا گھوم سکتی تھی، اب گھوم چکی تھی……ہلکی سی گڑگڑاہٹ کی آواز ابھری، پھرایک……اور دو ننھے منّے پانی کے قطرے نل کے نیچے رکھے ان کے منتظر ہاتھ میں جا ٹپکے……پھر باریک سی دھار……صولت بیگم نے جلدی سے اس دھار کو ہاتھوں پر مَلا… ان کی پر امید نظریں اس دھار پر جمی ہوئی تھیں……یا اللہ! پانی آ جائے!……پانی بھیج دیں……بس ذرا سا پانی کہ وضو ہو جائے……!

مگر دھار باریک سے باریک تر ہوتی جا رہی تھی……پھر دو……ایک……چند قطرے مزید ٹپکے ……اورپانی ختم! انہوں نے غصّے سے نل پر ہاتھ مارا۔ٹپ! کی آواز کے ساتھ ایک موٹا قطرہ ان کا منہ چڑاتا ہوا سِنک میں جا گرا……پانی ختم ہو چکا تھا۔ نل کا منہ یوں سوکھا پڑا تھاجیسے پانی کی شکل بھی کبھی نہ دیکھی ہو۔ غصّے سے کچھ بڑبڑاتے ہوئے انہوں نے نل بند کیا اور باہر کا رخ کیا۔

بیت الخلاء سے نکل کر انہوں نے چٹکی سے بستر پر پڑا اپنا دوپٹہ اٹھا کر سر پہ ڈالا اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔ اب باری باری انہیں گھر کے تمام بیت الخلاء دیکھنے تھے، اللہ کرے کہیں پانی نصیب ہو جائے۔ بالآخرنبیلہ و فاطمہ کے کمرے کے بیت الخلاء میں بالٹی کی تہہ میں پڑا انہیں تھوڑا سا پانی مل گیا۔ نجانے پاک بھی ہے یا نہیں……مگر کیا کرتیں، مجبوری تھی، انتہائی کفایت شعاری سے پانی استعمال کیاکہ صرف فرائض ادا کرنے ہی کی گنجائش تھی، وضو ہو گیا تو وہ قدرے مطمئن، قدرے غیر مطمئن سی باہر نکلیں۔

اپنے کمرے میں پہنچ کر کتابوں کے شیلف سے اپنا قرآن مجید اٹھا یا اور صوفے پر پاؤں اونچے کر کے بیٹھ گئیں۔ چشمہ درست کیا، بڑے اہتمام سے جہاں نشانی لگا رکھی تھی وہاں سے کھولا اوربسم اللہ پڑھ کر تلاوت شروع کی۔ ابھی پہلی آیت بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ یکدم کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔ بیڑا غرق!……دماغ کے تمام تار جھنجھنا اٹھے، بجلی کو بھی اسی وقت جانا تھا، انہیں سخت تاؤ آیا۔ قرآن مجید احتیاط سے صوفے کے ساتھ رکھی چھوٹی تپائی پر رکھا اور خود ٹتولتے ٹٹولتے دروازے تک آئیں۔ یو پی ایس کیوں نہیں چل رہا، انہوں نے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی اونچی آوازمیں پوچھا۔ کوئی جواب نہ ملا۔

چند منٹ وہیں کھڑے کھڑے وہ باری باری اپنی تمام آل اولاد کو پکار چکی تھیں اور اب آگے بڑھ کر ان کے کمروں میں جھانکنے کا ارادہ ہی کر رہی تھیں کہ دور کہیں سے زین کی آواز میں جواب ملا: یو پی ایس بیٹری سے مناسب وولٹیج نہ ملنے کے باعث بند ہو گیا تھا، بجلی تو بہت دیر سے گئی ہوئی تھی۔ اگر انہیں ضرورت ہے تو انہیں اپنے موبائل کا ٹارچ جلا لینا چاہیے، ساتھ مشورہ مفت تھا۔

صولت بیگم کو اپنے سر کا درد دو چند ہوتا محسوس ہوا۔ وہ ٹارچ کی روشنی میں تلاوت نہیں کر سکتی تھیں۔ غصّے سے کھولتے ہوئے واپس کمرے میں آئیں۔ آنکھیں اب تک اندھیرے کی عادی ہو چکی تھیں اور مبہم مبہم ہیولے سے نظر آ رہے تھے۔کھڑکی تک پہنچ کر انہوں نے پردے کھینچ کر پیچھے کیے تو سامنے ہی ہمسایوں کی کوٹھی بقعۂ نور بنی نظر آئی۔ جگمگاتی روشنیوں کی جھل مل سے ان کا کمرہ بھی مدھم سے روشن ہو گیا۔ کم از کم چیزیں نظر آنا شروع ہو گئیں۔ وہ سخت بیزاری محسوس کرتےہوئے اپنےبستر پر آ کر لیٹ گئیں۔ اب نہ نیند آ رہی تھی، نہ سر کو آرام میسر تھا……اور نہ دل کو چین۔

حسرت بھری نگاہیں سامنے والوں کی کوٹھی پر جمی تھیں۔ ایک وقت تھا جب ہاشمی ہاؤس بھی یونہی جگمگایا کرتا تھا۔ اور آج یہ حال تھا کہ وہ گھنٹہ گھنٹہ بھر بجلی کی سہولت میسر آنے پر خوشی سے نہال ہو جاتے کہ بجلی تو آئی۔ ہفتہ بھر پہلے عمیر نے نئی ہدایات پر مبنی ایک پرچہ جاری کیا تھا۔ اس میں تمام گھر والوں کو بحیثیت ایک جمہوری گھرانے کے ذمہ دار مکین ان کا یہ فرض یاد دلایا گیا تھا کہ گھر کی موجودہ کمزور معاشی صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے ان سب کو اپنا اپنا حصّہ ڈالنے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا نبیلہ نے وظیفوں میں جو کٹوتی کا سلسلہ شروع کیا تھا اور جسے عمیر نے برقرار رکھا تھا، اب اسے بڑھا کر پچاس فیصد تک کر دیا گیا تھا۔ دونوں پورشنز کے پانی، بجلی اور گیس کے میٹر الگ کر دیے گئے تھے اور ان سہولیات کے بِل مناسب حدود میں لانے کے لیے ان کی بھی حدِ استعمال مقرر کر دی گئی تھی۔ جو پورشن بھی اپنے حصّے سے زیادہ بجلی، پانی وغیرہ استعمال کرتا، اس کی یہ سہولت خود بخود منقطع کر دی جاتی۔ سرکُلر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان نئے قوانین سے گھر والوں کو کچھ زحمت پہنچنے کا احتمال ہے، مگر ان سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ زندہ قومیں مشکل حالات کا مل جل کے صبر سے سامنا کرتی ہیں۔

ہاشمی ہاؤس کے مکین اب تک ان نئے قوانین کے عادی نہ ہوپائے تھے۔ اولین ردعمل تو یہ سامنے آیا کہ ایک بڑی ریلی کی صورت میں تمام گھر والوں نے برآمدے میں دھرنا دیا، اس سرکُلر کو احتجاجاً نظرِ آتش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ فیصلہ کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ابّا جی، جنہوں نے پہلی دفعہ ایسے کسی دھرنے میں شرکت کی تھی، نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آج تم لوگوں نے گھر کے اخراجات علیحدہ کیے ہیں، کل کو گھر کے درمیان دیوار بھی کھڑی کر لو گے۔ مگر عمیر نے اس احتجاج کا بطورِ خاص نوٹس لیا، سب گھر والوں سے ایک نہایت دلسوز خطاب کیا، ان کے خدشات دور کیے اور انہیں یقین دلایا کہ یہ محض وقتی اقدامات ہیں، جیسے ہی گھر کے حالات کچھ بہتر ہوتے ہیں، وہ سب پرانی روٹین پر واپس آ جائیں گے۔ آخر میں سب سے یہ استدعا بھی کی کہ اس نازک مرحلے میں گھر والے اس کی مخالفت کر کے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے اس کے ساتھ قدم ملا کر کھڑے ہوں، تقسیم و انتشار سے بچیں اور گھرانے کو بحران سے نکالنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

اس کے بعد پر امن احتجاج جاری رکھنے کے لیے اویس نے گھر میں ایک طلبہ تنظیم نما بنانے کی کوشش کی اور اس کے تحت ایک احتجاجی جلوس نکالا، کہ بہرحال ان نئے قوانین سے گھر کے وہ بچے جن کے امتحانات سر پر کھڑے تھے، سب سے زیادہ متاثر ہو رہے تھے۔ مگر اس کا جو نتیجہ نکلا وہ ان سب کے لیے نہ صرف غیر متوقع و حیرت انگیز، بلکہ سبق آموز بھی تھا۔ اویس برآمدے میں ایک کرسی پر کھڑا گھر کے طلبہ کو درپیش تعلیمی مسائل پر روشنی ڈال رہا تھا کہ نذیر اور امانت برآمدے میں نمودار ہوئے۔ ان کی آمد کا کا شاید ہی کسی نے کوئی نوٹس لیا ہو مگر اویس کے قریب پہنچتے ہی یکا یک امانت نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کے کمر کے پیچھے کیے اور اسے کرسی سے صاف اٹھا لیا، جیسے کسی ننھے بچے کو اٹھاتے ہیں، اور اس سے پہلے کہ نور، جویریہ، ہادیہ، فاطمہ اور زین میں سے کوئی معاملہ سمجھ پاتا……امانت اور نذیر بمع اویس گھر کے اندرونی حصّے میں غائب ہو چکے تھے۔

یہ سب اس قدر اچانک اور غیر متوقع تھا کہ جب تک اویس کے ہکّا بکّا مخاطبین معاملہ سمجھ کر اس کو بچانے کی خاطر اٹھے، زوار موقع پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے انتہائی سنجیدہ و سنگین انداز میں انہیں سمجھا دیا کہ گھریلو معاملات میں رخنہ ڈالنے کی کوئی کوشش اب مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔ طلبہ کے لیے بہتر ہے کہ وہ سیاست کے بجائے اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔ ہاں یہ مت سمجھا جائے کہ حکومت کو ان کی کوئی پروا نہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لیے آخر میں اس نے ان سب کو ایک ایک خوبصورت سی ٹارچ دی، جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کےایک سرے پر ایک چٹکی لگی تھی جو کسی بھی کتاب کی جلد سے جوڑی جا سکتی تھی۔ پھر ٹارچ کی ملائم گردن موڑ کر اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکتاتھا۔ روشنی صفحات کو منور کر دیتی اور یوں طلبہ کی سب سے ہمدرد و غمگسار حکومت نے ان کا وہ مسئلہ حل کر دیا جس کے لیے وہ سڑکوں پر نکل کر اپنا قیمتی وقت برباد کرنے والے تھے۔

اپنے بستر پر لیٹی صولت بیگم کی آنکھوں سے نیند ایسے ہی غائب ہو گئی تھی جیسے ان کے گھر سے خوشیاں، زندگی سے چین و راحت اور دل سے سکون……

اور اب وہ اکیلی نہیں تھیں جو اکثر ہی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتیں کہ ان کے گھرانے کی اس بربادی و بدحالی کا ذمہ دار کون تھا؟؟

آج چھوٹے بڑے بہت سے ذہنوں میں یہ سوال کلبلا رہا تھا کہ کیا واقعی جمہوریت میں ہی ان کے مسائل کا حل پنہاں تھا؟ کیا ایک شخص کی سربراہی……جس کے فیصلوں میں دیگر اصحاب عقل و رائے کا مشورہ شامل ہو ……بہتر تھا یا ایک شخص کی سربراہی ……جس کے فیصلوں میں بظاہر پورے گھرانے کے چھوٹے بڑے تمام افراد کی حمایت شامل ہو……بہتر تھا؟!

سب کی حکومت وہ سراب تھا جو آج اگر سب پر واضح نہیں تھا، تو بھی گھر کی اکثریت کسی نہ کسی درجے میں سمجھنا شروع ہو گئی تھی کہ اس خواب میں اتنی حقیقت نہیں جتنی وہ سمجھتے چلے آئے تھے۔ پھر بھی……چاہے گھر کو چلانے میں ہر ایک کا ہاتھ شامل نہ بھی ہوتا، حکومت و سربراہی بعض مخصوص ہاتھوں میں ہی رہتی، اور دیگر افراد اپنی خاموش حمایت کے ساتھ ان ہاتھوں کو مضبوط کرتے، مگر گھر مجموعی طور پہ صحیح رخ پر چلتا رہتا ……تو کیا برا تھا؟!نظام کوئی بھی ہو، اس کو چلانے والا کیسا ہی کیوں نہ ہو، مگر نتائج کے اعتبار سے گھر اور افراد ترقی کریں، خوشحال ہوں، گھر کی گاڑی صحیح سمت میں چلتی رہے……تو کیا فرق پڑتا ہے؟

صولت بیگم عثمان صاحب نہیں تھیں، جو کہتے تھے کہ گاڑی کا نظام اندر سے ہی مکمل گڑبڑ کا شکار ہو، گئیر باکس خراب ہو، بریکیں فیل ہوں……تو جلد یا بدیر گاڑی حادثے کا ہی شکار ہو گی……اور نہ ہی وہ ابوبکر صاحب تھیں جن کی خوش امیدی یہ کہتی تھی کہ گاڑی کا نظام ٹھیک ہے، ہاں ڈرائیور ٹھیک نہیں، جو گاڑی کے غلط راستے پر چلنے کا ذمہ دار ہے۔ وہ تو محض ایک عام سا فہم رکھنے والی سواری تھیں، معمولی ذہانت و بصیرت کی مالک……مگر وہ سب جس تیزی سے تنزل کا سفر طے کر رہے تھے، یہ سمجھنا کسی کے لیے بھی مشکل نہ رہا تھا کہ کہیں کوئی بہت بڑی گڑبڑ موجود تھی۔

دن گزر رہے تھے، رستہ کٹ رہا تھا۔ وقت تو اچھا ہو یا برا، گزر ہی جاتا ہے۔ شاید یہی وقت کی اچھی بات ہے۔

٭٭٭٭٭

نسرین کے مقدمے کی پیشی تھی۔ شاید اہم ترین پیشی……اسے خود بھی عبداللہ کےساتھ پیش ہونا تھا۔ اس کے ساتھ ابوبکر صاحب، عمیر، ولید اور صولت بیگم، سب ہی موجود تھے۔ اب ایک آدھ پیشی ہی میں اس کے مقدمے کا فیصلہ متوقع تھا۔ اور وہ خود اس پیشی سے گزرنے کے لیے کتنے دنوں سے اندر ہی اندر خود کو تیار کرنے میں مصروف تھی۔

مگر وہ کتنی ہی تیاری کر لیتی، کتنا ہی خود کو مضبوط کر لیتی، کچھ بھی اس کو ان نظروں کے لیے حتماً تیار نہ کر سکتا تھا جن کا لا محالہ اسے کورٹ میں سامنا کرنا تھا۔ ارشد کی وقتاً فوقتاً ان کی جانب اٹھتی غصّہ و رنج سے بھری، منتقم نگاہیں۔ رخشندہ بیگم کی بھیگی بھیگی ، شکوہ کرتی نظریں…… اور پھر پیشی کے بعد جب وہ کمرۂ عدالت سے نکلی تو رخشندہ بیگم باہر ہی ان کی منتظر کھڑی تھیں۔ عبداللہ کو دیکھ کر انہوں نے والہانہ انداز میں اپنے بازو پھیلادیے اور ارد گرد موجود لوگوں کی پروا کیے بنا بے تابانہ اسے پکارنا شروع کر دیا۔ نسرین کی گرفت عبداللہ کے ہاتھ پر مضبوط ہو گئی، وہ کسی صورت یہاں کمزوری دکھانے کی متحمل نہیں تھی۔ عبداللہ بھی انجان ماحول اور ایک عرصے سے ددھیالی رشتوں سے دور رہنے کے باعث حیرت اور پریشانی سے رخشندہ بیگم کی طرف دیکھ رہا تھا، جو اب بآوازِ بلند رونے اور عبداللہ کو آوازیں دینے کے ساتھ ساتھ نسرین کو بھی برا بھلا کہہ رہی تھیں۔ ان کے شور سے پریشان ہو کر وہ مزید ماں کے ساتھ چمٹ گیا۔

’’ تم ہم سے ہمارا بچہ چھین لو گی؟! کبھی اسے ہمارے پاس نہ آنے دو گی……؟‘‘، وہ جذباتی انداز میں روتے اور چلّاتے ہوئے نسرین سے مخاطب تھیں۔

’’کون کس سے کیا چھینے گا ……یہ تو وقت بتائے گا، ابھی عدالت کا فیصلہ نہیں آیا……‘‘، ارشد تسلّی تو ماں کو دےرہا تھا، مگر نسرین کو لگا گویا اسے دھمکا رہا ہے۔ عبداللہ اس کے پاس جانے کو بھی تیار نہیں تھا۔’’تم میرے بیٹے کو میرے خلاف نہیں کر سکتیں……‘‘، وہ خاموشی سے وہاں سے گزر جانا چاہتی تھی، جاتے جاتے یہ ارشد کا آخری جملہ تھا، جو اس کے کانوں نے سنا۔

رنج، دکھ اور زیاں کا ایک شدید احساس تھا، جس نے اسے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ آج عدالت میں پیشی کے تین دن بعد بھی اس کے دل کی کیفیت ایسی ہی تھی۔ وہ خود کہیں بھی نہیں تھی۔ اس کی ذات کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتی پر کہیں کوئی پشیمانی، کوئی اظہارِ افسوس و ندامت، کوئی شرمندگی……کچھ بھی تو نہ تھا۔ وہ فطرتاً صلح جو اور نرم مزاج کی مالک تھی، لڑائی جھگڑا اور منتقم مزاجی اس کی طبیعت اور مزاج کا حصّہ نہ تھا۔ اگر ایک بار بھی فریقِ مخالف ذرا سے اظہارِ شرمندگی کے ساتھ اسے اس کے جائز حقوق اور مقام دینے پر رضامندی کا اظہار کرتا، تو شاید وہ عبداللہ کو باپ اور ددھیالی رشتوں سے یکسر محروم کرنے کی کوشش نہ کرتی۔ کیونکہ وہ محض ایک عورت نہیں تھی، بلکہ اس سے بڑھ کر ایک ماں بھی تھی۔

مگر یہ ارشد اور اس کے گھرانے کا انتہا پر مبنی معاندانہ رویہ تھا، وہ جانتی تھی کہ جب جب بھی وہ عبداللہ سے ملاقات کرتے، یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اسے ماں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش نہ کرتے۔ اور گھر ٹوٹنے کے بعد عبداللہ کو کھونے کا خیال ہی اس کے لیے روح فرسا تھا۔ وہ عبداللہ کو ہر قسم کے منفی تاثر و جذبے سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی، یہی وہ خیال تھا جس نے ارشد اور اس کے گھرانے کا باب ہمیشہ کے لیے اپنی کتابِ زندگی سے خارج کر دینے کے فیصلے پر اسے ابھارا تھا۔

عبداللہ ……گھوم پھِر کر اس کی سوچوں کی ڈور اسی پر آ کر ٹوٹتی تھی۔کونسی ماں ہے جو اپنے بچے کے لیے ایک ٹوٹا بکھرا ہوا گھر، اور باپ کی محبت و شفقت سے عاری زندگی پسند کرے گی؟وہ بھی ایسا نہیں چاہتی تھی، لیکن اگر اس کے بچے کی قسمت میں یہی لکھا تھا تو وہ کیا کر سکتی تھی۔ اس کی تو زندگی کا کل محور اس کا بیٹا تھا۔ اس کی ہر دلچسپی عبداللہ کی ذات سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتی۔ ابھی تو وہ چھوٹا سا تھا، نہ بہت سمجھتا تھا نہ محسوس کرتا تھا، پھر بھی اس کی باتوں اور حرکتوں پر نسرین کی گہری نظر ہوتی ۔ شاید وہ ضرورت سے زیادہ اس کے بارے میں حساس ہو گئی تھی۔

اس خیال کے ساتھ ہی اسےعبداللہ کی غیر موجودگی ستانے لگی۔ نجانے کہاں تھا وہ، بہت دیر سے اسے دیکھا نہ تھا۔ وہ بھی آج کل بیٹھے بیٹھے خیالات کے تانے بانے بنتے دور نکل جاتی، اپنی غفلت پر حیران ہوتے ہوئے وہ عبداللہ کو ڈھونڈنے اٹھ کھڑی ہوئی۔

اپنے پورشن کی اوپر نیچے دونوں منزلیں دیکھ ڈالیں اور کہیں بھی عبداللہ نہ ملا تو وہ ہلکی سی تشویش محسوس کرتے ہوئے صولت بیگم کی طرف آئی۔’’امّی……! عبداللہ کو تو نہیں دیکھا آپ نے؟……بہت دیر سے کہیں نظر نہیں آ رہا‘‘، دروازہ ہلکا سا بجا کر اندر جھانکتے ہوئے نسرین نے پوچھا۔ صولت بیگم اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ سو تو نہیں رہی تھیں مگر شاید سونے کی کوشش کر رہی تھیں،

’’عبداللہ……؟‘‘، انہوں نے دوپٹے سے باندھا ہوا سر اٹھایا، ’’……نہیں ادھر تو نہیں آیا……میں تو خود اتنی دیر سے کمرہ بند کر کے پڑی ہوئی ہوں…… فاطمہ سے پوچھو، ہو سکتا ہے اس کے پاس ہو……‘‘۔

نسرین اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مڑ گئی، نجانے کیوں دل ایک دم پریشان سا ہو گیا تھا۔ فاطمہ اور نبیلہ کے کمرے میں جھانکا تو وہ دونوں اپنی اپنی ڈیوائسز کے ساتھ مصروف تھیں۔

’’فاطمہ……تم نے عبداللہ کو دیکھا ہے کہیں؟……مجھے کہیں مل نہیں رہا‘‘، نسرین کو اپنی بات دو بار دہرانی پڑی۔ فاطمہ نے کانوں میں ٹھونسی کن ٹونٹیاں نکالیں اور آنکھیں جھپک جھپک کر نسرین کو دیکھنے لگی۔’’……آں…ہاں!……شاید بتول کے ساتھ کھیل رہا تھا……‘‘۔

وہ سر ہلاتی باہر کی جانب چل پڑی۔ اب بھلے سے وہ اپنے بیٹے کے بارے میں ضرورت سے زیادہ حساس اور کسی حد تک وہمی ہوتی جا رہی تھی، مگر عبداللہ کو دیکھے بغیر اسے سکون نہ ملنے والا تھا۔ ساتھ والے پورشن کے لاؤنج کا دروازہ کھٹکھٹا کر اس نے کچھ دیر انتظار کیا، کوئی جواب نہ ملا تو خود ہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ سامنے ہی ایک صوفے پر نور سو رہی تھی۔ شاید پڑھتے پڑھتے سو گئی تھی، صوفے سے لٹکتے اس کے ہاتھ کے پاس ہی اس کی کتاب اوندھی پڑی تھی۔ عثمان صاحب کے بچوں میں سے ایک صہیب کے علاوہ باقی سب اپنے اپنے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھے، سب کی پڑھائی زوروں پہ تھی۔

وہ لاؤنج میں کھڑی ہادیہ اور جویریہ کو آوازیں دے رہی تھی کہ فائزہ چچی کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ نمودار ہوئیں۔ ہاتھوں میں عثمان صاحب کے کھانے کی ٹرے اٹھائے وہ تھکی تھکی اور پریشان لگ رہی تھیں۔’’نسرین……! کیسی ہو؟ کیسے آنا ہوا؟……لڑکیاں تو اکیڈمی گئی ہوئی ہیں، تمہیں ان سے کوئی کام ہے؟……‘‘، اسے دیکھ کر وہ رسماً مسکرائیں۔

’’……عبداللہ کو ڈھونڈ رہی ہوں چچی……کہیں مل نہیں رہا، پتہ نہیں کہاں جا کر بیٹھ گیا ہے۔ فاطمہ کہہ رہی تھی کہ بتول کے ساتھ کھیل رہا تھا، ……اسی کو دیکھنے آئی تھی‘‘۔

’’……بتول کے ساتھ……ہاں، اوپر ہو گا پھر تو……‘‘، فائزہ چچی کی مسکراہٹ سمٹی، پیشانی پر شکنوں کا جال بِچھ گیا تھا، ’’……میں نے تو بتول کو اور نہ اس کی ماں کو……کسی کو نہیں دیکھا کئی دنوں سے۔ ہاں بھئی! ہم سے تھوڑا کوئی تعلق ہے جو ہم سے ملیں یا کوئی بات کریں……‘‘، وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئیں۔

نسرین ایک گہری سانس لے کر سیڑھیوں کی طرف چل دی۔ ان کے گھر کا نیا مسئلہ جس پر آج کل پارلیمان میں گرما گرم بحث جاری تھی۔ بینش کا کہناتھا کہ صولت بیگم اور ان کا گھرانے کو گھر کے آدھے حصّے پر تصرف حاصل ہے۔ بقیہ آدھے حصے کی نچلی منزل تقریباً تمام فائزہ بیگم کے بچوں کے تصرف میں تھی، ما سوائے بینش اور جاوید کے کمرے کے۔ جبکہ اوپر والی منزل پر کمرے خالی پڑے تھے، یہ کمرے یا تو مہمانوں کے کام آتے یا بچے ہی بعض اوقات سکون سے پڑھائی کرنے کے لیے اوپر کسی کمرے میں جا بیٹھتے۔ اب بینش کا مطالبہ یہ تھا کہ جبکہ اوپر والی منزل پر ایک عدد کچن بھی موجود ہے تو وہ پوری منزل اصولاً اس کی فیملی کو ملنی چاہیے۔

اور اسی پر گھر میں مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔ زوار نے نکتہ اٹھایا کہ اگر اسی طرح ہر فیملی کو علیحدہ پورشن اور کچن دیا جانے لگے، تو عنقریب عمیر کو بھی شادی کے بعد بیڈ روم اور کچن پر مبنی پورے پورشن کی ضرورت پڑ جائے گی۔ اور پھر کچھ عرصے بعد ولید اور خود اس کو بھی۔ لہذا فیمیلیز کو پورشنز نہیں، بلکہ بیڈرومز ہی فراہم کیے جا سکتے ہیں، اور انہیں انہی پر قناعت کرنی چاہیے۔ یہی اصولی بات ہے۔

اویس نے انتہائی بد مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا شکوہ سب کے سامنے رکھا کہ بجلی، پانی اور گیس تو پہلے ہی نہیں، ایک کمرے کا سکون جو میسر تھا، وہ بھی ان سے چھینا جا رہا ہے۔ ان کی پڑھائی اور تعلیم کی تو کسی کو پروا ہی نہ تھی۔ چند دنوں کی بات تھی، اس کے بعد شاید ہاشمی ہاؤس پر ان کا وجود بھی گراں گزرنے لگتا۔

ابّا جی کا کہنا تھا کہ ان بھائیوں نے اپنی اپنی بیویوں کو اس قدر سر چڑھا رکھا تھا کہ انہیں ڈر تھا کہ ان سب کا یہی وطیرہ رہا تو وہ اپنی زندگی میں ہی اولاد کااتحاد پارہ پارہ ہوتے اور ان سب کو جدا ہوتے دیکھ لیں گے۔

ایسے میں ایک عثمان صاحب تھے، جو پارلیمانی کارروائی میں خود تو شریک نہ ہو رہے تھے، مگر انہوں نے ابوبکر و جاوید صاحب، فائزہ بیگم، ولید اور ہر اس شخص کے سامنے جو ان کی بات سننے میں دلچسپی ظاہر کرتا، اپنا یہ موقف رکھا تھا کہ بینش کا یہ مطالبہ بالکل درست اور مبنی بر حق ہے۔ عمیر تو بال بچوں والا نہیں تھا کہ اسے علیحدہ پورشن کی ضرورت پڑتی، مگر جاوید صاحب کی فیملی کو پورا حق حاصل تھا کہ انہیں بھی اپنا علیحدہ کچن، بیڈروم اور رہنے کے لیے قدرے کشادہ نجی جگہ حاصل ہوتی، جس پر انہیں مکمل تصرف حاصل ہوتا۔ انہیں محض ایک بیڈروم تک محدود کرنا کسی بھی طرح مناسب یا قرینِ انصاف نہیں تھا۔

عثمان صاحب کا یہ موقف بھی تنقید و تبصرے سے محفوظ نہ رہا تھا۔ فائزہ بیگم کو گو ان کی بات کچھ خاص پسند نہ آئی تھی، مگر وہ بہر حا ل خاموش رہی تھیں، البتہ نبیلہ نے ہنس کر اور کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا کہ ’’نو سو چوہے کھا کر بلّی حج کو چلی!!‘‘۔

اور گو کہ اس معاملے کا حتمی فیصلہ ابھی عمیر کی جانب سے سامنے نہ آیا تھا، مگر وقتی طور پہ ابوبکر و عثمان صاحب کے کہنے پر اوپر والا پورا پورشن بینش کے استعمال کے لیے خالی کر دیا گیا تھا۔ بینش اس انتہائی خلافِ توقع اقدام پر حیران تو ہوئی مگر خاموش رہی۔ نچلی منزل پر موجود اپنا کمرہ اس نے سلمیٰ اور لبنیٰ کی مدد سے بالائی منزل پر منتقل کر لیا اور اپنے جہیز میں لایا کچن کا سامان بھی۔ جلد ہی اس کا اپنا کچن اور پورشن فعال ہو گیا تھا۔ مگر وہ اب بھی پہلے کی طرح سب سے کھنچی کھنچی اور الگ تھلگ ہی رہ رہی تھی۔ نچلی منزل والوں کے ساتھ میل ملاقات بھی بدستور بند تھی اور بچوں کا آنا جانا بھی۔

وہ آخری سیڑھی چڑھ کر اوپر پہنچی تو لاؤنج سنسان پڑا تھا۔ ڈھلتی دوپہر کا وقت تھا، غالباً بینش بچوں سمیت کمرے میں ہو گی۔ تو کیا عبداللہ بھی اندر کمرے میں تھا؟ سو تو نہیں رہا ہو گا، وہ نسرین کے بغیر کبھی کہیں نہیں سوتا تھا۔ تذبذب کے عالم میں نسرین نے بینش کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

چند منٹ بعد ہی دروازہ کھل گیا۔ مندی مندی آنکھیں لیے بینش اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔ وہ زیادہ کہیں آتی جاتی بھی تو نہ تھی۔ ’’معذرت چچی……آپ سو رہی تھیں!‘‘، نسرین کو شرمندگی ہوئی۔

’’……نہیں، نہیں……اب تو اٹھنے ہی والی تھی، عصر کا وقت ہونے والا ہے……بہت اچھا کیا تم آ گئیں، آؤ ادھر لاؤنج میں بیٹھتے ہیں……‘‘، بینش صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی، وہ واقعی نسرین کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔ عرصے سے گھر والوں کے ساتھ معمول کی بول چال بند تھی، اور وہ تسلیم کرتی یا نہیں، مگر وہ اندر ہی اندر ان سب کو یاد کر رہی تھی۔

’’نہیں چچی……ابھی تو میں عبداللہ کو ڈھونڈتے ہوئے ادھر آئی ہوں……فاطمہ کہہ رہی تھی کہ وہ بتول کے ساتھ کھیل رہا تھا……؟ ‘‘۔

’’بتول کے ساتھ……؟‘‘، بینش کو حیرت ہوئی،’’مگر نسرین……بتول تو آج سکول سے واپس ہی نہیں آئی، مہوش کی بیٹی وردہ کی سالگرہ ہے آج، وہ کہہ رہی تھی کہ بتول کو سکول سے وہیں اپنے گھر لے جائے گی، رات کو جاوید اسے لیتے ہوئے آئیں گے…… ‘‘، بینش نے بہن اور بھانجی کا نام لیتے ہوئے اسے بتایا۔

’’مگر……پھر عبداللہ کہاں ہے؟!……پورا گھر دیکھ چکی ہوں، کہیں نظر نہیں آرہا……اور کسی نے اسے دیکھا بھی نہیں……!‘‘، وہ یکدم بد حواس ہو کر بولی۔

٭٭٭٭٭

اگلے چند گھنٹوں میں ہاشمی ہاؤس تلپٹ ہو گیا تھا۔ اوپر سے نیچے تک پورا گھر بشمول ملازمین کے کوارٹر کھنگالے جا چکے تھے۔ نسرین نے بذاتِ خود ایک ایک کمرہ چھانا تھا۔ الماریوں کے اندر، بیڈز کے نیچے، سٹور رومز، ٹیرس، چھت، سیڑھیوں کے نیچے کی خالی جگہ، کچن، پینٹری……وہ دونوں پورشنز کا ایک ایک کونہ دیکھ چکی تھی۔ اور اکیلی وہی نہیں، جیسے جیسے عبداللہ کی گمشدگی کی خبر پھیلتی گئی، گھر کے تمام افراد اس کی تلاش کے کام میں شریک ہوتے گئے۔

ایک عثمان صاحب تھے جو اپنے بستر سے اٹھنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے، اور دوسرے ابّا جی……ورنہ ان دو کے علاوہ پورا گھرانہ دیوانہ وار عبداللہ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ نسرین کو تسلّی بھی دیتے جاتے، ’فکر نہ کرو……بچہ ہے، کہیں کھیل کود میں چھپ گیا ہو گا، ضرور مل جائے گا ان شاء اللہ……‘۔ نسرین بھی فکر مندی سے سر ہلاتی، بار بار آنکھوں میں امڈتے آنسو پیتی، تندہی سے عبداللہ کی تلاش میں مشغول تھی۔ زین، اویس اور صہیب گھر سے باہر آس پاس کی گلیوں اور پارک میں عبداللہ کو ڈھونڈنے نکلے ہوئے تھے۔ سلطان کو ارد گرد کے گھروں میں پوچھنے کا کام سونپا گیا تھا۔گو کہ یہ امر نسرین کے لیے ناقابلِ یقین تھا کہ عبداللہ اس کے بغیر ایک قدم اٹھانے کا بھی عادی نہیں تھا، کجا یہ کہ اکیلا گھر سے باہر نکل جائے……مگر جب گھر میں کہیں اس کا نام و نشان نہ ملا تو تلاش کے اگلے مرحلے کے طور پر ارد گرد کا علاقہ دیکھنا ہی تھا۔

عجیب معاملہ یہ تھا کہ کسی نے بھی اسے دیکھا نہیں تھا۔ آخری بار غالباً صولت بیگم نے ہی اسے لاؤنج میں زین کے ساتھ ٹی وی دیکھتے دیکھا تھا، اور اس کے بعد وہ اپنے سر درد کی وجہ سے اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں۔ مگر زین کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ دیر ٹی وی کے سامنے نہیں بیٹھا، بلکہ کسی دوست کا فون آنے پر جلد ہی اٹھ کر گھر سے باہر نکل گیا تھا۔ اسے تو یہ بھی صحیح سے یاد نہ تھا کہ جب وہ لاؤنج سے اٹھا تو عبداللہ وہاں موجود بھی تھا یا نہیں۔ گیٹ پر کھڑے امانت سے پوچھنا بھی بے سود نکلا، اس نے اپنے معمول کے اکھڑ و خشک انداز میں جواب دیا کہ اس نے تو بچے کو باہر نکلتے نہیں دیکھا، یوں بھی اس کے ذمّے گھر کی بیرونی خطرات سے حفاظت تھی، اندرونی معاملات سے اسے کیا سروکار…… نذیر عمیر کے ڈرائیور کے طور پہ اس کے ساتھ گیا ہوا تھا جبکہ وزیر خان چھٹی پر تھا۔

دو، تین گھنٹے کی تلاش بھی بیکار نکلی تو تھک ہار کر صولت بیگم نے نسرین کو عمیر اور ابوبکر صاحب کو مطلع کرنے کو کہا۔ اب تک اس امید پر گھر کے مردوں کو پریشان نہیں کیا گیا تھا کہ یقیناً عبداللہ جلد ہی مل جائے گا، مگر اب تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔ باوجود کوشش کے عمیر سے رابطہ نہ ہو پا رہا تھا، اس کا فون مسلسل مصروف تھا۔ ولید اور زوار اطلاع ملتے ہی گھر کے لیے روانہ ہو چکے تھے اور ابوبکر و جاوید صاحب بھی ان سب کو تسلّی و دلاسہ دیتے ہوئے جلد از جلد گھر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔

مغرب کی اذانیں ختم ہو چکی تھیں اور باہر اندھیرا گہرا ہو رہا تھا جب پہلے زین، اویس اور صہیب، اور پھر آگے پیچھے ولید اور زوار گھر میں داخل ہوئے۔کب سے نہیں مل رہا عبداللہ؟ آخری بار اسے کس نے کب اور کہاں دیکھاتھا؟ کہاں کہاں ڈھونڈ لیا ہے؟ ہمسایوں کے ہاں پتہ کیا ہے کہ نہیں؟ ولید نے آتے ہی اب تک کی تمام کارکردگی کی تفصیل معلوم کرنا شروع کی۔ صولت بیگم سر کا درد بھلائے اس قت نسرین کا ہاتھ تھامے صوفے پر بیٹھی تھیں۔نسرین گو خاموش تھی، لیکن اس کے چہرے کی فق رنگت، خشک آنکھوں سے جھلکتی وحشت و پریشانی اور سوکھے ہونٹ اس کی اندرونی حالت کا پتہ دے رہے تھے۔

’’کسی نے کیمروں کی ہسٹری چیک کی ہے اب تک یا نہیں؟!‘‘، زوار کے سوال پر سب ہی چونک اٹھے، یہ خیال تو انہیں آیا ہی نہیں تھا۔ نسرین کے چہرے پر امید کی کرن چمکی، وہ تیزی سے سیدھی ہو کر بیٹھی،ہاں کیمرے بھی تو لگے ہوئے تھے ان کے گھر میں……ان سے ضرور عبداللہ کا کچھ اتہ پتہ مل جائے گا۔

’’……نہیں………ظاہر ہے ! یہ کام تو تم ہی کر سکتے ہو……‘‘، زین نے جواب دیا۔ زوار مزید کچھ بھی کہے سنے بغیر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ آدھ گھنٹے کے جان لیوا انتظار کے بعد وہ واپس آیا تو اس کا چہرہ بجھا ہوا تھا۔ سب کی سوالیہ نظریں اس پر مرکوز تھیں، ان نظروں میں مچلتے سوال کو ولید نے آواز کےقالب میں ڈھالا،’’کچھ پتہ چلا……؟‘‘

’’……نہیں، کچھ بھی نہیں!……‘‘، زوار نے مایوسی سے سر ہلایا،’’آگےگیراج سے لے کر فرنٹ گیٹ، اور پچھلے گیٹ کی جانب جتنے بھی کیمرے لگے ہیں، کسی میں عبداللہ نظر نہیں آیا۔ ……ایسا لگتا ہے کہ وہ گھر میں ہی ہے، اگر وہ گھر سے باہر نکلتا تو لازماً کسی کیمرے کی نظر میں آتا……‘‘۔

’’……مگر وہ گھر میں نہیں ہے……! ہم نے ہر جگہ دیکھ لیا ہے‘‘، فاطمہ اس کا خیال رد کرتے ہوئے بولی۔

’’……میں جانتا ہوں……! مگر گھر میں اتنے کیمرے لگے ہوئے ہیں کہ کوئی شخص کسی بیرونی دیوار تک کسی نہ کسی کیمرے کی زد میں آئے بغیر نہیں جا سکتا……حتی کہ ملازمین کے کوارٹر بھی کیمروں کی رینج میں شامل ہیں……جبکہ عبداللہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہا……‘‘۔

’’کہیں……کہیں ایسا تو نہیں کہ ……‘‘، نبیلہ کوئی خیال ظاہر کرتے کرتے رک گئی۔

’’ہاں……کیا؟‘‘، اس کو مسلسل خاموش دیکھ کر ولید کو پوچھنا پڑا۔

’’……ویسے ہی مجھے خیال آیا……کہ ایسا تو نہیں ہو سکتا ناں کہ کوئی اسے کسی چیز میں چھپا کر گھر سے نکال کر لے گیا ہو……یوں وہ کیمروں میں بھی نظر نہیں آئے گا……‘‘، ہچکچاتے ہوئے بالآخر وہ کہہ گئی۔

’’……کوئی؟……مگر کون؟ ……زوار تم نے کیمروں کی ہسٹری میں کوئی اور غیر معمولی چیز دیکھی ہے؟ کسی دوسرے شخص کا گھر میں داخل ہونا؟ یا کوئی بڑی چیز گھر سے لے کر نکلنا؟……‘‘ولید کا سوال ابھی ختم بھی نہ ہوا تھا کہ زوار نفی میں سر ہلاتا بول اٹھا۔

’’……ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔……گھر سے آج بارہ بجے کے بعد پہلے ابّو نکلے ہیں اپنی گاڑی میں، پھر تین بجے زین موٹر سائیکل پر نکلتا ہوا نظر آتا ہے، اس کے بعد عمیر اور نذیر نکلے تھے گاڑی پہ، ان کی میٹنگ تھی آج کوئی……جہاں انہیں جانا تھا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد زین واپس آتا ہوا نظر آتا ہے۔ ……پھر شام ۵ بج کے ۱۷ منٹ پہ پہلے جویریہ، ہادیہ اور فاطمہ کی وین آئی تھی، اور ان کے ذرا دیر بعد اویس گھر آیا تھا …… اس وقت تک عبداللہ کی تلاش شروع ہو چکی تھی غالباً……اس کے بعد یہ سب لوگ اس کو ڈھونڈنے کے لیے باہر جاتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ان سب لوگوں میں سے کسی نے بھی عام شولڈر بیگ سے زیادہ کچھ بھی نہیں اٹھایا ہوا……‘‘۔

’’……تو پھر ہو سکتا ہے کہ وہ گھر میں ہی کہیں ہو……اسے کوئی ڈرگ دے کر بیہوش کر دیا گیا ہو تاکہ وہ کوئی آواز نہ نکال سکے اور……‘‘، نبیلہ مزید اپنے خیالات کا اظہار کرتی کہ اویس بھنّا کر بول اٹھا۔

’’مگر سوال یہ ہے کہ ایسے فلمی کام کوئی کیوں کرے گا……اور وہ کون شخص ہے جس پر آں جناب کو شک ہے کہ وہ یہ سب کرے گا……؟‘‘

’’اور آپی……ہم پورا گھر دیکھ چکے ہیں……وہ کہیں بھی نہیں ہے……ملازمین کے کوارٹر بھی دیکھ لیے ہیں اچھی طرح……‘‘، فاطمہ نے یقین دلایا۔

’’……ارے بھئی!……اگر کوئی اسے نشہ آور چیز دے کر بیہوش کرتا ہے تو لازماً وہ اسے ایسے چھپائے گا کہ کوئی کتنا ہی ڈھونڈ لے، اسے وہ نہ ملے…… کیا پتہ کسی بوری میں ڈال کر پچھلے سٹور میں کہیں پیٹیوں کے پیچھے……‘‘، نسرین نے تڑپ کر سر اٹھایا، آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہہ نکلے۔

’’……نبیلہ…! وہ انسان کا بچہ ہے، کوئی سوئی تو نہیں ہے کہ ڈھونڈنے سے نہ ملے‘‘، صولت بیگم نے نسرین کا ہاتھ تسلّی آمیز انداز میں دباتے ہوئے نبیلہ کو گھِرکا۔

’’……امّی! ‘‘، نسرین آنسوؤں سے لبالب آنکھیں لیے بولی، اس کے چہرے پر جیسے زمانوں کا دکھ رقم تھا۔ ’’امّی!……ارشد کا ہاتھ ہے اس میں لازماً……!‘‘ صولت بیگم بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئیں۔ یہ وہ خیال تھا جو ان سب ہی کے ذہنوں میں منڈلا رہا تھا، اور وہ سب ہی اسے پیچھے دھکیلنے کی حتی المقدور کوشش کر رہے تھے۔ مگر اب نسرین کے کہہ دینے سے وہ یکدم ہی حقیقت بن کر آنکھوں کے سامنے ناچنا شروع ہو گیا تھا۔

٭٭٭٭٭

رات پوری آنکھوں میں کٹی۔ ابوبکر و جاوید صاحب کے گھر پہنچنے کے بعد ایک بار پھر عبداللہ کی تلاش از سرِ نو شروع ہو گئی تھی۔ گھر کے ملازمین سے تفصیلی پوچھ گچھ کے بعد جاوید صاحب زین، اویس، ولید اور زوار کو لے کر آس پڑوس میں عبداللہ کو ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ابوبکرصاحب اپنی نگرانی میں دوبارہ پورے گھر کی تلاشی لے رہے تھے۔ عبداللہ نہ سہی، اس کا پتہ بتانے والا کوئی اور نشان ہی مل جاتا……کچھ تو اندازہ ہوتا کہ وہ کہاں گیا۔ اب تک کی معلوم کہانی سے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ گھر میں بیٹھا بیٹھا یکدم غائب ہو گیا ہو۔

گھر کی تمام خواتین ابوبکر صاحب کے ساتھ عبداللہ کو ڈھونڈنے میں مشغول تھیں۔ عثمان صاحب کو فائزہ بیگم نے زبردستی دوا کھِلا کر سلا دیا، ورنہ وہ بھی ہر دس منٹ بعد بے چین ہو کر ان سے تازہ صورتحال معلوم کرنے کا مطالبہ کرتے۔ ساڑھے گیارہ کے لگ بھگ جاوید صاحب اور لڑکوں کی واپسی ہوئی تو ان کے پاس بھی بتانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ محلّے کا چوکیدار، ہمسائے، ٹاؤن انتظامیہ، چوکیوں پر کھڑے گارڈ، کسی نے بھی سفید شرٹ اور نیلے پاجامے میں ملبوس چھوٹا بچہ نہیں دیکھا تھا۔ نہ ہی کسی نے ایسا کوئی مشکوک شخص دیکھا تھا جو کسی بچے کو لے جا رہا ہو۔ واقعتاً ایسا محسوس ہونے لگا تھا گویا عبداللہ بیٹھے بٹھائے ہوا میں تحلیل ہو گیا تھا۔

جاوید صاحب کا مشورہ تھا کہ اب مزید تاخیر کے بجائے گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرائی جائے۔ وہ اس سلسلے میں تھانے کا چکر بھی لگا چکے تھے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ تھانیدار کا کہنا تھا کہ ان کے گھر کے مخصوص حالات و قوانین کے مطابق سربراہِ خانہ کے علاوہ کسی کے پاس ایف آئی آر کٹوانے کا اختیار نہیں۔ اور باوجود کوشش کے عمیر سے رابطہ نہ ہو پا رہا تھا۔ زوار کی بے شمار کالز کے بعد عمیر نے دس سیکنڈ پر مبنی ایک صوتی پیغام بھیجا تھا کہ وہ شہر کے ڈی سی کے ساتھ ایک نہایت اہم ملاقات میں مصروف ہے، ممکن ہے رات کو واپس بھی نہ آ سکے۔ اسے ڈسٹرب نہ کیا جائے، وہ جس قدر جلد ممکن ہو سکا، اس سے خود رابطہ کر لے گا۔ اس کے بعد غالباً اس نے اپنا فون ہی آف کر دیا تھا۔

اب کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ وہ سب لاؤنج میں ہی عمیر کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ نسرین اور صولت بیگم ایک صوفے پر، ان کے مقابل سنگل صوفے پر ابّا جی……جاوید صاحب کو ابوبکر صاحب نے زبردستی آرام کرنے بھیج دیا، اور پھر ولید کی یقین دہانی پر کہ عمیر کے آتے ہی یا عبداللہ کے بارے میں کوئی بھی خبر ملتے ہی وہ ان کو فوراً جگا دے گا، ابوبکر صاحب بھی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ولید وہیں ایک فلور کشن پر نیم دراز ہو گیا۔آہستہ آہستہ گہری ہوتی رات میں بینش اور فائزہ بھی اپنے اپنے گھروں اور بچوں کو دیکھنے کے لیے اٹھ گئیں۔ کسی کے پاس دوسرے کو کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ تسلّی دیتے تو کیا……بچہ دوپہر سے غائب تھا، اس کا کچھ اتہ پتہ بھی کسی کو معلوم نہیں تھا۔ اب بارہ گھنٹے سے زیادہ وقت ہو گیا تھا اسے غائب ہوئے……بچہ بھی وہ جو ماں کے بغیر ایک پل بھی گزارنے کا عادی نہیں تھا۔

نسرین کو کچھ دیر آرام کرنے کی تلقین کرتیں بالآخر صولت بیگم بھی اٹھ گئیں۔ اب فجر میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا تھا۔ جو کام تدبیر نہیں کر سکتی تھی، وہ دعا کر سکتی تھی۔ انہیں اپنے ربّ پہ بھروسہ تھا۔ وہ عبداللہ کی صحیح سلامت و بخیر و عافیت واپسی کی دعا، اپنے رب سے مانگنے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

کانٹوں پر گھسٹنا کس کو کہتے ہیں، نسرین کو ان چند گھنٹوں میں بہت اچھی طرح معلوم ہو گیا تھا۔ عبداللہ کے بغیر ایک ایک لمحہ گزارنا گویا کٹھن ترین کام بن گیا تھا۔ وہ آنکھیں موندے صوفے کی پشت سے سر ٹکائے، پاؤں اوپر کیے بیٹھی تھی، مگر بند آنکھوں کی سکرین کے پیچھے پورا منظر رواں تھا۔ اس کا بیٹا، ننھا منّا ساڑھے چار سالہ عبداللہ…… پھولے پھولے گالوں والا……چمکتی مسکراتی آنکھوں والا……نجانے وہ کہاں ہو گا……کس حال میں ہو گا۔ اس نے دوپہر سے کچھ کھایا پیا بھی ہو گا یا نہیں؟! وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی۔ اور کھانے کا تو وہ ایسا چور تھا کہ وہ خود بھی کتنے گھنٹے منتیں کر کر کے اسے کھانا کھلاتی تھی……پھر اب……ماں کے بغیر کب اس نے کچھ کھایا ہو گا۔

گرم گرم سیال جیسے آنسو ایک بار پھر اس کے گالوں پر بہہ نکلے۔ بمشکل اپنی سسکی دباتے اس نے آنکھیں کھول کر ابّا جی کی طرف دیکھا۔ وہ رات بھر سے اپنے سنگل صوفے پر بیٹھے تھے اور کسی کے کہنے پر ٹس سے مس نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت وہ کمر کے پیچھے رکھے تکیے سے ٹیک لگائے اونگھ رہے تھے، کہیں وہ اس کے رونے کی آواز سے جاگ نہ جائیں، یہ سوچ کر نسرین بنا آواز پیدا کیے وہاں سے اٹھ گئی۔ نبیلہ و فاطمہ کے کمرے میں جا کر وضو کیا اور جائے نمازبچھالیا۔ کتنی دیر وہ سجدے میں پڑی اپنے اللہ سے مناجات کرتی رہی، اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ کہیں سے عبداللہ کی خیریت معلوم ہو جاتی، کوئی اسے اس کا بیٹا واپس لا دیتا……اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔

کتنی عجیب تھی وہ……اپنی ازدواجی زندگی کے حادثے سے دوچار ہونے کے بعد وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ وہ کس قدر خالی ہاتھ ہے۔ کچھ بھی اس کے پاس نہیں۔ نہ اپنا گھر، نہ شوہر، نہ زندگی…… والدین کے در پہ پڑی وہ کس قدر کم مایہ و حقیر انسان ہے۔ مگر یہ تو اب معلوم ہوا تھا کہ عبداللہ کی صورت میں پورا جہان تھا اس کے پاس ……پورا جہان!وہ کھو گیا تھا تو ایسا لگا رہا تھا پوری دنیا کھو گئی ہے……اور کچھ بھی نہیں بچا!

اور اگر……اگر وہ واپس نہ آیا، ……وہ اسے ڈھونڈ نہ پائے تو پھر؟……کیا کرے گی وہ؟……کہاں سے لائے گی اپنے بچے کو؟……کس سے فریاد کرے گی؟ اندیشوں، وہموں، فکروں کا ایک طوفان تھا جو اس کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھے۔ آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گالوں پر بہے چلے جا رہے تھے، مگر لبوں سے کوئی بھی دعا نکلنے سے قاصر تھی۔ کیسے حادثے سے دوچار ہوئی تھی وہ……کس بھنور میں پھنس گئی تھی کہ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ سمجھ ہی نہ آ رہا تھا۔

دعا کے لیے اٹھے اس کے ہاتھ گود میں پڑے تھے۔ اور وہ خالی خالی نظروں سے ان کو تکتے ہوئے خود کہیں بہت دور تھی۔ اس نے اپنے پاس نبیلہ کو بیٹھتے ہوئے محسوس کیا……دیکھا نہیں……بس محسوس کیا۔ وہ اس کے شانوں پر بازو پھیلائے تسلّی کے کوئی نرم الفاظ کہہ رہی تھی۔ فاطمہ اس کے لیے گلاس میں کچھ گھول کر لائی تھی،……شاید کوئی سکون آور دوا……یا سادہ پانی……وہ نہیں جانتی تھی۔ کوئی اور بھی تھا……ولید……یا شاید زوار، جو اسے نرمی سے اٹھا کر بیڈ پر لیٹنے کو کہہ رہا تھا۔ کھلی آنکھوں کے باوجود اسے ان سب میں سے کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کی نظروں کے سامنے اگر کوئی چہرہ تھا تو وہ عبداللہ کا تھا، سرخ و سفید گالوں والا، جو روٹھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا، بلا رہا تھا……۔

٭٭٭٭٭

’’نسرین!……نسرین!!‘‘، نجانے وہ کتنی دیر غافل سوتی رہی تھی۔ آنکھ کھلی تو صولت بیگم اس کے اوپر جھکی اسے جگانے کی سعی کر رہی تھیں۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔

’’……عبداللہ!……عبداللہ کا کچھ پتہ چلا؟……‘‘، کھڑکی سے چھن چھن کر آتی روشنی صبح کے پوری طرح پھیل جانے کا پتہ دے رہی تھی۔ نسرین کو ہوش میں آتے ہی پہلا خیال عبداللہ کا آیا، صبح ہو گئی تھی، اب عبداللہ کا بھی کچھ پتہ چل جانا چاہیے، اس نے بے چین و مضطرب انداز میں ماں سے پوچھا۔

’’نن……نہیں بیٹا!،‘‘صولت بیگم نظریں چرا گئیں، ’’وہ……ارشد آیا ہے، ……تم سے ملنا چاہتا ہے، ……جلدی آ جاؤ، لاؤنج میں بیٹھا ہے……‘‘۔

’’ارشد……!!؟ ‘‘، نسرین نے متحیر نظروں سے انہیں دیکھا۔

’’ہاں……اسے بھی عبداللہ کی گمشدگی کی خبر مل گئی ہو گی یقیناً……ظاہر ہے وہ باپ ہے، اس کا آنا بنتا ہے……تمہارے ابّو نے سوچا اس صورتحال میں اس سے ملنے سے انکار کرنا مناسب نہیں……‘‘۔ نسرین مزید تفصیل سنے بغیر بستر سے اٹھ گئی۔ دوسرے بستر پر فاطمہ اور نبیلہ خاموشی سے بیٹھی سب دیکھ سن رہی تھیں۔آج شاید کسی کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ فاطمہ نے الماری سے بڑی چادر نکال کر اسے تھمائی، جسے اچھی طرح اوڑھتے ہوئے نسرین اپنے حواس مجتمع کرنے کی کوشش کرتی ہوئی صولت بیگم کی اقتدا میں باہر نکل گئی۔

لاؤنج کا ماحول انتہائی گھمبیر تا لیے ہوئے تھا۔ بیرونی دروازے کے قریب ولید اور زوار ایسے کھڑے تھے گویا کسی نے انہیں پہرے پر متعین کیا ہو۔ لاؤنج کے وسط میں رکھے صوفوں پر ابوبکر صاحب اور جاوید صاحب براجمان تھے۔ اپنے سنگل صوفے پر لاٹھی ہاتھ میں لیے، کمر بالکل سیدھی رکھے ہوئے اور انتہائی ٹینس حالت میں ابّا جی بیٹھے تھے۔ ان کی گردن کا تناؤ ان کے تنے ہوئے اعصاب کا پتہ دے رہا تھا۔ صولت بیگم نسرین کو لیے اس خالی صوفے کی طرف بڑھ گئیں جو شاید انہی دو کے لیے خالی کیا گیا تھا۔ ان کے مقابل صوفے پر وہ بیٹھا تھا۔ اور لاؤنج کے مجموعی تنے ہوئے ماحول میں ایک وہی تھا جو شاید نہایت آرام و سکون سے بیٹھا تھا۔ ہونٹوں پر ایک پر سکون، فاتحانہ مسکراہٹ……آنکھوں میں مسرت و اطمینان کی چمک……وہ غالباً کچھ پوچھنے نہیں، بتانے آیا تھا۔

’’کیسی ہو نسرین؟……‘‘، دوستانہ مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتے ہوئے اس نے اطمینان سے پوچھا۔

’’……اپنے مطلب کی بات کرو برخوردار……‘‘، ابّا جی نے رعب دار آواز میں کہا۔ اگلے الفاظ’’اور یہاں سے رخصت ہو جاؤ‘‘، وہ شاید مصلحتاً پی گئے تھے، لیکن جملے کا مفہوم سمجھنا مشکل نہیں تھا۔

’’……جی……جی…… میں بالکل آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا!‘‘، وہ سر ہلاتا ہوا تابعداری سے بولا۔ پھر ساتھ رکھی تپائی سے اس نے وہ بڑا سا خاکی لفافہ اٹھا کر نسرین کی طرف بڑھایا۔ نسرین نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے لفافہ تھام لیا۔ وہ اسے کھولے بغیر الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی، کہیں کچھ بھی نہ لکھا تھا جو اس کے ملفوفات پر کوئی روشنی ڈالتا۔

’’کیا ہے یہ؟‘‘، اس کی خشک و روکھی آواز خود اس کے اپنے لیے بھی اجنبی تھی۔

’’……کھول کر دیکھ لو،‘‘وہ شاید مسکرایا،’’……ڈائیورس پیپرز ہیں……تمہارے حسبِ منشاء! ……اور ظاہر ہے، پوری ڈیڈ کی کاپی بھی ہے اس میں۔ مہر کی رقم جو میں نے تمہیں ادا کرنی تھی، اس کا چیک ہے، اور جو دوسری ڈیل ہم نے کی ہے، اس کی بھی پہلی قسط کا چیک اس میں شامل ہے۔ باقی قسطیں بھی میں جلد ہی ادا کر دوں گا……تم فکر مت کرنا۔ ابھی بھی دیکھ لو، عبداللہ کو رِیسیو کرتے ہی وعدے کے مطابق اگلے ہی دن میں نے پہلی قسط ادا کر دی ہے…… ‘‘۔

لاؤنج میں ایک گہرا سناٹا چھا گیا تھا۔ اور اس سناٹے میں ارشد کی آواز غیر معمولی طور پہ بلند اور چبھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ عبداللہ کو ریسیو کرتے ہی……یہ پہلی قسط ہے……وعدے کے مطابق میں لے آیا ہوں…… نسرین کو زمین و آسمان گھومتے ہوئے محسوس ہوئے۔ ابوبکر و جاوید صاحب، ولید اور زوار سب ہی اس بات پر چونک گئے تھے، وہ حیرت و استعجاب سے ارشد کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جبکہ ان کے جذبات و تاثرات سے بے نیاز، وہ اپنی ہی کہے جا رہا تھا:

’’……مجھے کہنا پڑے گا نسرین! ……کہ تم نے بہت اچھا فیصلہ کر لیا۔ دیر سے ہی سہی اور کورٹ میں اچھی خاصی خواری کے بعد……لیکن بہر حال ہم سب کے لیے یہ فیصلہ ہی بہتر ہے۔ میں عبداللہ کو بہت اچھی طرح رکھوں گا……اس کی بہت اچھی پرورش کروں گا……جیسا کہ باپ ہونے کی حیثیت سے میں ہی کر سکتا ہوں……اور تم……تم اپنی ایک نئی زندگی شروع کر سکتی ہو……!‘‘ (جاری ہے، ان شاء اللہ)

Previous Post

سوشل میڈیا کی دنیا سے…… | مئی تا جولائی 2022

Next Post

سحر ہونے کو ہے | آخری قسط(۱۵)

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | آٹھویں قسط

26 ستمبر 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | ساتویں قسط

12 اگست 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط

14 جولائی 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط

9 جون 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
Next Post

سحر ہونے کو ہے | آخری قسط(۱۵)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version