بعض باتیں، بعض خبریں اور بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو لوحِ دل پر ثبت ہوجاتے ہیں اور ان کا تاثر اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ زائل ہوکر نہیں دیتا۔ عین ممکن ہے کہ ایک واقعہ جو کسی کے دل پر بہت گہرا تاثر چھوڑے، وہ دوسرے کسی شخص کے لیے سرے سے اہم نہ ہو۔ لیکن اگر ہم مسلمان بطور افراد نہیں بلکہ بطور امت واقعات و حالات کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہونہیں سکتا کہ دلِ زندہ رکھنے والا کوئی مسلمان بھی امت کی مجموعی حالتِ زار پر اپنے دل کو متاثر ہونے سے روک سکے۔
دل کو خون کردینے والا ایسا ہی ایک واقعہ چند ماہ قبل سرزمین حرمین کے شہر ریاض میں بڑے پیمانے پر منعقد ہونے والا خالص شیطانی جشن موسیقی ہے جو تین یا چار دن تک جاری رہا اور جس میں دنیا بھر کے مشہور بھانڈ میراثیوں نے بڑے جوش و خروش سے شرکت کی۔ جشن کی ہلکی سی جھلکیاں مرد و زن کے اختلاط کے ایسے مناظر پیش کرتی ہیں کہ انسان شرم سے پانی پانی ہوجائےاور سرزمین حرمین کے تقدس کو پامال ہوتے دیکھ کر زمین میں گڑ جائے۔ بے پردہ، بلکہ تقریباً بے لباس عورتوں اور بے قابو شہوات سے دیوانے ہوتے مردوں کا طوفان بدتمیزی برپا کرتا ہجوم اور اندھیرے میں شہوات کی اس بھڑکتی آگ کو مہمیز دیتا ناچتی تھرکتی رنگین روشنیوں کا سیلاب اور بلند آہنگ موسیقی…… الامان الحفیظ۔ یہ جشن اس سطح پر اور اس جوش و خروش سے منایا گیا کہ یورپ سے آئے مشہور بھانڈ میراثی تک حیران رہ گئے کہ اس جشن نے تو امریکہ و یورپ میں برپا کیے جانے والے ایسے کئی میلوں کو مات دے دی۔ بین الاقوامی میڈیا نے بڑے جوش و خروش سے اس جشن کا ذکر ان الفاظ میں کیا کہ ’سعودی عرب نے وہ کر دکھایا جو ناقابل تصور تھا‘ اور اسے سعودی عرب کی تاریخ کا یادگار جشن قرار دیا گیا…… کافروں کے لیے یہ جشن اس لیے ناقابل تصور تھا کہ سعودی عرب میں کچھ سال پہلے تک اسلامی شعار کی کچھ ظاہری شکل و صورت، کچھ ملمع باقی تھا جس کی وجہ سے اس معاشرے کو قدامت پسند اور بعض خوش فہم مسلمانوں کے نزدیک اسلام سے قریب سمجھا جاتا تھا۔ اور مسلمانوں کے لیے یہ اس لیے ناقابل تصور تھا کہ ایک سادہ سا مسلمان بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں جاتا ہے اور اس کے دل میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب ہوتا ہے اور وہ اس شہر میں بلکہ سرزمین حرمین میں ایسی بہت سی حرکتوں سے اجتناب کرتا ہے جنہیں وہ اپنے وطن میں کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ اور اس کی وجہ صرف بیت اللہ شریف، مسجد نبوی شریف اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کا ادب ہے۔ کجا یہ کہ عین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کے پڑوس میں بھانڈ میراثیوں کا غل غپاڑہ سرکاری سطح پر برپا کیا جائے اور اس میں امت مسلمہ کی بیٹیاں اور بیٹے انسانیت کے چولے اتار کر اپنی حیوانی جبلتوں کا سرعام اظہار کرتے پھریں۔
ایک طرف حجاب نوچ اتار کر پھینکتی، محرم کی معیت کی شرط سے آزاد، سرزمین حرمین کی سڑکوں پر ناچتی تھرکتی امت کی یہ بیٹیاں ہیں اور دوسری جانب ہندوستان میں سکولوں اور کالجوں کی طالبات ہیں جو حجاب پہننے کی اجازت سلب کیے جانے پر نوحہ کناں ہیں۔ بہت سی وہ ہیں جو کسی صورت اپنے حجاب پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں، الحمدللہ، مگر بعض مناظر ایسے بھی دیکھنے میں آئے جہاں مسلمان طالبات نے اپنے تعلیمی اداروں کے دروازوں پر اپنے برقعے اتار دیے اور برقعوں کے اندر سے بغیر آستین چست لباس میں ملبوس، تراشیدہ بالوں والی مسلمان خواتین برآمد ہوئیں۔
ایک اور سمت جائیں تو مسلمان ملک انڈونیشیا سے یہ روح فرسا خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ ہر سال لگ بھگ بیس لاکھ مسلمان عیسائیت اختیار کرتے جارہے ہیں اور اگر مسلمانوں کے ارتداد کی یہی رفتار رہی تو سن ۲۰۲۳ء تک انڈونیشیا مسلم اکثریت کی بجائے عیسائی اکثریت رکھنے والا ملک بن جائے گا۔ عیسائی مشنری مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کے لیے اب اپنے خطبے اتوار کی بجائے جمعہ کے دن منعقد کرنے لگے ہیں اور ان خطبوں میں اسلامی اصطلاحات کا استعمال کرنے لگے ہیں حتیٰ کہ وہ جو اللہ رب العزت کے لیے ہمیشہ خداوند کا لفظ استعمال کرتے تھے، اب مسلمانوں کو ورغلانے کے لیے لفظ اللہ استعمال کرنے لگے ہیں، وہ اپنی بائبل کی تلاوت بالکل قرآن پاک کی تلاوت کے سے انداز میں کرنے لگے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان ان کے قریب آئیں اور ان سے اجنبیت محسوس نہ کریں۔ نیز کئی ٹی وی چینل ان کے افکار اور نظریات کی تشہیر و ترویج کررہے ہیں، تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو مختلف ترغیبات دے کر انہیں عیسائی کمیونٹی کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ اور اس سب کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انڈونیشیا میں مسلمانوں کے لیے اپنے دین کی معرفت پیدا کرنے کا کوئی خاطر خواہ ذریعہ نہیں ہے۔ خطباتِ جمعہ عربی زبان میں ہوتے ہیں جو مقامی آبادی کی سمجھ سے باہر ہیں اور یوں نہ انہیں عمل پر آمادہ کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے دین سے ان کی محبت اور رغبت میں اضافہ کرتے ہیں۔
فرانس تو ہے ہی نہایت متعصب کافر دشمن، لہٰذا وہاں اگر خواتین کے لیے پردے کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے، نوکری کرنے، تعلیم حاصل کرنے، کھیلنے پر پابندی لگ گئی ہے تو مقامِ حیرت نہیں مگر چیچنیا کی طرف دیکھیں جو ایک مسلمان ملک ہے۔ مگر آج وہاں روس نواز حکومت ہے اور اسی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سرکاری مفتی ہیں جو چیچنیا کے سرکاری ٹی وی چینل پر اپنے سامنے حجاب والی خواتین کو بٹھا کر تقریر کرتے ہیں کہ پردہ دراصل وہابی ازم ہے اور اس کا اصل اسلام اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کہہ کر وہ خواتین سے دریافت کرتا ہے کہ تم سمجھ گئی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، اثبات میں جواب ملنے پر کہتا ہے کہ پھر یہ ہٹا دو جو تمہارے سامنے (تمہارے چہروں پر) ہے اور سامنے بیٹھی خواتین اپنے چہروں سے نقاب ہٹا دیتی ہیں۔ اسی چیچنیا میں پارلیمنٹ کا ایک ’مسلمان‘ فرد افراد پارلیمنٹ کے سامنے جو گفتگو کرتا ہے وہ کچھ یوں ہے:
’’ہر وہ شخص جس کی بیوی سیاہ لباس (برقعہ) میں ملبوس ہو کر اور اپنا چہرہ چھپا کر گھر سے باہر نکلتی ہے، جان لے کہ ہم ایسی تمام خواتین کو پکڑ کر انہیں بےلباس کریں گے…… (آگے جو الفاظ کہے گئے وہ قابل نقل نہیں ہیں)…… کیونکہ یہ (پردہ) شریعت کا حصہ نہیں ہے۔ ہم (پردے کو) اس ملک میں مزید برداشت نہیں کریں گے۔ اسلام ہم سے حجاب پہننے کا مطالبہ کرتا ہے…… مگر بھوتوں کی طرح چہرے کا پردہ کرنے اور ہاتھوں میں دستانے پہن کر باہر نکلنے کی اجازت ہم نہیں دیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کی مثال جسد واحد کی بیان فرمائی ہےکہ جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو باقی پورا جسم بخار میں مبتلا ہوکر اس کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ جسم اگر زندہ ہو، اس کی رگوں میں تازہ لہو جوش مارتا ہو، اس کے خلیے خلیے میں زندگی کی حس باقی ہو تو ایک سوئی تک چبھنے پر پورا جسم رد عمل ظاہر کرتا ہے، لیکن اگر یہ جسم شل ہو، فالج زدہ ہو، بے حس ہو تو اس کے ایک حصے کو چیونٹیاں چمٹ کر نوچ نوچ کر لے جائیں تو بھی اسے خبر نہیں ہوپاتی۔ کبھی تو امت مسلمہ پر ایسی ہی بے حسی کا گمان ہوتا ہے کہ جسے جابجا بھنبھوڑا ، جلایا، کھسوٹا جارہا ہے مگر پھر بھی کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی، کہیں سے کوئی آہ نہیں ابھرتی، کہیں سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آتا۔ مگر پھر کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہیں! امت کے اس بظاہر مردہ جسم میں ابھی جان باقی ہے، ابھی حس باقی ہے، ابھی اس کے کچھ خلیے زندہ ہیں۔
جذباتی واقعات پر وقتی رد عمل ایک بات ہے مگر بالعموم امت مسلمہ کیوں سوئی ہوئی ہے؟ اس پر بے حسی اور جمود کیوں طاری ہے؟ یاں سے واں تک امت مسلمہ بحیثیت مجموعی پریشان حال، پراگندہ اور بکھری ہوئی کیوں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر شعوری مسلمان نہیں بلکہ پیدائشی مسلمان ہیں اور یوں ہمارے اندر اپنے دین پر عمل کا جذبہ، اس کے لیے غیرت، اس پر مرمٹنے کا عزم مفقود ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو ہمیں بن مانگے، بغیر کوشش کے مل گئی ہے، لہٰذا ہمیں اس کی قدر نہیں ہے۔ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد ہو یا ہندوستان، بنگلہ دیش، برما، ترکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا یا عرب ممالک میں بسنے والے مسلمان، ہم میں سے بیشتر وہ ہیں کہ جن کا دین صرف ان کے کان میں دی گئی اذان کی بنیاد پر ان کا دین ہے، صرف اس لیے کہ ان کے والدین مسلمان کہلاتے ہیں، ورنہ اسلام سے مسلمانوں کا کتنا تعلق ہے، اللہ کے دین پر اللہ کی کتاب پر وہ کتنے عمل پیرا ہیں، اس سے ہم اور آپ ناواقف نہیں۔ حدیث پاک میں مسلمانوں کو سیلاب کی سطح پر آنے والے خس و خاشاک سے تشبیہ جو دی گئی ہے، تو آج مسلمان بعینہ اسی حالت میں ہیں۔ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، مگر ان کے دلوں میں اسلام اور ایمان کی مقدار بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم اقوام ہر طرف سے مسلمانوں پر بھوکوں کی طرح ٹوٹی پڑ رہی ہیں۔
جب کہ کفر اس وقت اس قدر بیدار ہے کہ وہ کہیں ترغیب کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے دین سے ورغلا رہا ہے، مفلس مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ دے کر، مادی فائدے دکھا کر انہیں بہلا پھسلا کر ان کے دین سے دور لے جارہا ہے تو کہیں ترہیب کے ذریعے۔ کہیں انہیں جلا کر، مار کر، ان کے مال لوٹ کھسوٹ کر، انہیں ان کی املاک سے بے دخل کرکے، ان کی شہریت متنازع بنا کر، ان کی زمینیں زبردستی کافروں کے حوالے کرکے، ان پر ظلم و ستم کا طوفان برپا کرکے، انہیں ان کے دین سے برگشتہ کیا جارہا ہے اور اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اس قدر زمین سے لگ جائیں کہ انہیں صرف اور صرف اپنی جان بچانے کے سوا کسی بات کی فکر اور پروا نہ رہے۔ اور کہیں فحاشی اور عریانی کو عام کرکے مسلمان مردوں اور عورتوں کو شہوات کے سیل میں غرق کرکے ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کی جارہی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ مسلمان میں یہ شعور باقی نہیں رہا کہ وہ کون ہے اور جو وہ ہے وہ کیوں ہے اور اس کے کیا تقاضے ہیں۔
ہمارے قریب ترین ملک بھارت کو دیکھیں تو اس کے چار سو سے زائد ٹی وی چینل چوبیس گھنٹے مسلمان مخالف پراپیگنڈا کرنے، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب ابھارنے، ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے ، ان کو نیست و نابود کرنے کے لیے عسکری تربیت لینے کی ترغیب دینے میں مصروف ہیں۔ بھارت بھر میں جابجا نوجوان ہندو لڑکے جتھوں کی صورت جمع ہوکر تلوار، چاقو، مارشل آرٹس کی تربیت لے رہے ہیں تاکہ اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرسکیں۔ وہ اعلانیہ یہ کہتے ہیں کہ بھارت ہندوؤں کا ہے اور مسلمانوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ پوری دنیامیں مسلمان ممالک بہت ہیں، مسلمانوں کو چاہیے کہ ان ممالک میں جائیں اور بھارت کو چھوڑ دیں۔ اور مسلمانوں کے خلاف اس جنگ میں الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور گلیوں محلوں میں کی جانے والی زبانی اور عملی کوششیں سب ہی سرگرم ہیں۔ بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے کچھ عرصہ قبل اپنے پارٹی کارکنوں سے، جنہیں وہ social media warriors قرار دیتا ہے، خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ہم اپنے عوام کو تلخ و شیریں، جھوٹا سچا ہر قسم کا پیغام دینے پر قادر ہیں، کیونکہ ہمارے واٹس ایپ گروپ میں بتّیس لاکھ لوگ ہیں۔‘‘
کہنے کامقصد یہ ہے کہ بھارتی ہندو جب چاہیں صرف ایک کلک کے ذریعے پورے ملک میں مسلمانوں کا قتل عام برپا کرسکتے ہیں۔ اور ایسا ہونا بعید نہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت مسلمانوں کے نسل کشی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ نسل کشی کے چند مراحل میں سے پہلا مرحلہ اس خاص نسل کو چھانٹ کر الگ کرنا ہے، انہیں اپنے اداروں سے، معاشرے سے کاٹنا اور بے دخل کرنا ہے، ان پر الزامات لگا کر انہیں ان کے اپنے معاشروں کے اندر اجنبی بنانا ہے۔ اور ان تمام مراحل پر بھارت کے اندر مسلمانوں کے خلاف بھرپور طریقے سے عمل شروع ہے، خواہ وہ کشمیر میں ہو یا یو پی میں اور دیگر بھارتی ریاستوں میں۔
اور مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ ان کے میڈیا چینلز پر موضوعات ہی اور ہیں۔ ہمہ وقت عشق عاشقی، ناچ گانے ، راگ رنگ کی محفلیں ہیں۔ اور اگر کہیں اس کے سوا کچھ ہے تو وہ ’اپنی ہی قانونی بیوی سے ریپ‘ کے موضوع پر بننے والے ڈرامے ہیں، تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم اور پھر استاد و شاگردوں کے عشق کی داستانوں پر مبنی قصے ہیں، سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال پر بننے والی فلم ہے (کہنے کو یہ فلم اسے ہیرو بنا کر پیش نہیں کرے گی، مگر جب آپ اس کے عمل کی توجیہہ میڈیا پر پیش کریں گے اور اسے گلیمرائز کرکے دکھائیں گے تو ظاہر ہے آپ اسے اپنی نئی نسل کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کریں گے نہ کہ عبرت کے طور پر، گو کہ یہ فلم ریلیز نہیں کی گئی)۔
ہم میں سے ہر ایک مسلمان فرد مکلف ہے۔ وہ مسلمان جنہیں اللہ رب العزت نے اپنے دین کا فہم عطا فرمایا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اللہ رب العزت کی معرفت کے حصول، اس کے دین سے محبت اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کے ہر پہلو کو ڈھالنے کی کوشش اور قرآن پاک کا علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کی کوششوں کو شدید تر کردیں۔ لیکن صرف یہ کافی نہیں ہے، جس مسلمان کو بھی اللہ تعالیٰ نے دین کا شعور، اس کافہم اور اس کی قدر عطا کی ہے اس کو چاہیے کہ وہ پورے زور و شور کے ساتھ اپنے دین کے پیغام کو آگے پہنچائے۔ اپنے تعلیمی اداروں میں، اپنے دوستوں سہیلیوں میں، اپنے محلے میں، اپنے رشتہ داروں میں دین کی باتیں شروع کریں، انہیں عام کریں تاکہ لوگوں کے کان ان کو سننے کے عادی ہوں، اپنے عمل سے اپنے اخلاق سے اپنی خدمت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائیں اور پھر ان کے ذہنوں پر ان کی سوچوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں۔ ایک مسلمان کی ساکھ اپنے قریبی حلقے میں جتنی اچھی ہوگی اتنا ہی وہ لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرسکے گا۔ لیکن اگر آپ خود تو اسلام پر ظاہری طور پر عمل پیرا ہیں مگر آپ کے اخلاق و کردار قابل تعریف نہیں تو آپ کا لوگوں کو دین کی طرف بلانا لوگوں کو دین سے ہی برگشتہ کردے گا۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنے اعمال و اخلاق وافکار کی تطہیر کے ساتھ ساتھ محبت اور نرمی کے ساتھ اللہ کے دین کا پیغام اور اس پر عمل کی ترغیب دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں۔ اسلام کی خوبیاں، اس کے عطا کردہ حقوق، اس کی برکات و فضائل اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانوں کے لیے اللہ رب العزت کا چنیدہ دین ہونا اور اس کی مبنی بر دلیل وجوہات بیان کریں، (اور یہ وہی شخص کرسکتا ہے جو اپنے دین پر فخر رکھنے کے ساتھ ساتھ گہرائی میں اس کا علم بھی رکھتا ہے۔ پس اس علم کے حصول کی کوشش ہم میں سے ہر سنجیدہ مسلمان پر واجب ہے)۔ ہم مسلمانوں کی اکثریت اگرچہ دین پر اس طرح عمل پیرا نہیں جس طرح کہ ہونا چاہیے مگر دل کے نہاں خانوں میں اپنے دین کی محبت، اپنے نبی سے محبت، اپنے رب پر ایمان ضرور چھپائے ہوئے ہے۔ اس گرد کو ہٹانے کی اور اس محبت کو گرمانے کی، دین پر عمل کی تڑپ پیدا کرنے کی اور اس دین کی حفاظت کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کے ولولے کو مہمیز دینے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے کسی کل کے انتظار کی ضرورت نہیں، اسے آج اور ابھی ہی شروع ہوجانا چاہیے۔ اگر آپ سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں تو اس پلیٹ فارم کو اپنے دین کی ترویج کے لیے استعمال کریں، اللہ نے آپ کو اچھا بولنے یا اچھا لکھنے کی صلاحیت دی ہے تو اسے اپنے دین کے حق میں استعمال کریں، غرض ہر سہولت اور صلاحیت جو اللہ پاک نے آپ کو عطا کررکھی ہے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ وہ جو کسی وجہ سے عملی جہاد کے لیے گھروں سے نکل نہیں پائے، وہ کم از کم اس جدوجہد میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں، اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اسے نبھانے کی آخری حد تک کوشش کریں۔ وما علینا الا البلاغ!