فتویٰ نمبر: 02
تاریخ: 25-03-1447ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے دینِ متین بیچ اس مسئلے میں کہ پاکستان میں حاکم نظام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا یہ نظام اسلامی ہے یا کفری؟ ہم دیکھتے ہیں کہ آئے روز ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو قرآن وسنت سے صریح متصادم ہیں، کیا ایسے اقدامات کے بعد بھی دستورِ پاکستان میں موجود اسلامی شقوں کی موجودگی کے سبب حاکم نظام کی اسلامی حیثیت برقرار رہتی ہے یا اس کے بعد بدل جاتی ہے؟
فتویٰ
حامدًا ومصلیًا وبعد
جواب سے پہلے پاکستانی نظام کے حوالے سے چند حقائق جاننا ضروری ہے ۔
پاکستان کے دستور میں لکھا ہے کہ:
”چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا، وہ ایک مقدس امانت ہے۔ “1
نیز یہ کہ :
’’۲۲۷(۱)تمام موجودہ قوانین کو قرآنِ پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا،جن کا اس حصے [حصہ نہم]میں بطورِ اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔ ‘‘2
یہ وہ دو بنیادی شقیں ہیں جن کے سبب اس دستور کو اسلامی قرار دیا جاتا ہے کہ اوّل شق کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے اور دوسری شق میں قرآن وسنت کو قوانین کا مصدر قرار دیا گیا ہے۔ اور پھر دستور کو اسلامی قرار دینے کی وجہ سے حاکم نظام کو اسلامی قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دستور کی یہ شقیں کس حدتک مبنی بر حقیقت ہیں؟
پہلا نکتہ یہ ہے کہ دستور میں حاکمیتِ اعلی کو اللہ تعالی کے سپرد کرنے کا دعوی خلافِ حقیقت ہے۔ اور قوانین کا اسلامی احکام کے مطابق ہونے کا دعویٰ بھی بالکل لائقِ التفات نہیں، کیونکہ جب ہم پاکستان کے آئین کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اس میں واضح طور پر یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی اکثریت کو مطلق قانون سازی کا اختیار ہے 3، اور اس اکثریت کی بنا پر وہ خود آئین کو بھی بدل سکتے ہیں اور شریعت سے متصادم قانون سازی بھی کر سکتے ہیں، اور اس پر کوئی حقیقی اور مؤثر قدغن نہیں لاگو کی گئی۔ اگر مطلق قانون سازی کا اختیار اراکینِ پارلیمنٹ کے پاس نہ ہوتا تو اسلامی احکام کے موافق ’حسبہ‘ اور ’شریعت بل‘ کیوں رد کیے گئے؟ باوجود یہ کہ ان میں مندرج احکام شریعت کے قطعی احکامات میں سے تھے۔
اس سے پتہ چلتاہے کہ یہاں پورے کا پورا اختیار اراکین پارلیمنٹ کے پاس ہے اور یہ شقیں دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ حاکمیتِ اعلیٰ اور مطلق قانون سازی اللہ تعالیٰ کے بجائے بندوں (اراکینِ اسمبلی) کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ اگر حاکمیتِ اعلیٰ کا حق اللہ کے لیے ہوتا تو کبھی بھی قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی نہ ہوتی اور نہ ہی ان قوانین اور بلوں کو رد کیا جاتا جو قرآن وسنت سے ثابت احکام پر مبنی تھے۔ یہ لوگ (اراکینِ پارلیمنٹ) جس قانون کو بھی قبول کریں گے وہی نافذ العمل قانون ہو گا اور اگر کوئی قانون اکثر ارکان کی جانب سے رد کر دیا جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی، چاہے وہ قرآن و سنت پر مبنی قوانین ہی کیوں نہ ہوں، جیسا کہ حسبہ اور شریعت نامی بل کے ساتھ ہوا۔ لہٰذا دستور میں حاکمیتِ اعلیٰ کے اللہ تعالیٰ کو سپرد کیے جانے کا جملہ دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آئینِ پاکستان میں لکھا ہوا یہ جملہ ” ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ [قرآنِ پاک اور سنت میں منضبط اسلامی]احکام کے منافی ہو“ ، ایک وعدے کے سوا کچھ نہیں۔ علماء خوب جانتے ہیں کہ عقود میں وعدے کی قضاءاً کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی، جیسے کوئی کہے کہ میں ایک ماہ بعد اسلام قبول کروں گا، ایسے شخص کو کوئی معقول انسان مسلمان نہیں گردانے گا جب تک کہ عملاً اسلام قبول نہ کر لے۔
خلافِ اسلام قوانین کے متعلق تو بس یہ محض ایک وعدہ ہے کہ انہیں اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، لیکن یہ صراحت نہیں کہ اِن غیر اسلامی قوانین کو کب ختم کیا جائے گا، جبکہ اس کے مد مقابل وضعی ”انسانی بنیادی حقوق“ سے متصادم قوانین کے متعلق دو ٹوک لکھ دیا گیا کہ وہ کالعدم ہوں گے4 اگرچہ وہ شرعا قطعی احکام ہی کیوں نہ ہوں جیسے کہ حدود اللہ، کیونکہ ’اسلام‘ تو اللہ کا حکم ہے اور ’بنیادی حقوق‘ اقوامِ متحدہ کا حکم!
فَمَا كَانَ لِشُرَكَآىِٕهِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰهِ١ وَ مَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰى شُرَكَآىِٕهِمْ١ سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ (سورۃ الأنعام:136)
”تو جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو خدا کی طرف نہیں جا سکتا اور جو حصہ خدا کا ہوتا ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف جا سکتا ہے، یہ کیسا برا انصاف ہے۔ “
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وعدہ کرنے سے تو آئین اسلامی ہوگیا، لیکن عملاً کفریہ قوانین جاری ہیں، اور آئین کا حصہ قرار دیئے گئے ہیں اور اس کے باوجود آئین کفریہ نہ ہوا!
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل5 نامی کمیٹی جو غیر اسلامی قوانین کی نشاندہی کرتی ہے، یہ بھی محض علامتی ہے۔ اس کمیٹی کی تجاویز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اگر یہ کمیٹی کسی قانون کو قطعی اسلامی احکام کے منافی قرار دے تو تب بھی پارلیمان پر لازم نہیں کہ وہ کمیٹی کے مشورے پر عمل کرے۔ نیز اراکینِ پارلیمان کی قانون سازی اس کمیٹی کی تصویب پر موقوف نہیں، بلکہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق قانون سازی کر سکتے ہیں، اور کمیٹی کو اس پر نظرِ ثانی کا اختیار بھی نہیں۔
سو ثابت ہو گیا کہ اسلامی قانون سازی اور غیر اسلامی قوانین کی روک تھام کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نامی کمیٹی محض علامتی ہے جسے کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں ۔سو پارلیمان کو مطلق اختیار حاصل ہے کہ شرعی قوانین کو کالعدم کر دے یا نافذ کرے ،جس کی واضح مثالیں شریعہ بِل اور حِسبہ بِل ہیں، جنہیں پارلیمان کی اکثریت نے رَد کردیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل محض سفارشات پیش کرسکتی ہے 6، تاحال ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔
اسی طرح وفاقی شرعی عدالت بھی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے7 ، کیونکہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کو کالعدم کردے، سو معلوم ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت بھی ایک بے اختیار ادارہ ہے8 جو اسلامیانِ پاکستان کو دھوکہ دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے تسلیم نہیں کیا، بلکہ عملاً کالعدم قرار دے دیا۔
تو جب آئین کی طرف سے عطا کردہ دونوں ادارے (اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت مع شریعت مرافعہ بینچ) اتنے بے بس اور بے اختیار ہیں کہ غیر اسلامی قوانین کا راستہ نہیں روک سکتے تو پھر اس آئین کو کیسے اسلامی کہا جا سکتا ہے؟
وفاقی شرعی عدالت کی حیثیت جاننے کے لیے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں، جس میں اس ادارے کی حیثیت واضح کی گئی ہے۔ 9
چنانچہ درج ذیل نکات میں پاکستانی نظام اور شریعتِ اسلامیہ میں تضاد واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے:
- نمائندگئ عوام ہے نا کہ نیابتِ رسول ﷺ۔ یعنی اسلامی نظام میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور تمام فیصلے قرآن وسنت اور شریعت کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق کیے جاتے ہیں، لیکن پاکستان کے حاکم نظام میں حاکمیتِ اعلیٰ در حقیقت عوامی نمائندوں (ارکانِ پارلیمان)کو حاصل ہے اور اکثریت کی بنیاد پر کوئی بھی قانون بنایا جا سکتا ہے۔
- دستور و آئین مرجع ہے نا کہ اسلامی شرعی قضاء۔ یعنی آئین وہ مقدس دستاویز ہے، جسے تمام اختلافی امور میں واحد فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے، عدالتیں اس کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتیں، حالانکہ یہ آئین قرآن و سنت سے متصادم ہے۔
المختصر،ایک طرف اسلامی احکام ہیں اور دوسری جانب انسانوں کے بنائے قوانین ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستانی آئین میں شریعت کو رد کیا گیا ہے اور انسانوں کے بنائے قوانین کو نافذ کیا گیا ہے۔
اب اصل جواب کی طرف آتے ہیں:
جب یہ معلوم ہوگیا کہ اس آئین میں کئی ایسی شِقیں ہیں جو قطعی شرعی احکام کے خلاف ہیں، اس آئین نے ایک ایسا حکومتی نظام تشکیل دیا ہے جس میں شریعتِ الہیہ کو رد کیا گیا ہے اور عملاً غیر اسلامی قوانین کو نافذ کیا گیا ہے، شریعت کے احکام کو نفاذ کی استطاعت کے باوجود علانیہ رد کیا گیا، جس کی واضح مثال شریعہ بِل، حِسبہ بِل اور سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو رد کرنا شامل ہے، ایسے آئین پر مبنی نظام کو ہرگز ہرگز اسلامی نہیں کہا جا سکتا، جب تک کہ وہ اسلام قبول کرکے اسے نافذ نہ کر دے۔ پس ثابت ہوا کہ پاکستان کا حاکم نظام غیر اسلامی اور کفر پر مبنی ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
مجیب: مفتی اسد الرحمن صافی عفی اللہ عنہ
الدلائل
- فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: 65)
- أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ(المائدة:50)
- وَفِي هَذِهِ الْآيَةِ (النساء: 65) دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ مَنْ رَدَّ شَيْئًا مِنْ أَوَامِرِ اللَّهِ تَعَالَى أَوْ أَوَامِرِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُوَ خَارِجٌ مِنْ الْإِسْلَامِ سَوَاءٌ رَدَّهُ مِنْ جِهَةِ الشَّكِّ فِيهِ أَوْ مِنْ جِهَةِ تَرْكِ الْقَبُولِ وَالِامْتِنَاعِ مِنْ التَّسْلِيمِ وَذَلِكَ يُوجِبُ صِحَّةَ مَا ذَهَبَ إلَيْهِ الصَّحَابَةُ فِي حُكْمِهِمْ بِارْتِدَادِ مَنْ امْتَنَعَ مِنْ أَدَاءِ الزَّكَاةِ وَقَتْلِهِمْ وَسَبْيِ ذَرَارِيِّهِمْ. (أحكام القرآن للجصاص: ج 3، ص 184، دار الكتب العلمية)
- رَجُلٌ قَالَ لِخَصْمِهِ: اذْهَبْ مَعِي إلَى الشَّرْعِ، أَوْ قَالَ بِالْفَارِسِيَّةِ: (با من بشرع رو وَقَالَ خَصْمُهُ: پياده بيار تا بِرُومِ، بِي جبر نروم)، يَكْفُرُ؛ لِأَنَّهُ عَانَدَ الشَّرْعَ، وَلَوْ قَالَ (بامن بِقَاضِي رو)، وَبَاقِي الْمَسْأَلَةِ بِحَالِهَا لَا يَكْفُرُ، وَلَوْ قَالَ: (بامن شريعت واين حِيَلهَا سُود ندارد)، أَوْ قَالَ: (پيش نرود)، أَوْ قَالَ: (مُرَاد بوس هست، شريعت چی كنم)، فَهَذَا كُلُّهُ كُفْرٌ وَلَوْ قَالَ: (آن وَقْت كه سيم ستدى شريعت وَقَاضِي كجا بود)، يَكْفُرُ أَيْضًا، وَمِنْ الْمُتَأَخِّرِينَ مَنْ قَالَ: إنْ عَنَى بِهِ قَاضِيَ الْبَلْدَةِ لَا يَكْفُرُ وَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِغَيْرِهِ: حُكْمُ الشَّرْعِ فِي هَذِهِ الْحَادِثَةِ كَذَا فَقَالَ ذَلِكَ الْغَيْرُ: (مِنْ برسم كَارِ ميكنم نُهْ بشرع) يَكْفُرُ عِنْدَ بَعْضِ الْمَشَايِخِ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى. وَفِي مَجْمُوعِ النَّوَازِلِ قَالَ رَجُلٌ لِامْرَأَتِهِ: مَا تَقُولِينَ أيش حُكْم الشِّرْع فَتَجَشَّأَتْ جُشَاءً عَالِيًا فَقَالَتْ: اينك شرع را فَقَدْ كَفَرَتْ وَبَانَتْ مِنْ زَوْجِهَا كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔[الفتاوی الهندیه: ج2، ص 272، دار الفكر]
- {لا يسأل عما يفعل وهم يسألون} [الأنبياء:۲۳] فمن سأل لِم فعل فقد رد حكم الكتاب، ومن رد حكم الكتاب كان من الكافرين. [شرح العقيدة الطحاوية لابن أبي العز: ص 320، مؤسسة الرسالة]
- فَمَنْ تَرَكَ الشَّرْعَ الْمُحْكَمَ الْمُنَزَّلَ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَتَحَاكَمَ إِلَى غَيْرِهِ مِنَ الشَّرَائِعِ الْمَنْسُوخَةِ كَفَرَ، فَكَيْفَ بِمَنْ تحاكم إلى الياسا وَقَدَّمَهَا عَلَيْهِ؟ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ كَفَرَ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ. [البداية والنهاية: ج 13، ص 139، دار إحياء التراث العربي]
- الشَّرْطُ الثَّالِثُ: قَوْلُهُ تَعَالَى: وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً وَاعْلَمْ أَنَّ مَنْ عَرَفَ بِقَلْبِهِ كَوْنَ ذَلِكَ الْحُكْمِ حَقًّا وَصِدْقًا قَدْ يَتَمَرَّدُ عَنْ قَبُولِهِ عَلَى سَبِيلِ الْعِنَادِ أَوْ يَتَوَقَّفُ فِي ذَلِكَ الْقَبُولِ، فَبَيَّنَ تَعَالَى أَنَّهُ كَمَا لَا بُدَّ فِي الْإِيمَانِ مِنْ حُصُولِ ذَلِكَ الْيَقِينِ فِي الْقَلْبِ. فَلَا بُدَّ أَيْضًا مِنَ التَّسْلِيمِ مَعَهُ فِي الظَّاهِرِ، فَقَوْلُهُ: ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ الْمُرَادُ بِهِ الِانْقِيَادُ فِي الْبَاطِنِ، وَقَوْلُهُ: وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً الْمُرَادُ مِنْهُ الِانْقِيَادُ فِي الظَّاهِر.[التفسیر الکبیر: ج 10، ص 128، دار إحياء التراث العربي]
- هذا کله لا یجوز قیاسہ علی الدول والحکومات المعاصرة بلا شك ولا ریب، فإنها کلها لا تحکم بما أنزل الله تعالی، بمعنی أنها لم تلتزم علی نفسها الحکم بالشریعة الإسلامیة، وإن أخذت منها أحکاما في عدة جوانب کالاحکام الشخصیة والبیوع وغیرها، ولکنها خلطت بها أحکاما لم تأخذها منها، بل أتت بھا من قوانین غربية أو من عند أنفسها. وإنما الخلاف السابق کان فیمن حکم بالإسلام والتزم به إلا أنه ظلم، وأما من غیّر وبدّل شرائع الدین والدولة، فأمره بیّن، وهذا هو المندرج قطعا تحت قول الرسول علیه السلام: إلا أن تروا کفرا بواحا. [الشرح الکبیر علی العقیدة الطحاویة: ص 1051، دار الذخائر]
- فَتَحْكِيمُ هَذَا النَّوْعِ مِنَ النِّظَامِ فِي أَنْفُسِ الْمُجْتَمَعِ وَأَمْوَالِهِمْ وَأَعْرَاضِهِمْ وَأَنْسَابِهِمْ وَعُقُولِهِمْ وَأَدْيَانِهِمْ كُفْرٌ بِخَالِقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَتَمَرُّدٌ عَلَى نِظَامِ السَّمَاءِ الَّذِي وَضَعَهُ مَنْ خَلَقَ الْخَلَائِقَ كُلَّهَا وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَصَالِحِهَا سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَنْ أَنْ يَكُونَ مَعَهُ مُشَرِّعٌ آخَرُ عُلُوًّا كَبِيرًا. [أضواء البیان: ج 3، ص 260، دار الفكر]
تائیدات
- مفتی ابو محمد عبد اللہ المہدی
- مفتی محمد متین مغل
- مفتی عبد الرحمن رحمانی
- مفتی احمد الرحمن حسن
- مفتی محمود حسنی
- مفتی ابو الحسنین محمد حسن الشیبی
- مفتی عمر خلیل مہمند
- مفتی بدر الدین غزنوی
- شیخ عبید الرحمن المرابط
- مفتی محمد لقمان باریسالی
- مولانا ابو بکر شنواری
- مولانا ولی اللہ یوسفزئی
- مولانا حبیب اللہ خان
- مولانا محمد خبیب برکی
- مولانا عبد الرحمن قاسمی
٭٭٭٭٭
1 تمہید، صفحہ 1، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، ترمیم شدہ لغایت 31 مئی، 20۱8 ۔
اس تحریر میں جہاں بھی ”حاکمیت اعلی “ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اس سے مراد تمہید اور ضمیمہ قرداد مقاصد کا یہی متن ہے۔
2 حصہ نہم، اسلامی احکام، 227 (1)، صفحہ: 147، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، ترمیم شدہ لغایت 31 مئی 2018۔
3 چنانچہ دستور میں درج ہے کہ :
(۵۵)(۱)دستور کے تابع قومی اسمبلی کے تمام فیصلے حاضر اور ووٹ دینے والے ارکان کی اکثریت سے کیے جائیں گے ۔ (باب 2، مجلس شوری، [پارلیمنٹ]، شق 55؍1، صفحہ: 31، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، ترمیم شدہ لغایت 31 مئی 2018۔
(۷۲)(۴)دستور کے تابع،کسی مشترکہ اجلاس میں تمام فیصلے حاضر اور رائے دینے والے ارکان کی اکثریت کے ووٹوں سے کیے جائیں گے۔ (باب 2، مجلس شوری، [پارلیمنٹ]، قانون سازی کا طریق کار، شق 72(4) صفحہ: 46، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، ترمیم شدہ لغایت 31 مئی 2018
4 (۸)(۱) کوئی قانون یا رسم ورواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو ،تناقض کی اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو۔(باب1، بنیادی حقوق، ص:5، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، ترمیم شدہ لغایت 31 مئی 2018) اور تمہید میں بنیادی حقوق ایسے ذکر کیے گئے ہیں: ”بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات ، قانون کی نظر میں برابری، معاشرتی، معاشری اور سیاسی انصاف اور خیال ، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہو گی“ (تمہید، ص: 2، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، ترمیم شدہ لغایت 31 مئی 2018)
5 جس كاتذكره دستور (حصہ نہم، اسلامی احکام، 228 (1)، صفحہ: 147، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، ترمیم شدہ لغایت 31 مئی 2018) میں کیا گیا ہے۔
6 (۲۲۹)صدر یا صوبے کا گورنر اگر چاہے ،یا اگر کسی ایوان یا صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کا دوبٹا پانچ حصہ یہ مطالبہ کرے ،تو کسی سوال پر اسلامی کونسل سے مشورہ کیا جائے گا کہ آیا کوئی مجوزہ قانون اسلام کے احکام کے منافی ہے یا نہیں ۔
(۲۳۰)(۳)جب کوئی ایوان ،کوئی صوبائی اسمبلی ،صدر یا گورنر ،جیسی بھی صورت ہو، یہ خیال کرے کہ مفادِ عامہ کی خاطر اس مجوزہ قانون کا وضع کرنا جس کے بارے میں سوال اٹھایا گیا تھا مشورہ حاصل ہونے تک ملتوی نہ کیا جائے ،تو اس صورت میں مذکورہ قانون مشورہ مہیا ہونے سے قبل وضع کیا جا سکے گا: مگر شرط یہ ہے کہ جب کوئی قانون اسلامی کونسل کے پاس مشورے کے لیے بھیجا جائے اور کونسل یہ مشورہ دے کہ قانون اسلامی احکام کے منافی ہے تو ایوان ،یا جیسی بھی صورت ہو، صوبائی اسمبلی ،صدر یا گورنر اس طرح وضع کردہ قانون پر دوبارہ غور کرے گا۔
7 (۱۸۹)عدالتِ عظمیٰ کا کوئی فیصلہ ،جس حد تک اس میں کسی امرِ قانونی کا تصفیہ کیا گیا ہو، یا وہ کسی اصولِ قانون پر مبنی ،یا اس کی وضاحت کرتا ہو ،پاکستان میں تمام دوسری عدالتوں کے لیے واجب التعمیل ہو گا۔
نیز دیکھیے آرٹیکل (۲۰۱)
8 تین چیزیں اس شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مطلق باہر ہیں :۱۔دستور۲۔مسلم شخصی قانون ۳۔کسی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون بحوالہ آرٹیکل: (۲۰۳)(ج)
9 بہ نام : ”وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک کی اپیل “، بہ تاریخ: محرم الحرام 1444ھ – اگست 2022ء۔ از مفتی رفیق احمد بالاکوٹی۔ www.banuri.edu.pk