ہر اس ”امتی‘‘کو نوید ہو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس کو جہان کا موضوع بنا دینے کے لیے آج اپنا تن من دھن لگا دے اور تاریخ کے اس نہایت اہم موڑ پر آپ کے دین کا علم بلند سے بلند کرنے کے لیے اپنا آرام اور چین قربان کر لے اور اپنی محبت کا ثبوت دے کر ان ”امتیوں“ میں اپنا نام لکھوانے کی سعی کرے جن کی بابت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا تھا:
مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَكُونُونَ بَعْدِي يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ۔ (صحیح مسلم، عن ابی ہریرة، رقم: ۷۳۲۳)
”میرے ساتھ شدید ترین محبت رکھنے والے میرے کچھ امتی ایسے ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے۔ ان میں سے ایک ایک کی یہ تمنا ہو گی کہ اپنا سب اہل و مال دے کر بھی اس کو مجھے ایک نظر دیکھ لینا نصیب ہو جائے!!!“
نیز جن خوش قسمتوں کی بابت آپ نے یہ مسرور کن بات فرمائی، بلکہ ان خوش قسمتوں کے بالمقابل کچھ بدبختوں کی نشان دہی بھی کر دی:
’’وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا إِخْوَانَنَا “ . قَالُوا أَوَلَسْنَا إِخْوَانَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ “ أَنْتُمْ أَصْحَابِي وَإِخْوَانُنَا الَّذِينَ لَمْ يَأْتُوا بَعْدُ “ . فَقَالُوا كَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ يَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ “ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلاً لَهُ خَيْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَةٌ بَيْنَ ظَهْرَىْ خَيْلٍ دُهْمٍ بُهْمٍ أَلاَ يَعْرِفُ خَيْلَهُ “. قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ . قَالَ “ فَإِنَّهُمْ يَأْتُونَ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنَ الْوُضُوءِ وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَى الْحَوْضِ أَلاَ لَيُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِي كَمَا يُذَادُ الْبَعِيرُ الضَّالُّ أُنَادِيهِمْ أَلاَ هَلُمَّ . فَيُقَالُ إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ . فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا ( رواہ مسلم)
”مجھے تمنا ہوئی کہ کہیں ہم اپنے بھائیوں کو بھی دیکھ سکتے!!! “۔صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ فرمایا: ”تم میرے ساتھی ہو، ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے!‘‘۔ صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! آپ کے وہ امتی جو ابھی آئے ہی نہیں آپ اُن کو پہچان کیسے لیں گے؟ فرمایا: ”کیا خیال ہے کسی آدمی کے گھوڑے ایسے ہوں جن کے جسم اور پیشانیاں اجلی سفید ہوں، وہ انہیں ان گھوڑوں میں سے صاف نہ پہچان لے گا جن کا سارا جسم کالا مٹیالا ہو؟“۔ صحابہ نے عرض کی: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! فرمایا: ”تو وہ یوں آئیں گے کہ وضو کے اثر سے ان کے اعضاء چمک رہے ہوں گے اور میں ان سےپہلے حوض پر (ان کے استقبال کے لیے) موجود ہوں گا۔ خبردار! ایسے لوگ بھی ہوں گے جو میرے اس حوض سے دھتکارے جائیں گے جس طرح ادھر اُدھر آیا ہوا کوئی اونٹ دھتکار دیا جاتا ہے۔ میں ان کو پکاروں گا :’’آگے آ ؤ آگے!‘‘ ،تو کہا جائے گا کہ یہ وہ ہیں جو آپ کی راہ پر نہ رہے تھے۔ تب میں کہوں گا: ”دفع ہوجا ؤ دفع‘‘۔
سبحان اللہ! کوئی آج اس دستِ مبارک سے جام لطف وسعادت پانے کی سعی کر رہا ہے اور کوئی اس کے در سے دھتکارے جانے کا بندوبست کرنے میں مصروف!!! اف، خدایا! کیا اس بدقسمتی کا اندازہ کیا جا سکتا ہےکہ حشر کے میدان میں چل چل کر پیاس سے بلکتا کوئی شخص رسالت مآبﷺ کے پاس پہنچے اوراس کو اس ہستی کے دہن مبارک سے اپنے لیے جو پہلا لفظ سننے کو ملے وہ ’’سحقاً سحقاً ‘‘ہو! یعنی ’’دفع، نابکار! دفع!!!‘‘۔ افسوس اس ’امتی‘ پر جو اپنے نبی کے دشمن کے ہاں عزت و آبرو کی تلاش میں سرگرداں پھرے! حیف ایسے ’ایمان‘ پر جو نبی اور اس کی شریعت کی جانب آدمی کی پیٹھ کرادے اور نبی کے مخالفوں اور ان کی راہوں سے ہی آدمی کو کل امیدیں لگوا دے!
تف ہے ’اسلام‘ کے دعویدار اُن لبوں اور اس زبان پر جسے شاتمِ رسول کو تحفظ دینے والے کسی ظالم کے ساتھ تبادلۂ خیر سگالی نصیب ہو! ان ہاتھوں پر جنہیں کسی دشمن رسول کے ساتھ گرمجوش مصافحہ ’عطا‘ ہو! ان بازوؤں پر جو ’معانقہ‘ کے لیے کسی پلید جثے کے گرد حمائل ہوں! اس ’ڈپلومیسی‘ پر جس کا بریف کیس حرمتِ رسولﷺ پر مفاہمت کے عوض سے ہی بھر سکتا ہو……!
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ (سورةآلِ عمران: ۱۰۶)
”اس دن، جب کچھ چہروں پر نور برسے گا تو کچھ پر کالک‘‘……خدایا! یہ کیسا دن ہوگا کہ نہ جس کا ”نور“ کہیں جانے والا ہو گا اور نہ جس کی ”کالک“!
٭٭٭٭٭