نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

’ بُردہ شریف‘ اور جہاد!!

عبید الرحمن المرابط by عبید الرحمن المرابط
26 نومبر 2022
in اکتوبر و نومبر 2022, ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
0

خاتم الانبیاء ، اشرف الخلق حضرت محمد ﷺ کی دنیا میں آمد کے دن ہر مسلمان کے دل میں اپنے پیغمبر پاک ﷺ کی محبت کے جذبات امڈ آتے ہیں اگرچہ یہ ہماری زندگی بھر کا جزو لا ینفک ہونا چاہیے۔ بہر حال ان جذبات کے اظہار کے لیے قدیم زمانے سے ایک بنیادی ذریعہ اشعار کی صورت میں آپ کی مدحت اور آپ سے محبت کا بیان ہے جسے بر صغیر میں ’نعت نبوی ﷺ‘ کہا جاتا ہے۔ سوچا ربیع الاول کا مہینہ ہے تو کیوں نہ کوئی پرانی نعت پڑھوں۔ ذہن میں فورا ً ’قصیدہ بردہ شریف‘آیا جس کا ایک مشہور بیت برِّ صغیر میں تقریبا ہر مسلمان نے ہی سنا ہو گا:

مَوْلَاي صَلِّي وَسَلَّم دائمَاً أبَدَا … عَلَى حَبِيبَك خَيْر الْخَلَق كُلَهُم

اگرچہ معلوم ہوا کہ یہ بیت قصیدہ بردہ کا حصہ نہیں بلکہ حضرت بوصیری ﷫ کا منظوم درود ہے جسے وہ اپنے قصیدے کے اشعار کے درمیان تب پڑھتے تھے جب بھی رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ آتا تھا۔ میرے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ سب سے پہلا قصیدہ بردہ حضرت بوصیری ﷫ کا نہیں ہے بلکہ مشہور شاعر صحابی حضرت کعب بن زہیر ﷜ کا تھا۔ البتہ عالم اسلام میں حضرت کعب ﷜ کے قصیدے سے حضرت بوصیری ﷫ کا بردہ زیادہ مشہور ہوا جس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حضرت کعب ﷜ کا قصیدہ انتہائی گاڑھی عربی میں ہے جس سے خود عرب آہستہ آہستہ اجنبی ہوتے گئے۔ پھر حضرت بوصیری ﷫ کے قصیدے کے وزن پر جدید دور میں عالم عرب کے مشہور شاعر احمد شوقی ﷫ نے اپنا مشہور قصیدہ نہج البردہ لکھا۔ لیکن اس سے بڑھ کر حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ تینوں قصیدے آج کل کی مروجہ نعتوں کے بر خلاف’جہاد‘ کے تذکرے سے بھرے پڑے ہیں!! جس سے ذہن میں خیال آیا کہ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے معاشروں میں جہاد پر عمل کرنا تو درکنار اس کے تذکرے سے پھی کترایا جانے لگا ہے؟!

مجھے یاد ہے کہ اندازاً۲۰۰۸ء میں، میں لاہور کی ایک مسجد میں تھا کہ نماز کے بعد امام صاحب نے نبی اکرم ﷺ کی سیرت کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاد کے بارے میں کئی واقعات سنائے۔ جیسے ہی امام کا بیان ختم ہوا تو دیکھتا ہوں کہ کوئی چار پانچ مقتدی ان کے گرد جمع ہو کر انہیں تلقین کرنے لگے کہ ایسی باتیں نہ چھیڑیں کیونکہ ان باتوں سے نو جوان غلط مطلب لیتے ہیں اور پھر ملک میں فساد پیدا ہوتا ہے!!گویا جہاد کے حوالے سے ہمارے معاشرے نے مغرب کی اصطلاح کے مطابق ’خود ساختہ سنسر شپ‘اپنا لی ہے۔ اس اصطلاح کا استعمال مغرب میں اس وقت زیادہ ہوا جب ان کے ہاں نبی اکرم ﷺ کے کارٹون بنانے کا مسئلہ سامنے آیا۔ اس اصطلاح کو سمجھنے کے لیےمختصراً گستاخانہ کارٹونوں کا قضیہ ذکر کرتا ہوں۔

۲۰۰۵ء میں ڈنمارک کے ایک مصنف ’کیری بلوٹگن‘Kåre Bluitgen نے بچوں کے لیے ’قرآن اور پیغامبر محمد [ﷺ]‘ نامی ایک کتاب لکھی اور اس کی خواہش تھی کہ موضوع کے حوالے سے اس کتاب میں چند تصاویر بھی ڈالے۔ لیکن جن مصوروں سے اس نے رابطہ کیا انہوں نے اس کی پیشکش مسلمانوں کی جانب سے انتقام کے ڈر کے سبب مسترد کر دی ۔ ایک مصور نے انکار کا سبب سال ۲۰۰۴ء میں ڈچ فلم ڈائریکٹر ’تھیو وان گوخ‘ Theo van Gogh کا قتل گردانا ۔ جسے مراکشی نژاد ڈچ بطلِ اسلام محمد بویری (فک اللہ اسرہ)1 نے اس لیے قتل کیا تھا کہ اس نے ایک صومالی مرتد عورت کے ساتھ مل ’اسلام‘ Submission نامی فلم بنائی تھی جس کا موضوع والعیاذ باللہ ’مسلمانوں‘ کے ہاں نہیں بلکہ ’اسلام میں خواتین کے ساتھ بد سلوکی تھا‘ اور جو دین اسلام کے مقدسات کے خلاف گستاخی سے بھری تھی۔

مصنف کی جانب سے کوشش اور مصوروں کی جانب سے انکار اگلے دن اخباروں کی شہ سرخی بن گئی۔ مصوروں کے انکار کو خوف کے سبب ’خود ساختہ سنسر شپ‘ کے طور پہ پیش کیا گیا جو مغرب کے خیال میں’آزادئ رائے‘ کے خلاف ہے۔ ڈنمارک کے سب سے بڑے اخبار جیلنڈس پوسٹن Jyllands Posten نے اس تصور کو چانچنے کے لیے کہ آیا ڈچ معاشرہ حضرت محمد ﷺ کی تصویر بنانے سے ڈرتا ہے یا نہیں تصویر نگاری یونین کے ارکان کو ایسی تصویریں بنانے کا کہا جس کے نتیجے میں یہ تصویریں منظر عام پر آئیں۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مغرب معاشرے میں ہمارے دل و جان سے محبوب حضرت محمد ﷺ کی گستاخی کوئی نئی بات ہے ۔ مغرب کیا یہ تو مشرکین مکہ بلکہ تمام منکرین وحی کا انبیاء ﷩ کے ساتھ رویہ رہا ہے2۔ لیکن مجھے بر صغیر کے معاشرے میں مغرب کے بر عکس جہادی موضوعات پر ’خود ساختہ سنسر شپ ‘ پر حیرانی ہے۔ میں کہاں اور مقامِ سردار کائنات کہاں۔ لیکن میں نے سوچا کہ مشہور قصیدے ’بردہ شریف‘ میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ کے اہم حصے اور قتال و جہاد کے میدان آپ ﷺ کی شجاعت و بہادری کا تذکرہ کر کے مسلم معاشروں میں پائی جانے والی’خود ساختہ سنسر شپ‘ کو توڑ کر مغرب کی ’آزادئ رائے‘ کی خاطر نہیں بلکہ قیامت کے دن’رضائے الٰہی‘ اور ’شفاعت رسول ﷺ‘ کے حصول کے لیے امیدوار ٹھہروں۔

آئیے ’بردہ شریف‘ کے ان تینوں قصیدوں میں نبی الملاحم اور امام المجاہدین محمد ﷺ کا تذکرہ دیکھتے ہیں۔

حضرت کعب بن زہیر ﷜اور ’بردہ شریف‘ کا قصہ

حضرت کعب بن زہیر بن ابی سلمی ﷜ مخضرم اور مشہور ترین شاعر تھے۔ مخضرم اس شاعر کو کہتے جو دور جاہلیت اور دور اسلام دونوں میں شاعر رہا ہو۔ انہوں نے دور جاہلیت میں پیغمبر پاک ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی جس کے سبب نبی اکرم ﷺ نے یہ کہتے ہوئے ان کے خون کو مباح قرار دیا کہ”جو بھی کعب کو پائے وہیں اسے قتل کر دے“۔فتح مکہ کے وقت جن لوگوں کو امان حاصل نہیں تھی ان میں سے ایک حضرت کعب بھی تھے۔ فتح مکہ کے بعد بدلتے حالات سے حضرت کعب کو خطرہ لاحق ہوا کہ اب لا محالہ انہیں قتل کر دیا جائے گا اس لیے بھاگنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ ان کے بھائی حضرت بجیر ﷜ نے ، جو ان سے پہلے اسلام لا چکے تھے ، انہیں خط لکھا کہ وہ مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ سے معافی طلب کریں تو معاف کر دیے جائیں گے۔ چنانچہ حضرت کعب ﷜ نے اسی میں عافیت سمجھی اور مسلمان ہو گئے۔ جب مدینہ پہنچے تو مسجد نبوی کے باہر اپنی سواری باندھی ، اپنے چہرے کو عمامے سے ڈھانپا اور آپ ﷺ کی نشانیوں سے آپ ﷺکو پہچانتے ہوئے صفوں کو پھلانگ کر آپ ﷺ کے قریب جا بیٹھے۔ پھر فرمایا: ”اے رسول اللہ ﷺ میں ایک آدمی ہوں جو آپ سے اسلام کی بیعت کرنے آیا ہوں“۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دستِ مبارک آگے کیا تو حضرت کعب نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا کر کہا: ”میں آپ کی پناہ کا طلبگار ہوں اے رسول اللہ۔ میں کعب بن زہیر ہوں“۔ یہ سنتے ہی انصار انہیں قتل کرنے کے لیے اٹھے لیکن نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اسے چھوڑو۔ یہ توبہ کر کے آیا ہے“۔ پھر حضرت کعب نے آپ سے بیعت کی۔نبی اکرم ﷺ نے از راہ مزاح حضرت ابو بکر ﷜ سے وہ شعر پوچھا جو حضرت کعب نے ان کی گستاخی میں کہا تھا۔ حضرت ابو بکر نے وہ شعر پڑھا جس کا ایک لفظ ’مامور‘ تھا۔ حضرت کعب نے فورا کہا مامور نہیں بلکہ ’مامون، مامون‘۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہاں: ”رسول اللہ بھی مامون ہے اور اللہ تعالیٰ بھی مامون ہیں“۔ اس کے بعد حضرت کعب اٹھے اور اپنا مشہور قصیدہ پڑھا جس کا پہلا مصرع ’بانت سعاد‘ تھا۔ سعاد اور سعاد کی طرف لے جانے والے اونٹ کے لمبے تذکرے کے بعد حضرت کعب قصیدے میں اصل مقصد کی طرف آئے اور اشعار میں بیان کیا کہ آنجناب کو چغل خور میرے بارے میں ورغلاتے ہیں اور مجھے آ کر کہتے ہیں کہ تمہیں تو لا محالہ قتل کر دیا جائے گا۔ میں کہتا ہوں چھوڑو جو رحمٰن و رحیم نے تقدیر میں لکھا ہے وہی ہو کر رہے گا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اگر میں رسول اللہ سے معافی مانگوں گا تو وہ مجھے معاف کر دیں گے۔ پھر انہوں نے اپنا یہ مشہور شعر پڑھا:

إنّ الرّسُولَ لَنُورٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ … مُهَنّدٌ مِنْ سُيُوفِ اللّهِ مَسْلُولُ

تو حضور اکرم ﷺ خوش ہوئے اور حضرت کعب کو اپنا خاص بردہ عنایت فرمایا۔ چنانچہ ان کا یہ قصیدہ’ قصیدہ بردہ شریف‘ سے مشہور ہوا3۔

بردۂ کعب ﷜ کے جہادی اشعار

  1. إنّ الرّسُولَ لَنُورٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ … مُهَنّدٌ مِنْ سُيُوفِ اللّهِ مَسْلُولُ

رسول اللہ تو ایسے نور ہیں جن سے روشنی لی جاتی ہے۔ اللہ کی تلواروں میں سے ہند کی ایک ننگی تلوار ہیں۔

تشریح: یعنی کہ آپ ﷺ جہاں حق کے لیے نور ہدایت ہیں وہیں باطل کے لیے ننگی تلوار بھی ہیں۔ اس زمانے میں عرب میں مشہور تلواریں ہند سے آیا کرتی تھیں۔

  1. فِي عُصْبَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَ قَائِلُهُمْ … بِبَطْنِ مَكّةَ لَمّا أَسْلَمُوا زُولُوا

مکہ کے بیچ جب قریش کا ایک گروہ ایمان لے آیا تو ان کے سردار نے کہا : ہجرت کے لیے نکل چلو۔

تشریح: صحابہ پر مکہ میں اتنا ظلم ہوا کہ حضرت عمر ﷜ نے ان سے کہا کہ اس ظلم سے بچنے کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت کر جاؤ۔

  1. زَالُوا فَمَا زَالَ أَنْكَاسٌ وَلَا كُشُفٌ …عِنْدَ اللّقَاءِ وَلَا مِيلٌ مَعَازِيلُ

مسلمان تو ہجرت کر گئے لیکن قریش میں ایسے لوگ تھے جو تلواروں اور زرہوں سے لیس تھے۔

تشریح: جس وقت ہجرت ہوئی اس وقت مسلمانوں کمزور اور کافر مضبوط تھے۔

  1. شُمُّ الْعَرَانِينِ أَبْطَالٌ لَبُوسُهُمُ …مِنْ نَسْجِ دَاوُدَ فِي الْهَيْجَا سَرَابِيلُ

یہ صحابہ با عزت ابطال ہیں۔ جنگوں میں ان کا لباس داودی زرہیں ہیں۔

تشریح: یعنی کہ صحابہ کمزور تھے لیکن با عزت اور بہادر بھی تھے۔ چنانچہ مدینہ شریفہ میں انہوں نے تیاری کی یہاں تک کہ جنگوں میں مضبوط زرہیں پہننے لگے۔

  1. بِيضٌ سَوَابِغُ قَدْ شُكَّتْ لَهَا حَلَقٌ …كَأَنّهَا حَلَقُ الْقَفْعَاءِ مَجْدُولُ

سفید اور لمبی زرہیں جن کے حلقے ایسے محکم طریقے سے جوڑے گئے تھے جیسے کانٹے دار جھاڑی (قفعاء) کے حلقے۔

تشریح: زرہوں کو سفید کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کثرت جنگ سے وہ پرانی نہیں ہوتیں کہ زنگ لگ کر کالی ہو جائیں۔ اور لمبی سے مقصد یہ ہے کہ اس کے پہننے والے اتنے سخت جان ہیں کہ وزنی زرہیں پہن کر بھی لڑ لیتے ہیں۔ جبکہ مضبوط حلقوں سے مراد یہ ہے کہ وہ پوری جنگی تیاری کر کے آتے ہیں۔ رہا زرہ کے حلقوں سے قفعاء سے تشبیہ تو اسے وہی سمجھ سکتا ہے جس نے قفعاء کی جھاڑی خود دیکھی ہو۔

  1. لَيْسُوا مَفَارِيحَ إِذَا نالَتْ رِمَاحُهُمُ… قَوْمًا وَلَيْسُوا مَجَازِيعًا إذَا نِيلُوا

جب ان کے نیزے کسی قوم کو نقصان پہچانتے ہیں تو وہ اس پر خوش نہیں ہوتے اور اگر خود انہیں نقصان پہنچے تو وہ گھبراتے نہیں ہیں۔

تشریح: یعنی کہ وہ جیت میں خوشی سے اتراتے نہیں ہیں اور ہار میں ہمت نہیں ہار بیٹھتے۔ جہاں یہ اعلیٰ صفات کا بیان ہے وہیں اللہ تعالی اور تقدیر پر ایمان کی دلالت کرتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں خود حکم دیتے ہیں ” یہ اس لیے تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے، اس پر تم غم میں نہ پڑو، اور جو چیز اللہ تمہیں عطا فرمادے، اس پر تم اتراؤ نہیں، اور اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اتراہٹ میں مبتلا ہو، شیخی بگھارنے والا ہو“4۔

  1. يَمْشُونَ مَشْيَ الْجِمَالِ الزُّهْرِ يَعْصِمُهُمْ …ضَرْبٌ إذَا عَرَّدَ السُّودُ التَّنَابِيلُ

سفید اونٹوں کی چال چلتے ہیں۔ انہیں ان کے ضربے بچاتے ہیں جب کوتاہ قد سیاہ رنگت انہیں چھوڑ کر بھاگ نکلتے ہیں۔

تشریح: یعنی کہ وہ اعلی صفات کے حامل سفید اونٹوں کی اعلی نسل کی طرح اونچے حسب و نسب والے برد بار لوگ ہیں۔ اگر ان کی مدد کرنے سے کوئی کم خصلت انسان پیچھے ہٹ جائے تو ان کی قوت بازو ان کے لیے کافی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ السُّودُ التَّنَابِيلُ سن کر بعض انصار نے کہا کہ حضرت کعب کی مراد اس سے انصار ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت کعب نے ان کی شان میں ایک اور مشہور قصیدہ پڑھا۔

  1. لَا يَقَعُ الطَّعْنُ إلَّا فِي نُحُورِهِمُ …وَمَا لَهُمْ عَنْ حِيَاضِ الْمَوْتِ تَهْلِيلُ

ان پر ضربہ صرف ان کی گردنوں پر لگتا ہے۔ اور موت کے حوض سے وہ پیچھے نہیں ہٹتے۔

تشریح: یعنی کہ وہ بزدل نہیں کہ دور سے انہیں مارا جا سکے بلکہ وہ اتنی قریب سے لڑتے ہیں کہ ان کی گردنوں تک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ نحر گردن کے اگلے حصے کو کہتے ہیں جس سے یہ بھی مطلب نکلتا ہے کہ وہ سینے پر چوٹ کھاتے ہیں پیٹھ نہیں پھیرتے۔ اور موت کے حوض سے مراد ہے کہ جام شہادت پینے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔ یعنی کہ موت سے نہیں ڈرتے۔

اس شعر پر حضرت کعب ﷜ کا قصیدہ ختم ہو جاتا ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی ایک شعر میں صفت بیان کرنے سے باقی تمام اشعار میں اس جماعت کی بہادری بیان کی گئی ہے جو آپ کی تربیت یافتہ تھی۔ جس سے خود مربی کی بہادری کا اندازہ ہوتا ہے۔5

حضرت بوصیری ﷫ کا تعارف

حضرت کعب ﷜ کو تو رسول اکرم ﷺ نے حقیقت میں بردہ شریف عطا کیا تھا جبکہ حضرت بوصیری ﷫ کو یہ بردہ خواب میں ملا تھا۔ آئیے حضرت بوصیری کے حالات زندگی جانتے ہیں:

ان کا لقب شرف الدین، کنیت ابو عبد اللہ، اور نام محمد بن سعید تھا۔ ان کے آباء و اجداد مراکش کے شہر صنہاجہ سے مصر آئے تھے لیکن خود ان کے والد کا تعلق مصر کے شہر بوصیر سے تھا جس سے ان کی نسبت بوصیری بنی ۔ ان کی پیدائش ۶۰۸ ھ کو دلاص میں ہوئی اور ۶۹۷ھ کو وفات اسکندریہ میں ہوئی جہاں آج تک ان کا مقبرہ موجود ہے۔ وہ پیشہ ور کاتب تھے6۔ یہ کام وہ مصر کے علاقے الشرقیہ کے شہر بلبیس میں کرتے تھے۔ اس پیشے کے بارے میں ان کا ایک طویل قصیدہ ہے جن میں وہ ہم پیشہ افراد پر نقد کرتے ہیں کہ وہ اپنے کام میں امانت دار نہیں ہیں اور اپنے منصب سے نا جائز مالی فائدے اٹھاتے ہیں۔ ان کے اشعار انتہائی خوبصورت اور خوش ذوق ہوتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مشہور شاعر الجزار اور الوراق سے بھی بہتر ہیں۔

بوصیری اپنے قصیدے ’بردہ‘ کے بارے میں کہتے ہیں:”میں نے مدحت رسول ﷺ میں بے شمار قصیدے کہے۔ ان میں سے بعض جناب زین الدین یعقوب بن الزبیر کی تجویز کردہ تھے۔ پھر اتفاقاً مجھے آدھے جسم کا فالج ہو گیا ۔ تب میں نے ایک قصیدہ تالیف کرنے کا سوچا جسے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں شفا کے لیے وسیلہ بناؤں۔ میں یہ قصیدہ بار بار پڑھتا رہا، روتا رہا اور دعا کرتا رہا یہاں تک کہ ایک رات مجھے خواب آیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ میرے چہرہ پر پھیر کر اپنا بردہ مجھ پر ڈالا دیا۔ جب میں جاگا تو میں صحت یاب ہو گیا تھا۔ جب گھر سے نکلا تو راستے میں ایک فقیر نے کہا کہ مجھے وہ قصیدہ سناؤ جس میں تم نے پیغمبر پاک ﷺ کی مدح کی ہے۔ میں نے پوچھا :کون سا والا؟ اس نے کہا :وہ جو تم نے اپنے مرض میں کہا تھا۔ اللہ کی قسم ہم نے کل ہی حضور پاک ﷺ کے سامنے اسے پڑھتے ہوئے سنا ہے جس پر آپ ﷺ نے پڑھنے والے پر بردہ ڈالا ۔ تب میں نے اس فقیر کو یہ قصیدہ سنایا۔ پھر یہ قصہ اتنا مشہور ہوا کہ مجھ سے بادشاہ الظاہر بیبرس کے وزیر بہاء الدین نے رابطہ کر کے اپنے لیے ایک نسخہ حاصل کیا“۔7

دیگر تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاذلی فرقے کے امام ابو الحسن الشاذلی کے براہ راست مرید تھے۔ ان کے علاقے میں کافی تعداد میں عیسائی اور یہودی بھی پائے جاتے تھے جن پر رد کے لیے انہوں نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کر کے ایک قصیدہ تالیف کیا۔ وہ بہترین شاعر تھے اور ان کا یہ قصیدہ بہت مشہور ہوا لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ ان کے کئی اشعار میں غلو بھی پایا جاتا تھا ۔ 8

بردۂ بوصیری کے جہادی اشعار9

حضرت بوصیری ﷫ کے قصیدہ میں رسول اللہ ﷺ کے جہاد و قتال کے بارے میں لکھے گئے اشعار اور ان پر تبصرہ درج ذیل ہے:

  1. راعَتْ قلوبَ العِدَا أنباءُ بِعثَتِهِ … كَنَبأَةٍ أَجْفَلَتْ غُفْلا مِنَ الغَنَمِ

آپ ﷺکی بعثت کی خبروں سے دشمنوں کے دل ایسے دہل گئے جیسے زور دار چیخ سے غافل بکریاں بدک جاتی ہیں۔

تشریح: گویا بعثت نبوی ﷺ ’معرکۂ حق و باطل‘کی ایک کڑی تھی۔ آپ ﷺ کی آمد کا مطلب شیطان اور اس کے چیلے بخوبی سمجھتے تھے۔ بعثت نبوی ﷺ سے یہ معرکہ دوبارہ تازہ اور واضح ہوا اگرچہ یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا وجود انسان۔ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم ﷤ کو ان کے ازلی و ابدی دشمن شیطان سے خبردار کیا۔ خود سوچیے کہ اس عقیدے کے ہوتے ہوئے ’حق‘ اور ’باطل‘ میں کس حد تک مفاہمت ہو سکتی ہے اور کس مرحلے پر ان دونوں کے درمیان امن قائم ہو گا؟!

  1. ما زالَ يلقاهُمُ في كُلِّ مُعتَرَكٍ … حتى حَكَوْا بالقَنَا لَحمَا على وَضَمِ

آپ ﷺ نے ہر معرکے میں دشمنوں کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ وہ نیزوں سے اس طرح چیر دیے گئے جیسے تختے پر گوشت کے ٹکرے ٹکرے کیے جاتے ہیں۔

تشریح: ممکن ہے کہ مغرب کی نظر میں یہ شعر ’دہشت گردی‘ کے زمرے میں آتا ہو جس پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ سورۂ انفال میں آیت نمبر ۱۲اور ۱۳میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: (وہ وقت جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی کے ذریعے حکم دے رہا تھا کہ: میں تمہارے ساتھ ہوں، اب تم مومنوں کے قدم جماؤ میں کافروں کے دلوں میں رعب طاری کردوں گا، پھر تم گردنوں کے اوپر وار کرو، اور ان کی انگلیوں کے ہر ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی مول لی ہے، اور اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی مول لیتا ہے، تو یقینا اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے)۔ ابن کثیر ﷫ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ’فوق الاعناق‘ یعنی کہ گردنوں کے اوپر مارنے سے مراد سروں کو پھوڑنا اور گردنوں کو اڑانا ہے۔ جب کہ ’کل بنان‘ سے مراد ہاتھ پاؤں کو کاٹنا ہے۔ اور امام ابن جریر طبری ﷫ کا قول نقل کرتے ہیں کہ یہ حکم مؤمنوں کے لیے بھی ہے۔ اور در اصل اس سختی کی وجہ کفار کی دشمنی ہے۔ کیونکہ انسان قتل و قتال سے طبعاً کراہت محسوس کرتا ہے اس لیے حق کی خاطر قتل پر آمادہ کرنے کے لیے ایسی تعبیرات استعمال کی جاتی ہیں۔ اور جب آپ خود حق و باطل کے درمیان جاری جنگ میں اتریں گے اور کفار کی جانب سے محض انکار حق تو در کنار باطل کی خاطر ان کے جنگی مظالم اور جرائم محسوس کریں گے تو اس کے مقابلے میں یہ طزر عمل آپ کو وحشیانہ نہیں بلکہ عین منصفانہ نظر آئے گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ قتل و قتال میں شدت صرف میدان جنگ تک محدود ہے۔ گرفتاری کی صورت میں نہیں۔ لیکن کافر تو گرفتاری میں بھی اسے روا رکھتے ہیں۔ آپ قیدیوں کے حوالے سے امارت اسلامی افغانستان اور امریکہ کے رویوں میں واضح فرق دیکھ سکتے ہیں۔

  1. وَدُّوا الفِرَارَ فكادُوا يَغبِطُونَ به … أشلاءَ شالَتْ مَعَ العُقبَانِ والرَّخَمِ

دشمن بھاگنے کی آرزو کرنے لگے ۔ انہیں جسم کے ان ٹکروں پر رشک آنے لگا جسے عقاب اور گدھ اٹھا کر لے جا رہے تھے۔

  1. تَمضِي الليالي ولا يَدرُونَ عِدَّتَهَا … ما لم تَكُن مِن ليالِي الأُشهُرِ الحُرُمِ

راتیں گزر جاتی ہیں لیکن دشمن انہیں شمار نہیں کر سکتے یہاں تک کہ اشہر حرام میں امن نہ پا لیں۔

تشریح: حرام شہر جن میں جاہلیت کے زمانے سے قتال معیوب سمجھا جاتا تھا وہ تین حج کے مہینے: ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ اور ایک رجب جس میں دور جاہلیت میں لوگ خصوصاً عمرے کے لیے جاتے تھے۔ بعد میں ان کی حرمت منسوخ کر دی گئی۔

  1. كأنَّمَا الدِّينُ ضَيْفٌ حَلَّ ساحَتَهُم … بكُلِّ قَرْمٍ الى لَحمِ العِدَا قَرِمِ

جیسے کہ میدان جنگ میں دینِ اسلام مہمان آیا ہو اور سردار اس کی ضیافت میں دشمن کا گوشت قربان کرنا چاہتا ہو۔

تشریح: سرداروں سے مراد صحابہ ﷢ ہیں۔

  1. يَجُرُّ بحرَ خميسٍ فَوقَ سابِحَةٍ … يرمي بمَوجٍ من الأبطالِ ملتَطِمِ

یہ دین، بھاگتے ہوئے گھوڑوں کی پیٹھ پر لشکر جرار کے سمندر کو کھینچ لایا ہے اور دشمن کو ابطال کی موجوں سے دے مار رہا ہے۔

تشریح: عربی میں لشکر کے لیے لفظ خمیس استعمال کیا گیا ہے یعنی کہ وہ لشکر جسے منظم طور پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہو۔ دائیاں (میمنہ)، بائیاں (میسرہ)، اگلا (طلیعۃ)، پچھلا (ساقہ) اور مرکز (قلب)۔

  1. مِن كُلِّ منتَدِبٍ لله مُحتَسِبٍ … يَسطُو بمُستَأصِلٍ للكُفرِ مُصطَلِمِ

یہ سمندر کفر کی بیخ کنی کرنے والے ، ہر رضاکار بطل کو (جو اللہ سے اجر کے حصول کے لیے شامل ہوا ہے )دشمن پر پھینک رہا ہے تاکہ ان کا خاتمہ کر دے۔

تشریح: غور کریں کہ مذکورہ بالا دونوں اشعار میں بوصیری ﷫ کفار کے خلاف ’جہاد و قتال‘ کو ’دین اسلام ‘ کی خصوصیات میں سے گردانتے ہیں جس کا مقصد کفر کی بیخ کنی ہے۔ اور یہ جہاد و قتال مال و دولت اور عزت کے لیے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالی کی رضا کی خاطر۔

  1. حتى غَدَتْ مِلَّةُ الاسلامِ وَهْيَ بهم … مِن بَعدِ غُربَتِهَا موصولَةَ الرَّحِمِ

یہاں تک کہ ملت اسلام کےرشتے (اجنبیت کے بعد )ان ابطال کے سبب آپس میں جڑ گئے۔

  1. مَكفولَةً أبدَاً منهم بِخَيرِ أَبٍ … وخيرِ بَعلٍ فلم تَيْتَمْ ولم تَئِمِ

ان ابطال نے ہمیشہ کے لیے (بہترین والد اور بہترین شوہر کی طرح)اس امت کی کفالت کر رکھی ہے کہ اب نہ امت یتیم رہی نہ بیوہ۔

تشریح: گویا کفار ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کو ’اجنبی‘ بناتے ہیں جو ڈرتے ڈرتے اپنے دین پر عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں اور مظلوم امت اپنے آپ کو بین الاقوامی معاشرے میں یتیم اور بیوہ کی طرح بے یاد و مدد گار پاتی ہے۔ لیکن یہ جہاد و قتال ہے جس کے نتیجے میں دین حق کی اجنبیت ختم ہوتی اور مسلمان بلا خوف و خطر آپس میں ملتے ہیں اور انہیں مجاہدین کی صورت میں اپنے ہمدرد سر پرست محافظین مل جاتے ہیں۔ (کچھ مغرب کی تبلیغ ہے اور کچھ نادان خارجی مسلمان ہیں جو مجاہدین کو الٹا سفاک اور وحشی پیش کرتے ہیں)۔

  1. هُمُ الجبالُ فَسَلْ عنهُم مُصَادِمَهُم … ماذا لَقِي منهم في كُلِّ مُصطَدَمِ

یہ ابطال تو پہاڑ ہیں۔ تم ان کے بارے میں ٹکرانے والوں سے پوچھو کہ جب بھی ٹکرائے تو ان کا کیا حال بنا۔

  1. وَسَلْ حُنَيْنَاً وَسَلْ بَدْرَاً وَسَلْ أُحُدَا … فُصولُ حَتْفٍ لَهم أدهى مِنَ الوَخَمِ

اور پوچھو حنین سے اور بدر سے اور احد سے۔ یہ جنگیں دشمنوں کے لیے وباؤں سے بڑھ کر موت کا موسم ٹھہریں۔

  1. المُصدِرِي البِيضِ حُمرَاً بعد ما وَرَدَتْ … مِنَ العِدَا كُلَّ مُسْوَدٍّ مِن الِّلمَمِ

وہ ابطال جو میدان جنگ میں سفید چمکتی تلواریں لے جاتے تھے اور واپس دشمن کے جوانوں کے خون سے سرخ کر لاتے تھے۔

  1. والكاتِبينَ بِسُمرِ الخَطِّ ما تَرَكَتْ … أقلامُهُمْ حَرْفَ جِسمٍ غيرَ مُنعَجِمِ

یہ ابطال بہترین نیزوں سے گویا ایسے لکھ رہے ہوں کہ ان کے اقلام نے دشمنوں کا کوئی حرفِ جسم بلا زیر و زبر نہیں چھوڑا۔

تشریح: عربی میں نیزے کی نسبت ’خط‘ نامی بندر گاہ کی طرف کی گئی ہے جو جزیرۂ عرب کے مشرق میں واقع تھا اور جہاں ہند سے بہترین اسلحہ آتا تھا جن میں نیزوں کے سر بھی شامل تھے۔

  1. شاكِي السلاحِ لهم سِيمَا تُمَيِّزُهُم … والوَرْدُ يمتازُ بالسِّيمَا عَنِ السَّلَمِ

وہ اسلحے سے لیس ہیں۔ ان کی ایسی نمایاں نشانیاں ہیں جیسے گلاب کانٹے دار جھاڑیوں کے درمیان جدا نظر آتا ہے۔

  1. تُهدِي اليكَ رياحُ النَّصرِ نَشْرَهُمُ … فتَحسِبُ الزَّهرَ في الأكمامِ كُلَّ كَمِي

جب فتح کی ہوا اِن گلابوں کی خوشبو تمہیں ہدیہ کرے گی تو ایسا محسوس کرو گے کہ جیسے ہر شجاع پھول کی ایک کلی میں لپٹا ہوا ہے۔

تشریح: گویا یہ ابطال اپنی بہادری کے باوجود در اصل گلاب اور پھولوں کی طرح ہیں۔ اس سے تقوی اور پرہیزگاری بھی مراد ہے اور یہ بھی کہ وہ اصلا سنگ دل اور کرخت نہیں ہیں لیکن حق کی نصرت اور کافروں کی طرف سے زیادتی کے سبب گلاب صفت انسان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اور یہ بھی مطلب ہے کہ ان کی شجاعت اور مردانگی وحشیانہ نہیں بلکہ بھلی محسوس ہوتی ہے۔ سابقہ اشعار سے ایک اور اہم بات جس کی طرف ذہن جاتا ہے کہ جنگ کے لیے اسباب جنگ اختیار کرنا اور اپنے آپ کو مسلح کرنا بھی لازمی ہے۔ شجاع پھول کا کلی میں لپٹے ہونے سے مراد زرہ پوش ہونا بھی ہے کیونکہ عربی متن کے لفظ كَمِيٌّ کا مطلب مسلح اور بہادر شخص ہے۔

  1. كأنَّهُم في ظُهورِ الخَيْلِ نَبْتُ رُبَاً … مِن شَدَّةِ الحَزْمِ لا مِن شدَّةِ الحُزُمِ

وہ گھوڑوں کی پیٹھ پر ایسے نظر آتے ہیں جیسے ٹیلوں پر لہلہاتے پودے۔ اپنے آپ کو سخت کسنے کے سبب نہیں بلکہ اپنی مضبوط تدبیر کے سبب جمے ہوئے ہیں۔

تشریح: یعنی ایک طرف وہ گھوڑوں پر ایسے جمے نظر آتے ہیں جیسے پودے مٹی میں پیوست ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وہ اپنی چالوں میں اتنے لچکدار ہیں جیسے پودوں کی شاخیں ہوا میں ہوں۔ یہ فقط اپنی جسمانی قوت کے سبب نہیں بلکہ اپنی ذہانت، قوت فیصلہ ، دل جمعی اور منصوبہ بندی و چال چلنے کے سبب۔ کیونکہ جنگ میں محض جسم کا کمال نہیں ہوتا بلکہ عقل کا بھی ہوتا ہے۔ بلکہ عقل کا استعمال زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اکثر مجاہدین کے پاس قوت ہوتی ہے لیکن وہ قوت کہاں اور کیسے استعمال کی جائے قوت سے زیادہ اہم ہے۔

  1. طارَتْ قلوبُ العِدَا مِن بأسِهِم فَرَقَاً … فما تُفَرِّقُ بين البَهْمِ والبُهَمِ

دشمنوں کے دل ان کی قوت سے اتنے دہل گئے کہ ان کے بزدل اور بہادر میں تم فرق نہ کر سکو گے۔

تشریح: گویا ان کا بہادر بھی بزدل نظر آئے گا۔

  1. ومَن تَكُن برسولِ اللهِ نُصرَتُهُ … اِن تَلْقَهُ الأُسْدُ في آجامِهَا تَجِمِ

جس کی نصرت رسول اللہ ﷺ کے سبب ہو اسے شیر اگر اپنے ٹھکانے میں بھی پا لے تو الٹا خود سہم جائے۔

  1. ولَن تَرى مِن وَلِيٍّ غيرَ منتَصِرٍ … بِهِ ولا مِن عَدُوٍّ غيرَ مُنقَصِمِ

ہر دوست کو تم آپ ﷺ ہی کی بدولت فتحیاب پاؤ گے اور ہر دشمن کی کمر آپ ﷺ ہی کی بدولت ٹوٹے گی۔

تشریح: یعنی کہ رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں، بشارتوں اور سنتوں پر عمل کرنے کی بدولت مسلمانوں کی نصرت ہوتی ہے۔

  1. أَحَلَّ أُمَّتَهُ في حِرْزِ مِلَّتِهِ … كالليْثِ حَلَّ مَعَ الأشبالِ فِي أَجَمِ

آپ ﷺ نے امت کو اپنی ملت کے پناہ گاہ میں ایسے بسایا جیسے کوئی شیر اپنے بچوں کو اپنی جھاڑیوں میں بساتا ہے۔

تشریح: گویا یہ جہاد جسے آپ ﷺ نے دین کا ایک ستون اور شریعت کا ایک حکم گردانا ہے وہ امت کے لیے جنگل جیسی دنیا میں ایک حصار اور فصیل کی مانند ہے جس کے اندر رہ کر وہ پر امن زندگی گزار سکتے ہیں۔

  1. كَم جَدَّلَتْ كَلِمَاتُ الله مِن جَدَلٍ … فيه وكم خَصَمَ البُرهانُ مِن خَصِمِ

کلام اللہ میں کتنے جدل و جدال کرنے والوں کو کلام اللہ نے پچھاڑا اور دلیلِ روشن نے کتنے حریفوں کو مات دی۔

  1. كفاكَ بالعلمِ في الأُمِّيِّ مُعجَزَةً … في الجاهليةِ والتأديبَ في اليُتُمِ

جاہلیت کے زمانے میں اُمّی ہونے کے باوجود صاحب علم ہونا اور یتیم ہونے کے باوجود با ادب ہونا ہی آپ ﷺ کے معجزہ کے لیے کافی ہے۔

اگرچہ یہ آخری دو شعر براہ راست جہاد و قتال کے متعلق نہیں ہیں لیکن یہ قصیدے میں اس کے بعد آنے والے اشعار کے مضمون سے بھی ہٹ کر ہیں۔ اور جہادی اشعار کا خاتمہ قرآن عظیم الشان کی دلیل و حجت اور آپ ﷺ کے علم و اخلاق ذکر کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ اگر بات افہام و تفہیم کی ہو، دلیل و حجت کی ہو، علم و اخلاق کی ہو تو وہ تو مسلمان تو اس میں پہلے ہی اپنے آپ کو ثابت کر چکے ہیں۔ لیکن کفار اپنے عناد و جحود کے سبب حق کو تسلیم نہیں کرتے اور الٹا اس کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اس لیے قتال و جہاد کے بغیر کوئی چارہ نہیں تاکہ مسلمان سکون سے اپنے دین پر عمل کر سکیں۔

امیر الشعراء احمد شوقی﷫

بردۂ رسول اکرم ﷺ کے حصول یعنی کہ ان کی شفاعت کے مستحق ہونے کی خواہش میں بے شمار شعراء نے قصیدے لکھے۔ ان میں ایک عرب کے ’امیر الشعراء‘ بھی ہیں جنہوں نے حضرت بوصیری﷫ کے قصیدے کے وزن پر اپنی نعت ’نہج البردہ‘ لکھی۔ آئیں دیکھیں کہ احمد شوقی کون تھے:

احمد شوقی علی بیگ ۱۸۶۸ء کو قاہرہ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۳۲ء میں وہیں وفات پائی۔ ان کے والد کردی تھے جبکہ والدہ ترک تھیں۔ و ہ جدید دور میں عالم عرب کے مشہور ترین شاعر ہیں جن کا موازنہ بر صغیر کے شاعر علامہ اقبال سے کیا جا سکتا ہے۔

ان کی نانی عثمانی خلافت کے تابع مصر کے حکمران خدیوی اسماعیل کے قصر میں ملازمہ تھیں اس لیے احمد شوقی شاہی قصر میں پلے بڑھے۔ ۴سال کے ہوئے تو ان کی والدہ نے انہیں شیخ صالح کے مکتب بھیج دیا جہاں انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ سرکاری سکول میں داخل ہو گئے۔ سکول کے زمانے میں انہیں شعر و شاعری سے اتنا لگاؤ بڑھا کہ انہوں نے بڑے بڑے شعراء کے دیوان پڑھ ڈالے اور بے شمار یاد کر لیے۔ ۱۵ سال کی عمر میں لاء کالج کے شعبۂ ترجمہ میں داخلہ لیا۔ جہاں ان کے استاد شیخ محمد بسیونی ان کی شعری صلاحیت سے واقف ہوئے اور ان میں ایک بڑا شاعر چھپا دیکھتے تھے۔ ۱۸۸۷ء میں انہیں خدیوی توفیق نے اپنے خرچے پر لاء کی اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس بھیجا جہاں وہ مغربی ادب سے بھی روشناس ہوئے۔ وہاں احمد شوقی دیگر ساتھیوں سمیت مصر میں برطانوی دخل اندازی کے خلاف سیاسی عمل میں بھی شریک رہے۔ اس وقت سے انہوں نے سیاسی حالات اور دینی جذبے کے تناظر میں عثمانی خلافت اور خدیوی حکومت کی حمایت میں اشعار کہنا شروع کیے۔۱۸۹۱ء میں تحصیل علم سے واپس آئے تو خدیوی عباس کے ایوان میں فرنگی قلم کے سربراہ مقرر ہوئے اور ۱۸۹۶ء میں جنیوا میں منعقد ہونے والی مستشرقین کی کانفرنس میں مصر کی نمائندگی کی۔

۱۹۱۴ء میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہونے والی تھی انگریزوں نے خدیوی عباس کو معزول کر دیا اور اس کی جگہ عثمانی خلافت کے بجائے براہ راست برطانوی حمایت (انتداب) کے تحت خدیوی خاندان کی سلطنت قائم کر دی۔ خدیوی عباس نے انگریزوں کے شر سے بچنے کے لیے احمد شوقی کو کہا کہ وہ بھی مصر سے نکل جائیں چنانچہ انہوں نے ۱۹۱۵ء میں ہسپانیہ میں جلا وطنی اختیار کر لی۔ جہاں وہ اندلسی ثقافت کے ساتھ ساتھ دیگر یورپی ادب سے بھی واقف ہوئے۔ اس دوران انہوں نے اپنے اشعار میں خدیویت کے بجائے قومی جذبات اور آزادی کی تحریکات کی ترجمانی کی۔۱۹۱۹ءمیں مصر میں برطانویوں کے خلاف بغاوت شروع ہوئی چنانچہ احمد شوقی بھی ۱۹۲۰ء میں واپس مصر آ گئے لیکن اس دفعہ خدیویوں کا شاہی دروازہ ان کے لیے بند تھا کیونکہ اس وقت کے خدیوی برطانیہ کے تابع تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اشعار میں مصری عوام، عرب قوم اور امت اسلامیہ کی ترجمانی شروع کی۔ آخر کار ۱۹۲۲ء میں مصر نے برطانیہ سے ظاہر ی آزادی حاصل کر لی اور خدیوی حکمرانوں نے مصر پر اپنی مستقل بادشاہت قائم کر لی۔ اس وقت عالمی منظر نامے میں اسلامی امت کی نمائندگی کرنے والی عثمانی خلافت اور مغرب اور ان کی پالتو قوم پرستانہ تحریکات میں کشمکش عروج پر تھی۔ چنانچہ اسلامی حمیت کے سبب احمد شوقی نے عثمانی خلافت کے بھر پور حمایت کی جس کا اندازہ ان کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔

۱۹۲۷ء میں عرب شعراء نے احمد شوقی کو امیر الشعراء کا لقب دیا۔ انہوں نے تقریباً شعر کے ہر صنف میں تقریبا 23 ہزار سے زائد ابیات کہے ہیں جو کہ جدید و قدیم تمام عرب شعراء سے زیادہ ہیں۔ یورپی ادب کے مطالعے کے نتیجے میں انہوں نے پہلی دفعہ عربی ادب میں ڈرامائی نظم کا اضافہ کیا جس میں مختلف کردار ایک دوسرے سے اشعار کی صورت میں مخاطب ہوتے ہیں10۔

نہج البردہ کے جہادی اشعار

اس سے پہلے کہ امیر الشعراء احمد شوقی ﷫ نبی اکرم ﷺ کے جہاد کا تذکرہ کریں وہ کئی ابیات میں آپ ﷺ کی ذاتی شجاعت بھی بیان کرتے ہیں:

  1. وَاللَيثُ دونَكَ بَأساً عِندَ وَثبَتِهِ … إِذا مَشَيتَ إِلى شاكي السِلاحِ كَمي

جھپٹتے ہوئے شیر کی قوت آپ ﷺکی قوت سے کم ہوتی ہے جب آپ مسلح جنگجوؤں کی طرف بڑھتے ہیں۔

  1. تَهفو إِلَيكَ وَإِن أُدمِيَتْ حَبَّتَها … في الحَربِ أَفئِدَةُ الأَبطالِ وَالبُهَمِ

آپ ﷺ کی جانب بہادر ابطال کے دل لپکتے ہیں جنگ میں چاہے خود ان کے دل خون خون ہو جائیں۔

تشریح: یعنی بہادر صحابہ ﷢ آپ ﷺ کی حفاظت اور دفاع کی خاطر آپ کی طرف لپکتے ہیں چاہے ان پر جو بھی گزرے۔

  1. مَحَبَّةُ اللَهِ أَلقاها وَهَيبَتُهُ … عَلى اِبنِ آمِنَةٍ في كُلِّ مُصطَدَمِ

یہ اللہ تعالی کی محبت اور ہیبت ہے جو اللہ تعالی نے حضرت آمنہ کے بیٹے ﷺ پر ہر جنگ کے موقع پر ڈالی ہے۔

  1. كَأَنَّ وَجهَكَ تَحتَ النَقعِ بَدرُ دُجىً … يُضيءُ مُلتَثِماً أَو غَيرَ مُلتَثِمِ

جنگ کے غبار کے اندر بھی آپ کا چہرہ ایسے روشن ہوتا ہے جیسے تاریک رات میں چودہویں کا چاند چاہے چہرہ پر نقاب ہو یا نہ ہو۔

  1. بَدرٌ تَطَلَّعَ في بَدرٍ فَغُرَّتُهُ … كَغُرَّةِ النَصرِ تَجلو داجِيَ الظُلَمِ

جنگ ِبدر میں آپ گویا چودہویں کی چاند کی طرح روشن تھے ۔آپ کی پیشانی گویا فتح و نصرت کی پیشانی ہے جس سے تاریک اندھیرے چھٹے جا رہے تھے۔

تشریح: یعنی جنگ بدر میں آپ کی ذات مسلمانوں کے لیے فتح و نصرت کی خوشخبری تھی جس سے کفر و شرک کے اندھیرے چھٹ گئے۔

کافی آگے جا کر پھر سے احمد شوقی جہادی ابیات کہتے ہیں:

  1. قالوا غَزَوتَ وَرُسلُ اللَهِ ما بُعِثوا … لِقَتلِ نَفسٍ وَلا جاؤوا لِسَفكِ دَمِ

لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جنگیں کیں جبکہ اللہ تعالی کے پیغمبر لوگوں کو قتل کرنے اور خون بہانے نہیں بھیجے گئے۔

  1. جَهلٌ وَتَضليلُ أَحلامٍ وَسَفسَطَةٌ … فَتَحتَ بِالسَيفِ بَعدَ الفَتحِ بِالقَلَمِ

یہ جہالت ہے، ذہنوں کو گمراہ کرنا ہے اور بکواس ہے۔ در حقیقت آپ نے قلم کے ذریعے فتح کرنے کے بعد تلوار سے فتح کیا۔

  1. لَمّا أَتى لَكَ عَفواً كُلُّ ذي حَسَبٍ … تَكَفَّلَ السَيفُ بِالجُهّالِ وَالعَمَمِ

جب آپ کی طرف ہر صاحب حسب و نسب خود چل کر آیا تو باقی جاہلوں اور عامیوں کا کام تلوار نے سنبھال لیا۔

  1. وَالشَرُّ إِن تَلقَهُ بِالخَيرِ ضِقتَ بِهِ … ذَرعاً وَإِن تَلقَهُ بِالشَرِّ يَنحَسِمِ

اگر برائی کا مقابلہ بھلائی سے کرو گے تو تم تنگ آ جاؤ گے۔ اور اگر برائی سے کرو گے تو برائی رک جاتی ہے۔

تشریح: یعنی بھلے لوگوں نے جب دلیل و حجت اور اخلاق و آداب سے آپ کو تسلیم کر لیا تو اس کے بعد ضدی معاندین و مخاصمین کے لیے تلوار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ برائی کو برائی سے روکنے سے مراد سختی کا سختی سے جواب دینا ہے ۔ لاتوں کے بھوت کو باتوں سے نہیں بدلا جا سکتا ۔

  1. سَلِ المَسيحِيَّةَ الغَرّاءَ كَم شَرِبَت … بِالصابِ مِن شَهَواتِ الظالِمِ الغَلِمِ

تم روشن عیسائیت سے پوچھو اس نے بپھرے ہوئے ظالموں کی خواہشات کی بدولت کتنے کڑوے گھونٹ پیئے۔

تشریح: عربی میں ’صاب‘ایک کڑوا پودے اور اس کے رس کو کہا جاتا ہے۔

  1. طَريدَةُ الشِركِ يُؤذيها وَيوسِعُها … في كُلِّ حينٍ قِتالاً ساطِعَ الحَدَمِ

شرک در بدر عیسائیت کے پیچھے لگا ہوا تھا تاکہ اسے اذیت دے ۔ اور ہمیشہ اس پر ایسی جنگ مسلط کر رکھتا تھا جس کے شعلے دور تک دکھائی دیتے تھے۔

  1. لَولا حُماةٌ لَها هَبّوا لِنُصرَتِها … بِالسَيفِ ما اِنتَفَعَت بِالرِفقِ وَالرُحَمِ

اگر عیسائیت کے ایسے حامی نہ ہوتے جو تلوار سے اس کی نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو اسے محض اپنی نرمی اور رحم دلی سے کوئی فائدہ نہ پہنچتا۔

تشریح: یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں عیسائیت کا بول بالا تب ہوا جب اسے رومی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد جہاد کے پیرائے میں ہی احمد شوقی حضرت عیسی ﷤ کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ مسلمانوں پر الزام بھی عیسائیوں کی طرف لگا آتا رہا ہے۔ اس میں حضرت عیسی ﷤ کی جہاں تعریف ہے وہاں عیسائیوں کے باطل عقیدے کا انکار بھی ہے:

  1. لَولا مَكانٌ لِعيسى عِندَ مُرسِلِهِ … وَحُرمَةٌ وَجَبَت لِلروحِ في القِدَمِ

اگر اللہ تعالی کے نزدیک حضرت عیسی﷤ کی روح کا اعلی مرتبہ اور ازلی حرمت نہ ہوتی

  1. لَسُمِّرَ البَدَنُ الطُهرُ الشَريفُ عَلى … لَوحَينِ لَم يَخشَ مُؤذيهِ وَلَم يَجِمِ

تو ان کا پاک اور با عزت جسم لکڑی کے دو تختوں پر ٹھونک دیا جاتا اور انہیں اذیت پہنچانے والے کو کوئی پرواہ نہ ہوتی اور نہ وہ گھبراتا۔

  1. جَلَّ المَسيحُ وَذاقَ الصَلبَ شانِئُهُ … إِنَّ العِقابَ بِقَدرِ الذَنبِ وَالجُرُمِ

مسیح ﷤ جلیل القدر ٹھہرے اور الٹا صلیب پر ان کو برا بھلا کہنے والا چڑھ گیا۔ جتنا گناہ اور جرم ہوتا ہے اتنی ہی سزا دی جاتی ہے۔

تشریح: یعنی کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے کے مصداق ان کے دشمن اسی چال میں پھنس گئے جو انہوں نے حضرت عیسی ﷤ کے لیے بنا رکھی تھی۔

  1. أَخو النَبِيِّ وَروحُ اللَهِ في نُزُلٍ … فَوقَ السَماءِ وَدونَ العَرشِ مُحتَرَمِ

نبی اکرم ﷺ کے بھائی ہیں وہ ۔ اور روح اللہ ہیں۔ آسمان کے اوپر عرش تلے ان کا اکرام ہو رہا ہے احترام کے ساتھ۔

تشریح: یعنی کہ وہ آسمانوں میں زندہ رہ ہے ہیں۔ ان اشعار کے بعد احمد شوقی پھر سے رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ ﷢ کے جہاد کا ذکر کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ مغرب کے پروپیگنڈے کے مقابلے میں جہاد و قتال کی حقانیت کی دلیلیں پیش کرتے ہیں۔

  1. عَلَّمتَهُم كُلَّ شَيءٍ يَجهَلونَ بِهِ … حَتّى القِتالَ وَما فيهِ مِنَ الذِمَمِ

آپ ﷺ نے صحابہ ﷢ کو وہ سب کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتے تھے ۔ یہاں تک کہ کیسے لڑا جاتا ہے اور اس میں کیا حقوق اور عہد و پیمان ہوتے ہیں۔

تشریح: یعنی کہ قتال کے احکام جن میں یہ بھی شامل ہے جب کوئی تسلیم ہو جائے تو اس کے ساتھ کیا کرنا ہے ۔ جس قوم کے ساتھ معاہدہ ہو تو اس کے ساتھ کب لڑنا ہے۔ جو ذمی بن جائے تو اس کے کیا احکام ہیں۔ جنگ کب ہو اور کب نہ ہو۔ یہ تمام احکام شریعت میں واضح موجود ہیں۔

  1. دَعَوتَهُم لِجِهادٍ فيهِ سُؤدُدُهُم … وَالحَربُ أُسُّ نِظامِ الكَونِ وَالأُمَمِ

آپ ﷺ نے انہیں جہاد کرنے کی دعوت دی جس میں ان کی سرداری ہے۔ اور جنگ نظام کائنات اور امتوں کی بنیاد ہے۔

تشریح: یعنی کہ کسی بھی قوم کی سیادت اور ریاست کے لیے جنگی قوت نا گزیر ہے۔

  1. لَولاهُ لَم نَرَ لِلدَولاتِ في زَمَنٍ … ما طالَ مِن عُمُدٍ أَو قَرَّ مِن دُعُمِ

اگر قتال نہ ہوتا تو ہم کسی بھی دور میں ریاستوں کے لمبے ستون اور اور مضبوط بنیادیں نہ دیکھتے۔

تشریح: یعنی تمدن اور ترقی اسی جنگ و قتال کی قوت کی بنیاد پر ہوا۔

  1. تِلكَ الشَواهِدُ تَترى كُلَّ آوِنَةٍ … في الأَعصُرِ الغُرِّ لا في الأَعصُرِ الدُهُمِ

یہ ثبوت تو ہر وقت دیکھنے میں چلے آ رہے ہیں۔ ظلم و تاریکی کے ادوار میں ہی نہیں بلکہ روشن ادوار میں بھی۔

تشریح: یعنی دور جدید میں کہاں پیار و محبت سے امن قائم ہوا ہے خود مغربی اقوام نے جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد قوت حاصل کر کے اقوام متحدہ کا جال بُنا۔ اس دور کو مغرب روشن دور سے یاد کرتا ہے قرون وسطی کے اپنے تاریک دور کے مقابلے میں۔

  1. بِالأَمسِ مالَت عُروشٌ وَاِعتَلَت سُرُرٌ … لَولا القَذائِفُ لَم تَثلَم وَلَم تَصُمِ

کل کو کچھ عرش گرے اور کئی تختوں پر بیٹھا گیا۔ اگر توپ اور گولے نہ ہوتے تو نہ ان عرشوں اور تختوں پر دراڑیں پڑتیں اور نہ وہ داغدار ہوتے۔

تشریح: آج کل اگر ہم مغرب کو امن کے گن گاتے ہوئے سنتے ہیں تو وہ اس لیے کہ وہ اپنی جنگی قوت پہلے ہی قائم کر چکے ہیں۔ اور ان کے مقابلے میں جب مسلم اقوام جنگی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ امن کا ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں۔ جبکہ ان کی ترقی تب ہی ہو سکی جب پہلے انہوں نے اپنی جنگی زور سے اپنے ممالک کو محفوظ کیا۔

  1. أَشياعُ عيسى أَعَدّوا كُلَّ قاصِمَةٍ … وَلَم نُعِدُّ سِوى حالاتِ مُنقَصِمِ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حامیوں نے ہر تباہ کن ہتھیار بنایا اور ہم نے صرف ناکامی کا سامان تیار کیا۔

تشریح: یہ مغرب کی صلیبی ذہنت کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے ایٹم بم بنا کر رکھے ہیں اور افغانستان اور فلسطین جیسے ممالک میں کوئی مسلمان ایک بندوق کی گولی چلاتا ہے تو اسے دہشت گرد کہتے ہیں۔ اور ان کے مقابلے میں امت مسلمہ کے حکمرانوں نے صرف ایسی سیاستیں اپنائی ہیں جن سے حالات مزید بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

  1. مَهما دُعيتَ إِلى الهَيجاءِ قُمتَ لَها … تَرمي بِأُسدٍ وَيَرمي اللَهُ بِالرُجُمِ

جب بھی آپ ﷺ کو قتال کی طرف بلایا گیا آپ اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ آپ نے کافروں پر شیروں کو جھونکا اور اللہ تعالی نے انہیں شہابِ ثاقبوں سے مارا۔

تشریح: یعنی کہ جب بھی مسلمان خالص نیت سے جہاد کرتے ہیں تو جہاں وہ قربانیاں پیش کرتے ہیں وہیں اللہ تعالی بھی ان کے نصرت کے اسباب مہیا کرتے ہیں۔

  1. عَلى لِوائِكَ مِنهُم كُلُّ مُنتَقِمٍ … لِلَّهِ مُستَقتِلٍ في اللَهِ مُعتَزِمِ

آپ ﷺکے ہر جھنڈے کے نیچے صحابہ (شیروں) میں سے اللہ تعالی کے لیے انتقام لینے والے، اللہ کی راہ میں کٹ مرنے والے اور پکے ارادے والے ہیں۔

  1. مُسَبِّحٍ لِلِقاءِ اللَهِ مُضطَرِمٍ … شَوقاً عَلى سابِحٍ كَالبَرقِ مُضطَرِمِ

اللہ تعالی کی ملاقات کے لیے جلدی دوڑے آتے ہیں۔ شوق کے جذبات میں مچلتے ہوئے تیز گھوڑے پر بیٹھے جیسے چمکتی ہوئی بجلی ہو ۔

تشریح: یہ مجاہدین کی صفات ہیں جو صحابہ میں پائی جاتی تھیں۔ جن کی دوستی اور دشمنی اللہ کی خاطر ہوتی ہے۔ ارادے کے پکے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی سے ملاقات اور شہادت کے لیے دوڑے آتے ہیں۔

  1. لَو صادَفَ الدَهرَ يَبغي نَقلَهُ فَرَمى … بِعَزمِهِ في رِحالِ الدَهرِ لَم يَرِمِ

جب وہ زمانے کو دیکھتے ہیں کہ وہ انہیں تبدیل کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے عزم کو زمانے کی پیٹھ پر ڈال دیتے ہیں تو زمانہ مڑ نہیں سکتا۔

تشریح: یہ مجاہدین کے پکے ارادے اور قوت عمل کی تشبیہ ہے جس سے وہ حالات کو اپنے موافق ڈھالنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ افغانستان میں امارت اسلامیہ کی فتح آج کے دور میں اس کی ایک روشن مثال ہے۔

  1. بيضٌ مَفاليلُ مِن فِعلِ الحُروبِ بِهِم … مِن أَسيُفِ اللَهِ لا الهِندِيَّةُ الخُذُمُ

جنگوں میں استعمال ہونے سے ان کی تلواریں سفید ہیں اور ان میں درز ہیں۔ یہ اللہ کی تلواریں ہیں نہ کہ تیز دھار والی ہندی تلواریں۔

تشریح: مقصد یہ ہے کہ ان کا بھروسہ محض ٹیکنالوجی پر نہیں ہے۔ ان کے اسلحہ کو زنگ اس لیے نہیں لگتا کہ وہ مسلسل لڑتے رہتے ہیں۔ اور اس کے سبب اسلحہ پرانا بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ کی نصرت ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ اللہ کی نصرت محض جدید اور اعلی ہتھیاروں سے نہیں ہوتی۔ ہندی تلواریں عرب میں اعلی نوعیت کی تلواریں گردانی جاتی تھیں۔ یوں کہہ لیں کہ مجاہدین نے اپنی پرانی کلاشنکوفوں سے دشمن کے طیاروں تک کو شکست دے دی۔

  1. كَم في التُرابِ إِذا فَتَّشتَ عَن رَجُلٍ … مَن ماتَ بِالعَهدِ أَو مَن ماتَ بِالقَسَمِ

مٹی میں تم ڈھونڈو تو کتنے مرد ایسے پاؤ گے جو اپنے کیے گئے عہد کے سبب مر گئے یا اپنی قسم کے سبب۔

تشریح: جیسے قرآن کریم میں صحابہ ﷢ کی صفت بیان کی گئی اور سیرت صحابہ کے بے شمار واقعات ہیں جس میں انہوں نے اللہ سے وعدہ کر رکھا تھا کہ یا اللہ اس کی خاطر اپنی جان دے دیں گے اور موت پر قسم کھاتے تھے۔ یہاں بنیادی طور پہ جہادی اشعار ختم ہو جاتے ہیں لیکن کافی آگے جا کر احمد شوقی پھر سے صحابہ کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

  1. مَنِ الَّذينَ إِذا سارَت كَتائِبُهُم … تَصَرَّفوا بِحُدودِ الأَرضِ وَالتُخَمِ

جب صحابہ اور امتیوں کے لشکر جاتے ہیں تو وہ ملک کی سرحدوں اور زمین کے جغرافیے کو بدل ڈالتے ہیں۔

  1. وَيَجلِسونَ إِلى عِلمٍ وَمَعرِفَةٍ … فَلا يُدانَونَ في عَقلٍ وَلا فَهَمِ

جب وہ علم و معرفت کے لیے بیٹھتے ہیں تو ان کے عقل و فہم کے برابر کوئی نہیں ٹھہرتا۔

تشریح: یہاں پھر سے سیف و قلم کا تذکرہ ہے۔ یعنی کہ دین ان دونوں کا مجموعہ ہے۔ بلکہ ہر قوم تب ہی ابھر سکتی ہے جب اس کے پاس مضبوط نظریے کے ساتھ مادی قوت بھی ہو۔ پھر احمد شوقی آگے جا کر مزید کئی اشعار میں خصوصاً چار خلفائے راشدین کا تذکرہ کرتے ہیں یعنی کہ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت حیدر علی ﷢ اور ان کی شجاعت اور جہاد کی تعریف کرتے ہیں:

  1. وَأَهدِ خَيرَ صَلاةٍ مِنكَ أَربَعَةً … في الصَحبِ صُحبَتُهُم مَرعِيَّةُ الحُرَمِ

میں بہترین درود ہدیہ کرتا ہوں ان صحابہ میں سے چار پر ۔ جن کی صحبت کی حرمت کی نگہبانی کی جاتی ہے۔

  1. الراكِبينَ إِذا نادى النَبِيُّ بِهِم … ما هالَ مِن جَلَلٍ وَاِشتَدَّ مِن عَمَمِ

جب نبی اکرم ﷺ انہیں پکاریں تو وہ سوار ہو کر چلے آتے ہیں۔ جب بھی خطرناک حالت میں ہیبت طاری ہو اور سختیاں بڑھ جائیں۔

  1. الصابِرينَ وَنَفسُ الأَرضِ واجِفَةٌ … الضاحِكينَ إِلى الأَخطارِ وَالقُحَمِ

جب خود زمین لرز جاتی ہے وہ صابر پائے جاتے ہیں۔ جو خطرے کو مول لیتے ہوئے سخت دراز راستے پر چلتے ہوئے مسکراتے ہیں۔

قصیدوں کا مجموعی تجزیہ

حضرت کعب ﷜ کے قصیدے بردہ کے ابیات اٹھاون (۵۸) ہیں لیکن پہلے طونتیس (۳۴)ابیات اس دور میں عرب کی روایات کے مطابق غزلیہ تھے ۔ جبکہ قصیدے کے آخری تیئس (۲۳) ابیات خاص رسول اکرم ﷺ کی مدحت کے ہیں جن میں سے آخری آٹھ آپﷺ اور صحابہ کی بہادری اور ہجرت و جہاد کے بارے میں ہیں۔ گویا نعت کا پینتیس فی صد حصہ جہاد کے تذکرے سے بھرا ہے۔ حضرت بوصیری ﷫ نے اپنے قصیدے بردہ کے ایک سو باسٹھ (۱۶۲)اشعار میں سے بائی س(۲۲)اشعار آپ ﷺ اور صحابہ کرام کے جہاد کے لیے مخصوص کیے۔ گویا تقریباً قصیدے کا چودہ (۱۴)فی صد حصہ ۔ جبکہ امیر الشعراء احمد شوقی ﷫ نے اپنے قصیدے نہج البردہ کے ایک سو نوّے (۱۹۰)اشعار میں سے آپ ﷺ اور صحابہ کے جہاد کے لیے تیئس (۲۳)ابیات مخصوص کیے ہیں لیکن آگے پیچھے رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کی شجاعت کے بیان میں مزید دس ابیات ہیں۔ گویا کل تینتیس (۳۳)ابیات جہاد و قتال کے بارے میں ہیں۔ یعنی کہ قصیدے کا سترہ (۱۷)فی صد سے زیادہ حصہ جہاد کے تذکرے سے بھرا ہے۔

حیرانی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل میلاد شریف کے موقع پر اور عموماً تمام نعتوں میں جہاد کا کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ کیا یہ مغرب کے ڈر سے ’خود ساختہ سنسر شپ‘ کے سبب تو نہیں؟؟

بردہ شریف کی کہانی

محترم قارئین ! کیونکہ ان اشعار کو بردہ شریف سے موسوم کیا گیا تو مناسب سمجھا کہ بردہ شریف کے بارے میں یہاں کچھ ذکر کردوں۔ عربی زبان میں اوڑھنے والی سادہ چادر کو شملہ کہتے ہیں جبکہ وہ چادر جو دھاری دار ہو، یا اس کے کناروں پر کڑھائی وغیرہ کی گئی ہو تو اسے بُرْدَہ کہتے ہیں اور عموما وہ اون کی ہوتی ہے یا نسبتا موٹی ہوتی ہے11۔ بے شمار احادیث اور کتب سیرت سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ بردہ اوڑھا کرتے تھے۔ امام سیوطی ﷫ نے امام احمد بن حنبل ﷫ کی کتاب ’الزہد‘ سے حضرت عروہ بن زبیر ﷜ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ فرماتےہیں کہ: ”رسول اللہ ﷺ وفود سے ملنے کے لیے جو چادر اوڑھتے تھے ۔وہ حضرمی12 چادر تھی جس کی لمبائی چار گز اور چوڑائی اڑھائی گز تھی۔ یہ چادر اب خلفاء کے ہاں ہوتی ہے لیکن پرانی ہو چکی ہے چنانچہ اسے کپڑوں میں لپیٹے رکھتے ہیں اور صرف عیدین کے دن اوڑھتے ہیں“۔

آپ ﷺ کے مشہور بردوں میں ایک وہ بردہ ہے جو انہوں نے حضرت کعب بن زہیر ﷜ کو تب عنایت فرمایا جب انہوں نے آپ ﷺ کی مدح میں اپنا مشہور قصیدہ پڑھا جو سب سے پہلے قصیدہ ’بردہ‘ سے مشہور ہوا۔ حضرت معاویہ ﷜ جب خلیفہ بنے تو انہوں نے حضرت کعب سے یہ بردہ دس ہزار درہم کے بدلے خریدنا چاہا لیکن حضرت کعب نے نبی اکرم ﷺ کے تبرک ہونے کی خاطر انکار کر دیا ۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت معاویہ نے یہ بردہ ان کے بیٹوں سے بیس ہزار درہم کے بدلے خرید لیا۔ اس کے بعد بردہ پہننا خلفاء کی روایت بن گئی۔ امام سیوطی کی رائے ہے کہ یہ بردہ اموی خلافت کے خاتمے کے ساتھ گم ہو گیا تھا۔

آپ ﷺ کا ایک دوسرا بردہ بھی تھا جو آپ ﷺ نے جنگ تبوک کے موقع پر اہالیان ایلہ کو امان دیتے ہوئے بھیجا جب ان کے یہودی سردار تسلیم ہونے آئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایلہ ’اصحاب سبت‘ کی جائے سکونت تھی جس کے کھنڈرات آج تک موجودہ اردن کے شہر عقبہ کے قریب واقع ہیں۔ پہلے عباسی خلیفہ ابو العباس السفاح نے یہ بردہ تین سو دینار کے بدلے اہالیان ایلہ سے خرید لیا۔13

امام سیوطی کہتے ہیں خلفائے اسلام نبوی بردے صرف عیدین اور خاص خاص موقعوں پر پہنا کرتے تھے ۔ پھر ذکر کرتے ہیں کہ جب عباسی خلیفہ مقتدر باللہ کو قتل کیا گیا تو انہوں نے یہ بردہ پہن رکھا تھا چنانچہ وہ خون آلودہ ہو گیا۔ آخر میں فرماتے ہیں: ”میرے گمان کے مطابق تاتاریوں کے فتنے میں یہ ضائع ہو گیا۔ وانا للہ وانا الیہ راجعون“۔ قرمانی بھی اس واقعے کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا اور خلیفہ مستعصم ہلاکو سے ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے یہ بردہ پہن رکھا تھا اور ہاتھ میں آپ ﷺ کی چھڑی تھی۔ ہلاکو نے بردہ اور چھڑی لے کر انہیں جلا ڈالا اور ان کی راکھ کو دریائے دجلہ میں بہا دیا۔ اور کہا: ”میں نے انہیں تحقیر کی وجہ سے نہیں جلایا بلکہ ان کو پاک کرنے کے لیے جلایا“!! اللہ اسے ہلاک و برباد کرے۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ تمام خلفائے اسلام کے ہاں عموماً لیکن عباسی خلافت میں خصوصا نبی اکرم ﷺ کا بردہ اور عصا خلافت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔

اب معلوم نہیں کہ کون سا بردہ اموی خلافت کے خاتمے کے ساتھ ضائع ہوا اور کون سا عباسی اقتدار کے خاتمے کے ساتھ اگرچہ معاصر مؤرخ احمد تیمور پاشا کہتے ہیں کہ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ عباسی خلفاء کے پاس حضرت کعب والا بردہ ہی تھا۔ پھر ایک بردہ عثمانی سلاطین کو بھی پہنچا جس کے لیے سلطان مرادا خان نے سونے کا صندوق بنایا جو آج کل استنبول شہر کے سلطانی قصر طوپ قپو کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ قرمانی کا خیال ہے کہ یہ بردہ اہالیان ایلہ والا بردہ تھا نہ کہ حضرت کعب والا لیکن خود قرمانی کی روایتوں میں تضاد پایا جاتا ہے جب وہ دونوں بردوں کے ضائع ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت کعب والے بردے کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ وہ حضرت معاویہ ﷜ کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیا تھا! اگر ایک اموی خلافت کے آخر میں گم گیا اور دوسرا عباسی خلافت کے آخر میں تاتاریوں کے ہاتھ جلا دیا گیا تو عثمانیوں کو پھر کون سا ملا۔ واللہ اعلم۔

کہا جاتا ہے کہ ۱۵۱۷ء میں عثمانی سلطان سلیم الاول نے جب مصر پر قبضہ کیا تو وہاں موجود شریف مکہ نے حرمین شریفین کی چابیاں انہیں پیش کیں جس کا مقصد تھا کہ اب حجاز بھی عثمانی اقتدار کے تحت ہے۔ اور وہیں آخری عباسی خلیفہ محمد الثالث المتوکل آل عثمان کے لیے خلافت سے دستبردار ہو گیا اور سلطان سلیم کو قیمتی تحائف پیش کیے جنہیں سلطان اپنے ساتھ استنبول لے گیا۔ اس واقعے کے بعد سے عثمانی سلطنت ، سلطنت سے خلافت بن گئی اور سلطان کا لقب امیر المؤمنین اور خلیفہ رسول رب العالمین ٹھہرا۔ لیکن آیا ان تحائف میں بردہ شریف شامل تھا یا نہیں ؟مؤرخ احمد تیمور پاشا اپنی کتاب الآثار النبویہ میں کہتے ہیں کہ یہ بات مشہور تو ہے کہ سلطان سلیم کو تحائف اور تبرکات پیش کیے گئے لیکن ایسی کوئی تفصیلی روایت نہیں ہے کہ آیا ان میں بردہ شریف بھی شامل تھا یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب سا معلوم ہوتا ہے کہ اگر تبرکات میں بردہ شامل ہوتا اور روای اس کا تذکرہ نہ کرتے کیونکہ یہ بردہ محض بردہ نہیں تھا بلکہ نبی اکرم ﷺ کا اہم ترین تبرک اور ان کی خلافت کی علامت بھی تھا۔ اگرچہ خود عثمانی یہ دعوی کرتے رہے کہ یہ بردہ حضرت کعب والا ہے۔ بحث کو سمیٹے ہوئے مؤرخ احمد تیمور پاشا کہتے ہیں: ”ہم نے کسی بھی با اعتماد شخص کو نہیں دیکھا جس نے ان آثار کی تائید کی ہو یا ان سے انکار کیا ہو۔ لہذا اللہ سبحانہ وتعالی ہی بہتر جانتا ہے“۔14

ان دو بردوں کے علاوہ ایک اور بردہ بھی ہے جس کی نسبت نبی اکرم ﷺ کی طرف کی جاتی ہے اور جو استنبول کی مسجد خرقہ شریف میں موجو د ہے۔ لیکن اس کے بارے میں مروجہ روایت یہ ہے کہ یہ بردہ وہ ہے جو حضور پاک ﷺ نے مشہور تابعی حضرت اویس قرنی ﷫ کو دینے کی وصیت کی تھی15۔ میں نے حضرت اویس کے بردے کی روایت کو مشہور کتب میں ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن مجھے کہیں یہ روایت نہیں ملی کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے کسی بردے کی وصیت کی تھی۔ البتہ حضرت اویس کے بارے میں یہ ذکر ملتا ہے کہ وہ اتنے فقیر تھے کہ ان کے پاس بسا اوقات اتنے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے کہ وہ مجالس میں بیٹھ سکیں یا حتی کہ بعض دفعہ مساجد میں نماز ادا کر سکیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں تابعی حضرت اسیر بن جبیر﷫ نے ان سے باہر نہ نکلنے کا سبب دریافت کیا۔ اور جب انہیں سبب معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت اویس کو اپنی طرف سے ایک بردہ تحفے میں دیا۔ جب وہ پہن کر نکلے تو لوگ حیران ہو کر کہنے لگے دیکھو اویس کہاں اور بردہ کہاں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ان کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان کا ازار بھی اون کا ہو گا اور ان کا رداء یعنی چادر بھی اون کی ہو گی16۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس نبوی تبرک اور خلافت کی نشانی کو دوبارہ اس شان و شوکت کے ساتھ ظاہر کرے جس شان و شوکت سے خلفائے اسلام اسے پہنا کرتے تھے۔

٭٭٭٭٭


1 – یہ بطل آج تک عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

2 – الرسول صلى الله عليه وآله وسلم في عيون غربية منصفة کے مصنف حسین حسینی معدی نے اپنی کتاب میں مغربیوں کی جانب سے آقائے دو جہان محمد ﷺ کی گستاخی کی تاریخ پر نظر ڈالی ہے اور ثابت کیا ہے کہ بعثت نبوی کے دور سے ہی مغربیوں نے ایسے کام کیے ہیں۔

3 – دیکھیے: تاريخ ابن كثير البداية والنهاية 123/7۔ ثلاثية البردة بردة الرسول صلى الله عليه وآله وسلم (ص: 19)

4 – سورہ الحدید آیت ۲۳۔

5 – اشعار کے ترجمے اور تشریح کے لیے مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا ہے:سيرة ابن هشام ت السقا (2/ 512)۔ شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (4/ 60)۔ بهجة المحافل وبغية الأماثل (1/ 455)۔ ثلاثية البردة بردة الرسول صلى الله عليه وآله وسلم (ص: 44)

6 – یعنی کہ کتابیں نسخ کرنا اور امراء اور حکام کے لیے خطوط وغیرہ تحریر کرنا۔

7 – دیکھیے: الوافي بالوفيات از الصفدی (وفات:764ھ)۔

8 – دیکھیے: حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة از اماما سیوطی(1/ 570) اور قراءۃ فی بردۃ البوصیری بحوالہ دیوان البوصیری للطباع۔

9 – ترجمےاور تشریح کے لیے ان کتب سے استفادہ کیا ہے: محمد يحيى حلو کی کتاب البردة شرحا وإعرابا وبلاغة لطلاب المعاهد والجامعات اور حسن حسين کی کتاب ثلاثية البردة بردة الرسول صلى الله عليه وآله وسلم۔

10 – دیکھیے الأعلام للزركلي (1/ 136) اور ویکی پیڈیا۔

11 – دیکھیے تاج العروس 413؍7۔

12 – یعنی کہ یمن کے علاقے حضرت موت کی تھی۔

13 – دیکھیے: المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار از مقریزی اور ویکی پیڈیا۔

14 – دیکھیے: تاريخ الخلفاء از سیوطی(ص: 20) اخبار الدول وآثار الاول از قرمانی۔ 250؍1۔ الآثار النبویہ از احمد تیمور پاشا (وفات: 1930ء)۔

15 – عربی ویکی پیڈیا میں ترکی کی سرکاری اخبار کی ایجنسی اناضول کے حوالے سے۔ اور معلوم نہیں کہ قندھار میں موجود خرقہ شریف کی کیا روایت ہے جسے امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد ﷫ نے اپنے دور میں عوام کے سامنے پکڑ کر دکھایا۔ (دیکھیے پشتو میں ان کا تذکرہ ’عمر ثالث‘)۔

16 – میں نے خصوصا ان چار کتابوں میں حضرت اویس کا تذکرہ پڑھا ہے: تاریخ دمشق از ابن عساکر ۔ طبقات کبری از ابن سعد ۔ اسد الغابہ از ابن اثیر۔ اور سیر اعلام النبلاء از ذہبی۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کافی کتب پر نظر دوڑائی۔

Previous Post

آخری نبی کے دربار میں (صلی اللہ علیہ وسلم)

Next Post

کامیابی کا واحد، کھلا اور سیدھا راستہ

Related Posts

خیر خواہی یا بد خواہی
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

خیر خواہی یا بد خواہی

24 ستمبر 2025
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

پیغمبر ﷺ کا حُسن و جمال

15 نومبر 2024
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

محمد رسول اللہ ﷺ

15 نومبر 2024
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

مروجہ طریقے سے میلاد منانا شرعاً درست نہیں!

15 نومبر 2024
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

ہمارے محبوب کا حلیۂ مبارک [صلی اللہ علیہ وسلم]

28 ستمبر 2023
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق

28 ستمبر 2023
Next Post

کامیابی کا واحد، کھلا اور سیدھا راستہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version