نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home آخرت

موت وما بعد الموت | سترھواں درس

قیامت کے دن کفار کو پیش آنے والے حالات

انور العولقی by انور العولقی
31 مئی 2024
in آخرت, اپریل و مئی 2024
0

قیامت کے دن کفار کو پیش آنے والے حالات

یوم آخرت کی اہمیت

انسان اگر دنیا کے مقابلے میں آخرت کی اہمیت جاننا چاہے تو ریاضی کی سادہ سی مساوات (equation) کے ذریعے حساب لگا کر دنیا و آخرت کے مابین تناسب جان سکتا ہے۔ اگر کوئی انسان دنیا میں ساٹھ، ستّر یا چلیں سو برس جیے، جبکہ اخروی زندگی دائمی ہے، لامنتہا، لامحدود ہے…… تو دنیا اور آخرت کے مابین کیا تناسب بنے گا؟ آپ سو کو لامنتہا سے تقسیم کریں تو آپ کو کیا حاصل ہوگا؟…… صِفر ……! یعنی دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں صفر ہے؛ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ریاضی جانے بغیر بھی یہ بات جانتے تھے…… ان کے خطبے آخرت کے گرد گھومتے تھے، ان کے دروس و نصائح آخرت کی یاد دلاتے تھے اور وہ ایک دوسرے کو آخرت ہی کی تذکیر کرتے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخرت کے حوالے سے خطبات ارشاد فرمایا کرتے۔قرآن بھی آخرت کا ذکر نہایت تفصیل کے ساتھ کرتا ہے۔ ہم قیامت کے دن کے حوالے سے گفتگو کررہے ہیں…… اس سے پہلے ہم نے موت اور برزخ کی زندگی کا ذکر کیا اور اب ہم قیامت کا ذکر کررہے ہیں۔

قیامت کا دن محض ایک ہی دن ہے مگر اس کے بارے میں گفتگو کرنے کے لیے کافی وقت چاہیے کیونکہ یہ ایک دن نہایت اہم اور نہایت طویل ہے…… یوم قیامت پچاس ہزار برس کے برابر طویل ہے۔

ایک بدو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پُرحکمت دعا کو بہت پسند فرمایا۔ دعا تو طویل ہے مگر اس کا آخری حصہ ہم یہاں ذکر کریں گے ؛ اس نے کہا: اسئلک أن تجعل خیر عملی آخرھا، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرے آخری اعمال کو بہترین بنادے، وخیر عمری آخرہ؛ اور میری زندگی کا بہترین حصہ اس کا آخری حصہ ہو؛ اور پھر اس نے بہترین دن کے طور پر ایک دن کا انتخاب کیا……! وہ کون سا دن تھا جسے اس نے منتخب کیا؟ کیا اس نے گریجویشن کی سند پانے کا دن منتخب کیا یا اس نے اپنی شادی کے دن کو بہترین دن کے طور پر منتخب کیا؟؟؟ اس نے کہا : واجعل خیر ایامي یوم القاک، میرے اس دن کو بہترین ثابت فرمادے کہ جس دن میں تجھ سے ملاقات کا شرف حاصل کروں…… یعنی یوم قیامت۔

اس دعا میں بہت حکمت ہے کیونکہ یوم قیامت پچاس ہزار برس طویل دن ہے جس کے مقابل انسان کی دنیا کی زندگی محض ایک ذرہ ہے ؛ گر وہ ایک دن بہترین گزر گیا تو سب دنوں پر بھاری ہے؛ خواہ انسان کی دنیا کی زندگی کیسی ہی مشکل کیوں نہ گزری ہو۔ جبکہ دوسری طرف اگر دنیا کی زندگی تو بہت راحت میں گزری مگر یہ ایک دن برا گزرا تو پوری زندگی کی راحت و آرام کچھ فائدہ نہ دے گا۔ لہٰذا اس بدو کی دعا حکمت سے بھرپور ہے جس نے کہا کہ اجعل خیر ایامي یوم القاک؛ ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم اس حال میں اپنے رب سے ملیں کہ وہ ہم سے راضی ہو…… اور یہی اصل کامیابی ہے۔

قیامت کے طویل دن میں بہت سے واقعات رونما ہوں گے اور لوگ اس دن بہت سے مختلف حالات سے گزریں گے…… ہم درجہ بدرجہ ان کا ذکر کریں گے۔

سلسلۂ دروس آخرت کے خاکے وترتیب کا منبع

یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ ان دروس کا بنیادی خاکہ اور ترتیب میں نے شیخ عمر الاشقر کی ’عقیدہ‘ کے موضوع پر لکھی گئی شاندار سلسلہ کتب سے لی ہے۔ یہ کتابیں مختلف ابواب پر مشتمل ہیں اور شیخ نے ایک پورا باب ’ آخرت‘ کے موضوع کے لیے مختص کیا ہے۔ آخرت کا یہ باب ’قیامت صغری‘، ’قیامت کبری‘، ’جنت‘ اور جہنم‘ کے عنوانات پر تقسیم کیا گیا ہے۔ شیخ عمر الاشقر نے سیکڑوں ’امہات الکتب‘1 کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد ان کتب کی صورت میں علم کے خزانے ہم تک پہنچائے ہیں۔ شیخ عمر الاشقر کے اس سلسلہ کتب کا انگریزی ترجمہ موجود نہیں ہے البتہ ہم ان دروس میں ان کتابوں سے استفادہ کریں گے۔

شیخ عمر الاشقر لوگوں کو قیامت کے دن پیش آنے والے حالات کے اعتبار سے تین درجوں میں تقسیم کرتے ہیں: الکفار، والعَصی، والمتقون ؛ یعنی کفار پر گزرنے والے حالات، گناہ گار مسلمانوں کے حالات اور پھر متقین صالحین کے حالات ؛

قیامت کے دن کفار کے حالات

اس درس میں ہم پہلے درجے والوں کا ذکر کریں گے یعنی کفار کی حالت کا؛ اس کو بھی وہ تین درجوں میں تقسیم کرتے ہیں:

  1. الذُل والھَوان

بے توقیر اور ذلیل ورسوا ہونے والے؛ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے حق کو جھٹلایا؛

اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿ يَوْمَ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ يُّوْفِضُوْن؀ خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذٰلِكَ الْيَوْمُ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ ؀﴾ (سورۃ المعارج: ۴۳، ۴۴)

’’ ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی ‘ ذلت ان پر چھائی ہوئی ہوگی؛ یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ جس دن وہ نکلیں گے اپنی قبروں سے دوڑتے ہوئے ‘ جیسے کہ وہ مقرر نشانوں کی طرف بھاگے جا رہے ہوں۔ ‘‘

اللہ سبحانہ تعالیٰ وہ کیفیت بیان فرماتے ہیں کہ جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو وہ اس طرح بھاگ رہے ہوں گے گویا وہ کسی مقرر نشان تک پہنچنے کی جلدی میں ہوں۔ہر ایک بھاگ رہا ہوگا مگر درحقیقت وہ کسی خاص مقام اور نشان کی جانب نہیں بھاگ رہے ہوں گے؛ بلکہ اس دن واقع ہونے والے حالات و واقعات کا خوف انہیں دوڑا رہا ہو گا۔اللہ رب العزت نے ایک اور آیت میں ان کی کیفیت اس طرح بیان فرمائی ہے:

﴿ وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ ﴾ (سورۃ الحج: ۲)

’’ اور لوگ تمہیں یوں نظر آئیں گے کہ وہ نشے میں بدحواس ہیں؛ حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوگا۔ ‘‘

ہم میں سے بہت سے لوگ ہیں جو جب ظلم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ یہ ہوکیسے سکتا ہے اور یہ کیسے جاری رہ سکتا ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کیسے اس سب کی مہلت دے رہے ہیں! اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَارُ مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَاَفْٕدَتُهُمْ هَوَاءٌ ؀ ﴾ (سورۃ ابراہیم: ۴۲)

’’ اور یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو کچھ یہ ظالم کر رہے ہیں، اللہ اس سے غافل ہے۔ وہ تو ان لوگوں کو اس دن تک کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ وہ سروں کو اوپر اٹھائے دوڑ رہے ہوں گے، ان کی نگاہیں جھپکنے کو واپس نہیں آئیں گی اور ان کے دل (بدحواسی میں) اڑے جارہے ہوں گے ۔ ‘‘

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ اللہ رب العزت واقف نہیں ہیں، جانتے نہیں ہیں کہ کیا ہورہا ہے…… اللہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، سب جانتے ہیں ؛ مگر اللہ انہیں مہلت دے رہے ہیں ؛ تصور کریں یوم قیامت کے منظر کا کہ جب لوگوں کی گردنیں تنی ہوئی ہوں گی، ان کے سر ایک طرف کو اٹھے ہوں گے اور ان کی آنکھیں اوپر کو دیکھ رہی ہوں گی مگر وہ پلکیں نہ جھپکتے ہوں گے…… وہ پلکیں اس لیے نہ جھپک پائیں گے کہ اس روز انسان ایک لمحے کی غفلت کی گنجائش بھی نہ پائے گا…… اس روز یہ آنکھیں پھٹی ہوں گی اور پلک بھی نہ جھپکتی ہوں گی جبکہ دنیا کی پوری زندگی میں یہ آنکھیں غفلت کی نیند سوئی رہیں۔

دل کی مضبوطی بہادری اور شجاعت کی علامت ہوتی ہے جبکہ اللہ رب العزت ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کے دل خالی ہوں گے؛ ہوا کی طرح ہلکے ہوں گے اور اردگرد جو کچھ بھی ہوگا ان کے دل فوراً اس سے متاثر ہو کر خوف سے لرزنے لگیں گے۔ ایک اور آیت میں اللہ رب العزت ان کی کیفیت کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس قدر تکلیف میں ہوں گے کہ گویا پھٹے جاتے ہوں اور ان کے دل ان کے حلق میں پھنس گئے ہوں گے جیسے کہ انہیں پھندا لگا ہو۔

﴿ وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كٰظِمِيْنَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ وَّلَا شَفِيْعٍ يُّطَاعُ ﴾ (سورۃ الغافر: ۱۸)

’’ (اے پیغمبر ! ) ان لوگوں کو ایک ایسی مصیبت کے دن سے ڈراؤ جو قریب آنے والی ہے، جب لوگوں کے کلیجے (غم سے) گھٹ گھٹ کر منہ کو آجائیں گے، ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی ایسا سفارشی جس کی بات مانی جائے ۔ ‘‘

يَوْمَ الْاٰزِفَةِ

جب ہم یوم قیامت کا ذکر کرتے ہیں تو ایسے بات کرتے ہیں جیسے کہ وہ بہت دور ہے، بعید ہے، ناقابل حصول ہے؛ اللہ رب العزت اسے يَوْمَ الْاٰزِفَةِ کہہ کر یاد فرماتے ہیں۔ الْاٰزِفَةِ اسے کہتے ہیں جو بالکل نزدیک ہو، قریب ہو، دور نہ ہو…… اور یوم قیامت قریب ہی ہے۔ ایک اور آیت میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿ اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ﴾ (سورۃ النحل: ۱)

’’ اللہ کا حکم آن پہنچا ہے، لہٰذا اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ ۔ ‘‘

اس آیت مبارکہ میں اللہ کے حکم سے مراد یوم قیامت ہے، وہ آہی گیا ہے لہٰذا تم جلدی نہ مچاؤ؛ آج ہم یہاں بیٹھے یوم قیامت کا ذکر کررہے ہیں اور بہت جلد وہ وقت ہوگا کہ ہم میدان حشر میں کھڑے ہوں گے؛ اور یہ سب کچھ جو ہم کتابوں سے دیکھ کر بیان کررہے ہیں…… اس سب کو ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے…… اور وہ دن دور نہیں ہے۔ آپ اگر اپنی پوری گزشتہ زندگی پر ایک نگاہ ڈالیں اور اسے ایک نشست میں بیان کرنا چاہیں تو آپ برسوں کی کہانی محض آدھے گھنٹے میں سنا کر فارغ ہوجائیں گے…… اور پھر بہت جلد ہماری زندگی کا وہ وقت آجائے گا جب ہم اپنے بستروں پر لیٹے اپنی موت کے منتظر ہوں گے …… اور بس پھر بہت جلد میدان حشر میں اکٹھے ہوں گے…… وہ دن دور نہیں ہے…… اللہ رب العزت نے اسے الْاٰزِفَةِ فرمایا ہے؛ وہ دن جو قریب ہی ہے، آیا ہی چاہتا ہے، جو بس آہی گیا ہے۔

اس دن…… جسے یوم القیامۃ کہا گیا ہے…… اس روز لوگ کھڑے ہوں گے…… القیامۃ کا معنی کھڑے ہونا ہی ہے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تُدْنَی الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ الْخَلْقِ حَتَّی تَکُونَ مِنْهُمْ کَمِقْدَارِ مِيلٍ …… قَالَ فَيَکُونُ النَّاسُ عَلَی قَدْرِ أَعْمَالِهِمْ فِي الْعَرَقِ فَمِنْهُمْ مَنْ يَکُونُ إِلَی کَعْبَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَکُونُ إِلَی رُکْبَتَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَکُونُ إِلَی حَقْوَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا۔ (صحیح مسلم)

’’ قیامت کے دن سورج مخلوق سے اس قدر قریب ہوجائے گا یہاں تک کہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر ہوجائے گا [عربی زبان میں میل مسافت کے ماپ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور سرمہ لگانے کی سلائی کے لیے بھی …… یعنی بہت کم فاصلہ؛ مقصد یہ ہے کہ سورج اس دن بہت قریب ہوگا]……… آپ نے فرمایا لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینہ میں غرق ہوں گے اور ان میں سے کچھ لوگوں کے گھٹنوں تک پسینہ ہوگا اور ان میں سے کسی کی کمر تک اور ان میں سے کسی کے منہ میں پسینہ کی لگام ہوگی ۔ ‘‘

سورج اس قدر قریب ہوگا اور لوگ اپنے اعمال کی مناسبت سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے؛ بعض کا پسینہ ان کے ٹخنوں تک پہنچتا ہوگا اور بعض کا گھٹنوں تک اور بعض ایسے بھی ہوں گے جو کندھوں تک پسینے میں ڈوبے ہوں گے اور وہ بھی ہوں گے جنہیں ان کا پسینہ اپنے اندر غرق کرلے گا۔ جس قدر کوئی انسان گناہ گار ہوگا اسی قدر اس کا پسینہ زیادہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے اعمال کے بقدر سورج کی حرارت سے متاثر ہوگا۔ لیکن صالحین کہاں ہوں گے؟ وہ اللہ رب العزت کے عرش تلے سائے میں ہوں گے۔

ایک اور کیفیت جس سے ظالمین گزریں گے اور اللہ اسے بیان فرماتے ہیں؛ ضمنی طور پہ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ قرآن پاک کی بہت سی آیات ایسی ہیں جو انسان سے اس کیفیت کو تصور کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں، اور انسان جب تک تصور نہ کرے تب تک اس آیت کا درست فہم اور صحیح ادراک نہیں پا سکتا؛ قرآن تصویر کشی کرتا ہے؛ اللہ رب العزت انسان کے سامنے تصور پیش کرتے ہیں؛ بالخصوص جب ہم آخرت کے احوال کا ذکر کرتے ہیں تو اللہ رب العزت قرآن پاک میں آخرت کے حوالے سے بہت سے خاکے یا تصور پیش کرتے ہیں تاکہ انسان اس کیفیت کا ادراک درست طریقے سے کرسکے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا؀﴾ (سورۃ الفرقان: ۲۷)

’’ اور جس دن ظالم انسان (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا، اور کہے گا : کاش میں نے پیغمبر کی ہمراہی اختیار کرلی ہوتی۔ ‘‘

جب انسان ندامت کی انتہا پر ہوتا ہے تو وہ اپنی انگلیاں چباتا ہے؛ اسے اپنی ندامت کی شدت کی وجہ سے اس درد کا احساس نہیں ہوتا ؛ مگر اللہ رب العزت یہ نہیں فرمارہے کہ اس روز ظالم اپنی انگلیاں چبائے گا یا اپنے ہاتھ کاٹے گا…… بلکہ اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ اس روز ظالم اپنے ’دونوں ہاتھ‘ چبائے گا؛ ذرا تصور کریں اس دن کا کہ جب ظالم اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ کے اندر ٹھونس ٹھونس کر گھسائے گا اور اپنے دانتوں سے انہیں نوچ نوچ کھائے گا اور چبا چبا کر ان کی ہڈیاں توڑے گا اور گوشت اور ماس کو نوچ نوچ کر ہڈیوں سے جدا کرے گا…… اور اسے کوئی درد محسو س نہیں ہوگا…… کیونکہ ندامت کی اذیت اور تکلیف اس تکلیف سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔ ندامت کا اذیت نفسیاتی طور انسان کو محسوس ہوتی ہے مگر وہ نفسیاتی تکلیف اس قدر شدید ہوگی کہ انسان کو اپنے ہاتھ چبانے کی جسمانی تکلیف اس کے مقابلے میں محسوس نہ ہوگی۔ یہ ندامت کس بات کی ہوگی؟ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا…… کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا!!

اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿ وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ ؀ ﴾ (سورۃ الروم: ۱۲)

’’ اور جس دن قیامت برپا ہوگی اس روز مجرم لوگ ناامید ہوجائیں گے۔ ‘‘

يُبْلَسْ کا معنی ہے مایوس ہوجانا، دست بردار ہوجانا؛ وہ کس سے جدال کریں گے اور کس بات پر کریں گے؟ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿ يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا؀﴾ (سورۃ النساء: ۴۲)

’’ اس دن تمنا کریں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اور رسول کی نافرمانی کی تھی کہ کاش (انہیں زمین میں دھنسا کے) ان کے سمیت زمین برابرکردی جائے اور وہ اللہ سے کوئی بات بھی چھپا نہیں سکیں گے ۔ ‘‘

یہ وہ شخص ہوگا جس کے دل میں دنیا کی بھرپور محبت ہوگی؛ یہ وہ ہوگا جو دنیا کے ذرا سے فائدے کے حصول کے لیے اپنا دین تک بیچ ڈالے گا…… ایسا شخص جو دنیا سے اس قدر محبت کرتا ہوگا اور زندگی کا اس قدر حریص ہوگا، وہ اس دن چاہے گا کہ اسے زمین میں دھنسا کر اس پر زمین برابر کردی جائے…… اس کا کوئی نام و نشان تک باقی نہ رہے؛ اور ایک اور آیت میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿ وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ يٰلَيْتَنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا ؀﴾ (سورۃ النبأ: ۴۰)

’’ اور کافر کہے گا : کاش میں مٹی ہوتا ! ‘‘

وہ لوگ کہ جن کی خواہشات، ارمانوں اور آرزوؤں کی کوئی حد نہیں ہوگی…… وہ قیامت کے دن جب حقیقت کو اپنے سامنے مجسم دیکھ لیں تو مٹی میں مل کر مٹی ہوجانا چاہیں گے؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ خواب کی حالت میں رہ رہے ہیں۔

2. احباط الاعمال

قیامت کے دن کفار کی حالت اور درجے کے اعتبار سے دوسری قسم وہ ہے جن کے تمام اعمال باطل ہوجائیں گے؛ نامنظور ہوجائیں گے؛ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاءً؀ ﴾ (سورۃ النور: ۳۹)

’’ اور (دوسری طرف) جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشتِ بے آب میں ایک سراب ہو جسے پیاسا آدمی پانی سمجھ بیٹھتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا اور اس کے پاس اللہ کو پاتا ہے، چنانچہ اللہ اس کا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے۔ اور اللہ بہت جلدی حساب لے لیتا ہے۔ ‘‘

سراب

سراب صحرا ؤں میں یا بہت گرم علاقوں میں ظاہرہوتا ہے بالخصوص جب آپ کسی شاہ راہ پر گاڑی چلا رہے ہوں تو عموماً اس کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ بہت گرم صحرا میں سفر کرتے ہوئے افق پر پانی دکھائی دیتا محسوس ہوتا ہے ، بخارات، ہوا اور نمی کی وجہ سے نظر کو یہ دھوکہ ہوتاہے…… انسان اسے پانی سمجھ کر جس قدر اس سے نزدیک ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ دور ہٹتا جاتا ہے… حقیقت میں وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا…… نظر کا یہ دھوکہ ہی سراب کہلاتا ہے۔اللہ رب العزت نے کفار کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دی ہے کہ ان کے اعمال صحرا میں سراب کی مانند ہیں؛ وہ اپنے اعمال پر یہ سوچتے ہوئے کاربند رہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے مفید ثابت ہوں گے مگر وہ سراب کی مانند ہیں…… وہ جسے پانی سمجھ کر اس کی جانب بھاگ رہے ہیں اس کی حقیقت تو کچھ بھی نہیں ہے…… وہاں انہیں اپنے اعمال نہیں ملتے بلکہ کیا ملتا ہے؟ وہ وہاں اللہ کو پاتے ہیں۔اور تب اللہ رب العزت ان کا حساب چکا دے گا؛ اور ان کا حساب سوائے سزا کے اور کیا ہے!

اعمال کی تاریکی

اللہ رب العزت ایک اور طریقے سے بھی اس کیفیت کو بیان فرماتے ہیں:

﴿ اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشٰهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَهٗ لَمْ يَكَدْ يَرٰىهَا وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ؀ ﴾ (سورۃ النور: ۴۰)

’’ یا پھر ان (اعمال) کی مثال ایسی ہے جیسے کسی گہرے سمندر میں پھیلے ہوئے اندھیرے، کہ سمندر کو ایک موج نے ڈھانپ رکھا ہو، جس کے اوپر ایک اور موج ہو، اور اس کے اوپر بادل، غرض اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے۔ اگر کوئی اپنا ہاتھ باہر نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے۔ اور جس شخص کو اللہ ہی نور عطا نہ کرے، اس کے نصیب میں کوئی نور نہیں۔ ‘‘

ان کے یہ اعمال ہی اندھیرے ہیں، ظلمات ہیں…… جس قدر وہ اپنے اعمال بد میں اضافہ کرتے ہیں اسی قدر اندھیرے گھنے ہوتے جاتے ہیں…… اس قدر گھنا اندھیرا کہ کوئی اس میں اپنا ہاتھ بڑھائے تو اپنے ہی ہاتھ کو دیکھ نہ پائے اور یہ حقیقت میں ہوگا قیامت کے دن ان کے ساتھ جب وہ الصراط پر نور کھو دیں گے۔

ہمیں معلوم ہے قیامت کے دن الصراط پر بہت اندھیرا ہوگا ، اہل ایمان کو روشنی عطا کی جائے گی لیکن جنہوں نے اللہ رب العزت پر ایمان لانے سے انکار کیا، ان کے لیے گھپ اندھیرا ہوگا؛ یہ ایک مثال ہے جو اللہ رب العزت ان کے اعمال کے لیے بیان فرماتے ہیں۔ اللہ رب العزت ایک اور جگہ بیان فرماتے ہیں:

﴿ مَثَلُ مَا يُنْفِقُوْنَ فِيْ ھٰذِهِ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيْحٍ فِيْھَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَاَھْلَكَتْهُ وَمَا ظَلَمَھُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ ﴾ (سورۃ آل عمران: ۱۱۷)

’’ دنیا کی اس زندگی میں یہ لوگ جو بھی خرچ کرتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک زور دار آندھی جس میں پالا (سخت سردی، منجمد اوس) ہو وہ کسی ایسی قوم کی کھیتی کو آپڑے جس نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو ‘ پھر وہ اس (کھیتی) کو تباہ و برباد اور تہس نہس کر کے رکھ دے اور ان پر اللہ نے کوئی ظلم نہیں کیا ‘ بلکہ وہ اپنی جانوں پر خود ظلم ڈھا رہے ہیں ۔ ‘‘

اللہ رب العزت یہاں اس مال کی تمثیل بیان فرما رہے ہیں جو کافر خرچ کرتے ہیں؛ اسلام کے خلاف یہ بہت سا مال خرچ کرچکے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں؛ اربوں ڈالرز صرف اسلام کے خلاف لڑنے کے لیے اور اس دین کو پھیلنے سے روکنے کے لیے یہ کفار استعمال کررہے ہیں؛ اللہ تمثیل بیان فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے اعمال کی فصل بوتے ہیں اور جب وہ فصل لہلہانے لگتی ہے اور انہیں اس سے فائدے کی امید بندھ جاتی ہے تو یخ ٹھنڈی ہوا اس پوری فصل کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے اور جب وہ اس وقت اپنی تیار کھیتی کاٹنے کے لیے جاتے ہیں کہ جب انہیں اس کی اشد ضرورت ہو تو وہاں وہ کچھ بھی نہیں پاتے۔ یہ مال جو آج چند مقاصد کے حصول کی خاطر خرچ کیا جارہا ہے ، قیامت کے دن یہ سب کا سب ضائع ہوجائے گا اور انہیں اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

ہم جب ایسی آیات پڑھتے ہیں کہ جس میں اعمال کے ضائع ہوجا نے کا ذکر ہو تو دل میں خیال آسکتا ہے کہ کیا اللہ رب العزت عادل نہیں ہیں؟ کیا اللہ رب العزت لوگوں کو ان کی جزا و سزا ان کے اعمال کے بدلے عطا نہیں فرمائیں گے؟ اس شبہے کو ذہنوں سے رفع کرنے کے لیے اللہ پاک فرماتے ہیں، ’’ اور ان پر اللہ نے کوئی ظلم نہیں کیا ‘ بلکہ وہ اپنی جانوں پر خود ظلم ڈھا رہے ہیں۔ ‘‘

لوگوں نے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا، اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا؛ اللہ تعالیٰ نے تو محض ان سے ان کے اعمال کا حساب لیا۔

راکھ کا ڈھیر

ایک تیسری مثال بھی اللہ ان کے اعمال کی بیان فرماتے ہیں:

﴿ مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِاشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ﴾ (سورۃ ابراہیم: ۱۸)

’’ جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کی روش اختیار کی ہے، ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے اعمال اس راکھ کی طرح ہیں جسے آندھی طوفان والے دن میں ہوا تیزی سے اڑا لے جائے، انہوں نے جو کچھ کمائی کی ہوگی، اس میں سے کچھ ان کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ ‘‘

اللہ رب العزت ان کے اعمال کو راکھ کی مانند بیان فرماتے ہیں؛ تصور کریں کہ ایک پہاڑ ہو …… راکھ کا پہاڑ اور وہ راکھ…… اعمال ہوں۔ اعمال کا ڈھیر ہو جو اپنے حساب سے وہ کافر جمع کرکے لایا ہو اور جب وہ اپنی جزا پانے کے لیے اپنے ڈھیروں ڈھیر اعمال کے قریب جائے تو اس کی آنکھوں کے سامنے تیز ہوا راکھ کے اس ڈھیر کو اڑا لے جائے اور اس کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے۔ وہ اعمال اس لیے راکھ ہوں گے کہ ان میں ایک عمل بھی ایسا نہیں ہوگا جو اس نے محض اللہ رب العزت کی خاطر کیا ہو۔

اعمال کے رد ہونے کی وجہ

قرآن کے بیان کی فصاحت و بلاغت ملاحظہ کریں؛ راکھ دیکھنے میں بہت زیادہ بھی ہو تو وہ بےکار ، بے مصرف چیز ہے ؛ کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں: پہلی یہ ہے کہ ان اعمال میں اخلاص کی مطلوب صفت نہیں ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ان اعمال کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتبا ع نہیں ہے، جو فی نفسہ مطلوب ہے۔

کسی بھی عمل کے مقبول ہونے کے لیے اس کا دو شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے: اخلاص؛ یعنی وہ عمل خالص محض اور محض اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جائے اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔ جب انسان کوئی اچھا کام کرے مگر وہ اللہ کے لیے نہ ہوبلکہ اس سے مقصود کسی اور کی رضا ہو تو اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ پھر اس انسان کو اللہ رب العزت سے بدلے کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے؛ جو عمل اللہ کے لیے کیا ہی نہیں گیا اس کے اجر کی توقع اللہ سے رکھی کیسے جاسکتی ہے۔اور یہی قیامت کے دن ہوگا۔ اللہ رب العزت فرمائیں گے کہ جو کوئی بھی غیر اللہ کے لیے عمل کرتا تھا وہ اپنے اپنے الہ کے پاس جائے اور اس سے اپنا اجر وصول کرے؛ جو بتوں کو پوجتا تھا وہ ان کے پاس جائے، جو انسانوں اور جنوں کو پوجتا تھا وہ ان کے پاس جائے اور جو فرشتوں کی پرستش کرتا تھا وہ ان کے پاس جا ئے اور جو محض میری عبادت کرتا تھا وہ میرے پاس آئے اور اس کا اجر میرے ذمہ ہے۔ ان کے اعمال اخلاص کے بنیادی جزو سے خالی ہوں گے لہٰذا وہ ناقابل قبول ٹھہریں گے۔

اعمال کی قبولیت کی دوسری بنیادی شرط ’الاتباع‘ ہے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی۔ جو عمل بھی کیا جائے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے کیا جائے۔ انسان اللہ رب العزت کی عبادت کے نئے طریقے ایجاد نہیں کرسکتا؛ اللہ کی عبادت کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسی طریقے سے کی جائے جو اللہ رب العزت کو پسند ہے کیونکہ اللہ بہتر جانتے ہیں؛ لہٰذا یہ اللہ کے اوپر چھوڑنا چاہیے کہ وہ بتائے کہ اس کی عبادت کیسے کی جائے؛ وہی تو ہے جو عبادت کا مطالبہ کرتا ہے تو عبادت ہونی بھی اسی کے طریقے سے چاہیے؛

پھر اللہ رب العزت ایک اور تمثیل بیان فرماتے ہیں:

﴿ وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاءًمَّنْثُوْرًا﴾ (سورۃ الفرقان: ۲۳)

’’ اور انہوں نے (دنیا میں) جو عمل کیے ہیں، ہم ان کا فیصلہ کرنے پر آئیں گے تو انہیں فضا میں بکھرے ہوئے گرد و غبار (کی طرح بےقیمت) بنادیں گے ۔ ‘‘

هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا کیا ہے؟

ھباء کیا ہے؟ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے ھباء کی تعریف بیان فرمائی کہ اگر آپ کسی تاریک یا نیم تاریک کمرے میں ہوں اور اس کمرے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی ہو جس سے روشنی اندر داخل ہوتی ہو تو آپ اس روشنی کی لکیر میں ہوا میں تیرتے ہوئے ننھے ننھے ذرات کو دیکھ سکتے ہیں؛ یہ ننھے ننھے ذرات ھباء کہلاتے ہیں؛ تو ان کے تمام اعمال اس ھباء کی مانند ہوجائیں گے اور منثورا کا معنی ہے بکھرے ہوئے۔ وہ اپنے اعمال کو اکٹھا کرنا چاہیں گے مگر وہ فضا میں بکھرتے چلے جائیں گے؛ ہاتھ میں کچھ نہ آئے گا۔

اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا؁اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ؁ اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ؁ ذٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا؁﴾ (سورۃ الکہف: ۱۰۳ – ۱۰۶)

’’ آپ کہیے : کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ دنیوی زندگی میں ان کی ساری دوڑ دھوپ سیدھے راستے سے بھٹکی رہی، اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مالک کی آیتوں کا اور اس کے سامنے پیش ہونے کا انکار کیا، اس لیے ان کا سارا کیا دھرا غارت ہوگیا۔ چنانچہ قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن شمار نہیں کریں گے۔ یہ ہے جہنم کی شکل میں ان کی سزا! کیونکہ انہوں نے کفر کی روش اختیار کی تھی اور میری آیتوں اور میرے پیغمبروں کا مذاق بنایا تھا ۔ ‘‘

کون ہیں یہ لوگ جو خسارے میں ہیں؟ اسلام ہمارے سامنے محض تصورات ہی نہیں پیش کرتا بلکہ ان کی تعریف بھی ہمیں دیتا ہے۔ مثلاً خوشی کے تصور کی ایک اسلامی تشریح ہے ، اسی طرح نقصان اور تکلیف کے لیے بھی اسلام ایک طرز فکر دیتا ہے، نیز اچھے اور برے کی تمیز و تعریف بھی اسلام بیان کرتا ہے؛ البتہ ہمیں اپنے ذہن میں بنے تصورات کی خود ساختہ یا معاشرے میں رائج تعریف کو اسلام کی بیان کردہ تعریف سے ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے کہ بسا اوقات یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں نقصان ہوا، خسارہ ہوا تو ممکن ہے کہ ہم کسی کھیل میں ہارنے یا تجارت میں لگا پیسہ ضائع ہو جانے کو نقصان تصور کررہے ہوں…… جب کہ اسلام اسے خسارہ نہیں کہتا اور اللہ ہمیں بتا تے ہیں کہ اصل اور سب سے بڑا خسارہ کیا ہے۔سب سے بڑا خسارہ یہ ہے کہ انسان جن اعمال کو اچھا سمجھ کر ساری زندگی اس پر کاربند رہے وہ باطل ثابت ہوں؛ انسان اپنے اعمال کا وزن کروا کر اس کی جزا وصول کرنے آئے مگر اس کے تمام اعمال بے وزن نکلیں۔

3. التخاصم: قیامت کے دن ہونے والی بحث و تکرار

قیامت کے دن کیفیت کے اعتبار سے کفار کی تیسری قسم

مصنف نے چار قسم کے تنازعات بیان کیے ہیں :

  1. ‌العباد والمعبودین: بندوں اور ان کے معبودوں کے درمیان نزاع
  2. ‌الاتباع و المتبوعین: پیروکاروں اور جن کی وہ پیروی کرتے تھے کے مابین تکرار
  3. ‌الانسان و قرینہ: انسان اور اس کے قرین کے مابین نزاع۔ قرین وہ شیطان ہے جو ہر انسان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔
  4. ‌الانسان و اعضائہ: انسان اور اس کے اپنے اعضائے جسم کے مابین جھگڑا۔

ان نزاعات کی تفصیل آئندہ ان شاء اللہ!

وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم

٭٭٭٭٭


1 امہات الکتب یعنی تمام کتابوں کی مائیں…… ان کا منبع ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جو قدیم علمائے اسلام نے تحریر فرمائیں۔

Previous Post

مارچ 2024ء

Next Post

روئے سحر

Related Posts

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | پچیسواں درس

14 اگست 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس

14 جولائی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

9 جون 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بائیسواں درس

25 مئی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | اکیسواں درس

14 مارچ 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بیسواں درس

15 نومبر 2024
Next Post
روئے سحر

روئے سحر

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version