حضرت ابوہریرہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک جنات انسانوں چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کے لیے نازل کی جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر شفقت و مہربانی اور رحم کرتے ہیں اور اسی کی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچہ پر شفقت کرتا ہے اور اللہ نے ننانوے رحمتیں بچا کر رکھی ہیں جن سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحمت فرمائے گا۔
حال ہی میں کسی مغربی ملک میں جانوروں کے ہسپتال میں ایک مادہ بن مانس نے آپریشن کے ذریعے ایک بچے کو جنم دیا۔ چونکہ بچہ صحت مند نہ تھا لہٰذا اسے ماں سے دور انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ، بعد ازاں جب بچے کی حالت بہتر ہوگئی تو اسے ماں کے پاس چھوڑا گیا۔ بن مانس ماں نے جیسے ہی اپنے بچے کو دیکھا تو لپک اور تڑپ کر اسے سینے سے لگایا۔ یقیناً دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک بہت ہی جذباتی لمحہ تھا ، وہاں موجود لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں اور اللہ پر ایمان رکھنے والوں کے لیے یہ واقعہ اللہ کی رحمت کی واضح علامت ہے ہی۔
بیس سال ہوا چاہتے ہیں عافیہ صدیقی کو اغوا اور اپنے بچوں سے جدا ہوئے…… جانوروں پر ’اس قدر‘ مہربان قومیں اس مسلمان ماں کو اس کے جائز حق سے محروم کرنے کے بارے میں کیا کہیں گی؟ اغوا کے وقت عافیہ کے ساتھ ان کے تین بچے بھی اغوا کیے گئے تھے مگر جو بچے ان کے خاندان کو برسوں بعد لوٹائے گئے وہ دو ہیں، تیسرے شیر خوار بچے کی خیر خبر رکھنے والا بھی کوئی ہے؟ اس ماں کے دل کی حالت بھی کسی کو تڑپاتی ہے کیا جو بے گناہی کی سزا بھگت رہی ہے اور نا صرف قید اس کا مقدر بنا دی گئی ہے بلکہ بدترین تشدد، بے رحمی، بے حرمتی، بے عزتی اور اپنی اولاد سے دوری کی شدید ترین آزمائشیں اس کی زندگی کو اس کے لیے مزید مشکل بنائے دے رہی ہیں۔ کوئی ہے جو اس ماں کو اس کے بچوں سے لاملائے اور اس ’جذباتی لمحے‘ کو بھی دل کے تار چھیڑنے کا موقع دے؟؟؟
روحیفہ بی بی کا نام بہت سوں کے ذہنوں سے محو ہوگیا ہوگا جن کے جوان جہان تین بیٹے اکٹھے ہی اٹھا کر لاپتہ کردیے گئے۔ بعد ازاں دو کی لاشیں انہوں نے وصول کیں اور جان ہار گئیں…… کیا وہ ماں نہیں تھیں؟ کیا اس اولاد کے لیے ان کے کوئی جذبات نہ تھے؟ وہ جو لاپتہ کردیے گئے اور دو دو دہائیاں گزر جانے کے باوجود ان کی مائیں ان کی راہ تک رہی ہیں، ان کی بیویاں بیواؤں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کے بچے یتیموں کی طرح پل رہے ہیں…… کوئی جانتا ہی نہیں کہ ان میں سے کون سی بیویاں واقعی بیوائیں ہوچکیں اور کون سے بچے یتیم نہیں ہیں مگر یتیموں سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں…… کیا وہ جو قید و بند کی اذیتیں جھیل رہےہیں، جن تک سورج کی ایک کرن تک نہیں پہنچنے دی جاتی، جن کی ہڈیاں اس ظلم وستم کے باعث گھل گئیں، جن کی بینائیاں ان کی آنکھوں کا ساتھ چھوڑ گئیں، جن کے پھیپھڑوں نے اپنا کام چھوڑا، جو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے تک کے قابل نہ رہے، کیا وہ انسان نہیں؟ کیا ان کے جذبات نہیں؟ کیا ان کی مائیں نہیں؟ کیا وہ کسی کی آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں؟ کیا ان کے کوئی حقوق نہیں؟؟؟……… کوئی ہے جو حقوق کی جنگ لڑتی اس دنیا میں ان لاپتہ قیدیوں کے حقوق بھی یاد دلائے ، ان کے لیے مارچ منعقد کرے، ان کے لیے ریلیاں نکالے اور آخری دم تک ان کا ساتھ دینے کی قسمیں کھائے؟؟؟
وہ آئی ایس آئی جس کے آخرت کے اکاؤنٹ میں اتنی بددعائیں اور اتنی آہیں جمع ہوچکی ہیں کہ شاید ہی کوئی اس کا مقابلہ کرسکے، وہی آئی ایس آئی جو ان لاپتہ افراد کے کوائف بارے جانتے ہوئے بھی انجان بنی ہوئی ہے اور جو خود کو اس ملک کی محافظ اور نگران سمجھتی ہے اور علاوہ ان لوگوں کے جنہیں اس آئی ایس آئی نے لاپتہ کیا، ان گنت تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس کی بے جا پکڑ کے خوف سے بے گھر بلکہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں ،جو جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس آئی ایس آئی کی پروان جن اصولوں پر ہوئی ہے انہیں جاننے کے بعد اس کی بہیمیت کا جواز ڈھونڈنے کی کسی کو ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ آئی ایس آئی کا سابق چیف جنرل اسد درانی اپنے ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ ’’آئی ایس آئی کے لیے، اسے درپیش مشن کے سوا کوئی حدود اور کوئی قوانین نہیں ہیں‘‘، یعنی اپنے مشن کی تکمیل کی خاطر اسے جس قسم کی بھی حدود کو پامال اور جتنے قوانین کو توڑنا پڑے وہ اس کے لیے جائز اور روا ہے اور اس پر اس کی کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ نیز جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ ’’آئین جہاں بانی میں اخلاقیات کی ثانوی حیثیت ہے‘‘۔ جس آئی ایس آئی کے لیے نہ حدود کی کوئی حیثیت ہے نہ قوانین کی اس کے لیے اخلاق کیا معنی رکھتے ہیں؟ پس یہ جتنا بھی گرجائے اس کے پاس اس کا جواز موجود ہے۔
پاکستان میں عورت مارچ کی گندگی کے بعد اب مُورت مارچ کی ابتدا ہوگئی۔ اب انہیں بھی اپنے حقوق چاہیے ہیں۔ یہ طبقہ معاشرے میں فحاشی اور عریانی پھیلانے کے سوا معاشرے کی کون سی خدمت سرانجام دے رہا ہے؟ ان میں سے وہ جنہیں فطری طور پر کسی کمزوری کے ساتھ پیدا کیا گیا تو ان کے لیے اللہ پاک کی شریعت نے اصول وقوانین بھی وضع کیے کہ ان میں سے جس کی ساخت مردانہ ہو وہ مرد اور جس کی زنانہ ہو وہ عورت بن کر رہے۔ اور درحقیقت یہ مارچ کرنے والے لوگ وہ ہیں بھی نہیں جن کی جنس قدرتی طور پر واضح نہیں ہے، جنہیں مخنث یا intersex کہا جاتا ہے اور جن کی تعداد ہزاروں میں ایک ہے۔ ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرا (ان کے اپنے بقول) وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے مرد یا عورت پیدا کیا مگر وہ اس پر راضی نہیں ہیں۔ نیز خواجہ سراؤں کا یہ طبقہ جسے آج ہم سڑکوں اور بازاروں میں نہایت بھڑکانے والے لباس، حلیے اور میک اپ کے ساتھ دیکھتے ہیں، اور ہمیشہ زنانہ حلیے میں ہی دیکھتے ہیں، ان جیسوں کے لیے تو بدترین سزائیں ہونی چاہیے ہیں۔ انہی میں کا ایک وہ بھی ہے جس نے خود کو مرد سے یہ کہہ کر عورت بنایا کہ اسے عورت کی طرف رغبت محسوس نہیں ہوتی، اور پھر ایک چودہ سالہ بچی کےساتھ زنا کرکے اسے حاملہ کردیا۔ یہ تو وہ مخلوق ہے کہ عورتوں کو جس سے پردہ کرنا چاہیے اور مردوں کو غض بصر۔ اسلام اور شریعت کے احکام کا ان کی زندگیوں میں کوئی گزر نہیں مگر انٹرنیٹ پر یہ اپنے کلپ ان اشعار کے ساتھ چلاتے ہیں ’’علی تمہاری شجاعت پر جھومتے ہوں گے، حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا،تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں‘‘!!!! مُورت مارچ کے شرکا کے حلیوں پر نگاہ ڈالنے اور ان کی باتیں سننے کے بعد کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی درجے میں مظلوم ہیں۔ یہ اگر مظلوم ہیں تو انہوں نے قدرت سے جنگ لڑ کر خود اپنے اوپر یہ ظلم مسلط کیاہے، ﴿وَمَا ظَلَمَھُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ ﴾ ’’ اور ان پر اللہ نے کوئی ظلم نہیں کیا ‘ بلکہ وہ اپنی جانوں پر خود ظلم ڈھا رہے ہیں ‘‘۔
یہ گندگی اور غلاظت جو معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے یہ جمہوریت کا شاخسانہ ہے، وہی جمہوریت جسے یہ دنیا افغانستان میں نافذ کرکے وہاں کے مسلمانوں سے ان کی غیرت ان کا دین ان کی اقدار ، ان کے اخلاق اور وہ سب کچھ چھین لینا چاہتی ہے جس کی بنیاد پر اس ملک کے غیور عوام نے دو سپر پاورز کو شکست دی۔ جمہوریت کے ثمرات تو آج تک کہیں دیکھنے کو نہ ملے البتہ اس کے مضمرات سے ہر شخص مستفید ہورہا ہے۔وہی جمہوریت جس کے بارے میں پاکستان کے بعض علما یہ کہنے لگے کہ اب تو نظام حکومت یہی ہے، اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا اسی نظام میں نسبتاً بہتر کو ووٹ دیں تاکہ اس سے بدتر نہ آجائے۔اور فرماتے ہیں کہ something is better than nothing، (کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے)، لہٰذا جو تھوڑا بہت یہی نظام آپ کو دے سکتا ہے وہی وصول کرلیں۔ محترم عالم صاحب سے ہمارا سوال یہ ہے کہ اس نظام نے آج تک اسلام اور اہل اسلام کو دیا کیا ہے؟ امریکی جنگ میں پورا ملک اور اس کے وسائل جھونک دینا، لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے شہدا، شہید کردہ مساجد، اللہ کو اپنا رب ماننے والے بے شمار قیدی، مساجد میں جمعے کے خطبوں پر پابندی مگر یونی ورسٹیز میں اعلانیہ اور سرکاری سطح پر ہونے والے ننگے ناچ، ……!!! اور اسلام کو ایک طرف بھی رکھیں تو اس نظام نے آج تک عوام کو کیا دیا ہے؟ دو ٹکڑے شدہ ملک، تعصب، مہنگائی، فحاشی، عریانی، لوڈشیڈنگ، قرضے اور کرپٹ سے کرپٹ تر حکمران، بھوک و افلاس سے متاثر معصوم بچے اور ان کے بے بس والدین، سیلاب سے لٹے پٹے کروڑوں عوام……! اس نظام نے اگر کچھ کیا ہے تو وہ یہ کہ فوج کے نام پر ایک مقدس گائے کو پالا، پوجا اور پروان چڑھایا، اسی پر نذرانے اور چڑھاوے چڑھا چڑھا کر پورے ملک کو مقروض بنا دیا ہے اور آج طبقۂ علما سے منسوب بعض افراد یہ فرماتے ہیں کہ ماشاءاللہ فوج کے اخلاق اور اس کے معیار کا ثبوت یہ بات ہے کہ اس کا چیف ایک حافظ قرآن اور چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف ایک ’یتیم‘ ہے۔ فوج میں تو کئی ایک حافظ قرآن ہوں گے اور کئی ایک یتیم بھی ہوں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان حافظ قرآن جرنیل صاحب نے اس حفظ شدہ کلام اللہ سے اس وقت رہنمائی کیوں نہ لی جب اس فوج نے افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا؟ جب یہی فوج جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر فائرنگ اور بمباری کررہی تھی؟ اور جب آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ ہوا اور جب اس پر عمل ہوا؟ جب آپریشن راہ نجات ہوا اور سوات کے عوام کے لیے نجات کی راہیں مسدود کی گئیں………؟؟؟ اگر اس وقت ان حافظ قرآن صاحب نے قرآن سے رہنمائی لینے کی زحمت نہیں کی تو آج اس عہدے پر پہنچ کر کہ جب طاقت کی تمام تر ڈوریں ان کے ہاتھ میں تھما دی گئی ہیں اور ان کی مشکیں پوری زندگی کے لیے ان کو ملنے والی مراعات، سہولیات، بینک بیلنس اور جائیداد کے ذریعے کس دی گئی ہیں ، ہم ان سے کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ یہ قرآن کریم کی رہنمائی میں اپنے عہدے کو استعمال کریں گے؟؟؟
مذکورہ شخصیات سے بصد احترام یہ استدعا ہے کہ انہوں نے کیونکر یہ سمجھ لیا کہ اب یہی نظام ہمارا مقدر ہے اور اب اسی میں رہتے ہوئے ہمیں کچھ تھوڑا بہت وصول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے (جس تھوڑے بہت کی مثال یہ حافظ قرآن آرمی چیف ہیں)؟ آپ حضرات تو وہ ہیں کہ ہم جیسے عوام کی رہنمائی جن کے ذمے ہے ، جو آپ کی طرف دینی اور دنیوی مسائل میں رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں، اور ہم اس بدترین نظام کے خلاف کھڑے ہونے اور اس کو ڈھانے اور شرعی نظام لانے کی ذمہ داری بھی اصلاً آپ ہی کے کندھوں پر سمجھتے ہیں۔ اور آپ ہی ہمیں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نظام اب تبدیل نہیں ہوسکتا لہٰذا صبر کرو بلکہ جو مل جائے اس پر شکر کرو!!! کیا اللہ رب العزت کے دین اور اس کی شریعت نے ہمیں کوئی نظام عطا نہیں کیا؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جمہوریت لے کر آئے تھے؟ کیا خلفائے راشدین جمہوریت کے داعی تھے؟ کیا خلافت عثمانیہ کی بنیاد جمہوری اصولوں پر قائم ہوئی تھی؟ بات جمہوریت کی نہیں بات قوت کی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ آج مسلمان جو پوری دنیا میں ظلم سہہ رہے ہیں وہ اس لیے کہ ان کے پاس قوت نہیں اور قوت کے حصول کو انہوں نے خود اپنے لیے مشکل سمجھ رکھا ہے، وہ کم ہمت ہوگئے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ دور لَد گیا کہ جب مسلمان ہی سب سے زیادہ تہذیب یافتہ، تعلیم یافتہ اور جدید تھے اور اب وہ گم کردہ شان و شوکت دوبارہ حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ ان کی عزت اور ان کی شان و شوکت ان کے اپنے دین پر عمل کی وجہ سے تھی اور آج بھی اسی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ جب مسلمانوں نے ہاتھ سے کتاب اور تلوار رکھ دی، علم اور جہاد دونوں کو خیرباد کہا تو آج یہ اس مفلوک الحالی کو پہنچ گئے۔ جس دن مسلمان دوبارہ کتاب اور تلوار ہاتھ میں اٹھائیں گے اور اس کی بدولت جہاں کہیں بھی قوت حاصل کرلیں گے وہاں یہ اس بات پر مجبور نہیں رہیں گے کہ جمہوریت کی غلاظت کو امرت سمجھ کر پئیں اور امرت ہی کہہ کر اس غلاظت کو ان کے سامنے پیش کیا جائے۔
٭٭٭٭٭