اوریا مقبول جان صاحب کا زیرِ نظر کالم ان کی ویب سائٹ سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس کالم پر ہمارا تبصرہ و نظر تحریرِ ہٰذا کے آخر میں ملاحظہ ہو۔ (سیلاب خان)
پاکستان کی حکومتی مشینری اور اداروں کا مزاج، ماحول اور عوام کے متعلق روّیہ، گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی مسلسل ٹریننگ اور تجربے کی عطا ہے۔ انگریز نے اپنے غاصبانہ اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے جس طرح کی انتظامی مشینری کو جنم دیا، انہیں قوانین کے ذریعے جس طرح بااختیار بنایا اور جس قدر لامحدود اختیارات دیے گئے، وہ آج بھی ہماری انتظامیہ کے نہ صرف شعور اور لاشعور کا حصہ ہیں، بلکہ وہ سب کے سب قوانین و اختیارات من و عن موجود ہیں، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر کو مستحکم کرنےکے لیے ان قوانین میں اضافہ ہوا ہے۔
انگریز نے انتظامی مشینری کو ایک ذہنیت تحفے میں دی تھی کہ حکمران اور عوام دو مختلف طبقات ہیں۔ حکومتی مشینری انڈین سول سروس اور انڈین برطانوی فوج کے باہم گٹھ جوڑ سے بنایا جانے والا ایک مقتدر گروہ تھا۔
انڈین سول سروس سینئر پارٹنر تھی جبکہ فوج اس کی جونیئر پارٹنر۔ ڈپٹی کمشنر کا دفتر ایک چھوٹا سا ’’وائسرائے‘‘ تھا، جس میں تاجِ برطانیہ کے تمام اختیارات مرتکز کر دیے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گورے یا پھر بعد میں نوکری میں شامل ہونے والے ’’مقامی ناریل‘‘ (یعنی باہر سے براؤن اندر سے گورے) یہ افسران بھی پہلے فوج میں کمیشن لیتے اور پھر ڈپٹی کمشنر لگائے جاتے اور وہاں سے ترقی کرتے کرتے گورنر کے عہدے تک جا پہنچتے۔
لارنس، رابرٹ سنڈیمن، جان جیکب اور بارنس جیسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ہم انہیں کے نقشِ قدم پر چلتے رہے اور سکندر مرزا میجر سے سول سروس میں بھیجا گیا، ڈپٹی کمشنر پشاور بنا اور پھر ترقی کرتا ہوا فیڈرل سیکرٹری کے بعد صدرِ پاکستان بھی بن گیا۔ لیکن فوج میں بھی اسے ساتھ ساتھ مسلسل ترقی دی جاتی رہی اور جب وہ صدر کے عہدے پر پہنچا تو وہ میجر جنرل کے ’’رینک‘‘ پر بھی فائز تھا۔
۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو جب اس نے مارشل لاء لگایا تو اس کا مددگار جونیئر پارٹنر یعنی فوج کا سربراہ جنرل ایوب خان بھی اس کے ساتھ تھا۔ لیکن پاکستانی عدلیہ نے ایک نیا باب رقم کر کے ’’طاقت‘‘ اور صرف ’’طاقت‘‘ کو جائز اور حق قرار دے دیا۔ پاکستان کے سب سے متنازع چیف جسٹس منیر نے لکھا ’’کامیاب انقلاب جائز ہے‘‘۔ یعنی انسانی تاریخ کا صدیوں پرانا معیارِ حق و باطل ہی بدل کر رکھ دیا۔
جسٹس منیر نے ۲۷ اکتوبر کی صبح کو یہ فیصلہ سنایا اور اسی رات جنرل ایوب خان، جس کے پاس اصل قوت اور طاقت تھی اس نے گزشتہ سو سال کی انگریز کی بنائی ہوئی ترتیب توڑتے ہوئے سینئر پارٹنر سکندر مرزا کو کان سے پکڑ کر ایوانِ صدر سے نکالا اور کرسیٔ اقتدار پر متمکن ہو گیا۔ اس دن سے آج تک سول بیوروکریسی نے سرتسلیم خم کر کے سینئر کی بجائے جونیئر پارٹنر بننا منظور کر لیا۔ لیکن نہ دونوں کی ذہنیت میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ دونوں کے روّیے تبدیل ہوئے ہیں۔ ان دونوں اداروں نے ملی بھگت سے اپنے تحفظ اور نفرت سے بچاؤکے لیے اپنے اردگرد کچھ ریت کی بوریاں کھڑی کیں۔
یہ ریت کی بوریاں ان کے تیارکردہ سیاستدان تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں اپنی قوم سے غدّاری کر کے انگریز کا ساتھ دیا تھا۔ انہیں ہر طرح کے انعامات سے نواز کر اپنے زیرِسایہ الیکشنوں کے ذریعے منتخب بھی کرا لیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوامی نفرت کی ساری گندگی اور غلاظت ان سیاستدانوں کے حصے آئے۔ شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ ۱۹۲۰ء میں پورے ہندوستان میں پہلے جنرل الیکشن کروائے گئے۔
یہ قانون ساز اسمبلی برطانیہ کی اسمبلی کی زیرِ نگیں (Lower) اسمبلی تھی، جس کی ۱۰۴ سیٹوں پر الیکشن ہوئے۔ انگریز نے ’’Democratic Party‘‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنوائی جس کا قائد ’’ہری سنگھ گور‘‘ الیکشنوں کے بعد حکومت کا سربراہ بن گیا۔ اس کی پارٹی نے ۴۸ سیٹیں حاصل کیں، جبکہ گوروں کو بھی الیکشن لڑوایا گیا اور اپوزیشن لیڈر ایک گورا ڈبلیو ایچ ایچ وینسٹ (W. H. H Vincent) بنا۔
یہ سارا ڈرامہ اس لیے رچایا گیا کہ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ آئندہ جو کچھ بھی کرے اس کا ردّعمل برداشت کرنےکے لیے یہ سیاستدان موجود ہوں۔ گزشتہ ایک سو سال سے ان تینوں طبقات کا گٹھ جوڑ بالکل ویسے ہی چلا آ رہا ہے۔ اس حکمران طبقے کا چونکہ عوام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا تھا اس لیے وہ ہمیشہ عوام کے ردِّعمل سے خوفزدہ رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۱۵ء میں’’ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ‘‘لایا گیا جس کے تحت تحریر و تقریر پر پابندیاں عائد کی گئیں، بالکل ویسے ہی جیسے آج ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر کی جانے والی حکومت مخالف گفتگو کو خلافِ قانون قرار دیا گیا۔
۱۹۱۵ء کے ایکٹ کے تحت بھی ایسی گفتگو بغاوت کے زمرے میں آتی تھی اور ۲۰۲۲ء میں بھی ایسی ٹویٹ بغاوت قرار دی جاتی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ۲۶ اپریل اور ۱۳ ستمبر ۱۹۱۵ء کو گفتگو کرنے، لکھنے یا نعرے لگانے کو غدّاری قرار دیتے ہوئے لاہور سے ۲۹۱ لوگوں کو پکڑا گیا جن میں سے ۴۲ کو پھانسی دی گئی، ۱۱۴ کو عمر قید اور ۹۳ تحریر و بیان کے باغیوں کو مختلف عرصے کی سزائیں سنائی گئیں۔ اسی طرح بنگال میں’’انوشیلان سمتی‘‘ نام پر ایک باڈی بلڈنگ کلب قائم ہوا جس کے ممبر ورزش کے دوران اپنے غصے کے اظہارکے لیے انگریز کے خلاف گفتگو کرتے اور نعرے لگاتے۔ ان لوگوں کی نگرانی کے لیے خفیہ پولیس کے افراد مقرر ہوئے۔ ان میں سے آہستہ آہستہ لوگوں کو اُٹھایا جانے لگا تو انہوں نے چھپ کر کارروائیاں شروع کر دیں۔
خفیہ پولیس کا ایک آفیسر شمس الاسلام جو ان سب کے بارے میں بغاوت کا مقدمہ تیار کر رہا تھا، قتل کر دیا گیا اور ردّعمل اس قدر شدید ہوا کہ وائسرائے کا دفتر کلکتہ سے دلّی منتقل کرنا پڑا۔ ۱۹۱۵ء کے اس ایکٹ کا خوفناک حد تک ظالمانہ اور بہیمانہ استعمال ۱۳ اپریل ۱۹۱۹ء کو جلیانوالہ باغ میں کیا گیا۔ اس دن سے بہت پہلے پنجاب حکومت جگہ جگہ عوامی احتجاج سے خوفزدہ ہو چکی تھی۔
اپریل کے پہلے ہفتے میں لاہور کے انار کلی بازار میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس کی تعداد بیس ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ یہ اپنے دور کا ایک لانگ مارچ تھا جس نے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل ڈائر کی نیندیں حرام کر دیں۔ اس نے پورے صوبے کی انتظامی مشینری کی میٹنگ بلائی اور کہا کہ اگر لوگوں کا ایسے ہی احتجاج جاری رہا تو پھر یہ سب لوگ ایک دن ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی والی کیفیت میں منظم ہو جائیں گے۔ ایکٹ کے تحت ہر طرح کی تقریر و تحریر پر پابندی لگا دی گئی۔
امرتسر کے شہر میں ہرکارے کے ذریعے یہ اعلان تین زبانوں انگریزی، ہندی اور پنجابی میں کروایا۔ ۱۳ اپریل کو بیساکھی کا میلہ تھا۔ ہزاروں لوگ امرتسر میں میلہ منانے آئے ہوئے تھے۔ جلیانوالہ باغ شہر کے بیچوں بیچ واقع تھا جہاں یہ سب لوگ ایک جشن کے سماں میں موجود تھے۔ ڈپٹی کمشنر ارونگ کو خفیہ والوں نے۱۲:۴۰پر یہ رپورٹ دی کہ وہاں ایک جلسہ منعقد کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔
یہ جلسہ ان کے نزدیک ایک بہت بڑی بغاوت یا سازش تھی جس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جا سکتا تھا۔سب سے پہلے کرنل ڈائر نے ایک چھوٹا سا جہاز منگوایا اور پرواز کر کے اندازہ لگایا کہ جلیانوالہ باغ میں کتنے لوگ اکٹھے ہو چکے ہیں۔
اس کے اندازے کے مطابق اس ۶ ایکڑ کے علاقے میں شام کے وقت بیس ہزار لوگ جمع تھے ڈپٹی کمشنر ارونگ اور کرنل ڈائر نے خاموشی اختیار کی اور لوگوں کو مزید وہاں جمع ہونے دیا۔ لیکن جیسے ہی سٹیج لگ گیا اور لوگ جمع ہو گئے تو سپاہ نے باغ کو گھیرے میں لے لیا۔
آج سے سات سال پہلے جب میں امرتسر کے ہال بازار میں واقع مسجد خیرالدین کے دروازے پر موجود اپنے دادا اور دادی کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے بعد جلیانوالہ باغ کی سمت روانہ ہوا تو میرے کانوں میں اپنے والد کی بتائی گئی، اس تفصیل کا ایک ایک فقرہ ٹکرانے لگا۔ ایک گیارہ سال کے اس یتیم بچے نے ۱۳اپریل ۱۹۱۹ء کے امرتسر میں جس فضا کو محسوس کیا تھا وہ ان کی یادداشتوں میں محفوظ تھا۔
مسجد خیرالدین اور جلیانوالہ باغ کا فاصلہ صرف ڈیڑھ کلو میٹر ہے۔ ان دونوں کے درمیان چوک فرید آتا ہے جہاں میرے والد اپنی بیوہ ماں اور دو بھائیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ اس راستے سے گزرتے ہوئے میں چشم تصور میں سو سال پرانا خاموش اور پرسکون امرتسر لا رہا تھا، جہاں بیساکھی کے میلے میں لوگ اردگرد کے دیہات سے آئے ہوئے ہیں، لاؤڈ سپیکروں کا شور ہے نہ گاڑیوں کے ہارنوں کی آوازیں۔
سب لوگ اپنی اپنی دھن میں مگن میلے ٹھیلے کے ماحول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ باغ کے ساتھ گولڈن ٹمپل کی یاترا اور باغ میں لگے ہوئے کھانے پینے کے سٹالوں پر رونق ہے اور تماشہ دکھانے والے اپنے ہنر دکھا رہے ہیں۔ اس سب کو اپنے چشم تصور میں لاتا ہوا جب میں باغ کے واحد چھوٹے سے دروازے سے اندر داخل ہوا تو مجھے انگریز ڈپٹی کمشنر اور فوجی کرنل کی سفاکیت کا اندازہ ہوا۔
باغ کے چاروں جانب اونچے اونچے مکانات تھے جن کی پشت باغ کی سمت تھی، یعنی کوئی دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب اس ذہنیت اور ٹریننگ کا جائزہ لیجیے جو اس سانحہ میں بروئے کار نظر آتی ہے۔ صبح نو بجے یہ اعلان کیا گیا کہ رات دس بجے سے امرتسر میں کرفیو نافذ ہو جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ رات تک آرام سے گھوم پھر سکیں۔
دو اہم رہنما ستیہ پال اور سیف الدین کچلو کو گرفتار کر کے امرتسر بدر کیا گیا تاکہ لوگوں میں غصہ پیدا ہو اور ساتھ ہی دفعہ ۱۴۴کے تحت چار سے زیادہ لوگوں کے ایک ساتھ اکٹھا ہونے پر پابندی بھی لگا دی گئی۔ سیاسی کارکنوں نے بیساکھی کے میلے پر جمع ہونے والی مخلوق سے فائدہ اٹھانے کے لیے باغ میں چھوٹا سا سٹیج لگا کر تقریریں شروع کر دیں۔
ڈپٹی کمشنر اور فوجی کمانڈر ڈائر نے وہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع ہونے کا وقت دیا۔ ایک اندازے کے مطابق جب وہاں پندرہ ہزار لوگ جمع ہو گئے تو ڈائر اپنے ساتھ گورکھا رائفلز اور ۵۹سندھ رائفلز کے پچاس جوانوں کو لے کر وہاں پہنچا، جن میں ۲۵گورکھے سپاہی اور باقی پٹھان اور بلوچ تھے۔ خاص طور پر کسی پنجابی کوان میں شامل نہ کیا گیا تاکہ انگریز سے وفاداری کے وقت اپنی ہم زبان قوم کا خیال نہ آ جائے۔
باغ کی جانب کھلنے والی پانچ چھوٹی چھوٹی گلیاں تھیں جن میں آہنی دروازے تھے ان کو بند کر دیا گیا اور واحد دروازے پر مشین گنوں سے لیس سپاہیوں کو قطار در قطار کھڑا کرنے کے بعد ڈائر نے اطمینان سے ہجوم کے اس حصے کو دیکھا، جہاں سب سے زیادہ لوگ موجود تھے اور پھر وہاں پر نشانہ لے کر فائر کرنے کا حکم دیا۔ بندوقوں نے شعلے اگلے، لوگوں کے جسموں سے گولیاں آر پار ہوئیں۔ لوگ بھاگ کر بند دروازوں کی طرف گئے مگر راستہ نہ پا کر کئی ایک نے جان بچانے کے لیے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔
باغ کے درمیان کھڑا میں سوچ رہا تھا کہ والد بتایا کرتے تھے کہ جب فوج کے سپاہی بھاگ کر دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے تو میں باہر نکل رہا تھا۔ کسی کو بھی انہیں دیکھ کر بالکل خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ لیکن ابھی میں گھر نہیں پہنچا تھا کہ پورا امرتسر گولیوں کی تراخ پڑاخ سے گونج اٹھا۔ ۱۶۵۰گولیاں فائر کی گئیں اور ۳۷۹لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد جو خوف کی فضا پیدا ہوئی، اس دوران پورے پنجاب میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور سرعام کوڑے مارنے کا قانون منظور کر کے سزائیں دی جانے لگیں، واقعہ کے بعد وہی ہوا جو ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی آج بھی ویسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔
ہندوستان کی حکومت نے واقعے کی تحقیق اور تفتیش کے لیے ایک کمیشن قائم کر دیا۔ جسے ہنٹر کمیشن کہا جاتا ہے۔ خوفناک چالبازی کے ساتھ حکومت دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ کچھ ایسے تھے جو اسے سفاکیت اور درندگی کہتے تھے، جن میں چر چل بھی شامل تھا، جبکہ بے شمار ایسے تھے جو اسے حکومت کی رٹ اور قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈائر کو فوج کی ملازمت سے برطرف کر دیا جائے لیکن اس کے برعکس برطانوی پارلیمنٹ کے دارالامراء نے اس کے حق میں ایک قرار داد منظور کی اور اس کو ایک تلوار پیش کی گئی جس پر لکھا تھا “پنجاب کو بچانے والا (Saviour of Punjab)۔ چرچل نے دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے اپنے مظالم کو چھپانے کے لیے دارالامراء میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے یہ قرار داد منظور کروائی ہے۔
ڈائر نے تلوار وصول کرتےہوئے کہا کہ ’’میں نے فائرنگ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے نہیں کی تھی بلکہ ہندوستانیوں کو ان کی نافرمانی کی سزا دینے کے لیے کی تھی‘‘۔ ایسے فقرے آج بھی آپ کو گونجتے سنائی دیں گے۔
اس کے بعد سے جو فضا او جو خوفناک ماحول اس ہندوستان میں پیدا ہوا اور جسے نام نہاد سیاسی قیادت، سول ایڈمنسٹریشن اور مددگار فوجی جنتا کے گٹھ جوڑ سے ’’حکمتِ عملی‘‘ ترتیب دی گئی اسے آج تک قائم رکھا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں جدید آلات تشدد اور مہلک ہتھیاروں کی اقسام میں اضافہ ہوا ہے عوام میں ریاست نے اپنے خوف کو ایسے کئی جلیانوالہ باغ جیسے واقعات اور آپریشن کر کے مزید گہرا کیا۔
جامعہ حفصہ اور ماڈ ل ٹاؤن سانحہ اسی تسلسل کا اظہار ہے ۔ جلیانوالہ باغ کے گیارہ سال بعد ویسا ہی پرتشدد سانحہ ۲۳اپریل ۱۹۳۰ء کو قصہ خوانی بازار میں پیش آیا۔ اس دفعہ تو سزا دینے کے لیے مزید خوفناک طاقت کا استعمال کیا گیا۔ بکتر بند گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ ہجوم کو کچلتی ہوئی آگے بڑھی اور بیچ کھڑے ہو کر چاروں جانب مشین گنوں سے نہتے لوگوں پر فائر کھول دیا گیا۔ اس دفعہ کمیشن تو بنا لیکن ریاست کے ظلم کی پردہ پوشی کے لیے ایک اور کردار وجود میں آ گیا۔
بادشاہ جارج ششم نے ’’جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور لکھنؤ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعمت اللہ چودھری کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی جج صاحب کو برطانیہ کے اعلیٰ ترین اعزاز Knighthood سے بھی نواز دیا گیا۔ جج صاحب نے اس قتل پر ۲۰۰صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جمع کروائی جس میں برطانوی فوج کے مظالم کا خوب تذکرہ کیا گیا۔ یہ رپورٹ مشرقی پاکستان کے سانحہ پر بننے والے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی طرح سرد خانے میں ڈال دی گئی۔ وجہ صرف ایک بیان کی گئی کہ اس طرح عوام کے سامنے فوج کا مورال تباہ ہو گا اور حکومت کی رٹ ختم ہو جائے گی۔
گزشتہ ایک سو سال سے ایسی ہی کیفیت ہے جو قائم ہے۔ محکوم عوام اور حاکم اسٹیبلشمنٹ۔ اس سو سال کے عرصہ میں ہم نے اپنی تباہی کے لیے دو رویے مستحکم کیے ہیں۔ پہلا یہ اصول کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، انصاف کی حکمرانی نہیں۔ یعنی جیسا ظالمانہ قانون بنا دو اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔
دوسرا یہ کہ حکومت کی حاکمیت یعنی حکومت کی’’رٹ‘‘ ہونی چاہیے۔ عوام کی حاکمیت نہیں۔ اگر عوام کی مرضی حکومت کی رٹ سے ٹکرائے تو کچل کر رکھ دو، چاہے آپ کو ایک اور جلیانوالہ والا باغ یا سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا نہ کرنا پڑ جائے۔
[تبصرہ(از سیلاب خان)]
[تحریرِ بالا میں اوریا صاحب نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی تربیت و ذہنیت پر بہت اچھے انداز سے روشنی ڈالی ہے، وہ تربیت و ذہنیت جو پاکستان فوج، بیوروکریسی ، عدلیہ اور سیاست دانوں کو انگریز سے حاصل ہوئی۔ اوریا صاحب کے اس موقف سے ہمیں پورا اتفاق ہے، لیکن تحریرِ ہٰذا میں گاہے موجودہ حالات کا ذکر بھی موجود ہے اور راقم کی نظر میں محترم مصنف ’بین السطور‘ عمران خان کی حالیہ سیاست سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ جبکہ ہماری نظر میں عمران خان کی ماضی کی سیاست کا بھی ایک بڑا حصہ اسٹیبلشمنٹ ہی کی سیاسی چال رہا ہے اور بظاہر عمران خان اس وقت اسٹیبلشمنٹ مخالف گروہ میں شامل ہے۔ یہ پاکستانی سیاست کی غلام گردش ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف، اسٹیبلشمنٹ ہی کی رضا مندی سے داخل ہوئے اور بعد میں اسٹیبلشمنٹ ہی کو آنکھیں دکھانے کے سبب نکالے بھی گئے اور جب نکالے گئے تو اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دیتے نظر آئے، ’مجھے کیوں نکالا‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘اس کی ایک مثال ہے جسے نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے اپنا بیانیہ بنایا لیکن یہ بیانیہ پی ڈی ایم کی حکومت بنتے ہی غائب ہو گیا بلکہ اس بیانیے کا نیا وارث عمران خان بن گیا۔ ذاتی طور پر مالی بد عنوانی ؍ کرپشن کے معاملات میں شاید عمران خان کا دامن صاف ہو (گو کہ توشہ خانہ سکینڈل بھی ہمارے سامنے ہے) لیکن مجموعی اخلاق و کردار اور ’لوٹوں‘ اور مفاد پرست سیاست میں عمران خان بھی ویسا ہی گندہ ہے جیسے باقی سیاست دان۔ یہ بات بہت سے قرائن سے ثابت ہے کہ عمران خان کو جنرل پاشا (ڈی جی آئی ایس آئی) نے لانچ کیا اور درجنوں لوگوں کو پاشا ہی تحریکِ انصاف میں لے کر آیا۔
فلہٰذا ہمیں عمران خان سے کوئی ہمدردی نہیں اور نہ ہی کوئی توقع ہے کہ وہ ملکِ پاکستان کے حالات کو سدھار سکتا ہے۔ اگر وہ پاکستان کے حالات و نظام کو سدھار سکتا تو تین ساڑھے تین سال کی حکومت میں کوئی فرق تو نظر آتا، جو ہمیں خورد بین سے دیکھنے پر بھی نظر نہیں آتا۔
اصل بات یہ ہے کہ فاسد نظام کی اصلاح اسی نظام کے دائرے ہی میں رہتے ہوئے نہیں ہو سکتی۔ مولانا مفتی حمید اللہ جان (نوّر اللہ مرقدہٗ) نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے متعلق کسی کی نقل کردہ بڑی پیاری بات کی تھی کہ
’’یہ نظام بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ اگر اس میں کوئی امانت دار مولوی (یعنی عالمِ دین) بھی ایک بار داخل ہو جائے تو وہ بھی کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ویسا ہی ہو جائے گا جیسے باقی سیاست دان ہیں…… لہٰذا یہ کنواں محض ڈول پہ ڈول نکالنے سے پاک نہیں ہو گا، پہلے اس کنوئیں سے مرادر کتا نکالنا پڑے گا، پھر پانی بھرے ڈول نکالنے سے یہ کنواں پاک ہو گا۔ جب تک مردار کتا اس کنوئیں میں ہے ہزار ڈول نکال لو تب بھی یہ پاک نہ ہو گا!‘‘
الغرض یہاں کوئی کتنا ہی پاک دامن کیوں نہ آ جائے وہ اس نظام کو ٹھیک نہیں کر سکتا۔ ۷۵ برس قبل اہلِ دین اور مسلمان عوام نے تو پاکستان کو ایک مسجد کی طرح بنانے ہی کی خاطر قربانیاں دی تھیں، لیکن پاکستان کے حکمرانوں (سول و ملٹری بیوروکریسی) کا اول روز سے ہی یہ وطیرہ رہا کہ انہوں نے اس کو مسجد تو بننے دیا لیکن یہاں کا نظام ’مسجدِ ضرار‘ کی طرح رکھا، جس کی بنیاد ہی فاسد تھی۔ اب اگر اس وطنِ عزیز کے نظام کی ہمیں اصلاح کرنی ہے تو اس مسجدِ ضرار کو، اس نظام کو بنیادوں سے اکھاڑنا ہو گا اور نئے سرے سے اسلامی نظام کی بنیاد ڈالنا ہو گی، وہ پاک و مطہر مسجد جس کی تاسیس اللہ کا تقویٰ ہو، وہ تقویٰ جو انسان کے ہر عمل کو اللہ کی بتائی شریعت کے مطابق کرواتا ہے، چاہے پرائیویٹ لائف ہو یا پبلک! (سیلاب خان میرپوری)