أشراط الساعۃ؍علاماتِ قیامت
حقیر لوگوں کا مراتب حاصل کرنا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيَأْتِي عَلَی النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ يُصَدَّقُ فِيهَا الْکَاذِبُ وَيُکَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ (ابن ماجہ)
’’ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب لوگوں پر دھوکے اور فریب کے چند سال آئیں گے؛ ان میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور رُوَیْبِضَہ باتیں کریں گے؛ کہا گیا : رُوَیْبِضَہ (کا مطلب) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : حقیر آدمی، جو عوام کے معاملات میں رائے دے گا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے اور فریب کے سالوں کا ذکر فرمایا ؛ ان میں دھوکہ اور فریب کیونکر پھیلے گا؟ جھوٹے شخص کی بات پر یقین کرنے کی وجہ سے ۔ ہٹلر کے وزیر نشر و اشاعت نے کہا تھا کہ ہم مسلسل جھوٹ بولتے رہیں گے تاکہ لوگ (اسی کو سچ سمجھ کر) اس پر یقین کرنے لگیں۔ اب تو مسلسل جھوٹ بولنا بھی شاید اس قدر ضروری نہیں رہا کہ لوگوں کے اونچے عہدے ہی ان کی بات کو عوام کے لیے قابل اعتبار بنانے کے لیے کافی ہیں ۔ آخری زمانے میں نہ صرف یہ کہ جھوٹے پر اعتماد ہوگا بلکہ سچے اور صالح انسان کی بات پر یقین نہیں کیاجائے گا۔ آج بعینہ ہم یہی پاتے ہیں کہ جھوٹوں پر اعتماد ہے اور سچوں پر نہیں۔ وہ جنہیں عوام لیڈر گردانتے ہیں اور اسی وجہ سے ان پر اعتماد کرتے ہیں وہی سب سے بڑے جھوٹے ہیں۔ جبکہ علما، صلحا، راست باز اور امانت دار شخصیات کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی ان کی بات پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔ امانت داری کی با ت کریں تو امین شخص کی بات کون سنتا ہے جب کہ خائن کی بات پر من و عن اعتماد کر لیا جاتا ہے۔ پھر آخر الزمان کی کیا نشانی بتلائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ رویبضہ بولیں گے، اپنی رائے دیں گے اور وہ رائے قبول کی جائے گی اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ رویبضہ کون ہیں؟ یہ معاشرے کے حقیر اور رذیل لوگ ہیں؛ مروجہ طبقاتی تقسیم کے اعتبار سے حقیر نہیں بلکہ جہالت کے باعث حقیر، علم دین کے نہ ہونے کے باعث رذیل۔ حقیر اور کم تر وہ نہیں جس کے پاس مال نہیں یا معاشرے میں جس کی ذات کو حقیر سمجھا جاتا ہے بلکہ حقیقت میں کم تر اور حقیر لوگ وہ ہیں جن کے پاس ان کے دین کا بنیادی علم تک نہیں ہےاور جو ادب و اخلاق سے عاری ہیں۔ایسا شخص جو اس قابل بھی نہیں ہے کہ اس کی بات سنی جائے اب لوگوں کے معاملات میں رائے دے گا؛ یہ شخص لیڈر ہوگا، قوم کی رہنمائی کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہوگی، یہ قوم کے لیے منصوبہ بندی کرے گا، یہ لوگوں کو سکھائے گا اور اس کی پیروی کی جائے گی……۔ آج مسلم دنیا میں یہ مراتب اسی قسم کے لوگوں کے پاس ہیں جن کے پاس ذرہ برابر علم دین نہیں ہے؛ حقیر اور بے حیثیت لوگ۔ اور وہ جن کے پاس علم ہے، فہم ہے، جو امانت دا ر ہیں، باصلاحیت ہیں؛ اور جو قیادت کے اہل ہیں وہ قید میں ہیں، جلاوطن ہیں، قتل کیے جاتے ہیں اور انہیں پھانسیوں پر لٹکایا جاتا ہے۔مذکورہ حدیث مسلم دنیا کے حالات کی بالکل درست کیفیت بیان کرتی ہے۔آج مسلم دنیا پر اسی طرح حکومت کی جارہی ہے، اس کو چلانے والے رویبضہ ہیں، وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ہیں۔
وَقَالَ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى تَصِيرَ لِلُكَعِ ابْنِ لُكَعٍ (مسند احمد)
’’ اور فرمایا دنیا اس وقت تک فنا نہ ہوگی جب تک کہ زمام حکومت جدی پشتی کمینوں کے ہاتھ میں نہ آجائے۔‘‘
لکع کا معنی لعین یعنی کمینہ ہے۔ المناویؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : اس دنیا میں اقتدار اور قدر و منزلت کمینوں کے پاس ہوگی اور اگر تم انہیں دیکھنا چاہو تو مالدار اور مشہور لوگوں کی جانب دیکھو۔
سب سے زیادہ مالدار اور مشہور لوگ وہ ہیں جنہیں ’سٹارز‘ کہا جاتا ہے۔ تفریحی سرگرمیوں کا پورا میدان (Entertainment Industry)منافقین سے بھرا ہوا ہے۔ وہاں یہ لوگ منافقت سیکھتے ہیں کیونکہ منافق شخص ہی بہترین اداکار ہوسکتا ہے اور منافقت ہی اسے اداکاری سکھاتی ہے۔ آپ اٹھارہ اٹھارہ سال بلکہ سات آٹھ سال کے پاپ سنگر بچوں تک کو دیکھیں تو وہ کروڑ پتی اور شہرت یافتہ ہیں، ہر میگزین کے سرورق پر ان کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں اور ہرجگہ ان کی مانگ ہے۔اور اگر آپ لوگوں سے، عوام سے ان اداکاروں اور گویّوں کے بارے میں رائے لیں تو وہ کہیں گے کہ فلاں تو بڑا زبردست ہے یا فلانی تو بڑی زبردست ہےاور سبحان اللہ یہ جملے گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث کا ہوبہو ترجمہ ہیں۔
……ويقال للرجل ما أعقله وما أظرفه وما أجلده وما في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان (متفق عليه)
’’ اور ایک شخص کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ کتنا ہوشیار، خوش طبع اور زبردست ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا ۔‘‘
سبحان اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صراحت دیکھیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ کہا جائے گا فلاں کتنا ذہین، کتنا زبردست ہے جب کہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔ کھلاڑی اور اداکار جن کے پیچھے ایک دنیا دیوانی ہے؛ ادب ،تہذیب، اخلاق وکردار سے بالکل عاری ہیں ؛ یہ معاشرے کا وہ بدترین طبقہ ہیں جنہیں لوگ زبردست کہتے ہیں اور جنہیں ابطال کہا جاتا ہے!!
صرف جان پہچان کے سبب سلام کیا جائے گا
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُسَلِّمَ الرَّجُلُ عَلَى الرَّجُلِ لَا يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلَّا لِلْمَعْرِفَةِ (مسند احمد)
’’ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بات قیامت کی علامات میں سے ہے کہ انسان صرف اپنی جان پہچان کے آدمی کو سلام کیا کرے گا۔‘‘
اہل اسلام کی سنت یہ رہی ہے کہ راہ گزرتے گلیوں، بازاروں، مساجد میں جومسلمان بھی نظر آتا اسے سلام کرتے، مگر اب سلام کا رواج ختم ہوگیا ہے اور لوگ صرف انہی لوگوں کو سلام کرتے ہیں جنہیں وہ جانتے ہیں۔ گویا سلام اب حقِ مسلم (حدیث کی رو سے) نہیں رہا کہ ہر مسلمان کو اس کا حق دیا جائے بلکہ یہ حق محض جان پہچان والوں کو دیا جاتا ہے۔ ہم آپ سب ہی جانتے ہیں کہ سلام ہر مسلمان کا حق ہے خواہ آپ اس سے واقف ہوں یا ناواقف ۔ مگر اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ امریکہ میں (غیر مسلم) لوگ راہ گزرتے ایک دوسرے کو زیادہ تہنیتیں پیش کرتے ہیں بہ نسبت مسلم دنیا میں مسلمانوں کے ایک دوسرے کو سلام کرنے کے۔ مسلمانوں کا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ اگر آپ کسی اجنبی شخص کو سلام کریں تو وہ جواب دینے کی بجائے اچنبھے سے آپ کو دیکھے گا اور پھر یاد کرنے کی کوشش کرے گا کہ اس نے آپ کو پہلے کہیں دیکھ رکھا ہے یا نہیں۔
عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی
…وَنِسَاءٌ کَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ کَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ کَذَا وَکَذَا (مسلم)
’’… اور (دوزخیوں کی دوسری قسم ان عورتوں کی ہے) جو لباس پہننے کے بادجود ننگی ہوں گی، دوسرے لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود بھی مائل ہوں گی۔ ان کے سر بختی اونٹوں کے کوہان کی طرح ایک طرف کو جھکے ہوئے ہوں گے اور یہ عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے آتی ہوگی۔‘‘
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک نشانی یہ بتائی کہ عورتیں لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی اور ان کے سر اونٹ کے کوہان کی طرح ایک طرف کو جھکے ہوئے ہوں گے……یہ یقیناً بال بنانے کا کوئی انداز ہوگا جس کی وجہ سے ان کے سر ایسے نظر آئیں گے……اور یہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی۔ ظاہر ہے کہ یہ مسلمان عورتوں کا ذکر ہے کہ کفار کی عورتیں تو ویسے ہی جنت میں داخل نہیں ہوں گی۔ یہ گناہ گار مسلمان عورتیں جو اس قسم کا لباس پہنیں گی وہ نہ صرف یہ کہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی نہ پاسکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو بہت زیادہ دور تک محسوس کی جاسکتی ہوگی ۔اور ایک اور روایت میں ہے کہ جنت کی خوشبو ستّر سال کی مسافت تک پہنچے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ لباس پہننے کے باوجود عریاں ہوں گی تو حقیقت یہ ہے کہ آج لباس کے نام پر جو چیز بیچی جاتی ہے وہ محض چند ڈوریاں ہی ہوتی ہیں؛ یہ انتہا درجے کی مثال ہے مگر اس زمرے میں فیشن کے نام پر مروج وہ لباس بھی آتےہیں جو بدن پر اس قدر کسے ہوئے ہوتے ہیں کہ جسم کی تمام ہئیت ان میں سے اس طرح واضح ہوتی ہے گویا لباس پہنا ہی نہیں ہے اور صرف جلد کی رنگت ہی کو یہ لباس چھپا پاتا ہے، نیز اس زمرے میں وہ لباس بھی آتا ہے جو اس قدر باریک کپڑے سے بنا ہو جس سے آر پار واضح دکھائی دے۔ ان تمام قسموں کا لباس پہننے والی عورتیں’ کاسیات عاریات‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ امریکہ و یورپ سے یہ واہیات فیشن شروع ہوتے ہیں ، مسلم ممالک کی بعض خواتین بھی پھر اس کو اپناتی ہیں اور یہ عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جنت میں داخل نہیں ہوں گی۔
جدید ذرائع نقل و حمل
عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَيَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي رِجَالٌ يَرْكَبُونَ عَلَى السُّرُوجِ كَأَشْبَاهِ الرِّحَالِ الرِّجَالِ يَنْزِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ نِسَاؤُهُمْ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ عَلَى رُءُوسِهِمْ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْعِجَافِ الْعَنُوهُنَّ فَإِنَّهُنَّ مَلْعُونَاتٌ (مسند احمد)
’’ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کے آخر میں ایسے لوگ بھی آئیں گے جو اونٹ سے مشابہ زینوں (کاٹھی) پر سوار ہو ں گے اور مسجدوں کے دروازوں پر اترا کریں گے۔ ان کی عورتیں کپڑے پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی، ان کے سروں پر بختی اونٹوں کی طرح جھولیں ہوں گی، تم ان پر لعنت بھیجنا کیونکہ ایسی عورتیں ملعون ہیں ۔‘‘
یہ حدیث جدید ذرائع نقل و حمل پر منطبق ہوتی معلوم ہوتی ہے اور خواتین سے متعلق اس کا کچھ حصہ گزشتہ حدیث سے تعلق بھی رکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ سواریاں اونٹ ہیں بلکہ فرمایا کہ اونٹ سے مشابہ ہیں۔اور ایک روایت میں ہے کہ لوگ زین سے مشابہ کشادہ چیز پر بیٹھے ہوں گے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ گھوڑے ، اونٹ یا گدھے خچر وغیرہ کی کاٹھی یا زین کشادہ نہیں ہوتی جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے کشادہ بتا رہے ہیں ۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گاڑیوں کا ذکر فرمایا مگر چونکہ اس وقت گاڑی(موٹر کار) کے لیے کوئی لفظ موجود نہیں تھا لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ بیان فرمائے جن سے سواری کی کیفیت کا اندازہ ہو کہ وہ اونٹ نہیں ہے ،مگر لوگوں کو یہاں سے وہاں لانے لےجانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اور اس سواری پر جو زین ہے وہ کشادہ ہے، نہ کہ اونٹ کی زین کی طرح تنگ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جدید ذرائع نقل وحمل کا جو ذکر اس حدیث مبارک میں فرمایا وہ ہمیں قرآن مجید میں بھی ملتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ(سورة النحل:8)
’’گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو اس نے پیدا کیا تاکہ تم ان پر سوار ہو اور یہ باعث ِزینت بھی ہیں۔ اور اللہ رب العزت اور بھی ایسی بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔‘‘
اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے اور وہ (سواریاں) بھی جنہیں تم نہیں جانتے۔ ان میں جہاز، گاڑیاں اور نقل و حمل کے دیگر ذرائع شامل ہیں جو آج ہم استعمال کرتے ہیں اور صرف اللہ ہی جانتا ہےکہ آئندہ مستقبل میں مزید کیا ایجادات ہونی ہیں۔یقیناً یہ ترقی تبدیلی اور صنعت و حرفت کی انتہا نہیں ہے، سبحان اللہ! ہر روز ہم نئی ایجادات کا مشاہدہ کررہے ہیں، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ موجودہ ذرائع نقل و حمل بھی تبدیل ہوجائیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ مساجد کے دروازوں پراپنی ان سواریوں سے اتریں گے ۔ اتریں گے تو وہ مسجدوں کے دروازوں پر ،مگر پھر ان کے متعلق کیا فرمایا کہ ان کی عورتیں کپڑے پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی، ان کے سروں پر بختی اونٹوں کی طرح جھولیں ہوں گی تم ان پر لعنت بھیجنا کیونکہ ایسی عورتیں ملعون ہیں۔
مومنین کے سچے خواب
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَکَدْ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ تَکْذِبُ وَأَصْدَقُهُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا وَرُؤْيَا الْمُسْلِمِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْئًا مِنْ النُّبُوَّةِ (ترمذی)
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب زمانہ قریب ہوجائے گا تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، ان میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہوگا جس کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی، مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا معنی یہ ہے کہ قیامت کے قریب مومنین کے اکثر خواب سچے ہوں گے اور جو کچھ وہ خواب میں دیکھیں گے دن کی روشنی میں اسی طرح واقع ہوگا۔علماءاس کی ایک توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ امت آخری امت ہے اور اس امت کے پاس مزید کوئی نبی نہیں آنا لہٰذا وحی کا نزول منقطع ہوگیا کہ وحی محض انبیاء ہی کے پاس آتی ہےاور چونکہ آخری زمانے میں حالات بہت شدید ہوجائیں گے اور مسلمانوں پر سختی بہت بڑھ جائے گی لہٰذا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سچے خوابوں کے ذریعے مسلمانوں کی ہمت بندھائیں گےاور خواب میں دی گئی بشارتوں کے ذریعے ان کے ایمان مضبوط فرمائیں گے۔ مگر خوابوں کے معاملے میں ہمیشہ محتاط ہی رہنا چاہیے کہ خواب حصولِ شریعت کاذریعہ نہیں ہیں۔ شریعت کا کوئی بھی حصہ خوابوں کے ذریعے نازل نہیں کیا گیا۔شریعت صرف وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی اور خواب محض بشارت دے سکتے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت یعنی خوش خبری ہی کہا ہے۔ امام بخاریؒ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحیح بخاری کے ذریعے حدیث کی ان کی خدمت کی تحسین فرما رہے ہیں، یہ خوش خبری ہے۔ ایک اور مثال امام سیوطیؒ کی ہے کہ جب وہ صحیح الجامع الصغیر کی تالیف فرما رہے تھے، انہوں نے ایک خواب دیکھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ (کتابت کردہ) احادیث پر نظر ثانی فرما رہے ہیں، یہ بھی بشارت ہے۔ خواب کے ذریعے شریعت کا کوئی نیا حکم نازل نہیں ہو سکتا۔ خوابوں کے ذریعے شریعت میں کوئی تبدیلی نہ کبھی ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے، ان کی حیثیت فقط خوش خبری کی ہے۔ مثلاً اولین مسلمانوں میں سے کسی نے ایک خواب دیکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم شہید ہوجاؤ گے۔اور حضرت عثمان بن عفانؓ جس دن شہید کیے گئے اس دن وہ روزے سے تھے، انہوں نے خواب دیکھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں ان سے فرما رہے ہیں کہ اے عثمان! آپ افطار ہمارے ساتھ کریں گے۔ اور اسی دن عثمانؓ شہید ہوگئے۔ دنیا میں انہوں نے افطار نہیں کیااور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں انہیں بتلایا تھا۔یہ بشارتوں کی وہ مثالیں ہیں جو اللہ پاک اہل ایمان کو خوابوں کے ذریعے عطا فرماتے ہیں ۔ خوابوں کے ذریعے دین میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ ہی اضافہ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں فرمایا کہ سب سے زیادہ سچے خواب وہی دیکھتے ہیں جو اپنی باتوں میں سب سے سچے ہوتے ہیں؛ جتنے سچے آپ خود ہوں گے اتنے ہی آپ کے خواب بھی سچے ہوں گے۔ وَأَصْدَقُهُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا صداقت پر مبنی خواب قلوب ِصادق سے ہی آتے ہیں۔انسان اگر سچا ہے تو غالب گمان ہے کہ اس کے خواب بھی سچے ہوں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا (سچا) خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔اس کا کیا معنی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب آتے رہے۔ رات آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے صبح وہ حقیقت بن کر سامنے آجاتا۔پھر جبرئیل امین کے ذریعے وحی کا سلسلہ تئیس برس تک جاری رہا۔ چھ ماہ کا تئیس سال سے تناسب چھیالیس اور ایک کا ہے۔ لہٰذا سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔اور نبوت کا یہ واحد حصہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد باقی رہ گیا ہے۔ فرشتے کے ذریعے انسان پر وحی کے نزول کا سلسلہ موقوف ہوگیاہے۔ اب دنیا میں کوئی انسان بھی باقی نہیں جس پر فرشتوں کے ذریعے وحی نازل کی جارہی ہو۔ یہ سلسلہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم، خاتم الانبیاء والمرسلین ، یعنی نبیوں اور رسولوں کے سلسلے پر مہر کے ذریعے ختم ہوگیا؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب جبرئیلؑ کسی انسان پر نازل نہیں ہوں گے۔مگر خواب جاری رہیں گے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے الہام کی قسم ہیں۔
ظہور قلم یا مطبوعات کی کثرت
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ ……ظُهُورَ الْقَلَمِ (جامع ترمذی)
’’ یہ بات علامات قیامت میں سے ہے کہ …… قلم کا چرچا ہوگا ۔‘‘
عربی زبان میں قلم کا ایک معنی تو قلم ہی ہے جس سے لکھا جاتا ہے اور لکھی ہوئی یا مطبوعہ چیز کو بھی قلم کہتے ہیں۔لوح محفوظ قلم کے ذریعے لکھی گئی۔ کیا یہ اسی طرح کا قلم ہے جس قسم کے قلم سے ہم لکھتے ہیں؟ نہیں ! یہ کچھ اور چیز ہے۔اسے قلم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لکھی ہوئی چیز ہے۔ ہر لکھی ہوئی یا مطبوعہ چیز یا جس چیز کو بھی دستاویز کی شکل دی جائے وہ قلم کے ذریعے ہوتی ہے۔اور یہ نشانی ظاہر ہوچکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لکھی ہوئی یا مطبوعہ چیزوں کی کثرت ہوگی۔چند صدیاں قبل لائبریریاں نہیں ہوتی تھیں ، لوگوں کے گھروں میں کتابیں نہیں ہوتی تھیں، نہ اخبار ہوتے تھے نہ رسالے، لکھا ہوا مواد بہت ہی کم ہوتا تھا۔ پوری پوری قوم کے پاس کوئی ایک کتاب نہیں ہوتی تھی، یعنی حقیقتاً پوری کی پوری قوم کے پاس لکھی ہوئی کوئی ایک چیز نہیں ہوتی تھی جسے کتاب کہا جاسکے۔ بہت سے قبائل اور اقوام ایسی تھیں جن کی زبان صرف بول چال کی زبان تھی لکھی جانے والی بولی نہیں تھی۔آج بھی ایسی زبانیں موجود ہیں جو لکھی نہیں جاتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو لکھنے پڑھنے والے افراد انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے اور اسلام کے ظہور کے بعد بہت طویل عرصے تک صرف مسلمان قوم تعلیم یافتہ تھی باقی ساری دنیا جہالت کی تاریکی میں رہ رہی تھی۔ لیکن اُس دور میں بھی مسلمانوں کے یہاں بھی ہر گھر میں مصحف موجود نہیں ہوتا تھا۔ بڑی بڑی مساجد میں مصاحف موجود ہوتے تھے تاکہ لوگ وہاں آئیں اور قراءت کریں، ان کے علاوہ صرف علما اور طلبائے علم کے پاس کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ مسلمانوں کے بڑے شہروں میں لائبریریاں ہوا کرتی تھیں جیسے بغداد ، قرطبہ لائبریری اور مکتبۂ دمشق اور سمرقند کا مکتبہ وغیرہ، اس کے علاوہ دیہات وغیرہ میں تو کتاب چھوڑ، مصحف بھی نہیں ہوتا تھا۔ کتابیں، مصاحف اور لکھی ہوئی چیزیں عام نہیں تھیں۔دنیا اخبارات اور رسائل کو جانتی ہی نہ تھی۔حتیٰ کہ ایک جرمن طابع گوٹن برگ نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا۔ ممکن ہے کہ چین وغیرہ بعض جگہوں پر انفرادی طور پر طباعت کا کوئی چھوٹا موٹا کام ہورہا ہو، مگر ایک انقلاب کے طور پر طباعت کا کام پندرہویں صدی عیسوی میں متعارف کرایا گیا اور پھر یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ قدیم زمانے میں کسی تاجر اور کسان کے پاس کوئی کتاب نہیں ہوا کرتی تھی، اب ہر ایک گھر میں مکتبہ بن گیا۔ہر گھر میں کتابیں نظر آنے لگیں۔ لوگ اخبارات اور رسائل سے متعارف ہوگئے۔لکھی ہوئی چیزوں کا وجود پوری دنیا میں اس طرح پھیل گیا کہ انتہائی دور دراز کےدیہی علاقوں میں بھی کتابیں دستیاب ہیں اور سکول موجود ہیں۔ اب طبع شدہ مواد دنیا کے ہر حصے میں پایا جاتا ہے اور انٹرنیٹ کے پھیلنے کے ساتھ لکھی ہوئی چیزوں کی مزید کثرت ہوگئی۔ انگلی کی ایک جنبش کے ساتھ انسان لاکھوں کتابوں اور طبع شدہ مواد تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ کمپیوٹر طبع شدہ مواد کے لیے ایک وسیلہ بن گیا جس کے ذریعے آپ چَھپی ہوئی چیز کو پڑھ سکتے ہیں، اب ضروری نہیں ہے کہ کاغذ ہی پر لکھا جائے۔ ہر چیز خواہ وہ کسی ذریعے سے لکھی گئی ہو، کسی تختہ پر ہو ، کسی کاغذ پر یا کسی کمپیوٹر سکرین پر یا کسی دیوار پر ……یہ سب طباعت ہی کی قسمیں ہیں۔ یہ ادب کی ترویج کے ذرائع ہیں اور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا معنی ہے کہ قیامت کے قریب طبع شدہ مواد کی کثرت ہوگی۔لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ علم بھی زیادہ ہوجائے گا۔ مطبوعات کی کثرت علم کی زیادتی پر دلالت نہیں کرتی۔یہ درست ہے کہ لوگ اب پہلے سے زیادہ سیکھ رہے ہیں اور پوری دنیا میں سکولوں کی بھرمار ہےمگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ درست اور حقیقی علم بھی حاصل کررہے ہیں کیونکہ لوگوں کی بیشتر تعداد فضول اور بےکار اعلامی ذرائع پر اعتبار کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے(junk food) فضول اور بےکار غذا ہوتی ہے، میک ڈونلڈ اور برگر کنگ والی غذا، اسی طرح فضول اور بےکار اعلامی ذرائع بھی ہوتے ہیں۔ اے بی سی، این بی سی، سی بی سی سب جَنک میڈیا ہے۔ حقیقی علم محض قابل اعتبار اور درست کتابوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے، ٹی وی سے نہیں۔ آپ حقیقی علم ٹی وی کے ذریعے ہرگز حاصل نہیں کرسکتے۔ اگر آپ کے لیے علم کے حصول کا ذریعہ ٹی وی ہے تو آپ کچھ نہیں سیکھ سکتے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ لوگوں کی بیشتر تعداد ٹی وی سے ہی معلومات حاصل کرتی ہے حالانکہ یہ بدترین ذریعہ ہے جو دراصل تجارتی اغراض کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اس میں بے کار اور فضول مواد دکھایا جاتا ہے اور اس کے ذریعےپورے پورے معاشروں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین کر ان کی سوچوں اور خیالات کو اپنے قابو میں لایا جاتا ہے۔ حقیقی علم اعلیٰ پائے کی قابل اعتبار اور بہترین کتابوں سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
چاند کا پھیل جانایا بڑا دکھائی دینا
قیامت سے پہلے کے زمانے میں چاند پھیل جائے گا۔ ضروری نہیں کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ چاند حقیقت میں بڑا ہوجائے گا بلکہ ہم اسے بڑا سمجھیں گے، یہ ہمیں بڑا دکھائی دے گا۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ چاند بڑا ہوجائے گا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انتفاخ الاھلۃ… یعنی چاند پھول جائے گا۔
من اقتراب الساعۃ انتفاخ الاھلۃ (طبرانی)
’’قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ چاند پھول جائے گا۔‘‘
چاند بڑا نظر آئے گا، اس سے بڑا جتنا وہ پہلے دکھائی دیا کرتا تھا۔اتنا فرق ہوگا کہ انسان پہلی کا چاند دیکھے گا اور کہے گا کہ یہ دوسری کا چاند ہے، کیونکہ وہ بڑا اور پھیلا ہوا یاپھولا ہوا نظر آئے گا۔اللہ جانتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہوگی لیکن اگر آپ چاند کی جانب اس وقت دیکھیں جب وہ افق کے نزدیک ہوتا ہے اور پھر اس وقت جب وہ آسمان پر چمکتا دکھائی دیتا ہے؛ تو ان دو اوقات میں سے کس میں چاند بڑا معلوم ہوتا ہے؟ جب وہ افق کے نزدیک ہوتا ہے تب بڑا دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً سان ڈیاگو میں چاند طلوع اور غروب کے وقت اتنا بڑا دکھائی دیتا ہے گویا سورج، یعنی افق کے قریب سورج کی طرح بڑا دکھائی دیتا ہے اور جب وہ بلند ہوتے ہوتے آسمان کے وسط میں آجاتا ہے تو چھوٹا دکھائی دینے لگتا ہے ۔ جب یہ افق کے نزدیک ہوتا ہے تو آپ کے اور چاند کے بیچ زیادہ سموگ، زیادہ گندی فضا، زیادہ آکسیجن، زیادہ نائٹروجن زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ حائل ہوتی ہے۔ یوں زمین کی گندی فضا اسے اس کی اصل حالت سے بڑا دکھاتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے ساتھ یہ مستقبل میں مزید بڑا دکھائی دینا شروع ہوجائے ۔
دین میں جھوٹ اور جعل سازی
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَکُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ يَأْتُونَکُمْ مِنْ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُکُمْ فَإِيَّاکُمْ وَإِيَّاهُمْ لَا يُضِلُّونَکُمْ وَلَا يَفْتِنُونَکُمْ (مسلم)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اخیر زمانے میں دجال ( یعنی جھوٹ کو سچ بنانے والے) اور کذاب ( یعنی جھوٹ بولنے والے ) پیدا ہوں گے۔ وہ ایسی حدیثیں تم کو سنائیں گے جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے نہ سنی ہوں گی، تو بچے رہنا ان سے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو گمراہ کر دیں اور آفت میں ڈال دیں ۔‘‘
دجال دغاباز، فریبی ،بہروپیے کو کہتے ہیں ؛ جو وہ ظاہر کرتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے۔ لیکن یہ حدیث مسیح دجال کی بابت بیان نہیں کررہی ، یہ دیگر دجالوں کی بات کررہی ہے۔ دجال وہ لوگ ہوتے ہیں جو فریبی ہوتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں؛ جو ظاہر کچھ کرتے ہیں اور اصل میں کچھ اور ہوتے ہیں ، ’کذابون‘… یعنی جھوٹے لوگ جو ایسی ایسی باتیں پیش کریں گے جو تم نے کیا تمہارے باپ دادا نے بھی کبھی نہ سنی ہوں گی۔ مسلمانوں نے ایسی باتیں کبھی نہیں سنی ہوں گی۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خبردار کیا ہے لہٰذا بہت ممکن ہے کہ یہ لوگ دین کے لبادے میں ظاہر ہوں اور لوگوں کے سامنے جو چیز پیش کریں اسے اسلام سے منسوب کریں، مگر وہ اسلام میں نہ ہو۔ نہ آپ نے اسے سن رکھا ہو نہ آپ کے باپ دادا نے۔ تو یہ بات ان لوگوں کی اپنی جھوٹی اختراع ہوگی، یہی وجہ ہے کہ انہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کہا۔ دجل کا معنی ہیر پھیر اور جعل سازی کے ساتھ انتہا درجے کا جھوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین سے متعلق معلومات کی تصدیق کرنی ضروری ہے۔ ہمیں اندھی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کتنے بڑے شیخ کوئی بات کہہ رہے ہیں، دین سے متعلق باتوں کی تحقیق و تصدیق بہرحال ضروری ہے۔ جیسا کہ امام مالکؒ نے فرمایا کہ دنیا میں ہر شخص کی بعض باتیں آپ قبول کرتے ہیں اوربعض کونہیں، سوائے ان کی بات کے جو اس قبر میں ہیں (یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم۔ امام مالکؒ نے یہ بات مسجد نبوی میں درس حدیث دیتے ہوئے فرمائی ہوگی)۔ انسانوں میں صرف نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ایسی ہے کہ جسے ہم من و عن قبول کریں گے۔ اس کے علاوہ خواہ کوئی کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو ہم ان کی بات من و عن قبول نہیں کرسکتے، کچھ لیتے ہیں اور کچھ چھوڑ بھی دیتے ہیں۔دین کی باتوں میں اس زمانے میں تصدیق اس لیے بھی زیادہ ضروری ہے کہ آج کل احادیث میں بہت تحریف کی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الشَّيْطَانَ لِيَتَمَثَّلُ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مِنْ الْکَذِبِ فَيَتَفَرَّقُونَ فَيَقُولُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ سَمِعْتُ رَجُلًا أَعْرِفُ وَجْهَهُ وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُهُ يُحَدِّثُ (مسلم)
’’ بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ (پر مبنی) کوئی حدیث سناتا ہے، پھر لوگ بکھر جاتے ہیں، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے ایک آدمی سے (حدیث) سنی ہے، میں اس کا چہرہ تو پہچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا، وہ حدیث سنا رہا تھا ۔‘‘
کیوں؟ لوگ چہرہ پہچانتے ہوں گے اور نام نہیں جانتے ہوں گے کیونکہ لوگ صرف اس کی بات سنیں گے اور اسے آگے پہنچائیں گے مگر اس شخص اور اس سے سنی ہوئی بات کی تحقیق نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بات آگے پہنچانے سے پہلے اس کی تصدیق کرنی چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ بات درست نہ ہو۔ لوگوں کے درمیان بہت سی غلط باتیں گردش کررہی ہوتی ہیں جو ناقابل یقین حد تک غلط ہوتی ہیں اور دین میں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔
شیاطین کا نکلنا اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ إِنَّ فِي الْبَحْرِ شَيَاطِينَ مَسْجُونَةً أَوْثَقَهَا سُلَيْمَانُ يُوشِکُ أَنْ تَخْرُجَ فَتَقْرَأَ عَلَی النَّاسِ قُرْآنًا(مسلم)
’’ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ سمندر (کی تہہ) میں بہت سے شیاطین قید ہیں جنہیں حضرت سلیمانؑ نے باندھا تھا، وقت آ رہا ہے کہ وہ نکلیں گے اور لوگوں کے سامنے قرآن پڑھیں گے۔ ‘‘
یہاں حدیث میں لفظ قرآن استعمال ہوا مگر اس کا مطلب القرآن یعنی قرآن پاک نہیں ہے۔ عربی زبان میں قرآن کا معنی تلاوت، ذکر، بیان ہے۔ لہٰذا یہ حدیث ’القرآن‘ کی بات نہیں کررہی بلکہ بیان کی بات کررہی ہے۔یہ شیاطین سمندروں سے نکلیں گے اور لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور دعویٰ کریں گے کہ جو کچھ وہ بیان کررہے ہیں وہ وحی ہے اور یہ مقدس کتاب کی باتیں ہیں۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرسکتے تھے کہ یہ قرآن کی باتیں ہیں مگر قرآن میں تحریف نہیں کی جاسکتی کہ اللہ پاک نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ (سورة الحجر:9)
’’ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
جھوٹی گواہی دینا اور حق گواہی چھپانا
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ ……وَشَهَادَةَ الزُّورِ وَكِتْمَانَ شَهَادَةِ الْحَقِّ … (مسند احمد)
’’ یہ بات علامات قیامت میں سے ہے کہ …… جھوٹی گواہی دی جانے لگے گی اور سچی گواہی کو چھپایا جائے گا …۔‘‘
لوگ عدالتوں میں جائیں گے اور جھوٹ بولیں گے، جھوٹی گواہی دیں گے اور جو لوگ حق جانتے ہوں گے وہ اسے چھپائیں گے۔ ایسا ہونا معاشرے کی تباہی کی علامت ہےکیونکہ کوئی بھی معاشرہ عدل وا نصاف کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔عدل ہی معاشرے کو جوڑنے والی چیز ہے، جب بھی یہ مفقود ہوگا لوگوں کی زندگی خستہ حال ہوگی۔دنیا میں لوگوں پر گزرنے والی آزمائشوں کو دیکھیں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جس قدر عدل کا فقدان ہوگا اسی قدر لوگوں کی زندگی بدتر ہوگی،خواہ ان کے پاس پیسے کی کمی نہ ہو، کیونکہ یہ پیسے کا مسئلہ تو ہے ہی نہیں ۔ تحفظ اور سکون کا احساس جو لوگوں کے د لوں میں ہوتا ہے ، اس کی بنیاد محض عدل ہے۔یہ بدترین حالات تب ہوں گے جب لوگ جھوٹی گواہی دیں گے اور سچی گواہی چھپائیں گے۔ اسلام عدل کو اس حد تک اہمیت دیتا ہے کہ جھوٹی گواہی سات کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ ذرا غور کریں کہ سات کبیرہ گناہوں میں سے ایک جھوٹی گواہی بھی ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات کبائر کا ذکر فرمایا جن میں شرک باللہ، حقوق والدین اور سود شامل ہے،اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیک لگا رکھی تھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک چھوڑ کر سیدھے ہوبیٹھے اور تین مرتبہ فرمایا: الا وشھادۃ الزور، جھوٹی گواہی، جھوٹی گواہی، جھوٹی گواہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو دہراتے رہے یہاں تک کہ صحابہ کرام خواہش کرنے لگے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مزید یہ الفاظ نہ کہیں۔ یہ اس قدر اہم ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اس قدر اصرار کیا اور اسے بیان کرتے ہوئے اس قدر بےچینی کا اظہار فرمایا اور یہی وجہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹی گواہی سے متعلق بہت فکرتھی۔ جھوٹی گواہی اس قدر خطرناک ہے کہ یہ انسان کے نیک اعمال کو تباہ کردینے والے سات کبائر میں شامل ہے۔اسی طرح سچی گواہی کو چھپانا، حق کو جانتے بوجھتے چھپانا بھی ایک گناہ ہے۔ جہاں گواہی کی ضرورت ہو اور وہاں آپ جانتے ہوئے بھی انجان بن جائیں تو یہ گناہ ہے۔
مردوں کی نسبت عورتوں کا تناسب بڑھ جانا
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ …… تَکْثُرَ النِّسَاءُ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ حَتَّی يَکُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ (بخاری)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلت ہوجائے گی، یہاں تک کہ ایک مرد پچاس عورتوں کا کفیل ہوگا۔‘‘
سبحان اللہ! کس قدر بڑا فرق ہے کہ ہر پچاس عورتوں پر ایک مرد۔ امام نوویؒ نے اس کی شرح میں فرمایا:
’’ فتنے کے دور میں جنگوں کی کثرت ہوگی اور ان جنگوں میں مرد قتل ہو جائیں گے کہ وہی مقاتلین ہوتے ہیں عورتیں نہیں( لہٰذا عورتوں اور مردوں کا تناسب اس قدر بدل جائے گا)۔‘‘
ناگہانی موت
……أن یظھر موت الفجأة (طبرانی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’ناگہانی موت بہت بڑھ جائے گی۔‘‘
دل کے دورے ، فالج اور دیگر امراض کے حملے سے اچانک موت کا واقع ہونا اس ذیل میں آتا ہے۔ البتہ حادثاتی موت اس میں شامل نہیں کہ اس میں موت کی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ جبکہ حدیث میں جس قسم کی موت کا ذکر ہے وہ ایسی ہے کہ ٹھیک ٹھاک انسان بظاہر بلاوجہ ہی مردہ پایا جائے، یقیناً وجہ تو ہوگی مگر وہ ظاہر نہ ہوگی۔ مرنے والے انسانوں کے جسم کے اندر ہی ایسا کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے گا کہ جس سے ان کی اچانک موت واقع ہوجائے گی۔دل کے دورے اور اچانک موت کا سبب بننے والی دیگر بیماریاں جدید دور کے امراض ہیں۔ یہ بیماریاں ٹیکنالوجی کے دور میں جدید طرز زندگی کی پیداوار ہیں اور اب یہ وبا کی طرح پھیل چکی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی زندگی میں حرکت بہت کم ہوگئی ہے۔ تمام کام دفتر میں کرسی پر بیٹھ کر ہوتا ہے۔ ماضی میں کون دفاتر میں بیٹھ کر کام کیا کرتا تھا؟ لوگوں کے کام کرنے کا یہ طریقۂ کار نہ تھا۔ کوئی زمین دار ہے تو وہ اپنی زمینوں پر کام کرتا تھا، تاجر اور دکاندار ہے تو سامان تجارت کی خرید و فروخت کے لیے اسے سفر کرنا پڑتا تھا،؛ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے عموماً پیدل سفر کیا جاتا تھا، لوگوں کی زندگی جسمانی طور پر متحرک تھی ۔ ایک جگہ پر بیٹھے بیٹھے کام کرنا جدید دور کا مسئلہ ہے۔ماضی میں سیر و تفریح کی جگہوں، پارکوں وغیرہ کا رواج نہ تھا کہ فطری طور پر لوگوں کا طرز زندگی ایسا تھا جو انہیں چاق و چوبند رکھتا تھا۔اُس دور میں اگر لوگ کسی کو منہ اندھیرے دوڑ لگاتے دیکھتے تو یہی کہتے کہ ا س کا دماغ خراب ہوگیا ہے مگر اب لوگوں کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ اپنی زندگیوں میں حرکت کی کمی کو سیر و تفریح اور ورزش وغیرہ کے ذریعے دور کریں۔ ماضی کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں پڑھا کہ لوگ خاص طور پر ورزش کیا کرتے تھے۔ لوگ ورزش کی خاطر وزن نہیں اٹھاتے تھے، سیر نہیں کرتے تھے، دوڑ نہیں لگایا کرتے تھے۔ امریکہ کی مثال لیں تو یہاں لوگوں کے ساکت طرز زندگی کے باعث درستیٔ صحت (Health and Fitness) باقاعدہ ایک کامیاب کاروبار کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اور یہی غیر متحرک طرز زندگی ناگہانی اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ماضی میں لوگوں کو یہ بیماریاں اس لیے لاحق نہیں ہوتی تھیں کہ ان کے جسم مضبوط اور صحت مند ہوتے تھے۔ لوگوں کے پاس گاڑیاں اور جہاز نہیں تھے لہٰذا روزمرہ زندگی میں پیدل چلنا ان کے لیے عام سی بات تھی۔لوگ طویل طویل سفر کیا کرتے تھے حتیٰ کہ بیرون ملک اسفار کے لیے لوگ میلوں پیادہ سفر کیا کرتے تھے۔
عداوت و دشمنی
سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ السَّاعَةِ فَقَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ وَلَكِنْ أُخْبِرُكُمْ بِمَشَارِيطِهَا وَمَا يَكُونُ بَيْنَ يَدَيْهَا إِنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا فِتْنَةً وَهَرْجًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْفِتْنَةُ قَدْ عَرَفْنَاهَا فَالْهَرْجُ مَا هُوَ قَالَ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ الْقَتْلُ وَيُلْقَى بَيْنَ النَّاسِ التَّنَاكُرُ فَلَا يَكَادُ أَحَدٌ أَنْ يَعْرِفَ أَحَدًا(مسند احمد)
’’ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا، البتہ میں تمہیں اس کی کچھ علامات بتائے دیتا ہوں اور یہ کہ اس سے پہلے کیا ہوگا؟ قیامت سے پہلے فتنے ہوں گے اور ’’ہرج ‘‘ ہوگا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فتنے کا معنی تو ہم سمجھ گئے مگر ہرج سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل حبشہ کی زبان میں اس کا معنی قتل ہے۔ نیز لوگوں میں اجنبیت پیدا ہوجائے گی اور کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا۔‘‘
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا یہ معنی نہیں ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے نام سے یا اس کے تعارف سے واقف نہیں ہوں گے، مطلب یہ ہے کہ ان کا آپس میں تعامل ایسا ہوگا گویا وہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے اور وہ ایک دوسرے سے بیر رکھتے ہوں گے۔لوگ ان لوگوں کے ساتھ بھی مخاصمانہ رویہ رکھیں گے اور اجنبیت برتیں گے جنہیں وہ اچھی طرح جانتے پہچانتے ہوں گے۔ گویا جنگل کا قانون چلے گا اور دشمنی اور عداوت بہت بڑھ جائے گی۔صحابہؓ اس بارے میں جانتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اس پر متنبہ کرتے رہتے تھے۔ ذیل میں طبرانی کی ایک روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم نے حضرت عمرؓ کو اس حوالے سے ایک خط لکھا۔
عمر بن خطابؓ کی خلافت کے دور میں معاذ بن جبلؓ اور ابو عبیدہ بن جراحؓ نے نعیم بن ابی ہند کے ہاتھ امیر المومنین کو ایک خط ارسال کیا۔اس خط میں دیگر صلاح مشورہ کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ ’’ہم آپس میں اس امت کے آخری دور کے حوالے سے بات کررہے تھے اور ہماری گفتگو میں یہ ذکر بھی آیا کہ آخری دور میں لوگوں کا یہ حال ہوجائے گا کہ اعلانیہ وہ ایک دوسرے کے بھائی ہوں گے اور پوشیدہ طورپر ایک دوسرے کے دشمن۔‘‘یہ حضرات حضرت عمر بن خطابؓ کو اس آنے والے دور کے حوالے سے متنبہ کرنا چاہتے تھے کہ جب بظاہر لوگ ایک دوسرے سے ہنس کر ملیں گے، مصافحہ اور معانقہ بھی کریں گے مگر دراصل وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ عمر بن خطابؓ نے جواباً فرمایاکہ ’’آپ لوگوں نے مجھے اس وقت کے بارے میں متنبہ کیا کہ جب لوگ ظاہر میں دوست اور حقیقت میں دشمن ہوں گے، تو میں آپ حضرات کو یہ بتلا دینا چاہتا ہوں کہ یہ حدیث ہمارے بارے میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس موجودہ دور کے حوالے سے ہے۔یہ اس دور کے بارے میں ہے کہ جب لوگوں کے مفاد ہوں گے اور وہ خائف ہوں گے۔ اس وقت لوگ صرف اس دنیا کے فائدے کے بارے میں سوچیں گے۔‘‘ایک شخص دوسرے میں صرف اس دنیا کے کسی لالچ اور فائدے کے حصول کے لیے دل چسپی رکھے گا۔ یہ تعلقات ہرگز اللہ رب العزت کی خاطر نہیں ہوں گے بلکہ یہ کاروباری نوعیت کے ہوں گےاور ان کا مقصد اس دنیا میں حصولِ مفادہوگا۔ لوگوں کا آپس کا تعلق للہ فی اللہ نہیں ہوگا بلکہ ان کے تعلقات کا مطمح نظر صرف اس دنیا کا مفاد ہوگا۔ بیشتر دنیا میں تعلقات کا اب یہی حال ہے جبکہ الحب فی اللہ کی بنیاد پر تعلقات اور محبتیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ رشتوں اورتعلقات کی بنیاد فقط پیسہ اور دنیاوی مفادات ہی رہ گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دل آپس میں جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ جس چیز اور جس رشتے کی بنیاد بھی دنیاوی منافع پر ہوگی وہ پائیدار نہ ہوگا۔پائیدار اور باقی رہ جانے والا صرف وہی ہے جس کی بنیاد آخرت ہو۔ لوگوں کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی سمتیں جدا ہیں، قرآن اسے ﴿وقلوبھم شتّٰی﴾ کہہ کر بیان کرتا ہے۔ شتّیٰ کا معنی’ منتشر ہونا‘ کے ہیں۔ہر ایک کا مقصد، اس کی منزل، اس کی سمت الگ ہے۔ اگر کوئی مشترکہ منزل ہوسکتی ہے تو وہ صرف آخرت ہے۔ دنیا میں کبھی نہ کبھی ضرور ایسا موقع آتا ہے جب ایک شخص کا مفاد دوسرے سے ٹکراتا ہے، خواہ اشخاص کے مابین کتنے ہی مشترکہ مفادات کیوں نہ ہوں، کہیں نہ کہیں ان میں اختلاف آتا ہی ہے لہٰذا ماہرانہ رائے رکھنے والے بہت سے منتظمین خواہ لاکھ یہ کہیں مگر ہمیشہ اور ہرجگہ یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ ہر فریق ہی مطمئن اور خوش رہے۔ کبھی نہ کبھی مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہو ہی جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ (سورۃ البقرۃ: ۲۵۱)
’’ اور اگر (اس طریقے سے) اللہ ایک گروہ کو دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالیٰ تو تمام جہانوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔‘‘
اور یہ کہ
﴿ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا﴾ (سورۃ الحج: ۴۰)
’’ اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض دوسرے لوگوں کے ذریعے دور نہ کرتا رہتا تو ڈھا دی جاتیں ساری خانقاہیں ‘ گرجے ‘ کنیسے اور مسجدیں ‘ جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔‘‘
اگر جہاد نہ ہوتا جو دشمنوں کو دور رکھتا ہے تو عبادت گاہیں تباہ ہوجاتیں۔ جب بھی مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو ایک فریق دوسرے پر لازماً غالب آتا ہے ۔عمر بن خطابؓ نے صحابہؓ سے کہا کہ آپ فکرمند نہ ہوں ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری آپس کی محبتیں اور تعلقات کی بنیاد محض دنیاوی مفادات ہوں۔
جزیرۂ عرب کا دوبارہ سرسبز و شاداب ہونا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ ……حَتَّی تَعُودَ أَرْضُ الْعَرَبِ مُرُوجًا وَأَنْهَارًا (صحیح مسلم)
’’ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ……عرب کی سرزمین دوبارہ چراگاہوں اور نہروں میں بدل جائے گی۔‘‘
اس حدیث مبارک میں دوبارہ کا لفظ بہت اہم ہے۔ گو عرب قوم اب جغرافیائی لحاظ سے زمین کے بہت بڑے حصے پر پھیلی ہوئی ہے مگر اس حدیث مبارک میں بالخصوص جزیرۂ عرب کا ذکر ہے ،جو علاقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عربوں کی سرزمین تھا۔ یہ جزیرہ بحر ہند، بحر احمر اور خلیج فارس سے گھرا ہوا ہے۔ زیادہ تر یہ صحرائی علاقہ ہے۔ اس کے جنوب میں یمن ہے، شمالی علاقوں میں کچھ سرسبز حصہ بھی ہے مگر اس کا بڑا حصہ صحرا پر مبنی ہے۔ الربع الخالی اور صحرا النفود (شمالی عرب کا بڑا صحرا) فقط ریت کے ٹیلے ہیں۔ نیز الربع الخالی دنیا کا وہ حصہ ہے کہ جہاں کوئی چیز نہیں اگ سکتی، فقط ریت ہی ریت ہے۔اسی وجہ سے اسے الربع الخالی (The empty quarter) کہا جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن آئے گا کہ جب یہ صحرائی علاقے پھر سے سرسبز ہوجائیں گے اور یہاں دریا بہیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعود کا لفظ استعمال فرمایا یعنی وہ دوبارہ اسی طرح سرسبز ہوجائیں گے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے بھی کبھی ایسے سرسبز ہی ہوں گے۔یہ حدیث کا ایک سائنسی معجزہ ہے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی اور عکس سازی (imaging) کی صنعت کے استعمال کے ذریعے سائنس دانوں نے یہ دریافت کیا کہ الربع الخالی اور جزیرۂ عرب کے بعض دیگر حصے جنگلات پر مبنی ہوا کرتے تھے اور وہاں دریا بہتے تھے۔ یہ علاقہ زمین کے ان حصوں پر مشتمل ہے جہاں قوم عاد بستی تھی اور بعض دیگر سلطنتیں قائم تھیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ایک سے زیادہ ادوار میں یہ علاقہ سرسبز رہا ہو مگر برفانی دور (ice age) کے اواخر میں یہ علاقہ بہرحال سرسبز رہا ہے۔کیونکہ برفانی دور میں زمین کے جنوبی اور شمالی حصے برف سے ڈھک گئے تھے جبکہ عرب کا علاقہ اس وقت گرم ترین جنگلات پر مبنی تھا اور وہاں خوب بارش ہوا کرتی تھی۔بعد ازاں گلیشیر پھسل پھسل کر دوسری جگہوں پر چلے گئے اور دیگر جگہوں پر جنگلات اگنے لگے اورموسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ اس علاقے میں بارشیں ہونا بند ہوگئیں اور یہ علاقہ صحرا بن گیا۔ لیکن اب تحقیق کہتی ہے کہ یمن کے مشرقی حصے اور سعودی عرب کے جنوب مشرقی حصوں میں دریاؤں کے نشانات ہیں اور یہ سب وہ سیٹیلائٹ کے ذریعے موصول ہونے والی تصویروں کی مدد سے بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں باقاعدہ د ریاؤں سے بنے قدرتی حوضوں (River Basins)کی علامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دور میں یہاں خوب پانی بہتا تھا۔ یہ دوبارہ کیسے ہوگا اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایسا ہوجائے کہ اس علاقے میں پھر سے بہت بارشیں ہونی شروع ہوجائیں یا پھر ٹیکنالوجی کی ترقی کے ذریعے بھی یہ ممکن ہوسکتا ہے۔صنعت و حرفت میں ترقی کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ اس پوری زمین کو سینچا جائے، اس کی آبیاری کی جائے اور اسے دوبارہ سرسبز و شاداب بنا دیا جائے نیز بعض دیگر ذرائع کے استعمال سے بھی ایسا ممکن ہے۔اللہ ہی جانتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگا مگر یہ ایسی نشانی ہے جو ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور عرب امارات کے بعض علاقوں میں……جہاں زراعت کو فروغ دینے کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہایا جارہا ہے ……ایسا ہوچکا ہے ، مگر بہرحال ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ ان علاقوں کو مجموعی طور پر سرسبز و شاداب کہاجاسکے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ زراعت کے فروغ کی وجہ سے پہلے کی نسبت یہ علاقے سرسبز ہوگئے ہیں مگر پھر بھی تاحال اسے باغات اور بہتے دریاؤں کی سرزمین نہیں کہا جاسکتا۔
(جاری ہے، ان شاءاللہ)
[یہ سلسلۂ مضامین نابغۂ روزگار مجاہد و داعی شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے انگریزی میں ارشاد کیے گئے سلسلۂ دروس ’Al-Aakhirah – The Hereafter‘ کا اردو ترجمہ ہیں، جو بِتوفیق اللہ، قسط وار مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں شائع کیے جا رہے ہیں ۔ شیخ انور کو دعوت الی اللہ کے جرم میں امریکہ نے ایک ڈرون حملے کا نشانہ بنایا جس میں آپ اپنی ایک اہلیہ سمیت سنہ ۲۰۱۱ء کے نصفِ ثانی میں جامِ شہادت نوش کر گئے! ]