موالات ومعادات اسلامی عقیدے کی اساس اور ’’لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘کے لوازمات اور شرائط میں سے ہے، حتیٰ کہ بعض علماء کا کہنا ہے کے اثباتِ توحید اور ردّشرک کے بعد قرآنِ مجید میں جتنا زور ولاء وبراء پردیا گیا ہے اتنا زورکسی دوسرے مسئلہ پرنہیں ہے۔اگر غوروفکر سے کام لیا جائے تو قرآنِ مجید کا ایک بہت بڑا حصہ احکامِ ولاء و براء پرمشتمل ہے ۔حتیٰ کہ بعض مستقل سورتیں ہی اس مسئلے کے اثبات کے لیے نازل ہوئی ہیں، جیسے سورۃ التوبہ، الممتحنہ اور الکافرون وغیرہ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرَاھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ الْعَدَ اوَۃَ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوا بِاﷲِ وَحْدَہٗ (سورۃ الممتحنہ:۴)
’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھانمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اورتمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اﷲکو چھوڑ کر پوجتے ہو‘قطعی بیزار ہیں ۔ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اورتمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اوربیرپڑگیا جب تک تم اﷲواحد پرایمان نہ لاؤ۔‘‘
اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
اَوثَقُ عُرِی الْاِیْمَانِ الْمُوَالَاۃُ فِی اللّٰہِ وَالْمُعَادَاۃُ فِی اللّٰہِ وَالْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَالْبُغضُ فِی اللّٰہِ(الطبرانی الکبیر :۱۱۵۳۷‘ ۱۱/ ۱۷۲)
’’ایمان کا سب سے مضبوط کڑا اﷲکی رضا کی خاطر موالات ومعادات (وفاداری وبے زاری)اور اﷲہی کی رضا کی خاطر محبت ودشمنی رکھناہے۔‘‘
یہ عقیدہ الولاء والبرا‘صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے رگ وریشہ میں رچ بس گیا تھا۔اُنہوں نے اپنی زندگی کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کردیا تھا۔روزمرہ کے تعلقات ومعاملات ہوں یادلی ہمدردیاں،خویش و اقارب کی محبتیں ہوں یا کسی سے دشمنی اور عداوت کامعاملہ ، اُن کی سیرت کو جس پہلو سے بھی دیکھیں ، عقیدۂ الولاء البراء ہی کو بنیاد بنا کر وہ ان مراحل ِ زندگی سے سرخروئی کے ساتھ گزرے۔
اللہ کے لیے محبت اور دوستی اور اللہ ہی کے لیے عداوت اور دشمنی کی واضح ترین مثالیں غزوۂ بدر کے موقع پر سامنے آئیں۔جب حضرت ابوعبیدہ ؓبن الجراح نے اپنے باپ عبداللہ بن الجراح کو تہہ تیغ کردیاتھا ۔ اس کی وجہ محض یہ تھی کہ والد کفر کا جھنڈا اٹھا کر آیاتھا اور ابوعبیدہؓ نے اپنی باگ ڈور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دی تھی۔
اسی طرح حضرت مصعبؓ بن عمیرنے بدر کے دن اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کردیا تھا۔ان کا ایک دوسرا بھائی زرارہ بن عمیر المعروف ابو عزیز مکی بھی کافروں کی طرف سے شریکِ معرکہ تھا۔اسے جب حضرت ابوایوب انصاریؓ جنگ کے بعد گرفتار کرکے باندھ رہے تھے تو حضرت مصعبؓ کی نظر بھی اس پر پڑی۔ انہوں نے اپنے انصاری بھائی سے کہا ’’اے بھائی! اس جنگی قیدی کو مضبوطی سے باندھنا،اس کی ماں بڑی مال دار ہیں‘‘۔ یہ سن کر زرارہ نے تعجب اور غصے سے کہا ’’تمہارا خون کس قدر سفید ہو گیا ہے کہ تم ایک غیر کو اپنے بھائی کے خلاف اکسا رہے ہو‘‘۔تو حضرت مصعبؓ نے فرمایاکہ ’’نہیں تم غلط کہہ رہے ہو،تم میرے بھائی نہیں ہوبلکہ میرا بھائی تو وہ ہے جو تمہیں باندھ رہا ہے‘‘۔
اسی غزوے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمن بھی غزوۂ بدر میں کفار کی جانب سے شریک تھے۔بعدمیں یہ مسلمان ہوگئے تو ایک دن بیٹے نے باپ کو بتایا کہ آپ غزوۂ بدر میں میری تلوار کی زد میں آگئے تھے لیکن میں نے حقِ پدری کا لحاظ کرکے چھوڑ دیا ،حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ ’’ اگر تو میری زد میں آجاتا تو میں تجھے قتل کردیتا اور بیٹا ہونے کا بالکل لحاظ نہ کرتا کہ میری محبت کا مظہر تُو نہیں بلکہ اسلام، اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہیں‘‘۔
اس معرکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے نوازا اور کفار کو شرم ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔کفار کےستّر (۷۰)افراد قید ہوئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے بارے میں اپنے اصحابؓ سے مشورہ کیا۔صحیح مسلم میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر ؓنے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!ہرشخص اپنے عزیز کو قتل کرے،علیؓ کو حکم دیں کہ وہ اپنے بھائی عقیل کی گردن ماریں اور مجھ کو اجازت دیں کہ میں اپنے فلاں عزیز کی گردن ماروں اس لیے کہ یہ لوگ کفر کے پیشوا اور امام ہیں۔
مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اسی ایمانی غیرت اور دین ہی کی بنیاد پر سب کچھ لُٹا دینے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام غزوات اور جہادات اپنی ہی قوم اور اپنے ہی خویش و اقارب اور اپنے ہی اعزااور احباب ہی سے تو تھے ،کسی غیر ملکی اوراجنبی قوم سے تو نہ تھے۔جنگ بدر میں مہاجرین کے سامنے کسی کا باپ تھا اور کسی کالخت جگراو رکسی کا بھائی اور کسی کا چچا اور کسی کا ماموں اور عام رشتہ داری تو سبھی سے تھی۔محض اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کے لیے صحابہ کرامؓ کی تیغ بے دریغ بے نیام تھی رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔ واہ واہ ایمان ایسے ہی عشق کا نام ہے جس کے سامنے لیلیٰ او رمجنوں کی تمام داستانیں گرد ہیں اور قرآن وحدیث میں جو ہجرت کے فضائل سے بھرے پڑے ہیں اس ہجرت کا مطلب یہی تو ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے ماں اور باپ اور بیوی اور بچوں اور خویش و اقارب سب کو چھوڑ دینا ،قوم اور وطن کا توذکر ہی کیا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب ہجرت کی تو جس کی رفیقۂ حیات اور محبوب بیوی نے کفر کو اسلام کے مقابلے میں ترجیح دی اور کفر کی حالت میں قوم او روطن کی سکونت کو اختیارکیا تو اس صحابیؓ نے عمر بھر کی رفیقۂ حیات کو طلاق دے دی اور بیوی بچوں اور مال ودولت اور گھر اور بار چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوئے اور مدینہ کا راستہ پکڑا رضی اللہ عنہم وحشرنا فی زمرتہم واماتنا علی حبہم وسیرتہم آمین یارب العالمین۔ اے میرے عزیزو!اے میرے دوستو!قومیت اور وطنیت ایک فتنہ ہے،بت پرستی کے بعد قوم پرستی اور وطن پرستی کا درجہ ہے۔اور کفردون کفراور شرک دون شرک اور ظلم دون ظلم کا مصداق ہے۔انما المومنون اخوۃ اور ان الکفرین کانوا لکم عدوا مبینا کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں کو اپنا بھائی اور روئے زمین کے کل کافروں کو اپنا ایک دشمن سمجھو۔‘‘
٭٭٭٭٭